۱ سورۂ ق ۤمکّیہ ہے، اس میں تین ۳رکوع، پینتالیس۴۵ آیتیں، تین سو ستّاون ۳۵۷کلمے اور ایک ہزار چار سو چورانوے۱۴۹۴ حرف ہیں۔
۲ ہم جانتے ہیں کہ کفّارِ مکّہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر ایمان نہیں لائے۔
۳ جس کی عدالت و امانت اور صدق و راست بازی کو وہ خوب جانتے ہیں اور یہ بھی ان کے دل نشین ہے کہ ایسے صفات کا شخص سچّا، ناصح ہوتا ہے باوجود اس کے ان کا سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نبوّت اور حضور کے انذار سے تعجّب و انکار کرنا قابلِ حیرت ہے۔
۴ ان کی اس بات کے ردّ و جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۵ یعنی ان کے جسم کے جو حصّے گوشت، خون، ہڈیاں وغیرہ زمین کھا جاتی ہے ان میں سے کوئی چیز ہم سے چھُپی نہیں تو ہم ان کو ویسے ہی زندہ کرنے پر قادر ہیں جیسے کہ وہ پہلے تھے۔
۶ جس میں ان کے اسمائے اعداد اور جو کچھ ان میں سے زمین نے کھایا سب ثابت و مکتوب و محفوظ ہے۔
۷ بغیر سوچے سمجھے۔ اور حق سے مراد یا نبوّت ہے جس کے ساتھ معجزاتِ باہرات ہیں یا قرآنِ مجید۔
۸ تو کبھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو شاعر، کبھی ساحر، کبھی کاہن اور اسی طرح قرآنِ پاک کو شِعر و سِحر و کہانت کہتے ہیں،کسی ایک بات پر قرار نہیں۔
۹ چشمِ بینا و نظرِ اعتبار سے کہ اس کی آفرینش میں ہماری قدرت کے آثار نمایاں ہیں۔
۱۵ کہ اس سے بینائی و نصیحت حاصل ہو۔
۱۶ جو اللہ تعالیٰ کے بدائعِ صنعت و عجائبِ خلقت میں نظر کر کے اس کی طرف رجوع ہو۔
۱۷ یعنی بارش جس سے ہر چیز کی زندگی اور بہت خیرو برکت ہے۔
۱۸ طرح طرح کا گیہوں، جَو، چنا وغیرہ۔
۲۰ جس کے نباتات خشک ہو چکے تھے، پھر اس کو سبزہ زار کر دیا۔
۲۱ تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے آثار دیکھ کر مرنے کے بعد پھر زندہ ہونے کا کیوں انکار کرتے ہو۔
۲۳ رَسْ ایک کنواں ہے جہاں یہ لوگ مع اپنے مویشی کے مقیم تھے اور بتوں کو پوجتے تھے، یہ کنواں زمین میں دھنس گیا اور اس کے قریب کی زمین بھی، یہ لوگ اور ان کے اموال اس کے ساتھ دھنس گئے۔
۲۴ ان سب کے تذکرے سورۂ فرقان و حجر و دخان میں گزر چکے۔
۲۵ اس میں قریش کو تہدید اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تسلّی ہے کہ آپ قریش کے کفر سے تنگ دل نہ ہوں، ہم ہمیشہ رسولوں کی مدد فرماتے اور ان کے دشمنوں پر عذاب کرتے رہے ہیں۔ اس کے بعد منکِرینِ بعث کے انکار کا جواب ارشاد ہوتا ہے۔
۲۶ جو دوبارہ پیدا کرنا ہمیں دشوار ہو۔ اس میں منکِرینِ بعث کے کمالِ جہل کا اظہار ہے کہ باوجود اس اقرار کے کہ خَلق اللہ تعالیٰ نے پیدا کی اس کے دوبارہ پیدا کرنے کو محال اور مستبعد سمجھتے ہیں۔
۲۷ یعنی موت کے بعد پیدا کئے جانے سے۔
۲۸ ہم سے اس کے سرائر و ضمائر چھُپے نہیں۔
۲۹ یہ کمالِ علم کا بیان ہے کہ ہم بندے کے حال کو خود اس سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ وَرِیْد وہ رگ ہے جس میں خون جاری ہو کر بدن کے ہر ہر جزو میں پہنچتا ہے، یہ رگ گردن میں ہے۔ معنیٰ یہ ہیں کہ انسان کے اجزاء ایک دوسرے سے پردے میں ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پردے میں نہیں۔
۳۰ فرشتے۔ اور وہ انسان کا ہر عمل اور اس کی ہر بات لکھنے پر مامور ہیں۔
۳۱ داہنی طرف والا نیکیاں لکھتا ہے اور بائیں طرف والا بدیاں۔ اس میں اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے لکھنے سے بھی غنی ہے، وہ اخفی الخفیات کا جاننے والا ہے، خطراتِ نفس تک اس سے چھُپے نہیں، فرشتوں کی کتابت حسبِ اقتضائے حکمت ہے کہ روزِ قیامت نامۂ اعمال ہر شخص کے اس کے ہاتھ میں دے دیئے جائیں۔
