۱ سورۂ مجادلہ مدنیّہ ہے، اس میں تین۳ رکوع، بائیس۲۲ آیتیں، چار سو تہتر۴۷۳ کلمے، ایک ہزار سات سو بانوے ۱۷۹۲ حروف ہیں۔
۲ وہ خولہ بنتِ ثعلبہ تھیں، اَوس بن صامت کی بی بی۔ شانِ نزول : کسی بات پر اَوس نے ان سے کہا کہ تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی مثل ہے، یہ کہنے کے بعد اَوس کو ندامت ہوئی، یہ کلمہ زمانۂ جاہلیّت میں طلاق تھا، اَوس نے کہا میرے خیال میں تو مجھ پر حرام ہو گئی، خولہ نے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر تمام واقعات عرض کئے اور عرض کیا کہ میرا مال ختم ہو چکا، ماں باپ گذر گئے، عمر زیادہ ہو گئی، بچے چھوٹے چھوٹے ہیں، ان کے باپ کے پاس چھوڑوں تو ہلاک ہو جائیں، اپنے ساتھ رکھوں تو بھوکے مر جائیں، کیا صورت ہے کہ میرے اور میرے شوہر کے درمیان جدائی نہ ہو ؟ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ تیرے باب میں میرے پاس کوئی حکم نہیں یعنی ابھی تک ظِہار کے متعلق کوئی حکمِ جدید نازل نہیں ہوا، دستورِ قدیم یہی ہے کہ ظِہار سے عورت حرام ہو جاتی ہے، عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اَوس نے طلاق کا لفظ نہ کہا، وہ میرے بچّوں کا باپ ہے اور مجھے بہت ہی پیارا ہے، اسی طرح وہ بار بار عرض کرتی رہی اور جواب حسبِ خواہش نہ پایا تو آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہنے لگی یا اللہ تعالیٰ میں تجھ سے اپنی محتاجی و بے کسی اور پریشان حالی کی شکایت کرتی ہوں، اپنے نبی پر میرے حق میں ایسا حکم نازل فرما جس سے میری مصیبت رفع ہو، حضرت امّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا خاموش ہو دیکھ چہرۂ مبارکِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر آثارِ وحی ظاہر ہیں، جب وحی پوری ہو گئی، فرمایا اپنے شوہر کو بلا، اوس حاضر ہوئے تو حضور نے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں۔
۳ یعنی ظِہار کرتے ہیں، ظِہار اس کو کہتے ہیں کہ اپنی بی بی کو محرماتِ نسبی یا رضائی کے کسی ایسے عضو سے تشبیہ دی جائے جس کو دیکھنا حرام ہے مثلاً بی بی سے کہے کہ تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی مثل ہے یا بی بی کے ایسے عضو کو جس سے وہ تعبیر کی جاتی ہو یا اس کے جزوِ شائع کو محرمات کے ایسے عضو سے تشبیہہ دے جس کا دیکھنا حرام ہے مثلاً یہ کہے کہ تیرا سریا تیرا نصفِ بدن میری ماں کی پیٹھ یا اس کے پیٹ یا اس کی ران یا میری بہن یا پھوپھی یا دودھ پلانے والی کی پیٹھ یا پیٹ کے مثل ہے تو ایسا کہنا ظِہار کہلاتا ہے۔
۴ یہ کہنے سے وہ مائیں نہیں ہو گئیں۔
۵ مسئلہ : اور دودھ پلانے والیاں بسبب دودھ پلانے کے ماؤں کے حکم میں ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ازواجِ مطہّرات بسببِ کمالِ حرمت مائیں بلکہ ماؤں سے اعلیٰ ہیں۔
۶ جو بی بی کو ماں کہتے ہیں، اس کو کسی طرح ماں کے ساتھ تشبیہ دینا ٹھیک نہیں۔
مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ باندی سے ظِہار نہیں ہوتا اگر اس کو محرمات سے تشبیہ دے تو مظاہر نہ ہو گا۔
۸ یعنی اس ظِہار کو توڑ دینا اور حرمت کو اٹھا دینا۔
۹ کفار ۂ ظِہار کا، لہٰذا ان پر ضروری ہے۔
۱۰ خواہ وہ مومن ہو یا کافر، صغیر ہو یا کبیر، مرد ہو یا عورت، البتہ مُدَبَّر اور اُمِّ ولد اور ایسا مکاتَب جائز نہیں جس نے بدلِ کتابت میں سے کچھ ادا کیا ہو۔
