۱ سورۂ حج بقول ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما و مجاہد مکّیہ ہے سوائے چھ آیتوں کے جو ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ سے شروع ہوتی ہیں اس صورت میں دس رکوع اور اٹھتر آیتیں اور ایک ہزار دو سو اکانوے ۱۲۹۱ کلمات اور پانچ ہزار پچھتر ۵۰۷۵ حرف ہیں۔
۲ اس کے عذاب کا خوف کرو اور اس کی طاعت میں مشغول ہو۔
۳ جو علاماتِ قیامت میں سے ہے اور قریبِ قیامت آفتاب کے مغرب سے طلوع ہونے کے نزدیک واقع ہو گا۔
۵ یعنی حمل والی اس دن کے ہول سے۔
۷ بلکہ عذابِ الٰہی کے خوف سے لوگوں کے ہوش جاتے رہیں گے۔
۸ شانِ نُزول : یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی جو بڑا ہی جھگڑالو تھا اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں اور قرآن کو پہلوں کے قصّے بتاتا تھا اور موت کے بعد اٹھائے جانے کا منکِر تھا۔
۹ شیطان کے اِتّباع سے زجر فرمانے کے بعد منکِرینِ بعث پر حُجّت قائم فرمائی جاتی ہے۔
۱۰ تمہاری نسل کی اصل یعنی تمہارے جدِّ اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو اس سے پیدا کر کے۔
۱۱ یعنی قطرۂ مَنی سے ان کی تمام ذُرِّیَّت کو۔
۱۲ کہ نطفۂ خونِ غلیظ ہو جاتا ہے۔
۱۳ یعنی مُصوَّر اور غیرِ مُصوَّر۔ بخاری اور مسلم کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا تم لوگوں کا مادۂ پیدائش ماں کے شکم میں چالیس روز تک نطفہ رہتا ہے پھر اتنی ہی مدّت خونِ بستہ ہو جاتا ہے پھر اتنی ہی مدّت گوشت کی بوٹی کی طرح رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کا رزق، اس کی عمر، اس کے عمل، اس کا شقی یا سعید ہونا لکھتا ہے پھر اس میں روح پھونکتا ہے۔ (الحدیث) اللہ تعالیٰ انسان کی پیدائش اس طرح فرماتا ہے اور اس کو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل کرتا ہے یہ اس لئے بیان فرمایا گیا۔
۱۴ اور تم اللہ تعالیٰ کے کمالِ قدرت و حکمت کو جانو اور اپنی ابتدائے پیدائش کے حالات پر نظر کر کے سمجھ لو کہ جو قادرِ برحق بے جان مٹی میں اتنے انقلاب کر کے جاندار آدمی بنا دیتا ہے وہ مرے ہوئے انسان کو زندہ کرے تو اس کی قدرت سے کیا بعید۔
۱۷ اور تمہاری عقل و قوّت کامل ہو۔
۱۸ اور اس کو اتنا بڑھاپا آ جاتا ہے کہ عقل و حوّاس بجا نہیں رہتے اور ایسا ہو جاتا ہے۔
۱۹ اور جو جانتا ہو وہ بھول جائے۔ عِکرمہ نے کہا جو قرآن کی مداومت رکھے گا اس حالت کو نہ پہنچے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ بَعث یعنی مرنے کے بعد اٹھنے پر دوسری دلیل بیان فرماتا ہے۔
۲۱ یعنی ہر قِسم کا خوش نما سبزہ۔
۲۲ یہ دلیلیں بیان فرمانے کے بعد نتیجہ مرتّب فرمایا جاتا ہے۔
۲۳ اور یہ جو کچھ ذکر کیا گیا آدمی کی پیدائش اور خشک بے گیاہ زمین کو سرسبز و شاداب کر دینا اس کے وجود و حکمت کی دلیلیں ہیں ان سے اس کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے۔
