خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الرُّوم

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ روم مکّیہ ہے اس میں چھ رکوع ساٹھ آیتیں آٹھ سو انیس کلمے تین ہزار پانچ سو چونتیس حرف ہیں۔

(۱)  الم

(۲) رومی مغلوب ہوئے،  (ف ۲)

۲                 شانِ نُزول : فارس اور روم کے درمیان جنگ تھی اورچونکہ اہلِ فارس مجوسی تھے اس لئے مشرکینِ عرب ان کا غلبہ پسند کرتے تھے، رومی اہلِ کتاب تھے اس لئے مسلمانوں کو ان کا غلبہ اچھا معلوم ہوتا تھا۔ خسرو پرویز بادشاہِ فارس نے رومیوں پر لشکر بھیجا اور قیصرِ روم نے بھی لشکر بھیجا یہ لشکر سرزمینِ شام کے قریب مقابل ہوئے اہلِ فارس غالب ہوئے، مسلمانوں کو یہ خبر گراں گزری، کُفّارِ مکّہ اس سے خوش ہو کر مسلمانوں سے کہنے لگے کہ تم بھی اہلِ کتاب اور نصاریٰ بھی اہلِ کتاب اور ہم بھی اُمّی اور اہلِ فارس بھی اُمّی ہمارے بھائی اہلِ فارس تمہارے بھائیوں رومیوں پر غالب ہوئے ہماری تمہاری جنگ ہوئی تو ہم بھی تم پر غالب ہوں گے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور ان میں خبر دی گئی کہ چند سال میں پھر رومی اہلِ فارس پر غالب آ جائیں گے، یہ آیتیں سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کُفّارِ مکّہ میں جا کر اعلان کر دیا کہ خدا کی قَسم رومی ضرور اہلِ فارس پر غلبہ پائیں گے اے اہلِ مکّہ تم اس وقت کے نتیجۂ جنگ سے خوش مت ہو ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے خبر دی ہے، اُ بَی بن خلف کافِر آپ کے مقابل کھڑا ہو گیا اور آپ کے اور اس کے درمیان سو سو اونٹ کی شرط ہو گئی اگر نو سال میں اہلِ فارس غالب آ جائیں تو حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُ بَی کو سو اونٹ دیں گے اور اگر رومی غالب آ جائیں تو اُ بَی حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو سو اونٹ دے گا۔ اس وقت تک قمار کی حرمت نازل نہ ہوئی تھی۔ مسئلہ : اور حضرت امام ابوحنیفہ و امام محمّد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک حربی کُفّار کے ساتھ عقودِ فاسدہ ربٰوا وغیرہ جائز ہیں اور یہی واقعہ ان کی دلیل ہے۔ القصّہ سات سال کے بعد اس خبر کا صدق ظاہر ہوا اور جنگِ حُدیبیہ یا بدر کے دن رومی اہلِ فارس پر غالب آئے اور رومیوں نے مدائن میں اپنے گھوڑے باندھے اور عراق میں رومیہ نامی ایک شہر کی بِنا رکھی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شرط کے اونٹ اُ بَیْ کی اولاد سے وصول کر لئے کیونکہ وہ اس درمیان میں مر چکا تھا، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ شرط کے مال کو صدقہ کر دیں۔ یہ غیبی خبر حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی صحتِ نبوّت اور قرآنِ کریم کے کلامِ الٰہی ہونے کی روشن دلیل ہے۔ (خازن و مدارک)۔

(۳) پاس کی زمین میں (ف ۳) اور اپنی مغلوبی کے  عنقریب غالب ہوں گے  (ف ۴)

۳                 یعنی شام کی اس سرزمین میں جو فارس سے قریب تر ہے۔

۴                 اہلِ فارس پر۔

(۴) چند برس میں (ف ۵) حکم اللہ ہی کا ہے  آگے  اور پیچھے  (ف ۶) اور اس دن ایمان والے  خوش ہوں گے۔

۵                 جن کی حد نو برس ہے۔

۶                 یعنی رومیوں کے غلبہ سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی۔ مراد یہ ہے کہ پہلے اہلِ فارس کا غلبہ ہونا اور دوبارہ اہلِ روم کا یہ سب اللہ تعالیٰ کے امر و ارادے اور اس کے قضا و قدر سے ہے۔

(۵) اللہ کی مدد سے  (ف ۷) مدد کرتا ہے  جس کی چاہے، اور وہی عزت والا مہربان۔

۷                 کہ اس نے کتابیوں کو غیرِ کتابیوں پر غلبہ دیا اور اسی روز بدر میں مسلمانوں کو مشرکوں پر اور مسلمانوں کا صدق اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور قرآنِ کریم کی خبر کی تصدیق ظاہر فرمائی۔

(۶) اللہ کا وعدہ  (ف ۸) اللہ اپنا وعدہ خلاف نہیں کرتا لیکن بہت لوگ نہیں جانتے  (ف ۹)

۸                 جو اس نے فرمایا تھا کہ رومی چند برس میں پھر غالب ہوں گے۔

۹                 یعنی بے علم ہیں۔

(۷) جانتے  ہیں آنکھوں کے  سامنے  کی دنیوی زندگی (ف ۱۰) اور وہ آخرت سے  پورے  بے  خبر ہیں۔

