تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ یُونس

(سورۃ یونس ۔ سورہ نمبر ۱۰ ۔ تعداد آیات ۱۰۹)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     الرٰ، یہ آیتیں ہیں حکمت سے لبریز اس کتاب کی

۲۔۔۔      کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص پر یہ وحی کر دی کہ تم خبردار کرو لوگوں کو (ان کے انجامِ بد سے) اور خوشخبری سنا دو ان (خوش نصیبوں) کو جو مشرف ہو جائیں (دولتِ) ایمان سے ، کہ ان کے لئے بڑا اونچا مرتبہ ہے ، ان کے رب کے یہاں  (تو کیا اسی بات پر) ان کافروں نے کہا کہ یہ شخص تو قطعی طور پر ایک کھلا جادوگر ہے ، ۳۔۔۔      بے شک رب تم سب کا (اے لوگو) وہی اللہ ہے جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں کے اندر، پھر وہ جلوہ فرما ہوا عرش پر، (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) وہی تدبیر فرماتا ہے ہر کام کی، (اس کے یہاں) کسی کو بھی سفارش کا یار انہیں ، مگر اس کے اذن کے بعد، یہی اللہ رب ہے تم سب کا، پس تم اسی کی بندگی کرو، تو کیا تم لوگ سبق نہیں لیتے ؟

۴۔۔۔      اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تم سب کو، اللہ کا اٹل وعدہ ہے ، بلاشبہ وہی ہے جو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے ، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ وہ بدلہ دے ان کو جو ایمان لائے ، اور انہوں نے (اس کے مطابق) کام بھی نیک کئے انصاف کے ساتھ، اور (اس کے مقابلے میں) جو لوگ اڑے رہے اپنے کفر (و باطل) پر، ان کے پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی ہو گا، اور ایک بڑا ہی دردناک عذاب، اس کفر کی پاداش میں جو کہ وہ کرتے رہے تھے ،

۵۔۔۔     وہ (اللہ) وہی ہے جس نے پیدا کیا سورج کو جگمگاتا، اور چاند کو چمکتا ہوا اور اس نے اس کی منزلیں مقرر کر دیں ، تاکہ تم لوگ معلوم کر سکو سالوں کی گنتی، اور حساب، اللہ (تعالیٰ) نے یہ سب کچھ نہیں پیدا فرمایا مگر حق کے ساتھ، وہ کھول کر بیان کرتا ہے اپنی نشانیوں کو ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں (حق اور حقیقت کا)

۶۔۔۔      بے شک رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں ، اور ان سب چیزوں میں جن کو پیدا فرمایا ہے اللہ نے آسمانوں اور زمین (کی اس عظیم الشان کائنات) میں ، بڑی بھاری نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ڈرتے ہیں ،

۷۔۔۔      بے شک جو لوگ امید نہیں رکھتے ہمارے یہاں پیشی (و حاضری) کی، اور وہ راضی ہو گئے دنیاوی زندگی سے ، اور مطمئن ہو گئے اس (کی عارضی لذتوں) سے ، اور جو غافل (و بے خبر) ہیں ہماری آیتوں سے

۸۔۔۔     ان سب کا ٹھکانا دوزخ ہے ان کی اپنی اس کمائی کے بدلے میں جو یہ لوگ کرتے رہے تھے

۹۔۔۔      (اس کے برعکس جو لوگ ایمان لائے اور (اس کے مطابق) انہوں نے نیک کام بھی کئے ، بے شک ان کا رب ان کو نوازے گا ہدایت (کے نور) سے ، ان کے ایمان (و یقین) کی بناء پر بہہ رہی ہوں گی ان کے نیچے سے طرح طرح کی نہریں ،  نعمتوں بھری جنتوں میں

۱۰۔۔۔     وہاں ان کی صدا ہو گی کہ پاک ہے تو اے اللہ، اور وہاں ان کی آپس کی دعا ہو گی سلامتی ہو، اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہو گا کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو پروردگار ہے سب جہانوں کا،

۱۱۔۔۔      اور اگر کہیں اللہ (پاک) لوگوں کو برائی پہنچانے میں بھی اسی طرح جلدی سے کام لیتا، جیسا کہ یہ لوگ اپنی بھلائی چاہنے میں جلدی مچاتے ہیں ، تو یقیناً ان کی مہلتِ عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی، پر ہم چھوٹ دیے جا رہے ہیں ان لوگوں کو جو امید نہیں رکھتے ہمارے یہاں پیشی (اور حاضری) کی، کہ وہ اپنی سرکشی میں (پڑے) بھٹکتے رہیں ،

۱۲۔۔۔      اور انسان (کی تنگ ظرفی اور ناشکری) کا عالم یہ ہے کہ جب چھو جاتی ہے اس کو کوئی تکلیف، تو یہ (رہ رہ کر) ہم کو پکارتا ہے ، لیٹے ، بیٹھے اور کھڑے ، (ہر حال میں) لیکن جب ہم دور کر دیتے ہیں ، اس سے تکلیف کو، تو یہ (اپنے غرور میں) ایسے چل دیتا ہے کہ گویا اس نے کبھی ہم کو پکارا ہی نہیں تھا، کسی ایسی تکلیف کے لئے جو اس کو پہنچی تھی، اسی طرح خوشنما بنا دیے جاتے ہیں حد سے بڑھنے والوں کے لئے ان کے وہ کرتوت جو وہ کر رہے ہوتے ہیں

۱۳۔۔۔      اور کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں تم سے پہلے ، جب کہ وہ لوگ اڑے رہے تھے اپنے ظلم پر، حالانکہ ان کے پاس آ چکے تھے ان کے رسول کھلے دلائل لے کر، مگر وہ (اپنے بغض و عناد کی وجہ سے) ایسے نہ تھے کہ ایمان لے آتے ، اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں مجرم لوگوں کو،

۱۴۔۔۔      پھر ہم نے تم کو (ان کا) جانشین بنایا اس زمین میں ان (کی ہلاکت) کے بعد، تاکہ ہم دیکھیں کہ تم لوگ کیسا عمل کرتے ہو،

۱۵۔۔۔     اور جب ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری (کھلی اور) صاف صاف آیتیں ، تو وہ لوگ جو امید نہیں رکھتے ہمارے حضور پیشی (اور ملاقات) کی، (بگڑ اور بپھر کر) کہتے ہیں کہ لے آؤ کوئی اور قرآن ان کے سوا، یا کچھ رد و بدل کر دو اس میں ، کہو مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ میں اس کو بدل دوں اپنی طرف سے ، میرا کام تو بس پیروی کرنا ہے اس وحی کی جو میری طرف بھیجی جاتی ہے ، میں تو سخت ڈرتا ہوں اگر میں نافرمانی کروں اپنے رب کی، ایک بڑے ہی ہولناک دن کے عذاب سے

۱۶۔۔۔     کہو کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ میں یہ قرآن تمہیں پڑھ کر سناتا اور نہ ہی اللہ تمہیں اس کی خبر تک کرتا آخر میں تو اس سے پہلے بھی ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں ، تو کیا تم لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے ؟

۱۷۔۔۔     سو اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے ، جو جھوٹ باندھے اللہ پر؟ یا جھٹلائے اس کی آیتوں کو؟ بے شک مجرم فلاح نہیں پا سکتے (کسی بھی قیمت پر)

۱۸۔۔۔      اور (اس سب کے باوجود) یہ لوگ پوجا کرتے ہیں اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی جو نہ ان کو کوئی نقصان پہنچا سکتی ہیں ، اور نہ کوئی نفع دے سکتی ہیں ، اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے یہاں ،  (ان سے) کہو کہ کیا تم لوگ اللہ کو ایسی خبر دیتے ہو، جس کو وہ نہیں جانتا نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ؟ پاک ہے وہ ذات اور بالا و برتر، اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ،

۱۹۔۔۔     اور لوگ سب کے سب (شروع میں) ایک ہی طریقے پر تھے (یعنی عقیدہ توحید پر) پھر وہ (مختلف اغراض و مقاصد کی بناء پر) اختلاف میں پڑ گئے ، اور اگر ایک بات طے نہ ہو چکی ہوتی تمہارے رب کی طرف سے تو یقیناً ان کے درمیان فیصلہ کر دیا گیا ہوتا ان تمام باتوں کا جن میں یہ اختلاف کر رہے ہیں

۲۰۔۔۔      اور کہتے ہیں کہ کیوں نہ اتاری گئی ان پر کوئی نشانی ان کے رب کی جانب سے ، تو کہو کہ غیب تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے ، پس تم لوگ انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں

۲۱۔۔۔     اور لوگوں (کی ناس پاسی و سرکشی) کا یہ عالم ہے کہ جب ہم ان کو چکھا دیں کوئی رحمت، کسی ایسی تکلیف (و مصیبت) کے بعد، جو ان کو پہنچ چکی ہوتی ہے تو یہ چھوٹتے ہی چالبازیاں کرنے لگتے ہیں ہماری آیتوں کے بارے میں ، کہو کہ اللہ کی چال اس سے کہیں زیادہ تیز (اور کارگر) ہے ، بے شک ہمارے فرشتے دیکھ رہے ہیں وہ سب مکاریاں جو تم لوگ کرتے ہو،

۲۲۔۔۔      وہ (اللہ) وہی تو ہے جو تم کو چلاتا (پھراتا) ہے خشکی میں کبھی، اور تری میں بھی، یہاں تک کہ جب تک تم لوگ بیٹھے ہوتے ہو کشتیوں میں ، اور وہ کشتیاں اپنی سواریوں (یعنی تم) کو لے کر بادِ موافق کے ذریعے رواں دواں ہوتی ہیں ، اور یہ لوگ ان (کی رفتار) سے شاداں و فرحاں ہوتے ہیں ، تو یکایک آ دبوچتا ہے ان کو ایک جھونکا زور دار ہوا کا، اور لگنے لگتے ہیں ان کو موجوں کے تھپیڑے ہر طرف سے ، اور ان کو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ پوری طرح گھر گئے ہیں ، تو اس وقت یہ پکارنے لگتے ہیں اللہ کو، خالص کر کے اس کے لئے اپنے دین کو کہ (مالک!) اگر تو نے ہم کو نجات دے دی اس بلا سے ، تو ہم یقیناً شکر گزار بن جائیں گے تیرے

۲۳۔۔۔     مگر جب اس نے نجات دے دی ان کو، تو یہ چھوٹتے ہی سرکشی کرنے لگتے ہیں زمین میں ناحق طور پر،  اے لوگو! سوائے اس کے نہیں کہ تمہاری اس سرکشی کا وبال خود تم ہی پر ہے ، دنیا کی زندگی کا یہ چند روزہ نفع تو تم اٹھا لو ، مگر آخرکار پھر تم سب کو لوٹ کر بہرحال ہمارے ہی پاس آنا ہے ، تب ہم تم کو بتا دیں گے وہ سب کچھ جو تم کرتے رہے تھے (اپنی زندگیوں میں)

۲۴۔۔۔      دنیاوی زندگی کی مثال تو بس ایسے ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اس کے ذریعے خوب گھنی (اور گنجان) ہو کر نکلی وہ پیداوار، جس سے انسان ہی کھاتے ہیں اور جانور بھی، (اور وہ پیداوار بڑھتی اور پھیلتی رہی) یہاں تک کہ جب پہنچ گئی وہ زمین اپنی بہار (اور جوبن) کو، اور خوب بن سنور گئیں ان کھیتیاں ، اور یقین کر لیا اس کے مالکوں نے کہ اب وہ قادر ہو گئے اس (سے فائدہ اٹھانے) پر، تو یکا یک آ پہنچا اس پر ہمارا حکم، رات یا دن کے کسی حصے میں تو ہم نے ان کا ایک طرف صفایا کر کے رکھ دیا کہ گو یا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں ، اسی طرح کھول کر بیان کرتے ہیں ہم اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں ،

۲۵۔۔۔      اور اللہ بلاتا ہے (لوگوں کو اپنے کرم بے پایاں سے) سلامتی کے گھر کی طرف،  اور وہ ہدایت (کے طور) سے نوازتا ہے جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف،

۲۶۔۔۔      جن لوگوں نے بھلائی کی، ان کے لئے بھلائی بھی ہے اور مزید (کرم و احسان) بھی، ان کے چہروں پر نہ کسی سیاہی کا کوئی اثر ہو گا، اور نہ ہی کسی ذلت کا کوئی سوال، یہی لوگ ہیں جنت والے جو ہمیشہ (ہمیش) اسی میں رہیں گے

۲۷۔۔۔      اور (اس کے برعکس) جن لوگوں نے برائیاں کمائیں ان کو برائی کا بدلہ اسی کے برابر ملے گا، اور چھا رہی ہو گی ان پر ایک (ہولناک) ذلت، ان کے لئے کوئی اللہ سے بچانے والا نہیں ہو گا (ان کی حالت یہ ہو گی کہ) گویا ڈھانک دیا گیا ان کے چہروں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ، یہ ہیں یار دوزخ کے ، جنہوں نے ہمیشہ رہنا ہو گا اس (ہولناک آگ) میں

۲۸۔۔۔     اور (یاد کروائیں ہولناک دن کو اے لوگو! کہ) جس دن ہم ان سب کو ایک ساتھ اکٹھا کر لائیں گے (اپنی عدالت میں) پھر ان لوگوں سے کہ جنہوں نے شریک کیا ہو گا ہم کہیں گے کہ اپنی جگہ پر ٹھہر جاؤ تم بھی، اور تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک بھی، پھر ہم جدائی ڈال دیں گے ان کے درمیان، اور ان کے وہ شرکاء (اس انتہائی مشکل وقت میں) ان سے کہیں گے کہ تم لوگ تو ہماری پوجا کرتے ہی نہیں تھے ،

۲۹۔۔۔      سو کافی ہے اللہ گواہی دینے کو ہمارے اور تمہارے درمیان، ہم قطعی طور پر غافل (و بے خبر) تھے تمہاری اس عبادت (و بندگی) سے ،

۳۰۔۔۔      اس موقع پر جانچ لے گا ہر کوئی اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے (کی قدرو قیمت) کو، لوٹا دیا گیا ہو گا ان سب کو اللہ کی طرف، جو کہ مالکِ حقیقی ہے ان سب کا، اور کھو چکا ہو گا ان سے وہ سب کچھ جو کہ یہ لوگ گھڑا کرتے تھے ،

۳۱۔۔۔     (ان سے) کہو کہ کون ہے وہ جو تمہیں روزی دیتا ہے آسمان سے اور زمین سے ؟ یا کون ہے وہ جو مالک ہے تمہارے کانوں اور تمہاری آنکھوں کا؟ اور کون ہے وہ جو زندہ کو نکالتا ہے مردہ سے اور مردہ کو نکالتا ہے زندہ سے ؟ اور کون ہے وہ جو تدبیر فرماتا ہے ہر معاملہ کی؟ تو اس سب کے جواب میں یہ لوگ کہیں گے کہ اللہ ہی (کرتا ہی یہ سب کام) تو کہو کہ کیا پھر بھی تم لوگ بچتے (اور ڈرتے) نہیں ہو؟ (اس کی نافرمانی سے)

۳۲۔۔۔     سو یہی اللہ ہے رب (اور مالک) حقیقی تم سب کا (اے لوگو) تو پھر کیا باقی رہ جاتا ہے اس حق کے بعد سوائے گمراہی کے ؟ پھر کہاں پھیرا (اور بھٹکایا) جاتا ہے تم لوگوں کو؟ (راہِ حق و صواب سے ؟)

۳۳۔۔۔      اسی طرح پکی ہو گئی آپ کے رب کی (قضا و قدر کی) یہ بات، کہ ان لوگوں نے ایمان نہیں لانا،

۳۴۔۔۔     (ان سے) پوچھو کہ کیا ہے کوئی تمہارے ان (خود ساختہ اور من گھڑت) شریکوں میں سے کوئی ایسا جو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہو؟ پھر وہ دوبارہ پیدا کرے ؟ کہو وہ اللہ ہی ہے جو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے ، پھر وہی دوبارہ پیدا فرمائے گا پھر کہاں (اور کیسے) اوندھے ہوئے جا رہے ہو تم لوگ؟

۳۵۔۔۔      کہو، کیا ہے کوئی ایسا تمہارے ان (خود ساختہ) شریکوں میں سے ، جو راہنمائی کر سکے حق (و صواب) کی طرف؟ کہو کہ اللہ ہی ہے جو راہنمائی فرماتا ہے حق (و صواب) کی طرف، تو کیا جو راہنمائی کرتے ہیں (و صواب) کی طرف، وہ زیادہ حقدار ہے اس بات کا کہ اس (کے حکم و ارشاد) کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود ہی راہ نہ پا سکے اِلا یہ کہ اسے راہ بتائی جائے آخر تمہیں کیا ہو گیا (اے منکرو!) تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟

۳۶۔۔۔      اور ان کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ پیروی نہیں کرتے مگر ظن (و گمان) کی، حالانکہ یہ قطعی بات ہے کہ ظن (و گمان) حق کی طرف سے کچھ بھی کام نہیں آ سکتے ، بے شک اللہ پوری طرح جانتا ان سب کاموں کو جو یہ لوگ کر رہے ہیں ،

۳۷۔۔۔     اور یہ قرآن کوئی ایسی کتاب نہیں جسے اللہ کی وحی کے بغیر یونہی گھڑ لیا جائے بلکہ یہ تصدیق ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے آ چکی ہیں ، اور یہ تفصیل ہے ان احکام کی جو تم پر لکھ دئیے گئے ہیں ، (تمہارے رب کی طرف سے) جس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں ، (اور یہ) پروردگارِ عالم کی طرف سے ہے ،

۳۸۔۔۔      کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اسے خود ہی تصنیف کر لیا ہے (تو ان سے) کہو کہ اچھا تو پھر تم لوگ اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا کر لے آؤ، اور بلا لو (اس غرض کے لئے) جس کو بھی تم بلا سکتے ہو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو (اپنے اس الزام میں)

۳۹۔۔۔     بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے جھٹلایا اس چیز کو جس کے علم کا یہ احاطہ نہ کر سکے ، اور جس کی حقیقت (اور آخری انجام) ابھی تک پہنچی نہیں ان لوگوں کے پاس اسی طرح جھٹلایا ان لوگوں نے (حق اور حقیقت کو) جو گزر چکے ہیں ان سے پہلے ، سو دیکھ لو کیسا ہوا انجام ایسے ظالموں کا،

۴۰۔۔۔      اور ان میں سے کچھ تو اس پر ایمان لے آئیں گے اور کچھ نہیں لائیں گے ، اور تمہارا رب خوب جانتا ہے فساد مچانے والوں کو،

۴۱۔۔۔      اور اگر یہ لوگ (ان دلائل کے بعد بھی) آپ کو جھٹلاتے ہی جائیں تو آپ ان سے (آخری بات کے طور پر) کہہ دیں کہ میرے لئے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل نہ تم میرے کسی عمل کے جواب دہ ہو اور نہ ہی میں تمہارے کسی عمل کا،

۴۲۔۔۔      اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو سنتے ہیں آپ کی طرف کان لگا کر، (مگر اپنی بدنیتی کی بناء پر وہ بہرے ہیں) تو کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں اگرچہ وہ کچھ سمجھتے بھی نہ ہوں ؟

۴۳۔۔۔      اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو دیکھتے ہیں آپ کی طرف (ٹکٹکی باندھ کر، اے پیغمبر! مگر اپنے خبث باطن کی بناء پر اوندھے ہیں) تو کیا آپ ایسے اندھوں کو راہ دکھا سکتے ہیں ، اگرچہ وہ (نور) بصیرت سے بھی محروم ہوں ؟

۴۴۔۔۔     بے شک اللہ لوگوں پر کوئی ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہیں کہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ،

۴۵۔۔۔      اور (آج تو یہ لوگ جلدی مچاتے ہیں پر) جس دن اللہ ان کو اکٹھا کر لائے گا (تو اس دن ان کو یوں محسوس ہو گا کہ) گویا کہ وہ نہیں ٹھہرے تھے (دنیا میں) مگر ایک گھڑی دن کی اور بس، یہ پہچانتے ہونگے آپس میں ایک دوسرے کو، (تب واضح ہو جائے گا کہ) بڑے ہی خسارے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے جھٹلایا اللہ کی ملاقات کو اور وہ راہ راست پر نہ تھے ،

۴۶۔۔۔      اور اگر ہم دکھا دیں آپ کو (اے پیغمبر!) کچھ حصہ اس عذاب کا جس سے ہم ان لوگوں کو ڈرا رہے ہیں ، یا اس سے پہلے ہی ہم اٹھا لیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تو (اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ) ان سب نے تو بہرحال لوٹ کر ہمارے ہی پاس آنا ہے ، پھر اللہ گواہ ہے ان تمام کاموں پر جو یہ لوگ کر رہے ہیں

۴۷۔۔۔      اور ہر امت کے لئے ایک پیغام رساں رہا ہے ، پھر جب ان کا وہ رسول آگیا (اور اس نے انکو اس کا پیغام پہنچا دیا اور انہوں نے نہ مانا) تو ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا گیا، پورے انصاف کے ساتھ، اور ایسوں پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا،

۴۸۔۔۔     اور کہتے ہیں کہ کب پوری ہو گی تمہاری یہ دھمکی اگر تم سچے ہو؟

۴۹۔۔۔      کہو (مجھے کیا خبر) میں تو خود اپنے لئے بھی اختیار نہیں رکھتا نہ کسی نقصان کا، اور نہ کسی نفع کا، مگر جو اللہ چاہے ،  امت کے لئے ایک وقت بہر حال مقرر ہے ، (پھر) جب آ پہنچتا ہے ان کا وقتِ مقرر، تو وہ نہ لمحہ بھر کے لئے پیچھے ہٹ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں ،

۵۰۔۔۔      (ان سے) کہو کہ تم لوگ اتنا تو سوچو کہ اگر (اچانک) ٹوٹ پڑے تم پر اس کا عذاب رات یا دن کے کسی بھی حصے میں ، تو (تم لوگ کیا کرو گے ؟) آخر اس میں وہ کون سی چیز ہے جس کی جلدی مچا رہے ہیں یہ مجرم؟

۵۱۔۔۔      تو کیا جب وہ آ پڑے گا تو اسی وقت تم اس کا یقین کرو گے (اس وقت تم سے کہا جائے گا کہ) اب ایمان لاتے ہو، حالانکہ اس سے پہلے تم لوگ اس کی جلدی مچایا کرتے تھے ؟

۵۲۔۔۔     پھر کہا جائے گا ان لوگوں سے جنہوں نے ظلم کیا ہو گا کہ اب چکھو تم عذاب ہمیشہ کا، تمہیں تو صرف انہی اعمال کا بدلہ دیا جا رہا ہے ، جو تم خود کما رہے تھے

۵۳۔۔۔     اور پوچھتے ہیں آپ سے کہ کیا واقعی یہ حق ہے ؟ تو کہو، ہاں قسم ہے میرے رب کی، یہ قطعی طور پر حق ہے ، اور تم عاجز کر دینے والے نہیں ہو،

۵۴۔۔۔     اور اگر اس شخص کے لئے جس نے ظلم کیا ہو گا (اس روز) روئے زمین کی دولت بھی ہو جائے تو وہ یقیناً اس سب کو اپنے بدلے میں دے ڈالے ، اور یہ لوگ رہ رہ کر چھپا رہے ہوں گے اپنی ندامت (و پشیمانی) کو، جب یہ دیکھیں گے اس (ہولناک) عذاب کو، اور فیصلہ چکا دیا جائے گا ان کے درمیان (پورے عدل و) انصاف کے ساتھ، اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہو گا،

۵۵۔۔۔      آگاہ رہو (اے لوگو!) کہ قطعی طور پر اللہ ہی کے لئے ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے ، یاد رکھو کہ اللہ کا وعدہ قطعی طور پر سچا ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ،

۵۶۔۔۔      وہی زندگی بخشتا ہے ، اور اسی کی (صفت و) شان ہے موت دینا، اور اسی کی طرف لوٹایا جائے گا تم سب کو،

۵۷۔۔۔     اے لوگو! بلاشبہ پہنچ چکی تمہارے پاس ایک عظیم الشان نصیحت تمہارے رب کی جانب سے ، اور شفاء دلوں کی بیماریوں کی، اور سراسر ہدایت اور عین رحمت، ایمان والوں کے لئے ،

۵۸۔۔۔      (ان سے) کہو کہ اللہ کے اس فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہونا چاہیے ان لوگوں کو، کہ یہ اس سے کہیں بہتر ہے جس کو یہ جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں ،

۵۹۔۔۔      (ان سے) پوچھو کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اللہ کے اتارے ہوئے رزق میں سے تم لوگ جواز خود کچھ کو حلال ٹھہراتے ہو، اور کچھ کو حرام، تو کیا تم لوگوں کو اللہ نے اس کی اجازت دی ہے یا تم یونہی اللہ پر جھوٹا افتراء باندھتے ہو؟

۶۰۔۔۔      اور کیا خیال ہے ان لوگوں کا قیامت کے بارے میں ، جو اللہ پر جھوٹ موٹ افتراء باندھتے ہیں ؟ بے شک اللہ بڑا ہی مہربان ہے لوگوں پر، لیکن لوگ ہیں کہ ان کی اکثریت شکر ادا نہیں کرتی،

۶۱۔۔۔     اور آپ جس حال میں بھی ہوں ، یا کچھ قرآن پڑھ رہے ہوں ، اور تم سب لوگ جو بھی کوئی کام کرتے ہو، جب تم اس میں مصروف ہوتے ہو، اس سب کے دوران ہم تمہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں ، اور تمہارے رب سے ذرہ برابر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، نہ زمین (کی تہوں) میں ، اور نہ آسمان (کی بلندیوں) میں ، اور نہ ہی اس سے کوئی چھوٹی چیز اور نہ بڑی، مگر (یہ سب کچھ ثبت ہے) ایک کھلی کتاب میں

۶۲۔۔۔     آگاہ رہو کہ اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہوتا ہے ، اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں ،

۶۳۔۔۔      وہ جو ایمان لائے اور وہ پرہیز گاری کو اپنائے رکھتے ہیں ،

۶۴۔۔۔     ان کے لئے خوشخبری ہے دنیاوی زندگی میں بھی، اور آخرت میں بھی، کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی، اللہ کی باتوں (اور اس کے وعدوں) میں ، یہی ہے بڑی کامیابی،

۶۵۔۔۔      اور غم میں نہ ڈالنے پائیں آپ کو (اے پیغمبر) ان لوگوں کی (یہ کفریہ) باتیں ، بے شک عزت (اور غلبہ) سب اللہ ہی کے لئے ہے ، وہی ہے سنتا (ہر کسی کی) جانتا (سب کچھ)

۶۶۔۔۔      آگاہ رہو کہ اللہ ہی کے لیے ہیں وہ سب جو کہ آسمانوں میں ہیں ، اور وہ سب بھی جو کہ زمین میں ہیں ، اور کاہے کی پیروی کر رہے ہیں وہ لوگ، جو پکارتے ہیں اللہ کے سوا (دوسرے خود ساختہ) شریکوں کو، یہ لوگ پیروی نہیں کرتے مگر ظن (و گمان) کی، اور یہ محض اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں ،

۶۷۔۔۔      وہ (اللہ) وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام و سکون حاصل کرو، اور دن بنایا روشنی بخشنے والا (تاکہ تم اس میں کام کر سکو)، بے شک اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو سنتے ہیں ،

۶۸۔۔۔      کہتے ہیں کہ اللہ نے اولاد بنا لی، پاک ہے اس کی ذات، وہ غنی (و بے نیاز) ہے ، اسی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے ، اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے ، کیا تم لوگوں کے پاس کوئی سند ہے اس بات کی؟ یا تم لوگ اللہ پر ایسی بات کہتے ہو جس (کی حقیقت اور سنگینی) کو تم جانتے نہیں ؟

۶۹۔۔۔     کہو کہ بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹے افتراء باندھتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پا سکیں گے

۷۰۔۔۔      دنیا میں کچھ مزے کر لیں ، پھر ان سب کو بہرحال ہمارے ہی پاس آنا ہے لوٹ کر اس وقت ہم انہیں چکھائیں گے مزہ سخت عذاب کا اس کفر کے بدلے میں جس کا ارتکاب یہ لوگ کرتے رہے تھے ف

۷۱۔۔۔     ٢ اور ذرا انہیں نوح کا (عبرتوں بھرا) حال بھی سنا دو، کہ جب انہوں نے (بڑے درد بھرے انداز میں) اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! اگر تمہیں میرا یہاں رہنا، اور اللہ کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کرنا بہت ناگوار ہو رہا ہے ، وہ (ہوا کرے کہ) میں نے تو بہرحال اللہ ہی پر بھروسہ کر رکھا ہے ،  پس تم سب مل کر میرے خلاف اپنی تدبیر پختہ کر لو، اور اپنے شریکوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لو، پھر تمہاری چالبازی تم پر پوشیدہ بھی نہ رہے ، پھر چلا لو تم لوگ میرے خلاف اپنا داؤ، اور مجھے کوئی مہلت بھی نہ دینا،

۷۲۔۔۔      پھر (یہ بھی دیکھو کہ) اگر تم نے منہ موڑے ہی رکھا تو (اس میں میرا کیا نقصان؟ کہ) میں نے تو تم سے کوئی اجر نہیں مانگا، میرا اجر تو بس اللہ ہی پر ہے ، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں بہر حال فرمانبرداروں سے رہوں ،

۷۳۔۔۔      پھر بھی وہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہی رہے ، آخرکار (عذاب آنے پر) ہم نے بچا لیا نوح کو بھی اور ان سب کو بھی جو آپ کے ساتھ تھے اس کشتی میں ، اور ان کو ہم نے جانشین بنا دیا، اور ہم نے غرق کر دیا ان سب کو جو جھٹلاتے رہے تھے ہماری آیتوں کو، پس دیکھ لو کہ کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جن کو خبردار کر دیا گیا تھا؟

۷۴۔۔۔      پھر نوح کے بعد ہم نے اور رسولوں کو بھی بھیجا ان کی قوموں کی طرف کھلے دلائل کے ساتھ، مگر جس چیز کو انہوں نے پہلے جھٹلا دیا تھا اسے انہوں نے مان کر نہ دیا اسی طرح ہم مہر لگا دیتے ہیں حد سے بڑھنے والوں کے دلوں پر،

۷۵۔۔۔     پھر ان کے بعد ہم نے بھیجا موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، اپنی نشانیوں کے ساتھ مگر انہوں نے اپنی بڑائی کے گھمنڈ سے کام لیا (پیغامِ حق کے مقابلے میں) اور وہ تھے ہی مجرم لوگ

۷۶۔۔۔     پھر جب پہنچ گیا ان کے پاس حق ہمارے یہاں سے ، تو انہوں نے (پوری ڈھٹائی سے) کہا کہ یہ تو یقینی طور پر ایک جادو ہے کھلم کھلا،

۷۷۔۔۔      موسیٰ نے (ان سے) کہا کہ کیا تم لوگ حق کے لئے ایسا کہتے ہو، جب کہ وہ پہنچ چکا تمہارے پاس؟ کیا جادو ایسا ہی ہوتا ہے ؟ اور جادوگر تو (اپنی جادو گری کے زور پر دعوائے نبوت کر کے) کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ،

۷۸۔۔۔      انہوں نے کہا کہ کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ پھیر دو ہمیں ان طور طریقوں سے جن پر پایا ہم نے اپنے باپ دادا کو؟ اور تم ہی دونوں کی بڑائی (اور سرداری) قائم ہو جائے اس سرزمین میں ، اور (سن لو کہ) ہم کبھی تمہاری بات ماننے والے نہیں ہیں

۷۹۔۔۔      اور فرعون نے حکم کر دیا کہ لے آؤ تم میرے پاس ہر بڑے ماہر جادوگر کو،

۸۰۔۔۔      پھر جب وہ سب جادوگر آ پہنچے تو (مقابلے کے وقت) موسیٰ نے ان سے کہا کہ ڈال دو جو کچھ کہ تمہیں ڈالنا ہے ،

۸۱۔۔۔     پس جب وہ ڈال چکے (جو کچھ کہ انہیں ڈالنا تھا) تو موسیٰ نے کہا کہ جو کچھ تم لائے ہو وہ جادو ہے ، یقیناً اللہ اسے ابھی درہم برہم کئے دیتا ہے ، بلاشبہ اللہ سدھرنے (اور سنورنے) نہیں دیتا فسادی لوگوں کے کام کو

۸۲۔۔۔      اور اللہ حق کو حق کر کے دکھاتا ہے اپنے فرامین (و ارشادات) کے ذریعے ، اگرچہ یہ برا لگے مجرموں کو

۸۳۔۔۔      پھر بھی موسیٰ پر کوئی ایمان نہ لایا بجز آپ کی قوم کے کچھ نوجوانوں کے فرعون اور خود اپنی قوم کے بڑے سرداروں (اور کھڑ پینچوں) کے ڈر سے کہ کہیں وہ انہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں ، اور واقعی فرعون اس ملک میں تھا بھی بڑا زور دار اور وہ یقینی (اور قطعی) طور پر حد سے نکل جانے والوں میں سے تھا،

۸۴۔۔۔      اور موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر تم لوگ (سچے دل سے) ایمان رکھتے ہو اللہ پر، تو اسی پر بھروسہ کرو اگر تم واقعی فرمانبردار ہو

۸۵۔۔۔      اس پر انہوں نے کہا کہ ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کر رکھا ہے ، اے ہمارے رب ہمیں فتنہ (اور ذریعہ آزمائش) نہ بنانا ظالم لوگوں کے لئے ،