۲۴ شانِ نُزول : یہ آیت ابوجہل وغیرہ ایک جماعتِ کُفّار کے حق میں نازل ہوئی جو اللہ تعالیٰ کی صفات میں جھگڑا کرتے تھے اور اس کی طرف ایسے اوصاف کی نسبت کرتے تھے جو اس کی شان کے لائق نہیں۔ اس آیت میں بتایا گیا کہ آدمی کو کوئی بات بغیر علم اور بے سند و دلیل کے کہنی نہ چاہیئے، خاص کر شانِ الٰہی میں اور جو بات علم والے کے خلاف بے علمی سے کہی جائے گی وہ باطل ہو گی پھر اس پر یہ انداز کہ اصرار کرے اور براہِ تکبُّر۔
۲۵ اور اس کے دین سے منحرف کر دے۔
۲۶ چنانچہ بدر میں وہ ذلّت و خواری کے ساتھ قتل ہوا۔
۲۸ یعنی جو تو نے دنیا میں کیا کُفر و تکذیب۔
۲۹ اور کسی کو بے جُرم نہیں پکڑتا۔
۳۰ اس میں اطمینان سے داخل نہیں ہوتے اور انہیں ثبات و قرار حاصل نہیں ہوتا، شک و تردّد میں رہتے ہیں جس طرح پہاڑ کے کنارے کھڑا ہوا شخص تَزَلزُل کی حالت میں ہوتا ہے۔ شانِ نُزول : یہ آیت اعرابیوں کی ایک جماعت کے حق میں نازل ہوئی جو اطراف سے آ کر مدینہ میں داخل ہوتے اور اسلام لاتے تھے، ان کی حالت یہ تھی کہ اگر وہ خوب تندرست رہے اور ان کی دولت بڑھی اور ان کے بیٹا ہوا تب تو کہتے تھے اسلام اچھا دین ہے اس میں آ کر ہمیں فائدہ ہوا اور اگر کوئی بات اپنی امید کے خلاف پیش آئی مثلاً بیمار ہو گئے یا لڑکی ہو گئی یا مال کی کمی ہوئی تو کہتے تھے جب سے ہم اس دین میں داخل ہوئے ہیں ہمیں نقصان ہی ہوا اور دین سے پھر جاتے تھے۔ یہ آیت ان کی حق میں نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ انہیں ابھی دین میں ثبات ہی حاصل نہیں ہوا ان کا حال یہ ہے۔
۳۲ مرتد ہو گئے اور کُفر کی طرف لوٹ گئے۔
۳۳ دنیا کا گھاٹا تو یہ کہ جو ان کی امّیدیں تھیں وہ پوری نہ ہوئیں اور اِرتِداد کی وجہ سے ان کا خون مباح ہوا اور آخرت کا گھاٹا ہمیشہ کا عذاب۔
۳۴ وہ لوگ مرتد ہونے کے بعد بُت پرستی کرتے ہیں اور۔
۳۶ یعنی جس کی پرستِش کے خیالی نفع سے اس کو پُوجنے کے۔
۳۹ فرمانبرداروں پر انعام اور نافرمانوں پر عذاب۔
۴۰ حضرت محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔
۴۱ میں ان کے دین کو غلبہ عطا فرما کر۔
۴۳ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی مدد ضرور فرمائے گا جسے اس سے جلن ہو وہ اپنی انتہائی سعی ختم کر دے اور جلن میں مر بھی جائے تو بھی کچھ نہیں کر سکتا۔
۴۴ مؤمنین کو جنّت عطا فرمائے گا اور کُفّار کو کسی قِسم کے بھی ہوں جہنّم میں داخل کرے گا۔
۴۵ اے حبیبِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔
۴۷ یعنی مومنین مزید براں سجدۂ طاعت و عبادت بھی۔
۵۰ یعنی مؤمنین اور پانچوں قِسم کے کُفّار جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔
۵۱ یعنی اس کے دین کے بارے میں اور اس کی صفات میں۔
۵۲ یعنی آگ انہیں ہر طرف سے گھیر لے گی۔
۵۳ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا ایسا تیز گرم کہ اگر اس کا ایک قطرہ دنیا کے پہاڑوں پر ڈال دیا جائے تو ان کو گلا ڈالے۔
۵۴ حدیث شریف میں ہے پھر انہیں ویسا ہی کر دیا جائے گا۔ (ترمذی)۔
۵۶ یعنی دوزخ میں سے تو گُرزوں سے مار کر۔
۵۷ ایسے جن کی چمک مشرق سے مغرب تک روشن کر ڈالے۔ (ترمذی)۔
