۱ سورۂ احزاب مدنیّہ ہے، اس میں نو رکوع، تہتّر۷۳ آیتیں اور ایک ہزار دو سو اسّی کلمے اور پانچ ہزار سات سو نوّے حرف ہیں۔
۲ یعنی ہماری طرف سے خبریں دینے والے، ہمارے اسرار کے امین، ہمارا خطاب ہمارے پیارے بندوں کو پہنچانے والے، اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو یٰآ اَیُّہَا النَّبِیُّ کے ساتھ خِطاب فرمایا جس کے یہ معنیٰ ہیں جو ذکر کئے گئے نامِ پاک کے ساتھ، یَا مُحَمَّدُ ذکر فرما کر خِطاب نہ کیا جیسا کہ دوسرے انبیاء علیہم السلام کو خِطاب فرمایا ہے اس سے مقصود آپ کی تکریم اور آپ کا احترام اور آپ کی فضیلت کا ظاہر کرنا ہے۔ (مدارک)
۳ شانِ نُزول : ابوسفیان بن حرب اور عکرمہ بن ابی جہل اور ابوالاعور سلمی جنگِ اُحد کے بعد مدینہ طیّبہ میں آئے اور منافقین کے سردار عبداللہ بن اُ بَی بن سلول کے یہاں مقیم ہوئے، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے گفتگو کے لئے امان حاصل کر کے انہوں نے یہ کہا کہ آپ لات، عزّیٰ، منات وغیرہ بُتوں کو جنہیں مشرکین اپنا معبود سمجھتے ہیں کچھ نہ فرمائیے اور یہ فرما دیجئے کہ ان کی شفاعت ان کے پجاریوں کے لئے ہے اور ہم لوگ آپ کو اور آپ کے ربّ کو کچھ نہ کہیں گے، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ان کی یہ گفتگو بہت ناگوار ہوئی اور مسلمانوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے قتل کی اجازت نہ دی اور فرمایا کہ میں انہیں امان دے چکا ہوں اس لئے قتل نہ کرو، مدینہ شریف سے نکال دو چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نکال دیا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اس میں خِطاب تو سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ ہے اور مقصود ہے آپ کی اُمّت سے فرمانا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے امان دی تو تم اس کے پابند رہو اور نقضِ عہد کا ارادہ نہ کرو اور کُفّار و منافقین کی خلافِ شرع بات نہ مانو۔
۴ کہ ایک میں اللہ کا خوف ہو دوسرے میں کسی اور کا، جب ایک ہی دل ہے تو اللہ ہی سے ڈرے۔ شانِ نُزول : ابو معمر حمید فہری کی یاد داشت اچھی تھی جو سنتا تھا یاد کر لیتا تھا، قریش نے کہا کہ اس کے دو دل ہیں جبھی تو اس کا حافظہ اتنا قوی ہے وہ خود ہی کہتا تھا کہ اس کے دو دل ہیں اور ہر ایک میں حضرت سیدِ (عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ) سے زیادہ دانش ہے۔ جب بدر میں مشرک بھاگے تو ابو معمر اس شان سے بھاگا کہ ایک جوتی ہاتھ میں ایک پاؤں میں، ابوسفیان سے ملاقات ہوئی تو ابوسفیان نے پوچھا کیا حال ہے ؟ کہا لوگ بھاگ گئے تو ابوسفیان نے پوچھا ایک جوتی ہاتھ میں ایک پاؤں میں کیوں ہے ؟ کہا اس کی مجھے خبر ہی نہیں میں تو یہی سمجھ رہا ہوں کہ دونوں جوتیاں پاؤں میں ہیں۔ اس وقت قریش کو معلوم ہوا کہ دو ۲ دل ہوتے تو جوتی جو ہاتھ میں لئے ہوئے تھا بھول نہ جاتا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ منافقین سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے لئے دو ۲ دل بتاتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کا ایک دل ہمارے ساتھ ہے اور ایک اپنے اصحاب کے ساتھ نیز زمانۂ جاہلیت میں جب کوئی اپنی عورت سے ظِہار کرتا تھا تو وہ لوگ اس ظِہار کو طلاق کہتے اور اس عورت کو اس کی ماں قرار دیتے تھے اور جب کوئی شخص کسی کو بیٹا کہہ دیتا تھا تو اس کو حقیقی بیٹا قرار دے کر شریکِ میراث ٹھہراتے اور اس کی زوجہ کو بیٹا کہنے والے کے لئے صُلبی بیٹے کی بی بی کی طرح حرام جانتے۔ ان سب کی رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔
۵ یعنی ظِہار سے عورت ماں کے مثل حرام نہیں ہو جاتی۔
ظِہار : منکوحہ کو ایسی عورت سے تشبیہ دینا جو ہمیشہ کے لئے حرام ہو اور یہ تشبیہ ایسے عضو میں ہو جس کو دیکھنا اور چھونا جائز نہیں ہے مثلاً کسی نے اپنی بی بی سے یہ کہا کہ تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ یا پیٹ کے مثل ہے تو وہ مظاہر ہو گیا۔
مسئلہ : ظِہار سے نکاح باطل نہیں ہوتا لیکن کَفّارہ ادا کرنا لازم ہو جاتا ہے اور کَفّارہ ادا کرنے سے پہلے عورت سے علیٰحدہ رہنا اور اس سے تمتع نہ کرنا لازم ہے۔
مسئلہ: ظِہار کا کَفّارہ ایک غلام کا آزاد کرنا اور یہ میسّر نہ ہو تو متواتر دو مہینے کے روزے اور یہ بھی نہ ہو سکے تو ساٹھ مسکینوں کا کھلانا ہے۔
مسئلہ : کَفّارہ ادا کرنے کے بعد عورت سے قربت اور تمتُّع حلال ہو جاتا ہے۔ (ہدایہ)
۶ خواہ انہیں لوگ تمہارا بیٹا کہتے ہوں۔
۷ یعنی بی بی کو ماں کے مثل کہنا اور لے پالک کو بیٹا کہنا بے حقیقت بات ہے، نہ بی بی ماں ہو سکتی ہے نہ دوسرے کا فر زند اپنا بیٹا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے جب حضرت زینب بنتِ حجش سے نکاح کیا تو یہود و منافقین نے زبانِ طعن کھولی اور کہا کہ (حضرت) محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اپنے بیٹے زید کی بی بی سے شادی کر لی کیونکہ پہلے حضرت زینب زید کے نکاح میں تھیں اور حضرت زید اُمُّ المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے زر خرید تھے انہوں نے حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں انہیں ہبہ کر دیا، حضور نے انہیں آزاد کر دیا تب بھی وہ اپنے باپ کے پاس نہ گئے حضور ہی کی خدمت میں رہے، حضور ان پر شفقت و کرم فرماتے تھے اس لئے لوگ انہیں حضور کا فرزند کہنے لگے، اس سے وہ حقیقتہً حضور کے بیٹے نہ ہو گئے اور یہود و منافقین کا طعنہ مَحض غلط اور بیجا ہو ا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان طاعنین کی تکذیب فرمائی اور انہیں جھوٹا قرار دیا۔
۸ حق کی لہٰذا لے پالکوں کو ان کے پالنے والوں کا بیٹا نہ ٹھہراؤ بلکہ۔
۱۰ اور اس وجہ سے تم انہیں ان کے باپوں کی طرف نسبت نہ کر سکو۔
۱۱ تو تم انہیں بھائی کہو اور جس کے لے پالک ہیں اس کا بیٹا نہ کہو۔
۱۲ ممانعت سے پہلے یا یہ معنیٰ ہیں کہ اگر تم نے لے پالکوں کو خطأً بے ارادہ ان کے پرورش کرنے والوں کا بیٹا کہہ دیا یا کسی غیر کی اولاد کو مَحض زبان کی سبقت سے بیٹا کہا تو ان صورتوں میں گناہ نہیں۔
۱۴ دنیا و دین کے تمام امور میں اور نبی کا حکم ان پر نافذ اور نبی کی طاعت واجب اور نبی کے حکم کے مقابل نفس کی خواہش واجب الترک یا یہ معنیٰ ہیں کہ نبی مومنین پر ان کی جانوں سے زیادہ رافت و رحمت اور لطف و کرم فرماتے ہیں اور نافع تر ہیں۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا ہر مومن کے لئے دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ اولیٰ ہوں اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو اَلنَّبِیُّ اَوْلیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنَ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت میں مِنْ اَنْفُسھِمْ کے بعد وَ ھُوَ اَبُ لَّھُمْ بھی ہے۔ مجاہد نے کہا کہ تمام انبیاء اپنی اُمّت کے باپ ہوتے ہیں اور اسی رشتہ سے مسلمان آپس میں بھائی کہلاتے ہیں کہ وہ اپنے نبی کی دینی اولاد ہیں۔
۱۵ تعظیم و حرمت میں اور نکاح کے ہمیشہ کے لئے حرام ہونے میں اور اس کے علاوہ دوسرے احکام میں مثل وراثت اور پردہ وغیرہ کے ان کا وہی حکم ہے جو اجنبی عورتوں کا اور ان کی بیٹیوں کو مومنین کی بہنیں اور ان کے بھائیوں اور بہنوں کو مومنین کے ماموں خالہ نہ کہا جائے گا۔