۱۰               تجارت، زراعت، تعمیر، وغیرہ دنیوی دھندے۔ اس میں اشارہ ہے کہ دنیا کی بھی حقیقت نہیں جانتے اس کا بھی ظاہر ہی جانتے ہیں۔

(۸) کیا انہوں نے  اپنے  جی میں نہ سوچا کہ، اللہ نے  پیدا نہ کیے  آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے  درمیان ہے  مگر حق (ف ۱۱)اور ایک مقرر میعاد سے  (ف ۱۲) اور بیشک بہت سے  لوگ اپنے  رب سے  ملنے  کا انکار رکھتے  ہیں (ف ۱۳)

۱۱               یعنی آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو عبث اور باطل نہیں بنایا ان کی پیدائش میں بے شمار حکمتیں ہیں۔

۱۲               یعنی ہمیشہ کے لئے نہیں بنایا بلکہ ایک مدّت معیّن کر دی ہے جب وہ مدّت پوری ہو جاوے گی تو یہ فنا ہو جائیں گے اور وہ مدّت قیامت قائم ہونے کا وقت ہے۔

۱۳               یعنی بَعث بعد الموت پر ایمان نہیں لاتے۔

(۹) اور کیا انہوں نے  زمین میں سفر نہ کیا کہ  دیکھتے  کہ ان سے  اگلوں کا انجام کیسا ہوا  (ف ۱۴) وہ ان سے  زیادہ زور آور تھے  اور زمین جوتی اور آباد کی ان (ف ۱۵) کی  آبادی سے  زیادہ  اور ان کے  رسول ان کے  پاس روشن نشانیاں لائے  (ف ۱۶) تو اللہ کی شان نہ تھی کہ ان پر ظلم کرتا (ف ۱۷) ہاں وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے  تھے  (ف ۱۸)

۱۴               کہ رسولوں کی تکذیب کے باعث ہلاک کئے گئے ان کے اجڑے ہوئے دیار اور ان کی بربادی کے آثار دیکھنے والوں کے لئے موجِبِ عبرت ہیں۔

۱۵               اہلِ مکّہ۔

۱۶               تو وہ ان پر ایمان نہ لائے، پس اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کیا۔

۱۷               ان کے حقوق کم کر کے اور انہیں بغیر جُرم کے ہلاک کر کے۔

۱۸               رسولوں کی تکذیب کر کے اپنے آپ کو مستحقِ عذاب بنا کر۔

(۱۰) پھر جنہوں نے  حد بھر کی برائی کی ان کا انجام یہ ہوا کہ اللہ کی آیتیں جھٹلانے  لگے  اور ان کے  ساتھ تمسخر کرتے،

(۱۱) اللہ پہلے  بناتا ہے  پھر دوبارہ بنائے  گا (ف ۱۹) پھر اس کی طرف پھرو گے  (ف ۲۰)

۱۹               یعنی بعدِ موت زندہ کر کے۔

۲۰               تو اعمال کی جزا دے گا۔

(۱۲) اور جس دن قیامت قائم ہو گی مجرموں کی آس ٹوٹ جائے  گی (ف ۲۱)

۲۱               اور کسی نفع اور بھلائی کی امید باقی نہ رہے گی۔ بعض مفسِّرین نے یہ معنیٰ بیان کئے ہیں کہ ان کا کلام منقطع ہو جائے گا وہ ساکت رہ جائیں گے کیونکہ ان کے پاس پیش کرنے کے قابل کوئی حُجّت نہ ہو گی۔ بعض مفسِّرین نے یہ معنیٰ بیان کئے ہیں کہ وہ رسوا ہوں گے۔

(۱۳) اور ان کے  شریک (ف ۲۲) ان کے  سفارشی نہ ہوں گے  اور وہ اپنے  شریکوں سے  منکر ہو جائیں گے۔

۲۲               یعنی بُت جنہیں وہ پُوجتے تھے۔

(۱۴) اور جس دن قیامت قائم ہو گی اس دن الگ ہو جائیں گے  (ف ۲۳)

۲۳               مومن اور کافِر پھر کبھی جمع نہ ہوں گے۔

(۱۵) تو وہ جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  باغ کی کیاری میں ان کی خاطرداری ہو گی (ف ۲۴)

۲۴               یعنی بُستانِ جنّت میں ان کا اکرام کیا جائے گا جس سے وہ خوش ہوں گے یہ خاطر داری جنّتی نعمتوں کے ساتھ ہو گی۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد سماع ہے کہ انہیں نغمات طرب انگیز سنائے جائیں گے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی تسبیح پر مشتمل ہوں گے۔

(۱۶) اور جو کافر ہوئے  اور ہماری آیتیں اور آخرت کا ملنا جھٹلایا (ف ۲۵) وہ عذاب میں لا دھرے  (ڈال دیے  ) جائیں گے  (ف ۲۶)

۲۵               بَعث و حشر کے منکِر ہوئے۔

۲۶               نہ اس عذاب میں تخفیف ہو نہ اس سے کبھی نکلیں۔

(۱۷) تو اللہ کی پاکی بولو (ف ۲۷) جب شام کرو (ف ۲۸) اور جب صبح ہو (ف ۲۹)

