۱ سورۂ توبہ مدنیّہ ہے مگر اس کے آخیر کی آیتیں لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ سے آخر تک۔ ان کو بعض عُلَماء مکّی کہتے ہیں، اس سورت میں سولہ رکوع، ایک سو انتیس آیتیں، چار ہزار اٹھتر کلمے، دس ہزار چار سو اٹھاسی حرف ہیں۔ اس سورت کے دس نام ہیں ان میں سے توبہ اور براءت دو نام مشہور ہیں۔ اس سورت کے اوّل میں بسم اللّٰہ نہیں لکھی گئی اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام اس سورت کے ساتھ بسم اللّٰہ لے کر نازِل ہی نہیں ہوئے تھے اور نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے بسم اللّٰہ لکھنے کا حکم نہیں فرمایا۔ حضرت علی مرتضیٰ سے مروی ہے کہ بسم اللّٰہ امان ہے اور یہ سورت تلوار کے ساتھ امن اٹھا دینے کے لئے نازِل ہوئی۔ بخاری نے حضرت براء سے روایت کیا کہ قرآنِ کریم کی سورتوں میں سب سے آخر یہی سورت نازِل ہوئی۔
۲ مشرکینِ عرب اور مسلمانوں کے درمیان عہد تھا، ان میں سے چند کے سوا سب نے عہد شکنی کی تو ان عہد شکنوں کا عہد ساقط کر دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ چار مہینے وہ امن کے ساتھ جہاں چاہیں گزاریں ان سے کوئی تعرُّض نہ کیا جائے گا۔ اس عرصہ میں انہیں موقع ہے کہ خوب سوچ سمجھ لیں کہ ان کے لئے کیا بہتر ہے اور اپنی احتیاطیں کر لیں اور جان لیں کہ اس مدت کے بعد اسلام منظور کرنا ہو گا یا قتل۔ یہ سورت ۹ہجری میں فتحِ مکّہ سے ایک سال بعد نازِل ہوئی۔ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سنہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کو امیرِ حج مقرر فرمایا تھا اور انکے بعد علی مرتضیٰ کو مجمعِ حُجّاج میں یہ سورت سنانے کے لئے بھیجا چنانچہ حضرت علی مرتضیٰ نے دس ذی الحِجّہ کو جَمرۂ عُقبہ کے پاس کھڑے ہو کر ندا کی یٰاَیّھُاالنَّاسُ میں تمہاری طرف رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا فِرِستادہ آیا ہوں، لوگوں نے کہا آپ کیا پیام لائے ہیں ؟ تو آپ نے تیس یا چالیس آیتیں اس سورت مبارکہ کی تلاوت فرمائیں پھر فرمایا میں چار حکم لایا ہوں۔ (۱) اس سال کے بعد کوئی مشرک کعبۂ معظّمہ کے پاس نہ آئے۔ (۲) کوئی شخص بَرَہنہ ہو کر کعبۂ معظّمہ کا طواف نہ کرے۔ (۳) جنّت میں مؤمن کے سوا کوئی داخل نہ ہو گا۔ (۴) جس کا رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عہد ہے وہ عہد اپنی مدت تک رہے گا اور جس کی مدت معیّن نہیں ہے اس کی میعاد چار ماہ پر تمام ہو جائے گی۔ مشرکین نے یہ سن کر کہا کہ اے علی اپنے چچا کے فرزند (یعنی سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ) کو خبر دے دیجئے کہ ہم نے عہد پس پشت پھینک دیا، ہمارے ان کے درمیان کوئی عہد نہیں ہے بَجُز نیزہ بازی اور تیغ زنی کے۔ اس واقعہ میں خلافتِ حضرتِ صدیقِ اکبر کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوبکر کو تو امیرِ حج بنایا اور حضرت علی مرتضیٰ کو ان کے پیچھے سورۂ براءت پڑھنے کے لئے بھیجا تو حضرت ابوبکر امام ہوئے اور حضرت علی مرتضیٰ مقتدی۔ اس سے حضرت ابوبکر کی تقدیم حضرت علی مرتضیٰ پر ثابت ہوئی۔
۳ اور باوجود اس مہلت کے ا سکی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔
۴ دنیا میں قتل کے ساتھ اور آخرت میں عذاب کے ساتھ۔
۵ حج کو حجِ اکبر فرمایا اس لئے کہ اس زمانہ میں عمرہ کو حجِ اصغر کہا جاتا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ اس حج کو حجِ اکبر اس لئے کہا گیا کہ اس سال رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے حج فرمایا تھا اور چونکہ یہ جمعہ کو واقع ہوا تھا اس لئے مسلمان اس حج کو جو روزِ جمعہ ہو حجِ وَداع کا مذَکِّر جان کر حجِ اکبر کہتے ہیں۔
۷ ایمان لانے اور توبہ کرنے سے۔
۸ یہ وعیدِ عظیم ہے اور اس میں یہ اِعلام ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ عذاب نازِل کرنے پر قادر ہے۔
۹ اور اس کو اس کی شرطوں کے ساتھ پورا کیا۔ یہ لوگ بنی ضمرہ تھے جو کنانہ کا ایک قبیلہ ہے اور ان کی مدت کے نو مہینے باقی رہے تھے۔
۱۱ حِلّ میں، خواہ حرم میں کسی وقت و مکان کی تخصیص نہیں۔
۱۲ شرک و کُفر سے اور ایمان قبول کریں۔
۱۳ اور قید سے رہا کر دو اور ان سے تعرُّض نہ کرو۔
۱۴ مہلت کے مہینے گزرنے کے بعد تاکہ آپ سے توحید کے مسائل اور قرآنِ پاک سنیں جس کی آپ دعوت دیتے ہیں۔
۱۵ اگر ایمان نہ لائے۔ مسئلہ : اس سے ثابت ہوا کہ مستأمَن کو ایذا نہ دی جائے اور مدت گزرنے کے بعد اس کو دار الاِسلام میں اِقامت کا حق نہیں۔
۱۶ اسلام اور اس کی حقیقت کو نہیں جانتے تو انہیں امن دینی عین حکمت ہے تاکہ کلام اللّٰہ سنیں اور سمجھیں۔
۱۷ کہ وہ عذر و عہد شکنی کیا کرتے ہیں۔
۱۸ اور ان سے کوئی عہد شکنی ظہور میں نہ آئی مثل بنی کنانہ و بنی ضمرہ کے۔
۱۹ عہد پورا کریں گے اور کیسے قول پر قائم رہیں گے۔
۲۰ ایمان اور وفائے عہد کے وعدے کر کے۔
۲۱ عہد شکن، کُفر میں سرکش، بے مُروّت، جھوٹ سے نہ شرمانے والے انہوں نے۔
۲۲ اور دنیا کے تھوڑے سے نفع کے پیچھے ایمان و قرآن چھوڑ بیٹھے اور جو عہد رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا تھا وہ ابوسفیان کے تھوڑے سے لالچ دینے سے تو ڑ دیا۔
۲۳ اور لوگوں کو دینِ الٰہی میں داخل ہونے سے مانع ہوئے۔
۲۴ جب موقع پائیں قتل کر ڈالیں تو مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ جب مشرکین پر دسترس ہو پائیں تو ان سے درگزر نہ کریں۔
۲۵ کُفر و عہد شکنی سے باز آئیں اور ایمان قبول کر کے۔
۲۶ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اہلِ قبلہ کے خون حرام ہیں۔
۲۷ اس سے ثابت ہوا کہ تفصیلِ آیات پر جس کو نظر ہو وہ عالِم ہے۔
۲۸ مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ جو کافِر ذِمّی دینِ اسلام پر ظاہر طعن کرے اس کا عہد باقی نہیں رہتا اور وہ ذمہ سے خارج ہو جاتا ہے اس کو قتل کرنا جائز ہے۔
۲۹ اس آیت سے ثابت ہوا کہ کُفّار کے ساتھ جنگ کرنے سے مسلمانوں کی غرض انہیں کُفر و بد اعمالی سے روک دینا ہے۔
۳۰ اور صلح حدیبیہ کا عہد توڑا اور مسلمانوں کے حلیف خزاعہ کے مقابل بنی بکر کی مدد کی۔
۳۱ مکّۂ مکرّمہ سے دارالندوہ میں مشورہ کر کے۔
۳۳ اور ان پر غلبہ عطا فرمائے گا۔
۳۴ یہ تمام مواعید پورے ہوئے اور نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خبریں صادق ہوئیں اور نبوّت کا ثبوت واضح تر ہو گیا۔
۳۵ اس میں اِشعار ہے کہ بعض اہلِ مکّہ کُفر سے باز آ کر تائب ہوں گے۔ یہ خبر بھی ایسی ہی واقع ہو گئی چنانچہ ابوسفیان اور عکرمہ بن ابوجہل اور سہیل بن عمرو ایمان سے مشرف ہوئے۔
۳۶ اخلاص کے ساتھ اللّٰہ کی راہ میں۔
۳۷ اس سے معلوم ہوا کہ مخلِص اور غیر مخلِص میں امتیاز کر دیا جائے گا اور مقصود اس سے مسلمانوں کو مشرکین کی موالات اور انکے پاس مسلمانوں کے راز پہنچانے سے ممانعت کرنا ہے۔
۳۸ مسجدوں سے مسجدِ حرام کعبۂ معظّمہ مراد ہے، اس کو جمع کے صیغے سے اس لئے ذکر فرمایا کہ وہ تمام مسجدوں کا قبلہ اور امام ہے اس کا آباد کرنے والا ایسا ہے جیسے تمام مسجدوں کا آباد کرنے والا اور جمع کا صیغہ لانے کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہر بقعہ مسجدِ حرام کا مسجد ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسجدوں سے جنس مراد ہو اور کعبۂ معظّمہ اس میں داخل ہو کیونکہ وہ اس جنس کا صدر ہے۔ شانِ نُزول : کُفّارِ قریش کے رؤسا کی ایک جماعت جو بدر میں گرفتار ہوئی اور ان میں حضور کے چچا حضرت عباس بھی تھے ان کو اصحاب کرام نے شرک پر عار دلائی اور حضرت علی مرتضیٰ نے تو خاص حضرت عباس کو سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے مقابل آنے پر بہت سخت سُست کہا، عباس کہنے لگے کہ تم ہماری برائیاں تو بیان کرتے ہو اور ہماری خوبیاں چھپاتے ہو، ان سے کہا گیا کیا آپ کی کچھ خوبیاں بھی ہیں، انہوں نے کہا ہاں ہم تم سے افضل ہیں ہم مسجدِ حرام کو آباد کرتے ہیں، کعبہ کی خدمت کرتے ہیں، حاجیوں کو سیراب کرتے ہیں، اسیروں کو رہا کراتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی کہ مسجدوں کا آباد کرنا کافِروں کو نہیں پہنچتا کیونکہ مسجد آباد کی جاتی ہے اللّٰہ کی عبادت کے لئے تو جو خدا ہی کا منکِر ہو اس کے ساتھ کُفر کرے وہ کیا مسجد آباد کرے گا اور آباد کرنے کے معنی میں بھی کئی قول ہیں۔ ایک تو یہ کہ آباد کرنے سے مسجد کا بنانا، بلند کرنا، مرمت کرنا مراد ہے، کافِر کو اس سے منع کیا جائے گا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مسجد آباد کرنے سے اس میں داخل ہونا، بیٹھنا مراد ہے۔
۳۹ اور بُت پرستی کا اقرار کر کے۔ یعنی یہ دونوں باتیں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں کہ آدمی کافِر بھی ہو اور خاص اسلامی اور توحید کے عبادت خانہ کو آباد بھی کرے۔
۴۰ کیونکہ حالتِ کُفر کے اعمال مقبول نہیں، نہ مہمانداری، نہ حاجیوں کی خدمت، نہ قیدیوں کا رہا کرانا۔ اس لئے کہ کافِر کا کوئی فعل اللّٰہ کے لئے تو ہوتا نہیں لہذا اس کا عمل سب اکارت ہے اور اگر وہ اسی کُفر پر مر جائے تو جہنّم میں ان کے لئے ہمیشگی کا عذاب ہے۔
۴۱ اس آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ مسجدوں کے آباد کرنے کے مستحق مؤمنین ہیں۔ مسجدوں کے آباد کرنے میں یہ امور بھی داخل ہیں جھاڑو دینا، صفائی کرنا، روشنی کرنا اور مسجدوں کو دنیا کی باتوں سے اور ایسی چیزوں سے محفوظ رکھنا جن کے لئے وہ نہیں بنائی گئیں۔ مسجدیں عبادت کرنے اور ذکر کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور علم کا درس بھی ذکر میں داخل ہے۔
۴۲ یعنی کسی کی رضا کو رضائے الٰہی پر کسی اندیشہ سے بھی مقدم نہیں کرتے۔ یہی معنی ہیں اللّٰہ سے ڈرنے اور غیر سے نہ ڈرنے کے۔
۴۳ مراد یہ ہے کہ کُفّار کو مؤمنین سے کچھ نسبت نہیں، نہ ان کے اعمال کو ان کے اعمال سے کیونکہ کافِر کے اعمال رائیگاں ہیں خواہ وہ حاجیوں کے لئے سبیل لگائیں یا مسجد حرام کی خدمت کریں۔ ان کے اعمال کو مومِن کے اعمال کے برابر قرار دینا ظلم ہے۔ شانِ نُزول : روزِ بدر جب حضرت عباس گرفتار ہو کر آئے تو انہوں نے اصحابِ رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ تم کو اسلام اور ہجرت و جہاد میں سبقت حاصل ہے تو ہم کو بھی مسجدِ حرام کی خدمت اور حاجیوں کے لئے سبیلیں لگانے کا شرف حاصل ہے۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور آگاہ کیا گیا کہ جو عمل ایمان کے ساتھ نہ ہوں وہ بیکار ہیں۔