۱۷ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ اُو لِی الاَرحام ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں، کوئی اجنبی دینی برادری کے ذریعہ سے وارث نہیں ہوتا۔
۱۸ اس طرح کہ جس کے لئے چاہو کچھ وصیّت کرو تو وصیّت ثُلُث مال کے قدر میں توارث پر مقدم کی جائے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اوّل مال ذوِی الفروض کو دیا جائے گا پھر عصبات کو پھر نسبی ذوِی الفروض پر رد کیا جائے گا پھر ذوِی الارحام کو دیا جاوے گا پھر مولیٰ الموالاۃ کو۔ (تفسیرِ احمدی)
۲۰ رسالت کی تبلیغ اور دینِ حق کی دعوت دینے کا۔
مسئلہ : سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ذکر دوسرے انبیاء پر مقدم کرنا ان سب پر آپ کی افضلیت کے اظہار کے لئے ہے۔
۲۲ یعنی انبیاء سے یا ان کے تصدیق کرنے والوں سے۔
۲۳ یعنی جو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا اور انہیں تبلیغ کی وہ دریافت فرمائے یا مومنین سے ان کی تصدیق کا سوال کر یا یہ معنیٰ ہیں کہ انبیاء کو جو ان کی اُمّتوں نے جواب دیئے وہ دریافت فرمائے اور اس سوال سے مقصود کُفّار کی تذلیل و تبکیت ہے۔
۲۴ جو اس نے جنگِ احزاب کے دن فرمایا جس کو غزوۂ خندق کہتے ہیں جو جنگِ اُحد سے ایک سال بعد تھا جب کہ مسلمانوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ مدینۂ طیّبہ میں محاصرہ کر لیا گیا تھا۔
۲۵ قریش اور غطفان اور یہود قُرَیظہ و نُضَیر کے۔
۲۶ یعنی ملائکہ کے لشکر۔ غزوۂ احزاب کا مختصر بیان یہ غزوہ شوال ۴ یا ۵ ہجری میں پیش آیا جب یہودِ بنی نُضَیر کو جِلا وطن کیا گیا تو ان کے اکابر مکّہ مکرّمہ میں قریش کے پاس پہنچے اور انہیں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ جنگ کی ترغیب دلائی اور وعدہ کیا کہ ہم تمہارا ساتھ دیں گے یہاں تک کہ مسلمان نیست و نابود ہو جائیں، ابوسفیان نے اس تحریک کی بہت قدر کی اور کہا کہ ہمیں دنیا میں وہ سب سے پیارا ہے جو (محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ) کی عداوت میں ہمارا ساتھ دے پھر قریش نے ان یہودیوں سے کہا کہ تم پہلی کتاب والے ہو بتاؤ تو ہم حق پر ہیں یا محمّدِ (مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) ؟ یہود نے کہا تمہی حق پر ہو، اس پر قریش خوش ہوئے اسی پر آیت اَ لَمْ تَرَ اِلیَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْباً مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ نازل ہوئی پھر یہودی قبائلِ غطفان و قیس و غیلان وغیرہ میں گئے، وہاں بھی یہی تحریک کی وہ سب ان کے موافق ہو گئے اس طرح انہوں نے جابجا دورے کئے اور عرب کے قبیلہ قبیلہ کو مسلمانوں کے خلاف تیار کر لیا، جب سب لوگ تیار ہو گئے تو قبیلۂ خزاعہ کے چند لوگوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو کُفّار کی ان زبردست تیّاریوں کی اطلاع دی، یہ اطلاع پاتے ہی حضور نے بمشورۂ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خندق کھدوانی شروع کر دی، اس خندق میں مسلمانوں کے ساتھ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے خود بھی کام کیا، مسلمان خندق تیار کر کے فارغ ہوئے ہی تھے کہ مشرکین بارہ ہزار کا لشکرِ گراں لے کر ان پر ٹوٹ پڑے اور مدینہ طیّبہ کا محاصرہ کر لیا، خندق مسلمانوں کے اور ان کے درمیان حائل تھی اس کو دیکھ کر متحیّر ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ ایسی تدبیر ہے جس سے عرب لوگ اب تک واقف نہ تھے، اب انہوں نے مسلمانوں پر تیر اندازی شروع کی اور اس محاصرہ کو پندرہ روز یا چوبیس روز گزرے، مسلمانوں پر خوف غالب ہوا اور وہ بہت گھبرائے اور پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور ان پر تیز ہوا بھیجی نہایت سرد اور اندھیری رات میں اس ہوا نے ان کے خیمے گرا دیئے، طنابیں توڑ دیں، کھونٹے اکھاڑ دیئے، ہانڈیاں الٹ دیں، آدمی زمین پر گرنے لگے اور اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھیج دیئے جنہوں نے کُفّار کو لرزا دیا، ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی مگر اس جنگ میں ملائکہ نے قتال نہیں کیا پھر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے حذیفہ بن یمان کو خبر لینے کے لئے بھیجا وقت نہایت سرد تھا یہ ہتھیار لگا کر روانہ ہوئے، حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روانہ ہوتے وقت ان کے چہرے اور بدن پر دستِ مبارک پھیرا جس سے ان پر سردی اثر نہ کر سکی اور یہ دشمن کے لشکر میں پہنچ گئے، وہاں تیز ہوا چل رہی تھی اور سنگریزے اڑ اڑ کر لوگوں کے لگ رہے تھے، آنکھوں میں گرد پڑ رہی تھی، عجب پریشانی کا عالَم تھا، لشکرِ کُفّار کے سردار ابوسفیان ہوا کا یہ عالَم دیکھ کر اٹھے اور انہوں نے قریش کو پکار کر کہا کہ جاسوسوں سے ہوشیار رہنا، ہر شخص اپنے برابر والے کو دیکھ لے، یہ اعلان ہونے کے بعد ہر ایک شخص نے اپنے برابر والے کو ٹٹولنا شروع کیا، حضرت حذیفہ نے دانائی سے اپنے داہنے شخص کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں فلاں بن فلاں ہوں، اس کے بعد ابوسفیان نے کہا اے گروہِ قریش تم ٹھہرنے کے مقام پر نہیں ہو، گھوڑے اور اونٹ ہلاک ہو چکے، بنی قُرَیظہ اپنے عہد سے پھر گئے اور ہمیں ان کی طرف سے اندیشہ ناک خبریں پہنچی ہیں، ہوا نے جو حال کیا ہے وہ تم دیکھ ہی رہے ہو، بس اب یہاں سے کوچ کر دو، میں کوچ کرتا ہوں ابوسفیان یہ کہہ کر اپنی اونٹنی پر سوار ہو گئے اور لشکر میں الرحیل الرحیل یعنی کو چ کوچ کا شور مچ گیا، ہوا ہر چیز کو اُلٹے ڈالتی تھی مگر یہ ہوا اس لشکر سے باہر نہ تھی، اب یہ لشکر بھاگ نکلا اور سامان کا بار کر کے لے جانا اس کو شاق ہو گیا اس لئے کثیر سامان چھوڑ گیا۔ (جمل)
۲۷ یعنی تمہارا خندق کھودنا اور نبی کر یم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی فرمانبرداری میں ثابت قدم رہنا۔
۲۸ یعنی وادی کی بالائی جانب مشرق سے قبیلۂ اسد و غطفان کے لوگ مالک بن عوف نصری وعُیَیۡنہ بن حسن فزاری کی سرکردگی میں ایک ہزار کی جمعیت لے کر اور ان کے ساتھ طلیحہ بن خویلد اسدی بنی اسد کی جمعیت لے کر اور حُیَیْ بن اخطب، یہودِ بنی قریظہ کی جمعیت لے کر اور وادی کی زیریں جانب مغرب سے قریش اور کنانہ بَسَرکردگی ابو سفیان بن حرب۔
۲۹ اور شدّتِ رعب و ہیبت سے حیرت میں آ گئیں۔
۳۰ خوف و اضطراب انتہا کو پہنچ گیا۔
۳۱ منافق تو یہ گمان کرنے لگے کہ مسلمانوں کا نام و نشان باقی نہ رہے گا، کُفّار کی اتنی بڑی جمعیت سب کو فنا کر ڈالے گی اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد آنے اور اپنے فتحیاب ہونے کی امید تھی۔
۳۲ اور ان کا صبر و اخلاص مَحَکِّ امتحان پر لایا گیا۔
۳۴ یہ بات معتب بن قشیر نے کُفّار کے لشکر دیکھ کر کہی تھی کہ محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم تو ہمیں فارس و روم کی فتح کا وعدہ دیتے ہیں اور حال یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کی یہ مجال بھی نہیں کہ اپنے ڈیرے سے باہر نکل سکے تو یہ وعدہ نِرا دھوکا ہے۔
یہ مقولہ منافقین کا ہے انہوں نے مدینہ طیّبہ کو یثرب کہا۔
مسئلہ : مسلمانوں کو یثرب نہ کہنا چاہئے حدیث شریف میں مدینہ طیّبہ کو یثرب کہنے کی ممانعت آئی ہے، حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ناگوار تھا کہ مدینہ پاک کو یثرب کہا جائے کیونکہ یثرب کے معنیٰ اچھے نہیں ہیں۔