۲۷               پاکی بولنے سے یا تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح و ثناء مراد ہے اور اس کی احادیث میں بہت فضیلتیں وارد ہیں یا اس سے نماز مراد ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے دریافت کیا گیا کہ کیا پنجگانہ نمازوں کا بیان قرآنِ پاک میں ہے؟  فرمایا ہاں اور یہ آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا کہ ان میں پانچوں نمازیں اور ان کے اوقات مذکور ہیں۔

۲۸               اس میں مغرب و عشاء کی نمازیں آ گئیں۔

۲۹               یہ نمازِ فجر ہوئی۔

(۱۸) اور اسی کی تعریف ہے  آسمانوں اور زمین میں (ف ۳۰) اور کچھ دن رہے  (ف ۳۱) اور جب تمہیں دوپہر ہو (ف ۳۲)

۳۰               یعنی آسمان اور زمین والوں پر اس کی حمد لازم ہے۔

۳۱               یعنی تسبیح کرو کچھ دن رہے، یہ نمازِ عصر ہوئی۔

۳۲               یہ نمازِ ظہر ہوئی۔

حکمت : نماز کے لئے یہ پنجگانہ اوقات مقرر فرمائے گئے اس لئے کہ افضل اعمال وہ ہے جو مدام ہو اور انسان یہ قدرت نہیں رکھتا کہ اپنے تمام اوقات نماز میں صرف کرے کیونکہ اس کے ساتھ کھانے پینے وغیرہ کے حوائج و ضروریات ہیں تو اللہ تعالیٰ نے بندہ پر عبادت میں تخفیف فرمائی اور دن کے اوّل و اوسط و آخر میں اور رات کے اوّل و آخر میں نمازیں مقرر کیں تاکہ ان اوقات میں مشغولِ نماز رہنا دائمی عبادت کے حکم میں ہو۔ (مدارک و خازن)۔

(۱۹) وہ زندہ کو نکالتا ہے  مردے  سے  (ف ۳۳) اور مردے  کو نکالتا ہے  زندہ سے  (ف ۳۴) اور زمین کو جٕلاتا ہے  اس کے  مرے  پیچھے  (ف ۳۵) اور یوں ہی تم نکالے  جاؤ گے  (ف ۳۶)

۳۳               جیسے کہ پرند کو انڈے سے اور انسان کو نطفہ سے اور مومن کو کافِر سے۔

۳۴               جیسے کہ انڈے کو پرند سے نطفہ کو انسان سے کافِر کو مومن سے۔

۳۵               یعنی خشک ہو جانے کے بعد مینہ برسا کر سبزہ اُگا کر۔

۳۶               قبروں سے بَعث و حساب کے لئے۔

(۲۰) اور اس کی نشانیوں سے  ہے  یہ کہ تمہیں پیدا کیا مٹی سے  (ف ۳۷) پھر جبھی تو انسان ہو دنیا میں پھیلے  ہوئے، (۲۱) اور اس کی نشانیوں سے  ہے  کہ تمہارے  لیے  تمہاری ہی جنس سے  جوڑے  بنائے  کہ ان سے  آرام پاؤ اور تمہارے  آپس میں محبت اور رحمت رکھی (ف ۳۸) بیشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے  والوں کے  لیے۔

۳۷               تمہارا جدِّ اعلیٰ اور تمہاری اصل حضرت آدم علیہ السلام کو اس سے پیدا کر کے۔

۳۸               کہ بغیر کسی پہلی معرفت اور بغیر کسی قرابت کے ایک دوسرے کے ساتھ مَحبت و ہمدردی ہے۔

(۲۲) اور اس کی نشانیوں سے  ہے  آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف (ف ۳۹) بیشک اس میں نشانیاں ہیں جاننے  والوں کے  لیے۔

۳۹               زبانوں کا اختلاف تو یہ ہے کہ کوئی عربی بولتا ہے، کوئی عجمی، کوئی اور کچھ اور رنگتوں کا اختلاف یہ ہے کہ کوئی گورا ہے، کوئی کالا، کوئی گندمی اور یہ اختلاف نہایت عجیب ہے کیونکہ سب ایک اصل سے ہیں اور سب حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔

(۲۳) اور اس کی نشانیوں میں ہے  رات اور دن میں تمہارا  سونا (ف ۴۰) اور اس کا  فضل تلاش کرنا (ف ۴۱) بیشک اس میں نشانیاں ہیں سننے  والوں کے  لیے  (ف ۴۲)

۴۰               جس سے تکان دور ہوتی ہے اور راحت حاصل ہوتی ہے۔

۴۱               فضل تلاش کرنے سے کسبِ معاش مراد ہے۔

۴۲               جو گوشِ ہوش سے سنیں۔

(۲۴) اور اس کی نشانیوں سے  ہے  کہ تمہیں بجلی دکھاتا ہے  ڈراتی (ف ۴۳) اور امید دلاتی  (ف ۴۴) اور آسمان سے  پانی اتارتا ہے ، تو اس سے  زمین کو  زندہ کرتا ہے  اس کے  مرے  پیچھے،  بیشک اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے  لیے  (ف ۴۵)