۵۸ جس کا پہننا دنیا میں مَردوں کو حرام ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے دنیا میں ریشم پہنا آخرت میں نہ پہنے گا۔
۵۹ یعنی دنیا میں اور پاکیزہ بات سے کلمۂ توحید مراد ہے۔ بعض مفسِّرین نے کہا قرآن مراد ہے۔
۶۱ یعنی اس کے دین اور اس کی اطاعت سے۔
۶۲ یعنی اس میں داخل ہونے سے۔ شانِ نُزول : یہ آیت سفیان بن حرب وغیرہ کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مکّہ مکرّمہ میں داخل ہونے سے روکا تھا۔ مسجدِ حرام سے یا خاص کعبۂ معظّمہ مراد ہے جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، اس تقدیر پر معنی یہ ہوں گے کہ وہ تمام لوگوں کا قبلہ ہے، وہاں کے رہنے والے اور پردیسی سب برابر ہیں، سب کے لئے اس کی تعظیم و حرمت اور اس میں ادائے مناسکِ حج یکساں ہے اور طواف و نماز کی فضیلت میں شہری اور پردیسی کے درمیان کوئی فرق نہیں اور امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک یہاں مسجدِ حرام سے مکّہ مکرّمہ یعنی جمیع حرم مراد ہے، اس تقدیر پر معنیٰ یہ ہوں گے کہ حرم شریف شہری اور پردیسی سب کے لئے یکساں ہے، اس میں رہنے اور ٹھہرنے کا سب کسی کو حق ہے بَجُز اس کے کہ کوئی کسی کو نکالے نہیں اسی لئے امام صاحب مکّہ مکرّمہ کی اراضی کی بیع اور اس کے کرایہ کو منع فرماتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مکّہ مکرّمہ حرام ہے اس کی اراضی فروخت نہ کی جائیں۔ (تفسیرِ احمدی)۔
۶۳ اِلْحادٍ بِظُلْم ناحق زیادتی سے یا شرک و بُت پرستی مراد ہے۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ ہر ممنوع قول و فعل مراد ہے حتی کہ خادم کو گالی دینا بھی۔ بعض نے کہا اس سے مراد ہے حرم میں بغیر احرام کے داخل ہونا یا ممنوعاتِ حرم کا ارتکاب کرنا مثل شکار مارنے اور درخت کاٹنے کے اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا مراد یہ ہے کہ جو تجھے نہ قتل کرے تو اسے قتل کرے یا جو تجھ پر ظلم نہ کرے تو اس پر ظلم کرے۔ شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبداللہ بن انیس کو دو آدمیوں کے ساتھ بھیجا تھا جن میں ایک مہاجر تھا دوسرا انصاری، ان لوگوں نے اپنے اپنے مفاخرِ نسب بیان کئے تو عبداللہ بن انیس کو غصّہ آیا اور اس نے انصاری کو قتل کر دیا اور خود مرتد ہو کر مکّہ مکرّمہ کی طرف بھاگ گیا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۶۴ تعمیرِ کعبہ شریف کے وقت پہلے عمارتِ کعبہ حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بنائی تھی اور طوفانِ نوح کے وقت وہ آسمان پر اٹھا لی گئی، اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا مقرر کی جس نے اس کی جگہ کو صاف کر دیا اور ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اَبر بھیجا جو خاص اس بُقعَہ کے مقابل تھا جہاں کعبہ معظّمہ کی عمارت تھی اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کعبہ شریف کی جگہ بتائی گئی اور آپ نے اس کی قدیم بنیاد پر عمارتِ کعبہ تعمیر کی اور اللہ تعالیٰ نے آ پ کو وحی فرمائی۔