۴۵ اور انہیں کو دنیا و آخرت کی سعادت ملی۔
۴۶ اور یہ اعلیٰ ترین بشارت ہے کیونکہ مالِک کی رحمت و رضا بندے کا سب سے بڑا مقصد اور پیاری مراد ہے۔
۴۷ جب مسلمانوں کو مشرکین سے ترکِ موالات کا حکم دیا گیا تو بعض لوگوں نے کہا یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی اپنے باپ بھائی وغیرہ قرابت داروں سے ترکِ تعلق کرے۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور بتایا گیا کہ کُفّار سے موالات جائز نہیں چاہے ان سے کوئی بھی رشتہ ہو چنانچہ آگے ارشاد فرمایا۔
۴۸ اور جلدی آنے والے عذاب میں مبتلا کرے یا دیر میں آنے والے میں۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ دین کے محفوظ رکھنے کے لئے دنیا کی مَشقت برداشت کرنا مسلمان پر لازم ہے اور اللّٰہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے مقابل دنیوی تعلقات کچھ قابلِ اِلتفات نہیں اور خدا اور رسول کی مَحبت ایمان کی دلیل ہے۔
۴۹ یعنی رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے غزوات میں مسلمانوں کو کافِروں پر غلبہ عطا فرمایا جیسا کہ واقعۂ بدر اور قُریظہ اور نُضَیر اور حُدیبیہ اور خیبر اور فتحِ مکّہ میں۔
۵۰ حُنین ایک وادی ہے طائف کے قریب، مکّۂ مکرّمہ سے چند میل کے فاصلہ پر۔ یہاں فتحِ مکّہ سے تھوڑے ہی روز بعد قبیلۂ ہوازن و ثقیف سے جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد بہت کثیر بارہ ہزار یا اس سے زائد تھی اور مشرکین چار ہزار تھے جب دونوں لشکر مقابل ہوئے تو مسلمانوں میں سے کسی شخص نے اپنی کثرت پر نظر کر کے یہ کہا کہ اب ہم ہرگز مغلوب نہ ہوں گے، یہ کلمہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو بہت گِراں گزرا کیونکہ حضور ہر حال میں اللّٰہ تعالیٰ پر توکُّل فرماتے تھے اور تعداد کی قلت و کثرت پر نظر نہ رکھتے تھے۔ جنگ شروع ہوئی اور قتالِ شدید ہوا مشرکین بھاگے اور مسلمان مالِ غنیمت لینے میں مصروف ہو گئے تو بھاگے ہوئے لشکر نے اس کو غنیمت سمجھا اور تیروں کی بارش شروع کر دی اور تیر اندازی میں بہت مہارت رکھتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس ہنگامے میں مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے، لشکر بھاگ پڑا اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سوائے حضور کے چچا حضرت عباس اور آپ کے ابنِ عم ابوسفیان بن حارث کے اور کوئی باقی نہ رہا۔ حضور نے اس وقت اپنی سواری کو کُفّار کی طرف آگے بڑھایا اور حضرت عباس کو حکم دیا کہ وہ بلند آواز سے اپنے اصحاب کو پکاریں، ان کے پکارنے سے وہ لوگ لبّیک لبّیک کہتے ہوئے پلٹ آئے اور کُفّار سے جنگ شروع ہو گئی جب لڑائی خوب گرم ہوئی حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دستِ مبارک میں سنگ ریزے لے کر کُفّار کے مونہوں پر مارے اور فرمایا ربِّ محمّد کی قسم بھاگ نکلے، سنگریزوں کا مارنا تھا کہ کُفّار بھاگ پڑے اور رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی غنیمتیں مسلمانوں کو تقسیم فرما دیں۔ ان آیتوں میں اس واقعہ کا بیان ہے۔
۵۲ کہ اطمینان کے ساتھ اپنی جگہ قائم رہے۔
۵۳ کہ حضرت عباس رضی اللّٰہ عنہ کے پکارنے سے نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں واپس آئے۔
۵۴ یعنی فرشتے جنہیں کُفّار نے ابلق گھوڑوں پر سفید لباس پہنے، عمامہ باندھے دیکھا، یہ فرشتے مسلمانوں کی شوکت بڑھانے کے لئے آئے تھے۔ اس جنگ میں انہوں نے قتال نہیں کیا، قتال صرف بدر میں کیا تھا۔
۵۵ کہ پکڑے گئے، مارے گئے، ان کے عیال و اموال مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔
۵۶ اور توفیقِ اسلام عطا فرمائے گا چنانچہ ہوازن کے باقی لوگوں کو توفیق دی اور وہ مسلمان ہو کر رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور نے ان کے اسیروں کو رہا فرما دیا۔
۵۷ کہ ان کا باطن خبیث ہے اور وہ نہ طہارت کرتے ہیں، نہ نجاستوں سے بچتے ہیں۔
۵۸ نہ حج کے لئے نہ عمرہ کے لئے اور اس سال سے مراد ۹ ہجری ہے اور مشرکین کے منع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان ان کو روکیں۔
۵۹ کہ مشرکین کو حج سے روک دینے سے تجارتوں کو نقصان پہنچے گا اور اہلِ مکّہ کو تنگی پیش آئے گی۔
۶۰ عِکرمہ نے کہا ایسا ہی ہوا، اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں غنی کر دیا، بارشیں خوب ہوئیں، پیداوار کثرت سے ہوئی۔ مقاتل نے کہا کہ خطّۂ ہائے یمن کے لوگ مسلمان ہوئے اور انہوں نے اہلِ مکّہ پر اپنی کثیر دولتیں خرچ کیں (اگر چاہے) فرمانے میں تعلیم ہے کہ بندے کو چاہئے کہ طلبِ خیر اور دفعِ آفات کے لئے ہمیشہ اللّٰہ کی طرف متوجہ رہے اور تمام امور کو اسی کی مشیّت سے متعلق جانے۔
۶۱ اللّٰہ پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس کی ذات اور جملہ صفات و تنزیہات کو مانے اور جو اس کی شان کے لائق نہ ہو اس کی طرف نسبت نہ کرے اور بعض مفسِّرین نے رسولوں پر ایمان لانا بھی اللّٰہ پر ایمان لانے میں داخل قرار دیا ہے تو یہود و نصاریٰ اگرچہ اللّٰہ پر ایمان لانے کے مدَّعی ہیں لیکن ان کا یہ دعویٰ باطل ہے کیونکہ یہود تجسیم و تشبیہ کے اور نصاریٰ حلول کے معتقِد ہیں تو وہ کس طرح اللّٰہ پر ایمان لانے والے ہو سکتے ہیں، ایسے ہی یہود میں سے جو حضرت عزیر کو اور نصاریٰ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی اللّٰہ پر ایمان لانے والا نہ ہوا، اسی طرح جو ایک رسول کی تکذیب کرے وہ اللّٰہ پر ایمان لانے والا نہیں۔ یہود و نصاریٰ بہت انبیاء کی تکذیب کرتے ہیں لہٰذا وہ اللّٰہ پر ایمان لانے والوں میں نہیں۔ شانِ نُزول : مجاہد کا قول ہے کہ یہ آیت اس وقت نازِل ہوئی جب کہ نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو روم سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا اور اسی کے نازِل ہونے کے بعد غزوۂ تبوک ہوا۔ کلبی کا قول ہے کہ یہ آیت یہود کے قبیلۂ قُریظہ اور نُضَیر کے حق میں نازِل ہوئی۔ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے صلح منظور فرمائی اور یہی پہلا جزیہ ہے جو اہلِ اسلام کو ملا اور پہلی ذلّت ہے جو کُفّار کو مسلمانوں کے ہاتھ سے پہنچی۔
۶۲ قرآن و حدیث میں اور بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ معنی یہ ہیں کہ توریت و انجیل کے مطابق عمل نہیں کرتے، ان کی تحریف کرتے ہیں اور احکام اپنے دل سے گڑھتے ہیں۔
۶۴ معاہد اہلِ کتاب سے جو خراج لیا جاتا ہے اس کا نام جزیہ ہے۔ مسائل : یہ جزیہ نقد لیا جاتا ہے اس میں ادھار نہیں۔
مسئلہ : جزیہ دینے والے کو خود حاضر ہو کر دینا چاہئے۔۔
مسئلہ : پیادہ پا لے کر حاضر ہو کر کھڑے ہو کر پیش کرے۔۔
مسئلہ : قبولِ جزیہ میں تُرک و ہندو وغیرہ اہلِ کتاب کے ساتھ ملحق ہیں سوا مشرکینِ عرب کے کہ ان سے جزیہ قبول نہیں۔۔
مسئلہ : اسلام لانے سے جزیہ ساقط ہو جاتا ہے۔ حکمت جزیہ مقرر کرنے کی یہ ہے کہ کُفّار کو مہلت دی جائے کہ تاکہ وہ اسلام کے محاسن اور دلائل کی قوت دیکھیں اور کتبِ قدیمہ میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خبر اور حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت و صفت دیکھ کر مشرف بہ اسلام ہونے کا موقع پائیں۔
۶۵ اہلِ کتاب کی بے دینی کا جو اوپر ذکر فرمایا گیا یہ اس کی تفصیل ہے کہ وہ اللّٰہ کی جناب میں ایسے فاسد اعتقاد رکھتے ہیں اور مخلوق کو اللّٰہ کا بیٹا بنا کر پوجتے ہیں۔۔
شانِ نُزول : رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں یہود کی ایک جماعت آئی، وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم آپ کا کس طرح اِتّباع کریں آپ نے ہمارا قبلہ چھوڑ دیا اور آپ حضرت عزیر کو خدا کا بیٹا نہیں سمجھتے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
۶۶ جن پر نہ کوئی دلیل نہ برہان اور پھر اپنی جہل سے اس باطلِ صریح کے معتقِد بھی ہیں۔
۶۷ اور اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت پر حُجّتیں قائم ہونے اور دلیلیں واضح ہونے کے باوجود اس کُفر میں مبتلا ہوتے ہیں۔
۶۸ حکمِ الٰہی کو چھوڑ کر ان کے حکم کے پابند ہوئے۔
۶۹ کہ انہیں بھی خدا بنایا اور ان کے نسبت یہ اعتقادِ باطل کیا کہ وہ خدا یا خدا کے بیٹے ہیں یا خدا نے ان میں حلول کیا ہے۔
۷۰ ان کی کتابوں میں نہ ان کے انبیاء کی طرف سے۔
۷۱ دینِ اسلام یا سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوّت کے دلائل۔
۷۳ محمّدِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم۔
۷۴ اور اس کی حُجّت قوی کرے اور دوسرے دینوں کو اس سے منسوخ کرے چنانچہ الحمد للہ ایسا ہی ہوا۔ ضحاک کا قول ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نُزول کے وقت ظاہر ہو گا جب کہ کوئی دین والا ایسا نہ ہو گا جو اسلام میں داخل نہ ہو جائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام کے سوا ہر ملت ہلاک ہو جائے گی۔
۷۵ اس طرح کہ دین کے احکام بدل کر لوگوں سے رشوتیں لیتے ہیں اور اپنی کتابوں میں طمعِ زر کے لئے تحریف و تبدیل کرتے ہیں اور کُتُبِ سابقہ کی جن آیات میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت و صفت مذکور ہے، مال حاصل کرنے کے لئے ان میں فاسد تاویلیں اور تحریفیں کرتے ہیں۔
۷۶ اسلام سے اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لانے سے۔
۷۷ بُخل کرتے ہیں اور مال کے حقوق ادا نہیں کرتے زکوٰۃ نہیں دیتے۔
شانِ نُزول : سدی کا قول ہے کہ یہ آیت مانعینِ زکوٰۃ کے حق میں نازِل ہوئی جب کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اَحبار اور رُہبان کی حرصِ مال کا ذکر فرمایا تو مسلمانوں کو مال جمع کرنے اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے سے حذر دلایا۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی گئی وہ کنز نہیں خواہ دفینہ ہی ہو اور جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی وہ کنز ہے جس کا ذکر قرآن میں ہوا کہ اس کے مالک کو اس سے داغ دیا جائے گا۔ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے اصحاب نے عرض کیا کہ سونے چاندی کا تو یہ حال معلوم ہوا پھر کون سا مال بہتر ہے جس کو جمع کیا جائے۔ فرمایا ذکر کرنے والی زبان اور شکر کرنے والا دل اور نیک بی بی جو ایماندار کی اس کے ایمان پر مدد کرے یعنی پرہیزگار ہو کہ اس کی صحبت سے طاعت و عبادت کا شوق بڑھے(رواہ الترمذی)۔