۴۳               گرنے اور نقصان پہنچانے سے۔

۴۴               بارش کی۔

۴۵               جو سوچیں اور قدرتِ الٰہی پر غور کریں۔

(۲۵) اور اس کی نشانیوں سے  ہے  کہ اس کے  حکم سے  آسمان اور زمین قائم ہیں (ف ۴۶) پھر جب تمہیں زمین سے  ایک ندا فرمائے  گا  (ف ۴۷) جبھی تم نکل پڑو گے  (ف ۴۸)

۴۶               حضرت ابنِ عباس اور حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے فرمایا کہ وہ دونوں بغیر کسی سہارے کے قائم ہیں۔

۴۷               یعنی تمہیں قبروں سے بلائے گا اس طرح کہ حضرت اسرافیل علیہ السلام قبر والوں کے اٹھانے کے لئے صور پھونکیں گے تو اوّلین و آخرین میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو نہ اٹھے چنانچہ اس کے بعد ہی ارشاد فرماتا ہے۔

۴۸               یعنی قبروں سے زندہ ہو کر۔

(۲۶) اور اسی کے  ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں، سب اس کے  زیر حکم ہیں۔

(۲۷) اور وہی  ہے  کہ اول بنا تا ہے  پھر اسے  دوبارہ بنائے  گا (ف ۴۹)  اور یہ تمہاری سمجھ میں اس پر زیادہ  آسان ہونا چاہیے  (ف ۵۰) اور اسی کے  لیے  ہے  سب سے  برتر شان آسمانوں اور زمین میں (ف ۵۱) اور وہی عزت و حکمت والا ہے۔

۴۹               ہلاک ہونے کے بعد۔

۵۰               کیونکہ انسانوں کا تجربہ اور ان کی رائے یہی بتاتی ہے کہ شیِ کا اعادہ اس کی ابتداء سے سہل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ بھی دشوار نہیں۔

۵۱               کہ اس جیسا کوئی نہیں وہ معبودِ برحق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

(۲۸) تمہارے  لیے  (ف ۵۲) ایک کہاوت بیان فرماتا ہے  خود تمہارے  اپنے   حال سے  (ف ۵۳) کیا تمہارے  لیے  تمہارے  ہاتھ کے  غلاموں میں سے  کچھ شریک ہیں (ف ۵۴) اس میں جو ہم نے  تمہیں روزی دی (ف ۵۵) تو تم سب اس میں برابر ہو (ف ۵۶) تم ان سے  ڈرو (ف ۵۷) جیسے  آپس میں ایک دوسرے  سے  ڈرتے  ہو (ف ۵۸) ہم ایسی مفصل نشانیاں بیان فرماتے  ہیں عقل والوں کے  لیے۔

۵۲               اے مشرکو۔

۵۳               وہ مثل (کہاوت) یہ ہے۔

۵۴               یعنی کیا تمہارے غلام تمہارے ساجھی ہیں۔

۵۵               مال و متاع وغیرہ۔

۵۶               یعنی آقا اور غلام کو اس مال و متاع میں یکساں استحقاق ہو ایسا کہ۔

۵۷               اپنے مال و متاع میں بغیر ان غلاموں کی اجازت سے تصرُّف کرنے سے۔

۵۸               مدعیٰ یہ ہے کہ تم کسی طرح اپنے مملوکوں کو اپنا شریک بنانا گوارا نہیں کر سکتے تو کتنا ظلم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مملوکوں کو اس کا شریک قرار دو۔ اے مشرکین تم اللہ تعالیٰ کے سوا جنہیں اپنا معبود قرار دیتے ہو وہ اس کے بندے اور مملوک ہیں۔

(۲۹) بلکہ ظالم (ف ۵۹) اپنی خواہشوں کے  پیچھے  ہولیے  بے  جانے  (ف ۶۰) تو اسے  کون ہدایت کرے  جسے  خدا نے  گمراہ کیا (ف ۶۱) اور ان کا کوئی مددگار نہیں (ف ۶۲)

۵۹               جنہوں نے شرک کر کے اپنی جانوں پر ظلمِ عظیم کیا ہے۔

۶۰               جہالت سے۔

۶۱               یعنی کوئی اس کا ہدایت کرنے والا نہیں۔

۶۲               جو انہیں عذاب الٰہی سے بچا سکے۔

(۳۰) تو اپنا منہ سیدھا کرو اللہ کی اطاعت کے  لیے  ایک اکیلے  اسی کے  ہو کر (ف ۶۳) اللہ کی ڈا لی ہوئی بنا جس پر لوگوں کو پیدا کیا (ف ۶۴) اللہ کی بنائی چیز نہ بدلنا (ف ۶۵) یہی سیدھا دین ہے، مگر بہت لوگ نہیں جانتے  (ف ۶۶)

