اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۲۔۔۔ یہ آیتیں ہیں کھول کر بیان کرنے والی اس کتاب عظیم کی
۳۔۔۔ ہم ٹھیک ٹھیک بتاتے ہیں آپ کو کچھ احوال موسیٰ اور فرعون کی داستان عبرت کا ان لوگوں کی راہنمائی کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں
۴۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ فرعون نے بڑی سرکشی اختیار کر لی تھی اللہ کی اس زمین میں اور اس کے باشندوں کو اس نے مختلف گروہوں میں بانٹ رکھا تھا ان میں سے ایک جماعت کو تو اس نے بری طرح دبا کر رکھا ہوا تھا ان کے لڑکوں کو وہ چن چن کر ذبح کراتا تھا اور ان کی عورتوں کو وہ زندہ رکھ چھوڑتا بلاشبہ وہ فساد پھیلانے والے لوگوں میں سے تھا
۵۔۔۔ اور ہم چاہتے تھے کہ ہم احسان و مہربانی کریں ان لوگوں پر جن کو دبا کر اور ذلیل بنا کر رکھا گیا تھا اس ملک میں (۲) اور مہربانی بھی اس طرح کہ ان کو ہم پیشوا بنا دیں اور ان کو وارث بنا دیں
۶۔۔۔ (اور پیشوائی و وراثت بھی اسطرح کہ) ان کو حکومت و اقتدار دے دیں زمین میں اور دکھا دیں فرعون اور ہامان اور اس کے لشکروں کو ان مظلوموں کی طرف سے وہی کچھ جس سے وہ لوگ ڈرتے تھے
۷۔۔۔ اور آغاز اس سکیم کا اس طرح ہوا کہ ہم نے موسیٰ کی ماں کو الہام کے ذریعے بتا دیا کہ تم اس کو دودھ پلاتی رہو پھر جب تمہیں اس کی جان کے بارے میں خطرہ محسوس ہونے لگے تو تم اس کو بے کھٹکے دریا میں ڈال دینا اور اس بارہ نہ کوئی خوف رکھنا اور نہ اندیشہ یقیناً ہم اسے واپس لے آئیں گے تمہارے پاس اور اس سے بھی بڑھ کر خوشخبری یہ کہ ہم اسے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں
۸۔۔۔ چنانچہ ایسے ہی کیا گیا اور آخرکار اس بچے کو اٹھا لیا فرعون والوں نے تاکہ انجام کار وہ ان کے لئے دشمن اور دائمی غم کا باعث بنے بے شک فرعون ہامان اور ان دونوں کے لشکر سب ہی بڑے خطا کار تھے
۹۔۔۔ اور فرعون کی بیوی نے اس سے کہا کہ یہ تو آنکھوں کی ٹھنڈک ہے میرے لئے بھی اور تیرے لئے بھی اسے کہیں قتل نہیں کر دینا کیا عجب کہ یہ بڑا ہو کر ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنا لیں اور وہ لوگ نہیں جانتے تھے
۱۰۔۔۔ کہ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے ادھر موسیٰ کی ماں کا دل اڑا جا رہا تھا اور اس کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تھا یہاں تک کہ قریب تھا کہ وہ اس کے راز کو فاش کر بیٹھتی اگر ہم نے پختہ اور مضبوط نہ کر دیا ہوتا اس کے دل کو اور اس کی ڈھارس نہ بندھا دی ہوتی تاکہ وہ برقرار رہے ایمان و یقین والوں میں
۱۱۔۔۔ اور اس نے موسیٰ کی بہن سے کہا کہ تم اس کے پیچھے پیچھے چلی جاؤ اس کا حال جاننے کیلئے چنانچہ وہ چلی گئی اور اس کو دور سے اس طرح دیکھتی رہی کہ ان لوگوں کو پتہ نہ چلنے پائے
۱۲۔۔۔ اور ہم نے موسیٰ پر دودھ پلانے والیوں کی چھاتیوں کو پہلے ہی حرام کر دیا تھا تو اس کی بہن نے کہا کیا میں تمہیں ایک ایسے گھرانے کا پتہ نہ بتا دوں جو تمہارے لئے اس بچے کی پرورش کریں اور وہ اس کے خیر خواہ بھی ہوں ؟
۱۳۔۔۔ سو اس پر حکمت طریقے سے ہم نے لوٹا دیا ان کو ان کی والدہ کی طرف تاکہ ٹھنڈی ہو اس کی آنکھ اس کو کوئی اندیشہ نہ رہے اور وہ یقین جان لے کہ اللہ کا وعدہ قطعی طور پر حق اور سچ ہوتا ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں حق اور حقیقت کو
۱۴۔۔۔ اور جب پہنچ گئے موسیٰ اپنی جوانی کی بھرپور قوتوں کو اور برابر ہو گئے وہ عقل و فکر کے توازن و اعتدال کے اعتبار سے تو نواز دیا ہم نے ان کو حکم اور علم کی دولت سے اور ہم اسی طرح نوازتے اور بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو
۱۵۔۔۔ اور ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ موسیٰ شہر میں ایسے وقت پہنچے کہ اہل شہر غفلت میں پڑے سو رہے تھے تو انہوں نے وہاں دو آدمیوں کو آپس میں لڑتے پایا ایک تو ان کی اپنی جماعت کا تھا اور دوسرا ان کے دشمنوں میں سے سو اس شخص نے جو کہ آپ کی جماعت میں سے تھا آپ کو اس شخص کے خلاف مدد کے لئے پکارا جو کہ اس کے دشمنوں میں سے تھا اس پر موسیٰ نے اس کو ایک ایسا گھونسا رسید کیا کہ اس کا کام تمام کر دیا اس خلاف توقع حادثہ پر موسیٰ نے کہا یہ تو شیطان کی کارستانی سے ہو گیا واقعی وہ بڑا ہی گمراہ کن کھلا دشمن ہے
۱۶۔۔۔ پھر نادم ہو کر آپ نے اپنے رب کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اے میرے رب میں نے تو واقعی ظلم کر لیا اپنی جان پر پس مجھے معاف فرما دے تو اس نے اس کو معاف فرما دیا بے شک وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے
۱۷۔۔۔ موسی نے مزید عرض کیا کہ اے میرے رب! جیسا کہ آپ نے مجھ پر احسان فرمایا میں کبھی بھی مددگار اور پشت پناہ نہیں بنوں گا ظالموں کے لئے
۱۸۔۔۔ پھر دوسرے روز موسیٰ ڈرتے ہوئے اس انتظار میں کہ کیا ہوتا ہے شہر میں داخل ہوئے تو اچانک دیکھتے کیا ہیں وہی شخص جس نے کل ان سے مدد مانگی تھی آج پھر ان سے فریاد کر رہا ہے اس پر موسیٰ نے اس سے کہا کہ تو تو بڑا ہی کوئی بہکا ہوا آدمی ہے
۱۹۔۔۔ اس کے بعد جب موسیٰ نے ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کیا اس شخص پر جو کہ دشمن تھا ان دونوں کا تو وہ فوراً بول اٹھا کہ اے موسیٰ کیا تو مجھے بھی اسی طرح قتل کر دینا چاہتا ہے جس طرح کہ تو کل ایک شخص کو قتل کر چکا ہے تو تو اس ملک میں جبار بن کر رہنا چاہتا ہے اور تو یہ نہیں چاہتا کہ تو اصلاح کرنے والوں میں سے ہو
۲۰۔۔۔ اور ایک شخص جو موسیٰ کا خیر خواہ تھا شہر کے پرلے کنارے سے دوڑتا ہوا موسیٰ کے پاس آیا اور کہا اے موسیٰ دربار والے آپ کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ آپ کو قتل کر دیں پس آپ جس قدر جلد ممکن ہو سکے یہاں سے نکل جائیں میں یقینی طور پر آپ کا بڑا خیر خواہ ہوں
۲۱۔۔۔ اس پر موسیٰ وہاں یعنی مصر سے نکل پڑے ڈرتے ہوئے اس انتظار میں کہ کیا ہوتا ہے پھر اپنے رب کے حضور! عرض کیا اے میرے رب بچا دے مجھے ان ظالم لوگوں سے
۲۲۔۔۔ اور مصر سے نکلنے کے بعد جب آپ نے مدین کا رخ کیا تو آپ نے کہا امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھے راستے پر ڈال دے گا
۲۳۔۔۔ اور جب آپ مدین کے پانی پر پہنچے تو وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو پانی پلاتے پایا اور ان لوگوں سے ورے دو عورتوں کو پایا وہ دونوں روکے کھڑی ہیں اپنے جانوروں کو موسیٰ نے ان سے پوچھا تمہارا کیا معاملہ ہے انہوں نے جواب میں بتایا کہ ہم اپنے جانوروں کو اس وقت تک پانی نہیں پلا سکتیں جب تک کہ یہ چرواہے اپنے جانوروں کو ہٹا کر نہ لے جائیں اور دوسرا کوئی اس کام کے لئے ہے نہیں کہ ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں
۲۴۔۔۔ اس پر موسیٰ نے ترس کھاتے ہوئے ان دونوں کے جانوروں کو پانی پلا دیا پھر آپ ہٹ کر ایک طرف سایہ میں جا بیٹھے پھر اپنے رب کے حضور عرض کیا اے میرے رب آپ جو بھی نعمت مجھے بھیج دیں میں اس کا سخت محتاج ہوں
۲۵۔۔۔ اتنے میں ان ہی دونوں لڑکیوں میں سے ایک شرم وحیا کے ساتھ چلتی ہوئی آپ کے پاس پہنچی کہنے لگی کہ میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ کو صلہ دیں اس کا جو آپ نے ہمارے لئے پانی پلایا ہمارے جانوروں کو تو آپ چل پڑے پھر جب آپ ان کے پاس پہنچ گے تو ان کو اپنا پورا قصہ سنا دیا تو انہوں نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اب تم کوئی خوف نہ کرو کہ تم بچ گئے ان ظالم لوگوں سے
۲۶۔۔۔ ادھر ایک دن ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک نے اپنے والد سے کہا کہ ابا جان آپ ان کو اپنا نوکر رکھ لیجئے کیونکہ سب سے اچھا شخص جس کو آپ نوکر رکھنا چاہیں وہی ہو سکتا ہے جو طاقتور بھی ہو اور امانت دار بھی
۲۷۔۔۔ اور ان میں یہ دونوں چیزیں موجود ہیں اس پر اس لڑکی کے باپ نے موسیٰ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تم سے کر دوں اس شرط پر کہ تم آٹھ سال تک میرے یہاں ملازمت کرو اور اگر تم نے دس سال ورے کر دئیے تو یہ تمہاری طرف سے احسان ہو گا میں تم پر کوئی سختی نہیں کرنا چاہتا تم انشاء اللہ مجھے خوش معاملہ لوگوں میں سے پاؤ گے
۲۸۔۔۔ موسیٰ نے جواب دیا کہ چلو یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہو گئی ان دونوں مدتوں میں سے جو بھی میں پوری کر دوں اس کے بعد مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو اور اللہ گواہ ہے اس قول و قرار پر جو ہم کر رہے ہیں
۲۹۔۔۔ پھر جب موسیٰ نے وہ مدت پوری کر دی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چل پڑے تو راستے میں ایک موقع پر ان کو طور کی جانب سے ایک آگ سی دکھائی دی تو آپ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم ذرا ٹھہرو میں نے ایک آگ دیکھی ہے شاید میں وہاں سے تمہارے پاس کوئی خبر لے آؤں یا آگ کا کوئی انگارہ تمہارے لئے اٹھا لاؤں جس سے تم تاپ سکو
۳۰۔۔۔ مگر جب آپ وہاں پہنچے تو اس وادی کی دائیں جانب اس مبارک خطے میں ایک درخت سے آپ کو آواز آئی کہ اے موسیٰ یقینی طور پر میں اللہ ہوں سارے جہانوں کا پروردگار
۳۱۔۔۔ اور ڈال دو اپنی لاٹھی کو زمین پر اسے موسیٰ! پھر جب موسیٰ نے زمین پر ڈالنے کے بعد اس کو دیکھا تو وہ اس طرح بل کھا رہی تھی جیسے کوئی باریک پھرتیلا سانپ ہو تو آپ مارے خوف کے بھاگ کھڑے ہوئے پیٹھ پھیر کر اور مڑ کر بھی نہ دیکھا ارشاد ہوا اے موسیٰ پلٹ آؤ اور ڈرو مت بے شک تم امن والوں میں سے ہو
۳۲۔۔۔ اور مزید یہ کہ ڈالو اپنا ہاتھ گریباں میں وہ چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی بیماری اور عیب کے اور سکیڑ لو اپنا ہاتھ گریباں یا بغل کی طرف خوف کو رفع کرنے کے لئے سو یہ دو بڑی سندیں ہیں آپ کے رب کی جانب سے فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بے شک وہ بڑے بدکار لوگ ہیں
۳۳۔۔۔ (موسیٰ نے عرض کیا میرے مالک حکم سر آنکھوں پر) لیکن میں نے تو ان کا ایک آدمی قتل کیا ہوا ہے جس سے میں ڈرتا ہوں کہ کیں وہ لوگ مجھے دیکھتے ہی قتل نہ کر دیں
