۱ سورۂ مطفّفّین ایک قول میں مکّیہ ہے اور ایک میں مدنیّہ، اور ایک قول یہ ہے کہ زمانۂ ہجرت میں مکّہ مکرّمہ و مدینہ طیّبہ کے درمیان نازل ہوئی۔ اس سورت میں ایک ۱ رکوع، چھتّیس ۳۶ آیتیں، ایک سو انہتّر۱۶۹ کلمے اور سات سو تیس۷۳۰ حرف ہیں۔ شانِ نزول : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جب مدینہ طیّبہ تشریف فرما ہوئے تو یہاں کے لوگ پیمانہ میں خیانت کرتے تھے، بالخصوص ایک شخص ابوجہینہ ایسا تھا کہ وہ دو پیمانے رکھتا تھا لینے کا اور دینے کا، اور ان لوگوں کے حق میں یہ آیتیں نازل ہوئیں اور انہیں پیمانے میں عدل کرنے کا حکم دیا گیا۔
۲ یعنی روزِ قیامت۔ اس روز ذرّہ ذرّہ کا حساب کیا جائے گا۔
۵ سجّین ساتویں زمین کے اسفل میں ایک مقام ہے جو ابلیس اور اس کے لشکروں کا محل ہے۔
۶ یعنی وہ نہایت ہی ہول و ہیبت کا مقام ہے۔
۷ جو نہ مٹ سکتا ہے، نہ بدل سکتا ہے۔
۸ جب کہ وہ نوشتہ نکالا جائے گا۔
۹ اور روزِ جزا یعنی قیامت کے منکِر ہیں۔
۱۳ ان معاصی اور گناہوں نے جو وہ کرتے ہیں یعنی اپنے اعمالِ بد کی شامت سے ان کے دل زنگ خوردہ اور سیاہ ہو گئے۔ حدیث شریف میں ہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے اس کے دل میں ایک نقطۂ سیاہ پیدا ہوتا ہے، جب اس گناہ سے باز آتا ہے اور توبہ و استغفار کرتا ہے تو دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر پھر گناہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بڑھتا ہے یہاں تک کہ تمام قلب سیاہ ہو جاتا ہے اور یہی رَین یعنی وہ زنگ ہے جس کا آیت میں ذکر ہوا۔ (ترمذی)
۱۵ جیسا کہ دنیا میں اس کی توحید سے محروم رہے۔ مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ مومنین کو آخرت میں دیدارِ الٰہی کی نعمت میسّر آئے گی کیونکہ محرومی دیدار سے کفّار کی وعید میں ذکر کی گئی اور جو چیز کفّار کے لئے وعید و تہدید ہو وہ مسلمان کے حق میں ثابت ہو نہیں سکتی تو لازم آیا کہ مومنین کے حق میں یہ محرومی ثابت نہ ہو، حضرت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب اس نے اپنے دشمنوں کو اپنے دیدار سے محروم کیا تو دوستوں کو اپنی تجلّی سے نوازے گا اور اپنے دیدار سے سرفراز فرمائے گا۔
۱۸ یعنی مومنینِ صادقین کے اعمال نامے۔
۱۹ علیّین ساتویں آسمان میں زیرِ عرش ہے۔
۲۰ یعنی اس کی شان عجیب عظمت والی ہے۔
۲۱ علیّین میں، اس میں ان کے اعمال لکھے ہیں۔
۲۳ اللہ تعالیٰ کے اکرام اور اس کی نعمتوں کو جو اس نے انہیں عطا فرمائیں اور اپنے دشمنوں کو جو طرح طرح کے عذاب میں گرفتار ہیں۔
۲۴ کہ وہ خوشی سے چمکتے دمکتے ہوں گے اور سرورِ قلب کے آثار ان چہروں پر نمایاں ہوں گے۔
۲۵ کہ ابرار ہی اس کی مُہر توڑیں گے۔
۲۶ طاعات کی طرف سبقت کر کے اور برائیوں سے باز رہ کر۔
۲۷ جو جنّت کی شرابوں میں اعلیٰ ہے۔
۲۸ یعنی مقرّبین خالص شرابِ تسنیم پیتے ہیں اور باقی جنّتیوں کی شرابوں میں شرابِ تسنیم ملائی جاتی ہے۔
۲۹ مثل ابوجہل اور ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل وغیرہ رؤساء کفّار کے۔
۳۰ مثل حضرت عمّار و خبّاب و صہیب و بلال وغیرہ فقرائے مومنین کے۔
۳۲ بطریقِ طعن و عیب کے۔ شانِ نزول : منقول ہے کہ حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کی ایک جماعت میں تشریف لے جا رہے تھے، منافقین نے انہیں دیکھ کر آنکھوں سے اشارے کئے اور مسخرگی سے ہنسے اور آپس میں ان حضرات کے حق میں بے ہودہ کلمات کہے تو اس سے پہلے کہ علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں پہنچیں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔
۳۴ یعنی مسلمانوں کو بُرا کہہ کر آپس میں ان کی ہنسی بناتے اور خوش ہوتے ہوئے۔
۳۵ کہ سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر ایمان لائے اور دنیا کی لذّتوں کو آخرت کی امیدوں پر چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۳۷ کہ ان کے احوال و اعمال پر گرفت کریں بلکہ انہیں اپنی اصلاح کا حکم دیا گیا ہے وہ اپنا حال درست کریں، دوسروں کو بے وقوف بتانے اور انکی ہنسی اڑانے سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
۳۹ جیسا کافر دنیا میں مسلمانوں کی غربت و محنت پر ہنستے تھے، یہاں معاملہ برعکس ہے مومن دائمی عیش و راحت میں ہیں اور کافر ذلّت و خواری کے دائمی عذاب میں، جہنّم کا دروازہ کھولا جاتا ہے، کافر اس سے نکلنے کے لئے دروازے کی طرف دوڑتے ہیں، جب دروازہ کے قریب پہنچتے ہیں دروازہ بند ہو جاتا ہے، بار بار ایسا ہی ہوتا ہے، کافروں کی یہ حالت دیکھ کر مسلمان ان سے ہنسی کرتے ہیں اور مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ جنّت میں جواہرات کے۔
۴۰ کفّار کی ذلّت و رسوائی اور شدّتِ عذاب کو اور اس پر ہنستے ہیں۔