۸۶۔۔۔     اور ہمیں نجات دے دے اپنی رحمت (و عنایت) سے ان کافر لوگوں (کے ظلم و ستم) سے

۸۷۔۔۔      اور ہم نے وحی بھیجی موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف، کہ اپنی قسم کے لئے مصر میں کچھ گھر بنا لو، اور اپنے گھروں کو مسجد قرار دے دو، اور نماز کی پابندی کرو، اور خوشخبری سنا دو ایمان والوں کو،

۸۸۔۔۔      اور موسیٰ نے (بڑے ہی دو بھرے انداز میں اپنے رب کے حضور) عرض کیا کہ اے ہمارے رب تو نے جو فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیاوی زندگی میں سامانِ زیب و زینت اور طرح طرح کے مال و دولت سے نوازا ہے ، (تو کیا یہ سب کچھ ان کو اسی لئے دیا ہے کہ) کہ تاکہ یہ لوگ بہکائیں (بھٹکائیں لوگوں کو) تیری راہ سے ؟ اے ہمارے رب، غارت کر دے ان کے مال (دولت) کو، اور ایسا سخت کر دے ان کے دلوں کو کہ یہ ایمان نہ لانے پائیں ، یہاں تک کہ یہ دیکھ لیں اس دردناک عذاب کو (جس کے یہ مستحق ہو چکے ہیں)

۸۹۔۔۔     جواب ملا کہ قبول کر لی گئی دعاء تم دونوں کی پس تم دونوں ثابت قدم رہنا اور پیروی نہیں کرنا ان لوگوں کے راستے کی جو علم نہیں رکھتے (حق اور حقیقت کا)

۹۰۔۔۔     اور پار کر دیا ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے ، پھر پیچھا کیا ان کا، فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زیادتی کی بناء پر، یہاں تک کہ جب آ پکڑا اس کو غرقابی نے تو وہ پکارا اٹھا کہ میں ایمان لے آیا اس حقیقت پر کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس کے ، جس پر ایمان لائے ہیں بنی اسرائیل، اور میں بھی فرمانبرداروں میں سے ہوں ،

۹۱۔۔۔      (جواب ملا کہ) تو اب ایمان لاتا ہے حالانکہ اس سے پہلے تو نافرمانی ہی پر کمر بستہ رہا، اور فساد برپا کرنے والوں ہی میں شامل رہا

۹۲۔۔۔      پس اب تو ہم تیری لاش ہی کو بچائیں گے ، تاکہ تو نشان عبرت بن جائے اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے ، اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہماری آیتوں سے بالکل غافل ہیں ،

۹۳۔۔۔     اور بلاشبہ ہم نے بنی اسرائیل کو بہت عمدہ ٹھکانا دیا اور انہیں طرح طرح کی پاکیزہ چیزیں عطا کیں ، پھر انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس پہنچ گیا علم (حق اور حقیقت کا) یقیناً تمہارا رب (قطعی اور عملی طور پر) فیصلہ فرما دے گا ان کے درمیان ان تمام باتوں کا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے رہے تھے ،

۹۴۔۔۔      سو اگر آپ کو کوئی شک (و شبہ) ہو اس (وحی و کتاب) کے بارے میں جس کو ہم نے اتارا ہے آپ کی طرف، تو آپ پوچھ لیں ان لوگوں سے جو کتاب پڑھتے ہیں آپ سے پہلے بلاشبہ آ چکا آپ کے پاس حق آپ کے رب کی طرف سے ، پس آپ کبھی شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا،

۹۵۔۔۔      اور نہ ہی ان لوگوں میں سے ہونا جنہوں نے جھٹلایا اللہ کی آیتوں کو، کہ اس کے نتیجے میں آپ ہو جائیں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ،

۹۶۔۔۔      بے شک جن لوگوں پر پکی ہو گئی بات آپ کے رب کی، وہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے

۹۷۔۔۔     اگرچہ ان کے پاس آ جائے ہر نشانی یہاں تک کہ وہ دیکھ لیں اس بڑے دردناک عذاب کو

۹۸۔۔۔      سو کیوں نہ ہوئی کوئی ایسی بستی جو ایمان لاتی پھر اس کو اس کا ایمان فائدہ دیتا، سوائے قوم یونس کے ، کہ جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ٹال دیا ان سے رسوائی کا عذاب دنیا کی زندگی میں ، اور ان کو فائدہ اٹھانے دیا متاع دنیا سے ایک خاص وقت تک

۹۹۔۔۔      اور اگر تمہارا رب چاہتا تو جتنے بھی لوگ روئے زمین پر آباد ہیں وہ سب کے سب ایمان لے آتے ایک ساتھ، تو کیا آپ مجبور کریں گے لوگوں کو کہ وہ مسلمان ہو جائیں ؟

۱۰۰۔۔۔     اور کسی شخص کے بس میں نہیں کہ وہ ایمان لے آئے مگر ان کے اذن سے ، اور اللہ ڈال دیتا ہے گندگی (کفر و شرک اور الحاد و بے دینی کی) ان لوگوں پر جو عقل سے کام نہیں لیتے

۱۰۱۔۔۔     ان سے کہو کہ ذرا دیکھو تم لوگ کہ کیا کچھ (سامانِ عبرت و بصیرت) ہے آسمانوں اور زمین میں ؟ مگر نشانیاں اور تنبیہات ان لوگوں کے کچھ کام نہیں آ سکتیں جو ایمان لانا چاہتے ہی نہیں ،

۱۰۲۔۔۔     تو کیا اب یہ لوگ ان لوگوں کے برے دنوں جیسے دنوں کی انتظار میں ہیں ؟ جو گزر چکے ان سے پہلے ؟ ان سے کہو کہ اچھا تو پھر تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں

۱۰۳۔۔۔      پھر (جب ایسا وقت آ جاتا ہے تو) ہم بچا لیتے ہیں اپنے رسولوں اور ان لوگوں کو جو ان پر ایمان لے آئے ہوتے ہیں اسی طرح ہمارے ذمے ہے ، کہ ہم بچا لیں ایمان والوں کو،

۱۰۴۔۔۔      کہو اے لوگو، اگر تمہیں کوئی شک (و شبہ) ہے میرے دین کے بارے میں تو (تم اچھی طرح سن لو کہ) میں کبھی بندگی نہیں کر سکتا ان کی جن کی بندگی تم لوگ کرتے ہو اللہ کے سوا، بلکہ میں تو بہر حال بندگی اس اللہ (وحدہٗ لاشریک) ہی کی کرتا رہوں گا جو تمہاری جان قبض کرتا ہے ، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں رہوں ایمان والوں میں سے

۱۰۵۔۔۔      اور (مجھے یہ بھی فرمایا گیا کہ) تم سیدھا رکھو اپنا رخ اس دین (حق) کے لئے یکسو ہو کر، اور کسی بھی طور مشرکوں میں سے نہ ہو جانا

۱۰۶۔۔۔      اور کبھی نہیں پکارنا اللہ کے سوا کسی ایسی ہستی کو جو نہ تمہیں کوئی نفع پہنچا سکے ، نہ نقصان، سو اگر تم نے ایسا کر لیا تو یقیناً تم ہو جاؤ گے ظالموں میں سے ،

۱۰۷۔۔۔     اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچانے پر آ جائے تو کوئی نہیں جو اسے ٹال سکے سوائے اس کے ، اور اگر وہ تم سے کوئی بھلائی کرنا چاہے تو کوئی نہیں جو روک سکتا ہو اس کے فضل کو وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے ، اپنے فضل (و کرم) سے اور وہی ہے بڑا بخشنے والا، نہایت مہربان

۱۰۸۔۔۔     (اعلانِ عام کے طور پر) کہہ دو کہ اے لوگو، بے شک آ چکا تمہارے پاس حق تمہارے رب کی جانب سے ، پس اب جو کوئی سیدھی راہ اختیار کرے گا تو وہ اپنے ہی لئے کرے گا، اور جو کوئی گمراہی کو اپنائے گا تو اس کی گمراہی کا وبال بھی خود اسی پر ہو گا، اور میں تم پر کوئی مختار کار نہیں ہوں ،

۱۰۹۔۔۔     اور پیروی کئے جاؤ تم اس (ہدایت وحی) کی جو بھیجی جاتی ہے آپ کی طرف، اور صبر ہی سے کام لیتے رہو، یہاں تک کہ فیصلہ فرما دے اللہ اور وہی ہے سب سے اچھا (اور صحیح) فیصلہ فرمانے والا ۔

تفسیر

۱۔۔۔           سو اس کی ہر بات حکمت کی آئینہ دار، اور عقل سلیم اور فطرت مستقیم کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور یہی اور صرف کتاب حکیم ہے جس سے سِرِّ کائنات اور اس کے مقصد تخلیق کی وضاحت ہوتی ہے۔ اور انسان کو اپنے آغاز و انجام، اور اپنے مقصد وجود اور زندگی کے نصب العین سے آگہی نصیب ہوتی ہے۔ ورنہ اندھیرے ہی اندھیرے ہیں والعیاذ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال

۲۔۔۔                    ۱: استفہام یہاں پر انکاری ہے۔ یعنی یہ بات تعجب اور انکار کی نہیں، بلکہ عین تقاضائے عقل و فطرت ہے، کہ لوگوں کی ہدایت و راہنمائی اور ان کی تعلیم و تلقین کے لئے خود انہی میں سے ایک شخص کو مبعوث فرمایا جائے جس کا ماضی اور حاضر ان کے سامنے ہو۔ اور جس کے اخلاق و کردار، اور نشیب و فراز، سے وہ خود واقف و آگاہ ہوں۔ اور وہ انہی کی زبان اور انہی کے لب و لہجہ، میں انکو سمجھائے۔ اور ان کو عالم غیب کے ان دیکھے حقائق سے آگہی بخشے۔ اور پھر ان کے سامنے وہ زندگی کے ہر گوشے سے متعلق اپنا عملی نمونہ پیش کرے، تاکہ یہ اس کی اتباع کر سکیں۔ اور پھر مزید یہ کہ وہ ان کو جو پیغام دے رہا ہے وہ بھی کوئی استعجاب یا انکار کی چیز نہیں، بلکہ ایک حقیقت اور اہم اور بنیادی حقیقت ہے کہ لوگوں کو ان کے اس مصیر موعود اور انجام محتوم سے آگاہ کیا جائے جس نے اپنے وقت مقرر پر بہرحال اور بہر صورت پیش آ کر رہنا ہے۔ اس سے کسی کے لئے بھی کسی طرح کے گریز و فرار کی کوئی صورت ممکن نہیں، اور جس سے غفلت و لاپرواہی سب سے بڑا اور انتہائی ہولناک خسارہ ہے۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا

۲: ایسا بڑا اور اسقدر اونچا مرتبہ جو حقیقی معنوں میں اونچا، بلند، اور لازوال سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اور جو اس کتاب حکیم پر ایمان لائے بغیر اور اس کی مقدس تعلیمات پر عمل کئے بِدُوں ممکن ہی نہیں۔ کہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ یہی اور صرف یہی کتاب حکیم ہے۔

۳:  سو اس سے اس کتاب حکیم کے منگروں اور محروموں کی شقاوت اور ان کی بدبختی، محرومی و ناشکری اور انکے کفرانِ نعمت کا ایک نمونہ اور مظہر سامنے آتا ہے کہ یہ لوگ اس کتاب حکیم پر ایمان لا کر دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کی راہ کو اپنانے کے بجائے، الٹا اس کے کفر و انکار کی راہ کو اپنا کر اپنے لئے دائمی ہلاکت و تباہی، اور نہایت ہی ہولناک خسارے کا سامان کر رہے ہیں، اور اس کی بے مثال تاثیر کا احساس و ادراک رکھنے کے باوجود، یہ اس کو اس کی حقانیت کی علامت و دلیل سمجھنے کے بجائے الٹا یہ اس کو جادوگری کا کرشمہ قرار دیتے ہیں۔ اور یہ مزید ظلم یہ کہ اس کو پیش کرنے والے پیغمبر کو کھلا ہوا جادوگر قرار دیتے ہیں، سو اس سے بڑھ کر محرومی اور بدبختی کی مثال اور کیا ہو سکتی ہے؟ والعیاذُ باللہ العظیم

۳۔۔۔          اور کائنات کی اس کھلی اور عظیم الشان کتاب میں غور و فکر سے کام نہیں لیتے؟ یعنی تم لوگوں کو ایسا کرنا چاہیے کہ کائنات کی اس کھلی کتاب میں صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لینے سے تمہارے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ جس چیز کی دعوت دنیا کو یہ قرآن دے رہا ہے۔ اور جس راہِ حق و ہدایت کی طرف یہ کتاب حکیم دنیا کو بلا رہی ہے، اس کی تائید و تصدیق اس پوری کائنات سے اور اس کی ایک ایک چیز سے ہو رہی ہے۔ کہ یہ کائنات اور اس کے اندر جو بھی کچھ ہے وہ اس سب خالق و مالک کا کام ہے۔ اور یہ کتاب حکیم اس وحدہٗ لاشریک کا کلام ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ لوگ سوچتے ہی نہیں۔ الا ماشاء اللہ

۴۔۔۔          ۱: سو اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ قیام قیامت کا اصل مقصد اہل ایمان کو ان کے بدلے اور جزاء سے نوازنا ہے۔ اہل کفر و باطل کو جو سزا ملے گی وہ اصل مقصد نہیں، بلکہ وہ اس کے لوازم و توابع میں سے ہے۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا۔

۲: سو اس سے اس جزا و سزا کو ذکر فرمایا گیا ہے جو اہل کفر و باطل کو آخرت کے اس جہان عدل و جزا میں ملے گی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو وہاں پر پینے کو کھولتا ہوا پانی ملے گا۔ اس نارِ کفر و باطل کے بدلے میں اور اس کی جزاء کے طور پر جس کو انہوں نے دنیا میں اپنا رکھا تھا۔ اور جو حق اور اہل حق کے خلاف ان کے قلوب و بواطن میں جلتی رہتی ہے، سو کشف حقائق اور ظہور نتائج کے اس جہاں میں کفر و باطل کی وہ آگ ان کے سامنے بے نقاب ہو جائے گی، جو دنیا کے دارالعمل اور دارالابتلاء میں ان کے قلوب و بواطن کی بھٹیوں میں حق اور اہل حق کے خلاف بھڑکتی رہتی تھی۔ اور وہاں پر انکو جو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا، وہ ایسا ہو گا کہ جب اس کو وہ اپنے مونہوں کے سامنے لے جائیں گے تو وہ ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا۔ جیسا کہ سورہ کہف میں ارشاد فرمایا گیا کہ اگر وہ پانی مانگیں گے تو ان کو تیل کی تلچھٹ کی طرح کا ایسا پانی دیا جائے گا جو بھون کر رکھ دے گا، ان کے چہروں کو بڑا ہی برا پانی ہو گا، وہ اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہو گا ان کا (الکہف۔ ۲٩) دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو ایسا کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ کر رکھ دے گا۔ (محمد۔۱۵) والعیاذُ باللہ العظیم

۶۔۔۔   اور وہ اپنے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ کہ ایسی نشانیوں سے مستفید و فیضیاب اسی طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ اور وہی مستفید و فیضیاب ہو سکتے ہیں۔ ورنہ یہ عظیم الشان نشانیاں سب کے لئے عام ہیں۔ سو دن رات کے اس ادلنے بدلنے میں، اور آسمانوں اور زمین کی اس عظیم الشان اور حکمتوں بھری کائنات میں پھیلی بکھری طرح طرح کی، اور گوناگوں مخلوق میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں، ایسی نشانیاں جو انسان کے قلب و باطن کو نورِ حق و ہدایت سے روشن و منور کرنے والی نشانیاں ہیں، جو دلالت کرتی ہیں حضرت خالق جَلَّ مَجْدہٗ کے وجود باجود پر، اور اس کی عظیم الشان قدرت و حکمت، اور اس کی بے پایاں رحمت و عنایت پر، اور جو نشانیاں ہیں اس کی وحدانیت و یکتائی اور اس کی حاکمیت مطلقہ کی، نیز وہ دلالت کرتی ہیں، اس حقیقت صادقہ پر کہ دن رات کے اختلاف مزاج کے باوجود ان کے اندر پایا جانے والا یہ پُر حکمت توافق اس بات کا کھلا اور واضح ثبوت ہے کہ اس کائنات میں ایک ہی رحمتوں بھرا ارادہ کار فرما ہے۔ جس کی رحمت و عنایت سے، دن انسان کی معیشت و معاش کے لئے عمل کا یہ عظیم الشان میدان گرم کرتا ہے، اور رات اس کے لئے راحت و سکون کا بستر بچھاتی ہے، سو اس طرح کائنات کی مختلف اشیاء میں تضاد و منافات کے باوجود حیرت انگیز توافق کا پایا جانا، اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اس پوری کائنات میں ایک ہی خدائے قادر و قیوم کی حکومت اور اسی کا ارادہ کار فرما ہے، وہی ہے اللہ وحدہٗ لاشریک، جو کہ حاکم حقیقی مالک مطلق اور معبودِ برحق ہے سبحانہ و تعالی۔