۳۴۔۔۔ اور میرے بھائی ہارون مجھ سے زیادہ زبان آور ہیں سو ان کو بھی میرے ساتھ بھیج دیجئے رسول بنا کر میرے مددگار کے طور پر تاکہ وہ میری تصدیق کریں مجھے سخت اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے
۳۵۔۔۔ ارشاد ہوا کہ ہم نے مضبوط کر دیا تمہارے بازو کو تمہارے بھائی کے ذریعے اور ہم تم دونوں کو ایک ایسا غلبہ بھی عطا کئے دیتے ہیں کہ وہ لوگ تمہارے قتل وغیرہ تک پہنچنے بھی نہ پائیں گے ہماری نشانیوں کے سبب یا ہماری نشانیوں کے ساتھ جاؤ تم دونوں فرعونیوں کی طرف غلبہ بہر حال تم دونوں ہی کا اور انہی لوگوں کا رہے گا جو تمہاری پیروی کریں گے
۳۶۔۔۔ پھر جب پہنچ گئے موسیٰ ان لوگوں کے پاس ہماری کھلی نشانیوں کے ساتھ تو انہوں نے کہا کہ یہ تو محض ایک جادو ہے گھڑا گھڑایا اور یہ کچھ تو ہم نے اپنے اگلے باپ دادوں کے وقت میں بھی کبھی نہیں سنا
۳۷۔۔۔ اور موسیٰ نے جواب میں فرمایا کہ میرا رب خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت لے کر آیا اس کی طرف سے اور کس کے لئے ہے اچھا انجام آخرت کے اس حقیقی اور ابدی گھر کا یہ امر بہر حال قطعی ہے کہ ظالم فلاح نہیں پا سکیں گے
۳۸۔۔۔ اور فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا اے درباریو میں اپنے سوا تمہارے لئے کسی خدا کو نہیں جانتا پس تم میرے لئے خاص طور پر اینٹیں پکواؤ اے ہامان پھر ان سے میرے لئے ایک ایسا اونچا محل بنواؤ کہ میں اس پر چڑھ کر موسیٰ کے خدا کو خود جھانک کر دیکھ سکوں میں تو اس کو قطعی طور پر جھوٹا سمجھتا ہوں
۳۹۔۔۔ اور اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہوا وہ بھی اور اس کے لشکر بھی اللہ کی زمین میں ناحق طور پر اور وہ اپنی بدبختی کے باعث یہ سمجھ بیٹھے کہ انہیں نے کبھی ہماری طرف لوٹ کر نہیں آنا۔
۴۰۔۔۔ آخرکار اپنی گرفت میں لے لیا ہم نے اس کو بھی اور اس کے سب لشکروں کو بھی پھر پھینک دیا ہم نے ان سب کو سمندر میں سو دیکھو کیسا ہوا انجام ظالموں کا
۴۱۔۔۔ اور ہم نے ان کو ان کے اپنے سوء اختیار کی بنا پر ایسے پیشوا بنا دیا جن کا کام ہی دوزخ کی طرف بلانا رہ گیا تھا اور اس کے نتیجے میں ان کو قیامت کے روز کوئی مدد نہیں مل سکے گی
۴۲۔۔۔ اور ہم نے ان کے پیچھے لگا دی لعنت اس دنیا میں تاکہ قیام قیامت اور قیامت کے روز یہ بڑے ہی بدحال لوگوں میں سے ہوں گے
۴۳۔۔۔ اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو بھی وہ کتاب دی تھی اس کے بعد کہ ہم نے ہلاک و برباد کر دیا تھا پہلی قوموں کو بصیرتوں کے سامان کے طور پر لوگوں کے لیے اور ہدایت دینے کے لئے اور رحمت کا ذریعہ بنا کر تاکہ وہ لوگ نصیحت حاصل کریں
۴۴۔۔۔ اور آپ اے پیغمبر! اس وقت طور کی مغربی جانب موجود نہ تھے جب کہ ہم نے موسیٰ کی طرف اپنا فرمان بھیجا وحی کے ذریعے اور اپنے احکام کی صورت میں اور نہ ہی آپ سرے سے ان لوگوں میں ہی شامل تھے جو اس زمانے میں موجود تھے
۴۵۔۔۔ لیکن ہم ہی نے اس دوران بہت سی نسلیں پیدا کیں پھر ان پر بھی بہت زمانہ گزر گیا اور نہ ہی آپ مدین والوں میں قیام پذیر تھے کہ ان لوگوں کو ہماری آیتیں ٹھیک ٹھیک سنا رہے ہوتے بلکہ یہ سب کچھ آپ کو ہماری وحی سے معلوم ہوا کہ ہم ہی ہیں پیغمبر بنا کر بھیجنے والے
۴۶۔۔۔ اور نہ ہی آپ طور کی جانب میں موجود تھے اس وقت جب کہ ہم نے موسیٰ کو پکارا تھا لیکن اس سب کا علم بھی آپ کو اپنے رب کی ایک خاص رحمت کے سبب ہوا تاکہ آپ خبردار کریں غفلت میں پڑے ان لوگوں کو جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں
۴۷۔۔۔ اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ان لوگوں کو آ پہنچتی کوئی مصیبت ان کے اپنے کرتوتوں کے باعث پھر یہ یوں کہتے کہ اے ہمارے رب تو نے کیوں نہ بھیجا ہماری طرف کوئی رسول کہ ہم پیروی کرتے تیری آیتوں کی اور ہم ہو جاتے ایمانداروں میں سے سو اگر یہ بات نہ ہوتی تو ہم ایسے ناشکرے اور ہٹ دھرموں کے پاس اپنا رسول بھیجتے ہی نہ
۴۸۔۔۔ مگر جب ان کے پاس آگیا حق ہماری طرف سے تو یہ ناشکرے لوگ اس کو ماننے کی بجائے یوں کہنے لگے کہ ان کو بھی وہی کچھ کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ کو دیا گیا تھا؟ کیا یہ لوگ اس سے پہلے اس کا بھی انکار کر چکے جو کہ موسیٰ کو دیا گیا تھا؟ اور انہوں نے پوری ڈھٹائی سے کہا کہ یہ دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان دونوں میں سے ہر ایک کے منکر ہیں
۴۹۔۔۔ ان سے کہو کہ اچھا تو تم خود ہی لے آؤ کوئی ایسی کتاب اللہ کے یہاں سے جو ان دونوں سے بڑھ کر ہدایت بخشنے والی ہو میں خود بھی اس کی پیروی کر لوں گا اگر تم سچے ہو
۵۰۔۔۔ پھر اگر یہ لوگ آپ کا یہ مطالبہ پورا نہ کر سکیں تو یقین جان لو کہ یہ لوگ محض اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور بدبخت اور کون ہو سکتا ہے ؟ جو اپنی خواہشات ہی کے پیچھے چلتا ہو؟ بغیر اللہ کی کسی ہدایت کے بے شک اللہ ہدایت کی دولت سے سرفراز نہیں فرماتا ایسے ظالم لوگوں کو
۵۱۔۔۔ اور بلاشبہ ہم پے درپے بھیجتے رہے اپنا کلام ان لوگوں کے (بھلے ) لئے تاکہ یہ نصیحت حاصل کریں
۵۲۔۔۔ جن لوگوں کو ہم نے اس قرآن سے پہلے کتاب دی ہے وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں
۵۳۔۔۔ اور جب یہ ان کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے یہ تو قطعی طور پر حق ہے ہمارے رب کی طرف ہم تو اسے پہلے ہی مانتے تھے
۵۴۔۔۔ ایسے لوگوں کو ان کا دوہرا اجر دیا جائے گا اس بناء پر کہ انہوں نے صبر و استقامت سے کام لیا اور یہ برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہوتا ہے اس میں سے ہماری رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں
۵۵۔۔۔ اور جب بے ہودہ بات کان میں پڑ جائے تو یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال تم کو سلام ہے ہم جاہلوں کو منہ لگانا نہیں چاہتے
۵۶۔۔۔ بے شک آپ اے پیغمبر! ہدایت نہیں دے سکتے جس کو آپ پسند کریں بلکہ اللہ ہی ہدایت کی دولت سے نوازتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے ان لوگوں کو جو ہدایت پانے والے ہوتے ہیں
۵۷۔۔۔ اور کہتے ہیں یہ ناشکرے ) لوگ کہ اگر ہم نے ہدایت کی پیروی کی آپ کے ساتھ تو اس کے نتیجے میں ہمیں اچک لیا جائے گا اپنی سرزمین سے کیا ہم نے ان کو ٹھکانا نہیں دیا ایسے پر امن حرم میں جس کی طرف کھچے چلے آتے ہیں ہر قسم کے پھل اور پیداواریں اپنی طرف سے خاص روزی سانی کے طور پر ارض حرم کے باشندوں کے لئے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں حق اور حقیقت کو
۵۸۔۔۔ اور کتنی ہی ایسی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر کے رکھ دیا جن کے باشندے بڑے نازاں تھے اپنے سامان عیش و عشرت پر سو یہ ہیں ان کے مکان جو کھنڈرات کی صورت میں سامان عبرت بنے ہوئے موجود ہیں جن میں ان کے بعد کوئی رہا بسا نہیں مگر بہت تھوڑا اور آخرکار ہم ہی ان کے وارث ہو کر رہے
۵۹۔۔۔ اور آپ کا رب ایسا نہیں اور یہ اس کی شان نہیں کہ وہ ان بستیوں کو یونہی ہلاک کر دیتا جب تک کہ ان کے مرکز میں کوئی ایسا رسول نہ بھیج دے جو ان کو پڑھ کر سنائے ہماری آیتیں اور احکام اور اس کے بعد بھی فوراً ہی ہم ان بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں مگر اس حالت میں کہ وہاں کے باشندے ظلم ہی پر کمر بستہ ہو جائیں
۶۰۔۔۔ اور جو بھی کچھ تمہیں دیا گیا ہے اے لوگو! تو وہ سب محض دنیاوی زندگی کا چند روزہ سامان اور اس کی زینت ہے اور بس اور جو کچھ اللہ کے پاس اس جہان میں رکھا ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر اچھا بھی ہے اور ہمیشہ رہنے والا بھی تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟
۶۱۔۔۔ تو کیا وہ شخص جس سے ہم نے وعدہ کر رکھا ہو عمدہ وعدہ پھر وہ اس کو پانے والا بھی ہو کہیں اس وہ شخص کی طرف ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف دنیاوی زندگی کا سامان دے رکھا ہو پھر قیامت کے روز وہ گرفتار شدہ لوگوں میں سے ہو؟
۶۲۔۔۔ اور یاد کرو لوگوں اس ہولناک دن کو کہ جس دن اللہ ان کو پکارے گا پھر وہ ان سے پوچھے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم بڑا دعوی کرتے تھے ؟
۶۳۔۔۔ اس پر بول اٹھیں گے وہ لوگ جن پر پکی ہو چکی ہو گی ہماری بات کہ اے ہمارے رب یہی ہیں وہ لوگ جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا ہم نے ان کو اسی طرح گمراہ کیا تھا جس طرح کہ ہم خود گمراہ تھے ہم آپ کے سامنے براءت کا اظہار کرتے ہیں یہ لوگ ہماری بندگی نہیں کرتے تھے
۶۴۔۔۔ اور اس کے بعد کہا جائے گا مشرکوں سے ان کی تذلیل کے لئے کہ اب پکار تم اپنے شریکوں کو چنانچہ وہ انہیں پکاریں گے پر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے اور یہ لوگ دیکھ لیں گے اس عذاب کو جو ان کو ملنے والا ہو گا اور یہ رہ رہ کر افسوس کریں گے کہ کاش کہ انہوں نے راہ راست کو اپنایا ہوتا
۶۵۔۔۔ اور یاد دہانی کراؤ ان کو اس ہولناک دن کی جس دن کہ وہ ان کو پکارے گا پھر کہے گا ان سے ان کی تذلیل و توبیخ کے لئے کہ کیا جواب دیا تھا تم لوگوں نے میرے بھیجے ہوئے رسولوں کو؟
۶۶۔۔۔ سو اس دن گم ہو کر رہ جائیں گی ان کی یہ تمام سخن سازیاں جن سے یہ لوگ آج کام لے رہے ہیں پھر نہ تو ان کو خود کچھ سوجھے گا اور نہ ہی یہ آپس میں ایک دوسرے سے کچھ پوچھ سکیں گے
۶۷۔۔۔ البتہ جس نے سچی توبہ کی ہو گی اور اس نے صدق دل سے ایمان لا کر کام بھی نیک کئے ہوں تو ایسا شخص امید ہے فلاح پانے والوں میں سے ہو گا
۶۸۔۔۔ اور تمہارا رب پیدا فرماتا ہے جو چاہتا ہے اور چنتا اور برگزیدہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے یہ اختیار ان لوگوں کا کام نہیں اللہ پاک اور برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
۶۹۔۔۔ اور تمہارا رب خوب اور ایک برابر جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ پوشیدہ ہے ان کے سینوں میں اور وہ سب کچھ جس کو یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں
۷۰۔۔۔ یہ اور وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اسی کے لئے ہے ہر تعریف دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس کی حکومت ہے اور اسی کی طرف بہر حال لوٹ کر جانا ہے تم سب کو
۷۱۔۔۔ اے لوگو! ان سے کہو کہ کیا تم لوگوں نے کبھی اس پر بھی غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک ہمیشہ کے لئے تم پر رات ہی طاری کر دے تو پھر کون سا معبود ایسا ہو سکتا ہے اللہ کے سوا جو تمہیں روشنی کی ایک کرن لا دے ؟ تو کیا تم لوگ سنتے نہیں ہو؟
۷۲۔۔۔ نیز ان سے کہو کہ کیا تم لوگوں نے کبھی اس پر بھی غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک ہمیشہ کے لئے تم پر دن ہی طاری کر دے تو پھر کون سا معبود ایسا ہو سکتا ہے اللہ وحدہٗ لا شریک کے سوا جو لے آئے تمہارے پاس ایسی رات جس میں تم سکون حاصل کر سکو؟ کیا تم لوگوں کو کچھ سوجھتا نہیں ؟
۷۳۔۔۔ اور اس نے اپنی رحمت و عنایت سے تمہارے لئے رات بھی بنائی اور دن بھی تاکہ رات کو تو تم آرام کر سکو اور دن کو اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور تاکہ تم شکر ادا کر سکو اس کی ان نعمتوں کا
۷۴۔۔۔ اور یاد دھانی کراؤ ان کو اس ہولناک دن کہ وہ ان کو پکار کر فرمائے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم لوگ دعوی اور گھمنڈ رکھتے تھے ؟
۷۵۔۔۔ اور نکال لائیں گے ہم اس روز ہر امت سے ایک گواہ پھر ہم کہیں گے لاؤ تم لوگ اپنی دلیل تب ان کو اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ حق و قطعی طور پر اللہ ہی کے لئے ہے اور گم ہو کر رہ جائیں گے ان سے وہ سب جھوٹ جو یہ لوگ گھڑا کرتے تھے
۷۶۔۔۔ بے شک قارون بھی موسیٰ کی قوم میں سے تھا مگر اس نے اپنے خبث باطن کی بناء پر ان کے خلاف سرکشی کی اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی چابیوں کو بھی ایک طاقتور جماعت کو اٹھانا مشکل ہوتا تھا اور وہ موقع یاد کرنے کے لائق ہے کہ جب اس کی قوم نے اس سے کہا کہ تو اترا نہیں بے شک اللہ پسند نہیں فرماتا اترانے والوں کو
۷۷۔۔۔ اور آخرت کے حقیقی گھر کو بنانے کی فکر کر اس مال و دولت سے جو اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اور مت بھول اپنے حصے کو دنیا سے اور بھلائی کر جس طرح کہ اللہ نے بھلائی کی ہے تجھ سے اور تو فساد کے درپے نہ ہو اللہ کی اس زمین میں بے شک اللہ پسند نہیں فرماتا فساد بپا کرنے والوں کو
۷۸۔۔۔ تو اس نے جواب میں اپنے تکبر بھرے انداز میں کہا کہ یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھے حاصل ہے کیا اس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سی ایسی امتوں کو ہلاک کر چکا ہے جو قوت میں بھی اس سے کہیں زیادہ سخت تھیں اور جمعیت کے اعتبار سے بھی اس سے کہیں بڑھ کر تھیں اور اللہ تعالیٰ کے یہاں تو مجرم لوگوں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا
۷۹۔۔۔ پھر ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ اپنی قوم کے سامنے اپنی پوری ٹھاٹھ میں نکلا تو وہ لوگ جو دنیاوی زندگی ہی چاہتے تھے کہنے لگے اے کاش کہ ہمیں بھی وہی کچھ مل جاتا جو کہ قارون کو دیا گیا ہے واقعی یہ شخص بڑے ہی نصیب والا ہے
۸۰۔۔۔ اور اس کے برعکس ان لوگوں نے جن کو علم صحیح کی دولت سے نوازا گیا تھا انہوں نے ان سے کہا افسوس ہے تم پر اے کوتاہ نظر لوگو! اللہ کا ثواب تو اس سے کہیں بڑھ کر بہتر ہے ہر اس شخص کے لئے جو ایمان لائے اور عمل بھی نیک کرے اور یہ شرف نصیب نہیں ہوتا مگر صبر کرنے والوں کو
۸۱۔۔۔ آخر کار ہم نے دھنسا دیا زمین میں اس کو بھی اور اسے گھر کو بھی پھر نہ تو وہاں کوئی ایسی جماعت تھی جو اللہ کے مقابلے میں اس کی کوئی مدد کرتی اور نہ ہی وہ خود اپنے آپ کو بچا سکا
۸۲۔۔۔ اور وہ لوگ جو کل اس کے مرتبے کی تمنا کر رہے تھے پکار اٹھے ارے افسوس ہماری نادانی پر واقعی اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جسے چاہے نپا تلا دیتا ہے اگر اللہ نے ہم پر مہربانی نہ فرمائی ہوتی تو یقیناً وہ ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا ہائے افسوس ہمیں یہ بھی معلوم نہ رہا کہ کافر لوگ کبھی فلاح نہیں پا سکتے
۸۳۔۔۔ آخرت کا یہ عظیم الشان گھر ہم ان ہی لوگوں کو دیں گے جو نہ زمین میں اپنی بڑائی اور تکبر چاہتے ہیں اور نہ کسی طرح کا کوئی فساد و بگاڑ اور یہ بہر حال حقیقت ہے کہ کامیابی انجام کار پرہیزگاروں ہی کے لئے ہے
۸۴۔۔۔ جو کوئی نیکی لے کر آئے گا تو اس کو اس سے کہیں اچھا بدلہ ملے گا اور جو کوئی برائی لے کر آئے گا تو ایسے لوگوں کو جنہوں نے برے عمل کئے ہوں گے اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنا کہ وہ عمل کرتے رہے تھے
۸۵۔۔۔ بے شک جس ذات نے فرض کیا ہے آپ پر اس قرآن کی تعلیم و تبلیغ کو وہ ضرور پہنچاوے گی آپ کو عظیم الشان انجام تک اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے کہو کہ میرا رب خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت لے کر آیا اور کون ہے وہ جو کھلی گمراہی میں پڑا غوطے کھا رہا ہے
۸۶۔۔۔ اور آپ تو کوئی امید بھی نہ رکھتے تھے کہ آپ کی طرف اتارا جائے گا اس کتاب عزیز کو مگر اس کا نزول تو محض آپ کے رب کی مہربانی سے ہوا پس آپ اس نعمت لازوال کے بعد کافروں کے لئے پشت پناہ نہیں بن جانا
۸۷۔۔۔ اور کبھی آپ کو روکنے نہ پائیں یہ لوگ اللہ کی آیتوں کی تعلیم و تبلیغ سے اس کے بعد کہ ان کو اتار دیا گیا آپ کی طرف اور آپ بلاتے رہیں اپنے رب کی راہ حق و صواب کی طرف اور کبھی مشرکوں سے نہیں ہو جانا
۸۸۔۔۔ اور پکارنا نہیں اللہ کے ساتھ کسی بھی اور خود ساختہ معبود کو کوئی معبود نہیں سوائے اس وحدہٗ لاشریک کے ہر چیز نے بہر حال ہلاک اور فنا ہو جانا ہے بجز اس کی ذات اقدس و اعلیٰ کے اسی کے لیے ہے حکم اور اسی کی طرف لوٹایا جائے گا تم سب کو اے لوگو!۔
۵۔۔۔ سو اس سے قصہ موسیٰ و فرعون کے سنانے کے اصل مدعا و مقصد کو واضح فرما دیا گیا۔ کہ فرعون اپنے خالق و مالک کے احکام کو فراموش و نظر انداز کر کے خود اپنی خدائی کا دعویدار بن گیا اور خدا کے بندوں کو خدا کی اطاعت و بندگی میں لگانے کے بجائے، ان سے خود اپنی بندگی و غلامی کرانے لگا۔ اس نے اپنے ملک کی رعایا کو مختلف حصوں اور گروپوں و طبقوں میں بانٹ دیا۔ ایک گروہ یعنی بنی اسرائیل کو اس نے دبا کر غلام بنا رکھا تھا، اور دوسرے گروہ یعنی قبطیوں کو اس نے اٹھا کر اس بات کا اختیار دے دیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل سے غلاموں کی طرح ان سے جو مرضی کام لیں۔ اور اس کے ظلم و سنگدلی کا عالم یہ تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو چن چن کر قتل کراتا، اور انکی عورتوں کو زندہ رکھ چھوڑتا۔ اور وہ خدا کی زمین میں فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا جبکہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا دستور یہ ہے کہ وہ جس کو اپنی زمین میں اقتدار بخشتا ہے عدل و انصاف اور امن و امان قائم کرنے کے لئے بخشتا ہے اور وہ فساد کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ واللّٰہ لا یُحِبُّ الْفَسَادَ، سبحانہ و تعالیٰ، اور کفر و شرک، اور خداوند قدوس کی عبادت و بندگی سے اعراض و رُوگردانی سب سے بڑا فساد ہے، کیونکہ کائنات کی اصلاح کا تقاضا اور اس کی فطرت کی آواز یہ ہے کہ عبادت و بندگی اسی خدائے واحد کی ہو جو کہ معبود برحق اور اس ساری کائنات کا خالق و مالک ہے، سبحانہ و تعالیٰ،
۸۔۔۔ سو یہ سب لوگ بڑے خطاکار تھے کہ انہوں نے اپنی حماقت کے سبب سے یہ سمجھ رکھا تھا کہ اختیار و اقتدار سب ان ہی کے ہاتھ میں ہے، کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں، اور وہ اپنے طرح طرح کے مظالم سے بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لئے دبا کر اور اپنی غلامی میں جکڑ کر رکھیں گے وہ اس اہم اور بنیادی حقیقت کو بھول گئے تھے کہ اوپر ایک قادرِ مطلق ذات بھی موجود ہے، جو اس کائنات پر حاکم و متصرف ہے سو یہ اسی کی قدرت و حکمت کا ایک عظیم الشان نمونہ و مظہر تھا کہ فرعون والے اس بچے کی پرورش خود اپنے ہاتھوں کر رہے تھے جو آگے چل کر ان کی ہمیشہ ہمیشہ کی ہلاکت و تباہی کا باعث بننے والا تھا سو جس بچے نے ان کو مستقبل میں فی النَّارِ وَالسَّقَر کرنا تھا آج ملکہ اور بادشاہ اس کی پرورش خود اپنے ہاتھوں اور شاہی اخراجات پر کر رہے تھے واقعی یہ لوگ بڑے ہی خطاکار تھے، والعیاذ باللہ العظیم۔
۱۰۔۔۔ یعنی حضرت موسیٰ کی والدہ ماجدہ نے ڈالنے کو تو حضرت موسیٰ کو بکسے میں رکھ کر سمندر میں ڈال دیا، لیکن ان کا دل صبر و قرار سے اس قدر خالی اور مضطر ہو گیا تھا کہ قریب تھا ان سے کوئی ایسی بات صادر ہو جائے جس سے سارا راز فاش ہو جائے، کہ آخر دل تو والدہ ہی کا دل تھا نہ لیکن قدرت نے ان کو سنبھالا دیا۔ تاکہ جس دولت ایمانی سے وہ بہرہ مند و سرفراز تھیں اور جس کی بناء پر انہوں نے اپنے معصوم بچے کو دریا میں ڈال دیا تھا، اس آزمائش میں وہ اس پر برقرار رہیں کہ یہ موقع بڑا ہی صبر آزما موقع تھا، کیونکہ اپنے لخت جگر کو خود اپنے ہاتھوں دریا کی موجوں کے حوالے کر دینا کوئی آسان کام نہ تھا، اس وقت ان کے دل پر جو گزری ہو گی، اس کا اندازہ ان کے رب کے سوا اور کون کر سکتا تھا۔ سو اس قادر مطلق نے اس نازک موقع پر انکو سنبھال دیا اور ان کے دل کو مضبوط رکھا جس کے نتیجے میں دامن صبر ان کے ہاتھ سے چھوٹنے نہ پایا۔ اور یہ عظیم الشان راز، راز ہی رہا، اور کسی طرح راز افشاء نہ ہونے پایا۔