۶۵ شرک سے اور بُتوں سے اور ہر قسم کی نجاستوں سے۔
۶۷ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابوقبیس پہاڑ پر چڑھ کر جہان کے لوگوں کو ندا کر دی کہ بیت اللہ کا حج کرو، جن کے مقدور میں حج ہے انہوں نے باپوں کی پشتوں اور ماؤں کے پیٹوں سے جواب دیا لَبَّیْکَ اَللّہُمَّ لَبَّیْکَ۔ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ اس آیت میں اَذِّنْ کا خِطاب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہے چنانچہ حَجَّۃُ الوداع میں اعلان فرما دیا اور ارشاد کیا کہ اے لوگو اللہ نے تم پر حج فرض کیا تو حج کرو۔
۶۸ اور کثرتِ سیر و سفر سے دبلی ہو جاتی ہیں۔
۶۹ دینی بھی دنیوی بھی جو اس عباد ت کے ساتھ خاص ہیں، دوسری عبادت میں نہیں پائے جاتے۔
۷۱ جانے ہوئے دنوں سے ذِی الحِجّہ کا عشرہ مراد ہے جیسا کہ حضرت علی اور ابنِ عباس و حسن و قتادہ رضی اللہ عنہم کا قول ہے اور یہی مذہب ہے ہمارے امامِ اعظم حضرت ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اور صاحبین کے نزدیک جانے ہوئے دنوں سے ایّامِ نحر مراد ہیں، یہ قول ہے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا اور ہر تقدیر پر یہاں ان دنوں سے خاص روزِ عید مراد ہے۔ (تفسیرِ احمدی)۔
۷۳ تطّوُع اور متعہ و قِرانْ و ہر ایک ہدی سے جن کا اس آیت میں بیان ہے کھانا جائز ہے، باقی ہدایا سے جائز نہیں۔ (تفسیرِ احمد ی و مدارک)۔
۷۴ مونچھیں کتروائیں، ناخن تراشیں، بغلوں اور زیرِ ناف کے بال دور کریں۔
۷۶ اس سے طوافِ زیارت مراد ہے، مسائلِ حج بالتفصیل سورۂ بقر پارہ دو میں ذکر ہو چکے۔
۷۷ یعنی اس کے احکام کی خواہ وہ مناسکِ حج ہوں یا ان کے سوا اور احکام۔ بعض مفسِّرین نے اس سے مناسکِ حج مراد لئے ہیں اور بعض نے بیتِ حرام و مشعرِ حرام و شہرِ حرام و بلدِ حرام و مسجدِ حرام مراد لئے ہیں۔
۷۹ قرآنِ پاک میں جیسے کہ سورۂ مائدہ کی آیت حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ میں بیان فرمائی گئی۔
۸۰ جن کی پرستِش کرنا بدترین گندگی سے آلودہ ہونا ہے۔
۸۱ اور بوٹی بوٹی کر کے کھا جاتے ہیں۔
۸۲ مراد یہ ہے کہ شرک کرنے والا اپنی جان کو بدترین ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ ایمان کو بلندی میں آسمان سے تشبیہ دی گئی اور ایمان ترک کرنے والے کو آسمان سے گرنے والے کے ساتھ اور اس کی خواہشاتِ نفسانیہ کو جو اس کی فکروں کو منتشر کرتی ہیں بوٹی بوٹی لے جانے والے پرندے کے ساتھ اور شیاطین کو جو اس کو وادیِ ضلالت میں پھینکتے ہیں ہَوا کے ساتھ تشبیہ دی گئی اور اس نفیس تشبیہ سے شرک کا انجامِ بد سمجھایا گیا۔
۸۳ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ شعائر اللہ سے مراد بُدنے اور ہدایا ہیں اور ان کی تعظیم یہ ہے کہ فربہ، خوبصورت، قیمتی لئے جائیں۔
۸۴ وقتِ ضرور ت ان پر سوار ہونے اور وقتِ حاجت ان کے دودھ پینے کے۔
۸۶ یعنی حرم شریف تک جہاں وہ ذبح کئے جائیں۔
۸۷ پچھلی ایماندار اُمّتوں میں سے۔