۱۱ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ اس کَفّارہ کے دینے سے پہلے وطی اور اس کے دواعی حرام ہیں۔
۱۳ متصل اس طرح کہ نہ ان دو مہینوں کے درمیان رمضان آئے اور نہ ان پانچ دنوں میں سے کوئی دن آئے جن کا روزہ ممنوع ہے اور نہ کسی عذر سے یا بغیر عذر کے درمیان سے کوئی روزہ چھوڑا جائے اگر ایسا ہوا تو از سر نو روزے رکھنے پڑیں گے۔
۱۴ مسائل یعنی روزوں سے جو کَفّارہ دیا جائے اس کا بھی جِماع اور دواعیِ جماع سے مقدّم ہونا ضروری ہے اور جب تک وہ روزے پورے ہوں خاوند بیوی میں سے کوئی کسی کو ہاتھ نہ لگائے۔
۱۵ یعنی اسے روزے رکھنے کی قوّت ہی نہ ہو، بوڑھاپے یا مرض وغیرہ کے باعث یا روزے تو رکھ سکتا ہو مگر متواتر و متصل نہ رکھ سکتا ہو۔
۱۶ یعنی ساٹھ مسکینوں کو کھانا دینا اور یہ اس طرح کہ ہر مسکین کو نصف صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا جَو دے اور اگر مسکینوں کو اس کی قیمت دی یا صبح و شام دونوں وقت انہیں پیٹ بھر کر کھلا دیا جب بھی جائز ہے۔
مسئلہ : اس کَفّارہ میں یہ شرط نہیں کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے قبل ہو حتّیٰ کہ اگر کھانا کھلانے کے درمیان میں شوہر اور بی بی میں قربت واقع ہوئی تو نیا کَفّارہ لازم نہ ہو گا۔
۱۷ اور خدا اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور جاہلیّت کے طریقے چھوڑو۔
۱۸ ان کو توڑنا اور ان سے تجاوز کرنا جائز نہیں۔
۱۹ رسولوں کی مخالفت کرنے کے سبب۔
۲۰ رسولوں کی صدق پر دلالت کرنے والی۔
۲۱ کسی ایک کو باقی نہ چھوڑے گا۔
۲۲ رسوا اور شرمندہ کرنے کے لئے۔
۲۳ اپنے اعمال جو دنیا میں کرتے تھے۔
۲۵ اور اپنے راز آپس میں گوش در گوش کہیں اور اپنی مشاورت پر کسی کو مطّلع نہ کریں۔
۲۶ یعنی اللہ تعالیٰ انہیں مشاہدہ کرتا ہے، ان کے رازوں کو جانتا ہے۔
۳۱ شانِ نزول : یہ آیت یہود اور منافقین کے حق میں نازل ہوئی جو آپس میں سرگوشیاں کرتے اور مسلمانوں کی طرف دیکھتے جاتے اور آنکھوں سے ان کی طرف اشارے کرتے جاتے تاکہ مسلمان سمجھیں کہ ان کے خلاف کوئی پوشیدہ بات ہے اور اس سے انہیں رنج ہو، ان کی اس حرکت سے مسلمانوں کو غم ہوتا تھا اور وہ کہتے تھے کہ شاید ا ن لوگوں کو ہمارے ان بھائیوں کی نسبت قتل یا ہزیمت کی کوئی خبر پہنچی جو جہاد میں گئے ہیں اور یہ اسی کے متعلق باتیں بناتے اور اشارے کرتے ہیں، جب یہ حرکات منافقین کے بہت زیادہ ہوئے اور مسلمانوں نے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے حضور میں اس کی شکایتیں کیں تو سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے سرگوشی کرنے والوں کو منع فرما دیا لیکن وہ باز نہ آئے اور یہ حرکت کرتے ہی رہے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۳۲ گناہ اور حد سے بڑھنا، یہ کہ مکاری کے ساتھ سرگوشیاں کر کے مسلمانوں کو رنج و غم میں ڈالتے ہیں۔
۳۳ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نافرمانی یہ کہ باوجود ممانعت کے باز نہیں آتے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان میں ایک دوسرے کو رائے دیتے تھے کہ رسول کی نافرمانی کرو۔
۳۴ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے پاس آتے تواَلسَّامُ عَلَیْکَ کہتے، سام موت کو کہتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ان کے جواب میں عَلَیْکُمْ فرما دیتے۔