۱۲۔۔۔ سو یہ قدرت کے غیبی ہاتھوں کی کارستانی کا ایک اور نمونہ و مظہر تھا جس سے حضرت موسیٰ کی ان کی والدہ ماجدہ کی طرف واپسی کی راہ کھلی اور وہ اس طرح کہ حضرت موسیٰ کو اٹھا کر بڑے چاؤ پیار سے جب فرعون کے شاہی محل لے جایا گیا، تو ظاہر ہے کہ سب سے پہلے ان کو دودھ پلانے کا مرحلہ پیش آیا۔ اس لئے اس بات کی فکر ہوئی کہ اس کو کس دایہ کا دودھ پلایا جائے، سو اس کے لئے مختلف دایوں کو بلایا گیا، اور یکے بعد دیگرے سب کو آزمایا گیا، لیکن حضرت موسیٰ نے ان میں سے کسی بھی دایہ کی چھاتی کو منہ نہیں لگایا، اس موقع پر حضرت موسیٰ کی بہن نے جو انکی خبر گیری کے لئے انکے ساتھ ساتھ چلی آ رہی تھیں آگے بڑھ کر ان لوگوں سے کہا کہ کیا میں آپ لوگوں کو ایک ایسے گھرانے کا پتہ نہ دے دوں، جو پوری ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اس کی پرورش کرے؟ ظاہر ہے کہ محل والے اس کے لئے فوراً راضی ہو گئے، چنانچہ اس کے نتیجے میں حضرت موسیٰ کی والدہ ماجدہ کو شاہی انتظام پر شاہی محل میں بلایا گیا۔ تو حضرت موسیٰ نے فوراً اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ پینا شروع کر دیا، جس سے ان سب کی پریشانی دُور ہو گئی، اور وہ سب خوش ہو گئے، مگر حضرت موسیٰ کی والدہ ماجدہ نے ان لوگوں سے کہا کہ اگر آپ لوگوں نے اس بچے کو مجھ سے دودھ پلوانا ہے تو اس کو میرے ساتھ میرے گھر بھیج دو، میں یہاں نہیں رہ سکتی تو انہوں نے اس بات کو مان لیا اور حضرت موسیٰ کو ان کے ساتھ ان کے گھر واپس بھیج دیا، اور ان کے لئے شاہی خزانے سے وظیفہ بھی مقرر کر دیا گیا اور اس طرح فرعون کے دشمن کی پرورش خود اس کے ہاتھوں اور اس کے خرچے پر ہونے لگی، اور حضرت موسیٰ کی والدہ ماجدہ کو خود اپنے بچے کو دودھ پلانے پر اجرت بھی ملنے لگی۔ فسبحان اللہ وبحمدہ، وسبحان اللہ العظیم،
۱۴۔۔۔ اَشُدّ جمع ہے شدت کی، جس کے معنی قوت کے ہیں انسان کی جسمانی قوتوں کی تکمیل کا موقع چونکہ بالعموم اس کی جوانی کی عمر ہی میں ہوتا ہے اس لئے بَلَغَ اَشُدَّہ، سے یہاں پر مراد جوانی کو پہنچنا ہے اور اس کے ساتھ وَاسْتَویٰ کے ذکر سے آپ کے عقلی اور مزاجی اعتدال و توازن کی طرف اشارہ فرما دیا گیا۔ سو مطلب یہ ہوا کہ حضرت موسیٰ جب جسمانی اعتبار سے اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور عقل اور مزاج اعتبار سے بھی اعتدال و توازن پر آ گئے، تو آپ کو حکم اور علم سے نواز دیا گیا، حکم سے مراد ہے قوت فیصلہ اور علم سے مراد ہے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی معرفت جو کہ تمام تر علم و آگہی کی اصل اور اساس ہے اور اس حکم و علم کے درجات و مراتب مختلف ہوتے ہیں اس کا سب سے اعلیٰ درجہ وہ ہوتا ہے، جس سے حضرات انبیاء ورسل کو نوازا جاتا ہے علیہم الصلوٰۃ والسلام اسی لئے قرآن حکیم میں حضرات انبیاء ورسل کے لئے یہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں لیکن یہاں پر چونکہ حضرت موسیٰ کے ابتدائی حالات زندگی کا بیان ہو رہا ہے اور نبوت سے آپ کو اس کے بہت بعد نوازا گیا، جیسا کہ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے اس لئے یہاں پر ان دونوں لفظوں سے علم و حکم کا وہ خاص مرتبہ مراد ہے جو حضرات انبیاء و رسل کو دیا جاتا ہے۔ اور پھر بطور ایک ضابطہ و اصول کے ارشاد فرمایا گیا کہ اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو اور ایسے محسن اور نیکوکاروں سے مراد وہ لوگ ہیں جو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی بخشی ہوئی قوتوں اور صلاحیتوں کو ان کے صحیح مصرف میں اور صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں سو ایسے خوش نصیبوں کو حکم و علم کی دولت سے نوازا جاتا ہے وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید،
۱۶۔۔۔ سو یہ اسی علم و حکمت کا ایک نمونہ اور مظہر تھا جس سے حضرت موسیٰ کو نوازا گیا تھا اور جس کا ذکر ابھی اوپر ہوا ہے، کوئی اور ہوتا تو اس کام کو اپنی بہادری اور شہ زوری کا نتیجہ بتاتا۔ اور اس پر فخر سے پھولے نہ سماتا۔ کہ میں نے ایک ہی گھونسے سے اس قبطی کا کام تمام کر دیا۔ لیکن اس کے برعکس حضرت موسیٰ اس کو اپنی ایک غیر ارادی غلطی بتاتے، اور اپنا ایک قصور سمجھتے ہیں۔ اور فوراً اپنے رب سے ایک معافی مانگنے لگتے ہیں، اور اس کے حضور صاف اور صریح طور پر عرض کرتے ہیں کہ اے میرے رب ! میں نے اپنی جان پر سخت ظلم ڈھا دیا، پس تو مجھے معاف فرما دے۔ سو نہ تو حضرت موسیٰ کا اس قبطی کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ تھا اور نہ ہی اس بات کا کوئی گمان تھا کہ اس طرح ایک ہی گھونسے سے ڈھیر ہو جائے گا۔ بلکہ بالکل غیر اختیاری طور پر اور بیگماں یہ حادثہ پیش گیا۔ آنجناب کو اس پر ندامت و پشیمانی بھی ہوئی، اور آپ نے فوراً اپنے رب سے معافی بھی مانگ لی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فوراً اس کو معاف فرما دیا اور غیبی طور پر آنجناب کو اس بخشش و معافی کی بشارت بھی دے دی گئی۔ بلاشبہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے، اس لئے وہ سچی توبہ پر بندے کے سب گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے، خواہ وہ کتنے ہی زیادہ اور کتنے بھی بڑے کیوں نہ ہوں کہ اس کی مغفرت و بخشش بہر حال بہت بڑی ہے، بندے کے گناہ جتنے بھی زیادہ ہوں وہ بہر حال محدود ہیں، جبکہ اس کی ناپیدا کنار اور لامحدود ہے، سبحانہ و تعالیٰ، فَاغْفِرْلِیْ یَا رَبِّیْ ذَنْبِیْ کُلَّہ، دِقَّہ، وَجِلَّہ، اَوَّلَہ، وَاٰخِرَہ، سِرّہ، وَعَلَانِیَتَہِ مَا عَلِمْتُ مِنْہُ وَمَا لَمْ اعلم، وَارْحَمْنِیْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْم۔ تبارکَ و تعالیٰ نَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ، یاذا الجلال والاکرام۔
۱۹۔۔۔ یعنی حضرت موسیٰ نے جب اس قبطی کو پکڑنا چاہا جو کہ ان دونوں کا دشمن تھا لیکن اس سے پہلے آپ نے اسرائیلی کو بھی جھڑکا کہ تو بڑا بیوقوف ہے جو روزانہ اس طرح سے جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے تو اس وجہ سے وہ ڈر گیا کہ شاید کل جو گھونسہ قبطی کو لگا تھا، آج وہ مجھ پر پڑنے والا ہے، تو اس نے گھبراہٹ میں چلا کر کہا کہ کیا آپ مجھے بھی اسی طرح قتل کرنا چاہتے ہیں جس طرح کہ کل آپ نے اس شخص کو قتل کر دیا تھا؟ سو اس طرح اس شخص نے اپنی حماقت سے قبطی کے قتل کا راز کھول دیا۔ اور شہر میں جو چرچا ہو رہا تھا کہ قبطی کو کس نے قتل کیا اس کا معمہ حل ہو گیا، جس کے نتیجے میں قدرتی طور پر فرعونیوں کے اندر حضرت موسیٰ کے خلاف غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھی۔ اور وہ لوگ حضرت موسیٰ کے قتل کے منصوبے بنانے لگے، حضرت موسیٰ کی ذات تو ان لوگوں کی نظروں میں پہلے ہی کھٹک رہی تھی، اور اس واقعے کے بعد تو ان کو آنجناب کے قتل کے لئے ایک بہانہ بھی ہاتھ آگیا۔
۲۱۔۔۔ یعنی حضرت موسیٰ کے پاس جب شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، اور اس نے آ کر حضرت موسیٰ کو اس صورت حال سے آگاہ کیا کہ اعیان حکومت کے یہاں آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے لہٰذا آپ یہاں سے نکل جائیں۔ یقیناً میں آپ کا سچا خیر خواہ ہوں، تو آپ ڈرتے ہوئے، اور بچتے بچاتے، مصر سے نکل کھڑے ہوئے، اور چونکہ آپ کو فرعونیوں کے تعاقب کا خوف و خطرہ بھی تھا اور آپ کی حمایت و امداد کا کوئی ظاہری ذریعہ و وسیلہ بھی نہیں تھا، اس لئے آپ نے اپنے رب کے حضور یہ دعا فرمائی کہ اے میرے رب مجھے ان ظالموں کے شر سے نجات دے۔
۲۴۔۔۔ اس سے کئی اہم درس ملتے ہیں، مثلاً یہ کہ حضرت موسیٰ نے جب ان دو لڑکیوں کو باقی لوگوں سے الگ اپنی بکریوں کو روکتے کھڑے دیکھا۔ تو ازراہ ہمدردی و شفقت ان سے پوچھا مَاخَطْبُکُمَا؟ اور خطب کا لفظ عربی زبان میں کسی عظیم اور اہم کام کے لئے بولا جاتا ہے سو اس لفظ کے ساتھ ان سے سوال کرنے میں یہ بات مضمر تھی کہ تمہیں کیا افتاد اور مشکل پیش آئی کہ تم کو بکریاں چرانے کے اس پُر مشقت کام کے لئے مجبور ہونا پڑا؟ تو انہوں نے جب حقیقت حال کو اپنی اصل اور صحیح صورت میں ان کے سامنے رکھ دیا۔ تو اس کے نتیجے میں حضرت موسیٰ کے اندر حمایت و خدمت ضعیف کا جذبہ بھڑکا، اور آپ نے اپنی تکلیف اور مصیبت کے باوجود ان کی بکریوں کو پانی پلایا۔ اور پھر کسی صلہ اور بدلہ کے سوال یا توقع کے بغیر آپ واپس جا کر اسی درخت کے سائے کے نیچے بیٹھ گئے جہاں سے آپ اٹھ کر آئے تھے۔ اور یہی صفت اور شان ہوتی ہے حضرات انبیاء ورسل کی، کہ وہ مخلوق سے کسی صلہ و بدلہ اور اجر و عوض کے طالب نہیں ہوتے، بلکہ ان کا صاف اور صریح طور پر اعلان ہوتا ہے کہ ہمارا تو اجر اللہ ہی کے ذمے ہے۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلاَّ عَلَی اللّٰہِ اور یہ ان سب حضرات کا مشترکہ اعلان ہوتا ہے۔ پھر حضرت موسیٰ نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا کہ اے میرے رب تو میرے لئے جو بھی خیر اور بھلائی اتار دے میں اس کا محتاج ہوں، چنانچہ اس کے بعد آپ کے لئے حضرت شعیب کے یہاں حاضری اور انکی حمایت کی راہ کھل گئی۔ سو اس سے آپ نے یہ اہم اور بنیادی تعلیم دی کہ انسان کو ہمیشہ اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کرنا۔ اور اسی سے مانگنا چاہیئے، اور یہ خدمت خلق کا جو موقع ملے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضاء و خوشنودی کے لئے انکی خدمت کرنی چاہیئے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید، بکل حالٍ من الااحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ،
۲۵۔۔۔ یعنی اس طرح حضرت موسیٰ جب حضرت شعیب کی خدمت میں پہنچ گئے، اور ان سے اپنا سارا ماجرا سنا دیا، تو انہوں نے آپ کو اطمینان دلاتے ہوئے آپ سے فرمایا کہ اب آپ کسی طرح کا کوئی خوف و اندیشہ نہ کرو۔ کہ اب آپ نے ظالم لوگوں سے نجات پالی۔ سو اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی اس دعاء کی قبولیت کی خوشخبری مل گئی، جو آپ نے مصر سے نکلتے وقت اپنے رب کے حضور اس طرح کی تھی رَبِّ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ۔ یعنی اے میرے رب مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات دے دے۔