۸۹ تو ذبح کے وقت صرف اسی کا نام لو۔ اس آیت میں دلیل ہے اس پر کہ نامِ خدا کا ذکر کر نا ذبح کے لئے شرط ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر ایک اُمّت کے لئے مقرر فرما دیا تھا کہ اس کے لئے بہ طریقِ تَقَرُّب قربانی کریں اور تمام قربانیوں پر اسی کا نام لیا جائے۔
۹۰ اور اخلاص کے ساتھ اس کی اطاعت کرو۔
۹۴ دنیا میں نفع اور آخرت میں اجر و ثواب۔
۹۵ ان کے ذبح کے وقت جس حال میں کہ وہ ہوں۔
۹۶ اُونٹ کے ذبح کا یہی مسنون طریقہ ہے۔
۹۷ یعنی بعدِ ذبح ان کے پہلو زمین پر گریں اور ان کی حرکت ساکن ہو جائے۔
۹۹ یعنی قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور شروطِ تقویٰ کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کر سکتے ہیں۔
شانِ نُزول : زمانۂ جاہلیت کے کُفّار اپنی قربانیوں کے خون سے کعبۂ معظّمہ کی دیواروں کو آلودہ کرتے تھے اور اس کو سببِ تقرُّب جانتے تھے۔ اس پر آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۱۰۲ یعنی کُفّار کو جو اللہ اور اس کے رسول کی خیانت اور خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔
۱۰۴ شانِ نُزول : کُفّارِ مکّہ اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو روزمرہ ہاتھ اور زبان سے شدید ایذائیں دیتے اور آزار پہنچاتے رہتے تھے اور صحابہ حضور کے پاس اس حال میں پہنچتے تھے کہ کسی کا سر پھٹا ہے کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہے کسی کا پاؤں بندھا ہوا ہے روزمرہ اس قسم کی شکایتیں بارگاہِ اقدس میں پہنچتی تھیں اور اصحابِ کرام کفُاّر کے مظالم کی حضور کے دربار میں فریادیں کرتے حضور یہ فرما دیا کرتے کہ صبر کرو مجھے ابھی جہاد کا حکم نہیں دیا گیا ہے جب حضور نے مدینہ طیّبہ کو ہجرت فرمائی تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ وہ پہلی آیت ہے جس میں کُفّار کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
۱۰۶ اور یہ کلام حق ہے اور حق پر گھروں سے نکالنا اور بے وطن کرنا قطعاً ناحق۔
۱۰۷ جہاد کی اجازت دے کر اور حدود قائم فرما کر تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مشرکین کا استیلا ہو جاتا اور کوئی دین و ملّت والا ان کے دستِ تعدّی سے نہ بچتا۔
۱۱۲ اور ان کے دشمنوں کے مقابل ان کی مدد فرمائیں۔
۱۱۳ اس میں خبر دی گئی ہے کہ آئندہ مہاجرین کو زمین میں تصرف عطا فرمانے کے بعد ان کی سیرتیں ایسی پاکیزہ رہیں گی اور وہ دین کے کاموں میں اخلاص کے ساتھ مشغول رہیں گے اس میں خلفائے راشدین مہدیّین کے عدل اور ان کے تقویٰ و پرہیزگاری کی دلیل ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمکین و حکومت عطا فرمائی اور سیرتِ عادلہ عطا کی۔
۱۱۴ اے حبیبِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔
(۴۳) اور ابراہیم کی قوم اور لوط کی قوم۔