یعنی رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے لشکر میں۔
۳۹ یعنی اسلام سے منحرف ہو جاتے۔
۴۰ یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ اس کو دریافت فرمائے گا کہ کیوں وفا نہیں کیا گیا۔
کیونکہ جو مقدر ہے وہ ضرور ہو کر رہے گا۔
یعنی اگر وقت نہیں آیا ہے تو بھی بھاگ کر تھوڑے ہی دن جتنی عمر باقی ہے اتنے ہی دنیا کو برتو گے اور یہ ایک قلیل مدّت ہے۔
یعنی اس کو تمہارا قتل و ہلاک منظور ہو تو اس کو کوئی دفع نہیں کر سکتا۔
۴۵ اور سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو چھوڑ دو، ان کے ساتھ جہاد میں نہ رہو اس میں جان کا خطرہ ہے۔ شانِ نُزول : یہ آیت منافقین کے حق میں نازل ہوئی ان کے پاس یہود نے پیام بھیجا تھا کہ تم کیوں اپنی جانیں ابوسفیان کے ہاتھوں سے ہلاک کرانا چاہتے ہو، اس کے لشکری اس مرتبہ اگر تمہیں پا گئے تو تم میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑیں گے، ہمیں تمہارا اندیشہ ہے تم ہمارے بھائی اور ہمسایہ ہو ہمارے پاس آ جاؤ، یہ خبر پا کر عبداللہ بن اُ بَی بن سلول منافق اور اس کے ساتھی مومنین کو ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں سے ڈرا کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ دینے سے روکنے لگے اور اس میں انہوں نے بہت کوشش کی لیکن جس قدر انہوں نے کوشش کی مومنین کا ثباتِ استقلال اور بڑھتا گیا۔
۴۸ اور یہ کہیں ہمیں زیادہ حصّہ دو ہماری ہی وجہ سے تم غالب ہوئے ہو۔
۴۹ حقیقت میں اگر چہ انہوں نے زبانوں سے ایمان کا اظہار کیا۔
۵۰ یعنی چونکہ حقیقت میں وہ مومن نہ تھے اس لئے ان کے تمام ظاہری عمل جہاد وغیرہ سب باطل کر دیئے۔
۵۱ یعنی منافقین اپنی بزدلی و نامردی سے ابھی تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ کُفّارِ قریش و غطفان و یہود وغیرہ ابھی تک میدان چھوڑ کر بھاگے نہیں ہیں اگرچہ حقیقت حال یہ ہے کہ وہ بھاگ چکے۔
۵۲ یعنی منافقین کی اپنی نامردی کی باعث یہی آرزو اور۔
۵۳ مدینہ طیّبہ کے آنے جانے والوں سے۔
۵۴ کہ مسلمانوں کا کیا انجام ہوا، کُفّار کے مقابلہ میں ان کی کیا حالت رہی۔
۵۵ ریاکاری اور عذر رکھنے کے لئے تاکہ یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ ہم بھی تو تمہارے ساتھ جنگ میں شریک تھے۔
۵۶ ان کا اچھی طرح اِتّباع کرو اور دینِ الٰہی کی مدد کرو اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ساتھ نہ چھوڑو اور مصائب پر صبر کرو اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی سنّتوں پر چلو یہ بہتر ہے۔
۵۷ ہر موقع پر اس کا ذکر کرے خوشی میں بھی رنج میں بھی، تنگی میں بھی فراخی میں بھی۔
۵۸ کہ تمہیں شدّت و بَلا پہنچے گی اور تم آزمائش میں ڈالے جاؤ گے اور پہلوں کی طرح تم پر سختیاں آئیں گی اور لشکر جمع ہو ہو کر تم پر ٹوٹیں گے اور انجام کار تم غالب ہو گے اور تمہاری مدد فرمائی جائے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ اَلآ یَۃَ اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ پچھلی نو یا دس راتوں میں لشکر تمہاری طرف آنے والے ہیں، جب انہوں نے دیکھا کہ اس میعاد پر لشکر آ گئے تو کہا یہ ہے وہ جو ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ دیا تھا۔
۵۹ یعنی جو اس کے وعدے ہیں سب سچّے ہیں سب یقیناً واقع ہوں گے، ہماری مدد بھی ہو گی، ہمیں غلبہ بھی دیا جائے گا اور مکّہ مکرّمہ اور روم و فارس بھی فتح ہوں گے۔
۶۰ حضرت عثمانِ غنی اور حضرت طلحہ اور حضرت سعید بن زید اور حضرت حمزہ اور حضرت مصعب وغیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نذر کی تھی کہ وہ جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ جہاد کا موقع پائیں گے تو ثابت رہیں گے یہاں تک کہ شہید ہو جائیں، ان کی نسبت اس آیت میں ارشاد ہوا کہ انہوں نے اپنا وعدہ سچّا کر دیا۔
۶۱ جہاد پر ثابت رہا یہاں تک کہ شہید ہو گیا جیسے کہ حضرت حمزہ و مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔
۶۲ اور شہادت کا انتظار کر رہا ہے جیسے کہ حضرت عثمان اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔
۶۳ اپنے عہد پر ویسے ہی ثابت قدم رہے شہید ہو جانے والے بھی اور شہادت کا انتظار کرنے والے بھی، ان منافقین اور مریض القلب لوگوں پر تعریض ہے جو اپنے عہد پر قائم نہ رہے۔
(۲۴) تاکہ اللہ سچوں کو ان کے سچ کا صلہ دے اور منافقوں کو عذاب کرے اگر چاہے، یا انہیں توبہ دے، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
۶۴ یعنی قریش و غطفان وغیرہ کے لشکروں کو جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔
۶۶ دشمن فرشتوں کی تکبیروں اور ہوا کی سختیوں سے بھاگ نکلے۔
۶۷ یعنی بنی قُرَیظہ نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے مقابل قریش و غطفان وغیرہ احزاب کی مدد کی تھی۔
۶۸ اس میں غزوۂ بنی قُرَیظہ کا بیان ہے، یہ آخِرِ ذی قعدہ ۴ ھ یا ۵ھ میں ہوا جب غزوۂ خندق میں شب کو مخالفین کے لشکر بھاگ گئے جس کا اوپر کی آیات میں ذکر ہو چکا ہے اس شب کی صبح کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور صحابۂ کرام مدینہ طیّبہ میں تشریف لائے اور ہتھیار اتار دیئے، اس روز ظہر کے وقت جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا سر مبارک دھویا جا رہا تھا، جبریلِ امین حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ حضور نے ہتھیار رکھ دیئے، فرشتوں نے چالیس روز سے ہتھیار نہیں رکھے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو بنی قُرَیظہ کی طرف جانے کا حکم فرماتا ہے، حضور نے حکم فرمایا کہ ندا کر دی جائے کہ جو فرمانبردار ہو وہ عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قُرَیظہ میں جا کر حضور یہ فرما کر روانہ ہو گئے اور مسلمان چلنے شروع ہوئے اور یکے بعد دیگرے حضور کی خدمت میں پہنچتے رہے یہاں تک کہ بعضے حضرات نمازِ عشا کے بعد پہنچے لیکن انہوں نے اس وقت تک عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی کیونکہ حضور نے بنی قُرَیظہ میں پہنچ کر عصر کی نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا اس لئے اس روز انہوں نے عصر بعدِ عشا پڑھی اور اس پر نہ اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت فرمائی نہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے، لشکرِ اسلام نے پچیس روز تک بنی قُرَیظہ کا محاصرہ رکھا اس سے وہ تنگ آ گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈالا، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ان سے فرمایا کہ تم میرے حکم پر قلعوں سے اُترو گے ؟ انہوں نے انکار کیا تو فرمایا کیا قبیلۂ اوس کے سردار سعد بن معاذ کے حکم پر اُترو گے ؟ اس پر وہ راضی ہوئے اور سعد بن معاذ کو ان کے بارے میں حکم دینے پر مامور فرمایا، حضرت سعد نے حکم دیا کہ مرد قتل کر دیئے جائیں، عورتیں اور بچّے قید کئے جائیں پھر بازارِ مدینہ میں خندق کھودی گئی اور وہاں لا کر ان سب کی گردنیں ماری گئیں، ان لوگوں میں قبیلۂ بنی نُضَیر کا سردار حُیَی بن اخطب اور بنی قُرَیظہ کا سردار کعب بن اسد بھی تھا اور یہ لوگ چھ سو یا سات سو جوان تھے جو گردنیں کاٹ کر خندق میں ڈال دیئے گئے۔ (مدارک و جمل)
۷۱ نقد اور سامان اور مویشی سب مسلمان کے قبضہ میں آئیں۔