۶۳               یعنی خلوص کے ساتھ دینِ الٰہی پر باستقامت و استقلال قائم رہو۔

۶۴               فطرت سے مراد دینِ اسلام ہے معنیٰ یہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے خَلق کو ایمان پر پیدا کیا جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر بچّہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے یعنی اسی عہد پر جو اَ لَسْتُ بِرَبِّکُمْ  فرما کر لیا گیا ہے۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ اس آیت میں حکم دیا گیا کہ دینِ الٰہی پر قائم رہو جس پر اللہ تعالیٰ نے خَلق کو پیدا کیا ہے۔

۶۵               یعنی دینِ الٰہی پر قائم رہنا۔

۶۶               اس کی حقیقت کو تو اس دین پر قائم رہو۔

(۳۱) اس کی طرف رجوع لاتے  ہوئے  (ف ۶۷) اور اس سے  ڈرو  اور نماز قائم رکھو اور مشرکوں سے  نہ ہو۔

۶۷               یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ اور طاعت کے ساتھ۔

(۳۲)  ان میں سے  جنہوں نے  اپنے  دین کو ٹکڑے  ٹکڑے  کر دیا (ف ۶۸) اور ہو گئے  گروہ گروہ،  ہر گروہ جو اس کے  پاس ہے  اسی پر خوش ہے  (ف ۶۹)

۶۸               معبود کے باب میں اختلاف کر کے۔

۶۹               اور اپنے باطل کو حق گمان کرتا ہے۔

(۳۳)  اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے  (ف ۷۰) تو اپنے  رب کو پکارتے  ہیں اس کی طرف رجوع لاتے  ہوئے  پھر جب وہ انہیں اپنے  پاس سے  رحمت کا مزہ دیتا ہے  (ف ۷۱) جبھی ان میں سے  ایک گروہ اپنے  رب کا شریک ٹھہرانے  لگتا ہے۔

۷۰               مرض کی یا قحط کی یا اس کے سوا اور کوئی۔

۷۱               اس تکلیف سے خلاصی عنایت کرتا ہے اور راحت عطا فرماتا ہے۔

(۳۴) کہ ہمارے  دیے  کی ناشکری کریں، تو برت لو (ف ۷۲) اب قریب جاننا چاہتے  ہو (ف ۷۳)

۷۲               دنیوی نعمتوں کو چند روز۔

۷۳               کہ آخرت میں تمہارا کیا حال ہوتا ہے اس دنیا طلبی کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے۔

(۳۵) یا ہم نے  ان پر کوئی سند اتاری (ف ۷۴) کہ ہو انہیں ہمارے  شریک بتا رہی ہے  (ف ۷۵)

۷۴               کوئی حُجّت یا کوئی کتاب۔

۷۵               اور شرک کرنے کا حکم دیتی ہے ایسا نہیں ہے نہ کوئی حُجّت ہے نہ کوئی سند۔

(۳۶) اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ دیتے  ہیں (ف ۷۶) اس پر خوش ہو جاتے  ہیں (ف ۷۷) اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچے  (ف ۷۸) بدلہ اس کا جو ان کے  ہاتھوں نے  بھیجا (ف ۷۹) جبھی وہ ناامید ہو جاتے  ہیں (ف ۸۰)

۷۶               یعنی تندرستی اور وسعتِ رزق کا۔

۷۷               اور اِتراتے ہیں۔

۷۸               قحط یا خوف یا اور کوئی بَلا۔

۷۹               یعنی ان کی معصیتوں اور ان کے گناہوں کا۔

۸۰               اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اور یہ بات مومن کی شان کے خلاف ہے کیونکہ مومن کا حال یہ ہے کہ جب اسے نعمت ملتی ہے تو شکر گزاری کرتا ہے اور جب سختی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار رہتا ہے۔

(۳۷) اور کیا انہوں نے  نہ دیکھا کہ اللہ رزق وسیع فرماتا ہے  جس کے  لیے  چاہے  اور تنگی فرماتا ہے  جس کے  لیے  چاہے  بیشک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے  لیے۔

(۳۸) تو  رشتہ دار کو اس کا حق دو (ف ۸۱) اور مسکین اور مسافر کو (ف ۸۲) یہ بہتر ہے  ان کے  لیے  جو اللہ کی رضا چاہتے  ہیں (ف ۸۳) اور انہیں کا کام بنا۔

۸۱               اس کے ساتھ سلوک اور احسان کرو۔

۸۲               ان کے حق دو صدقہ دے کر اور مہمان نوازی کر کے۔ مسئلہ : اس آیت سے محارم کے نفقہ کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ (مدارک)۔

۸۳               اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کے طالب ہیں۔

(۳۹)  اور تم جو چیز زیادہ لینے  کو دو کہ دینے  والے  کے  مال بڑھیں تو وہ اللہ کے  یہاں نہ بڑھے  گی (ف ۸۴) اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے  ہوئے  (ف ۸۵) تو انہیں کے  دُونے  ہیں (ف ۸۶)

۸۴               لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست احباب اور آشناؤں کو یا اور کسی شخص کو اس نیّت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے گا یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہو گی کیونکہ یہ عمل خالصاً لِلّٰہِ تعالیٰ نہیں ہوا۔

۸۵               نہ اس سے بدلہ لینا مقصود ہو نہ نام و نمود۔

۸۶               ان کا اجر و ثواب زیادہ ہو گا ایک نیکی کا دس گنا زیادہ دیا جائے گا۔