مسئلہ : مال کا جمع کرنا مباح ہے مذموم نہیں جب کہ اس کے حقوق ادا کئے جائیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت طلحہ وغیرہ اصحاب مالدار تھے اور جو اصحاب کہ جمعِ مال سے نفرت رکھتے تھے وہ ان پر اعتراض نہ کرتے تھے۔
۷۸ اور شدّتِ حرارت سے سفید ہو جائے گا۔
۷۹ جسم کے تمام اطراف و جوانب اور کہا جائے گا۔
۸۰ یہاں یہ بیان فرمایا گیا کہ احکامِ شرع کی بنا قمری مہینوں پر ہے جن کا حساب چاند سے ہے۔
۸۱ یہاں اللّٰہ کی کتاب سے یا لوحِ محفوظ مراد ہے یا قرآن یا وہ حکم جو اس نے اپنے بندوں پر لازم کیا۔
۸۲ تین متّصِل ذوالقعدہ و ذوالحِجّہ، محرّم اور ایک جدا رَجَب۔ عرب لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کی تعظیم کرتے تھے اور ان میں قتال حرام جانتے تھے۔ اسلام میں ان مہینوں کی حرمت و عظمت اور زیادہ کی گئی۔
۸۴ ان کی نصرت و مدد فرمائے گا۔
۸۵ نَسِی لغت میں وقت کے مؤخر کرنے کو کہتے ہیں اور یہاں شہرِ حرام کی حرمت کا دوسرے مہینے کی طرف ہٹا دینا مراد ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں عرب اَشہُرِ حُرُم (یعنی ذوالقعدہ و ذی الحِجّہ، محرّم، رَجَب) کی حرمت و عظمت کے معتقِد تھے تو جب کبھی لڑائی کے زمانے میں یہ حرمت والے مہینے آ جاتے تو ان کو بہت شاق گزرتے اس لئے انہوں نے یہ کیا کہ ایک مہینے کی حرمت دوسرے کی طرف ہٹانے لگے، محرّم کی حرمت صَفَر کی طرف ہٹا کر محرّم میں جنگ جاری رکھتے اور بجائے اس کے صَفَر کو ماہِ حرام بنا لیتے اور جب اس سے بھی تحریم ہٹانے کی حاجت سمجھتے تو اس میں بھی جنگ حلال کر لیتے اور ربیع الاوّل کو ماہِ حرام قرار دیتے۔ اس طرح تحریم سال کے تمام مہینوں میں گھومتی اور ان کے اس طرزِ عمل سے ماہ ہائے حرام کی تخصیص ہی باقی نہ رہی، اس طرح حج کو مختلف مہینوں میں گھوماتے پھرتے تھے۔ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے حِجّۃُ الوَداع میں اعلان فرمایا کہ نَسِی کے مہینے گئے گزرے ہوئے اب مہینوں کے اوقات کی وضعِ الٰہی کے مطابق حفاظت کی جائے اور کوئی مہینہ اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے اور اس آیت میں نَسِی کو ممنوع قرار دیا گیا اور کُفر پر کُفر کی زیادتی بتایا گیا کیونکہ اس میں ماہ ہائے حرام میں تحریمِ قتال کو حلال جاننا اور خدا کے حرام کئے ہوئے کو حلال کر لینا پایا جاتا ہے۔
۸۶ یعنی ماہِ حرام کو یا اس ہٹانے کو۔
۸۷ یعنی ماہِ حرام چار ہی رہیں اس کی تو پابندی کرتے ہیں اور ان کی تخصیص توڑ کر حکمِ الٰہی کی مخالفت، جو مہینہ حرام تھا اسے حلال کر لیا اس کی جگہ دوسرے کو حرام قرار دیا۔
۸۸ اور سفر سے گھبراتے ہو۔ شانِ نُزول : یہ آیت غزوۂ تبوک کی ترغیب میں نازِل ہوئی۔ تبوک ایک مقام ہے اطرافِ شام میں مدینۂ طیّبہ سے چودہ منزل فاصلہ پر۔ رجب ۹ ہجری میں طائف سے واپسی کے بعد سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر پہنچی کہ عرب کے نصرانیوں کی تحریک سے ہر قل شاہِ روم نے رومیوں اور شامیوں کی فوج گِراں جمع کی ہے اور وہ مسلمانوں پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے تو حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا۔ یہ زمانہ نہایت تنگی، قحط سالی اور شدتِ گرمی کا تھا یہاں تک کہ دو دو آدمی ایک ایک کھجور پر بسر کرتے تھے، سفر دور کا تھا، دشمن کثیر اور قوی تھے اس لئے بعض قبیلے بیٹھ رہے اور انہیں اس وقت جہاد میں جانا گِراں معلوم ہوا اور اس غزوہ میں بہت سے منافقین کا پردہ فاش اور حال ظاہر ہو گیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس غزوہ میں بڑی عالی ہمتی سے خرچ کیا دس ہزار مجاہدین کو سامان دیا اور دس ہزار دینار اس غزوہ پر خرچ کئے، نو سو اونٹ اور سو گھوڑے مع ساز و سامان کے اس کے علاوہ ہیں اور اصحاب نے بھی خوب خرچ کیا، ان میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق ہیں جنہوں نے اپنا کُل مال حاضر کر دیا جس کی مقدار چار ہزار درہم تھی اور حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اپنا نصف مال حاضر کیا اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم تیس ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے۔ حضرت علی مرتضیٰ کو مدینہ طیّبہ میں چھوڑا۔ عبداللّٰہ بن اُبَی اور اس کے ہمراہی منافقین ثنیۃ الوداع تک چل کر رہ گئے جب لشکر اسلام تبوک میں اترا تو انہوں نے دیکھا کہ چشمے میں پانی بہت تھوڑا ہے، رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے پانی سے اس میں کلی فرمائی جس کی برکت سے پانی جوش میں آیا اور چشمہ بھر گیا، لشکر اور اس کے تمام جانور اچھی طرح سیراب ہوئے۔ حضرت نے کافی عرصہ یہاں قیام فرمایا۔ ہرقل اپنے دل میں آ پ کو سچا نبی جانتا تھا اس لئے اسے خوف ہوا اور اس نے آپ سے مقابلہ نہ کیا۔ حضرت نے اطراف میں لشکر بھیجے چنانچہ حضرت خالد کو چار سو زائد سواروں کے ساتھ اکیدر حاکمِ دومۃ الجندل کے مقابل بھیجا اور فرمایا کہ تم اس کو نیل گائے کے شکار میں پکڑ لو چنانچہ ایسا ہی ہوا جب وہ نیل گائے کے شکار کے لئے اپنے قلعے سے اتر ا اور حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ اس کو گرفتار کر کے خدمت اقدس میں لائے۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے جزیہ مقرر فرما کر اس کو چھوڑ دیا۔ اسی طرح حاکمِ ایلہ پر اسلام پیش کیا اور جزیہ پر صلح فرمائی۔ واپسی کے وقت جب حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ کے قریب تشریف لائے تو جو لوگ جہاد میں ساتھ ہونے سے رہ گئے تھے وہ حاضر ہوئے حضور نے اصحاب سے فرمایا کہ ان میں سے کسی سے کلام نہ کریں اور اپنے پاس نہ بٹھائیں جب تک ہم اجازت نہ دیں تو مسلمانوں نے ان سے اعراض کیا یہاں تک کہ باپ اور بھائی کی طرف بھی التفات نہ کیا اسی باب میں یہ آیتیں نازِل ہوئیں۔
۸۹ کہ دنیا اور اس کی تمام متاع فانی ہے اور آخرت اور اس کی تمام نعمتیں باقی ہیں۔
۹۰ اے مسلمانو رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے حسبِ حکم اللّٰہ تعالیٰ۔
۹۱ جو تم سے بہتر اور فرمانبردار ہوں گے۔ مراد یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نصرت اور ان کے دین کو عزت دینے کا خود کفیل ہے تو اگر تم اطاعتِ فرمانِ رسول میں جلدی کرو گے تو یہ سعادت تمہیں نصیب ہو گی اور اگر تم نے سُستی کی تو اللّٰہ تعالیٰ دوسروں کو اپنے نبی کے شرفِ خدمت سے سرفراز فرمائے گا۔
۹۲ یعنی وقتِ ہجرت مکّۂ مکرّمہ سے جب کہ کُفّار نے دارالندوہ میں حضور کے لئے قتل و قید وغیرہ کے بُرے بُرے مشورے کئے تھے۔
۹۳ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ۔
۹۴ یعنی سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ سے۔ مسئلہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی صحابیت اس آیت سے ثابت ہے۔ حسن بن فضل نے فرمایا جو شخص حضرت صدیق اکبر کی صحابیت کا انکار کرے وہ نصِ قرآنی کا منکِر ہو کر کافِر ہوا۔
۹۵ اور قلب کو اطمینان عطا فرمایا۔
۹۶ ان سے مراد ملائکہ کی فوجیں ہیں جنہوں نے کُفّار کے رُخ پھیر دیئے اور وہ آپ کو دیکھ نہ سکے اور بدر و اَحزاب و حُنین میں بھی انہیں غیبی فوجوں سے مدد فرمائی۔
۹۷ دعوتِ کُفر و شرک کو پست فرمایا۔
۹۸ یعنی خوشی سے یا گرانی سے۔ ایک قول یہ ہے کہ قوت کے ساتھ یا ضعف کے ساتھ اور بے سامانی سے یا سرو سامان سے۔
۹۹ کہ جہاد کا ثواب بیٹھ رہنے سے بہتر ہے تو مستعدی کے ساتھ تیار ہو اور کاہلی نہ کرو۔
۱۰۰ اور دنیوی نفع کی امید ہوتی اور شدید محنت و مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا۔
۱۰۱ شانِ نُزول : یہ آیت ان منافقین کی شان میں نازِل ہوئی جنہوں نے غزوۂ تبوک میں جانے سے تخلُّف کیا تھا۔
۱۰۲ یہ منافقین اور اس طرح معذرت کریں گے۔
۱۰۳ منافقین کی اس معذرت سے پہلے خبر دے دینا غیبی خبر اور دلائلِ نبوّت میں سے ہے چنانچہ جیسا فرمایا تھا ویسا ہی پیش آیا اور انہوں نے یہی معذرت کی اور جھوٹی قسمیں کھائیں۔
۱۰۴ جھوٹی قسم کھا کر۔ مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ جھوٹی قسمیں کھانا سبب ہلاکت ہے۔
۱۰۵ عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ سے ابتدائے کلام و افتتاحِ خِطاب مخاطَب کی تعظیم و توقیر میں مبالَغہ کے لئے ہے اور زبانِ عرب میں یہ عُرفِ شائع ہے کہ مخاطَب کی تعظیم کے موقع پر ایسے کلمے استعمال کئے جاتے ہیں۔ قاضی عیاض رضی اللّٰہ عنہ نے شفا میں فرمایا جس کسی نے اس سوال کو عتاب قرار دیا اس نے غلطی کی کیونکہ غزوۂ تبوک میں حاضر نہ ہونے اور گھر رہ جانے کی اجازت مانگنے والوں کو اجازت دینا نہ دینا دونوں حضرت کے اختیار میں تھے اور آپ اس میں مختار تھے چنانچہ اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا فَاْذَنْ لِمَنْ شِئتَ مِنھُمْ آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دیجئے تو لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ فرمانا عتاب کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ اظہار ہے کہ اگر آپ انہیں اجازت نہ دیتے تو بھی وہ جہاد میں جانے والے نہ تھے اور عَفَا اللّٰہ ُ عَنْکَ کے معنی یہ ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے، گناہ سے تو تمہیں واسطہ ہی نہیں۔ اس میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی کمال تکریم و توقیر اور تسکین و تسلی ہے کہ قلبِ مبارک پر لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ فرمانے سے کوئی بار نہ ہو۔
۱۰۷ نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے، نہ کُفّار کے ساتھ رہ سکے نہ مؤمنین کا ساتھ دے سکے۔
۱۱۰ بیٹھ رہنے والوں سے عورتیں، بچے، بیمار اور اپاہج لوگ مراد ہیں۔
۱۱۱ اور جھوٹی جھوٹی باتیں بنا کر فساد انگیزیاں کرتے۔
۱۱۲ جو تمہاری باتیں ان تک پہنچائیں۔
۱۱۳ اور وہ آپ کے اصحاب کو دین سے روکنے کی کوشش کرتے جیسا کہ عبداللّٰہ بن اُبَی بن سلول منافق نے روزِ اُحد کیا کہ مسلمانوں کو اغواء کرنے کے لئے اپنی جماعت لے کر واپس ہوا۔
۱۱۴ اور انہوں نے تمہارا کام بگاڑنے اور دین میں فساد ڈالنے کے لئے بہت مَکر و حیلے کئے۔
۱۱۵ یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے تائید و نصرت۔