۷۲ اس زمین سے مراد خیبر ہے جو فتحِ قُرَیظہ کے بعد مسلمانوں کے قبضہ میں آیا یا وہ ہر زمین مراد ہے جو قیامت تک فتح ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں آنے والی ہے۔
۷۳ یعنی اگر تمہیں مالِ کثیر اور اسبابِ عیش در کار ہے۔ شانِ نُزول : سیدِ عالَم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ و سلم کی ازواجِ مطہرات نے آپ سے دنیوی سامان طلب کئے اور نفقہ میں زیادتی کی درخواست کی یہاں تو کمالِ زہد تھا سامانِ دنیا اور اس کا جمع کرنا گوارا ہی نہ تھا، اس لئے یہ خاطرِ اقدس پر گراں ہوا اور یہ آیت نازل ہوئی اور ازواجِ مطہرات کو تخییر دی گئی، اس وقت حضور کی نو بیبیاں تھیں، پانچ قریشیہ (۱) حضرت عائشہ بنتِ ابی بکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) (۲) حفصہ بنتِ فاروق (۳) اُمِّ حبیبہ بنتِ ابی سفیان (۴) اُمِّ سلمیٰ بنتِ امیہ (۵) سودہ بنتِ زَمْعَہ اور چار غیر قریشیہ (۶) زینب بنتِ جحش اسدیہ (۷) میمونہ بنتِ حارث ہلالیہ (۸) صفیہ بنتِ حُیَی بن اخطب خیبریہ (۹) جویریہ بنتِ حارث مصطلقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنھنّ۔ سیدِ عالَم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلم نے سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ آیت سنا کر اختیار دیا اور فرمایا کہ جلدی نہ کرو اپنے والدین سے مشورہ کر کے جو رائے ہو اس پر عمل کرو، انھوں نے عرض کیا حضور کے معاملہ میں مشورہ کیسا، میں اللہ کو اور اس کے رسول کو اور دارِ آخرت کو چاہتی ہوں اور باقی ازواج نے بھی یہی جواب دیا۔ مسئلہ : جس عورت کو اختیار دیا جائے وہ اگر اپنے زوج کو اختیار کرے تو طلاق واقع نہیں ہوتی اور اگر اپنے نفس کو اختیار کرے تو ہمارے نزدیک طلاقِ بائن واقع ہو تی ہے۔
۷۴ جس عورت کے ساتھ بعدِ نکاح دخول یا خلوتِ صحیحہ ہوئی اس کو طلاق دی جائے تو کچھ سامان دینا مستحب ہے اور وہ سامان تین کپڑوں کا جوڑا ہو تا ہے، یہاں مال سے وہی مراد ہے۔ مسئلہ : جس عورت کا مَہر مقرر نہ کیا گیا ہو اس کو قبلِ دخول طلاق دی تو یہ جوڑا دینا واجب ہے۔
۷۶ جیسے کہ شوہر کی ا طاعت میں کوتاہی کرنا اور اس کے ساتھ کج خُلقی سے پیش آنا کیونکہ بدکاری سے تو اللہ تعالیٰ انبیاء کی بیبیوں کو پاک رکھتا ہے۔
۷۷ کیونکہ جس شخص کی فضیلت زیادہ ہوتی ہے اس سے اگر قصور واقع ہو تو وہ قصور بھی دوسروں کے قصور سے زیادہ سخت قرار دیا جاتا ہے۔
مسئلہ : اسی لئے عالِم کا گناہ جاہل کے گناہ سے زیادہ قبیح ہوتا ہے اور اسی لئے آزادوں کی سزا شریعت میں غلاموں سے زیادہ مقرر ہے اور نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیبیاں تمام جہان کی عورتوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں اس لئے ان کی اَدنیٰ بات سخت گرفت کے قابل ہے۔ فائدہ : لفظِ فاحشہ جب معرفہ ہو کر وارد ہو تو اس سے زنا و لواطت مراد ہوتی ہے اور اگر نکرہ غیرِ موصو فہ ہو کر لایا جائے تو اس سے تمام گناہ مراد ہوتے ہیں اور جب موصو ف ہو کر وارد ہو تو اس سے شو ہر کی نافرمانی اور فسادِ معشرت مراد ہوتا ہے، اس آیت میں نکرہ موصو فہ ہے اسی لئے اس سے شوہر کی اطاعت میں کوتاہی اور کج خُلقی مراد ہے جیسا کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول ہے۔ (جمل وغیرہ)
۷۸ اے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیبیو۔
۷۹ یعنی اگر اوروں کو ایک نیکی پر دس گنا ثواب دیں گے تو تمہیں بیس گنا کیونکہ تمام جہان کی عورتوں میں تمہیں شرف و فضیلت ہے اور تمہارے عمل میں بھی دو جہتیں ہیں ایک ادائے اطاعت دوسرے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی رضا جوئی اور قناعت و حُسنِ معاشرت کے ساتھ حضور کو خوشنود کرنا۔
۸۱ تمہارا مرتبہ سب سے زیادہ ہے اور تمہارا اجر سب سے بڑھ کر جہان کی عورتوں میں کوئی تمہاری ہمسر نہیں۔
۸۲ اس میں تعلیمِ آداب ہے کہ اگر بہ ضرورت غیر مرد سے پسِ پردہ گفتگو کرنی پڑے تو قصد کرو کہ لہجہ میں نزاکت نہ آنے پائے اور بات میں لوچ نہ ہو، بات نہایت سادگی سے کی جائے، عِفّت مآب خواتین کے لئے یہی شایاں ہے۔
۸۳ دین و اسلام کی اور نیکی کی تعلیم اور پند و نصیحت کی اگر ضرورت پیش آئے مگر بے لوچ لہجہ سے۔
۸۴ اگلی جاہلیّت سے مراد قبلِ اسلام کا زمانہ ہے اس زمانہ میں عورتیں اتراتی نکلتی تھیں، اپنی زینت و محاسن کا اظہار کرتی تھیں کہ غیر مرد دیکھیں، لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضاء اچھی طرح نہ ڈھکیں اور پچھلی جاہلیّت سے اخیرِ زمانہ مراد ہے جس میں لوگوں کے افعال پہلوں کی مثل ہو جائیں گے۔
۸۵ یعنی گناہوں کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو۔ اس آیت سے اہلِ بیت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور اہلِ بیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ جنّت فاطمہ زہرا اور علیِ مرتضیٰ اور حسنینِ کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہم سب داخل ہیں، آیات و احادیث کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے اور یہی حضرت امام ابو منصور ماتریدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے، ان آیات میں اہلِ بیتِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو نصیحت فرمائی گئی ہے تاکہ وہ گناہوں سے بچیں اور تقویٰ و پرہیزگاری کے پابند رہیں، گناہوں کو ناپاکی سے اور پرہیزگاری کو پاکی سے استعارہ فرمایا گیا کیونکہ گناہوں کا مرتکب ان سے ایسا ہی ملوّث ہوتا ہے جیسا جسم نجاستوں سے۔ اس طرزِ کلام سے مقصود یہ ہے کہ اربابِ عقول کو گناہوں سے نفرت دلائی جائے اور تقویٰ و پرہیزگاری کی ترغیب دی جائے۔
۸۷ شانِ نُزول : اسماء بنتِ عمیس جب اپنے شوہر جعفر بن ابی طالب کے ساتھ حبشہ سے واپس آئیں تو ازواجِ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے مل کر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا عورتوں کے باب میں بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے ؟ انہوں نے فرمایا نہیں تو اسماء نے حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے عرض کیا کہ حضور عورتیں بڑے ٹوٹے میں ہیں فرمایا کیوں ؟ عرض کیا کہ ان کا ذکر خیر کے ساتھ ہوتا ہی نہیں جیسا کہ مَردوں کا ہوتا ہے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ان کے دس مراتب مَردوں کے ساتھ ذکر کئے گئے اور ان کے ساتھ ان کی مدح فرمائی گئی اور مراتب میں سے پہلا مرتبہ اسلام ہے جو خدا اور رسول کی فرمانبرداری ہے، دوسرا ایمان کہ وہ اعتقادِ صحیح اور ظاہر و باطن کا موافق ہونا ہے، تیسرا مرتبہ قنوت یعنی طاعت ہے۔
۸۸ اس میں چوتھے مرتبہ کا بیان ہے کہ وہ صدقِ نیّات و صدقِ اقوال و افعال ہے، اس کے بعد پانچویں مرتبہ صبر کا بیان ہے کہ طاعتوں کی پابندی کرنا اور ممنوعات سے احتراز رکھنا خواہ نفس پر کتنا ہی شاق اور گراں ہو رضائے الٰہی کے لئے اختیار کیا جائے، اس کے بعد پھرچھٹے مرتبہ خشوع کا بیان ہے جو طاعتوں اور عبادتوں میں قلوب و جوارح کے ساتھ متواضع ہونا ہے، اس کے بعد ساتویں مرتبہ صدقہ کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے مال میں سے اس کی راہ میں بطریقِ فرض و نفل دینا ہے پھر آٹھویں مرتبہ صوم کا بیان ہے یہ بھی فرض و نفل دونوں کو شامل ہے۔ منقول ہے کہ جس نے ہر ہفتہ ایک درم صدقہ کیا وہ متصدّقین میں اور جس نے ہر مہینہ ایامِ بیض کے تین روزے رکھے وہ صائمین میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد نویں مرتبہ عِفّت کا بیان ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنی پارسائی کو محفوظ رکھے اور جو حلال نہیں ہے اس سے بچے، سب سے آخر میں دسویں مرتبہ کثرتِ ذکر کا بیان ہے ذکر میں تسبیح، تحمید، تہلیل، تکبیر، قراءتِ قرآن، علمِ دِین کا پڑھنا پڑھانا، نماز، وعظ، نصیحت، میلاد شریف، نعت شریف پڑھنا سب داخل ہیں۔ کہا گیا ہے کہ بندہ ذاکرین میں جب شمار ہوتا ہے جب کہ وہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہر حال میں اللہ کا ذکر کرے۔