۹۔۔۔          سو ایسے خوش نصیبوں کو انکی دولت ایمان کی برکت سے اور اسی کے نتیجے میں حق و ہدایت کی وہ سیدھی راہ نصیب ہو گی جو ان کو دنیا میں پاکیزہ زندگی کی نعمت سے بہرہ ور کرے گی، اور آخرت میں نعمتوں بھری ان عظیم الشان جنتوں سے سرفراز کرے گی جن کے نیچے سے طرح طرح کی عظیم الشان نہریں بہہ رہی ہونگی، اور جہاں ان خوش نصیبوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا نصیب ہو گا، جَعَلْنَا اللّٰہُ مِنْہُمْ بمحض مَنَہ وکرَمِہٖ وہو ارحم الرحمین، سبحانہ و تعالیٰ

۱۱۔۔۔        اس ارشاد سے ان لوگوں کو جواب دیا گیا ہے، جو عذاب الٰہی کے لئے جلدی مچاتے تھے۔ اور وہ بار بار کہتے تھے کہ وہ عذاب ہم پر آتا کیوں نہیں، جس کی دھمکی تم ہمیں دے رہے ہو سو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا، اور اس بارہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور دستور کو واضح فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ رحمت کرنے میں تو جلدی کرنا ہے، لیکن وہ عذاب بھیجنے میں جلدی نہیں کرتا۔ اس نے یہ دنیا چونکہ اپنی رحمت ہی کے لئے بنائی، اور مخلوق کو اپنی رحمت سے نواز نے ہی کے لئے پیدا فرمایا ہے، اس لئے وہ لوگوں پر رحمت نازل بھی فرماتا ہے، اور لوگوں سے چاہتا بھی یہی ہے کہ وہ اس کی رحمت ہی کے مستحق بنیں، اور اس سے فیضیاب ہوں، اس لئے وہ عذاب بھیجنے کے بجائے ان کو مہلت اور ڈھیل دیتا ہے۔ تاکہ یہ ہوش کے ناخن لیں۔ اور اپنی روش کو تبدیل کر کے اس کی رحمت ہی کے مستحق بنیں، نہ کہ اس کے عذاب کے، تاکہ اس طرح وہ دنیا اور آخرت دونوں میں اس کی رحمت و عنایت اور اس کے فضل و کرم سے سرفراز و فیضیاب ہوں، سو اس سنت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں پر عذاب بھیجنے میں جلدی نہ کرے۔ جو اس کے آگے اکڑتے اور اس کے رسول کی تکذیب کرتے ہیں۔ ورنہ ایسے نا فرمانوں اور باغیوں پر اس کا عذاب بھیجنا اس کے لئے کوئی مشکل تھوڑا ہی ہے؟ اس کے لئے تو محض اس کے ایک ارادہ و ارشارہ کی ضرورت ہے اور بس، سبحانہ و تعالیٰ

۱۳۔۔۔        سو اس سے اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کی ایک اور سنت اور اس کے دستور کا حوالہ دیا گیا ہے کہ جو لوگ حدود الٰہی کی پابندی کے بجائے ان کو پھلانگتے اور ان سے تجاوز کرتے ہیں، اور وہ بد اعمالیاں کرتے جاتے ہیں۔ ان کے ان برے اعمال ہی کو ان کی نگاہوں میں مزین اور خوشنما بنا دیا جاتا ہے، جس سے وہ ان کو اچھا سمجھنے لگتے ہیں۔ اور وہ ان کو چھوڑنے کے بجائے الٹا اس میں مزید آگے بڑھنے اور الجھنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایسے لوگ اس آخری حد اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں جس کا مستحق انہوں نے اپنے آپ کو اپنے عمل و کردار کی بناء پر بنا لیتا ہوتا ہے۔ سو برے اعمال کو اچھا سمجھنا بڑے ہی ہولناک انجام کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اَفَمَنْ زُیِّنَ لَہ سُوْءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا الایۃ (فاطر۔ ٨) یعنی کیا اس شخص کی بدبختی کا کوئی ٹھکانا ہو سکتا ہے جس کے لئے اس کے بُرے عمل ہی کو خوشنما بنا دیا جائے جس سے وہ اس کو اچھا سمجھنے لگے؟ یعنی ایسے شخص کی بدبختی اور محرومی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ایسے میں وہ اس برائی کو کبھی چھوڑنے کے لئے تیار ہی نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ وہ محرومی ہی کی حالت میں اپنے آخری اور انتہائی ہولناک انجام سے دو چار ہو کر رہے گا، والعیاذُ باللہ العظیم،

۱۵۔۔۔        سو اس سے منکرین و مکذبین کی ذہنیت کا ایک اور نمونہ اور مظہر بھی سامنے آتا ہے، اور پیغمبر کے اصل مرتبہ و مقام کی تعیین و توضیح بھی، سو منکرین و مکذبین کی ذہنیت کا نمونہ یہ سامنے آتا ہے کہ بجائے اس کے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو قرآن حکیم کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا اہل بناتے انہوں نے الٹا یہ مطالبہ کیا کہ اس قرآن کے بجائے کوئی اور قرآن لے آؤ۔ یعنی ایسا قرآن جو ان کی خواہشات اور ان کی اہواء و اغراض کے مطابق ہو، یا اسی میں کچھ ایسی ترامیم کر لو جس سے یہ ہماری مرضی اور ہماری خواہشات کے مطابق ہو جائے۔ سو اصل مقصود حق کی اتباع اور پیروی نہیں، بلکہ اپنی خواہشات کی اتباع و پیروی ہے، البتہ اس پر لیبل دین کا لگا دیا جائے۔ تاکہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے۔ اور رحمان بھی راضی اور شیطان بھی خوش کہ ابلیسی پالیسی کو رواج دیا جا سکے، سو یہی مرض لوگوں کے اندر جب سے ابتک موجود ہے، چنانچہ آج بھی کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اسی شیطانی فکر کے مطابق، اور اسی کے زیر اثر، جوا، شراب، اور سود وغیرہ جیسی قطعی محرمات کے لئے دین حنیف کے اندر اسی طرح کی ترمیمات کے مطالبات کرتے ہیں۔ اور طرح طرح کے اسالیب و انداز میں کرتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا، اور دوسری طرف اس بارہ حضرت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اصل حیثیت اور مرتبہ و مقام کو بھی واضح فرما دیا گیا چنانچہ آپ کو حکم و ارشاد فرمایا گیا کہ آپ ان سے کہیں کہ مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ میں اللہ کی بھیجی ہوئی اس کتاب کو اپنی طرف سے تبدیل کروں۔ یہ کوئی میری اپنی تالیف کردہ کتاب تھوڑی ہی ہے کہ میں اس میں کسی طرح کی کوئی ترمیم کروں، میرا کام تو اس وحی کی پیروی کرنا ہے جو میری طرف میرے رب کی طرف سے بھیجی جاتی ہے اور بس، سو یہاں پر نفی و اثبات کے اسلوب حصر سے واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر کا اصل کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری ہوئی وحی کی پیروی کرنا ہے، اور بس، جیسا کہ دوسرے مختلف مقامات پر بھی اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ اور جب پیغمبر کی شان اور ان کا کام بھی وحی کی اتباع و پیروی ہی ہے تو پھر اور کون ہو سکتا ہے جو اس سے آگے بڑھ کر کوئی اقدام کرے؟ والعیاذُ باللہ جل وعلا

۱۷۔۔۔        یعنی تم لوگ اگر حق کو ماننے اور قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو تو تمہاری مرضی، لیکن یہ اہم اور بنیادی حقیقت بہرحال واضح رہنی چاہیے کہ مجرم لوگ کبھی فلاح نہیں پا سکتے، ان کو دنیا میں جتنی بھی ڈھیل اور مہلت ملے، انجام کار انہوں نے اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہے۔ اور بڑی ہی ہولناک شکل نہیں بھگتنا ہے۔ پس دنیا کی چند روزہ زندگی میں اگر ایسے لوگ عیش کر رہے ہیں، تو اس سے کسی کو دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیئے، کہ مجرموں کا مآل و انجام بہرحال برا اور بہت برا ہے۔ اور سب سے بڑا جرم جو کہ ایسے مجرموں کا ہے وہ انکار و تکذیب حق کا جرم ہے۔ کہ اسی سے آگے ایسے ہولناک جرائم جنم لیتے ہیں جو پورے نظام حیات کو تہ و بالا کر کے رکھ دیتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۱۸۔۔۔        ۱: یعنی حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کی توحید اور اس کی وحدانیت و یکتائی کے بارے میں عقل و نقل کے سب دلائل کے ذکر، اور ان کی پوری وضاحت کے باوجود، ایسے لوگ اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا طرح طرح کی ایسی چیزوں کی پوجا کرتے ہیں، جو نہ ان کو کوئی نفع پہچا سکیں نہ نقصان سو ایسے لوگ کہیں خود ساختہ اور من گھڑت بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ کہیں کسی زندہ یا مردہ انسان کی کہیں کسی بنی ٹھنی قبر کی، اور کہیں کسی فرضی اور وہمی سرکار کی۔ اور کہیں کسی درخت اور پتھر کی، وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ ان تمام من گھڑت معبودوں کے آگے سجدہ ہو رہے ہیں ان کے طواف کئے جا رہے ہیں۔ ان کے لئے نذریں مانی جاتی ہیں۔ نیازیں دی جاتی ہیں۔ چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ دیگیں مانی اور پکائی جاتی ہیں لنگر تقسیم کئے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ، کہ اس سے ہمارے کام بن جائیں گے، اور ہماری سب حاجتیں پوری ہو جائیں گی وغیرہ وغیرہ۔ سو ایسے تمام مشرکوں نے آخرکار اپنے شرک اور اپنی بت پرستی کے اس گھناؤنے، اور انتہائی ہولناک جرم کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہے والعیاذ باللہ العظیم

۲: دوسرا ترجمہ اس کا اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے کہ اللہ پاک ہے ان تمام شریکوں سے جو ان لوگوں نے اس کے لئے گھڑ رکھے ہیں، مآل و مدعا دونوں کا بہرحال ایک ہی ہے کہ اللہ ہر قسم کے شرک اور اس کے ہر شائبہ سے پاک اور اس سے اعلیٰ و بالا ہے، سو اس ارشاد سے مشرکوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑتے ہوئے ان سے فرمایا گیا کہ تم لوگ جو کہتے ہو کہ یہ لوگ معبود اور ہمارے سفارشی ہیں۔ تو کیا اس سے تم لوگ اللہ کو وہ کچھ بتانا چاہتے ہو جس کو وہ نہیں جانتا آسمانوں اور زمین کی اپنی پیدا کردہ اس کائنات میں؟ یعنی ایسا کوئی معبود اس کی اس کائنات میں سرے سے ہے ہی نہیں، کیونکہ اگر ایسی کوئی ہستی موجود ہوتی تو وہ ضرور اس کے علم میں ہوتی، کہ اس کی کائنات میں جو بھی کچھ ہے وہ بہرحال اور پوری طرح اس کے علم میں ہے، سو اس سے لازم کی نفی سے ملزوم کی نفی پر استدلال فرمایا گیا ہے۔ پس اس کا کوئی شریک نہ ہے نہ ہو سکتا ہے وہ ایسے ہر تصور اور اس کے جملہ شوائب سے پاک اور اعلیٰ و بالا ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۱۹۔۔۔        سو چونکہ اللہ تعالیٰ کے علم و مشیت میں یہ بات طے ہے کہ اختلافات کا آخری اور عملی فیصلہ قیامت کے روز ہی ہو گا۔ اس لئے ایسے لوگوں کو چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ ورنہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے درمیان اختلافات کا فیصلہ کبھی کا کر دیتا۔ مگر اس نے اپنی حکمت و مشیت کے مطابق دنیا کے اس دارالامتحان میں لوگوں کو ڈھیل دے رکھی ہے۔ پس اس سے ایسے لوگوں کو کبھی دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے جن کو ان کے کفر و بغاوت کے باوجود ڈھیل اور چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنے آخری انجام کو بہرحال پہنچ کر رہنا ہے، والعیاذ باللہ العظیم

۲۲۔۔۔        سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ عقیدہ توحید انسان کی فطرت میں پیوست ہے۔ اسی لئے سخت مصیبت اور مشکل کے موقع پر مشرک انسان بھی اپنے خود ساختہ اور من گھڑت خداؤں کو بھول کر ایک اللہ ہی کو پکار نے لگتا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب یہ لوگ کشتی اور بحری جہاز میں سوار ہو کر سمندر کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں تو جب ہوا موافق ہوتی ہے۔ اور کشتی سکون کے ساتھ رواں دوا ہوتی ہے، تو یہ لوگ مست اور مگن ہوتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ اب ان کی خوشی میں کوئی خلل انداز نہیں ہو سکتا، تو یکایک ان پر آ پہنچتا ہے کسی طوفانی ہوا کا کوئی جھونکا اور کشتی موجوں کے تھپڑوں سے ہچکولے کھانے لگتی ہے۔ اور یہ لوگ یوں سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کی کشتی اب ڈوبی کہ جب ڈوبی، تو اس وقت یہ خداوند قدوس ہی سے فریاد کرنے لگتے ہیں اور اس سے عہد کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں بچا نکالا اس طوفان سے، تو ہم یقیناً اور ضرور بالضرور تیرے شکر گزار اور فرمانبردار بندے بن کر رہیں گے، سو اس نازک موقع پر مشرکوں کا اپنے خود ساختہ اور من گھڑت معبودوں کو بھول کر ایک اللہ کو پکارنا اس بات کا ثبوت ہے کہ عقیدہ توحید ان کی فطرت میں پیوست اور جاگزین ہے۔ والحمدللہ جل وعلا

۲۳۔۔۔        ۱: سو اس سے مشرک اور گمراہ انسان کی عہد شکنی اور ناشکری کا ایک نمونہ و مظہر سامنے آتا ہے کہ جونہی اللہ تعالیٰ ان کو حفاظت سے نکال کر باہر لے آتا ہے تو یہ لوگ بگڑ اور بدل جاتے ہیں ناحق طور پر، اور اس طرح اکڑنے لگتے ہیں کہ گویا کہ خدا کی خدائی سے باہر ہو گئے۔ اور پھر اپنی خر مستی میں لگ جاتے ہیں۔ اور حسب سابق طرح طرح سے اپنے کفر و ناشکری کا اظہار کرنے سے۔ والعیاذ باللہ العظیم

۲:  سو اس ارشاد سے بگڑے ہوئے اور سرکش لوگوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تمہاری بغاوت اور سرکشی سے نہ اللہ کا کچھ بگڑے گا، نہ اس کے رسول کا۔ اور نہ ہی اس دین حق کا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے اتارا ہے، بلکہ اس سب کا وبال خود تم لوگوں کی اپنی ہی جانوں پر ہو گا، کہ اس سے تم لوگ نور حق و ہدایت سے مزید دور اور محروم ہوتے جاؤ گے، اور تمہاری بدبختی کی سیاہی مزید گہری اور پکی ہوتی جائے گی۔ اور تم لوگ اپنے تمرّد اور سرکشی کی بنا پر، راہ حق و ہدایت سے مزید محروم ہو کر ہلاکت و تباہی کی اس راہ پر گامزن ہو جاؤ گے کہ اس پر جتنے بھی قدم آگے بڑھاؤ گے۔ اتنے ہی تم خداوند قدوس کے فیصلہ کن عذاب کے قریب تر ہوتے جاؤ گے۔ اور دنیا کے جس سرو سامان پر تم لوگ ریجھے ہوئے ہو۔ وہ محض چند روزہ سامان عیش و عشرت ہے۔ اس سے چند روز کے لئے تم فائدہ اٹھا لو ۔ اس کے بعد آخرکار تم لوگوں کو ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، تب ہم تمہیں ان تمام کاموں کی خبر کر دیں گے جو تم اپنی زندگی میں کرتے رہے تھے۔ یعنی تم لوگوں کو اس کا بھگتان بھگتنا ہو گا۔ اس وقت نہ تمہارا مال و دولت تمہیں کچھ کام آ سکے گا، اور نہ ہی تمہیں تمہارے خود ساختہ اور من گھڑت سفارشی تم لوگوں کو ہم سے چھڑا اور بچا سکیں گے، وقت آنے پر سب کچھ ہوا ہو جائے گا۔ پس تم لوگ اپنے انجام کے بارے میں خودسوچ اور دیکھ لو۔قبل اس سے کہ عمر رواں کی یہ فرصت محدود تمہارے ہاتھوں سے نکل جائے۔ اور تم لوگوں کو ہمیشہ ہمیش کے خسارے میں مبتلا ہونا پڑے۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنا ہی بنائے رکھے۔ آمین ثم آمین یا ربَّ العالمین

