۱ سورۂ رحمٰن مکّیہ ہے، اس میں تین ۳رکوع اور چھتّر۷۶ یا اٹھتّر۷۸ آیتیں، تین سو اکیاون ۳۵۱کلمے، ایک ہزار چھ سو چھتّیس ۱۶۳۶ حرف ہیں۔
۲ شانِ نزول : جب آیت اُسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ نازل ہوئی، کفّارِ مکّہ نے کہا رحمٰن کیا ہے، ہم نہیں جانتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے اَلرّحمٰن نازل فرمائی کہ رحمٰن جس کا تم انکار کرتے ہو، وہی ہے جس نے قرآن نازل فرمایا، اور ایک قول یہ ہے کہ اہلِ مکّہ نے جب کہا کہ محمّد (مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ) کو کوئی بشر سکھاتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ رحمٰن نے قرآن اپنے حبیب محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو سکھایا۔ (خازن)
۳ انسان سے اس آیت میں سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم مراد ہیں اور بیان سے مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ کا بیان، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اوّلین و آخرین کی خبریں دیتے تھے۔ (خازن)
۴ کہ تقدیرِ معیّن کے ساتھ اپنے بروج و منازل میں سیر کرتے ہیں اور اس میں خَلق کے لئے منافع ہیں، اوقات کے حساب، سالوں اور مہینوں کی شمار انہیں پر ہے۔
۶ اور اپنے ملائکہ کا مسکن اور اپنے احکام کا جائے صدور بنایا۔
۷ جس سے اشیاء کا وزن کیا جائے اور ان کی مقداریں معلوم ہوں تاکہ لین دین میں عدل قائم رکھا جائے۔
۹ جو اس میں رہتی بستی ہے تاکہ اس میں آرام کریں اور فائدے اٹھائیں۔
۱۲ اس سورۃ شریفہ میں یہ آیت اکتیس۳۱ بار آئی ہے، بار بار نعمتوں کا ذکر فرما کر یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اپنے رب کی کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے، یہ ہدایت و ارشاد کا بہترین اسلوب ہے تاکہ سامع کے نفس کو تنبیہ ہو اور اسے اپنے جُرم اور نا سپاسی کا حال معلوم ہو جائے کہ اس نے کس قدر نعمتوں کو جھٹلایا ہے اور اسے شرم آئے اور وہ ادائے شکر و طاعت کی طرف مائل ہو اور یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں اس پر ہیں، حدیث : سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ سورت میں نے جنّات کو سنائی وہ تم سے اچھا جواب دیتے تھے، جب میں آیت فَبِاَیِّ اٰلَآئی رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن پڑھتا، وہ کہتے اے رب ہمارے ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے تجھے حمد۔ ( الترمذی و قال غریب)
۱۳ یعنی خشک مٹی سے جو بجانے سے بجے اور کوئی چیز کھنکھناتی آواز دے، پھر اس مٹی کو تر کیا کہ وہ مثل گارے کے ہو گئی، پھر اس کو گَلایا کہ وہ مثل سیاہ کیچ کے ہو گئی۔
۱۴ یعنی خالص بے دھوئیں والے شعلہ سے۔
۱۵ دونوں پورب اور دونوں پچھم سے مراد آفتاب کے طلوع ہونے کے دونوں مقام ہیں گرمی کے بھی اور جاڑے کے بھی، اسی طرح غروب ہونے کے بھی دونوں مقام ہیں۔
۱۷ نہ ان کے درمیان ظاہر میں کوئی فاصل، نہ حائل۔
۱۹ ہر ایک اپنی حد پر رہتا ہے اور کسی کا ذائقہ تبدیل نہیں ہوتا۔