۱۱۸ یہاں موسیٰ کی قوم نہ فرمایا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم بنی اسرائیل نے آپ کی تکذیب نہ کی تھی بلکہ فرعون کی قوم قبطیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی تھی، ان قوموں کا تذکرہ اور ہر ایک کے اپنے رسول کی تکذیب کرنے کا بیان سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تسکینِ خاطر کے لئے ہے کہ کُفّار کا یہ قدیمی طریقہ ہے پچھلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی دستور رہا ہے۔
۱۱۹ اور ان کے عذاب میں تاخیر کی اور انہیں مہلت دی۔
۱۲۰ اور ان کے کفر و سرکشی کی سزا دی۔
۱۲۱ آپ کی تکذیب کرنے والوں کو چاہیئے کہ اپنے انجام کو سوچیں اور عبرت حاصل کریں۔
۱۲۲ اور وہاں کے رہنے والوں کو ہلاک کر دیا۔
۱۲۳ یعنی وہاں کے رہنے والے کافِر تھے۔
۱۲۴ کہ ان سے کوئی پانی بھرنے والا نہیں۔
۱۲۶ کُفّار کہ ان حالات کا مشاہدہ کریں۔
۱۲۷ کہ انبیاء کی تکذیب کا کیا انجام ہوا اور عبرت حاصل کریں۔
۱۲۸ پچھلی اُمّتوں کے حالات اور ان کا ہلاک ہونا اور ان کی بستیوں کی ویرانی کہ اس سے عبرت حاصل ہو۔
۱۲۹ یعنی کُفّار کی ظاہری حِس باطل نہیں ہوئی ہے وہ ان آنکھوں سے دیکھنے کی چیزیں دیکھتے ہیں۔
۱۳۰ اور دلوں ہی کا اندھا ہونا غضب ہے اسی لئے آدمی دین کی راہ پانے سے محروم رہتا ہے۔
۱۳۱ یعنی کُفّارِ مکّہ مثل نضر بن حارث وغیرہ کے اور یہ جلدی کرنا ان کا استہزاء کے طریقہ پر تھا۔
۱۳۲ اور ضرور حسبِ وعدہ عذاب نازل فرمائے گا چنانچہ یہ وعدہ بدر میں پورا ہوا۔
۱۳۴ تو یہ کُفّار کیا سمجھ کر عذاب کی جلدی کرتے ہیں۔
۱۳۵ اور دنیا میں ان پر عذاب نازل کیا۔
۱۳۷ جو کبھی منقطع نہ ہو وہ جنّت ہے۔
۱۳۸ کہ کبھی ان آیات کو سحر کہتے ہیں، کبھی شعر، کبھی پچھلوں کے قصّے اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام کے ساتھ ان کا یہ مَکر چل جائے گا۔
۱۳۹ نبی اور رسول میں فرق ہے نبی عام ہے اور رسول خاص۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ رسول شرع کے واضع ہوتے ہیں اور نبی اس کے حافظ اور نگہبان۔ شانِ نُزول : جب سورۂ والنجم نازل ہوئی تو سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجدِ حرام میں اس کی تلاوت فرمائی اور بہت آہستہ آہستہ آیتوں کے درمیان وقفہ فرماتے ہوئے جس سے سننے والے غور بھی کر سکیں اور یاد کرنے والوں کو یاد کرنے میں مدد بھی ملے جب آپ نے آیت وَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْریٰ پڑھ کر حسبِ دستور وقفہ فرمایا تو شیطان نے مشرکین کے کان میں اس سے ملا کر دو کلمے ایسے کہہ دیئے جن سے بُتوں کی تعریف نکلتی تھی، جبریلِ امین نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ حال عرض کیا اس سے حضور کو رنج ہوا، اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسلّی کے لئے یہ آیت نازل فرمائی۔
۱۴۰ جو پیغمبر پڑھتے ہیں اور انہیں شیطانی کلمات کے خلط سے محفوظ فرماتا ہے۔
۱۴۱ اور ابتلا و آزمائش بنا دے۔
۱۴۳ حق کو قبول نہیں کرتے اور یہ مشرکین ہیں۔
۱۴۵ اللہ کے دین کا اور اس کی آیات کا۔
۱۴۷ یعنی قرآن سے یا دینِ اسلام سے۔
۱۴۸ یا موت کہ وہ بھی قیامتِ صغریٰ ہے۔