۲۶۔۔۔ یعنی بہترین ملازم اور خادم میں ان دو بنیادی باتوں کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے ایک یہ کہ وہ جسمانی طور پر قوی یعنی طاقتور ہو، تاکہ وہ خدمت کرنے کے لائق ہو اور جو کام اس کے ذمے لگایا جائے وہ اس کو بحسن و خوبی کر سکے۔ کہ خادم اور نوکر سے اصل مقصود و مطلوب یہی ہوتا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ امانتدار ہو تاکہ اس پر بھروسہ اور اعتماد کیا جاس کے۔ اور ان کے اندر یہ دونوں باتیں موجود ہیں جہاں تک ان کی جسمانی قوت اور طاقت کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ انسان کو ان کو دیکھنے سے خود ہی کر سکتا ہے، نیز انہوں نے ان دونوں لڑکیوں کی بکریوں کو پانی پلانے کے سلسلے میں تن تنہا وہ کام کیا جو کئی لوگ مل کر کرتے تھے تو اس سے بھی ان کی جسمانی قوت کا اندازہ باآسانی کیا جا سکتا ہے، اور جہاں تک ان کی دیانت و امانت کا تعلق ہے اس کا اندازہ اگرچہ تجریہ ہی سے ہو سکتا ہے جو عام حالات میں بہت دیر سے ہوتا ہے جب کسی سے واہ پڑتا ہے لیکن بعض حالات میں اس کا اندازہ پہلی نظر ہی سے ہو جاتا ہے آدمی کی پیشانی اس کی نگاہیں، اور اس کا چہرہ مہرہ خود بتا دیتا ہے کہ یہ کس کردار کا شخص ہے؟ چنانچہ ان صاحبزادی صاحبہ نے حضرت موسیٰ کی مروت و بے نیازی اور پاکیزہ نگاہی کا تجربہ خود کر لیا تھا مزید برآں حضرت موسیٰ نے اپنی جو سرگزشت حضرت شعیب کو سنائی اس سے بھی یہ حقیقت واضح ہو گئی تھی کہ یہ کس عزم و ہمت اور کیسی سیرت و کردار کے مالک ہیں۔ سو اس سے انسان کی سیرت اور اس کے کردار کی پاکیزگی کی عظمت شان اور اس کی تاثیر بھی واضح ہو جاتی ہے کہ وہ کس طرح انسان کو دوسروں کے دلوں میں بٹھا دیتی ہے۔ اللہ نصیب فرمائے اور ایسی اور اس درجہ نصیب فرمائے کہ وہ خالق و مالک بھی ہم سے راضی ہو جائے۔ اور اس کی مخلوق بھی آمین ثم آمین
۲۸۔۔۔ یعنی حضرت شعیب نے حضرت موسیٰ کو جو پیشکش کی اور اس کے لئے جو شرط انہوں نے رکھی حضرت موسیٰ نے ان دونوں کو منظور کر لیا، اور مدت کے بارے میں فرمایا کہ آٹھ اور دس سال کی ان دو مدتوں میں سے جونسی مدت بھی میں پوری کر سکا، اس کا مجھے اختیار حاصل ہو گا، نقول سے یہاں پر جس قول کا ذکر فرمایا گیا ہے اس سے دراصل عہد و پیمان مراد ہے یعنی ہم جو قول و قرار اور عہد و پیمان آپس میں کر رہے ہیں اللہ اس پر ہمارا گواہ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس کی گواہی سے بڑھ کر اور کسی کی گواہی ممکن ہی نہیں، اس لئے ہمیں اس عہد و پیمان کی پابندی بہر حال کرنی ہے۔
۲۹۔۔۔ یعنی حضرت موسیٰ مدت موعود پوری کرنے کے بعد اپنے بیوی بچوں کے ساتھ واپس مصر کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں جب آپ کوہِ طور کے نزدیک پہنچے تو یہ صورت حال پیش آئی کہ رات بھی اندھیری تھی اور سردی بھی تھی اور اندھیرے میں راستے کا بھی پتہ نہیں چل رہا تھا تو آپ کو کوہِ طور کی طرف سے ایک چمک سی دکھائی دی تو آپ نے اپنے بیوی بچوں سے فرمایا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرو مجھے آگ کی چمک نظر آتی ہے اس لئے میں وہاں جاتا ہوں اگر وہاں کوئی مل گیا تو اس سے راستے کا پتہ کر لوں گا یا پھر کم از کم وہاں سے آگ کا کوئی انگارہ اٹھا لاؤں گا، تاکہ تم لوگ آگ تاپ سکو۔
۳۰۔۔۔ یعنی حضرت موسیٰ جب آگ لینے کے ارادے سے وہاں پہنچے تو وہاں پر آپ کو اس وادی مبارک کے کنارے سے جو کہ ایک مبارک خطے میں واقع تھی، ایک خاص درخت سے یہ آواز سنائی دی کہ اے موسیٰ! میں اللہ ہوں پروردگار سارے جہانوں کا۔ یعنی یہاں پر آگ وغیرہ کوئی نہیں جیسا کہ آپ نے سمجھا تھا بلکہ یہ پروردگار عالم کے نور بے کیف کی تجلی کا ایک مظہر تھا، جو آپ کو نظر آیا تھا اور اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کے اس اعلان و اظہار سے پہلے اس مقام کی عظمت شان کے بارے میں تین باتوں کا ذکر فرمایا گیا، اول یہ کہ یہ آواز وادی مبارک کی طرف سے آئی۔ دوم یہ کہ یہ وادی ایک مبارک خطے میں واقع تھی اور سوم یہ کہ یہ آواز ایک خاص درخت سے آئی سو ان تینوں باتوں کے ذکر و بیان سے واضح فرما دیا گیا کہ حضرت موسیٰ کو یہ آواز فضائے لامتناہی کے اندر کسی مبہم اور بے جہت آواز کی صورت میں نہیں سنائی دی۔ بلکہ یہ آواز آنجناب کو جہت و مقام کے تعین کے ساتھ ایک مبارک وادی مبارک خطے، اور مبارک درخت سے سنائی دی۔ اور کسی وادی یا خطے یا درخت کا مبارک ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے نور و ظہور کے لئے منتخب فرمایا ہے اور اس کے منتخب فرمانے کا لازمی تقاضا یہ ہے، کہ ایسا مقام اس کے قدوسیوں کی جلوہ گاہ اور ہر قسم کی شیطانی در اندازی سے پاک و محفوظ ہو۔ سو ایسے ممتاز ومقدس اور برکتوں بھرے مقام سے حضرت موسیٰ کو یہ مقدس اور پاکیزہ آواز سنائی دی۔ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام
۳۲۔۔۔ سو ان دونوں آیات کریمات سے حضرت موسیٰ کے ان دو معجزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جن سے آنجناب کو نبوت سے سرفراز فرمائے جانے کے بعد اس موقع پر نوازا گیا تھا، یعنی عصا اور یدبیضاء کے دو معجزے، اور ساتھ ہی آنجناب کو اس مہم سے بھی آگہی بخشی گئی، جو انکے منصب رسالت کا ایک اہم تقاضا اور بنیادی مہم تھی۔ یعنی فرعون جیسے سرکش انسان اور اس کی فاسق و بدکار قوم کو حق کا پیغام سنانا۔ سو آنجناب کو ہدایت فرمائی گئی کہ ان دو نشانیوں کے ساتھ مسلح ہو کر تم فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ، اور ان کو حق کا پیغام سناؤ، کہ وہ بڑے سرکش اور نافرمان لوگ ہیں۔ حضرت موسیٰ کے اس واقعے سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت بھی پوری طرح واضح ہو جاتی ہے، کہ نبوت خالصۃً ایک وہبی چیز ہوتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے اپنے بندوں میں سے ان کو نوازتا ہے جن کو وہ شرف نبوت و رسالت کے لئے چنتا اور منتخب فرماتا ہے ان حضرات میں سے کسی کو اس کا سان و گمان بھی نہیں ہوتا کہ ان کو اس منصب جلیل سے نوازا جانے والا ہے، اس کی طلب یا تمنا تو دور کی بات ہے، ان کو اس بات کا بھی کوئی سان و گمان نہیں ہوتا کہ ان کو اس کے لئے چنا جانے والا ہے، اب یہاں دیکھئے حضرت موسیٰ کوہِ طور پر آگ لینے جاتے ہیں مگر آپ کو قدرت کی فیاضیوں سے منصب رسالت سے سرفراز کر دیا جاتا ہے، پھر آگے جب آپ کو معجزہ عصا سے نوازا جاتا ہے، تو آپ اپنی لاٹھی کو ہلتا اور چلتا ہوا سانپ دیکھ کر اس سے ڈر جاتے ہیں تو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی طرف سے آپ کو اطمینان دلایا جاتا ہے، کہ موسیٰ آگے بڑھو اور ڈرو نہیں آپ کے لئے اس میں کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں، بلکہ آپ امن و امان والوں میں سے ہیں اور دوسرے مقام پر فرمایا گیا کہ میرے رسول میرے یہاں ڈرتے نہیں۔ سو حضرات انبیاء ورسل کی شان یکسر الگ شان ہوتی ہے۔ علیہم الصلوٰۃ والسلام،
۳۵۔۔۔ سو اس سے ایک طرف تو اس بات کو واضح فرما دیا گیا کہ حضرت موسیٰ کی دعا جو آپ نے حضرت ہارون کے بارے میں بارگاہ ایزدی میں پیش کی تھی۔ اس کو قبول فرما لیا گیا، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارہ صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَکَ یَا مُوْسیٰ یعنی آپ کی دعا و درخواست کو اے موسیٰ قبول کر لیا گیا، اور دوسری طرف اس سے یہ بھی ان دونوں کو فرعون کے مقابلے میں غلبے کی بشارت سے نواز دیا گیا چنانچہ ان دونوں کی تسکین و تسلیہ کے لئے ان سے فرمایا گیا کہ ہم تم دونوں کو فرعونیوں کے مقابلے میں ایسا غلبہ و دبدبہ عطا کریں گے، اور ان پر تمہارا رعب ایسا جما دیں گے کہ ان کو تم پر دست درازی کی ہمت نہیں ہو سکے گی۔ چنانچہ بعد میں ایسے ہی ہوا کہ فرعون اور اس کے اعیان و انصار کو جبر و قہر اور ظلم و عدوان کے تمام اسباب و وسائل سے لیس ہونے کے باوجود کبھی اس بات کی جرأت و ہمت نہ ہو سکی کہ وہ ان پر کسی طرح کی دست درازی کریں۔ اور اس کی اصل اور بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کو حضرت موسیٰ کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والی مختلف آیات اور معجزات کی بناء پر اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ حضرت موسیٰ و ہارون واقعی حق پر ہیں، اور انکی پشت پر غیبی قوت کی تائید موجود ہے اس لئے ان پر ہاتھ ڈالنے کا مطلب اپنے آپ کو ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں دھکیلنا ہے چنانچہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا (النمل۔ ۱۴) یعنی انہوں نے ان نشانیوں کا انکار کیا جبکہ ان کے دلوں میں انکی صداقت و حقانیت کے بارے میں پورا یقین موجود تھا، محض ظلم اور سرکشی کی بناء پر والعیاذُ باللہ جل وعلا
۳۸۔۔۔ سو فرعون نے ایک طرف تو اپنے درباریوں سے خطاب کر کے یہ کہا کہ میں اپنے سوا تمہارے لئے کوئی معبود نہیں جانتا جیسا کہ موسیٰ کہتا ہے اور دوسری طرف اس نے اپنے وزیر ہامان کو حکم دیا کہ تم میرے لئے مٹی کی ایک عمارت بنا کر اس پر آگ دہکا دو۔ تاکہ وہ خوب مضبوط اور پکی ہو جائے اور میں اس پر چڑھ کر موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھ سکوں کہ وہ کہاں بیٹھا ہے اور میں تو اس شخص کو بالکل جھوٹا سمجھتا ہوں اور اس ملعون کی اس بات کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا ہے اے ہامان! میرے لئے ایک اونچی عمارت بنوا۔ تاکہ میں اس کے ذریعے آسمانوں کے اطراف تک پہنچ سکوں مختلف تواریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مصر اور نینویٰ وغیرہ کے مختلف علاقوں میں تعمیر کا یہ طریقہ معروف رہا کہ وہ لوگ مٹی کے مکان بنا کر ان پر خوب آگ دہکاتے۔ جس سے وہ عمارتیں پختہ ہو جاتیں، اس سے ان کی دیواروں پر میناکاری کی صورتیں بھی پیدا ہوتی جاتیں، اور وہ بارش وغیرہ کے اثرات سے بھی محفوظ ہو جاتیں، سو اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مادہ پرست لوگوں کی ذہنیت ہمیشہ ایک ہی رہی۔ ہزاروں سال پہلے بھی ان کا حال یہی تھا، اور ہزاروں سال بعد آج بھی یہی ہے کہ وہ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کو اپنی مادی اور قاصر و محدود آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں، حالانکہ اس کی ذات اقدس و اعلیٰ اس سے کہیں اعلیٰ و بالا ہے کہ انسان ضعیف البنیان اس کو اپنی ان ظاہری اور محدود و قاصر آنکھوں سے دیکھ سکے، اس کو دیکھنے کے لئے دل کی آنکھیں چاہئیں۔ سو وہ وہی ہے جس نے اس عظیم الشان اور حکمتوں بھری کائنات کو اور اس کی ایک ایک چیز کو پیدا فرمایا اور جو اس کو قائم اور باقی رکھے ہوئے ہے، اور اس کو ماننے کا صحیح طریقہ وہی ہے جو اس نے خود بتایا یا اس کے رسول نے بتایا اور بس۔ سبحانہ و تعالیٰ،