۳۵ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اگر حضرت نبی ہوتے تو ہماری اس گستاخی پر اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب کرتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۳۶ اور جو طریقہ یہود اور منافقین کا ہے اس سے پرہیز کرو۔
۳۷ جس میں گناہ اور حد سے بڑھنا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نافرمانی ہو اور شیطان اپنے دوستوں کو اس پر ابھارتا ہے۔
۳۸ کہ اللہ پر بھروسہ کرنے والا ٹوٹے میں نہیں رہتا۔
۳۹ شانِ نزول : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم بدر میں حاضر ہونے والے اصحاب کی عزّت کرتے تھے، ایک روز چند بدری اصحاب ایسے وقت پہنچے جب کہ مجلس شریف بھر چکی تھی، انہوں نے حضور کے سامنے کھڑا ہو کر سلام عرض کیا، حضور نے جواب دیا، پھر انہوں نے حاضرین کو سلام کیا، انہوں نے جواب دیا، پھروہ اس انتظار میں کھڑے رہے کہ ان کے لئے مجلس شریف میں جگہ کی جائے مگر کسی نے جگہ نہ دی، یہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گراں گزرا تو حضور نے اپنے قریب والوں کو اٹھا کر ان کے لئے جگہ کی، اٹھنے والوں کو اٹھنا شاق ہوا، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۴۰ نماز کے یا جہاد کے یا اور کسی نیک کام کے لئے اور اسی میں داخل ہے تعظیمِ ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے لئے کھڑا ہونا۔
۴۱ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی اطاعت کے باعث۔
۴۲ کہ اس میں باریابی بارگاہِ رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تعظیم اور فقراء کا نفع ہے۔ شانِ نزول : سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بارگاہ میں جب اغنیاء نے عرض و معروض کا سلسلہ دراز کیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ فقراء کو اپنی عرض پیش کرنے کا موقع کم ملنے لگا تو عرض پیش کرنے والوں کو عرض پیش کرنے سے پہلے صدقہ دینے کا حکم دیا گیا اور اس حکم پر حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمل کیا، ایک دینار صدقہ کر کے دس مسائل دریافت کئے، عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم وفا کیا ہے ؟ فرمایا توحید اور توحید کی شہادت دینا۔ عرض کیا، فساد کیا ہے ؟ فرمایا کفر و شرک۔ عرض کیا حق کیا ہے ؟ فرمایا اسلام و قرآن اور ولایت جب تجھے ملے۔ عرض کیا حیلہ کیا ہے یعنی تدبیر ؟ فرمایا ترکِ حیلہ۔ عرض کیا مجھ پر کیا لازم ہے ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طاعت۔ عرض کیا اللہ تعالیٰ سے کیسے دعا مانگوں ؟ فرمایا صدق و یقین کے ساتھ۔ عرض کیا،کیا مانگوں ؟ فرمایا عاقبت۔ عرض کیا اپنی نجات کے لئے کیا کروں ؟ فرمایا حلال کھا اور سچ بول۔ عرض کیا سرور کیا ہے ؟ فرمایا جنّت۔ عرض کیا راحت کیا ہے ؟ فرمایا اللہ کا دیدار۔ جب حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سوالوں سے فارغ ہو گئے تو یہ حکم منسوخ ہو گیا اور رخصت نازل ہوئی سوائے حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اور کسی کو اس پر عمل کرنے کا وقت نہیں ملا۔ (مدارک و خازن) حضرت مترجِم قدّس سرّہ نے فرمایا یہ اس کی اصل ہے جو مزاراتِ اولیاء پر تصدیق کے لئے شیرینی وغیرہ لے جاتے ہیں۔