(۴۰) اللہ ہے  جس نے  تمہیں پیدا کیا  پھر تمہیں روزی دی پھر تمہیں مارے  گا پھر تمہیں جِلائے  گا (ف ۸۷) کیا تمہارے  شریکوں میں (ف ۸۸) بھی کوئی ایسا ہے  جو ان کاموں میں سے  کچھ کرے  (ف ۸۹) پاکی اور برتری ہے  اسے  ان کے  شرک سے۔

۸۷               پیدا کرنا، روزی دینا، مارنا، جِلانا یہ سب کام اللہ ہی کے ہیں۔

۸۸               یعنی بُتوں میں جنہیں تم اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو ان میں۔

۸۹               اس کے جواب سے مشرکین عاجز ہوئے اور انہیں دَم مارنے کی مجال نہ ہوئی تو فرماتا ہے۔

(۴۱) چمکی خرابی  خشکی اور تری میں (ف ۹۰) ان برائیوں سے  جو لوگوں کے  ہاتھوں نے  کمائیں تاکہ انہیں ان کے  بعض کوتکوں (برے  کاموں ) کا  مزہ چکھائے  کہیں وہ باز آئیں (ف ۹۱)

۹۰               شرک و معاصی کے سبب سے قحط اور امساکِ باراں اور قلّتِ پیداوار اور کھیتیوں کی خرابی اور تجارتوں کے نقصان اور آدمیوں اور جانوروں میں موت اور کثرتِ آتش زدگی اور غرق اور ہر شے میں بے برکتی۔

۹۱               کُفر و معاصی سے اور تائب ہوں۔

(۴۲) تم فرماؤ زمین میں چل کر دیکھو کیا انجام ہوا اگلوں کا، ان میں بہت مشرک تھے  (ف ۹۲)

۹۲               اپنے شرک کے باعث ہلاک کئے گئے ان کے منازل اور مساکن ویران پڑے ہیں انہیں دیکھ کر عبرت حاصل کرو۔

(۴۳) تو اپنا منہ سیدھا کر عبادت کے  لیے  (ف ۹۳) قبل اس کے  کہ وہ دن آئے  جسے  اللہ کی طرف ٹلنا نہیں (ف ۹۴) اس دن الگ پھٹ جائیں گے  (ف ۹۵)

۹۳               یعنی دینِ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو۔

۹۴               یعنی روزِ قیامت۔

۹۵               یعنی حساب کے بعد متفرق ہو جائیں گے جنّتی جنّت کی طرف جائیں گے اور دوزخی دوزخ کی طرف۔

(۴۴) جو کفر کرے  اس کے  کفر کا  وبال اسی پر اور جو اچھا کام کریں وہ اپنے  ہی لیے  تیاری کر رہے  ہیں (ف ۹۶)

۹۶               کہ منازلِ جنّت میں راحت و آرام پائیں۔

(۴۵) تاکہ صلہ دے  (ف ۹۷) انہیں جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  اپنے  فضل سے، بیشک وہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔

۹۷               اور ثواب عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ۔

(۴۶) اور اس کی نشانیوں سے  ہے  کہ ہوائیں بھیجتا ہے  مژدہ سناتی (ف ۹۸) اور اس لیے  کہ تمہیں اپنی رحمت کا ذائقہ دے  اور اس لیے  کہ کشتی (ف ۹۹) اس کے  حکم سے  چلے   اور اس لیے  کہ اس کا فضل تلاش کرو (ف ۱۰۰) اور اس لیے  کہ تم حق مانو (ف ۱۰۱)

۹۸               بارش اور کثرتِ پیداوار کا۔

۹۹               دریا میں ان ہواؤں سے۔

۱۰۰             یعنی دریائی تجارتوں سے کسبِ معاش کرو۔

(۴۷) اور بیشک ہم نے  تم سے  پہلے  کتنے  رسول ان کی قوم کی طرف بھیجے  تو وہ ان کے  پاس کھلی نشانیاں لائے  (ف ۱۰۲) پھر ہم نے  مجرموں سے  بدلہ لیا (ف ۱۰۳) اور ہمارے  ذمۂ  کرم پر ہے  مسلمانوں کی مدد فرمانا (ف ۱۰۴)

۱۰۱             ان نعمتوں کا اور اللہ کی توحید قبول کرو۔

۱۰۲             جو ان رسولوں کے صدقِ رسالت پر دلیلِ واضح تھیں تو اس قوم میں سے بعض ایمان لائےاور بعض نے کُفر کیا۔

۱۰۳             کہ دنیا میں انہیں عذاب کر کے ہلاک کر دیا۔

۱۰۴             یعنی انہیں نجات دینا اور کافِروں کو ہلاک کرنا۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو آخرت کی کامیابی اور اعداء پر فتح و نصرت کی بشارت دی گئی ہے۔ ترمذی کی حدیث میں ہے جو مسلمان اپنے بھائی کی آبرو بچائے گا اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت جہنّم کی آگ سے بچائے گا یہ فرما کر سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی  کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔

(۴۸)  اللہ ہے  کہ بھیجتا ہے  ہوائیں کہ ابھارتی ہیں بادل پھر اسے  پھیلا دیتا ہے  آسمان میں جیسا چاہے  (ف ۱۰۵) اور اسے  پارہ پارہ کرتا ہے  (ف ۱۰۶) تو تُو دیکھے  کہ اس کے  یبچ میں مینھ نکل  رہا ہے  پھر جب اسے  پہنچاتا ہے  (ف ۱۰۷) اپنے  بندوں میں جس کی طرف چاہے  جبھی وہ خوشیاں مناتے  ہیں۔

۱۰۵             قلیل یا کثیر۔

۱۰۶             یعنی کبھی تو اللہ تعالیٰ ابرِ محیط بھیج دیتا ہے جس سے آسمان گھرا معلوم ہوتا ہے اور کبھی متفرق ٹکڑے علیٰحدہ علیٰحدہ۔

۱۰۷             یعنی مینہ کو۔

(۴۹) اگرچہ اس کے  اتارنے  سے  پہلے  آس توڑے  ہوئے  تھے۔

(۵۰) تو اللہ کی رحمت کے  اثر دیکھو (ف ۱۰۸) کیونکر زمین کو جِلاتا ہے  اس کے  مَرے  پیچھے  (ف ۱۰۹) بیشک مردوں کو زندہ کرے  گا  اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔

۱۰۸             یعنی بارش کے اثر جو اس پر مرتّب ہوتے ہیں کہ بارش زمین کو سیراب کرتی ہے، اس سے سبزہ نکلتا ہے، سبزے سے پھل پیدا ہوتے ہیں، پھلوں میں غذائیت ہوتی ہے اور اس سے جانداروں کے اجسام کے قوام کو مدد پہنچتی ہے اور یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ یہ سبزے اور پھل پیدا کر کے۔

۱۰۹             اور خشک میدان کو سبزہ زار بنا دیتا ہے جس کی یہ قدرت ہے۔

(۵۱) اور اگر ہم کوئی ہوا  بھیجیں (ف ۱۱۰) جس سے  وہ کھیتی کو زرد  دیکھیں (ف ۱۱۱) تو ضرور اس کے  بعد ناشکری کرنے  لگے  (ف ۱۱۲)

۱۱۰             ایسی جو کھیتی اور سبزے کے لئے مُضِر ہو۔

۱۱۱             بعد اس کے کہ وہ سرسبز و شاداب تھی۔

۱۱۲             یعنی کھیتی زرد ہونے کے بعد ناشکری کرنے لگیں اور پہلی نعمت سے بھی مُکَر جائیں۔ معنیٰ یہ ہیں کہ ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جب انہیں رحمت پہنچتی ہے رزق ملتا ہے خوش ہو جاتے ہیں اور جب کوئی سختی آتی ہے کھیتی خراب ہوتی ہے تو پہلی نعمتوں سے بھی مُکَر جاتے ہیں، چاہئے تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ پر توکُّل کرتے اور جب نعمت پہنچتی شکر بجا لاتے اور جب بَلا آتی صبر کرتے اور دعاء و استغفار میں مشغول ہوتے۔ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیبِ اکرم سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تسلّی فرماتا ہے کہ آپ ان لوگوں کی محرومی اور ان کے ایمان نہ لانے پر رنجیدہ نہ ہوں۔

(۵۲) اس لیے  کہ تم  مُردوں کو نہیں سناتے  (ف ۱۱۳) اور نہ بہروں کو پکارنا سناؤ جب  وہ پیٹھ  دے  کر پھیریں (ف ۱۱۴)

۱۱۳             یعنی جن کے دل مر چکے اور ان سے کسی طرح قبولِ حق کی توقع نہیں رہی۔

۱۱۴             یعنی حق کے سننے سے بہرے ہوں اور بہرے بھی ایسے کہ پیٹھ دے کر پھر گئے ان سے کسی طرح سمجھنے کی امید نہیں۔

(۵۳)  اور نہ تم اندھوں کو (ف ۱۱۵) ان کی گمراہی سے  راہ پر لاؤ،  تو تم  اسی  کو سناتے  ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے  تو وہ گردن رکھے  ہوئے  ہیں۔

۱۱۵             یہاں اندھوں سے بھی دل کے اندھے مراد ہیں۔ اس آیت سے بعض لوگوں نے مُردوں کے نہ سننے پر استدلال کیا ہے مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ یہاں مُردوں سے مراد کُفّار ہیں جو دنیوی زندگی تو رکھتے ہیں مگر پند و موعظت سے منتفع نہیں ہوتے اس لئے انہیں اموات سے تشبیہ دی گئی جو دار العمل سے گزر گئے اور وہ پند و نصیحت سے منتفع نہیں ہو سکتے لہذا آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر سند لانا درست نہیں اور بکثرت احادیث سے مُردوں کا سننا اور اپنی قبروں پر زیارت کے لئے آنے والوں کو پہچاننا ثابت ہے۔

(۵۴) اللہ ہے  جس نے  تمہیں ابتداء میں کمزور بنایا (ف ۱۱۶) پھر تمہیں ناتوانی سے  طاقت بخشی (ف ۱۱۷) پھر قوت کے  بعد (ف ۱۱۸) کمزوری اور بڑھاپا دیا، بناتا ہے  جو چاہے  (ف ۱۱۹) اور  وہی علم و قدرت والا ہے۔