۱۱۷ شانِ نُزول : یہ آیت جد بن قیس منافق کے حق میں نازِل ہوئی جب نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوۂ تبوک کے لئے تیاری فرمائی تو جد بن قیس نے کہا یا رسولَ اللّٰہ میری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کا بڑا شیدائی ہوں مجھے اندیشہ ہے کہ میں رومی عورتوں کو دیکھوں گا تو مجھ سے صبر نہ ہو سکے گا اس لئے آپ مجھے یہیں ٹھہر جانے کی اجازت دیجئے اور ان عورتوں کے فتنہ میں نہ ڈالئے، میں آپ کی اپنے مال سے مدد کروں گا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ اس کا حیلہ تھا اور اس میں سوائے نِفاق کے اور کوئی علّت نہ تھی، رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف سے مُنہ پھیر لیا اور اسے اجازت دے دی۔ اس کے حق میں یہ آیت نازِل ہوئی۔
۱۱۸ کیونکہ جہاد سے رک رہنا اور رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کی مخالفت کرنا بہت بڑا فتنہ ہے۔
۱۱۹ اور تم دشمن پر فتح یاب ہو اور غنیمت تمہارے ہاتھ آئے۔
۱۲۰ اور کسی طرح کی شدّت پیش آئے۔
۱۲۱ منافقین کہ چالاکی سے جہاد میں نہ جا کر۔
۱۲۲ یا تو فتح و غنیمت ملے گی یا شہادت و مغفرت کیونکہ مسلمان جب جہاد میں جاتا ہے تو وہ اگر غالب ہو جب تو فتح و غنیمت اور اجرِ عظیم پاتا ہے اور اگر راہِ خدا میں مارا جائے تو اس کو شہادت حاصل ہوتی ہے جو اس کی اعلیٰ مراد ہے۔
۱۲۳ اور تمہیں عاد و ثمود وغیرہ کی طرح ہلاک کرے۔
۱۲۴ تم کو قتل و اسیری کے عذاب میں گرفتار کرے۔
۱۲۵ کہ تمہارا کیا انجام ہوتا ہے۔
۱۲۶ شانِ نُزول : یہ آیت جد بن قیس منافق کے جواب میں نازِل ہوئی جس نے جہاد میں نہ جانے کی اجازت طلب کرنے کے ساتھ یہ کہا تھا کہ میں اپنے مال سے مدد کروں گا۔ اس پر حضرت حق تبارَک تعالیٰ نے اپنے حبیب سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا کہ تم خوشی سے دو یا ناخوشی سے تمہارا مال قبول نہ کیا جائے گا یعنی رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اس کو نہ لیں گے کیونکہ یہ دینا اللّٰہ کے لئے نہیں ہے۔
۱۲۷ کیونکہ انہیں رضائے الٰہی مقصود نہیں۔
۱۲۸ تو وہ مال ان کے حق میں سببِ راحت نہ ہوا بلکہ وبال ہوا۔
۱۳۰ یعنی تمہارے دین و ملّت پر ہیں، مسلمان ہیں۔
۱۳۱ تمہیں دھوکا دیتے اور جھوٹ بولتے ہیں۔
۱۳۲ کہ اگر ان کا نِفاق ظاہر ہو جائے تو مسلمان ان کے ساتھ وہی معاملہ کریں گے جو مشرکین کے ساتھ کرتے ہیں اس لئے وہ براہِ تَقیّہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔
۱۳۳ کیونکہ انہیں رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں سے انتہا درجے کا بُغض ہے۔
۱۳۴ شانِ نُزول : یہ آیت ذُوالخُوَیْصَرَہْ تمیمی کے حق میں نازِل ہوئی، اس شخص کا نام حُرْقُوْص بن زُہَیْر ہے اور یہی خوارِج کی اصل و بنیاد ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو ذُوالخُوَیْصَرَہ نے کہا یا رسولَ اللّٰہ عدل کیجئے ! حضور نے فرمایا تجھے خرابی ہو میں نہ عدل کروں گا تو عدل کون کریگا۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے عرض کیا مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن مار دوں، حضور نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اس کے اور بھی ہمراہی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے سامنے اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے سامنے اپنے روزوں کو حقیر دیکھو گے، وہ قرآن پڑھیں گے اور ان کے گلوں سے نہ اترے گا، وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے۔
۱۳۶ کہ ہم پر اپنا فضل وسیع کرے اور ہمیں خَلق کے اموال سے غنی اور بے نیاز کر دے۔
۱۳۷ جب منافقین نے تقسیمِ صدقات میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم پر طعن کیا تو اللّٰہ عزوجل نے اس آیت میں بیان فرما دیا کہ صدقات کے مستحق صرف یہی آٹھ قسم کے لوگ ہیں۔ انہیں پر صدقات صَرف کئے جائیں گے، ان کے سوا اور کوئی مستحق نہیں اور رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو اموالِ صدقہ سے کوئی واسطہ ہی نہیں، آپ پر اور آپ کی اولاد پر صدقات حرام ہیں تو طعن کرنے والوں کو اعتراض کا کیا موقع۔ صدقہ سے اس آیت میں زکوٰۃ مراد ہے۔ مسئلہ : زکوٰۃ کے مستحق آٹھ قسم کے لوگ قرار دیئے گئے ہیں۔ ان میں سے مولَّفۃُ القلوب باِجماعِ صحابہ ساقط ہو گئے کیونکہ جب اللّٰہ تبارَک و تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ دیا تو اب اس کی حاجت نہ رہی۔ یہ اجماع زمانۂ صدیق میں منعقد ہوا۔ مسئلہ : فقیر وہ ہے جس کے پاس ادنیٰ چیز ہو اور جب تک اس کے پاس ایک وقت کے لئے کچھ ہو اس کو سوال حلال نہیں۔ مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ سوال کر سکتا ہے۔ عاملین وہ لوگ ہیں جن کو امام نے صدقے تحصیل کرنے پر مقرر کیا ہو، انہیں امام اتنا دے جو ان کے اور ان کے متعلقین کے لئے کافی ہو۔ مسئلہ : اگر عامل غنی ہو تو بھی اس کو لینا جائز ہے۔ مسئلہ : عامل سید یا ہاشمی ہو تو وہ زکوٰۃ میں سے نہ لے۔ گردنیں چھوڑا نے سے مراد یہ ہے کہ جن غلاموں کو ان کے مالکوں نے مکاتَب کر دیا ہو اور ایک مقدار مال کی مقرر کر دی ہو کہ اس قدر وہ ادا کر دیں تو آزاد ہیں، وہ بھی مستحق ہیں، ان کو آزاد کرانے کے لئے مالِ زکوٰۃ دیا جائے۔ قرضدار جو بغیر کسی گناہ کے مبتلائے قرض ہوئے ہوں اور اتنا مال نہ رکھتے ہوں جس سے قرض ادا کریں انہیں ادائے قرض میں مالِ زکوٰۃ سے مدد دی جائے۔ اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بے سامان مجاہدین اور نادار حاجیوں پر صَرف کرنا مراد ہے۔ ابنِ سبیل سے وہ مسافر مراد ہیں جس کے پاس مال نہ ہو۔ مسئلہ : زکوٰۃ دینے والے کو یہ بھی جائز ہے کہ وہ ان تمام اقسام کے لوگوں کو زکوٰۃ دے اور یہ بھی جائز ہے کہ ان میں سے کسی ایک ہی قسم کو دے۔ مسئلہ : زکوٰۃ انہیں لوگوں کے ساتھ خاص کی گئی تو ان کے علاوہ اور دوسرے مصرف میں خرچ نہ کی جائے گی، نہ مسجد کی تعمیر میں، نہ مردے کے کفن میں، نہ اس کے قرض کی ا دا میں۔ مسئلہ : زکوٰۃ بنی ہاشم اور غنی اور ان کے غلاموں کو نہ دی جائے اور نہ آدمی اپنی بی بی اور اولاد اور غلاموں کو دے۔ (تفسیر احمدی و مدارک)۔
۱۳۸ یعنی سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو۔ شانِ نُزول : منافقین اپنے جلسوں میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں ناشائستہ باتیں بکا کرتے تھے۔ ان میں سے بعضوں نے کہا کہ اگر حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر ہو گئی تو ہمارے حق میں اچھا نہ ہو گا۔ جلاس بن سوید منافق نے کہا ہم جو چاہیں کہیں حضور کے سامنے مُکَر جائیں گے اور قسم کھا لیں گے وہ تو کان ہیں ان سے جو کہہ دیا جائے سن کر مان لیتے ہیں۔ اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازِل فرمائی اور یہ فرمایا کہ اگر وہ سننے والے بھی ہیں تو خیر اور صلاح کے سننے اور ماننے والے ہیں شر اور فساد کے نہیں۔
۱۴۱ شانِ نُزول : منافقین اپنی مجلسوں میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم پر طعن کیا کرتے تھے اور مسلمانوں کے پاس آ کر اس سے مُکر جاتے تھے اور قسمیں کھا کھا کر اپنی بریّت ثابت کرتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ مسلمانوں کو راضی کرنے کے لئے قسمیں کھانے سے زیادہ اہم اللّٰہ اور اس کے رسول کو راضی کرنا تھا اگر ایمان رکھتے تھے تو ایسی حرکتیں کیوں کیں جو خدا اور رسول کی ناراضی کا سبب ہوں۔
(۶۳) کیا انہیں خبر نہیں کہ جو خلاف کرے اللہ اور اس کے رسول کا تو اس کے لیے جہنم کی آ گ ہے کہ ہمیشہ اس میں رہے گا، یہی بڑی رسوائی ہے۔
۱۴۴ دلوں کی چھپی چیز ان کا نفاق ہے اور وہ بُغض و عداوت جو وہ مسلمانوں کے ساتھ رکھتے تھے اور اس کو چھپایا کرتے تھے۔ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے معجزات دیکھنے اور آپ کی غیبی خبریں سننے اور ان کو واقع کے مطابق پانے کے بعد منافقوں کو اندیشہ ہو گیا کہ کہیں اللّٰہ تعالیٰ کوئی ایسی سور ت نازِل نہ فرمائے جس سے ان کے اسرار ظاہر کر دیئے جائیں اور ان کی رسوائی ہو۔ اس آیت میں اسی کا بیان ہے۔
۱۴۵ شانِ نُزول : غزوۂ تبوک میں جاتے ہوئے منافقین کے تین نفروں میں سے دو رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نسبت تمسخُراً کہتے تھے کہ ان کا خیال ہے کہ یہ روم پر غالب آ جائیں گے، کتنا بعید خیال ہے اور ایک نفر بولتا تو نہ تھا مگر ان باتوں کو سن کر ہنستا تھا۔ حضور نے ان کو طلب فرما کر ارشاد فرمایا کہ تم ایسا ایسا کہہ رہے تھے انہوں نے کہا ہم راستہ کاٹنے کے لئے ہنسی کھیل کے طور پر دل لگی کی باتیں کر رہے تھے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور ان کا یہ عذر و حیلہ قبول نہ کیا گیا اور ان کے لئے یہ فرمایا گیا جو آگے ارشاد ہوتا ہے۔
۱۴۶ مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں گستاخی کُفر ہے جس طرح بھی ہو اس میں عذر قبول نہیں۔
۱۴۷ اس کے تائب ہونے اور بہ اخلاص ایمان لانے سے۔ محمد بن اسحٰق کا قول ہے کہ اس سے وہی شخص مراد ہے جو ہنستا تھا مگر اس نے اپنی زبان سے کوئی کلمۂ گستاخی نہ کہا تھا۔ جب یہ آیت نازِل ہوئی تو وہ تائب ہوا اور اخلاص کے ساتھ ایمان لایا اور اس نے دعا کی کہ یاربّ مجھے اپنی راہ میں مقتول کر کے ایسی موت دے کہ کوئی یہ کہنے والا نہ ہو کہ میں نے غسل دیا، میں نے کفن دیا، میں نے دفن کیا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے اور ان کا پتہ ہی نہ چلا ان کا نام یحییٰ بن حمیر اشجعی تھا اور چونکہ انہوں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی بد گوئی سے زبان روکی تھی اس لئے انہیں توبہ و ایمان کی توفیق ملی۔
۱۴۸ اور اپنے جرم پر قائم رہے اور تائب نہ ہوئے۔
۱۴۹ وہ سب نفاق اور اعمالِ خبیثہ میں یکساں ہیں ان کا حال یہ ہے کہ۔
۱۵۰ یعنی کُفر و معصیت اور رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی تکذیب کا۔ (خازن)۔
۱۵۱ یعنی ایمان و طاعت و تصدیقِ رسول سے۔
۱۵۳ اور انہوں نے اس کی اطاعت و رضا طلبی نہ کی۔
۱۵۴ اور ثواب و فضل سے محروم کر دیا۔
۱۵۶ اور تم نے اِتّباعِ باطل اور تکذیبِ خدا و رسول اور مؤمنین کے ساتھ استہزاء کرنے میں ان کی راہ اختیار کی۔
۱۵۷ انہیں کُفّار کی طرح اے منافقین تم ٹوٹے میں ہو اور تمہارے عملِ باطل ہیں۔
۱۵۹ گزری ہوئی اُمّتوں کا حال معلوم نہ ہوا کہ ہم نے انہیں اپنے حکم کی مخالفت اور اپنے رسولوں کی نافرمانی کرنے پر کس طرح ہلاک کیا۔
۱۶۳ جو سلبِ نعمت سے ہلاک کی گئی اور نمرود مچھر سے ہلاک کیا گیا۔
۱۶۴ یعنی حضرت شُعیب علیہ السلام کی قوم جو روزِ ابر کے عذاب سے ہلاک کی گئی۔