۸۹ شانِ نُزول : یہ آیت زینب بنتِ جحش اسدیہ اور ان کے بھائی عبداللہ بن حجش اور ان کی والدہ اُمیمہ بنتِ عبدالمطلب کے حق میں نازل ہوئی، اُمیمہ حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی پھوپھی تھیں۔ واقعہ یہ تھا کہ زید بن حارثہ جن کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے آزاد کیا تھا اور وہ حضور ہی کی خدمت میں رہتے تھے حضور نے زینب کے لئے ان کا پیام دیا، اس کو زینب نے اور ان کے بھائی نے منظور نہیں کیا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور حضرت زینب اور ان کے بھائی اس حکم کو سن کر راضی ہو گئے اور حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے حضرت زید کا نکاح ان کے ساتھ کر دیا اور حضور نے ان کا مَہر دس دینار ساٹھ درہم، ایک جوڑا کپڑا، پچاس مُد (ایک پیمانہ ہے) کھانا، تیس صاع کھجوریں دیں۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی طاعت ہر امر میں واجب ہے اور نبی علیہ السلام کے مقابلہ میں کوئی اپنے نفس کا بھی خود مختار نہیں۔ مسئلہ : اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ امر وجوب کے لئے ہوتا ہے۔ فائدہ : بعض تفاسیر میں حضرت زید کو غلام کہا گیا ہے مگر یہ خالی از تسامح نہیں کیونکہ وہ حُر تھے گرفتاری سے بالخصوص قبلِ بعثت شرعاً کوئی شخص مرقوق یعنی مملوک نہیں ہو جاتا اور وہ زمانہ فَترت کا تھا اور اہلِ فَترت کو حربی نہیں کہا جاتا۔ (کَذَافِی الْجُمل)
۹۰ اسلام کی جو بڑی جلیل نعمت ہے۔
۹۱ آزاد فرما کر، مراد اس سے حضرت زید بن حارثہ ہیں کہ حضور نے انہیں آزاد کیا اور ان کی پرورش فرمائی۔
۹۲ شانِ نُزول : جب حضرت زید کا نکاح حضرت زینب سے ہو چکا تو حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ زینب آپ کے ازواجِ طاہرات میں داخل ہوں گی اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے، اس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت زید اور زینب کے درمیان موافقت نہ ہوئی اور حضرت زید نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے حضرت زینب کی سخت گفتاری، تیز زبانی، عدمِ اطاعت اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی شکایت کی، ایسا بار بار اتفاق ہوا، حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم حضرت زید کو سمجھا دیتے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۹۳ زینب پر کِبَر و ایذائے شوہر کے الزام لگانے میں۔
۹۴ یعنی آپ پر یہ ظاہر نہیں فرماتے تھے کہ زینب سے تمہارا نباہ نہیں ہو سکے گا اور طلاق ضرور واقع ہو گی اور اللہ تعالیٰ انہیں ازواجِ مطہرات میں داخل کرے گا اور اللہ تعالیٰ کو اس کا ظاہر کرنا منظور تھا۔
۹۵ یعنی جب حضرت زید نے زینب کو طلاق دے دی تو آپ کو لوگوں کے طعن کا اندیشہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تو ہے حضرت زینب کے ساتھ نکاح کرنے کا اور ایسا کرنے سے لوگ طعنہ دیں گے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ایسی عورت کے ساتھ نکاح کر لیا جو ان کے منہ بولے بیٹے کے نکاح میں رہی تھی۔ مقصود یہ ہے کہ امرِ مباح میں بے جا طعن کرنے والوں کا کچھ اندیشہ نہ کرنا چاہئے۔
۹۶ اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھنے والے اور سب سے زیادہ تقویٰ والے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔
۹۷ اور حضر ت زید نے حضرت زینب کو طلاق دے دی اور عدّت گزر گئی۔
۹۸ حضرت زینب کی عدّت گزرنے کے بعد ان کے پاس حضرت زید رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا پیام لے کر گئے اور انہوں نے سر جھکا کر کمالِ شرم و ادب سے انہیں یہ پیام پہنچایا، انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں اپنی رائے کو کچھ بھی دخل نہیں دیتی جو میرے ربّ کو منظور ہو اس پر راضی ہوں یہ کہہ کر وہ بارگاہِ الٰہی میں متوجّہ ہوئیں اور انہوں نے نماز شروع کر دی اور یہ آیت نازل ہوئی حضرت زینب کو اس نکاح سے بہت خوشی اور فخر ہوا، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اس شادی کا ولیمہ بہت وسعت کے ساتھ کیا۔
۹۹ یعنی تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ لے پالک کی بی بی سے نکاح جائز ہے۔
۱۰۰ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو ان کے لئے مباح کیا اور بابِ نکاح میں جو و سعت انہیں عطا فرمائی اس پر اقدام کرنے میں کچھ حرج نہیں۔
۱۰۱ یعنی انبیاء علیہم السلام کو بابِ نکاح میں وسعتیں دی گئیں کہ دوسروں سے زیادہ عورتیں ان کے لئے حلال فرمائیں جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی سو بیبیاں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی تین سو بیبیاں تھیں یہ ان کے خاص احکام ہیں ان کے سوا دوسروں کو روا نہیں، نہ کوئی اس پر معترض ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں جس کے لئے جو حکم فرمائے اس پر کسی کو اعتراض کی کیا مجال۔ اس میں یہود کا رد ہے جنہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلم پر چار سے زیادہ نکاح کرنے پر طعن کیا تھا اس میں انہیں بتایا گیا کہ یہ حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے لئے خاص ہے جیسا کہ پہلے انبیاء کے لئے تعدادِ ازواج میں خاص احکام تھے۔
۱۰۳ تو حضرت زید کے بھی آپ حقیقت میں باپ نہیں کہ ان کی منکوحہ آپ کے لئے حلال نہ ہوتی، قاسم و طیّب و طاہر و ابراہیم حضور کے فرزند تھے مگر وہ اس عمر کو نہ پہنچے کہ انہیں مرد کہا جائے، انہوں نے بچپن میں وفات پائی۔
۱۰۴ اور سب رسول ناصح شفیق اور واجب التوقیر و لازم الطاعۃ ہونے کے لحاظ سے اپنی اُمّت کے باپ کہلاتے ہیں بلکہ ان کے حقوق حقیقی باپ کے حقوق سے بہت زیادہ ہیں لیکن اس سے اُمّت حقیقی اولاد نہیں ہو جاتی اور حقیقی اولاد کے تمام احکام وراثت وغیرہ اس کے لئے ثابت نہیں ہوتے۔
۱۰۵ یعنی آخر الانبیاء کہ نبوّت آپ پر ختم ہو گئی آپ کی نبوّت کے بعد کسی کو نبوّت نہیں مل سکتی حتّیٰ کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو اگرچہ نبوّت پہلے پا چکے ہیں مگر نُزول کے بعد شریعتِ محمّدیہ پر عامل ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظّمہ کی طرف نماز پڑھیں گے، حضور کا آخر الانبیاء ہونا قطعی ہے، نصِّ قرآنی بھی اس میں وارد ہے اور صحاح کی بکثرت احادیثِ تو حدِّ تواتر تک پہنچتی ہیں۔ ان سب سے ثابت ہے کہ حضور سب سے پچھلے نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں جو حضور کی نبوّت کے بعد کسی اور کو نبوّت ملنا ممکن جانے، وہ ختمِ نبوّت کا منکِر اور کافِر خارج از اسلام ہے۔