۲۵۔۔۔        جس میں ہر طرح کی اور ہر اعتبار سے سلامتی ہی سلامتی ہو گی، نہ کسی طرح کا کوئی غم نہ افسوس، یعنی نہ ماضی کا کوئی غم، اور نہ مستقبل کا کوئی فکر و اندیشہ، اور جہاں ہر طرف سلامتی ہی سلامتی کی دلنواز صدائیں سننے کو ملیں گی، جبکہ دنیا کا یہ دارالغرور جس پر ابنائے دنیا ریجھے ہوئے اور مست و مغرور ہیں آلام و مصائب کا گھر ہے۔ اس کی ہر نعمت بھی طرح طرح کے مصائب و آلام کے کانٹوں میں الجھی اور گھری ہوئی ہے، سو دنیا کا یہ دارالمحن تو ہر وقت خداوند قدوس کی برق غضب کی زد میں ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے بندوں کو جس گھر کی دعوت دے رہا ہے۔ یعنی جنت وہ سراسر عافیت اور سلامتی ہی سلامتی کا گھر ہے۔ سو کس قدر محروم اور کتنے بدبخت ہیں وہ لوگ جو جنت کے اس دارالسلام کو بھول کر دنیا کے اسی دارالغرور ہی کو اپنا اصل مقصد اور نصب العین بنائے بیٹھے ہیں۔ والعیاذُ باللہ۔ فَاِیَّاہُ نسأل التوفیق لما یُحِبُّ ویرضیٰ، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال وَفِیْ کُلِّ لَحْطَۃٍ مِّنَ اللَّحظات فی ہذہ الحیاۃ۔

۲۶۔۔۔        اس سے اللہ تعالیٰ کے اس معاملے کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے جو وہ سلامتی اور کرامت کے اس گھر میں اپنے ان خوش نصیب بندوں سے فرمائے گا۔ جن کو اس سے سرفرازی نصیب ہو گی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے دنیا میں نیکی اور احسان کی روش کو اپنائے رکھا ہو گا۔ ان کو اللہ تعالیٰ اس کے بڑے عمدہ بدلے سے بھی نوازے گا۔ اور ان کو اپنے مزید فضل سے بھی بہر مند و سرفراز فرمائے گا جس کی تفصیل دوسری مختلف نصوص میں اس طرح واضح فرمائی گئی ہے کہ نیکی کا بدلہ کم سے کم دس گنا، سو گنا، سات سو گنا، اور اس سے بھی زیادہ عطا فرمایا جائے گا۔ ان خوش نصیبوں کے چہروں پر کسی طرح کی سیاہی کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ بلکہ اس کے برعکس ان کے چہرے اس روز روشن و منور ہشاش بشاس اور چمکتے دمکتے ہونگے جَعَلْنَا اَللّٰہ مِنْہُمْ بمحض مَنّہٖ وَکَرَمِہٖ، وَہُوَ اَکْرَمُ الاکرمین، وَاَرْحم الراحمین۔

۲۷۔۔۔        سو اس سے ان لوگوں کے انجام بد اور ان کی بدحالی کا نقشہ پیش فرمایا گیا ہے۔ جو اس دارالسلام سے محروم ہو کر نقمت اور عذاب کے گھر یعنی دوزخ سے دو چار ہوں گے۔ والعیاذُ باللہ، اور اس کے ساتھ ہی حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ نے اپنی رحمت و عنایت کے اس پہلو کو بھی ذکر و بیان فرما دیا ہے کہ نیکی کا بدلہ تو کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا۔ لیکن برائی کا بدلہ اسی کے برابر ہی دیا جائے گا۔ سو ایسے محروم لوگوں پر ذلت و رسوائی چھا رہی ہو گی۔ اور ان کے لئے کوئی اللہ سے بچانے والا نہیں ہو گا۔ ان کا حال یہ ہو گا کہ گویا کہ ان کے چہروں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانک دیا گیا ہے، اور ان کو ہمیشہ دوزخ ہی میں رہنا ہو گا۔ والعیاذُ باللہ

۲۹۔۔۔        سو اس سے مشرکوں کی ذلت و رسوائی کا ایک اور منظر پیش فرمایا گیا ہے، کہ حشر کے روز جب سب کو اکٹھا کر دیا جائے گا۔ اور پھر مشرکوں اور ان کے خود ساختہ اور من گھڑت شرکاء کے درمیان جدائی ڈال دی جائے گی، تو پھر ان کے وہی شرکاء جن کی مدد پر یہ لوگ تکیہ کئے ہوئے تھے۔ اور زندگی بھر انہی کی پوجا پاٹ میں لگے رہے تھے، اس موقع پر تو وہ انکی مدد تو درکنار الٹا وہ سرے سے ان کی عبادت ہی کے منکر ہو جائیں گے۔ اور ان سے صاف کہہ دیں گے کہ اللہ گواہ ہے کہ ہم تمہاری اس پوجا پاٹ سے قطعی طور پر غافل و بے خبر تھے۔ سو اس وقت ان بدبختوں کی مایوسی اور انکی ذلت و رسوائی کا اندازہ ہی کون کر سکتا ہے؟ والعیاذ باللہ، کاش کہ یہ لوگ آج دنیا میں سمجھ جاتے اور اس کے نتیجے میں ہمیشہ کی اس ہولناک رسوائی سے بچ جاتے۔

۳۰۔۔۔        طرح طرح کے ناموں، اور قسما قسم کے حیلوں حوالوں، اور من گھڑت فلسفوں سے، کہ یہ لوگ ہمارے سفارشی اور حاجت روا و مشکل کشا ہیں۔ یہ ہماری بگڑی بنا دیں گے۔ ہماری ان کے آگے اور ان کی اس کے آگے، یہ ہمارے وسیلے اور واسطے ہیں۔ ہم نے ان کا دامن تھام رکھا ہے۔ اس لئے ہمیں کسی کی کوئی پرواہ نہیں۔ سو کشف حقائق اور ظہور نتائج کے اس جہاں غیب میں ان کے یہ سب ڈھکوسلے ہَبَائً مَّنْثُوْرًا ہو جائیں گے، اور دھوکے کا سامان ثابت ہوں گے اور یہ اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا بدلہ اور پھل پانے کے لئے اپنے مالک حقیقی کے حضور اور اس کے سامنے یکہ و تنہا اور بے یار و مددگار کھڑے ہونگے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۳۱۔۔۔        یعنی جب تم لوگ اس اصل اور بنیادی حقیقت کو مانتے اور تسلیم کرتے ہو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت و حکمت کا نتیجہ و ثمرہ اور اسی کی رحمت و عنایت کے مختلف نمونے اور مظاہر ہیں۔ تو پھر تم اس کے لئے طرح طرح کے یہ شریک آخر کہاں سے، اور کس طرح گھڑتے اور ان کی پوجا پاٹ کرتے ہو؟ تمہاری عقلوں کو آخر کیا ہو گیا؟ اور تم لوگ آخر اپنے اس خالق و مالک کی گرفت و پکڑ سے ڈرتے اور اس سے بچنے کی فکر کیوں نہیں کرتے؟

۳۲۔۔۔        سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ وحدہٗ لاشریک کی معرفت کے حصول اور اس سے سرفرازی کا حقیقی اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کی تخلیق فرمودہ اس کائنات میں غور و فکر سے کام لیا جائے۔ کہ جس خالق و مالک نے اس حکمتوں بھری کائنات کو پیدا فرمایا، اور اس کو وجود بخشا، اور جو اس کو اس قدر پُر حکمت اور منظم طریقے سے چلا رہا ہے۔ جو سب کے لئے آسمان سے روزی نازل فرماتا ہے اور جو سمع و بصر کی سب قوتوں کا خالق و مالک ہے اور جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے اور جو ہر معاملے کی تدبیر فرماتا ہے۔ سو وہی ہے اللہ وحدہٗ لاشریک جو کہ معبود برحق ہے۔ اور کائنات کی یہ عظیم الشان اور کھلی کتاب اپنی زبان حال سے پکار پکار کر اس کی وحدانیت و یکتائی کی گواہی دے رہی ہے، سو وہی اللہ رب اور مالک حقیقی ہے تم سب لوگوں کا۔ اس کے سوا اور اس کے خلاف جو بھی کچھ ہے، وہ سب گمراہی اور باطل ہے۔ خواہ وہ کسی بھی نام سے اور کسی بھی شکل میں ہو۔ تو پھر تم لوگوں کو اے علمبرداران کفر و شرک کو آخر کہاں اور کس طرح پھیرا جا رہا ہے۔ اور تمہاری مت آخر کیوں اور کس طرح ماری جا رہی ہے؟ کہ تم اس سب کے باوجود طرح طرح کے کفر و شرک کا ارتکاب کرتے ہو؟

۳۵۔۔۔        ۱: سو اس سے حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کی اس سنت کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ دولت حق و ہدایت سے سرفرازی انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صدق و اخلاص کے ساتھ اس کی طلب رکھتے ہیں۔ اور اس کے لئے وہ قدرت کے بخشے ہوئے قوائے فکر و ادراک سے صحیح طور پر فائدہ اٹھاتے ہیں، سو ایسے خوش نصیب ہی اس دولت سے مستفید و فیضیاب ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس جو لوگ عقل و فطرت کے تقاضوں کو ٹھکرا کر خواہشات نفس ہی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ اور انہی کے تقاضوں کی تکمیل کو زندگی کا اصل مقصد اور حقیقی نصیب العین بنا لیتے ہیں وہ حق اور ہدایت کی دولت سے محروم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اور ان کے سوء اختیار، اور خبث باطن کی بناء پر ان کی اپنی اختیار کردہ ضلالت و گمراہی کو ان پر مسلط کر دیا جاتا ہے جس سے ایسے لوگ ایمان لانے کی استعداد و صلاحیت ہی کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ حق کو سمجھنے ہی سے قاصر ہو جاتے ہیں، اور دولت حق و ہدایت سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاتے ہیں۔ سو اسی حقیقت کے اظہار و بیان کے لئے یہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ تمہارے رب کی بات ایسے بدکاروں پر پکی ہوئی کہ انہوں نے اب بہرحال ایمان نہیں لانا۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۲:  یعنی مخلوق کی اپنے خالق اور اپنے معبود سے سب سے بڑی ضرورت یہی وابستہ ہوتی ہے کہ وہ ان کو راہ حق و ہدایت کی راہنمائی کرے۔ کہ حق کیا ہے اور باطل کیا؟ صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟ نجات کی راہ کونسی ہے۔ اور ہلاکت کی راہ کونسی؟ اب تم لوگ بتاؤ۔ اے مشرکو! کہ کیا تمہیں اپنے ان خود ساختہ اور من گھڑت معبودوں سے اس طرح کی کوئی راہنمائی ملتی ہے یا مل سکتی ہے؟ اور اگر ان سے ایسی کوئی ہدایت اور راہنمائی تم لوگوں کو نہیں ملتی، اور نہیں مل سکتی، جیسا کہ ظاہر و واضح ہے، تو پھر تم ان کے پیچھے آخر کیوں لگے ہوئے ہو؟ اور ان کو اپنا معبود آخر کیوں مانتے ہو؟ تمہاری عقلوں کو آخر کیا ہو گیا اور تم کس طرح کے فیصلے کرتے ہو؟

۳۶۔۔۔        یعنی اکثر لوگ ایسے ہیں کہ علم حق و ہدایت کی کوئی روشنی ان کے پاس نہیں ہوتی وہ محض ظن و گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور یہ حقیقت اپنی جگہ ایک واضح اور طے شدہ ہے کہ ظن و گمان کی پیروی حق کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہیں آ سکتی، پس ظن و گمان کی پیروی کرنے والے بڑے دھوکے میں مبتلا اور سخت خسارے کے شکار ہیں۔ ابھی تو یہ ظن و تخمین اور خیال و گمان کے پیچھے چلتے ہیں۔ لیکن کل جب حقیقت کھلے گی۔ تو ان کو پتہ چل جائے گا، اور اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے اپنی عمارت ریت پر کھڑی کر رکھی تھی، اور وہ سراسر دھوکے کا سامان تھا تب یہ رہ رہ کر افسوس کریں گے۔ مگر بے وقت کے اس افسوس کا ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہو گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۳۹۔۔۔        یعنی تم لوگ اگر اس کتاب حکیم کو پیغمبر کی من گھڑت اور خود ساختہ کتاب سمجھتے ہو۔ اور یہ الزام لگاتے ہو کہ انہوں نے اس کو از خود تصنیف کر کے خدا کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ تو پھر اس کا جواب اور توڑ تو بہت آسان ہے کہ تم اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر لے آؤ۔ اور اس کے لئے تم لوگ اپنے شاعروں، ادیبوں، ساحروں خطیبوں کاہنوں نجومیوں اور تمام جنوں اور شیطانوں کو بلا لاؤ۔ اور اپنے ان خود ساختہ معبودوں اور حاجت رواؤں و مشکل کشاؤں کو بھی بلا لاؤ جن کو تم خدا کا شریک سمجھتے ہو، اور پھر سب مل کر زور لگاؤ۔ اور اس کتاب حکیم کی ایک چھوٹی سی سورت جیسی کوئی سورت ہی بنا لاؤ۔ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ محمد اس کو خود بنا کر لائے ہیں، اور اگر تم سب لوگ مل کر اور پورا زور لگا کر اس کی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی نہیں بنا سکتے۔ اور اس کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ جبکہ اس نبی امی نے اس پوری کتاب کو دنیا کے سامنے پیش فرما دیا جس نے کبھی کسی انسان سے ایک حرف بھی نہیں پڑھا۔ اور اس پوری کتاب کو انہوں نے تن تنہا پیش فرما دیا، تو پھر اس سے بڑھ کر اس کی صداقت و حقانیت کا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے؟ اور اس کے باوجود تم لوگ اگر اس کتاب حکیم کے سامنے سر تسلیم نہیں کرتے، اور اس پر ایمان لانے کی بجائے تم اس کی تکذیب کرتے ہو تو تم سے بڑھ کر ظالم ہٹ دھرم بے انصاف اور بدبخت اور کون ہو سکتا ہے؟ سو منکرین و مخالفین کے لئے یہ تحدی اور چیلنج قرآن حکیم کی صداقت و حقانیت کا ایک ایسا واضح، منفرد، مسکت اور بے مثال ثبوت ہے۔ جو اس کتاب حکیم کے سوا دنیا کی اور کسی بھی کتاب کو نہ آج تک کبھی نصیب ہوا ہے اور نہ قیامت تک کبھی نصیب ہونا ممکن ہے نہ کسی انسانی کتاب کو، اور نہ کسی الہامی اور آسمانی کتاب کو، سوائے قرآن حکیم کے، سو یہ اس کتاب حکیم کا ایک منفراد اور بے مثال معجزہ ہے، والحمدللہ جل وعلا،

۴۲۔۔۔        استفہام یہاں پر ظاہر ہے کہ انکاری ہے، یعنی ایسے نہیں ہو سکتا، کیونکہ بہروں کو سنانا کسی کے بس میں نہیں ہو سکتا۔ سو اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہٹ دھرم لوگ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنے قوائے علم و ادراک کو ضائع کر کے اندھے بہرے بن جاتے ہیں، جس سے وہ حق کو سننے سمجھنے کی اہلیت اور صلاحیت ہی سے محروم ہو جاتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے سُوئے اختیار کے نتیجے میں ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۴۳۔۔۔        یعنی ایک اندھا تو وہ ہوتا ہے جس کی ظاہری آنکھیں اگرچہ بندھ ہوتی ہیں لیکن اس کے دل کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں، جس سے وہ دل کی آنکھوں سے دیکھ کر صحیح راستے کو اپنا لیتا ہے۔ لیکن جس کی دل کی آنکھیں بھی اندھی ہو جائیں، تو پھر اس کے لئے نورِ حق و ہدایت سے سرفرازی آخر کیسے اور کیونکہ ممکن ہو سکتی ہے؟ سو دلوں کا اندھاپا ہی محرومیوں کی محرومی ہے۔ کیونکہ ظاہری آنکھوں کا نور بھی دراصل دل کے راستے ہی سے آتا ہے۔ ورنہ دل کے اندھاپے کے نتیجے میں ظاہری آنکھوں کا نور بھی بجھ کر رہ جاتا ہے۔ سو اصل اندھاپا جو کہ انسان کو ہر خیر سے محروم کر دیتا ہے، وہ بصارت کا نہیں بصیرت کا اندھاپا ہے، اسی لئے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا فَاِنَّہَا لَا تَعْمُی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمُی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ یعنی ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں۔ بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے، اور محض اپنے فضل و کرم سے بصیرت اور بصارت دونوں کا نور ہمیشہ محفوظ اور بحال رکھے۔ آمین ثم آمین یا ربَّ العالمین