۱۶۵ اور زیر و زبر کر ڈالی گئیں۔ وہ قومِ لوط کی بستیاں تھیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان چھ کا ذکر فرمایا اس لئے کہ بلادِ شام و عراق و یمن جو سر زمینِ عرب کے بالکل قریب ہیں ان میں ان ہلاک شدہ قوموں کے نشان باقی ہیں اور عرب لوگ ان مقامات پر اکثر گزرتے رہتے ہیں۔
۱۶۶ ان لوگوں نے بجائے تصدیق کرنے کے اپنے رسولوں کی تکذیب کی جیسا کہ اے منافقین کُفّار تم کر رہے ہو، ڈرو کہ انہیں کی طرح مبتلائے عذاب نہ کئے جاؤ۔
۱۶۷ کیونکہ وہ حکیم ہے بغیر جرم کے سزا نہیں فرماتا۔
۱۶۸ کہ کُفر اور تکذیبِ انبیاء کر کے عذاب کے مستحق بنے۔
۱۶۹ اور باہم دینی مَحبت و موالات رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے معین و مددگار ہیں۔
۱۷۰ یعنی اللّٰہ اور رسول پر ایمان لانے اور شریعت کا اِتّباع کرنے کا۔
۱۷۱ حسن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جنّت میں موتی اور یاقوتِ سرخ اور زَبَرجَد کے محل مؤمنین کو عطا ہوں گے۔
۱۷۲ اور تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور عاشقانِ الٰہی کی سب سے بڑی تمنا رَزَقَنَا اللّٰہُ تعالیٰ بِجَاہٖ حَبِیْبِہٖ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و سلم ۔
۱۷۳ کافِروں پر تو تلوار اور حرب سے اور منافقوں پر اقامتِ حُجّت سے۔
۱۷۴ شانِ نُزول : امام بغوی نے کلبی سے نقل کیا کہ یہ آیت جلاس بن سوید کے حق میں نازِل ہوئی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک روز سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے تبوک میں خُطبہ فرمایا اس میں منافقین کا ذکر کیا اور ان کی بدحالی و بد مآ ۤلی کا ذکر فرمایا یہ سن کر جلاس نے کہا کہ اگر محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم) سچے ہیں تو ہم لوگ گدہوں سے بد تر جب حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ واپس تشریف لائے تو عامر بن قیس نے حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے جلاس کا مقولہ بیان کیا، جلاس نے انکار کیا اور کہا کہ یا رسولَ اللّٰہ عامر نے مجھ پر جھوٹ بولا۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں کو حکم فرمایا کہ منبر کے پاس قسم کھائیں، جلاس نے بعد عصر منبر کے پاس کھڑے ہو کر اللّٰہ کی قسم کھائی کہ یہ بات اس نے نہیں کہی اور عامر نے اس پر جھوٹ بولا پھر عامر نے کھڑے ہو کر قسم کھائی کہ بے شک یہ مقولہ جلاس نے کہا اور میں نے اس پر جھوٹ نہیں بولا پھر عامر نے ہاتھ اٹھا کر اللّٰہ کے حضور میں دعا کی یاربّ اپنے نبی پر سچے کی تصدیق نازِل فرما۔ ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ہی حضرت جبریل یہ آیت لے کر نازِل ہوئے آیت میں فَاِنْ یَّتُوْبُوْا بِکُ خَیْراً لَّھُمْ سن کر جلاس کھڑے ہو گئے اور عرض کیا یا رسولَ اللّٰہ سنئے اللّٰہ نے مجھے توبہ کا موقع دیا، عامر بن قیس نے جو کچھ کہا سچ کہا، میں نے وہ کلمہ کہا تھا اور اب میں توبہ و استغفار کرتا ہوں حضور نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور وہ توبہ پر ثابت رہے۔
۱۷۵ مجاہد نے کہا کہ جلاس نے افشائے راز کے اندیشہ سے عامر کے قتل کا ارادہ کیا تھا اس کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ پورا نہ ہوا۔
۱۷۶ ایسی حالت میں ان پر شکر واجب تھا نہ کہ نا سپاسی۔
۱۷۷ توبہ و ایمان سے اور کُفر و نفاق پر مُصِر رہیں۔
۱۷۸ کہ انہیں عذابِ الٰہی سے بچا سکے۔
۱۷۹ شانِ نُزول : ثعلبہ بن حاطب نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی اس کے لئے مالدار ہونے کی دعا فرمائیں، حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ثعلبہ تھوڑا مال جس کا تو شکر ادا کرے اس بہت سے بہتر ہے جس کا شکر ادا نہ کر سکے، دوبارہ پھر ثعلبہ نے حاضر ہو کر یہی درخواست کی اور کہا اسی کی قسم جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر بھیجا کہ اگر وہ مجھے مال دے گا تو میں ہر حق والے کا حق ادا کروں گا۔ حضور نے دعا فرمائی اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی بکریوں میں برکت فرمائی اور اتنی بڑھیں کہ مدینہ میں ان کی گنجائش نہ ہوئی تو ثعلبہ ان کو لے کر جنگل میں چلا گیا اور جمعہ و جماعت کی حاضری سے بھی محروم ہو گیا۔ حضور نے اس کا حال دریافت فرمایا تو صحابہ نے عرض کیا کہ اس کا مال بہت کثیر ہو گیا ہے اور اب جنگل میں بھی اس کے مال کی گنجائش نہ رہی۔ حضور نے فرمایا کہ ثعلبہ پر افسوس پھر جب حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے زکوٰۃ کے تحصیل کرنے والے بھیجے، لوگوں نے انہیں اپنے اپنے صدقات دیے جب ثعلبہ سے جا کر انہوں نے صدقہ مانگا اس نے کہا یہ تو ٹیکس ہو گیا، جاؤ میں سوچ لوں جب یہ لوگ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں واپس آئے تو حضور نے ان کے کچھ عرض کرنے سے قبل دو مرتبہ فرمایا ثعلبہ پر افسوس تو یہ آیت نازِل ہوئی پھر ثعلبہ صدَقہ لے کر حاضر ہوا تو سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے اس کے قبول فرمانے کی ممانعت فرما دی۔ وہ اپنے سر پر خاک ڈال کر واپس ہوا پھر اس صدَقہ کو خلافتِ صدیقی میں حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کے پاس لایا انہوں نے بھی اسے قبول نہ فرمایا پھر خلافتِ فاروقی میں حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے پاس لایا انہوں نے بھی قبول نہ فرمایا اور خلافتِ عثمانی میں یہ شخص ہلاک ہو گیا۔ (مدارک)۔
۱۸۰ امام فخر الدّین رازی نے فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد شکنی اور وعدہ خلافی سے نِفاق پیدا ہوتا ہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ ان باتوں سے احتراز کرے اور عہد پورا کرنے اور وعدہ وفا کرنے میں پوری کوشش کرے۔ حدیث شریف میں ہے منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے خلاف کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔
۱۸۱ اس پر کچھ مخفی نہیں منافقین کے دلوں کی بات بھی جانتا ہے اور جو آپس میں وہ ایک دوسرے سے کہیں وہ بھی۔
۱۸۲ شانِ نُزول : جب آیت صدقہ نازِل ہوئی تو لوگ صدقہ لائے ان میں کوئی بہت کثیر لائے انہیں تو منافقین نے ریا کار کہا اور کوئی ایک صاع ( ۲/ ۱۔ ۳ سیر ) لائے تو انہیں کہا اللّٰہ کو اس کی کیا پرواہ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو صدقہ کی رغبت دلائی تو حضرت عبدالرحمن بن عوف چار ہزار درہم لائے اور عرض کیا یا رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم میرا کل مال آٹھ ہزار درہم تھا چار ہزار تو یہ راہِ خدا میں حاضر ہے اور چار ہزار میں نے گھر والوں کے لئے روک لئے ہیں حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو تم نے دیا اللّٰہ اس میں برکت فرمائے اور جو روک لیا اس میں بھی برکت فرمائے، حضور کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ ان کا مال بہت بڑھا یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوئی تو انہوں نے دو بیبیاں چھوڑیں انہیں آٹھواں حصہ ملا جس کی مقدار ایک لاکھ ساٹھ ہزار درہم تھی۔
۱۸۳ ابو عقیل انصاری ایک صاع کھجوریں لے کر حاضر ہوئے اور انہوں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا کہ میں نے آج رات پانی کھینچنے کی مزدوری کی، اس کی اجرت دو صاع کھجوریں ملیں، ایک صاع تو میں گھر والوں کے لئے چھوڑ آیا اور ایک صاع راہِ خدا میں حاضر ہے۔ حضور نے یہ صدَقہ قبول فرمایا اور اس کی قدر کی۔
۱۸۴ منافقین اور صدَقہ کی قلّت پر عار دلاتے ہیں۔
۱۸۵ شانِ نُزول : اوپر کی آیتیں جب نازِل ہوئیں اور منافقین کا نِفاق کھل گیا اور مسلمانوں پر ظاہر ہو گیا تو منافقین سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے معذرت کر کے کہنے لگے کہ آپ ہمارے لئے استِغفار کیجئے۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ ہر گز ان کی مغفرت نہ فرمائے گا چاہے آپ استِغفار میں مبالغہ کریں۔
۱۸۶ جو ایمان سے خارج ہوں جب تک کہ وہ کُفر پر رہیں۔ (مدارک)۔
۱۸۸ تو تھوڑی دیر کی گرمی برداشت کرتے اور ہمیشہ کی آگ میں جلنے سے اپنے آپ کو بچاتے۔
۱۸۹ یعنی دنیا میں خوش ہونا اور ہنسنا چاہے کتنی ہی دراز مدّت کے لئے ہو مگر وہ آخرت کے رونے کے مقابل تھوڑا ہے کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت دائم اور باقی ہے۔
۱۹۰ یعنی آخرت کا رونا دنیا میں ہنسنے اور خبیث عمل کرنے کا بدلہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تم جانتے وہ جو میں جانتا ہوں تو تھوڑا ہنستے اور بہت روتے۔
۱۹۳ اگر وہ منافق جو تبوک میں جانے سے بیٹھ رہا تھا۔
۱۹۴ عورتوں, بچوں, بیماروں اور اپاہجوں کے۔ مسئلہ : اس سے ثابت ہوا کہ جس شخص سے مَکر و خداع ظاہر ہو، اس سے انقطاع اور علیٰحدگی کرنا چاہیئے اور مَحض اسلام کے مدَّعی ہونے سے مصاحبت و موافقت جائز نہیں ہوتی اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ منافقین کے جہاد میں جانے کو منع فرما دیا۔ آج کل جو لوگ کہتے ہیں کہ ہر کلمہ گو کو ملا لو اور اس کے ساتھ اتفاق و اتحاد کرو۔ یہ اس حکم قرآنی کے بالکل خلاف ہے۔
۱۹۵ اس آیت میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو منافقین کے جنازے کی نماز اور ان کے دفن میں شرکت کرنے سے منع فرمایا گیا۔ مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ کافِر کے جنازے کی نماز کسی حال میں جائز نہیں اور کافِر کی قبر پر دفن و زیارت کے لئے کھڑے ہونا بھی ممنوع ہے اور یہ جو فرمایا (اور فِسق ہی میں مر گئے) یہاں فِسق سے کُفر مراد ہے۔ قرآنِ کریم میں اور جگہ بھی فِسق بمعنی کُفر وارِد ہوا ہے جیسے کہ آیت اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً میں۔ مسئلہ : فاسق کے جنازے کی نماز جائز ہے اس پر صحابہ اور تابعین کا اجماع ہے اور اس پر عُلَمائے صالحین کا عمل اور یہی اہلِ سنّت و جماعت کا مذہب ہے۔ مسئلہ : اس آیت سے مسلمانوں کے جنازے کی نماز کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے اور اس کا فرضِ کفایہ ہونا حدیثِ مشہور سے ثابت ہے۔ مسئلہ : جس شخص کے مؤمن یا کافِر ہونے میں شبہ ہو اس کے جنازے کی نماز نہ پڑھی جائے۔ مسئلہ : جب کوئی کافِر مر جائے اور اس کا ولی مسلمان ہو تو اس کو چاہیئے کہ بطریقِ مسنون غسل نہ دے بلکہ نجاست کی طرح اس پر پانی بہا دے اور نہ کفنِ مسنون دے بلکہ اتنے کپڑے میں لپیٹ دے جس سے سِتر چھپ جائے اور نہ سنّت طریقہ پر دفن کرے اور نہ بطریقِ سنّت قبر بنائے صرف گڑھا کھود کر دبا دے۔