۱۴۹ اس سے بدر کا دن مراد ہے جس میں کافِروں کے لئے کچھ کشائش و راحت نہ تھی اور بعض مفسّرین نے کہا کہ اس سے روزِ قیامت مراد ہے۔
۱۵۲ اور اس کی رضا کے لئے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر وطن سے نکلے اور مکّہ مکرّمہ سے مدینہ طیّبہ کی طرف ہجرت کی۔
۱۵۳ یعنی رزقِ جنت جو کبھی منقطع نہ ہو۔
۱۵۴ وہاں ان کی ہر مراد پوری ہو گی اور کوئی ناگوار بات پیش نہ آئے گی۔ شانِ نُزول : نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ کے بعض اصحاب نے عرض کیا یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے جو اصحاب شہید ہو گئے ہم جانتے ہیں کہ بارگاہِ الٰہی میں ان کے بڑے درجے ہیں اور ہم جہادوں میں حضور کے ساتھ رہیں گے لیکن اگر ہم آپ کے ساتھ رہے اور بے شہادت کے موت آئی تو آخرت میں ہمارے لئے کیا ہے، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ۔
۱۵۶ ظالم کی طرف سے اس کو بے وطن کر کے۔
۱۵۷ شانِ نُزول : یہ آیت مشرکین کے حق میں نازل ہوئی جو ماہِ محرّم کی اخیر تاریخوں میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے اور مسلمانوں نے ماہِ مبارک کی حرمت کے خیال سے لڑنا نہ چاہا مگر مشرک نہ مانے اور انہوں نے قتال شروع کر دیا مسلمان ان کے مقابل ثابت رہے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی۔
۱۵۸ یعنی مظلوم کی مدد فرمانا اس لئے ہے کہ اللہ جو چاہے اس پر قادر ہے اور اس کی قدرت کی نشانیاں ظاہر ہیں۔
۱۵۹ یعنی کبھی دن کو بڑھاتا رات کو گھٹاتا ہے اور کبھی رات کو بڑھاتا دن کو گھٹاتا ہے اس کے سوا کوئی اس پر قدرت نہیں رکھتا جو ایسا قدرت والا ہے وہ جس کی چاہے مدد فرمائے اور جسے چاہے غالب کرے۔
۱۶۰ یعنی اور یہ مدد اس لئے بھی ہے۔
۱۶۳ جانور وغیرہ جن پر تم سوار ہوتے ہو اور جن سے تم کام لیتے ہو۔
۱۶۴ تمہارے لئے اس کے چلانے کے واسطے ہوا اور پانی کو مسخر کیا۔
۱۶۵ کہ اس نے ان کے لئے منفعتوں کے دروازے کھولے اور طرح طرح کی مضرتوں سے ان کو محفوظ کیا۔
۱۶۶ بے جان نطفہ سے پیدا فرما کر۔
۱۶۷ تمہاری عمریں پوری ہونے پر۔
۱۶۸ روزِ بَعث ثواب و عذاب کے لئے۔
۱۶۹ کہ باوجود اتنی نعمتوں کے اس کی عبادت سے منہ پھیرتا ہے اور بے جان مخلوق کی پرستش کرتا ہے۔
۱۷۲ یعنی امرِ دین میں یا ذبیحہ کے امر میں۔ شانِ نُزول : یہ آیت بدیل ابن ور قاء اور بشر بن سفیان اور یزید ابنِ خنیس کے حق میں نازل ہوئی ان لوگوں نے اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا تھا کیا سبب ہے جس جانور کو تم خود قتل کرتے ہو اسے تو کھاتے ہو اور جس کو اللہ مارتا ہے اس کو نہیں کھاتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
۱۷۳ اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے اور اس کا دین قبول کرنے اور اس کی عبادت میں مشغول ہونے کی دعوت دو۔
۱۷۴ باوجود تمہارے طرح دینے کے بھی۔
۱۷۵ اور تم پر حقیقتِ حال ظاہر ہو جائے گی۔
۱۷۷ یعنی ان سب کا علم یا تمام حوادث کا لوحِ محفوظ میں ثبت فرمانا۔