۴۴۔۔۔        سو راہ حق سے منہ موڑنے والے اور دعوتِ حق کو جھٹلانے والے۔ والعیاذُ باللہ، اس طرح کر کے حق اور دعوتِ حق کا کچھ نہیں بگاڑتے، بلکہ خود اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، کہ حق سے محرومی دراصل دنیا و آخرت کی ہر خیر سے محرومی ہے والعیاذ باللہ سو اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو اپنے فضل و کرم سے بہترین صلاحیتوں سے نوازا ہے اور ایسا اور اس طور پر کہ انسان اگر ان سے صحیح طریقے سے کام لے تو اس کو حضرات انبیاء ورسل کی بات اور ان کی دعوت اپنے دل کی آواز وپکار معلوم ہو۔ لیکن جو لوگ اپنی خواہشات کی پیروی میں اندھے اور بہرے بن جاتے ہیں، ان کو حق کی یہ آواز اجنبی لگنے لگتی ہے۔ اور وہ اس کو قبول کرنے کے بجائے الٹا اس سے بدکنے لگتے ہیں، اور اس کا انکار کر کے وہ محرومی اور خسارے کی راہ کو اپناتے اور خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۴۵۔۔۔        سو اس سے منکرین قیامت کے حشر کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ آج تو ان لوگوں کو قیامت اور آخرت بہت دُور کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے یہ اس سے متعلق دعوت و ہدایت پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ لیکن جس دن ان کو وہاں پر اکٹھا کیا جائے گا تو اس دن ان کا احساس اس دنیاوی زندگی کے بارے میں یہ ہو گا کہ گویا کہ وہ اس میں ایک گھڑی بھر رہے تھے اور بس، یہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے، اور اس طور پر کہ گویا کہ ان کی یہ باہمی ملاقات صبح شام کا قصہ ہے۔ ہر بات ان کے ذہنوں میں اس طرح تازہ ہو گی کہ گویا کہ اس پر کوئی زمانہ گزرا ہی نہیں، مطلب یہ کہ اصل چیز وہ احساس ہے جو آخرت میں ان کو اس دنیاوی سے متعلق لاحق ہو گا، سو ایسے میں یہ کس قدر محرومی اور نامرادی ہے کہ انسان اس دنیائے فانی کی محدود زندگی کو اصل اور سب کچھ سمجھنے لگے، اور اس کو طویل سمجھ کر آخرت کی اس حقیقی اور ابدی زندگی اور اس کے تقاضوں سے غافل اور لاپرواہ ہو جائے۔ اور بے فکری اور لاپرواہی سے کہنے لگے کہ وہ آتی کیوں نہیں؟ وغیرہ وغیرہ والعیاذُ باللہ، جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ

۴۹۔۔۔        کہ مشیت تو بہرحال اللہ تعالیٰ ہی کی مشیئت ہے، جو سب پر حاوی ہے، اس کی اس کائنات میں ہوتا وہی کچھ ہے جو اس کو منظور ہوتا ہے۔ اور میں جب اپنے لئے بھی نہ کسی نفع کا اختیار رکھتا ہوں، اور نہ کسی نقصان و عذاب کا، تو پھر کوئی عذاب لانے کا کیا سوال؟ میرا کام تو صرف انذار ہے۔ یعنی تم لوگوں کو اس عذاب سے خبردار کر دینا جو تمہارے کفر و انکار کے نتیجے اور اس کی پاداش میں تم لوگوں پر پہنچ کر رہے گا۔ تاکہ تم لوگ بچ سکو انتہائی ہولناک عذاب سے، قبل اس سے کہ تم اس کی گرفت میں آ کر ہمیشہ کے عذاب اور دائمی خسارے میں مبتلا ہو جاؤ۔ والعیاذُ باللہ، یہاں سے اس امر کی تصریح فرما دی گئی کہ پیغمبر مختارِ کل نہیں ہوتے جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے، کیونکہ یہاں پر پیغمبر کو صاف اور صریح طور پر اس امر کی ہدایت اور تعلیم و تلقین فرمائی جا رہی ہے کہ آپ ان لوگوں سے کہو کہ میں خود اپنے لئے بھی کسی نفع یا نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ یعنی ہوتا وہی ہے جو اس وحدہٗ لاشریک کو منظور ہوتا ہے کہ اس کی مشیت سب پر حاوی اور سب پر غالب ہے اور معاملہ سب کا سب بہرحال اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے سبحانہ و تعالیٰ۔

۵۱۔۔۔        سو اس سے عذاب کے لئے جلدی مچانے والوں کے قلوب و ضمائر پر دستک دی گئی ہے کہ اللہ کا عذاب تو کسی بھی وقت اور کسی بھی طور پر آ سکتا ہے، خواہ وہ رات کی تاریکی اور اس کے سناٹے میں یکایک ٹوٹ پڑے، یا دن کے اُجالے اور اس کی بھرپور روشنی میں ڈنکے کی چوٹ آ دھمکے، جیسا کہ ہمیشہ اور بالفعل ہوتا بھی رہتا ہے۔ مختلف زلزلوں، سیلابوں، طوفانوں، آتش فشانوں، اور دوسرے طرح طرح کے حوادث کے ذریعے جس کے نتیجے میں منٹوں سیکنڈوں کے اندر کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے۔ اور آئے دن کے اس کے مختلف اور طرح طرح کے نمونے یہاں اور وہاں جگہ جگہ پیش آتے رہتے ہیں، لیکن غفلت کا مارا انسان ہے کہ وہ اس کے باوجود نہ آنکھ کھولتا ہے۔ اور نہ کوئی درس لینے کو تیار ہوتا ہے۔ تم لوگ اے مجرمو! آخر کس بنیاد پر اس طنطنے کے ساتھ اس کا مطالبہ کر رہے ہو؟ اور جب وہ آ جائے تو تم نے اس کے دفاع اور مقابلے کے لئے آخر کیا سامان کر رکھا ہے؟ اور آخر اس میں تمہارے لئے خوشی اور مسرت کا کیا مقام و سامان ہو سکتا ہے؟

۵۳۔۔۔        سو منکرین کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا واقعی روز قیامت کا بپا ہونا حق ہے؟ ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ ہاں قسم ہے میرے رب کی وہ قطعی طور پر حق ہے، اور تم ایسے نہیں ہو کہ عاجز کر دو۔ سو اس سے پیغمبر کے ایمان و یقین اور اس کی عظمت شان کا ایک امتیازی پہلو بھی واضح ہو جاتا ہے، کہ ان کا ایمان و یقین حد درجہ قطعی اور یقینی ہوتا ہے، اور ایسا کہ جیسا کہ ایک آنکھوں دیکھی حقیقت ہوتی ہے۔ اسی لئے دوسرے مقام پر اس بارہ ارشاد فرمایا گیا اَفَتُمٰرُوْنَہ عَلیٰ مَا یَریٰ یعنی کیا تم لوگ ان سے اس چیز کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو جس کو انہوں نے خود دیکھا؟ یعنی ایک آنکھوں دیکھی حقیقت کے بارے میں محض قیاسات اور عقلی و منطقی صغروں کبروں پر مبنی، اور فرضی اور من گھڑت ڈھکوسلوں کی بناء پر جھگڑنا اور الجھنا آخر کس طرح روا ہو سکتا ہے؟ سو یہیں سے پیغمبر اور فلسفی کے درمیان فرض واضح ہو جاتا ہے کہ فلسفی کا سارا معاملہ محض قیاسات پر مبنی ہوتا ہے، اور اس کا اعتقاد اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا، کہ ایسا ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے، اور بس، جبکہ پیغمبر کا ارشاد دو اور دو چار کی طرح قطعی اور یقینی ہوتا ہے۔ اور وہ قسم کھا کر کہہ رہ سکتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قطعی طور پر حق اور صدق ہے۔

۵۵۔۔۔        سو اس سے مسئلہ توحید کی مزید تاکید فرمائی گئی ہے اور اَلاَ کے حرفِ تنبیہ کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ کان کھول کر سن لو کہ آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات میں جو بھی کچھ ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے کہ اس سب کا خالق و مالک بھی وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور اس میں حکم و تصرف بھی اسی کا چلتا ہے۔ اس کا ہر وعدہ قطعی اور اس کی ہر وعید شدنی ہے۔ لیکن مشکل اور مشکلوں کی مشکل یہ ہے کہ اکثر لوگ جانتے نہیں، وہ حق اور حقیقت کے علم سے بے بہرہ اور محروم ہیں، اس لئے وہ دین کے تقاضوں سے بے خبر و لاپرواہ اور اندھیروں میں پڑے بھٹک رہے ہیں والعیاذُ باللہ العظیم بکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال

۵۷۔۔۔        سو اس آیت کریمہ میں قرآن حکیم کی عظمت شان کے بیان کے سلسلہ میں اس کی چار صفات کو ذکر فرمایا گیا ہے، اول یہ کہ یہ ایک عظیم الشان اور بے مثال نصیحت ہے، جو تمہارے رب کی طرف سے ہے، اس لئے اس جیسی دوسری کوئی نصیحت نہ ہوتی ہے نہ ہو سکتی ہے، اور یہ نصیحت ایسی ہے جو تم لوگوں کے لئے دارین کی سعادت کی ضامن و کفیل ہے، اور دوسری صفت اس کی یہ بیان فرمائی گئی کہ یہ سینوں کی بیماریوں کے لئے شفاء ہے۔ یعنی دل کی ان معنوی اور روحانی بیماریوں کے لئے جن کے سبب سے انسان تمام انسانی اوصاف کھو کر مختوم القلب بن جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ حیوان بلکہ تمام حیوانات سے گر کر اور بدترین حیوان بن کر رہ جاتا ہے سو ایسی تمام مہلک اور خطرناک بیماریوں کا علاج اس کتاب حکیم میں ہے اور ایسا علاج جو کہ اس مصدرِ فیض کے سوا اور کہیں سے ملنا ممکن ہی نہیں، اور تیسری صفت اس کی یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ یہ سراسر ہدایت ہے، سو یہ انسان کو اس راہِ حق و ہدایت سے سرفراز کرتی ہے جو اس کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ ور کرتی ہے، اور چوتھی صفت اس کی یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ یہ سراسر رحمت ہے۔ اسی سلسلے میں یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ ہدایت اور رحمت کی یہ دونوں صفتیں آغاز و انجام کے دونوں پہلوؤں پر حاوی ہیں، سو یہ کتاب حکیم اس دنیا میں لوگوں کو اس راہ حق و صواب کی ہدایت و رہنمائی کرتی ہے جو انسانوں کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی واحد راہ ہے۔ پس جو لوگ صدق دل سے اس کی ہدایت کو اپنائیں گے ان کو یہ آخرت کی اس ابدی رحمت سے بھی سرفراز کرے گی جس کی نہ کوئی حد و انتہاء ہے، اور نہ اس کی عظمتوں کا کوئی کنارہ، وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید بکل حال من الاحوال۔ سو اس کے ذریعے انسان کو اس دنیا میں بھی عظیم الشان رحمت سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے اور اس کے بعد آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں اس ابدی اور کامل رحمت سے سرفرازی نصیب ہو گی جس کی کوئی حد و انتہا نہیں لیکن ان تمام خزانوں سے بہرہ مندی اور سرفرازی ان ہی کو نصیب ہو گی جو اس کتاب حکیم پر صدق دل سے ایمان رکھیں گے سو ایمان کی دولت سرفرازی دارین کے لئے شاہ کلید، اور اوّلین اساس و بنیاد ہے،

۶۰۔۔۔        یعنی ان لوگوں کے یہ جرائم اس قدر سنگین ہیں اور ان کے گھناؤنے پن کا تقاضا ہے کہ ان لوگوں کا قصہ فوری ہی تمام کر دیا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ بڑے ہی فضل والا، اور اپنے بندوں پر نہایت ہی مہربان ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ اس لئے اس نے ان کو اس سب کے باوجود اس قدر ڈھیل دے رکھی ہے، تاکہ یہ اپنی اصلاح کر لیں۔ اور اپنے ہولناک انجام سے بچ جائیں۔ مگر یہ لوگ ہیں کہ الٹا اپنی شرارت اور شر انگیزی ہی میں بڑھے جا رہے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ زیغ و ضلال کی ہر شکل سے محفوظ اور ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین

۶۱۔۔۔        سو اس ارشاد سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ آسمان و زمین کی اس کائنات میں سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے مخفی اور اوجھل نہیں سب کچھ اس کے سامنے ہے۔ اور یہ سب ایک کھلی کتاب میں ثبت و مندرج ہے پس جو لوگ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے تکلیفیں اٹھاتے اور قربانیاں دیتے ہیں۔ ان کا کوئی بھی عمل اور کوئی قربانی اس کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہو سکتی، وہ ان کو اس کے اجر و ثواب اور صلہ و بدلہ سے ضرور نوازے گا۔ اور انکے مقابلے میں جو لوگ راہِ حق و ہدایت سے روکنے کے لئے طرح طرح کی چالیں چل رہے ہیں، وہ بھی اس سے مخفی نہیں۔ اس لئے ان کو بھی اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہو گا۔ سو اس میں اہل حق کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے اور اہل کفر و باطل کے لئے تنبیہ و تہدید کہ ایسے لوگ باز آ جائیں۔ ورنہ ان کا انجام بہت برا ہو گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۶۲۔۔۔        خوف و اندیشہ آئندہ اور مستقبل کے بارے میں ہوتا ہے، جبکہ غم اور افسوس ماضی سے متعلق ہوتا ہے سو اللہ والے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس دنیا میں بھی ان دونوں چیزوں سے آزاد اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اپنے ایمان و یقین کی برکت۔ اور اپنی رضا بالقضاء کے نتیجے میں، سو وہ اگرچہ وہ اس دنیا میں بھی اس شان سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا کامل ظہور آخرت کے اس جہان ہی میں ہو گا جو کہ کشف حقائق اور ظہور نتائج کا جہان ہو گا۔ اور جہاں کی ہر خوشی و راحت ابدی اور حقیقی ہو گی۔ سو وہاں پر ایسے خوش نصیب اپنے ربّ مہربان کی عنایات کی بناء پر ایسے شاداں و فرحاں ہوں گے کہ نہ ان کو اپنے ماضی کا کوئی غم ہو گا۔ اور نہ مستقبل کا کوئی خوف و اندیشہ، بلکہ وہ اپنے ماضی، یعنی اپنی دنیاوی زندگی کے بارے میں خوش ہوں گے کہ انہوں نے اپنی وہ زندگی اپنے رب کی رضا و خوشنودی کے تقاضوں کے مطابق اور صحیح راستے پر گزاری ہو گی، اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں نہایت خوش و خرم ہوں گے۔ کہ ان کو جنت کی نعیم مقیم اور وہاں کی اَبَدی آرام و راحت سے سرفرازی کا بے مثال مژدہ جانفزا سنا دیا گیا ہو گا، جہاں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا نصیب ہو گا،جَعَلْنَا اللّٰہُ مِنْہُمْ بمحضِ مَنِّہٖ وَکَرَمِہٖ

۶۳۔۔۔        سو آیت کریمہ کے ان دو جملوں سے اولیاء اللہ کی صاف و صریح طور پر اور نہایت جامع و مانع تعریف فرما دی گئی، کہ اللہ کے ولی وہ لوگ ہوتے ہیں جو ایمان اور تقوی کے دو اہم اور بنیادی و صفوں سے سرشار ہوتے ہیں۔ خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں، سو ایمان باللہ، اللہ تعالیٰ کی ولایت اور اس سے دوستی و تعلق کی اولیں اساس و بنیاد ہے۔ پس ہر مومن صادق اللہ کا ولی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یعنی اللہ ولی اور دوست ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے، آگے جتنا کسی کا ایمان پختہ اور اس کا تقوی کامل ہو گا اتنا ہی وہ ولایت میں ترقی کرتا جائے گا۔ پس اللہ کا ولی ہونا کسی خاص قوم قبیلے یا رنگ و نسل یا شکل و صورت وغیرہ پر موقوف نہیں۔ بلکہ اس کا مدار و انحصار ایمان و تقویٰ پر ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو، جس کا بھی ایمان پختہ اور تقویٰ زیادہ ہو گا وہ اتنا وہی ولایت میں ترقی کرتا جائے گا، خواہ اس کی شکل و صورت کوئی بھی ہو، وہ کوئی بھی لباس پہنتا ہو۔ اور کہیں بھی رہتا بستا ہو۔ اور کوئی بھی کام کرتا ہو۔ پس پیغمبر کے اسوہ حسنہ کا پیرو، اور شریعت مقدسہ کی تعلیماتِ مطہرہ اور اس کی مقرر فرمودہ حدود کا پابند ہو۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من الموطن فی الحیاۃ