شانِ نُزول : عبداللّٰہ بن اُبَی بن سلول منافقوں کا سردار تھا جب وہ مرگیا تو اس کے بیٹے عبداللّٰہ نے جو مسلمان، صالح، مخلِص صحابی اور کثیر العبادت تھے۔ انہوں نے یہ خواہش کی کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ان کے باپ عبداللّٰہ بن اُبَی بن سلول کو کفن کے لئے اپنا قمیص مبارک عنایت فرما دیں اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دیں۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی رائے اس کے خلاف تھی لیکن چونکہ اس وقت تک ممانعت نہیں ہوئی تھی اور حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو معلوم تھا کہ حضور کا یہ عمل ایک ہزار آدمیوں کے ایمان لانے کا باعث ہو گا اس لئے حضور نے اپنی قمیص بھی عنایت فرمائی اور جنازہ کی شرکت بھی کی۔ قمیص دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا حضرت عباس جو بدر میں اسیر ہو کر آئے تھے تو عبداللّٰہ بن اُبَی نے اپنا کُرتا انہیں پہنایا تھا۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کا بدلہ کر دینا بھی منظور تھا۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور اس کے بعد پھر کبھی سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی منافق کے جنازہ کی شرکت نہ فرمائی اور حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ مصلحت بھی پوری ہوئی چنانچہ جب کُفّار نے دیکھا کہ ایسا شدید العداوت شخص جب سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے کُرتے سے برکت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے عقیدے میں بھی آپ اللّٰہ کے حبیب اور اس کے سچّے رسول ہیں۔ یہ سوچ کر ہزار کافِر مسلمان ہو گئے۔
۱۹۶ ان کے کُفر و نِفاق اختیار کرنے کے باعث۔
۱۹۷ کہ جہاد میں کیا فوز و سعادت اور بیٹھ رہنے میں کیسی ہلاکت و شقاوت ہے۔
۱۹۹ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں جہاد سے رہ جانے کا عذر کرنے۔ ضحاک کا قول ہے کہ یہ عامر بن طفیل کی جماعت تھی انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا یا نبیَ اللّٰہ اگر ہم آپ کے ساتھ جہاد میں جائیں تو قبیلۂ طے کے عرب ہماری بی بیوں بچوں اور جانوروں کو لوٹ لیں گے۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے اللّٰہ نے تمہارے حال سے خبردار کیا ہے اور وہ مجھے تم سے بے نیاز کرے گا۔ عمرو بن علاء نے کہا کہ ان لوگوں نے عذرِ باطل بنا کر پیش کیا تھا۔
۲۰۰ یہ دوسرے گروہ کا حال ہے جو بغیر کسی عذر کے بیٹھ رہے، یہ منافقین تھے انہوں نے ایمان کا دعویٰ جھوٹا کیا تھا۔
۲۰۱ دنیا میں قتل ہونے کا اور آخرت میں جہنّم کا۔
۲۰۲ باطل والوں کا ذکر فرمانے کے بعد سچّے عذر والوں کے متعلق فرمایا کہ ان پر سے جہاد کی فرضیت ساقط ہے۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ ان کے چند طبقے بیان فرمائے، پہلے ضعیف جیسے کہ بوڑھے، بچے، عورتیں اور وہ شخص بھی انہیں میں داخل ہے جو پیدائشی کمزور، ضعیف، نحیف، ناکارہ ہو۔
۲۰۳ یہ دوسرا طبقہ ہے جس میں اندھے، لنگڑے، اپاہج بھی داخل ہیں۔
۲۰۴ اور سامانِ جہاد نہ کر سکیں یہ لوگ رہ جائیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔
۲۰۵ ان کی اطاعت کریں اور مجاہدین کے گھر والوں کی خبر گیری رکھیں۔
۲۰۷ شانِ نُزول : اصحابِ رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم میں سے چند حضرات جہاد میں جانے کے لئے حاضر ہوئے انہوں نے حضور سے سواری کی درخواست کی، حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میرے پاس کچھ نہیں جس پر میں تمہیں سوار کروں تو وہ روتے واپس ہوئے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازِل ہوئی۔
۲۰۸ جہاد میں جانے کی قدرت رکھتے ہیں باوجود اس کے۔
۲۰۹ کہ جہاد میں کیا نفع و ثواب ہے۔
۲۱۰ اور باطل عذر پیش کریں گے، یہ جہاد سے رہ جانے والے منافق تمہارے اس سفر سے واپس ہونے کے وقت۔
۲۱۱ کہ تم نِفاق سے توبہ کرتے ہو یا اس پر قائم رہتے ہو۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ زمانۂ مستقبِل میں وہ مومنین کی مدد کریں گے، ہو سکتا ہے کہ اسی کی نسبت فرمایا گیا ہو کہ اللّٰہ و رسول تمہارے کام دیکھیں گے کہ تم اپنے اس عہد کو بھی وفا کرتے ہو یا نہیں۔
۲۱۲ اپنے اس سفر سے واپس ہو کر مدینۂ طیّبہ میں۔
۲۱۳ اور ان پر ملامت و عتاب نہ کرو۔
۲۱۴ اور ان سے اجتناب کرو۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا مراد یہ ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھنا، ان سے بولنا ترک کر دو چنانچہ جب نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو حضور نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ منافقین کے پاس نہ بیٹھیں، ان سے بات نہ کریں کیونکہ ان کے باطِن خبیث اور اعمال قبیح ہیں اور ملامت و عتاب سے ان کی اصلاح نہ ہو گی اس لئے کہ۔
۲۱۵ اور پلیدی کے پاک ہونے کا کوئی طریقہ نہیں۔
۲۱۶ دنیا میں خبیث عمل۔ شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا یہ آیت جد بن قیس اور معتب بن قشیر اور انکے ساتھیوں کے حق میں نازِل ہوئی۔ یہ اسّی۸۰ منافق تھے۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ان کے پاس نہ بیٹھو، ان سے کلام نہ کرو۔ مقاتل نے کہا کہ یہ آیت عبداللّٰہ بن اُبَی کے حق میں نازِل ہوئی، اس نے نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے قسم کھائی تھی کہ اب کبھی وہ جہاد میں جانے سے سُستی نہ کرے گا اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی تھی کہ حضور اس سے راضی ہو جائیں۔ اس پر یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت نازِل ہوئی۔
۲۱۷ اور ان کے عذر قبول کر لو تو اس سے انہیں کچھ نفع نہ ہو گا کیونکہ تم اگر ان کی قَسموں کا اعتبار بھی کر لو۔
۲۱۸ اس لئے کہ وہ ان کے دل کے کُفر و نفاق کو جانتا ہے۔
۲۲۰ کیونکہ وہ مجالِسِ علم اور صحبتِ عُلَماء سے دور رہتے ہیں۔
۲۲۱ کیونکہ وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں رضائے الٰہی اور طلبِ ثواب کے لئے تو کرتے نہیں، ریا کاری اور مسلمانوں کے خوف سے خرچ کرتے ہیں۔
۲۲۲ اور یہ راہ دیکھتے ہیں کہ کب مسلمانوں کا زور کم ہو اور کب وہ مغلوب ہو ں، انہیں خبر نہیں کہ اللّٰہ کو کیا منظو رہے وہ بتلا دیا جاتا ہے۔
۲۲۳ اور وہی رنج و بلا اور بدحالی میں گرفتار ہوں گے۔ شانِ نُزول : یہ آیت قبیلۂ اسد و غطفان و تمیم کے اَعرابیوں کے حق میں نازِل ہوئی پھر اللّٰہ تبارَک و تعالیٰ نے ان میں سے جن کو مستثنیٰ کیا ان کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔ (خازن)۔
۲۲۴ مجاہد نے کہا کہ یہ لوگ قبیلۂ مُزینہ میں سے بنی مقرن ہیں۔ کلبی نے کہا وہ اسلم اور غفار اور جُہینہ کے قبیلہ ہیں۔ بخاری اور مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ قریش اور انصار اور جہینہ اور مزینہ اور اسلم اور شجاع اور غفار موالی ہیں، اللّٰہ اور رسول کے سوا ان کا کوئی مولا نہیں۔
۲۲۵ کہ جب رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے حضور میں صدَقہ لائیں تو حضور ان کے لئے خیر و برکت و مغفرت کی دعا فرمائیں، یہی رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا طریقہ تھا۔
مسئلہ : یہی فاتحہ کی اصل ہے کہ صدَقہ کے ساتھ دعائے مغفرت کی جاتی ہے لہذا فاتحہ کو بدعت و ناروا بتانا قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔
۲۲۶ وہ حضرات جنہوں نے دونوں قِبلوں کی طرف نمازیں پڑھیں یا اہلِ بدر یا اہلِ بیت رضوان۔
۲۲۷ اصحابِ بیعتِ عُقبۂ اُولیٰ جو چھ حضرات تھے اور اصحابِ بیعتِ عُقبۂ ثانیہ جو بارہ تھے اور اصحابِ بیعتِ عقبۂ ثالثہ جو ستّر اصحاب ہیں، یہ حضرات سابقین انصار کہلاتے ہیں۔ (خازن)۔
۲۲۸ کہا گیا ہے کہ کہ ان سے باقی مہاجرین و انصار مراد ہیں تو اب تمام اصحاب اس میں آ گئے اور ایک قول یہ ہے کہ پیرو ہونے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان و طاعت و نیکی میں انصار و مہاجرین کی راہ چلیں۔
۲۳۱ یعنی مدینۂ طیّبہ کے قُرب و جوار۔
۲۳۲ اس کے معنی یا تویہ ہیں کہ ایسا جاننا جس کا اثر انہیں معلوم ہو، وہ ہمارا جاننا ہے کہ ہم انہیں عذاب کریں گے یا حضور سے منافقین کے حال جاننے کی نفی باعتبار ماسبق ہے اور اس کا علم بعد کو عطا ہوا جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا: وَلَتَعْرِفَنَّھُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ(جمل) کلبی و سدی نے کہا کہ نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے روزِ جمعہ خطبہ کے لئے قیام کر کے نام بنام فرمایا نکل اے فلاں تو منافق ہے، نکل اے فلاں تو منافق ہے تو مسجد سے چند لوگوں کو رسوا کر کے نکالا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور کو اس کے بعد منافقین کے حال کا علم عطا فرمایا گیا۔
۲۳۳ ایک بار تو دنیا میں رسوائی اور قتل کے ساتھ اور دوسری مرتبہ قبر میں۔
۲۳۴ یعنی عذابِ دوزخ کی طرف جس میں ہمیشہ گرفتار رہیں گے۔
۲۳۵ اور انہوں نے دوسروں کی طرح جھوٹے عذر نہ کئے اور اپنے فعل پر نادم ہوئے۔ شانِ نُزول : جمہور مفسِّرین کا قول ہے کہ یہ آیت مدینۂ طیّبہ کے مسلمانوں کی ایک جماعت کے حق میں نازِل ہوئی جو غزوۂ تبوک میں حاضر نہ ہوئے تھے اس کے بعد نادم ہوئے اور توبہ کی اور کہا افسوس ہم گمراہوں کے ساتھ یا عورتوں کے ساتھ رہ گئے اور رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے اصحاب جہاد میں ہیں۔ جب حضور اپنے سفر سے واپس ہوئے اور قریبِ مدینہ پہنچے تو ان لوگوں نے قسم کھائی کہ ہم اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیں گے اور ہر گز نہ کھولیں گے یہاں تک کہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ہی کھولیں۔ یہ قسمیں کھا کر وہ مسجد کے ستونوں سے بندھ گئے جب حضور تشریف لائے اور انہیں ملاحظہ کیا تو فرمایا یہ کون ہیں ؟ عرض کیا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو جہاد میں حاضر ہونے سے رہ گئے تھے۔ انہوں نے اللّٰہ سے عہد کیا ہے کہ یہ اپنے آپ کو نہ کھولیں گے جب تک حضور ان سے راضی ہو کر انہیں خود نہ کھولیں۔ حضور نے فرمایا اور میں اللّٰہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں انہیں نہ کھولوں گا نہ ان کا عذر قبول کروں جب تک کہ مجھے اللّٰہ کی طرف سے ان کے کھولنے کا حکم دیا جائے۔ تب یہ آیت نازِل ہوئی اور رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں کھولا تو انہوں نے عرض کیا یا رسولَ اللّٰہ یہ مال ہمارے رہ جانے کے باعث ہوئے، انہیں لیجئے اور صدَقہ کیجئے اور ہمیں پاک کر دیجئے اور ہمارے لئے دعائے مغفرت فرمائیے۔ حضور نے فرمایا مجھے تمہارے مال لینے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس پر اگلی آیت نازِل ہوئی خُذْمِنْ اَمْوَالِھِمْ ۔