۴۲۔۔۔ سو حق کے انکار اور اس کی تکذیب کا نتیجہ و انجام یہی ہوتا ہے کہ ایسے لوگ دنیا میں بھی لعنت و پھٹکار کے مورد و مستحق بنتے ہیں اور آخرت میں بھی ذلیل و خوار اور مستحق نار ہونگے، پس تکذیب و انکار حق دارین کی محرومی کا باعث اور دائمی ہلاکت و تباہی کا سبب ہے، والعیاذُ باللہ۔ یہی مضمون سورہ ہود میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں نے فرعون کے معاملے کی پیروی کی۔ حالانکہ فرعون کا معاملہ درست نہیں تھا، قیامت کے روز وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہو گا۔ سو وہ ان کو لے جا کر دوزخ کے گھاٹ پر اتارے گا۔ اور بڑا ہی برا گھاٹ ہو گا وہ جس پر ان کو اتارا جائے گا، اور اس دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی اور قیامت کے دن بھی بڑا ہی برا صلہ ہو گا جو ان کو دیا جائے گا۔ (ہود۔٩۷۔ تا٩٩) والعیاذ باللہ العظیم۔
۴۶۔۔۔ ان آیات کریمات میں وَمَا کُنْتَ (آپ وہاں موجود نہیں تھے) کے اعادہ وتکرار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت و حقانیت کو واضح فرمایا گیا ہے کہ آپ جب ان اور ان مقامات پر موجود نہیں تھے پھر بھی آپ ان کے بارے میں اصل حقائق کو صحیح طور پر اور بالکل مطابق واقعہ بیان کرتے ہیں، تو یہ اس بات کی کھلی دلیل اور اس کا واضح ثبوت ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اس کی وحی آپ کے پاس آتی ہے جس کے ذریعے آپ یہ حقائق اس قدر صحت و صفائی کے ساتھ بیان کرتے ہیں سو پیغمبر سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ آپ اس وقت کوہِ طور کی مغربی جانب میں موجود نہیں تھے، جبکہ ہم نے معاملے کا فیصلہ کر کے موسیٰ کو آگاہ کر دیا یعنی جب موسیٰ کو کتاب دی گئی، نہ آپ اس وقت وہاں موجود تھے اور نہ ہی آپ ان لوگوں میں شامل تھے جو اس وقت وہاں موجود تھے۔ مگر اس کے باوجود آپ یہ ساری سرگذشت اسقدر صحت و صفائی اور ایسی باریک تفصیلات کے ساتھ سنا رہے ہیں سو ہم ہی نے آپ کو ان تمام تفصیلات سے آگہی بخشی۔ اور یہ اس لئے کہ حضرت موسیٰ کے بعد ہم نے بہت سی نسلیں پیدا کیں تو ان پر ایک طویل زمانہ گزر گیا۔ اور لوگ ہماری اس کتاب کو بھلا بیٹھے جو ہم نے ہدایت و رحمت بنا کر ان کے لئے نازل کی تھی۔ اس لئے ہماری رحمت کے تقاضے کے طور پر یہ ضروری ہوا کہ ہم آپ کے ذریعے ان کو ازسر نو ہدایت سے نوازیں، اور اسی طرح آپ مدین میں بھی موجود نہیں تھے کہ حضرت موسیٰ کے اس دور کے ان حالات سے واقف ہو سکتے، جن سے ان کو وہاں سابقہ پیش آیا، یا آپ حضرت شعیب کی دعوت اور اس کے جواب میں انکی قوم کی تکذیب اور ان کے انجام سے واقف ہوتے لیکن ہم ہی نے آپ کو ان سب احوال سے آگہی بخشی اور ہم نے آپ کو بھی شرف نبوت و رسالت سے نوازا، جس طرح کہ ہم نے آپ سے پہلے رسول بھیجے، اور اسی طرح آپ کوہِ طور کے پاس بھی اس وقت موجود نہیں تھے جبکہ ہم نے موسیٰ کو آواز دی تھی لیکن اس سب کے باوجود آپ کا ان تمام حالات کو اس طرح صحت و صفائی اور تفصیل کے ساتھ بیان کرنا، اس بات کی واضح نشانی اور کھلی دلیل ہے، کہ آپ ہمارے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ اس لئے یہ سب کچھ آپ ہماری بھیجی ہوئی وحی کے ذریعے ہی سنا اور بتا رہے ہیں، یہاں پر وَمَا کُنْتَ کے اس اعادہ و تکرار سے دوسری اہم حقیقت یہ بھی واضح فرما دی گئی کہ پیغمبر حاضر و ناظر اور ہر جگہ موجود نہیں ہوتے، جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ہے، سو ایسا کہنا اور سمجھنا ایسی تمام آیات کریمات کے ساتھ کھلا معارضہ ہے، والعیاذُ باللہ العظیم،
۴۸۔۔۔ سو اس سے منکر و ہٹ دھرم لوگوں کے عناد و انکار اور ان کی ہٹ دھرمی اور ناشکری کے کئی نمونے سامنے آتے ہیں، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ان لوگوں پر ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی بناء پر کوئی مصیبت آ جاتی تو اس وقت یہ چیخ چیخ کر کہتے کہ اے ہمارے رب تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا، تاکہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے، اور ہم ایمانداروں میں سے ہو جاتے، لیکن جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آگیا تو انہوں نے ماننے کے بجائے الٹا اعتراضات کرنے شروع کر دیئے، یعنی ہم نے ان پر انکے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے نتیجے میں اپنا رسول بھیجنے سے پہلے کوئی عذاب نہیں بھیجا بلکہ اتمام حجت، قطع عذر، اور ان کے شکوک و شبہات کے ازالے کے لئے خاص اپنے پاس سے حق نازل فرمایا۔ اور ہمارے بھیجے ہوئے رسول حق ہماری طرف سے اتاری گئی کتاب حق لے کر ان کے پاس پہنچ گئے، تو انہوں نے ان پر ایمان لانے اور ان کی پیش کردہ کتابِ حق و ہدایت سے مستفید و فیضیاب ہونے کے بجائے الٹا ہمارے رسول پر یہ اعتراض کر دیا کہ ان کو بھی اسی طرح کے معجزے کیوں نہ دیئے گئے، جس طرح کے معجزات حضرت موسیٰ کو دیئے گئے تھے یہ اعتراض کرنے والے اگرچہ کفار قریش تھے لیکن ان کو یہ پٹی پڑھانے والے دراصل ہی یہود تھے، جو ان کو سکھاتے پڑھاتے تھے کہ ہمارے رسول تو فلاں فلاں معجزات لے کر آئے تھے تو پھر ان کو ایسے معجزے کیوں نہیں ملے؟ تو اس کے جواب میں قرآن نے فرمایا کہ کیا انہوں نے اس کا بھی انکار نہیں کیا تھا جو کچھ کہ موسیٰ کو دیا گیا تھا؟ یعنی انہی جیسے دل و دماغ رکھنے والوں اور ان کے بڑوں نے اس سے پہلے حضرت موسیٰ کو بھی اسی طرح جھٹلایا تھا جس طرح کہ آج یہ لوگ نبی آخرالزمان کو جھٹلا رہے ہیں اور انہوں نے حضرت موسیٰ اور ہارون کے معجزات کو دیکھ کر کہا تھا کہ یہ دونوں نرے جادو ہیں، جن کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔
۵۰۔۔۔ یعنی آپ کے اس چیلنج کے جواب میں اگر یہ لوگ نہ تو اس سے زیادہ کوئی ہدایت بخش کتاب پیش کر سکتے ہیں، اور نہ ہی یہ اس کتاب ہدایت پر ایمان لانے اور اس کی پیروی کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں جو آپ ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش کر رہے ہیں، تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ہدایت کی پیروی چاہتے ہی نہیں، بلکہ ان کا اصل مقصد و مطلب صرف اپنی خواہشات کی پیروی ہے اور بس اور جس کا مقصد خواہشات نفس کی پیروی ہی رہ جائے اس سے بڑھ کر گمراہ اور بدبخت اور کوئی نہیں ہو سکتا، پس ان لوگوں کے سوالات و اعتراضات اور ان کے طرح طرح کے مطالبات سب کچھ دراصل انکی خواہش پرستی ہی کے روگ کا نتیجہ ہے اور ایسے لوگوں کے اندر حق و باطل کی تمیز اور خیر و شر کے درمیان فرق و امتیاز کی صلاحیت اور طلب ہی باقی نہیں رہتی یہاں تک کہ خواہش پرستی کے روگ سے انکی عقلیں ہی مغلوب اور مسلوب ہو جاتی ہیں، جبکہ فوز و فلاح کا راستہ یہ ہے کہ خواہشات کی پیروی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی روشنی میں اور اس کے تابع ہو۔ اور اسی حد تک کی جائے جتنی کہ اجازت ملی ہو، اور جو لوگ اس کے بجائے اپنے نفسوں کی باگ ڈور اپنی خواہشات ہی کے حوالے کر دیتے ہیں، وہ بڑے محروم اور ظالم ہیں۔ اور ظالموں کو نور حق و ہدایت سے سرفرازی کی توفیق نہیں مل سکتی۔ جس سے وہ ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہو جاتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم،
۵۶۔۔۔ اور یہ اس لئے کہ ہدایت کا اصل دار و مدار انسان کی طلب و تمنا پر ہے، اور طلب و تمنا کا تعلق انسان کے دل سے ہے اور دلوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے، کہ کس کے دل کی کیفیت کیا ہے؟ اور کون کس لائق ہے؟ اس لئے وہی جس کو چاہتا ہے نورِ حق و ہدایت سے نوازتا ہے، صحیح بخاری وغیرہ کی روایت کے مطابق جب ابوطالب کی موت کا وقت آیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم انکے پاس تشریف لے گئے۔ جبکہ اس وقت ابوجہل وغیرہ بھی ان کے پاس موجود تھے تو حضور نے ان سے فرمایا چچا جان لَا اِلٰہَ الاَّ کہہ لیجئے، تاکہ میں اس کلمے کی بناء پر کل قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کے بارے میں کچھ عرض کر سکوں، تو اس پر ابوجہل اور عبد اللہ بن امیہ نے ابو طالب سے کہا کہ کیا تم عبدالمطلب کے آبائی دین سے پھرنے لگے ہو؟ پھر وہ دونوں ابوطالب سے اسی طرح کی باتیں کرتے رہے۔ یہاں تک کہ سب سے آخری بات جو ابوطالب نے کہی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب ہی کی ملت پر ہوں، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس کے باوجود آپ کی بخشش کے لئے دعا کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ مجھے اس سے روک نہ دیا جائے تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ پیغمبر اور ایمان والوں کے لئے یہ بات جائز نہیں، کہ وہ مشرکوں کے لئے بخشش کی دعا کریں۔ خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، اس کے بعد کہ ان کے لئے یہ بات واضح ہو جائے کہ وہ دوزخی ہیں (التوبۃ۔۱۱۳) نیز یہ آیت کریمہ بھی نازل ہوئی کہ پیغمبر آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے۔ بلکہ اللہ ہی جس کو چاہے ہدایت دے۔ یعنی سورہ قصص کی یہی آیت کریمہ (آیت نمبر۵۶) (صحیح بخاری) اور صحیح بخاری ہی میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب ابو طالب کو ہو گا (اَہْوَنُ عَذَابًا مِنْ اَہْلِ النَّارِ ابو طالب) اور پھر اس سب سے ہلکے عذاب کی تشریح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یوں فرمائی کہ اس نے آگ کے دو جوتے پہنے ہونگے جن سے اس کا دماغ کھول رہا ہو گا (ہُوَ مُنْتَعِلٌ بِتَعْلَیْنِ یَغْلِیْ مِنْہُمَا دِمَاغُہ) (صحیح بخاری) بڑی حیرت اور سخت تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو ان صریح نصوص کے باوجود ابوطالب کے ایمان کے قائل ہیں۔ فَالی اللہ المشتکی وُہو المستعان فی کل حینٍ واٰن،