۴۳ بسبب اپنی غریبی و ناداری کے۔
۴۴ اور ترکِ تقدیمِ صدقہ کا مواخذہ تم پر سے اٹھا لیا اور تم کو اختیار دے دیا۔
۴۵ جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے ان سے مراد یہود ہیں اور ان سے دوستی کرنے والے منافقین۔ شانِ نزول : یہ آیت منافقین کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے یہود سے دوستی کی اور ان کی خیر خواہی میں لگے رہتے اور مسلمانوں کے راز ان سے کہتے۔
۴۶ یعنی نہ مسلمان، نہ یہودی بلکہ منافق ہیں مذبذب۔
۴۷ شانِ نزول : یہ آیت عبداللہ بن بنتل منافق کے حق میں نازل ہوئی جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی مجلس میں حاضر رہتا اور یہاں کی بات یہود کے پاس پہنچاتا، ایک روز حضور ِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم دولت سرائے اقدس میں تشریف فرما تھے، حضور نے فرمایا اس وقت ایک آدمی آئے گا جس کا دل نہایت سخت اور شیطان کی آنکھوں سے دیکھتا ہے، تھوڑی ہی دیر بعد عبداللہ بن بنتل آیا، اس کی آنکھیں نیلی تھیں، حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اس سے فرمایا تو اور تیرے ساتھی کیوں ہمیں گالیاں دیتے ہیں، وہ قسم کھا گیا کہ ایسا نہیں کرتا اور اپنے یاروں کو لے آیا، انہوں نے بھی قسم کھائی کہ ہم نے آپ کو گالی نہیں دی، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۴۹ کہ اپنا جان و مال محفوظ رہے۔
۵۰ یعنی منافقین نے اپنی اس حیلہ سازی سے لوگوں کو جہاد سے روکا اور بعض مفسّرین نے کہا کہ معنیٰ یہ ہیں کہ لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکا۔
۵۲ اور روزِ قیامت انہیں عذابِ الٰہی سے نہ بچا سکیں گے۔
۵۴ یعنی وہ اپنی ان جھوٹی قسموں کو کار آمد سمجھتے ہیں۔
۵۵ اپنی قسموں میں اور ایسے جھوٹے کہ دنیا میں بھی جھوٹ بولتے رہے اور آخرت میں بھی، رسول کے سامنے بھی اور خدا کے سامنے بھی۔
۵۶ کہ جنّت کی دائمی نعمتوں سے محروم اور جہنّم کے ابدی عذاب میں گرفتار۔
۵۸ حجّت کے ساتھ یا تلوار کے ساتھ۔
۵۹ یعنی مومنین سے یہ ہوہی نہیں سکتا اور ان کی یہ شان ہی نہیں اور ایمان اس کو گوارا ہی نہیں کرتا کہ خدا اور رسول کے دشمن سے دوستی کرے۔
مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ بد دینوں اور بد مذہبوں اور خدا اور سول کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کرنے والوں سے مودّت و اختلاط جائز نہیں۔
۶۰ چنانچہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے جنگِ اُحد میں اپنے باپ جراح کو قتل کیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روزِ بدر اپنے بیٹے عبدالرحمن کو مبارزت کے لئے طلب کیا لیکن رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے انہیں اس جنگ کی اجازت نہ دی اور معصب بن عمیر نے اپنے بھائی عبداللہ بن عمیر کو قتل کیا اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو روزِ بدر قتل کیا اور حضرت علی بن ابی طالب و حمزہ و ابوعبیدہ نے ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کو اور ولید بن عتبہ کو بدر میں قتل کیا جوان کے رشتہ دار تھے، خدا اور رسول پر ایمان لانے والوں کو قرابت اور رشتہ داری کا کیا پاس۔
۶۱ اس روح سے یا اللہ کی مدد مراد ہے یا ایمان یا قرآن یا جبریل یا رحمتِ الٰہی یا نور۔