۲۳۶ یہاں عملِ صالح سے یا اعترافِ قُصور اور توبہ مراد ہے یا اس تخلُّف سے۔ پہلے غزوات میں نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حاضر ہونا یا طاعت و تقویٰ کے تمام اعمال، اس تقدیر پر آیت تمام مسلمانوں کے حق میں ہو گی۔
۲۳۷ اس سے تخلُّف یعنی جہاد سے رہ جانا مراد ہے۔
۲۳۸ آیت میں جو صدَقہ وارِد ہوا ہے اس کے معنیٰ میں مفسِّرین کے کئی قول ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ صدَقہ غیر واجبہ تھا جو بطورِ کَفّارہ کے ان صاحبوں نے دیا تھا جن کا ذکر اوپر کی آیت میں ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس صدَقہ سے مراد وہ زکوٰۃ ہے جو ان کے ذمہ واجب تھی، وہ تائب ہوئے اور انہوں نے زکوٰۃ ادا کرنی چاہی تو اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے لینے کا حکم دیا۔ امام ابوبکر رازی جصاص نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ صدَقہ سے زکوٰۃ مراد ہے۔ (خازن و احکام القرآن) مدارک میں ہے کہ سنّت یہ ہے کہ صدَقہ لینے والا صدَقہ دینے والے کے لئے دعا کرے اور بخاری و مسلم میں حضرت عبداللّٰہ بِن ابی اَوفی کی حدیث ہے کہ جب کوئی نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس صدَقہ لاتا آپ اس کے حق میں دعا کرتے، میرے باپ نے صدَقہ حاضر کیا تو حضور نے دعا فرمائی اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلۤیٰ اَبِی اَوْفیٰ مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ فاتحہ میں جو صدَقہ لینے والے صدَقہ پا کر دعا کرتے ہیں، یہ قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔
۲۳۹ اس میں توبہ کرنے والوں کو بِشارت دی گئی کہ ان کی توبہ اور ان کے صدقات مقبول ہیں۔ بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ جن لوگوں نے اب تک توبہ نہیں کی اس آیت میں انہیں توبہ اور صدقہ کی ترغیب دی گئی۔
۲۴۱ متخلِّفین یعنی غزوۂ تبوک سے رہ جانے والے تین قِسم کے تھے۔ ایک منافقین جو نِفاق کے خُوگر اور عادی تھے، دوسرے وہ لوگ جنہوں نے قصور کے اعتراف اور توبہ میں جلدی کی جن کا اوپر ذکر ہو چکا، تیسرے وہ جنہوں نے توقُّف کیا اور جلدی توبہ نہ کی، یہی اس آیت سے مراد ہیں۔
۲۴۲ شانِ نُزول : یہ آیت ایک جماعتِ منافقین کے حق میں نازِل ہوئی جنہوں نے مسجدِ قُبا کو نقصان پہنچانے اور اس کی جماعت متفرق کرنے کے لئے اس کے قریب ایک مسجد بنائی تھی۔ اس میں ایک بڑی چال تھی وہ یہ کہ ابو عامر جو زمانِ جاہلیت میں نصرانی راہب ہو گیا تھا، سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے مدینۂ طیّبہ تشریف لانے پر حضور سے کہنے لگا یہ کون سا دین ہے جو آپ لائے ہیں، حضور نے فرمایا میں ملّتِ حنیفیہ، دینِ ابراہیم لایا ہوں، کہنے لگا میں اسی دین پر ہوں، حضور نے فرمایا نہیں، اس نے کہا کہ آپ نے اس میں کچھ اور ملا دیا ہے، حضور نے فرمایا نہیں، میں خالص، صاف ملّت لایا ہوں۔ ابو عامر نے کہا ہم میں سے جو جھوٹا ہو اللّٰہ اس کو مسافرت میں تنہا اور بیکس کر کے ہلاک کرے، حضور نے آمین فرمایا۔ لوگوں نے اس کا نام ابو عامر فاسق رکھ دیا، روزِ اُحد ابو عامر فاسق نے حضور سے کہا کہ جہاں کہیں کوئی قوم آپ سے جنگ کرنے والی ملے گی میں اس کے ساتھ ہو کر آپ سے جنگ کروں گا چنانچہ جنگِ حنین تک اس کا یہی معمول رہا اور وہ حضور کے ساتھ مصروفِ جنگ رہا، جب ہوازن کو شکست ہوئی اور وہ مایوس ہو کر مُلکِ شام کی طرف بھاگا تو اس نے منافقین کو خبر بھیجی کہ تم سے جو سامانِ جنگ ہو سکے قوت و سلاح سب جمع کرو اور میرے لئے ایک مسجد بناؤ، میں شاہِ روم کے پاس جاتا ہوں وہاں سے رومی لشکر لے کر آؤں گا اور (سیدِ عالَم ) محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم) اور ان کے اصحاب کو نکالوں گا۔ یہ خبر پا کر ان لوگوں نے مسجدِ ضرار بنائی تھی اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا تھا یہ مسجد ہم نے آسانی کے لئے بنا دی ہے کہ جو لوگ بوڑھے، ضعیف، کمزور ہیں وہ اس میں بہ فراغت نماز پڑھ لیا کریں، آپ اس میں ایک نماز پڑھ دیجئے اور برکت کی دعا فرما دیجئے۔ حضور نے فرمایا کہ اب تو میں سفرِ تبوک کے لئے پا برکاب ہوں، واپسی پر اللّٰہ کی مرضی ہو گی تو وہاں نماز پڑھ لوں گا جب نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم غزوۂ تبوک سے واپس ہو کر مدینہ شریف کے قریب ایک موضع میں ٹھہرے تو منافقین نے آپ سے درخواست کی کہ ان کی مسجد میں تشریف لے چلیں۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور ان کے فاسد ارادوں کا اظہار فرمایا گیا تب رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے بعض اصحاب کو حکم دیا کہ اس مسجد کو جا کر ڈھا دیں اور جلا دیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور ابو عامر راہب مُلکِ شام میں بحالتِ سفر بے کسی و تنہائی میں ہلاک ہوا۔
۲۴۴ کہ وہاں خدا اور رسول کے ساتھ کُفر کریں اور نِفاق کو قوت دیں۔
۲۴۵ جو مسجدِ قُبا میں نماز کے لئے مجتمع ہوتے ہیں۔
۲۴۷ اس میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجدِ ضرار میں نماز پڑھنے کی ممانعت فرمائی گئی۔
مسئلہ : جو مسجد فخر و ریا اور نمود و نمائش یا رضائے الٰہی کے سوا اور کسی غرض کے لئے یا غیرِ طیّب مال سے بنائی گئی ہو وہ مسجدِ ضرار کے ساتھ لاحق ہے۔ (مدارک)۔
۲۴۸ اس سے مراد مسجدِ قُبا ہے جس کی بنیاد رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے رکھی اور جب تک حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے قُبا میں قیام فرمایا اس میں نماز پڑھی۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ہر ہفتہ مسجدِ قُبا میں تشریف لاتے تھے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ مسجدِ قُبا میں نماز پڑھنے کا ثواب عمرہ کے برابر ہے۔ مفسِّرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مسجدِ مدینہ مراد ہے اور اس میں بھی حدیثیں وارِد ہیں، ان دونوں باتوں میں کچھ تعارُض نہیں کیونکہ آیت کا مسجدِ قُبا کے حق میں نازِل ہونا اس کو مستلزم نہیں ہے کہ مسجدِ مدینہ میں یہ اوصاف نہ ہوں۔
۲۴۹ تمام نجاستوں سے یا گناہوں سے۔ شانِ نُزول : یہ آیت اہلِ مسجدِ قُبا کے حق میں نازِل ہوئی۔ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا اے گروہِ انصار اللّٰہ عزوجل نے تمہاری ثنا فرمائی تم وضو اور استنجے کے وقت کیا عمل کرتے ہو انہوں نے عرض کیا یا رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ہم بڑا استنجہ تین ڈھیلوں سے کرتے ہیں اس کے بعد پھر پانی سے طہارت کرتے ہیں۔ مسئلہ : نجاست اگر جائے خروج سے متجاوز ہو جائے تو پانی سے استنجا واجب ہے ورنہ مستحب۔ مسئلہ : ڈھیلوں سے استنجا سنّت ہے نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر مواظبت فرمائی اور کبھی ترک بھی کیا۔
۲۵۰ جیسے کہ مسجدِ قُبا اور مسجدِ مدینہ۔
۲۵۲ مراد یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے دین کی بنا تقویٰ اور رضائے الٰہی کی مضبو ط سطح پر رکھی وہ بہتر ہے نہ کہ وہ جس نے اپنے دین کی بنا باطل و نِفاق کے گراؤ گڈھے پر رکھی۔
۲۵۳ اور اس کے گرائے جانے کا صدمہ باقی رہے گا۔
۲۵۴ خواہ قتل ہو کر یا مر کر یا قبر میں یا جہنّم میں۔ معنی یہ ہیں کہ ان کے دلوں کا غم و غصہ تا مرگ باقی رہے گا۔ بمیرتا برہی اے حسود کیں رنجیست کہ از مشقت اوجزبمرگ نتواں رست اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جب تک ان کے دل اپنے قُصور کی ندامت اور افسوس سے پارہ پارہ نہ ہوں اور وہ اخلاص سے تائب نہ ہوں اس وقت تک وہ اسی رنج و غم میں رہیں گے۔ (مدارک)۔
۲۵۵ راہِ خدا میں جان و مال خرچ کر کے جنّت پانے والے ایمان داروں کی ایک تمثیل ہے جس سے کمال لطف و کرم کا اظہار ہوتا ہے کہ پروردگارِ عالَم نے انہیں جنّت عطا فرمانا، ان کے جان و مال کا عوض قرار دیا اور اپنے آپ کو خریدار فرمایا، یہ کمال عزّت افزائی ہے کہ و ہ ہمارا خریدار بنے اور ہم سے خریدے کس چیز کو، جو نہ ہماری بنائی ہوئی نہ ہماری پیدا کی ہوئی، جان ہے تو اس کی پیدا کی ہوئی، مال ہے تو اس کا عطا فرمایا ہوا۔ شانِ نُزول : جب انصار نے رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے شبِ عُقبہ بیعت کی تو عبداللّٰہ بن رواحہ رضی اللّٰہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسولَ اللّٰہ اپنے ربّ کے لئے اور اپنے لئے کچھ شرط فرما لیجئے جو آپ چاہیں، فرمایا میں اپنے ربّ کے لئے تو یہ شرط کرتا ہوں کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے لئے یہ کہ جن چیزوں سے تم اپنے جان و مال کو بچاتے اور محفوظ رکھتے ہو اس کو میرے لئے بھی گوارا نہ کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم ایسا کریں تو ہمیں کیا ملے گا، فرمایا جنّت۔
۲۵۸ اس سے ثابت ہوا کہ تمام شریعتوں اور ملّتوں میں جہاد کا حکم تھا۔
۲۶۰ اللّٰہ کے فرمانبردار بندے جو اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں اور عبادت کو اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔
۲۶۱ جو ہر حال میں اللّٰہ کی حمد کرتے ہیں۔
۲۶۲ یعنی نمازوں کے پابند اور ان کو خوبی سے ادا کرنے والے۔
۲۶۳ اور اس کے احکام بجا لانے والے یہ لوگ جنّتی ہیں۔
۲۶۴ کہ وہ اللّٰہ کا عہد و فا کریں گے تو اللّٰہ تعالیٰ انہیں جنّت میں داخل فرمائے گا۔