۲۰ جن چیزوں سے وہ کَشتیاں بنائی گئیں وہ بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیں اور ان کو ترکیب دینے اور کَشتی بنانے اور صنّاعی کرنے کی عقل بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی اور دریاؤں میں ان کَشتیوں کا چلنا اور تیرنا یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہے۔
۲۱ ہر جاندار وغیرہ ہلاک ہونے والا ہے۔
۲۲ کہ وہ خَلق کے فنا کے بعد انہیں زندہ کرے گا اور ابدی حیات عطا فرمائے گا اور ایمانداروں پر لطف و کرم کرے گا۔
۲۳ فرشتے ہوں یا جن یا انسان یا اور کوئی مخلوق، کوئی بھی اس سے بے نیاز نہیں، سب اس کے فضل کے محتاج ہیں اور زبانِ حال و قال سے اس کے حضور سائل۔
۲۴ یعنی وہ ہر وقت اپنی قدرت کے آثار ظاہر فرماتا ہے، کسی کو روزی دیتا ہے، کسی کو مارتا ہے، کسی کو جِلاتا ہے، کسی کو عزّت دیتا ہے، کسی کو ذلّت، کسی کو غنی کرتا ہے، کسی کو محتاج، کسی کے گناہ بخشتا ہے، کسی کی تکلیف رفع کرتا ہے۔ شانِ نزول : کہا گیا ہے کہ یہ آیت یہود کے رد میں نازل ہوئی جو کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سنیچر کے روز کوئی کام نہیں کرتا، ان کے قول کا بطلان ظاہر فرمایا گیا، منقول ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے اس آیت کے معنیٰ دریافت کئے اس نے ایک روز کی مہلت چاہی اور نہایت متفکِّر و مغموم ہو کر اپنے مکان پر آیا، اس کے ایک حبشی غلام نے وزیر کو پریشان دیکھ کر کہا : اے میرے آقا آپ کو کیا مصیبت پیش آئی، بیان کیجئے، وزیر نے بیان کیا تو غلام نے کہا کہ اس کے معنیٰ بادشاہ کو میں سمجھا دوں گا، وزیر نے اس کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا تو غلام نے کہا کہ اے بادشاہ اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں اور مردے سے زندہ نکالتا ہے اور زندے سے مردہ اور بیمار کو تندرستی دیتا ہے اور تندرست کو بیمار کرتا ہے، مصیبت زدہ کو رہائی دیتا ہے اور بے غموں کو مصیبت میں مبتلا کرتا ہے، عزّت والوں کو ذلیل کرتا ہے، ذلیلوں کو عزّت دیتا ہے، مالداروں کو محتاج کرتا ہے، محتاجوں کو مالدار، بادشاہ نے غلام کا جواب پسند کیا اور وزیر کو حکم دیا کہ اس غلام کو خلعتِ وزارت پہنائے، غلام نے وزیر سے کہا اے آقا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک شان ہے۔
۲۶ تم اس سے کہیں بھاگ نہیں سکتے۔
۲۷ روزِ قیامت جب تم قبروں سے نکلو گے۔
۲۸ حضرت مترجِم قدّس سِرّہٗ نے فرمایا لَپٹ میں دھواں ہو تو اس کے سب اجزاء جَلانے والے نہ ہوں گے کہ زمین کے اجزاء شامل ہیں، جن سے دھواں بنتا ہے اور دھوئیں میں لَپٹ ہو تو وہ پورا سیاہ اور اندھیرا نہ ہو گا کہ لَپٹ کی رنگت شامل ہے، ان پر بے دھوئیں کی لَپٹ بھیجی جائے گی جس کے سب اجزاء جَلانے والے اور بے لَپٹ کا دھواں جو سخت کالا اندھیرا اور اسی کے وجہ کریم کی پناہ۔
۲۹ اس عذاب سے نہ بچ سکو گے اور آپس میں ایک دوسرے کی مدد نہ کر سکو گے بلکہ یہ لَپٹ اور دھواں تمہیں محشر کی طرف لے جائیں گے، پہلے سے اس کی خبر دے دینا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے تاکہ اس کی نافرمانی سے باز رہ کر اپنے آپ کو اس بَلاسے بچا سکو۔
۳۰ کہ جگہ جگہ سے شق اور رنگت کا سرخ۔ (حضرت مترجِم قدّس سِرّہٗ)
۳۱ یعنی جب کہ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور آسمان پھٹے گا۔