۵۹۔۔۔ ربَّانی سے خداوند قدوس کی ایک سنت اور اس کے دو مرحلوں کو بیان فرما دیا گیا ہے سو وہ سنت الٰہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا۔ جب تک کہ اس کی مرکزی بستی میں ایک رسول بھیج کر ان کو اپنی آیات اچھی طرح سنا نہ دے، اور دوسرا مرحلہ اس کی اس سنت کا یہ ہے کہ وہ کسی بستی کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ وہ لوگ رسول کی دعوت کا نکار کر کے ظالم نہ بن جائیں۔ اور پیغمبر کے تمام تر انذار اور تنبیہ و تذکیر کے باوجود وہ اپنے کفر و شرک اور تکذیب و انکار حق پر اڑے ہی رہیں۔ سو اس کے بعد ایسے لوگوں کو ایک خاص وقت تک مہلت دینے کے بعد عذاب الٰہی میں دھر لیا جاتا ہے، اور ایسے میں ان پر عذاب بھیجنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ظلم نہیں ہوتا بلکہ عدل و انصاف کا تقاضا ہوتا ہے، اور ایسی صورت میں یہ لوگ اپنی جانوں پر خود ظلم کرنے والے ہوتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا کی راہوں پر قائم اور مستقیم و ثابت قدم رکھے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین
۶۰۔۔۔ یعنی کیا تم لوگوں کو اتنی واضح اور اس قدر موٹی حقیقت بھی سمجھ نہیں آتی کہ ایک طرف تو دنیاوی زندگی کی یہ چند روزہ متاع اور اس کی زیب و زینت اور چمک دمک ہے، اور دوسری طرف آخرت کی وہ عظیم الشان اور بے بہا نعمتیں ہیں جو دنیاوی نعمتوں سے کہیں بڑھ کر عمدہ اور بہتر بھی ہیں، اور ہمیشہ باقی رہنے والی سدا بہار بھی، جن سے اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے اپنے خاص بندوں کو نوازے گا۔ سو کتنے بدنصیب اور کس قدر محروم اور خسارے والے ہیں وہ لوگ جو آخرت کی ان حقیقی اور اَبَدی نعمتوں اور ان کے تقاضوں کو بھول کر اور ان کو پس پشت ڈال کر، حیات دنیا کی ان عارضی اور فانی نعمتوں اور وقتی لذتوں ہی کو اپنا مقصد اور نصب العین بنائے ہوئے ہیں، اور وہ انہی کے لئے جیتے اور انہی کے لئے مرتے ہیں، تو کیا تم لوگ اپنی عقلوں سے کام نہیں لیتے؟
۶۱۔۔۔ سو اس سے ملذات دنیا کے دلدادوں، اور آخرت سے غفلت میں پڑے ابنائے دنیا کے دلوں پر ایک اور دستک دی گئی ہے، تاکہ ان کی آنکھیں کھل سکیں، اور وہ ہوش کے ناخن لے کر راہ راست پر آ سکیں اور تلافی مافات کے لئے فکر و کوشش کر سکیں، سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے آخرت کی حقیقی اور اَبَدی بادشاہی کا وعدہ فرما رکھا ہے اور جس کو انہوں نے لازماً اور بہر حال پانا ہے، کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کو حیاتِ دنیا کی چند روزہ متاع فانی تو ملی ہے مگر آخرت میں ان کو مجرموں کی طرح نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ گھسیٹ کھینچ کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا، سو اب تم لوگ خود بتاؤ کہ ان دونوں فریقوں میں سے بہتر انجام والا کون ہے؟ فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (الانعام۔ ٨۱) یعنی ان دونوں فریقوں میں سے کونسا امن و امان کا حقدار ہے؟ اگر تم لوگ جانتے ہو؟ وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید، وہو الہادی الی سواء السبیل،
۶۳۔۔۔ یہاں پر حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ سے مراد وہ مشرکین ہیں جن کے بارے میں خداوند قدوس کی طرف سے فیصلہ عذاب صادر ہو جائے گا سو اپنا ہولناک انجام دیکھ لینے کے بعد آخری عذر کے طور پر وہ اپنے ان لیڈروں، پلیڈروں، اور سربراہوں کھڑپینچوں کی طرف اشارہ کر کے کہ جن کے پیچھے وہ دنیا میں چلتے رہے تھے، اور جن کے کہنے اور ورغلانے پر وہ کفر و شرک وغیرہ کی گمراہیوں میں مبتلا رہے تھے، اور حق بات سننے ماننے کو تیار نہیں ہو رہے تھے، اس موقع پر وہ ان کی طرف اشارہ کر کے کہیں گے کہ اے ہمارے رب یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا اگر یہ نہ ہوتے تو ہم کبھی گمراہ نہ ہوتے۔ بلکہ ہم ایمان لے آتے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ وہ ان سے خطاب کر کے کہیں گے لَوْلَا اَنْتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِیْنَ (سبا۔۳۱) یعنی اگر تم لوگ نہ ہوتے تو ہم یقیناً مومن ہوتے اس پر ان کے لیڈر ان سے کہیں گے اَغْوَیْنَاہُمْ کَمَا غَوَیْنَا، یعنی ہم نے ان کو ویسے ہی گمراہ کیا جیسے کہ ہم خود گمراہ تھے۔ یعنی ہم جیسے خود تھے ویسے ہی ان کو بنایا۔ یہ خود بدبخت اور شامت زدہ تھے کہ انہوں نے ہماری پیروی کی ہم تیرے حضور اے ہمارے رب ان کے اعمال کی ذمہ داری سے اپنی برأت کا اعلان کرتے ہیں یہ لوگ ہماری پرستش نہیں کرتے تھے بلکہ یہ دراصل اپنی خواہشات کے پجاری تھے۔ اسی لئے انہوں نے راہ حق کو چھوڑ کر ہماری پیروی کی راہ کو اپنایا تھا۔ کہ ان کو اتباع ہَویٰ کا اپنا من بھاتا کھاجا۔ اسی صورت میں اور اسی طریقے سے مل سکتا تھا، سو سارا قصور ان کا خود اپنا ہے، والعیاذ باللّٰہ مِنْ کُلِّ زَیْغٍ وَّضَلَالٍ، وَسُوْءٍ وَّاَنْحِرف، بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الْاَحْوَالِ، وَفِی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ الْواطنِ فی الحیاۃ۔
۶۸۔۔۔ پس نہ اس کی ذات و صفات میں کوئی اس کا شریک وسہیم ہے اور نہ ہی اس کے حقوق و اختیارات میں، وہ ایسے تمام تصورات سے پاک اور اعلیٰ و بالا ہے جو لوگ اپنے طور پر اور اپنے خیال کے مطابق اس کو دنیاوی بادشاہوں وغیرہ پر قیاس کر کے اس کے بارے میں قائم کرتے ہیں، کہ وہ شرک اور اس کے ہر شائبے سے پاک ہے جن لوگوں نے فرشتوں وغیرہ جیسی کسی مخلوق کو اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا ہے، وہ سب ان کی اپنی کور باطنی اور کج فہمی کا نتیجہ ہے والعیاذُ باللہ العظیم۔
۷۰۔۔۔ سو اس سے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے کمالِ علم کے نتیجہ اور اس کے ثمرہ واضح فرما دیا گیا کہ معبود برحق وہی وحدہٗ لاشریک ہے ایک تو اس اعتبار سے کہ جب وہ ظاہر و باطن اور اعلانیہ و پوشیدہ کو پوری طرح اور ایک برابر جانتا ہے تو پھر اس کو اس کی ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ کسی کو اپنا شریک و سہیم ٹھہرائے؟ اور دوسرے اس اعتبار سے کہ جب کمال علم و اختیار کی یہ صفت و شان اس کے سوا اور کسی کے لئے ممکن ہی نہیں، تو پھر اس کے سوا اور کوئی معبود ہو ہی کس طرح سکتا ہے؟ پس وہ یکتا اور ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک ہے، اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی کا اور صرف اسی کا حق اور اختصاص ہے سبحانہ و تعالیٰ اور اس دنیا میں جو بھی کوئی نعمت کسی کو ملی ہے یا ملے گی وہ سب اسی وحدہٗ لاشریک کی طرف سے ہوتی ہے اور اسی کی طرف سے ہو سکتی ہے، اور آخرت میں بھی جس کو جو نعمت نصیب ہو گی۔ وہ بھی اسی کی طرف سے ہو گی، بلکہ وہاں کا معاملہ تو اس اعتبار سے اور بھی زیادہ نمایاں اور واضح ہو گا، کیونکہ دنیا میں انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اسباب و وسائل کے پردوں ہی میں ملتا ہے، جس سے بہت سے ظاہر بینوں اور ظاہر پرستوں کو دھوکہ لگتا ہے، مگر آخرت میں چونکہ اسطرح کے وسائل و وسائط کا بھی کوئی پردہ حائل نہیں ہو گا، اس لئے وہاں پر اسطرح کے کسی شبہ وغیرہ کا بھی کوئی موقع نہیں ہو گا۔ پس اس دنیا میں بھی ہر تعریف کا حقدار وہی ہے، اور آخرت میں بھی وہی ہو گا، اور حکم و فیصلہ بھی اسی کا چلتا ہے کہ حاکم حقیقی بہر حال وہی ہے اور اسی کے حضور تم سب نے بہر حال لوٹ کر جانا ہے، اور اپنے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ پانا ہے، تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہو سکیں۔ فلہ الحمد ولہ الشکر بکل حالٍ من الاحوال، سبحانہ و تعالیٰ۔
۷۳۔۔۔ سو شب و روز کی آمدورفت کا یہ پر حکمت سلسلہ اس رب ذوالجلال کی رحمت و عنایت کا ایک عظیم الشان نمونہ و مظہر ہے جو اپنی زبان حال سے پکار پکار کر تم لوگوں کو دعوت غور و فکر دے رہا ہے تاکہ تم دل و جان سے اس کے آگے جھک جھک جاؤ۔ اور ہر وقت اور ہر حال میں جھکے ہی رہو۔ اور یہ سب کچھ اس رب رحمان و رحیم نے محض اپنی رحمت و عنایت سے کیا ہے۔ اس میں نہ کسی کا کوئی دخل ہے نہ ہو سکتا ہے، اور نہ تمہارا اس پر کوئی حق تھا کہ وہ ضرور ایسا کرے بلکہ اس نے محض اپنی رحمت و عنایت سے تمہارے آرام و سکون کے لئے رات کا یہ عظیم الشان اور پُرکیف انتظام فرما دیا، اور پھر دن کو طلوع کر کے تمہارے لئے رزق و روزی کی طلب و تلاش کے مواقع فراہم کئے۔ جس سے تمہارے لئے تلاش رزق و فضل کے راستے کھلتے اور میدان گرم ہوتے ہیں، سو اس سب کا طبعی تقاضا یہ تھا، اور ہے کہ تم اس واہب مطلق کے شکر گزار بنو۔ کہ یہ اس کا تم لوگوں پر حق اور فرض ہے اور اسی میں تمہارا بھلا اور فائدہ بھی ہے دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی جو کہ اس کے بعد آنے والا ہے وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، بکل حالٍ من الاحوال
۷۵۔۔۔ سو اس سے اس اتمام حجت کا ذکر و بیان فرمایا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ منکرین و مشرکین پر قیامت کے یوم عظیم میں آخری طور پر فرمائے گا شہید سے یہاں پر مراد ہر امت کے رسول ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی اپنی امتوں پر حق کی گواہی دی۔ اس دنیا میں بھی اور وہی ان پر قیامت کے اس یوم عظیم میں بھی گواہی دیں گے کہ انہوں نے ان کو پیغام حق پوری طرح پہنچا دیا تھا۔ اور یہ کہ ان لوگوں نے ان کے پیش کردہ دین کے اندر اپنی خواہشات و اعراض کے مطابق اور نت نئی بدعتیں ایجاد کر کے جو رد و بدل کیا اس کی ذمہ داری خود ان ہی لوگوں پر ہے نہ کہ اللہ کے رسولوں پر جیسا کہ سورہ مائدہ کے آخر میں حضرت عیسیٰ سے سوال اور ان کے جواب سے واضح فرمایا گیا ہے، سو اس آیت کریمہ سے واضح فرما دیا گیا ہے کہ قیامت کے اس یوم حساب میں جب اللہ تعالیٰ ہر امت پر اس کے رسول کے ذریعے یہ گواہی دلا دے گا کہ انہوں نے ان کو توحید ہی کی تعلیم دی تھی اور شرک کی نہ صرف یہ کہ تعلیم نہیں دی تھی بلکہ ان کو اس سے پوری طرح روکا اور منع کیا تھا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کی امتوں سے پوچھے گا کہ اب تم بتاؤ کہ تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟ اور تم نے کس سند کی بناء پر حق کے شریک ٹھہرائے تھے؟ اگر تمہارے پاس ایسی کوئی دلیل اور سند ہے تو اس کو پیش کرو۔ اس وقت سب پر واضح ہو جائے گا کہ حق اللہ ہی کے لئے ہے پس جو اس نے کہا وہی حق اور سچ ہے، اور معبود برحق وہی وحدہٗ لاشریک ہے ان کے خود تراشیدہ معبود اور من گھڑت حاجت روا و مشکل کشا سب باطل اور بے حقیقت تھے تب ان کی حسرت و افسوس کا کوئی ٹھکانا نہیں ہو گا۔ مگر وہ سب کچھ بےسود اور لا حاصل ہو گا، والعیاذُ باللہ العظیم۔