۶۸۔۔۔        اس سے مشرکوں کے شرک کے ایک اور نمونے کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور اس کی مؤکد طور پر تردید فرمائی گئی ہے۔ وَلَد کا لفظ عربی زبان میں مذکر و مؤنث اور واحد و تثنیہ سب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور مشرکوں نے اللہ کے لئے بیٹے بھی مانے اور بیٹیاں بھی۔ انہوں نے قرآن کی تصریح کے مطابق حضرت عُزَیز، اور حضرت عیسیٰ جیسی مقدس ہستیوں کو اللہ کے بیٹے قرار دیا۔ اور مشرکین مکہ نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا، اور سیاق و سباق کے اعتبار سے یہاں پر انہی کے اس شرک کا حوالہ و ذکر ہے۔ اور اس شرک کی تردید کے لئے پہلی بات تو یہ ارشاد فرمائی گئی، اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس و اعلیٰ اس طرح کے ہر تصور سے پاک اور اعلیٰ و بالا ہے، اس لئے اس طرح کا ہر شرکیہ تصور باطل ہے اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ وہی وحدہٗ لاشریک ہے جو ہر کسی سے اور ہر طرح سے غنی اور بے نیاز ہے۔ جبکہ اولاد محتاجی کی علامت و نشانی ہوتی ہے، کہ انسان اولاد چاہتا ہے کہ تاکہ وہ اس کی خدمت کرے۔ اس کو کما کر لا کر دے۔ اور اس کے مرنے کے بعد اس کے نام اور اس کے کام اور اس کی نسل اور حسب و نسب کو باقی رکھے وغیرہ۔ اور اللہ تعالیٰ اس طرح کے ہر تصور اور اس کے جملہ شوائب سے پاک ہے۔ تیسری بات اس ضمن میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ وہ آسمانوں اور زمین کی اس ساری کائنات کا خالق و مالک، اور بلا شرکت غیرے خالق و مالک اور اس میں حاکم و متصرف ہے۔ تو ایسے میں اس کو کسی اولاد کی آخر ضرورت ہی کیا ہو سکتی ہے؟ اور آخر میں ایسے لوگوں کے قلوب و ضمائر پر دستک دینے اور ان کو جھنجھوڑنے کے لئے ان سے خطاب کر کے ان سے ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تمہارے پاس ایسی باتوں کے لئے کوئی سند موجود ہے؟ اور جب نہیں اور یقیناً نہیں کہ شرک کے لئے کسی دلیل و سَنَد کا کوئی وجود ممکن ہی نہیں، تو پھر کیا تم لوگ اللہ پاک کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جن کی حقیقت اور انکی سنگینی کو تم لوگ جانتے نہیں؟ سو ایسے میں تم لوگ سوچ اور دیکھ لو کہ تمہارا انجام کیا ہونے والا ہے۔ اور تم کتنے سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہو؟ والعیاذ باللہ العظیم۔

۷۰۔۔۔        سو اس ارشاد سے بھی کئی اہم اور بنیادی حقائق کو واضح فرما دیا گیا، مثلاً یہ کہ ان لوگوں کے لئے بس دنیاوی زندگی میں چند روزہ نفع اٹھا لینے کی مہلت ہے اور بس، اس کے بعد ان کے لئے ہمیشہ کی محرومی اور دائمی عذاب ہے۔ والعیاذُ باللہ، دوسرے یہ کہ اس سے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ ان لوگوں نے آخرکار اور بہرحال ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے نہ کہ کسی اور طرف، پس جو لوگ اس طرح کہتے ہیں کہ ہم مر مٹ کر یونہی ختم ہو جائیں گے اور ہم سے کوئی حساب کتاب نہیں لیا جائے گا۔ اور اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم مرنے کے بعد کسی اور جون میں آ جائیں گے، یا یہ کہ ہمارے شفعاء اور سفارشی ہمارا سب کام بنا دیں گے، وغیرہ وغیرہ، تو یہ سب کچھ غلط اور ان کی ایسی تمام باتیں بے بنیاد اور بے حقیقت ہیں، اور تیسری اہم حقیقت اس ضمن میں یہ بیان فرمائی گئی کہ ہم ان لوگوں کو ان کے کفر کے بدلے میں سخت عذاب چکھائیں گے والعیاذُ باللہ

۷۱۔۔۔        کہ بھروسہ کرنے کے لائق وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور سب کا حاجت روا و مشکل کشا بھی وہی ہے۔ حضرت انبیاء و رسل کا سہارا واعتماد بھی اسی پر ہے اور سب اسی کے محتاج اور دست نگر ہیں۔ اور حضرت نوح جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر پیغمبر بھی اسی پر بھروسہ کرنے کا اعلان و اظہار فرما رہے ہیں۔ مگر آج کا جاہل مسلمان ہے کہ اس سب کے باوجود اس کا سہارا و اعتماد طرح طرح کی فرضی اور وہمی چیزوں پر ہے کہیں وہ کہتا ہے سہارا پنجتن دا اور کہیں وہ کسی اور من گھڑت اور فرضی، وہمی، اور خود ساختہ سرکار صلی اللہ علیہ و سلم کو پکارتا ہے، اور طرح طرح کے ناموں سے قسما قسم کی شرکیات کا ارتکاب کرتا ہے والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر طرح سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین،

۷۳۔۔۔        اس آیت کریمہ میں پہلے تو حضرت نوح اور ان کے ایماندار ساتھیوں کی نجات کا ذکر فرمایا گیا اور اس کے بعد مکذبین کی غرقابی کا ذکر فرمایا گیا۔ اور یہ اس لئے کہ سنت الٰہی اور دستور خداوندی اصل میں یہی ہے کہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں پر جب عذاب آیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے پہلے اہل ایمان کی حفاظت کا انتظام و اہتمام فرمایا ہے۔ اور ان کو ایسے ظالم معاشرے سے الگ کرنے کے بعد باقیوں کا بیڑا غرق کیا ہے۔ نیز یہاں سے اس بات کو بھی واضح فرما دیا گیا ہے کہ مکذبین کی غرقابی کے بعد ان کی جگہ حضرت نوح اور ان کے ساتھیوں ہی کو ان کا وارث اور جانشین بنایا گیا۔ سو آخری کامیابی حق والوں ہی کی ہے، پھر مخاطبین کے قلوب و ضمائر پر دستک دیتے ہوئے اور ان کو جھنجھوڑتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ تم دیکھ لو کہ کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جن کو خبردار کر دیا گیا تھا؟ یعنی ان کو خبردار کر دیا گیا تھا کفر و شرک کے نتیجہ و انجام سے۔ مگر ان لوگوں نے اپنی خر مستی کی بناء پر نہ اس کی کوئی پرواہ کی۔ اور نہ ہی اس پر کان دھرا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے انتہائی ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے۔ والعیاذُ باللہ۔ پس تم لوگ اے دور حاضر کے منکرو! اس سے درس عبرت و بصیرت لو، اور کفر و تکذیب کی روش سے باز آ جاؤ، ورنہ تمہارا انجام بھی وہی ہو گا جو کل کے ان منکروں اور باغیوں کا ہو چکا ہے، کہ اللہ تعالیٰ کا قانون بے لاگ اور سب کے لئے یکساں ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔

۷۴۔۔۔        اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ان رسولوں کی طرف اجمالی اور سرسری اشارہ فرمایا گیا ہے جن کو حضرت نوح کے بعد مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اور اس اجمال کی تفصیل اس کے بعد والی سورہ کریمہ میں فرمائی گئی ہے یعنی سورہ ہود میں جو کہ اس سورہ کریمہ کی مثنی کی حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ اس میں حضرت ہود، صالح، لوط اور شعیب کا ذکر مفصل طور پر فرمایا گیا ہے۔ نیز اس آیت کریمہ میں اس سنت الٰہی اور دستور خداوندی کا ذکر بھی فرمایا گیا ہے، جو ایمان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے یعنی یہ کہ جو لوگ عقل و فطرت کے بدیہیات اور یقینیات کو جھٹلا دیتے ہیں، ان کو اللہ کے رسولوں کے انذار سے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ اور وہ محروم کے محروم ہی رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر رسولوں کی بعثت سے اتمامِ حجت ہو جاتا ہے اور اس کے بعد ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم، سو جو لوگ حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کی مقرر فرمودہ حدوں کو پھلانگنے اور توڑتے ہیں ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان پر ہم اسی طرح مہر لگا دیتے ہیں۔ ان کے اِعْراض و انکار، اور ان کے کفر و بغاوت کے نتیجے میں، جس سے ایسے لوگ سننے سمجھنے کی اہلیت اور صلاحیت ہی سے محروم ہو جاتے ہیں، اور ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہو کر رہے ہیں، والعیاذ باللہ العظیم

۷۵۔۔۔        یہاں پر وَکَانُوْا مُجْرِمِیْنَ سے اسی فسادِ قلب و عقل کی طرف اشارہ فرمایا گیا جس کا ذکر اوپر والی آیت کریمہ میں ہوا ہے۔ یعنی یہ لوگ چونکہ اپنے سُوئے اختیار، اور فساد طبع کی بناء پر اپنے قلب اور عقل کی آنکھوں کو پھوڑ چکے تھے اس لئے انہوں نے کسی چیز سے بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ان آیتوں کے مقابلے میں استکبار یعنی اپنی بڑائی کے گھمنڈ سے کام لیا جن کے ساتھ حضرت موسیٰ اور ہارون کو بھیجا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں وہ محروم کے محروم رہے۔ سو استکبار محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ زیغ و ضلال کی ہر قسم اور اس کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ اور صراط مستقیم پر قائم اور ثابت قدم رکھے۔ اور ہمیشہ اور ہرحال میں اپنا ہی بنائے رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین

۸۰۔۔۔        سو اس سے حضرت موسیٰ کے اپنے مشن پر غایت درجہ اعتماد کا پتہ چلتا ہے۔ آنجناب کو اللہ تعالیٰ کے وعدہ نصرت و امداد پر بھر پور بھروسہ اور اعتماد تھا کہ جادوگر خواہ کتنا ہی بڑا جادو دکھائیں۔ وہ ان کی ضرب حق کے سامنے ٹک نہیں سکے گا۔ اس لئے آپ نے کسی طرح کے تذبذب اور ہچکچاہٹ کے بغیر ان کو پہل کرنے کا موقع دے دیا۔ اور یہ گویا میدان مقابلہ میں پہلی جیت تھی جس سے حضرت موسیٰ کو سرفراز فرمایا گیا۔ کیونکہ اس کے بعد حریف کو جو شکست ہوئی وہ خود ان کے اپنے منتخب کردہ میدان میں ہوئی۔ والحمدللہ جل وعلا

۸۲۔۔۔        سو اس سے حضرت موسیٰ نے ان لوگوں کے سامنے واضح فرما دیا کہ تم لوگ جو میرے معجزے کو جادو کہتے تھے۔ وہ تم لوگوں کی اپنی مت ماری اور کوڑ مغزی کا نتیجہ تھا، کہ جادو وہ نہیں بلکہ یہ ہے جس کو تم لوگ لائے ہو۔ جس کی بے حقیقتی ابھی تمہاری آنکھوں کے سامنے واضح ہو جائے گی، اور تم اس کو خود دیکھ لو گے۔ اللہ تعالیٰ اس کو ابھی نیست و نابود کر دے گا۔ اس لئے کہ باطل اپنی چمک دمک اسی وقت تک دکھاتا ہے جب تک کہ اس کا مقابلہ حق سے نہیں ہوتا۔ جب حق ظاہر ہو جاتا ہے تو باطل اس کے مقابلے میں جھاگ کی طرح بیٹھ جایا کرتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا۔ بیشک باطل ہے ہی مٹنے والی چیز، سو اللہ تعالیٰ مصلحین کے مقابلے میں مفسدین کے عمل کو بار آور اور نتیجہ خیز نہیں ہونے دیتا، سبحانہ و تعالیٰ۔

۸۴۔۔۔        سو حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کے ایماندار لوگوں کو اللہ پر توکل کے تقاضوں کی تذکیر و یاد دہانی کراتے ہوئے ان سے فرمایا کہ اگر تم لوگ واقعی اور سچے دل سے اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر بھروسہ کرو۔ اور راہِ حق میں تم لوگوں کو کسی کا ڈر یا لحاظ آڑے نہیں آنا چاہیئے۔ بلکہ تمہیں سب سے بے نیاز و بے پرواہ ہو کر اللہ کی راہ میں آگے بڑھنا چاہیئے۔ اور دل کا بھروسہ اللہ ہی پر رکھنا چاہیئے، کہ جس نے یہ راہ کھولی ہے وہی اس میں پیش آنے والی مشکلات میں ہمارا حامی و ناصر ہو گا۔ کہ سب کچھ اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ سو ایمان کا لازمی تقاضا توکل علی اللہ ہے۔ اور اس توکل کا تقاضا ہے کہ انسان بالکلیہ اپنے آپ کو اپنے رب کے حوالے کر دے۔ اور یہی حوالگی و سپردگی اصل ایمان ہے، لیکن افسوس کہ آج کے کلمہ گو مسلمان کا معاملہ اس سے یکسر مختلف اور دگرگوں ہے۔ الا ماشاء اللہ، اس کا سہارا اور بھروسہ و اعتماد طرح طرح کے من گھڑت اور خود ساختہ امور پر ہے۔ اور وہ اس ضمن میں طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ جگہ جگہ اور طرح طرح کی مخلوق کے آگے سر ٹیکتا اور سجدہ ریز ہوتا ہے۔ اور اسطرح وہ اپنی ہلاکت و تباہی اور ذلت ورسوائی کا سامان خود اپنے ہاتھوں کرتا ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۸۶۔۔۔        سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حضرت موسیٰ کی اس تعلیم و تذکیر کے جواب میں آپ کے ایماندار ساتھیوں نے کہا کہ ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی راہِ حق کی مشکلات کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا کہ اے ہمارے رب ہمیں ظالموں کے لئے فتنہ اور سامانِ ابتلاء اور آزمائش نہ بنانا۔ یعنی ان کو اتنی ڈھیل نہ دینا کہ وہ ہمیں راہِ حق سے پھیرنے کے لئے ہمیں تختہ مشق بنا لیں۔ سو اس سے یہ درس دیا گیا کہ توکل علی اللہ کے تقاضوں سے عہد برآ ہونے کے لئے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ سے دعاء و استعانت کی بھی ضرورت ہے۔ سو اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ و اعتماد کے تقاضے پورے کرنے کے لئے جس طرح بندہ مومن کے اندر عزم راسخ کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح اس راستے میں ہر موقع و مقام پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع، اور اس سے دعاء و استعانت کی بھی ضرورت ہے، کہ اسی کی توفیق و عنایت اور حفظ و امان سے بندہ اس راہ کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، وہو الہادی الی سواء السبیل،

۸۷۔۔۔        سو اس ارشاد سے صبر اور توکل کے اس اہم اور بنیادی مقصد کے حصول کی تدبیر ارشاد فرمائی گئی جس کی تعلیم و تلقین اوپر والی آیاتِ کریمات میں فرمائی گئی۔ یعنی یہ کہ حضرت موسیٰ اور ہارون کو حکم و ارشاد ہوا کہ تم دونوں اپنی قوم کے لئے مصر کے مختلف مقامات میں کچھ گھروں کو نماز با جماعت کے لئے مخصوص کر لو۔ جہاں بنی اسرائیل نماز کے لئے جمع ہوا کریں، سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف وحی کی کہ تم مصر میں کچھ گھر بنا لو۔ اور اپنے گھروں کو مسجد قرار دے دو۔ تم لوگ نماز قائم کرو۔ اور ایمان والوں کی خوشخبری سنا دو۔ پس جو لوگ ایمان کی دولت سے سرفراز ہوں گے، راہ حق میں ثابت قدم رہیں گے اور اپنی نمازوں کا اہتمام کریں گے۔ ان کو اللہ تعالیٰ آزمائشوں میں بھی سرخرو کرے گا۔ اور ان کو دارین کی سعادت سے سرفرازی اور فوز و فلاح سے نوازے گا وباللہ التوفیق۔

۸۸۔۔۔        اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی اس کائنات کو حق کے لئے اور حق کے ساتھ ساتھ پیدا فرمایا ہے، اس لئے وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس میں حق کے ساتھ اور حق کے مطابق ہی رہیں۔ اسی لئے وہ حضرات انبیاء و رسل کی بعثت کے ذریعے ان کے لئے حق و ہدایت کی راہ کو واضح کرنے کا اہتمام فرماتا ہے، اور اس نے ہمیشہ اس کا اہتمام فرمایا ہے، اور بعثت رسول اتمام حجت کا آخری ذریعہ ہوتا ہے، اس کے بعد بھی اگر کوئی قوم ایمان نہیں لاتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر قبول حق کی کوئی صلاحیت موجود نہیں اس کا وجود اللہ کی زمین پر ایک ناروا بوجھ بن جاتا ہے وہ دوسروں کی گمراہی کا ذریعہ تو ہو سکتی ہے لیکن اس سے کسی خیر کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے سنت الٰہی اور دستور خداوندی ہمیشہ یہی رہا کہ جن قوموں پر رسول کی بعثت و تشریف آوری کے ذریعے اتمام حجت کر دیا گیا۔ تو اس کے بعد مکذبین کو ایک خاص حد تک مہلت دینے کے بعد ان کو تباہ کر دیا جاتا ہے اس دنیا میں قوموں کو زندگی کی جو مہلت ملتی ہے وہ اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے ہی کے لئے ملتی ہے۔ لیکن جب وہ اپنے عمل و کردار سے ثابت کر دیتی ہیں کہ اب ان کے اندر خیر کی کوئی رمق موجود نہیں ہے، تو ان کو مٹا دیا جاتا ہے۔ کہ شر محض کی بقاء اور اس کی پرورش اس کائنات کے مزاج کے خلاف ہے، سو اسی بناء پر جب حضرت موسیٰ پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اب یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی ہلاکت و تباہی کے لئے یہ دعا فرمائی، جس کا ذکر یہاں فرمایا گیا ہے۔