۱۰۶ کیونکہ صبح اور شام کے اوقات ملائکۂ روز و شب کے جمع ہونے کے وقت ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اطرافِ لیل و نہار کا ذکر کرنے سے ذکر کی مداومت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔
۱۰۷ شانِ نُزول : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب آیت اِنَّ اللہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ نازل ہوئی تو حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جب آپ کو اللہ تعالیٰ کوئی فضل و شرف عطا فرماتا ہے تو ہم نیاز مندوں کو بھی آپ کے طفیل میں نوازتا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
۱۰۸ یعنی کُفر و معصیت اور ناخدا شناسی کی اندھیریوں سے حق و ہدایت اور معرفت و خدا شناسی کی روشنی کی طرف ہدایت فرمائے۔
۱۰۹ ملتے وقت سے مراد یا موت کا وقت ہے یا قبروں سے نکلنے کا یا جنّت میں داخل ہونے کا۔ مروی ہے کہ حضرت مَلَک الموت علیہ السلام کسی مومن کی روح اس کو سلام کئے بغیر قبض نہیں فرماتے۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب مَلَک الموت مومن کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تیرا ربّ تجھے سلام فرماتا ہے اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ مومنین جب قبروں سے نکلیں گے تو ملائکہ سلامتی کی بشارت کے طور پر انہیں سلام کریں گے۔ (جمل وخازن)
۱۱۰ شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے، مفرداتِ راغب میں ہے اَلشّھُوْدُ وَ الشَّھَادَۃُ الْحُضُوْرُ مَعَ الْمُشَاھَدَۃِ اِمَّا بِالْبَصَرِ اَوْ بِالْبَصِیْرَۃِ یعنی شہود اور شہادت کے معنیٰ ہیں حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ اور گواہ کو بھی اسی لئے شاہد کہتے ہیں کہ وہ مشاہدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے اس کو بیان کرتا ہے۔ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم تمام عالَم کی طرف مبعوث ہیں، آپ کی رسالت عامّہ ہے جیسا کہ سورۂ فرقان کی پہلی آیت میں بیان ہوا تو حضور پُر نور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم قیامت تک ہونے والی ساری خَلق کے شاہد ہیں اور ان کے اعمال و افعال و احوال، تصدیق، تکذیب، ہدایت، ضلال سب کا مشاہدہ فرماتے ہیں۔ (ابوالسعود و جمل)
۱۱۱ یعنی ایمانداروں کو جنّت کی خوشخبری اور کافِروں کو عذابِ جہنّم کا ڈر سناتا۔
۱۱۲ یعنی خَلق کو طاقتِ الٰہی کی دعوت دیتا۔
۱۱۳ سراج کا ترجمہ آفتاب قرآنِ کریم کے بالکل مطابق ہے کہ اس میں آفتاب کو سراج فرمایا گیا ہے جیسا کہ سورۂ نوح میں وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِراَجاً اور آخِرِ پارہ کی پہلی سورۃ میں ہے وَجَعَلْنَا سِرَاجاً وَّھَّاجاً اور درحقیقت ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی آپ کے نورِ نبوّت نے پہنچائی اور کُفر و شرک کے ظلماتِ شدیدہ کو اپنے نُورِ حقیقت افروز سے دور کر دیا اور خَلق کے لئے معرفت و توحیدِ الٰہی تک پہنچنے کی راہیں روشن اور واضح کر دیں اور ضلالت کے وادیِ تاریک میں راہ گم کرنے والوں کو اپنے انوارِ ہدایت سے راہ یاب فرمایا اور اپنے نورِ نبوّت سے ضمائر و بصائر اور قلوب و ارواح کو منوّر کیا، حقیقت میں آپ کا وجود مبارک ایسا آفتابِ عالَم تاب ہے جس نے ہزارہا آفتاب بنا دیئے اسی لئے اس کی صفت میں منیر ارشاد فرمایا گیا۔
۱۱۴ جب تک کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم دیا جائے۔
۱۱۵ مسئلہ: اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر عورت کو قبلِ قربت طلاق دی تو اس پر عدّت واجب نہیں۔
مسئلہ : خلوتِ صحیحہ قربت کے حکم میں ہے تو اگر خلوتِ صحیحہ کے بعد طلاق واقع ہو تو عدّت واجب ہو گی اگرچہ مباشرت نہ ہوئی ہو۔
مسئلہ : یہ حکم مومنہ اور کتابیہ دونوں کو عام ہے لیکن آیت میں مومنات کا ذکر فرمانا اس طرف مشیر ہے کہ نکاح کرنا مومنہ سے اَولیٰ ہے۔
۱۱۶ مسئلہ : یعنی اگر ان کا مَہر مقرر ہو چکا تھا تو قبلِ خلوت طلاق دینے سے شوہر پر نصف مَہر واجب ہو گا اور اگر مَہر مقرر نہیں ہوا تھا تو ایک جوڑا دینا واجب ہے جس میں تین کپڑے ہوتے ہیں۔
۱۱۷ اچھی طرح چھوڑنا یہ ہے کہ ان کے حقوق ادا کر دیئے جائیں اور ان کو کوئی ضرر نہ دیا جائے اور انہیں روکا نہ جائے کیونکہ ان پر عدّت نہیں ہے۔
۱۱۸ مَہر کی تعجیل اور عقد میں تعیُّن افضل ہے شرطِ حلت نہیں کیونکہ مَہر کو مُعَجَّل طریقہ پر دینا یا اس کو مقرر کرنا اَولیٰ اور بہتر ہے واجب نہیں۔ (تفسیرِ احمدی)
۱۱۹ مثل حضرت صفیہ و حضرت جویریہ کے جن کو سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے آزاد فرمایا اور ان سے نکاح کیا۔ مسئلہ : غنیمت میں ملنے کا ذکر بھی فضیلت کے لئے ہے کیونکہ مملوکات بمِلکِ یمین خواہ خرید سے مِلک میں آئی ہوں یا ہبہ سے یا وارثت سے یا وصیّت سے وہ سب حلال ہیں۔
۱۲۰ ساتھ ہجرت کرنے کی قید بھی افضل کا بیان ہے کیونکہ بغیر ساتھ ہجرت کرنے کے بھی ان میں سے ہر ایک حلال ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خاص حضور کے حق میں ان عورتوں کی حِلّت اس قید کے ساتھ مقیّد ہو جیسا کہ اُمِّ ہانی بنتِ ابی طالب کی روایت اس طرف مشیر ہے۔
۱۲۱ معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے آپ کے لئے اس مومنہ عورت کو حلال کیا جو بغیر مَہر اور بغیر شروطِ نکاح اپنی جان آپ کو ہبہ کرے بشرطیکہ آپ اسے نکاح میں لانے کا ارادہ فرمائیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اس میں آئندہ کے حکم کا بیان ہے کیونکہ وقتِ نُزولِ آیت حضور کے ازواج میں سے کوئی بھی ایسی نہ تھیں جو ہبہ کے ذریعہ سے مشرف بَزوجیّت ہوئی ہوں اور جن مومنہ بیبیوں نے اپنی جانیں حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو نذر کر دیں وہ میمونہ بنتِ حارث اور خولہ بنتِ حکیم اور اُمِّ شریک اور زینب بنتِ خزیمہ ہیں۔ (تفسیرِ احمدی)
۱۲۲ یعنی نکاح بے مَہرِ خاص آ پ کے لئے جائز ہے اُمّت کے لئے نہیں، امّت پر بہرحال مَہر واجب ہے خواہ وہ مَہر معیّن نہ کریں یا قصداً مَہر کی نفی کریں۔ مسئلہ : نکاح بلفظِ ہبہ جائز ہے۔
۱۲۳ یعنی بیبیوں کے حق میں جو کچھ مقرر فرمایا ہے مَہر اور گواہ اور باری کا واجب ہونا اور چار حُرّہ عورتوں تک کو نکاح میں لانا۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ شرعاً مَہر کی مقدار اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقرر ہے اور وہ دس درہم ہیں جس سے کم کرنا ممنوع ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔
۱۲۴ جو اوپر ذکر ہوئی کہ عورتیں آپ کے لئے مَحض ہبہ سے بغیر مَہر کے حلال کی گئیں۔
۱۲۵ یعنی آپ کو اختیار دیا گیا ہے کہ جس بی بی کو چاہیں پاس رکھیں اور بیبیوں میں باری مقرر کریں یا نہ کریں لیکن باوجود اس اختیار کے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم تمام ازواجِ مطہرات کے ساتھ عدل فرماتے اور ان کی باریاں برابر رکھتے بَجُز حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جنہوں نے اپنی باری کا دن حضرت اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دیا تھا اور بارگاہِ رسالت میں عرض کیا تھا کہ میرے لئے یہی کافی ہے کہ میرا حشر آپ کے ازواج میں ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ یہ آیت ان عورتوں کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے اپنی جانیں حضور کو نذر کیں اور حضور کو اختیار دیا گیا کہ ان میں سے جس کو چاہیں قبول کریں اس کے ساتھ تزوُّج فرمائیں اور جس کو چاہیں انکار فرما دیں۔