۷۶۔۔۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ قارون حضرت موسیٰ کے خاندان میں سے، بلکہ ان کے سگے چچا کا بیٹا تھا اس کو حضرت موسیٰ کی سیادت و امامت پر بڑا حسد تھا، اس بناء پر اس بدبخت نے یہ نعرہ بلند کیا کہ خاندان کے سب لوگ یکساں اور ایک برابر ہیں، تو پھر موسیٰ اور ہارون (علیہما الصلوٰۃ والسلام) ہی کو کونسے سرخاب کے پر لگ گئے کہ یہ قوم کی امامت و سیادت کریں؟ چنانچہ اسی بناء پر اس نے خاندان کے کچھ اور لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر ان کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ اپنے مال و دولت کی بناء پر وہ استکبار و سرکشی میں مبتلا تھا۔ اس بناء پر بھی وہ حضرت موسیٰ اور ہارون کی امامت و سیادت قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ سو اس کو اس کی قوم کے دانشمند لوگوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ اللہ تعالیٰ کی دی اور بخشی ہوئی نعمتوں کی بناء پر تو اس طرح تکبر نہ کر۔ کہ اللہ تعالیٰ اترانے اور تکبر کرنے والوں کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ اور وہ بالآخر اللہ کی پکڑ میں آ کر رہتے ہیں۔
۷۷۔۔۔ سو یہ ہے دنیاوی مال و دولت کے بارے میں صحیح نقطہ نظر کہ اس کو آخرت کی فوز و فلاح کے حصول کا ذریعہ بنایا جائے، کہ آخرت کا وہ گھر دائمی ہے، اور اس کی نعمتیں اَبَدی جبکہ دنیا اور اس کی ہر چیز فانی اور وقتی ہے۔ سو عقل اور نقل دونوں کا تقاضا ہے کہ دنیاوی زندگی کی ان عارضی نعمتوں کو آخرت کی دائمی نعمتوں سے سرفرازی کا ذریعہ بنایا جائے اور فَبِمَا اٰتَاکَ اللّٰہُ سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ یہ مال و دولت نہ تمہاری کسی قابلیت و لیاقت کا نتیجہ و ثمرہ ہے، اور نہ تمہارے باپ دادا کی میراث بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عطاء و بخشش کا نتیجہ ہے پس اس کو تم لوگ اس کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناؤ۔ اسطرح تم کو اپنے رب کی رضا و خوشنودی بھی حاصل ہو گی جو کہ سعادتوں کی سعادت ہے اور آخرت کی فوز و فلاح بھی جو کہ اصل اور حقیقی کامیابی ہے اور یہی دنیاوی مال و دولت کا اصل اور حقیقی مصرف ہے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید،
۷۸۔۔۔ کہ اللہ تعالیٰ سے ان میں سے کسی کی کوئی حالت اور کیفیت نہ مخفی ہے نہ ہو سکتی ہے اس لئے اس کو کسی مجرم سے اس کے جرائم کے بارے میں پوچھنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں، اور جہاں کہیں ان سے کسی پُرسش اور پوچھ کا ذکر ہے تو وہ محض ان کی تذلیل و تحقیر اور توبیخ و تقریع کے لئے ہو گا نہ کہ جاننے اور معلوم کرنے کی غرض سے، سو وہ مجرموں کو ڈھیل تو دیتا ہے لیکن جب ان کو پکڑنے پر آتا ہے تو ان کو اتنی مہلت بھی نہیں دیتا کہ ان سے انکے جرم کے بارے میں کچھ پوچھ لیا جائے۔ بلکہ اس کا عذاب ان کو ایسے آ دبوچتا ہے کہ ان کو کہیں کا ہوش بھی نہیں رہتا، اور قیامت کے روز کسی سے اس کے اعمال کے بارے میں پوچھنے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں رہے گی۔ کہ اس روز سب کچھ ان کے چہروں سے خود آشکارا و عیاں ہو گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰہُمُ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَالْاَقْدَامِ (الرحمن۔ ۴۱) نیز وہاں پر ان کا حال یہ ہو گا کہ خود ان کے اپنے ہاتھ پاؤں اور اعضاء و جوارح ان کے خلاف ان کے جرائم کی گواہی دیں گے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (النور۔ ۲۴)
۷۹۔۔۔ فِیْ زِیْنَتِہٖ کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس موقع پر اس نے اپنی دولت اور حشمت کے مظاہرے کا خاص طور پر اہتمام کیا تھا، تاکہ اس طرح وہ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو مرعوب کر سکے، اور اپنی جمعیت میں اضافہ کر سکے۔ کیونکہ عوام کالانعام کی اکثریت ایسے ہی ظواہر و مظاہر سے زیادہ متاثر و مرعوب ہوتی ہے، سو یہ اسی طرح کی حرکت تھی جس کے نمونے ہمارے دور کے جمہوری ملکوں میں جا بجا اور طرح طرح سے نظر آتے ہیں، جب ہمارے یہاں کے لیڈر لوگ اپنی مقبولیت اور سیاسی قوت کے اظہار کے لئے اسی طرح کے جلسے اور مظاہر کرتے ہیں، سو قارون کے اس مظاہرے کے نتیجے میں وہ لوگ جو اس دنیا کی دولت اور اس کی مادی قوت ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں وہ پکار اٹھے کہ واقعی قارون بڑے نصیب والا شخص ہے۔
۸۰۔۔۔ یعنی کوتاہ نظر، اور مادہ پرست ابنائے دنیا کے برعکس ان لوگوں نے جو حق اور حقیقت کا علم رکھتے تھے انہوں نے ان لوگوں کو جھنجوڑتے ہوئے ان سے کہا کہ کم بختو، اصل چیز دنیاوی مال و دولت اور اس کی نمود و نمائش نہیں۔ بلکہ اصل چیز جسے انسان کو اپنی زندگی کا ہدف اور نصب العین بنانا چاہیے وہ ایمان اور عمل صالح اور اس پر ملنے والا اجر و ثواب ہے، جس سے انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے اور یہ چیز انہی خوش نصیبوں کو ملتی ہے جو راہ حق و ہدایت پر صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں، سو علم سے مراد حق اور حقیقت کا وہ علم ہے جو عبارت ہے معرفت خداوندی اور آخرت کے ایمان و یقین سے سرفرازی سے۔ کیونکہ یہی وہ علم ہے جس سے انسان کو نور حق و ہدایت سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے، ورنہ تاریکی ہی تاریکی ہے، اور اس نورِ علم و یقین سے محروم انسان دوسرے مختلف دنیاوی علوم سے ایک چالاک اور مکار و شاطر انسان تو بن سکتا ہے اور بن جاتا ہے، لیکن وہ ایسا صالح انسان بہر حال نہیں بن سکتا جو دوسروں کے لئے اور خود اپنے لئے خیر و صلاح کا ذریعہ و وسیلہ بن سکے۔ چنانچہ قارون اس کی ایک واضح مثال ہے، کیونکہ وہ دوسرے علوم اور خاص کر مالیات سے متعلق امور کا بڑا ماہر تھا جس کا اس کو بڑا زعم اور گھمنڈ بھی تھا، لیکن معرفت خداوندی اور حق اور حقیقت کے علم سے محرومی کے باعث وہ اپنے اس مال و دولت پر مارِ گنج بن کر رہ گیا اور اس کا وہ مال و دولت دوسروں کو کیا نفع پہنچاتا خود اس کے لئے بھی نفع بخش نہ بن سکا۔ بلکہ وہ خود اس کے لئے بھی ہلاکت و تباہی کا باعث بن گیا، اور اس کو نہایت ہولناک انجام سے دو چار کیا سو دنیاوی علوم و معارف انسان کے لئے اسی وقت اور اسی صورت میں نفع بخش ہو سکتے ہیں جبکہ اس کو علم حقیقی کا نور حاصل ہو، ورنہ انکی حیثیت اس تلوار کی سی ہو جاتی ہے جو کسی احمق کے ہاتھ لگ جائے، کہ اس کا نتیجہ ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا سو محض ایسی ہوشیاری و چالا کی جو نور حق و ہدایت اور معرفت خداوندی سے محروم ہو۔ وہ ابلیس کی ہوشیاری و چالاکی ہے وہی ایسے ہوشیار اور چالاک لوگوں کا مرشد و امام اور ان کا لیڈر و پلیڈ رہے اور ایسوں کا انجام بہر حال ہلاکت وتباہی ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم
۸۳۔۔۔ سو اس سے بطور خلاصہ بحث اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ دار آخرت کے لائق اور اس کے حقدار وہی لوگ ہیں اور وہی ہو سکتے ہیں، جو اللہ کی زمین میں نہ اپنی بڑائی اور استکبار کے زعم میں مبتلا ہوتے ہیں، اور نہ ہی وہ سرکشی و فساد کے طالب ہوتے ہیں بلکہ وہ اس کے بندے بن کر رہتے، اور اس کی بندگی ہی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور وہ اس نظام حق و عدل کے حامی اور علمبردار بن کر رہتے ہیں، جس کو ان کے خالق و مالک نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے۔ سو یہی لوگ متقی و پرہیزگار ہوتے ہیں۔ اور انہی کے لئے انجام کار کی فوز و فلاح ہے۔ سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ تقوی و پرہیزگاری، نجات ودرستگاری، اور حقیقی اور اَبَدی فوز و فلاح سے سرفرازی کی اساس و بنیاد دراصل دو باتوں پر ہے کہ سینہ استکبار کے روگ سے خالی اور پاک ہو اور عمل فساد کے کھوٹ سے وباللہ التوفیق، لما یحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ
۸۸۔۔۔ اور جب تم لوگوں نے اپنے اس خالق و مالک کے حضور حاضر ہونا ہے۔ اور بہرطور حاضر ہونا ہے۔ اور وہاں حاضر ہو کر تم نے اپنے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے۔ اور جب حکم و فیصلہ کا تمام تر اختیار اسی وحدہٗ لاشریک کے لئے ہے۔ اسی کی ذات اقدس و اعلیٰ ہے، جس نے ہمیشہ باقی رہنا ہے اس کے سوا ہر چیز نے بہر حال ہلاکت وفنا کے گھاٹ اتر کر رہنا ہے، اس لئے معبود برحق بھی وہی اور صرف وہی ہے، اس کے سوا کسی اور ہستی کو پکارنا بلانا نہ جائز ہے اور اس میں کوئی فائدہ پس اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی بھی معبود کو کبھی نہیں پکارنا، اور اس کے حضور حاضری اور جوابدی کے اس یوم عظیم اور اس کے تقاضوں کو یاد رکھنا اصل اور خلاصہ ہے سارے دین کا، پس حیات دنیا کی اس فرصت محدود و مختصر کو اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور آخرت کی کمائی اور وہاں کی کامیابی کے لئے صرف کیا جائے کہ وہاں کی کامیابی ہی اصل اور حقیقی کامیابی ہے، اور اس سے سرفرازی کے حصول اور انکے لئے کمائی کا موقع یہی دنیاوی زندگی ہے، اور بس، وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الْاحوال وبہٰذا قد تمت الحواشی المختصر ۃلسورۃ القصص من تفسیر المدنی بتوفیق اللہ تعالیٰ و عنایۃ جل وعلا