۸۹۔۔۔        سو اس سے حضرت موسیٰ اور ہارون کو ان کی دعاء کی قبولیت کی بشارت سے بھی نوازا گیا۔ اور کچھ خاص ہدایات سے بھی، کیونکہ جو دعا صحیح وقت پر اور صحیح طریقے سے کی جاتی ہے۔ اس کی قبولیت میں دیر نہیں لگتی۔ پس حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون پر دعوت و اصلاح اور انذار و تبلیغ کی جو ذمہ داری عائد ہوئی تھی، وہ چونکہ انہوں نے کما حقہ اداء کر دی تھی، اور ان کا ذمہ فارغ ہو گیا تھا۔ اس لئے اب ان کی طرف سے یہ دعا بالکل بروقت اور صحیح محل میں تھی۔ اس لئے اس کو فوری طور پر قبول فرما لیا گیا۔ اور اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان سرکشوں کے ساتھ جو معاملہ فرمانے والا تھا وہ چونکہ فیصلہ کن اور بڑا سخت تھا۔ اس لئے ان دونوں حضرات کو ہدایت فرمائی گئی کہ اس کو جی کڑا کر کے دیکھنا، کہیں ان کی حالت کو دیکھ کر دل میں ان کے لئے کوئی رحمت و رافت پیدا نہ ہونے پائے، کہ ان کے لئے کوئی سفارش کرنے لگو۔ کہ اس کا اب بہرحال کوئی موقع باقی نہیں رہا۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۹۲۔۔۔        اور اسی غفلت کی بناء پر ایسے لوگ نہ آنکھیں کھولتے ہیں۔ اور نہ کوئی درس عبرت لیتے ہیں اور محروم کے محروم ہی رہتے ہیں۔ ورنہ نشانہ عبرت و بصیرت سے تو یہ دنیا اٹی پڑی ہے، سو فرعون اور اس کے حواریوں درباریوں سے قدرت کے انتقام کے اندر ایک دوسری نشانی یہ ظاہر ہوئی کہ فرعون کی لاش کو سمندر نے قبول نہیں کیا، بلکہ اس کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ جس سے ایک طرف تو سمندر کی غضبناکی کا پتہ چلتا ہے، اور دوسری طرف اس طرح قدرت کی طرف سے لوگوں کے لئے ایک نشانِ عبرت مہیا کرنا مقصود تھا۔ تاکہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ یہ اس شخص کا انجام ہے۔ جو خدائی کا دعویدار بنا ہوا تھا۔ پھر فرعون کی اس لاش کو اس وقت کے مصری رواج کے مطابق ممی کر کے محفوظ کر لیا گیا، جو قاہرہ کے عجائب خانے میں اب تک محفوظ ہے، اور آج سے چند ہی سال قبل اس کو یہاں دبی میں جہاں کہ راقم اٰثم اس وقت یہ سطور تحریر کر رہا ہے۔ یہاں کے سالانہ تجارتی میلہ (Dubai Annual Festival) میں فرعون کی اس لاش کو بھی لا کر رکھا گیا جس پر پانچ درہم کا ٹکٹ لگایا گیا تھا، سو قدرت کی طرف سے فرعون کی اس لاش کی حفاظت کا یہ انتظام کیا گیا، تاکہ وہ اپنی زبان بے زبانی سے ہر دور کے فرعونوں کو درسِ عبرت دیتی رہے۔ کہ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔ لیکن لوگوں کی اکثریت حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کی طرف سے مہیا کردہ ایسے نشانہائے عبرت میں غور و فکر سے غافل اور محروم ہی رہتی ہے، اور عبرت نگاہی کا یہ گوہرِ مقصود ہی دنیا میں سب سے زیادہ ناپید اور کمیاب ہے وباللہ التوفق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید۔

۹۳۔۔۔        سو اس سے بنی اسرائیل کے لئے اللہ تعالیٰ کی بعض عظیم الشان نوازشوں، اور ان پر قدرت کے بعض بڑے انعامات کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔ اور ان کے جواب میں ان لوگوں کی بے قدری اور ناشکری کا بھی، تاکہ حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کے انعام و احسان۔ اور ان لوگوں کی ناشکری و بے انصافی کے دونوں نمونے سامنے رہیں، سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے دشمن کو غرقاب کیا۔ اور انکی آنکھوں کے سامنے اور ان کے دیکھتے دیکھتے غرقاب کیا۔ اور فرعون جیسے ظالم دشمن کو جو کہ اپنے تئیں خدائی کا دعویدار بنا ہوا تھا، اس کی لاش کو نشان عبرت بنانے کے لئے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔ پھر ان لوگوں کو اس نے ان کے اپنے منتخب کردہ علاقے میں اقتدار و استحکام بخشا، مراد ہے ارض شام و فلسطین، جس کو قرآن حکیم نے ارض مبارک اور ارضِ مقدس کے الفاظ سے ذکر فرمایا ہے، اور جس کو تورات میں ارض العسل واللبن یعنی شہد اور دودھ کی سرزمین کہا گیا ہے اور ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کی پاکیزہ چیزوں کی روزی سے سرفراز فرمایا۔ لیکن اس سب کے باوجود ان لوگوں نے ناشکری اور ناسپاسی ہی سے کام لیا۔ اللہ کے دین اور اس کی کتاب و شریعت کے بارے میں انہوں نے طرح طرح کے اختلافات سے کام لیا۔ اور ایسا اور اس حد تک کہ انہوں نے پائی ہوئی حقیقت کو گم کر دیا۔ اور اس کے نتیجے میں یہ اسی حیرانی اور سرگشتگی میں مبتلا ہو گئے جس سے قدرت نے ان کو اس قدر اہتمام سے نکالا تھا، اور یہ سب کچھ انہوں نے اس کے بعد کیا کہ ان کے پاس حق اور حقیقت کا علم آ گیا تھا۔ سو ان بدبختوں نے رات کی تاریکی میں نہیں، بلکہ دن کے اجالے میں ٹھوکر کھائی، اس لئے سارا بار الزام ان کے اپنے ہی کندھوں پر ہے جس کا صلہ اور بدلہ ان کو قیامت کے روز ملے گا۔ والعیاذُ باللہ جَلَّ وَعَلَا

۹۸۔۔۔        سو اس ارشاد سے ایک طرف تو پیغمبر کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان پیش فرمایا گیا ہے۔ اور دوسری طرف اس میں منکرین و مکذبین کے لئے ترہیب و ترغیب بھی ہے سو اس سے واضح فرما دیا گیا اور پیغمبر کو مخاطب کر کے واضح فرمایا گیا کہ آپ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ان میں سے کسی بھی رسول کی قوم اس پر اس وقت ایمان نہیں لائی جبکہ ایمان لانا نافع ہوتا ہے۔ بلکہ وہ لوگ عذاب دیکھنے کے بعد ہی ایمان لائے جو کہ نفع نہیں دیتا۔ کیونکہ عذاب دیکھنے کے بعد کا ایمان ایمان بالمشاہدہ ہوتا ہے، جو کہ نہ مفید ہوتا ہے نہ مطلوب کیونکہ مفید و مطلوب وہ ایمان ہوتا ہے جو کہ بالغیب یعنی بن دیکھے ہو۔ پس عذاب دیکھنے کے بعد ایمان لانا بےسود اور لا حاصل ہوتا ہے۔ صرف قوم یونس کی مثال اس سے مستثنیٰ ہے کہ اس قوم کے لوگ عذاب کی گھڑی کے ظہور سے پہلے متنبہ اور چوکنے ہو گئے۔ تو ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان کی توفیق مل گئی، وہ ایمان لے آئے، اور اس کے نتیجے میں وہ لوگ اس عذاب سے بچ گئے جس کے ظہور میں اب زیادہ دیر باقی نہیں رہ گئی تھی۔ اس کے سوا دوسری کوئی قوم ایسی موجود نہیں جس کا عذاب دیکھنے کے بعد کا ایمان اس کے لئے نفع بخش ثابت ہوا ہو، پس اس میں منکرین و مکذبین کے لئے ترہیب و ترغیب ہے کہ تم لوگ ایمان لے آؤ قبل اس سے کہ تم پر وہ عذاب آ دھمکے جس کے بعد کا ایمان تمہارے کچھ کام نہ آ سکے۔

۹۹۔۔۔        اس ارشاد ربانی میں بھی پیغمبر کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے۔ کہ آپ اپنی رحمت و شفقت کی بناء پر لوگوں کے ایمان نہ لانے سے اس قدر غمگین اور پریشان نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں وہی ایمان پسندیدہ اور مطلوب ہے جو اپنی رضا و رغبت سے لایا جائے۔ اور جو لوگوں کی اپنی عقل و ضمیر کی راہنمائی سے ہو۔ جبری ایمان نہ مفید ہے نہ مطلوب، اسی لئے اس نے ایمان کا معاملہ لوگوں کے اختیار اور مرضی پر چھوڑا ہے، ورنہ تمہارے رب کی مشیت اگر یہی ہوتی کہ سب لوگ خواہی نخواہی ایمان لے آئیں۔ تو پھر محض اس کے ایک ارادے اور اشارے سے ہی پوری روئے زمین کے تمام لوگ ایک ساتھ ایمان لے آتے۔ لیکن ایسا ایمان تو سرے سے مطلوب ہی نہیں۔ پس آپ اس امر کی خاطر اپنے آپ کو مشقت اور تکلیف میں نہ ڈالیں کہ سب لوگ مسلمان ہو جائیں گے، ایسا نہ ہو سکتا ہے، اور نہ ہی یہ مشیئت خداوندی کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ اسی لئے آیت کریمہ میں استفہام انکاری کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ کیا آپ لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ سب ایماندار بن جائیں؟ یعنی نہیں ایسا نہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی یہ مشیئت خداوندی کے مطابق ہے، سبحانہ و تعالیٰ،

۱۰۰۔۔۔     سو اس ارشاد ربانی سے اس سنت الٰہی اور دستور خداوندی کو ذکر و بیان فرمایا گیا ہے جو ایمان لانے نہ لانے کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ نورِ ایمان و یقین کی دولت سے سرفرازی انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق ملتی ہے، اور یہ توفیق انہی لوگوں کو ملتی ہے جو اس کے لئے اپنے اندر طلب صادق رکھتے ہیں، اور وہ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی عقل و فکر کی صلاحیتوں سے صحیح طور پر کام لیتے ہیں۔ اور جو عقل و فکر سے صحیح طور پر کام نہیں لیتے۔ ان کی بصیرت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے اعمال بد کی نحوست مسلط کر دی جاتی ہے، جس سے وہ بالکل اندھے اور بہرے بن کر رہ جاتے ہیں، اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی ہی کو اپنا مقصد بنا لیتے ہیں، اور ہمیشہ کی محرومی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم، سو اس سے یہ اہم حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کی صلاح و فساد، اور اس کے بناؤ بگاڑ، کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن اور ارادہ و اختیار سے ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی مایحب ویرید، بکل حال من الاحوال وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ،

۱۰۴۔۔۔     سو اس ارشاد سے پیغمبر کو اس آخری اور فیصلہ کن اعلان کی ہدایت فرمائی گئی ہے تاکہ منکرین و مکذبین کے ذہن کے کسی گوشے میں اگر اس طرح کا کوئی طمع خام موجود ہو کہ پیغمبر پر دباؤ ڈال کر ان کو کچھ نرم کیا جا سکتا ہے۔ تو وہ اس کو اپنے ذہنوں سے کھرچ کر نکال دیں۔ اور اس کے بعد وہ جو کرنا چاہیں کر کے دیکھ لیں۔ اور اس طرح کے آخری اور فیصلہ کن اعلان کا ذکر سب ہی انبیائے کرام سے ماثور و منقول ہے۔ جو کہ دراصل پیغمبر کی طرف سے ان لوگوں سے براءت و بیزاری کا اعلان ہوتا ہے۔ جس کے بعد ہجرت کا مرحلہ آتا ہے، اور اس کے بعد منکرین کا صفایا کر دیا جاتا ہے، والعیاذُ باللہ العظیم اور الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ (جو تمہاری جانیں قبض کرتا ہے) کی صفت کا حوالہ و ذکر بطور تنبیہ و تذکیر ہے۔ یعنی میں بہرحال اسی اللہ کی عبادت و بندگی کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا جو تمہاری جان قبض کرتا ہے۔ اور جس کے حضور تم لوگوں کو بہرحال حاضر ہونا اور اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ پانا ہے۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس سے کوئی انکار ممکن نہیں۔ پس تم لوگ جون سی روش چاہو اختیار کرو۔ مجھے تو بہرحال اسی بات کا حکم و ارشاد ہوا ہے کہ میں مومن اور موحد رہوں۔

۱۰۶۔۔۔     سو اس سے شرک کی خطورت و سنگینی کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ ظلم ہے۔ سو یہ ظلم ہے حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کے بارے میں کہ اس کے حق عبادت و بندگی میں دوسروں کو شریک ٹھہرایا گیا۔ نیز یہ ظلم ہے اس پوری کائنات کے حق میں کہ انسان رہے بسے تو اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اس کائنات میں، مگر وہ شریک ٹھہرائے اس کا دوسروں کو، نیز یہ ظلم ہے خود مشرک کی اپنی جان کے حق میں۔ کہ اس طرح وہ اس کو دوزخ کا مستحق بناتا ہے۔ اسی لئے دوسرے مقام پر اس کو ظلم عظیم قرار دیا گیا ہے، اور اس کے بطلان پر اس آیت کریمہ میں دلیل یہ بیان فرمائی گئی کہ جب نفع و نقصان کے تمام اختیارات اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں۔ تو پھر اس کے سوا اور کسی کو پکارنے پوجنے کی آخر تُک ہی کیا ہو سکتی ہے؟ اور اس کو ظلم، بدبختی اور مت ماری کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ کہ یہ اللہ تعالیٰ کے سب سے بڑے حق کو تلف کرنا ہے والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۰۷۔۔۔     سو اس سے اوپر والے مضمون کی تاکید و توثیق دوسرے انداز و اسلوب میں فرمائی گئی ہے۔ اور اس سے ان تمام تصورات کی نفی فرما دی گئی ہے جن کی بناء پر مشرک لوگ اپنے من گھڑت اور خود ساختہ شرکاء و شفعاء کی پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچنے والے کسی نقصان کو کوئی ٹال سکتا ہے، اور نہ اس کی طرف سے ملنے والی کسی خیر اور بھلائی کو کوئی روک سکتا ہے، سوائے اسی وحدہٗ لاشریک کے، تو پھر اس کے سوا اوروں کو پُوجنے پکارنے کی تُک اور اس کی گنجائش ہی کیا ہو سکتی ہے؟ آیت کریمہ کے آخر میں حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کی صفت غفور و رحیم کے حوالہ و ذکر سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ شرک کا جرم و گناہ اگرچہ بڑا سنگین اور انتہائی ہولناک جرم ہے۔ لیکن سچی توبہ پر اللہ تعالیٰ اس کو بھی بخش دیتا ہے کہ وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے، نیز جب وہ غفور بھی ہے اور رحیم بھی، تو پھر کسی کو دوسروں کو سہارا بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بلکہ بندوں کو براہ راست اس کے دامنِ رحمت میں پناہ لینی چاہئے، اور ہمیشہ اور ہر حال میں اور ہر اعتبار سے ہی کی طرف متوجہ رہنا چاہیے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید، وہ الہادی الی سواءِ السبیل

۱۰۹۔۔۔  سو اس سے اس سورہ کریمہ کے آخر میں پیغمبر کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ منکرین و مکذبین کے رویے سے قطع نظر اس وحی ہی کی پیروی کرتے رہیں جو آپ کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ راہِ حق پر ڈٹے رہیں اور ہمیشہ صبر و استقامت ہی سے کام لیں۔ یہاں تک کہ اللہ فیصلہ فرما دے، اور وہی ہے سب سے اچھا اور صحیح فیصلہ کرنے والا، سبحانہ و تعالیٰ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین، وبہٰذا قد تم التفسیر المختصرلسورۃ یونس، والحمد للہ جل وعلا والحمدللہ رب العالم