خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الغَاشِیَة

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱       سورۂ غاشیہ مکّیہ ہے، اس میں ایک ۱رکوع، چھبّیس۲۶ آیتیں، بانوے۹۲ کلمے، تین سو اکیاسی ۳۸۱ حرف ہیں۔

(۱) بیشک تمہارے  پاس (ف ۲) اس مصیبت کی خبر آئی جو چھا جائے  گی (ف ۳)

۲       اے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

۳       خَلق پر مراد اس سے قیامت ہے، جس کے شدائد وا ہوال ہر چیز پر چھا جائیں گے۔

(۲)  کتنے  ہی منہ اس دن ذلیل ہوں گے۔

(۳) کام کریں مشقت جھیلیں۔

(۴) جائیں بھڑکتی آگ میں (ف ۴)

۴       حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو دِینِ اسلام پر نہ تھے، بت پرست تھے، یا کتابی کافر، مثل راہبوں اور پجاریوں کے، انہوں نے محنتیں بھی اٹھائیں، مشقّتیں بھی جھیلیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ جہنّم میں گئے۔

(۵) نہایت جلتے  چشمہ کا پانی پلائے  جائیں۔

(۶) ان کے  لیے  کچھ کھانا نہیں مگر آگ کے  کانٹے  (ف ۵)

۵       عذاب طرح طرح کا ہو گا اور جو لوگ عذاب دیئے جائیں گے، ان کے بہت طبقے ہوں گے، بعض کو زقوم کھانے کو دیا جائے گا، بعض کوغِسْلِیْن (دوزخیوں کی پیپ) بعض آ گ کے کانٹے۔

(۷)  کہ نہ فربہی لائیں اور نہ بھوک میں کام دیں (ف ۶)

۶       یعنی ان سے غذا کا نفع حاصل نہ ہو گا کیونکہ غذا کے دوہی فائدے ہیں، ایک یہ کہ بھوک کی تکلیف رفع کرے، دوسرے یہ کہ بدن کو فربہ کرے، یہ دونوں وصف جہنّمیوں کے کھانے میں نہیں بلکہ وہ شدید عذاب ہے۔

(۸) کتنے  ہی منہ اس دن چین میں ہیں (ف ۷)

۷       عیش و خوشی میں اور نعمت و کرامت میں۔

(۹)  اپنی کوشش پر راضی (ف ۸)

۸       یعنی اس عمل و طاعت پر جو دنیا میں بجا لائے تھے۔

(۱۰) بلند باغ میں۔

(۱۱) کہ اس میں کوئی بیہودہ بات نہ سنیں گے ۔

(۱۲) اس میں رواں چشمہ ہے۔

(۱۳) اس میں بلند تخت ہیں۔

(۱۴) اور چنے  ہوئے  کوزے  (ف ۹)

۹       چشمے کے کناروں پر جن کے دیکھنے سے بھی لذّت حاصل ہو اور جب پینا چاہیں تو وہ بھرے ملیں۔

(۱۵) اور برابر برابر بچھے  ہوئے  قا لین

(۱۶) اور پھیلی ہوئی چاندنیاں (ف ۱۰)

۱۰     اس سورت میں جنّت کی نعمتوں کا ذکر سن کر کفّار نے تعجّب کیا اور جھٹلایا تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عجائبِ صنعت میں نظر کرنے کی ہدایت فرماتا ہے تاکہ وہ سمجھیں کہ جس قادرِ حکیم نے دنیا میں ایسی عجیب و غریب چیزیں پیدا کی ہیں، اس کی قدرت سے جنّتی نعمتوں کا پیدا فرمانا کسی طرح قابلِ تعجّب و لائقِ انکار ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرماتا ہے۔

(۱۷) تو کیا اونٹ کو نہیں دیکھتے  کیسا بنایا گیا۔

(۱۸)  اور آسمان کو کیسا اونچا کیا گیا (ف ۱۱)

۱۱     بغیر ستون کے۔

(۱۹) اور پہاڑوں کو، کیسے  قائم کیے  گئے۔

(۲۰) اور زمین کو،  کیسے   بچھائی گئی۔

(۲۱) تو تم نصیحت سناؤ (ف ۱۲)  تم تو یہی نصیحت سنانے  والے  ہو۔

۱۲     اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے دلائلِ قدرت بیان فرما کر۔

(۲۲) تم کچھ ان پر کڑ وڑا  (ضامن) نہیں (ف ۱۳)

۱۳     کہ جبر کرو۔ (ہٰذہ الآیۃ نسخت بآیۃ القتال)

(۲۳)  ہاں جو منہ پھیرے   (ف ۱۴) اور کفر کرے  (ف ۱۵)

۱۴     ایمان لانے سے۔

۱۵     بعد نصیحت کے۔

(۲۴)  تو اسے  اللہ بڑا عذاب دے  گا (ف ۱۶)

۱۶     آخرت میں کہ اسے جہنّم میں داخل کرے گا۔

(۲۵) بیشک ہماری ہی طرف ان کا پھرنا (ف ۱۷) 

(۲۶) پھر بیشک ہماری ہی طرف ان کا حساب ہے۔

۱۷     بعد موت کے۔