۱ سورۂ نوح مکّیہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، اٹھائیس ۲۸ آیتیں، دو سو چوبیس۲۲۴ کلمے، نو سو ننانوے ۹۹۹ حرف ہیں۔
۳ اور اس کا کسی کو شریک نہ بناؤ۔
۴ نافرمانیوں سے بچ کر تا کہ وہ غضب نہ فرمائے۔
۵ جو تم سے وقتِ ایمان تک صادر ہوئے ہوں گے یا جو بندوں کے حقوق سے متعلق نہ ہوں گے۔
۷ کہ اس دوران میں تم پر عذاب نہ فرمائے گا۔
۱۱ اور جتنی انہیں ایمان لانے کی ترغیب دی گئی اتنی ہی ان کی سرکشی بڑھتی گئی۔
۱۴ اور منھ چھُپا لئے تاکہ مجھے نہ دیکھیں کیونکہ انہیں دِینِ الٰہی کی طرف نصیحت کرنے والے کو دیکھنا بھی گوارا نہ تھا۔
۱۶ اور میری دعوت کو قبول کرنا اپنی شان کے خلاف جانا۔
۱۸ اور دعوت بالاعلان کی تکرار بھی کی۔
۱۹ ایک ایک سے، اور کوئی دقیقہ دعوت کا اٹھا نہ رکھا قوم زمانۂ دراز تک حضرت نو ح علیہ السلام کی تکذیب ہی کرتی رہی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش روک دی اور ان کی عورتوں کو بانجھ کر دیا، چالیس سال تک انکے مال ہلاک ہو گئے، جانور مر گئے جب یہ حال ہوا تو حضرت نوح علیہ السلام نے انہیں استغفار کا حکم دیا۔
۲۰ کفر و شرک سے، اور ایمان لا کر مغفرت طلب کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھولے کیونکہ طاعات میں مشغول ہونا خیر و برکت اور وسعتِ رزق کا سبب ہوتا ہے۔
۲۱ توبہ کرنے والوں کو اگر تم ایمان لائے اور تم نے توبہ کی تو وہ۔
۲۲ مال و اولاد بکثرت عطا فرمائے گا۔
۲۳ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ایک شخص آپ کے پاس آیا اور اس نے قلّتِ بارش کی شکایت کی، آپ نے استغفار کا حکم دیا، دوسرا آیا، اس نے تنگ دستی کی شکایت کی، اسے بھی یہی حکم فرمایا، پھر تیسرا آیا، اس نے قلّتِ نسل کی شکایت کی، اس سے بھی یہی فرمایا، پھر چوتھا آیا، اس نے اپنی زمین کی قلّتِ پیداوار کی شکایت کی، اس سے بھی یہی فرمایا، ربیع بن صبیح جو حاضر تھے انھوں نے عرض کیا چند لوگ آئے قِسم قِسم کی حاجتیں انہوں نے پیش کیں، آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ استغفار کرو تو آپ نے یہ آیت پڑھی۔ ( ان حوائج کے لئے یہ قرآنی عمل ہے)
۲۵ کبھی نطفہ، کبھی علقہ، کبھی مضغہ، یہاں تک کہ تمہاری خلقت کا مل کی، اس کی آفرینش میں نظر کرنا، اس کی خالقیّت و قدرت اور اس کی وحدانیّت پر ایمان لانے کو و اجب کرتا ہے۔
۲۶ حضرت ابنِ عباس و ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی ہے کہ آفتاب و ماہتاب کے چہرے تو آسمانوں کی طرف ہیں اور ہر ایک کی پشت زمین کی طرف تو آسمانوں کی لطافت کے باعث ان کی روشنی تمام آسمانوں میں پہنچتی ہے اگر چہ چاند آسمانِ دنیا میں ہے۔
۲۷ کہ دنیا کو روشن کرتا ہے اور اس کی روشنی چاند کے نور سے قوی تر ہے اور آفتاب چوتھے آسمان میں ہے۔
۲۸ تمہارے باپ حضرت آدم کو اس سے پیدا کر کے۔
۳۱ اور میں نے جو ایمان و استغفار کا حکم دیا تھا، اس کو انہوں نے نہ مانا۔
۳۲ ان کے عوام، غرباء اور چھوٹے لوگ، سرکش رؤساء اور اصحابِ اموال و اولاد کے تابع ہوئے۔
۳۳ اور وہ غرورِ مال میں مست ہو کر کفر و طغیان میں بڑھتا رہا۔
۳۵ کہ انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی تکذیب کی اور انہیں اور ان کے متّبعین کو ایذائیں پہنچائیں۔
۳۷ یعنی ان کی عبادت ترک نہ کرنا۔
۳۸ یہ ان کے بتوں کے نام ہیں جنہیں وہ پوجتے تھے بت تو ان کے بہت تھے مگر یہ پانچ ان کے نزدیک بڑی عظمت والے تھے وَدّ تو مرد کی صورت پر تھا اور سُواع عورت کی صورت پر اور یغوث شیر کی شکل اور یعوق گھوڑے کی اور نسر کرگس کی، یہ بت قومِ نوح سے منتقل ہو کر عرب میں پہنچے اور مشرکین کے قبائل سے ایک ایک نے ایک ایک کو اپنے لئے خاص کر لیا۔
۳۹ یعنی یہ بت بہت سے لوگوں کے لئے گمراہی کا سبب ہوئے یا یہ معنیٰ ہیں کہ رؤسائے قوم نے بتوں کی عبادت کا حکم کر کے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا۔
۴۱ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعا ہے جب انہیں وحی سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ایمان لا چکے قوم میں انکے سوا اور لوگ ایمان لانے والے نہیں تب آپ نے یہ دعا کی۔
۴۴ جو انہیں عذابِ الٰہی سے بچا سکتا۔
۴۶ یہ حضرت نوح علیہ السلام کو وحی سے معلوم ہو چکا تھا اور حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے اور اپنے والدین اور مومنین و مومنات کے لئے دعا فرمائی۔
۴۸ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اوران کی قوم کے تمام کفّار کو عذاب سے ہلاک کر دیا۔