۱۲۶ یعنی ازواج میں سے آپ نے جس کو معزول یا ساقط القسمۃ کر دیا ہو آپ جب چاہیں اس کی طرف التفات فرمائیں اور اس کو نوازیں اس کا آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔
۱۲۷ کیونکہ جب وہ یہ جانیں گی کہ یہ تفویض اور یہ اختیار آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا ہے تو ان کے قلوب مطمئن ہو جائیں گے۔
۱۲۸ یعنی ان نو بیبیوں کے بعد جو آپ کے نکاح میں ہیں جہنیں آپ نے اختیار دیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول کو اختیار کیا۔
۱۲۹ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ازواج کا نصاب نو ہے جیسے کہ اُمّت کے لئے چار۔
۱۳۰ یعنی انہیں طلاق دے کر ان کی جگہ دوسری عورتوں سے نکاح کر لو ایسا بھی نہ کرو، یہ احترام ان ازواج کا اس لئے ہے کہ جب حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے انہیں اختیار دیا تھا تو انہوں نے اللہ و رسول کو اختیار کیا اور آسائشِ دنیا کو ٹھکرا دیا چنانچہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے انہیں پر اکتفا فرمایا اور اخیر تک یہی بیبیاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں رہیں، حضرت عائشہ و اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عہنما سے مروی ہے کہ آخِر میں حضور کے لئے حلال کر دیا گیا تھا کہ جتنی عورتوں سے چاہیں نکاح فرمائیں، اس تقدیر پر آیت منسوخ ہے اور اس کا ناسخ آیۂ اِنَّآ اَحْلَلَنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ اَلآیۃَ ہے۔
۱۳۱ وہ تمہارے لئے حلال ہے اور اس کے بعد حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی مِلک میں آئیں اور ان سے حضور کے فرزند حضرت ابراہیم پیدا ہوئے جنہوں نے چھوٹی عمر میں وفات پائی۔
۱۳۲ مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ گھر مرد کا ہوتا ہے اور اسی لئے اس سے اجازت حاصل کرنا مناسب ہے، شوہر کے گھر کو عورت کا گھر بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ وہ اس میں سکونت کا حق رکھتی ہے اسی وجہ سے آیت وَ اذْکُرْنَ مَا یُتْلیٰ فِیْ بُیُوْ تِکُنَّ میں گھروں کی نسبت عورتوں کی طرف کی گئی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے مکانات جن میں حضور کے ازواجِ مطہرات کی سکونت تھی اور حضور کے پردہ فرمانے کے بعد بھی وہ اپنی حیات تک انہی میں رہیں وہ حضور کی مِلک تھے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ازواجِ طاہرات کو ہبہ نہ فرمائے تھے بلکہ سکونت کی اجازت دی تھی اسی لئے ازواجِ مطہرات کی وفات کے بعد ان کے وارثوں کو نہ ملے بلکہ مسجد شریف میں داخل کر دیئے گئے جو وقف ہے اور جس کا نفع تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے۔
۱۳۳ اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں پر پردہ لازم ہے اور غیر مَردوں کو کسی گھر میں بے اجازت داخل ہونا جائز نہیں۔ آیت اگرچہ خاص ازواجِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے حق میں وارد ہے لیکن حکم اس کا تمام مسلمان عورتوں کے لئے عام ہے۔ شانِ نُزول : جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے حضرت زینب سے نکاح کیا اور ولیمہ کی عام دعوت فرمائی تو جماعتیں کی جماعتیں آتی تھیں اور کھانے سے فارغ ہو کر چلی جاتی تھیں، آخر میں تین صاحب ایسے تھے جو کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھے رہ گئے اور انہوں نے گفتگو کا طویل سلسلہ شروع کر دیا اور بہت دیر تک ٹھہرے رہے، مکان تنگ تھا اس سے گھر والوں کو تکلیف ہوئی اور حرج ہوا کہ وہ ان کی وجہ سے اپنا کام کاج کچھ نہ کر سکے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اٹھے اور ازواجِ مطہرات کے حجروں میں تشریف لے گئے اور دورہ فرما کر تشریف لائے، اس وقت تک یہ لوگ اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے حضور پھر واپس ہو گئے یہ دیکھ کر وہ لوگ روانہ ہوئے تب حضور ِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم دولت سرائے میں داخل ہوئے اور دروازہ پرپردہ ڈال دیا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اس سے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی کمالِ حیا اور شانِ کرم و حسنِ اخلاق معلوم ہوتی ہے کہ باوجود ضرورت کے اصحاب سے یہ نہ فرمایا کہ اب آپ چلے جائیے بلکہ جو طریقہ اختیار فرمایا وہ حسنِ آداب کا اعلیٰ ترین معلِّم ہے۔
۱۳۴ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ بغیر دعوت کسی کے یہاں کھانے نہ جائے۔
۱کہ یہ اہلِ خانہ کی تکلیف اور ان کے حرج کا باعث ہے۔
۱اور ان سے چلے جانے کے لئے نہیں فرماتے تھے۔
۱۳۸ کہ وساوس اور خطرات سے امن رہتی ہے۔
۱۳۹ اور کوئی کام ایسا کرو جو خاطرِ اقدس پر گراں ہو۔
۱۴۰ کیونکہ جس عورت سے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے عقد فرمایا وہ حضور کے سوا ہر شخص پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو گئی اسی طرح وہ کنیزیں جو باریابِ خدمت ہوئیں اور قربت سے سرفراز فرمائی گئیں وہ بھی اسی طرح سب کے لئے حرام ہیں۔
۱اس میں اعلام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو بہت بڑی عظمت عطا فرمائی اور آپ کی حرمت ہر حال میں واجب کی۔
(۵۴) اگر تم کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ تو بیشک سب کچھ جانتا ہے۔
۱یعنی ان بیبیوں پر کچھ گناہ نہیں اس میں کہ وہ ان لوگوں سے پردہ نہ کریں جن کا آیت میں آگے ذکر فرمایا جاتا ہے۔ شانِ نُزول : جب پردہ کا حکم نازل ہوا تو عورتوں کے باپ بیٹوں اور قریب کے رشتہ داروں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیک و سلم کیا ہم اپنی ماؤں بیٹیوں کے ساتھ پردہ کے باہر سے گفتگو کریں، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۱یعنی ان اقارب کے سامنے آنے اور ان سے کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
۱۴۴ یعنی مسلمان بیبیوں کے سامنے آنا جائز ہے اور کافِرہ عورتوں سے پردہ کرنا اور اپنے جسم چھُپانا لازم ہے سوائے جسم کے ان حصّوں کے جو گھر کے کام کاج کے لئے کھولنے ضروری ہوتے ہیں۔ (جمل)
۱۴۵ یہاں چچا اور ماموں کا صراحتہً ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ وہ والدین کے حکم میں ہیں۔