۳۲ اس روز ملائکہ مجرمین سے دریافت نہ کریں گے ان کی صورتیں ہی دیکھ کر پہچان لیں گے اور سوال دوسرے وقت ہو گا جب کہ لوگ موقف میں جمع ہوں گے۔
۳۳ کہ ان کے منہ کالے اور آنکھیں نیلی ہوں گی۔
۳۴ پاؤں پیٹھ کے پیچھے سے لا کر پیشانیوں سے ملا دیئے جائیں گے اور گھسیٹ کر جہنّم میں ڈالے جائیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعضے پیشانیوں سے گھسیٹے جائیں گے بعضے پاؤں سے۔
۳۶ کہ جب جہنّم کی آگ سے جل بھُن کر فریاد کریں گے تو انہیں جلتا، کھولتا پانی پلایا جائے گا اور اس کے عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے۔ خدا کی نافرمانی کے اس انجام سے آگاہ فرما دینا اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔
۳۷ یعنی جسے اپنے رب کے حضور روزِ قیامت موقف میں حساب کے لئے کھڑے ہونے کا ڈر ہو اور وہ معاصی ترک کرے اور فرائض بجا لائے۔
۳۸ جنّتِ عدن اور جنّتِ نعیم۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک جنّت رب سے ڈر نے کا صلہ اور ایک شہوات ترک کرنے کا صلہ۔
۳۹ اور ہر ڈالی میں قِسم قِسم کے میوے۔
۴۰ ایک آبِ شیریں کا، اور ایک شرابِ پاک کا، یا ایک تسنیم، دوسرا سلسبیل۔
۴۱ یعنی سنگین ریشم کا، جب استر کا یہ حال ہے تو ابرا کیسا ہو گا، سبحان اللہ۔
۴۲ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ درخت اتنا قریب ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے کھڑے، بیٹھے اس کا میوہ چُن لیں گے۔
۴۳ جنّتی بیبیاں اپنے شوہر سے کہیں گی مجھے اپنے رب کے عزّت و جلال کی قَسم جنّت میں مجھے کوئی چیز تجھ سے زیادہ اچھی نہیں معلوم ہوتی تو اس خدا کی حمد جس نے تجھے میرا شوہر کیا اور مجھے تیری بی بی بنایا۔
۴۴ صفائی اور خوش رنگی میں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جنّتی حوروں کے صفائے ابدان کا یہ عالَم ہے کہ ان کی پنڈلی کا مغز اس طرح نظر آتا ہے جس طرح آبگینہ کی صراحی میں شرابِ سرخ۔
۴۵ یعنی جس نے دنیا میں نیکی کی اس کی جزا آخرت میں احسانِ الٰہی ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ جولَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا قائل ہو اور شریعتِ محمّدیہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر عامل، اس کی جزا جنّت ہے۔
۴۶ حدیث شریف میں ہے کہ دو جنّتیں تو ایسی ہیں جن کے ظروف اور سامان چاندی کے ہیں اور دو جنّتیں ایسی کہ جن کے ظروف و اسباب سونے کے، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ پہلی دو جنّتیں سونے اور چاندی کی اور دوسری یاقوت و زبرجد کی۔
۴۷ کہ ان خیموں سے باہر نہیں نکلتیں یہ ان کی شرافت و کرامت ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر جنّتی عورتوں میں سے زمین کی طرف کسی ایک کی جھلک پڑ جائے تو آسمان و زمین کے درمیان کی تمام فضا روشن ہو جائے اور خوشبو سے بھر جائے، اور ان کے خیمے موتی اور زبر جد کے ہوں گے۔
۴۸ اور ان کے شوہر جنّت میں عیش کریں گے۔
(۷۶) تکیہ لگائے ہوئے سبز بچھونوں اور منقش خوبصورت چاندنیوں پر۔
(۷۷) تو اپنے رب کی کونسی نعمت جھٹلاؤ گے۔
(۷۸) بڑی برکت والا ہے تمہارے رب کا نام جو عظمت اور بزرگی والا۔