۱۱۶             اس میں انسان کے احوال کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے وہ ماں کے پیٹ میں جنین تھا پھر بچّہ ہو کر پیدا ہوا، شیر خوار رہا یہ احوال نہایت ضعف کے ہیں۔

۱۱۷             یعنی بچپن کے ضعف کے بعد جوانی کی قوّت عطا فرمائی۔

۱۱۸             یعنی جوانی کی قوّت کے بعد۔

۱۱۹             ضعف اور قوّت اور جوانی اور بڑھاپا یہ سب اللہ کے پیدا کئے سے ہیں۔

(۵۵) اور جس دن قیامت  قائم ہو گی مجرم قسم کھائیں گے  کہ نہ رہے  تھے  مگر ایک گھڑی (ف ۱۲۰) وہ ایسے  ہی اوندھے  جاتے  تھے  (ف ۱۲۱)

۱۲۰             یعنی آخرت کو دیکھ کر اس کو دنیا یا قبر میں رہنے کی مدّت بہت تھوڑی معلوم ہو گی اس لئے وہ اس مدّت کو ایک گھڑی سے تعبیر کریں گے۔

۱۲۱             یعنی ایسے ہی دنیا میں غلط اور باطل باتوں پر جمتے اور حق سے پھرتے تھے اور بَعث کا انکار کرتے تھے جیسے کہ اب قبر یا دنیا میں ٹھہرنے کی مدّت کو قَسم کھا کر ایک گھڑی بتا رہے ہیں ان کی اس قَسم سے اللہ تعالیٰ انہیں تمام اہلِ محشر کے سامنے رسوا کرے گا اور سب دیکھیں گے کہ ایسے مجمعِ عام میں قَسم کھا کر ایسا صریح جھوٹ بول رہے ہیں۔

(۵۶) اور بولے  وہ جن کو علم اور ایمان مِلا (ف ۱۲۲) بیشک تم رہے  اللہ کے  لکھے  ہوئے  میں (ف ۱۲۳) اٹھنے  کے  دن تک تو یہ ہے  وہ دن اٹھنے  کا (ف ۱۲۴) لیکن تم نہ جانتے  تھے   (ف ۱۲۵)

۱۲۲             یعنی انبیاء اور ملائکہ اور مومنین ان کا رد کریں گے اور فرمائیں گے کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔

۱۲۳             یعنی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے سابق علم میں لوحِ محفوظ میں لکھا اسی کے مطابق تم قبروں میں رہے۔

۱۲۴             جس کے تم دنیا میں منکِر تھے۔

۱۲۵             دنیا میں کہ وہ حق ہے ضرور واقع ہو گا، اب تم نے جانا کہ وہ دن آ گیا اور اس کا آنا حق تھا تو اس وقت کا جاننا تمہیں نفع نہ دے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

(۵۷)  تو اس دن ظالموں کو نفع نہ دے  گی ان کی معذرت اور نہ ان سے  کوئی راضی کرنا مانگے  (ف ۱۲۶)

۱۲۶             یعنی نہ ان سے یہ کہا جائے کہ توبہ کر کے اپنے ربّ کو راضی کرو جیسا کہ دنیا میں ان سے توبہ طلب کی جاتی تھی۔

(۵۸) اور بیشک ہم نے  لوگوں کے  لیے  اس قرآن میں ہر قسم  کی مثال بیان فرمائی (ف ۱۲۷) اور اگر تم ان کے  پاس کوئی نشانی لاؤ تو ضرور کافر کہیں گے  تم تو نہیں مگر  باطل پر۔

۱۲۷             تاکہ انہیں تنبیہ ہو اور انذار اپنے کمال کو پہنچے لیکن انہوں نے اپنی سیاہ باطنی اور سخت دلی کے باعث کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ جب کوئی آیتِ قرآن آئی اس کو جھٹلا دیا اور اس کا انکار کیا۔

(۵۹) یوں ہی مہر کر دیتا ہے  اللہ جاہلوں کے  دلوں پر (ف ۱۲۸)

۱۲۸             جنہیں جانتا ہے کہ وہ گمراہی اختیار کریں گے اور حق والوں کو باطل پر بتائیں گے۔

(۶۰) تو صبر کرو (ف ۱۲۹) بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے  (ف ۱۳۰) اور تمہیں سبک نہ کر دیں وہ جو یقین نہیں رکھتے  (ف ۱۳۱)

۱۲۹             ان کی ایذا و عداوت پر۔

۱۳۰             آپ کی مدد فرمانے کا اور دینِ اسلام کو تمام دینوں پر غالب کرنے کا۔

۱۳۱             یعنی یہ لوگ جنہیں آخرت کا یقین نہیں ہے اور بَعث و حساب کے منکِر ہیں ان کی شدّتیں اور ان کے انکار اور ان کے نالائق حرکات آپ کے لئے طیش اور قلق کا باعث نہ ہوں اور ایسا نہ ہو کہ آپ ان کے حق میں عذاب کی دعا کرنے میں جلدی فرمائیں۔