۱۷۸ اس کے بعد کُفّار کی جہالتوں کا بیان فرمایا جاتا ہے کہ وہ ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جو عبادت کے مستحق نہیں۔
۱۸۰ یعنی ان کے پاس اپنے اس فعل کی نہ کوئی دلیلِ عقلی ہے نہ نقلی، مَحض جہل و نادانی سے گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں اور جو کسی طرح پُوجے جانے کے مستحق نہیں ان کوپُوجتے ہیں یہ شدید ظلم ہے۔
۱۸۲ جو انہیں عذابِ الٰہی سے بچا سکے۔
۱۸۳ اور قرآنِ کریم انہیں سُنایا جائے جس میں بیانِ احکام اور تفصیلِ حلال و حرام ہے۔
۱۸۴ یعنی تمہارے اس غیظ و ناگواری سے بھی جو قرآنِ پاک سُن کر تم میں پیدا ہوتی ہے۔
۱۸۵ اور اس میں خوب غور کرو وہ کہاوت یہ ہے کہ تمہارے بُت۔
۱۸۶ ان کی عاجزی اور بے قدرتی کا یہ حال ہے کہ وہ نہایت چھوٹی سی چیز۔
۱۸۷ تو عاقل کو کب شایاں ہے کہ ایسے کو معبود ٹھہرائے ایسے کو پُوجنا اور اِلٰہ قرار دینا کتنا انتہا درجہ کا جہل ہے۔
۱۸۸ وہ شہد و زعفران وغیرہ جو مشرکین بُتوں کے منہ اور سروں پر ملتے ہیں جس پر مکھیاں بھنکتی ہیں۔
۱۸۹ ایسے کو خدا بنانا اور معبود ٹھہرانا کتنا عجیب اور عقل سے دور ہے۔
۱۹۰ چاہنے والے سے بُت پرست اور چاہے ہوئے سے بُت مراد ہے یا چاہنے والے سے مکھی مراد ہے جو بُت پر سے شہد و زعفران کی طالب ہے اور مطلوب سے بُت اور بعض نے کہا کہ طالب سے بُت مراد ہے اور مطلوب سے مکھی۔
۱۹۱ اور اس کی عظمت نہ پہچانی جنہوں نے ایسوں کو خدا کا شریک کیا جو مکھی سے بھی کمزور ہیں معبود وہی ہے جو قدرتِ کاملہ رکھے۔
۱۹۲ مثل جبریل و میکائیل وغیرہ کے۔
۱۹۳ مثل حضرت ابراہیم و حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ و حضرت سیدِ عالَم صلوٰۃ اللہ تعالیٰ علیہم و سلامہ کے۔ شانِ نُزول : یہ آیت ان کُفّار کے رد میں نازل ہوئی جنہوں نے بشر کے رسول ہونے کا انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ بشر کیسے رسول ہو سکتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اللہ مالک ہے جسے چاہے اپنا رسول بنائے وہ انسانوں میں سے بھی رسول بناتا ہے اور ملائکہ میں سے بھی جنہیں چاہے۔
۱۹۴ یعنی امورِ دنیا کو بھی اور امورِ آخرت کو بھی یا ان کے گزرے ہوئے اعمال کو بھی اور آئندہ کے احوال کو بھی۔
۱۹۵ اپنی نمازوں میں اسلام کے اوّل عہد میں نماز بغیر رکوع و سجود کے تھی پھر نماز میں رکوع و سجود کا حکم فرمایا گیا۔
۱۹۶ یعنی رکوع و سجود خاص اللہ کے لئے ہوں اور عبادت میں اخلاص اختیار کرو۔
۱۹۷ صلہ رحمی و مکارمِ اخلاق وغیرہ نیکیاں۔
۱۹۸ یعنی نیتِ صادقہ خالصہ کے ساتھ اعلائے دین کے لئے۔
۲۰۰ بلکہ ضرورت کے موقعوں پر تمہارے لئے سہولت کر دی جیسے کہ سفر میں نماز کا قصر اور روزے کے افطار کی اجازت اور پانی نہ پانے یا پانی کے ضرر کرنے کی حالت میں غسل اور وضو کی جگہ تیمم تو تم دین کی پیروی کرو۔
۲۰۱ جو دینِ محمّدی میں داخل ہے۔
۲۰۲ روزِ قیامت کہ تمہارے پاس خدا کا پیام پہنچا دیا۔
۲۰۳ کہ انہیں ان رسولوں نے احکامِ خداوندی پہنچا دیئے اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ عزت و کرامت عطا فرمائی۔