۱۴۶ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر درود و سلام بھیجنا واجب ہے ہر ایک مجلس میں آپ کا ذکر کرنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی ایک مرتبہ اور اس سے زیادہ مستحب ہے، یہی قول معتمد ہے اور اس پر جمہور ہیں اور نماز کے قعدۂ اخیرہ میں بعدِ تشہد درود شریف پڑھنا سنّت ہے اور آپ کے تابع کر کے آپ کے آل و اصحاب و دوسرے مومنین پر بھی درود بھیجا جا سکتا ہے یعنی درود شریف میں آپ کے نامِ اقدس کے بعد ان کو شامل کیا جا سکتا ہے اور مستقل طور پر حضور کے سوا ان میں سے کسی پر درود بھیجنا مکرو ہ ہے۔ مسئلہ : درود شریف میں آل و اصحاب کا ذکر متوارث ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آل کے ذکر کے بغیر مقبول نہیں۔ درود شریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تکریم ہے عُلَماء نے اللہم صل علیٰ محمّد کے معنیٰ یہ بیان کئے ہیں کہ یا ربّ محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو عظمت عطا فرما، دنیا میں ان کا دین بلند ان کی دعوت غالب فرما کر اور ان کی شریعت کو بقا عنایت کر کے اور آخرت میں ان کی شفاعت قبول فرما کر اور ان کا ثواب زیادہ کر کے اور اوّلین و آخِرین پر ان کی فضیلت کا اظہار فرما کر اور انبیاء، مرسلین و ملائکہ اور تمام خَلق پر ان کی شان بلند کر کے۔ مسئلہ : درود شریف کی بہت برکتیں اور فضیلتیں ہیں حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ جب درود بھیجنے والا مجھ پر درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ مسلم کی حدیث شریف میں ہے جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار بھیجتا ہے۔ ترمذی کی حدیث شریف میں ہے بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ درود نہ بھیجے۔
۱۴۷ وہ ایذا دینے والے کُفّار ہیں جو شانِ الٰہی میں ایسی باتیں کہتے ہیں جن سے وہ منزّہ اور پاک ہے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تکذیب کرتے ہیں ان پر دارین میں لعنت۔
۱۴۹ شانِ نُزول : یہ آیت ان منافقین کے حق میں نازل ہوئی جو حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایذا دیتے تھے اور ان کے حق میں بد گوئی کرتے تھے۔ حضرت فضیل نے فرمایا کہ کتّے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مومنین و مومنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جُرم ہے۔
۱۵۰ اور سر اور چہرے کو چھُپائیں جب کسی حاجت کے لئے ان کو نکلنا ہو۔
۱۵۲ اور منافقین ان کے درپے نہ ہوں، منافقین کی عادت تھی کہ وہ باندیوں کو چھیڑا کرتے تھے اس لئے حُرَّہ عورتوں کو حکم دیا کہ وہ چادر سے جسم ڈھانک کر سر اور منہ چھُپا کر باندیوں سے اپنی وضع ممتاز کر دیں۔
۱۵۴ اور جو بُرے خیال رکھتے ہیں یعنی فاجر بدکار ہیں وہ اگر اپنی بدکاری سے باز نہ آئے۔
۱۵۵ جو اسلامی لشکروں کے متعلق جھوٹی خبریں اڑایا کرتے تھے اور یہ مشہور کیا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو ہزیمت ہو گئی وہ قتل کر ڈالے گئے، دشمن چڑھا چلا آ رہا ہے اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کی دل شکنی اور ان کا پریشانی میں ڈالنا ہوتا تھا، ان لوگوں کے متعلق ارشاد فرمایا جاتا ہے کہ اگر وہ ان حرکات سے باز نہ آئے۔
۱۵۶ اور تمہیں ان پر مسلّط کریں گے۔
۱۵۷ پھر مدینہ طیّبہ ان سے خالی کرا لیا جائے گا اور وہاں سے نکال دیئے جائیں گے۔
۱۵۸ یعنی پہلی اُمّتوں کے منافقین جو ایسے حرکات کرتے تھے، ان کے لئے بھی سنّتِ الٰہیہ یہی رہی کہ جہاں پائے جائیں مار ڈالے جائیں۔
شانِ نُزول : مشرکین تو تمسخُر و استہزاء کے طور پر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے قیامت کا وقت دریافت کیا کرتے تھے گویا کہ ان کو بہت جلدی ہے اور یہود اس کو امتحاناً پوچھتے تھے کیونکہ توریت میں اس کا علم مخفی رکھا گیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو حکم فرمایا۔
۱۶۰ اس میں جلد کرنے والوں کو تہدید اور امتحاناً سوال کرنے والوں کا اسکات اور ان کی دہن دوزی ہے۔
۱۶۲ دنیا میں تو ہم آج عذاب میں گرفتار نہ ہوتے۔
۱۶۳ یعنی قوم کے سرداروں اور بڑی عمر کے لوگوں اور اپنی جماعت کے عالِموں کے انہوں نے ہمیں کُفر کی تلقین کی۔
۱۶۴ کیونکہ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور انہوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔
۱۶۵ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ادب و احترام بجا لاؤ اور کوئی کام ایسا نہ کرنا جو ان کے رنج و ملال کا باعث ہو اور۔
۱۶۶ یعنی ان بنی اسرائیل کی طرح نہ ہونا جو ننگے نہاتے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر طعن کرتے تھے کہ حضرت ہمارے ساتھ کیوں نہیں نہاتے انہیں برص وغیرہ کی کوئی بیماری ہے۔
۱۶۷ اس طرح کہ جب ایک روز حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غسل کے لئے ایک تنہائی کی جگہ میں پتّھر پر کپڑے اتار کر رکھے اور غسل شروع کیا تو پتّھر آپ کے کپڑے لے کر بھاگا، آپ کپڑے لینے کے لئے اس کی طرف بڑھے تو بنی اسرائیل نے دیکھ لیا کہ جسمِ مبارک پر کوئی داغ اور کوئی عیب نہیں ہے۔
۱۶۸ صاحبِ جاہ اور صاحبِ منزلت اور مستجاب الدعوات۔
۱۶۹ یعنی سچّی اور درست حق و انصاف کی اور اپنی زبان اور کلام کی حفاظت رکھو یہ بَھلائیوں کی اصل ہے ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر کرم فرمائے گا اور۔
۱۷۰ تمہیں نیکیوں کی توفیق دے گا اور تمہاری طاعتیں قبول فرمائے گا۔
۱۷۱ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ امانت سے مراد طاعت و فرائض ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پیش کیا، انہیں کو آسمانوں، زمینوں، پہاڑوں پر پیش کیا تھا کہ اگر وہ انہیں ادا کریں گے تو ثواب دیئے جائیں گے نہ ادا کریں گے تو عذاب کئے جائیں گے۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ امانت نمازیں ادا کرنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا، خانہ کعبہ کا حج، سچ بولنا، ناپ اور تول میں اور لوگوں کی ودیعتوں میں عدل کرنا ہے۔ بعضوں نے کہا کہ امانت سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کا حکم دیا گیا اور جن کی ممانعت کی گئی۔ حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص نے فرمایا کہ تمام اعضاء کان، ہاتھ، پاؤں وغیرہ سب امانت ہیں اس کا ایمان ہی کیا جو امانت دار نہ ہو۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ امانت سے مراد لوگوں کی ودیعتیں اور عہدوں کا پورا کرنا ہے تو ہر مومن پر فرض ہے کہ نہ کسی مومن کی خیانت کرے نہ کافِر معاہد کی، نہ قلیل میں نہ کثیر میں، اللہ تعالیٰ نے یہ امانت اعیانِ سمٰوٰت و ارض و جبال پر پیش فرمائی پھر ان سے فرمایا کیا تم ان امانتوں کو مع اس کی ذمّہ داری کے اٹھاؤ گے ؟ انہوں نے عرض کیا ذمّہ داری کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ اگر تم انہیں اچھی طرح ادا کرو تو تمہیں جزا دی جائے گی اور اگر نافرمانی کرو تو تمہیں عذاب کیا جائے گا، انہوں نے عرض کیا نہیں اے ربّ ہم تیرے حکم کے مطیع ہیں نہ ثواب چاہیں نہ عذاب اور ان کا یہ عرض کرنا براہِ خوف و خشیت تھا اور امانت بطورِ تخییر پیش کی گئی تھی یعنی انہیں اختیار دیا گیا تھا کہ اپنے میں قوّت و ہمّت پائیں تو اٹھائیں ورنہ معذرت کر دیں، اس کا اٹھانا لازم نہیں کیا گیا تھا اور اگر لازم کیا جاتا تو وہ انکار نہ کرتے۔
۱۷۲ کہ اگر ادا نہ کر سکے تو عذاب کئے جائیں گے تو اللہ عزوجل نے وہ امانت آدم علیہ السلام کے سامنے پیش کی اور فرمایا کہ میں نے آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں پر پیش کی تھی وہ نہ اٹھا سکے کیا تو مع اس کی ذمّہ داری کے اٹھا سکے گا ؟ حضرت آدم علیہ السلام نے اقرار کیا۔
۱۷۳ کہا گیا کہ معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے امانت پیش کی تاکہ منافقین کا نفاق اور مشرکین کا شرک ظاہر ہو اور اللہ تعالیٰ انہیں عذاب فرمائے اور مومنین جو امانت کے ادا کرنے والے ہیں ان کے ایمان کا اظہار ہو اور تبارک و تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے اور ان پر رحمت و مغفرت کرے اگرچہ ان سے بعض طاعات میں کچھ تقصیر بھی ہوئی ہو۔ (خازن)