۳۲ خواہ وہ کہیں ہو سوائے وقتِ قضائے حاجت اور وقتِ جماع کے اس وقت یہ فرشتے آدمی کے پاس سے ہٹ جاتے ہیں۔ مسئلہ : ان دونوں حالتوں میں آدمی کو بات کرنا جائز نہیں تاکہ اس کے لکھنے کے لئے فرشتوں کو اس حالت میں اس سے قریب ہونے کی تکلیف نہ ہو، یہ فرشتے آدمی کی ہر بات لکھتے ہیں بیماری کا کراہنا تک۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف وہی چیزیں لکھتے ہیں جن میں اجرو ثواب یا گرفت و عذاب ہو۔ امام بغوی نے ایک حدیث روایت کی ہے کہ جب آدمی ایک نیکی کرتا ہے تو دہنی طرف والا فرشتہ دس لکھتا ہے اور جب بدی کرتا ہے تو دہنی طرف والا فرشتہ بائیں جانب والے فرشتے سے کہتا ہے کہ ابھی توقّف کر شاید یہ شخص استغفار کر لے۔ منکِرینِ بعث کا رد فرمانے اور اپنے قدرت و علم سے ان پر حجّتیں قائم کرنے کے بعد انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ جس چیز کا انکار کرتے ہیں وہ عنقریب ان کی موت اور قیامت کے وقت پیش آنے والی ہے۔ اور صیغۂ ماضی سے ان کی آمد کی تعبیر فرما کر اس کے قرب کا اظہار کیا جاتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔
۳۳ جو عقل و حوّاس کو مختل و مکدر کر دیتی ہے۔
۳۴ حق سے مراد یا حقیقتِ موت یا امرِ آخرت جس کو انسان خود معائنہ کرتا ہے یا انجام کار سعادت و شقاوت اور سکرات کی حالت میں مرنے والے سے کہا جاتا ہے کہ موت۔
۳۶ جس کا اللہ تعالیٰ نے کفّار سے وعدہ فرمایا تھا۔
۳۷ فرشتہ جو اسے محشر کی طرف ہانکے۔
۳۸ جو اس کے عملوں کی گواہی دے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے فرمایا کہ ہانکنے والا فرشتہ ہو گا اور گواہ خود اس کا اپنا نفس۔ ضحاک کا قول ہے کہ ہانکنے والا فرشتہ ہے اور گواہ اپنے اعضائے بدن ہاتھ، پاؤں وغیرہ۔ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بَرسرِ منبر فرمایا کہ ہانکنے والا بھی فرشتہ ہے اور گواہ بھی فرشتہ۔ (جمل) پھر کافر سے کہا جائے گا۔
۴۰ جو تیرے دل اور کانوں اور آنکھوں پر پڑا تھا۔
۴۱ کہ تو ان چیزوں کو دیکھ رہا ہے جن کا دنیا میں انکار کرتا تھا۔
۴۲ جو اس کے اعمال لکھنے والا اور اس پر گواہی دینے والا ہے۔ (مدارک و خازن)
۴۵ جو دنیا میں اس پر مسلّط تھا۔
۴۶ یہ شیطان کی طرف سے کافر کا جواب ہے جو جہنّم میں ڈالے جاتے وقت کہے گا کہ اے ہمارے رب مجھے شیطان نے ورغلایا، اس پر شیطان کہے گا کہ میں نے اسے گمراہ نہ کیا۔
۴۷ میں نے اسے گمراہی کی طرف بلایا اس نے قبول کر لیا۔ اس پر ارشادِ الٰہی ہو گا اللہ تعالیٰ۔
۴۸ کہ دارالجزا اور موقفِ حساب میں جھگڑا کچھ نافع نہیں۔
۴۹ اپنی کتابوں میں اور اپنے رسولوں کی زبانوں پر میں نے تمہارے لئے کوئی حجّت باقی نہ چھوڑی۔
۵۰ اللہ تعالیٰ نے جہنّم سے وعدہ فرمایا ہے کہ اسے جنّوں اور انسانوں سے بھرے گا، اس وعدہ کی تحقیق کے لئے جہنّم سے یہ سوال فرمایا جائے گا۔
۵۱ اس کے معنیٰ یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اب مجھ میں گنجائش باقی نہیں، میں بھر چکی۔ اور یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ابھی اور بھی گنجائش ہے۔
۵۲ عرش کے دہنی طرف جہاں سے اہلِ موقف اس کو دیکھیں گے اور ان سے کہا جائے گا۔
