۱ سورۂ مدّثّر مکّیہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، چھپّن ۵۶ آیتیں، دو سو پچپن۲۵۵ کلمے، ایک ہزار دس۱۰۱۰ حرف ہیں۔
۲ یہ خطاب حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ہے۔
شانِ نزول : حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا میں کوہِ حرا پر تھا کہ مجھے ندا کی گئی یَامُحَمَّدْ اِنِّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا کچھ نہ پایا، اوپر دیکھا، ایک شخص آسمان زمین کے درمیان بیٹھا ہے (یعنی وہی فرشتہ جس نے ندا کی تھی ) یہ دیکھ کر مجھ پر رعب ہوا اور میں خدیجہ کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ مجھے بالا پوش اڑھاؤ انھوں نے اڑھا دیا تو جبریل آئے، انھوں نے کہا یٰاَ یّھَُاالْمُدَّثِّرُ۔
۴ قوم کو عذابِ الٰہی کا ایمان نہ لانے پر۔
۵ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اللہ اکبر فرمایا، حضرت خدیجہ نے بھی حضور کی تکبیر سن کر تکبیر کہی اور خوش ہوئیں اور انہیں یقین ہوا کہ وحی آئی۔
۶ ہر طرح کی نجاست سے کیونکہ نماز کے لئے طہارت ضروری ہے اور نماز کے سوا اور حالتوں میں بھی کپڑے پاک رکھنا بہتر ہے یا یہ معنیٰ ہیں کہ اپنے کپڑے کو تاہ کیجئے، ایسے دراز نہ ہوں جیسی کہ عربوں کی عادت ہے کیونکہ بہت زیادہ دراز ہونے سے چلنے پھرنے میں نجس ہونے کا احتمال رہتا ہے۔
۷ یعنی جیسے کہ دنیا میں ہدیئے اور نیوتے دینے کا دستور ہے کہ دینے والا یہ خیال کرتا ہے کہ جس کو میں نے دیا ہے وہ اس سے زیادہ مجھے دے دے گا، اس قِسم کے نیوتے اور ہدیئے شرعاً جائز ہیں مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو اس سے منع فرمایا گیا کیونکہ شانِ نبوّت بہت ارفع و اعلیٰ ہے اور اس منصبِ عالی کے لائق یہی ہے کہ جس کو جو دیں وہ محض کرم ہو اس سے لینے یا نفع حاصل کرنے کی نیت نہ ہو۔
۸ اوامر و نواہی اور ان ایذاؤں پر جو دِین کی خاطر آپ کو برداشت کرنی پڑیں۔
۹ مراد اس سے بقولِ صحیح نفخۂ ثانیہ ہے۔
۱۰ اس میں اشارہ ہے کہ وہ دن بفضلِ الٰہی مومنین پر آسان ہو گا۔
۱۱ اس کی ماں کے پیٹ میں بغیر مال و اولاد کے۔
شانِ نزول : یہ آیت ولید بن مغیرہ مخزومی کے حق میں نازل ہوئی وہ اپنی قوم میں وحید کے لقب سے ملقّب تھا۔
۱۲ کھیتیاں اور کثیر مویشی اور تجارتیں۔ مجاہد سے منقول ہے کہ وہ ایک لاکھ دینار نقد کی حیثیّت رکھتا تھا اور طائف میں اس کا ایسا بڑا باغ تھا جو سال کے کسی وقت پھلوں سے خالی نہ ہوتا تھا۔
۱۳ جن کی تعداد دس تھی اور چونکہ مالدار تھے انہیں کسبِ معاش کے لئے سفر کی حاجت نہ تھی اس لئے سب باپ کے سامنے رہتے، ان میں تین مشرّف بہ اسلام ہوئے، خالد اور ہشام اور ولید ابنِ ولید۔
۱۴ جاہ بھی دیا اور ریاست بھی عطا فرمائی، عیش بھی دیا اور طولِ عمر بھی۔
۱۶ یہ نہ ہو گا۔ چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد ولید کے مال و اولاد و جاہ میں کمی شروع ہوئی یہاں تک کہ ہلاک ہو گیا۔
۱۷ شانِ نزول : جب حٰمۤ تَنْزِیْلُ الْکِتَابِ مِنَ اللہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ نازل ہوئی اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے مسجد میں تلاوت فرمائی، ولید نے سنا اور اس قوم کی مجلس میں آ کر اس نے کہا کہ خدا کی قَسم میں نے محمّد صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے ابھی ایک کلام سنا، نہ وہ آدمی کا، نہ جن کا، بخدا اس میں عجیب شیرینی اور تازگی اور فوائد و دلکشی ہے، وہ کلام سب پر غالب رہے گا، قریش کو اس کی ان باتوں سے بہت غم ہوا اور ان میں مشہور ہو گیا کہ ولید آبائی دِین سے برگشتہ ہو گیا، ابوجہل نے ولید کو ہموار کرنے کا ذمّہ لیا اور اس کے پاس آ کر بہت غمزدہ صورت بنا کر بیٹھ گیا، ولید نے کہا کیا غم ہے ؟ ابوجہل نے کہا، غم کیسے نہ ہو تو بوڑھا ہو گیاہے، قریش تیرے خرچ کے لئے روپیہ جمع کر دیں گے، انہیں خیال ہے کہ تو نے محمّد (مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کے کلام کی تعریف اس لئے کی ہے کہ تجھے ان کے دستر خوان کا بچا کھانا مل جائے، اس پر اسے بہت طیش آیا اور کہنے لگا کہ کیا قریش کو میرے مال و دولت کا حال معلوم نہیں ہے اور کیا محمّد ( صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) اور ان کے اصحاب نے کبھی سیر ہو کر کھانا بھی کھایا ہے، ان کے دستر خوان پر کیا بچے گا، پھر ابوجہل کے ساتھ اٹھا اور قوم میں آ کر کہنے لگا تمہیں خیال ہے کہ محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) مجنون ہیں، کیا تم نے ان میں کبھی دیوانگی کی کوئی بات دیکھی ؟ سب نے کہا ہر گز نہیں،کہنے لگا تم انہیں کاہن سمجھتے ہو، کیا تم نے انہیں کبھی کہانت کرتے دیکھا ہے ؟ سب نے کہا نہیں، کہا تم انہیں شاعر گمان کرتے ہو،کیا تم نے کبھی انہیں شعر کہتے پایا ؟ سب نے کہا نہیں،کہنے لگا تم انہیں کذّاب کہتے ہو،کیا تمہارے تجربہ میں کبھی انہوں نے جھوٹ بولا ؟ سب نے کہا نہیں، اور قریش میں آپ کا صدق و دیانت ایسا مشہور تھا کہ قریش آپ کو امین کہا کرتے تھے، یہ سن کر قریش نے کہا، پھر بات کیا ہے تو ولید سوچ کر بولا کہ بات یہ ہے کہ وہ جادو گر ہیں، تم نے دیکھا ہو گا کہ انکی بدولت رشتہ دار رشتہ دار سے، باپ بیٹے سے جدا ہو جاتے ہیں، بس یہی جادو گر کا کام ہے اور جو قرآن وہ پڑھتے ہیں وہ دل میں اثر کر جاتا ہے، اس کا باعث یہ ہے کہ وہ جادو ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں اس کا ذکر فرمایا گیا۔
۱۸ یعنی نہ کسی مستحقِ عذاب کو چھوڑے، نہ کسی کے جسم پر گوشت پوست کھال لگی رہنے دے، بلکہ مستحقِ عذاب کو گرفتار کرے اور گرفتار کو جَلائے اور جب جل جائیں پھر ویسے ہی کر دیئے جائیں۔
۲۰ فرشتے۔ ایک مالک اور اٹھارہ ان کے ساتھی۔
۲۱ کہ حکمتِ الٰہی پر اعتماد نہ کر کے اس تعداد میں کلام کریں اور کہیں انیس کیوں ہوئے۔
۲۲ یعنی یہود کو یہ تعداد اپنی کتابوں کے موافق دیکھ کر سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے صدق کا یقین حاصل ہو۔
۲۳ یعنی اہلِ کتاب میں سے جو ایمان لائے ان کا اعتقاد سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ اور زیادہ ہو اور جان لیں کہ حضور جو کچھ فرماتے ہیں وہ وحیِ الٰہی ہے اس لئے کُتُبِ سابقہ سے مطابق ہوتی ہے۔
۲۵ یعنی جہنّم اور اس کی صفت یا آیاتِ قرآن۔
۲۷ خیر یا جنّت کی طرف ایمان لا کر۔
۲۸ کفر اختیار کر کے اور برائی و عذاب میں گرفتار ہو۔
۲۹ یعنی مومنین وہ گروی نہیں، وہ نجات پانے والے ہیں اور انہوں نے نیکیاں کر کے اپنے آپ کو آزاد کرا لیا ہے وہ اپنے رب کی رحمت سے منتفع ہیں۔
۳۱ یعنی مساکین پر صدقہ نہ کرتے تھے۔
۳۲ جس میں اعمال کا حساب ہو گا اور جزا دی جائے گی۔ مراد اس سے روزِ قیامت ہے۔
۳۳ یعنی انبیاء، ملائکہ، شہداء، صالحین جنہیں اللہ تعالیٰ نے شافع کیا ہے، وہ ایمانداروں کی شفاعت کریں گے، کافروں کی شفاعت نہ کریں گے، تو جو ایمان نہیں رکھتے انہیں شفاعت بھی میسّر نہ آئے گی۔
۳۴ یعنی مواعظِ قرآن سے اعراض کرتے ہیں۔
۳۵ یعنی مشرکین نادانی و بے وقوفی میں گدھے کی مثل ہیں، جس طرح شیر کو دیکھ کر وہ بھاگتا ہے اسی طرح یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تلاوتِ قرآن سن کر بھاگتے ہیں۔
۳۶ کفّارِ قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کہا تھا کہ ہم ہر گز آپ کا اتباع نہ کریں گے جب تک کہ ہم میں ہر ایک کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایک کتاب نہ آئے جس میں لکھا ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، فلاں بن فلاں کے نام، ہم اس میں تمہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اتباع کا حکم دیتے ہیں۔
۳۷ کیونکہ اگر انہیں آخرت کا خوف ہوتا تو اَدِلّہ قائم ہونے اور معجزات ظاہر ہونے کے بعد اس قِسم کی سرکشانہ حیلہ بازیاں نہ کرتے۔