۵۴ رجوع لانے والے سے وہ مراد ہے جو معصیّت کو چھوڑ کر طاعت اختیار کرے۔ سعید بن مسیّب نے فرمایا اَوَّاب وہ ہے جو گناہ کرے، پھر توبہ کرے، پھر اس سے گناہ صادر ہو، پھر توبہ کرے اور نگہداشت والا جو اللہ کے حکم کا لحاظ رکھے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا جو اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھے اور ان سے استغفار کرے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی امانتوں اور اس کے حقوق کی حفاظت کرے۔ اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو طاعات کا پابند ہو خدا اور رسول کے حکم بجا لائے اور اپنے نفس کی نگہبانی کرے یعنی ایک دم بھی یادِ الٰہی سے غافل نہ ہو۔ پاس انفاس کرے، اگر تو پاسداری پاس انفاس: بسلطانی رسا نندت ازیں پاس : تر ایک پند بس در ہر دو عالَم : زجانت بر نیاید بے خدا دم۔
۵۵ یعنی اخلاص مند، طاعت پذیر، صحیح العقیدہ دل۔
۵۶ بے خوف و خطر، امن و اطمینان کے ساتھ نہ تمہیں عذاب ہو، نہ تمہاری نعمتیں زائل ہوں۔
۵۸ جو وہ طلب کریں اور وہ دیدارِ الٰہی و تجلّیِ ربّانی ہے جس سے ہر جمعہ کو دارِ کرامت میں نوازے جائیں گے۔
۵۹ یعنی آپ کے زمانہ کے کفّار سے قبل۔
۶۰ یعنی وہ امّتیں ان سے قوی اور زبردست تھیں۔
۶۱ اور جستجو میں جا بجا پھرا کئے۔
۶۲ موت اور حکمِ الٰہی سے، مگر کوئی ایسی جگہ نہ پائی۔
۶۳ دلِ دانا شبلی قدّس سرّہ نے فرمایا کہ قرآنی نصائح سے فیض حاصل کرنے کے لئے قلبِ حاضر چاہئے جس میں طرفۃ العین کے لئے بھی غفلت نہ آئے۔
۶۵ شانِ نزول : مفسّرین نے کہا کہ یہ آیت یہود کے رد میں نازل ہوئی جو یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین اور ان کے درمیانی کائنات کو چھ روز میں بنایا جس میں سے پہلا یک شنبہ ہے اور پچھلا جمعہ، پھر وہ معاذ اللہ تھک گیا اور سنیچر کو اس نے عرش پر لیٹ کر آرام کیا، اس آیت میں ان کا رد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ تھکے، وہ قادر ہے کہ ایک آن میں سارا عالَم بنا دے، ہر چیز کو حسبِ اقتضائے حکمت ہستی عطا فرماتا ہے۔ شانِ الٰہی میں یہود کا یہ کلمہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو بہت ناگوار ہوا اور شدّتِ غضب سے چہرۂ مبارک پر سرخی نمودار ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسکین فرمائی اور خطاب ہوا۔
۶۶ یعنی فجر و ظہر و عصر کے وقت۔
۶۷ یعنی وقتِ مغرب و عشاء و تہجّد۔
۶۸ حدیث : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے تمام نمازوں کے بعد تسبیح کرنے کا حکم فرمایا۔ (بخاری )
حدیث : سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا جو شخص ہر نماز کے بعد تینتیس۳۳ مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس۳۳ مرتبہ، الحمد للہ تینتیس۳۳ مرتبہ اللہ اکبر اور ایک مرتبہ لا الہ الا اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھوعلی کل شیءٍ قدیر پڑھے اس کے گناہ بخشے جائیں چاہے سمندر کے جھاگوں کے برابر ہوں یعنی بہت ہی کثیر ہوں۔ (مسلم شریف)
۶۹ یعنی حضرت اسرافیل علیہ السلام۔
۷۰ یعنی صخرۂ بیت المقدِس سے، جو آسمان کی طرف زمین کا سب سے قریب مقام ہے۔ حضرت اسرافیل کی ندا یہ ہو گی اے گلی ہوئی ہڈیو، بکھرے ہوئے جوڑو، ریزہ ریزہ شدہ گوشتو، پراگندہ بالو، اللہ تعالیٰ تمہیں فیصلہ کے لئے جمع ہونے کا حکم دیتا ہے۔
۷۱ سب لوگ۔ مراد اس سے نفخۂ ثانیہ ہے۔
۷۵ کہ انہیں بزور اسلام میں داخل کرو، آپ کا کام دعوت دینا اور سمجھا دینا ہے وکان ھذاقبل الامربالقتال۔