۲۶۵ شانِ نُزول : اس آیت کی شانِ نُزول میں مفسِّرین کے چند قول ہیں (۱) نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے چچا ابوطالب سے فرمایا تھا کہ میں تمہارے لئے استِغفار کروں گا جب تک کہ مجھے ممانعت نہ کی جائے تو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازِل فرما کر ممانعت فرما دی۔ (۲) سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے ربّ سے اپنی والدہ کی زیارتِ قبر کی اجازت چاہی اس نے مجھے اجازت دی پھر میں نے ان کے لئے استِغفار کی اجازت چاہی تو مجھے اجازت نہ دی اور مجھ پر یہ آیت نازِل ہوئی۔ مَاکَانَ لِلنَّبِیِّ اقول : یہ وجہ شانِ نُزول کی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث حاکم نے روایت کی اور اس کو صحیح بتایا اور ذہبی نے حاکم پر اعتماد کر کے میزان میں اس کی تصحیح کی لیکن مختصر المستدرک میں ذہبی نے اس حدیث کی تضعیف کی اور کہا کہ ایوب بن ہانی کو ابنِ معین نے ضعیف بتایا ہے علاوہ بریں یہ حدیث بخاری کی حدیث کے مخالف بھی ہے جس میں اس آیت کے نُزول کا سبب آپ کا والدہ کے لئے استِغفار کرنا نہیں بتایا گیا بلکہ بخاری کی حدیث سے یہی ثابت ہے کہ ابو طالب کے لئے استِغفار کرنے کے باب میں یہ حدیث وارِد ہوئی، اس کے علاوہ اور حدیثیں جو اس مضمون کی ہیں جن کو طبرانی اور ابنِ سعد اور ابنِ شاہین وغیرہ نے روایت کیا ہے وہ سب ضعیف ہیں۔ ابن سعد نے طبقات میں حدیث کی تخریج کے بعد اس کو غلط بتایا اور سند المحدثین امام جلال الدین سیوطی نے اپنے رسالہ التعظیم والمنتہ میں اس مضمون کی تمام احادیث کو معلول بتایا لہذا یہ وجہ شانِ نُزول میں صحیح نہیں اور یہ ثابت ہے اس پر بہت دلائل قائم ہیں کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی والدہ ماجدہ موَحِّدہ اور دینِ ابراہیمی پر تھیں۔ (۳) بعض اصحاب نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے آبا کے لئے استِغفار کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی۔
۲۶۸ اس سے یا تو وہ وعدہ مراد ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے آزر سے کیا تھا کہ میں اپنےرب سے تیری مغفرت کی دُعا کروں گا یا وہ وعدہ مراد ہے جو آزر نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اسلام لانے کا کیا تھا۔ شانِ نُزول : حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازِل ہوئی سَاَسْتَغْفِرُلَکَ رَبِّیْ تو میں نے سنا کہ ایک شخص اپنے والدین کے لئے دعائے مغفرت کر رہا ہے باوجود یکہ وہ دونوں مشرک تھے تو میں نے کہا تو مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کرتا ہے، اس نے کہا کیا ابراہیم علیہ السلام نے آزر کے لئے دعا نہ کی تھی وہ بھی تو مشرک تھا۔ یہ واقعہ میں نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے ذکر کیا۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور بتایا گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا استِغفار بہ امیدِ اسلام تھا جس کا آزر آپ سے وعدہ کر چکا تھا اور آپ آزر سے استِغفار کا وعدہ کر چکے تھے جب وہ امید منقطع ہو گئی تو آپ نے اس سے اپنا علاقہ قطع کر دیا۔
۲۶۹ اور استِغفار کرنا ترک فرما دیا۔
۲۷۱ یعنی ان پر گمراہی کا حکم کرے اور انہیں گمراہوں میں داخل فرماوے۔
۲۷۲ معنیٰ یہ ہیں کہ جو چیز ممنوع ہے اور اس سے اجتناب واجب ہے اس پر اللّٰہ تبارَک و تعالیٰ اس وقت تک کہ اپنے بندوں کی گرفت نہیں فرماتا کہ جب تک اس کی ممانعت کا صاف بیان اللّٰہ کی طرف سے نہ آ جائے لہذا قبلِ ممانعت اس فعل کے کرنے میں حرج نہیں۔ (مدارک و خازن)
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ جس چیز کی جانب شرع سے ممانعت نہ ہو وہ جائز ہے۔ شانِ نُزول : جب مؤمنین کو مشرکین کے لئے استِغفار کرنے سے منع فرمایا گیا تو انہیں اندیشہ ہوا کہ ہم پہلے جو استِغفار کر چکے ہیں کہیں اس پر گرفت نہ ہو۔ اس آیت سے انہیں تسکین دی گئی اور بتایا گیا کہ ممانعت کا بیان ہونے کے بعد اس پر عمل کرنے سے مؤاخَذہ ہوتا ہے۔
۲۷۳ یعنی غزوۂ تبوک میں جس کو غزوۂ عُسرت بھی کہتے ہیں، اس غزوہ میں عسرت کا یہ حال تھا کہ دس دس آدمیوں میں سواری کے لئے ایک ایک اونٹ تھا، نوبت بہ نوبت اسی پر سوار ہو لیتے تھے اور کھانے کی قلّت کا یہ حال تھا کہ ایک ایک کھجور پر کئی کئی آدمی بسر کرتے تھے اس طرح کہ ہر ایک نے تھوڑی تھوڑی چوس کر ایک گھونٹ پانی پی لیا، پانی کی بھی نہایت قلّت تھی، گرمی شدت کی تھی، پیاس کا غلبہ اور پانی ناپید۔ اس حال میں صحابہ اپنے صدق و یقین اور ایمان و اخلاص کے ساتھ حضور کی جاں نثاری میں ثابت قدم رہے۔ حضرت ابو بکر صدیق نے عرض کیا یا رسولَ اللّٰہ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے ! فرمایا کیا تمہیں یہ خواہش ہے عرض کیا جی ہاں تو حضور نے دستِ مبارک اٹھا کر دعا فرمائی اور ابھی دستِ مبارک اٹھے ہی ہوئے تھے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اَبر بھیجا، بارش ہوئی، لشکر سیراب ہو ا، لشکر والوں نے اپنے برتن بھر لئے اس کے بعد جب آگے چلے تو زمین خشک تھی، ابر نے لشکر کے باہر بارش ہی نہیں کی وہ خاص اسی لشکر کو سیراب کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا۔
۲۷۴ اور وہ اس شدت و سختی میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے جدا ہونا گوارا کریں۔
۲۷۵ اور وہ صابر و ثابت رہے اور ان کا اخلاص محفوظ رہا اور جو خطرہ دل میں گزرا تھا اس پر نادم ہوئے۔
۲۷۶ توبہ سے جن کا ذکر آیت وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰہِ میں ہے اور یہ تین صاحب کعب بن مالک اور ہلال بن اُمیہ اور مرارۃ بن ربیع ہیں، یہ سب انصاری تھے۔ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے تبوک سے واپس ہو کر ان سے جہاد میں حاضر نہ ہونے کی وجہ دریافت فرمائی اور فرمایا ٹھہرو جب تک اللّٰہ تعالیٰ تمہارے لئے کوئی فیصلہ فرمائے اور مسلمانوں کو ان لوگوں سے ملنے جلنے، کلام کرنے سے ممانعت فرما دی حتی کہ ان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے ان سے کلام ترک کر دیا یہاں تک کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کو کوئی پہچانتا ہی نہیں اور ان کی کسی سے شناسائی ہی نہیں اس حال پر انہیں پچاس روز گزرے۔
۲۷۷ اور انہیں کوئی ایسی جگہ نہ مل سکی جہاں ایک لمحہ کے لئے انہیں قرار ہوتا ہر وقت پریشانی اور رنج وغم بے چینی و اضطراب میں مبتلا تھے۔
۲۷۸ شدّتِ رنج و غم سے نہ کوئی اَنیس ہے جس سے بات کریں نہ کوئی غم خوار جسے حالِ دل سنائیں، وحشت و تنہائی ہے اور شب و روز کی گریہ و زاری۔
۲۷۹ اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور۔
۲۸۱ جو صادق الایمان ہیں مخلِص ہیں، رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی اخلاص کے ساتھ تصدیق کرتے ہیں۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ صادقین سے حضرت ابوبکر و عمر مراد ہیں رضی اللّٰہ عنہما۔ ابنِ جریر کہتے ہیں کہ مہاجرین۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ وہ لوگ جن کی نیتیں ثابت رہیں اور قلب و اعمال مستقیم اور وہ اخلاص کے ساتھ غزوۂ تبو ک میں حاضر ہوئے۔ مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ اِجماع حُجّت ہے کیونکہ صادقین کے ساتھ رہنے کا حکم فرمایا، اس سے ان کے قول کا قبول کرنا لازم آتا ہے۔
۲۸۲ یہاں اہلِ مدینہ سے مدینۂ طیّبہ میں سکونت رکھنے والے مراد ہیں خواہ وہ مہاجرین ہوں یا انصار۔
۲۸۴ بلکہ انہیں حکم تھا کہ شدّت و تکلیف میں حضور کا ساتھ نہ چھوڑیں اور سختی کے موقع پر اپنی جانیں آپ پر فدا کریں۔
۲۸۵ اور کُفّار کی زمین کو اپنے گھوڑوں کے سُموں سے روندتے ہیں۔
۲۸۶ قید کر کے یا قتل کر کے یا زخمی کر کے یا ہزیمت دے کر۔
۲۸۷ اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص اطاعتِ الٰہی کا قصد کرے اس کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا، حرکت کرنا، ساکن رہنا سب نیکیاں ہیں اللّٰہ کے یہاں لکھی جاتی ہیں۔
۲۸۸ یعنی قلیل مثلاً ایک کھجور۔
۲۸۹ جیسا کہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ عنہ نے جیشِ عُسرت میں خرچ کیا۔
۲۹۰ اس آیت سے جہاد کی فضیلت اور اس کا احسن الاعمال ہونا ثابت ہوا۔
۲۹۱ اور ایک دم اپنے وطن خالی کر دیں۔
۲۹۲ ایک جماعت وطن میں رہے اور۔
۲۹۳ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ قبائلِ عرب میں سے ہر ہر قبیلہ سے جماعتیں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے حضور میں حاضر ہوتیں اور وہ حضور سے دین کے مسائل سیکھتے اور تَفَقُّہ حاصل کرتے اور اپنے لئے احکام دریافت کرتے اور اپنی قوم کے لئے، حضور انہیں اللّٰہ اور رسول کی فرماں برداری کا حکم دیتے اور نماز زکوٰۃ وغیرہ کی تعلیم کے لئے انہیں ان کی قوم پر مامور فرماتے، جب وہ لوگ اپنی قوم میں پہنچتے تو اعلان کر دیتے کہ جو اسلام لائے وہ ہم میں سے ہے اور لوگوں کو خدا کا خوف دلاتے اور دین کی مخالفت سے ڈراتے یہاں تک کہ لوگ اپنے والدین کو چھوڑ دیتے اور رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم انہیں دین کے تمام ضروری علوم تعلیم فرما دیتے۔ (خازن ) یہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا معجِزۂ عظیمہ ہے کہ بالکل بے پڑھے لوگوں کو بہت تھوڑی دیر میں دین کے احکام کا عالِم اور قوم کا ہادی بنا دیتے تھے۔ اس آیت سے چند مسائل معلوم ہوئے۔ مسئلہ : علمِ دین حاصل کرنا فرض ہے جو چیزیں بندے پر فرض و واجب ہیں اور جو اس کے لئے ممنوع و حرام ہیں اس کا سیکھنا فرضِ عین ہے اور اس سے زائد علم حاصل کرنا فرضِ کفایہ۔ حدیث شریف میں ہے علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ امام شافعی رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ علم سیکھنا نفل نماز سے افضل ہے۔ مسئلہ : طلبِ علم کے لئے سفر کا حکم حدیث شریف میں ہے جو شخص طلبِ علم کے لئے راہ چلے اللّٰہ اس کے لئے جنّت کی راہ آسان کرتا ہے۔ (ترمذی) مسئلہ : فِقہ افضل ترین علوم ہے۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللّٰہ تعالیٰ جس کے لئے بہتری چاہتا ہے اس کو دین میں فقیہ بناتا ہے، میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللّٰہ تعالیٰ دینے والا۔ (بخاری و مسلم) حدیث میں ہے ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے۔ (ترمذی) فِقہ احکامِ دین کے علم کو کہتے ہیں، فِقہِ مُصطلَح اس کا صحیح مصداق ہے۔
۲۹۴ عذابِ الٰہی سے احکامِ دین کا اِتّباع کر کے۔
۲۹۵ قتال تمام کافِروں سے واجب ہے قریب کے ہوں یا دور کے لیکن قریب والے مقدَّم ہیں پھر جو ان سے متّصل ہوں ایسے ہی درجہ بدرجہ۔
۲۹۶ انہیں غلبہ دیتا ہے اور انکی نصرت فرماتا ہے۔
۲۹۷ یعنی منافقین آپس میں بطریقِ استہزاء ایسی باتیں کہتے ہیں ان کے جواب میں ارشاد ہوتا ہے۔
۲۹۹ کہ پہلے جتنا نازِل ہوا تھا اسی کے انکار کے وبال میں گرفتار تھے، اب جو اور نازِل ہوا اس کے انکار کی خباثت میں بھی مبتلا ہوئے۔
۳۰۱ امراض و شدائد اور قحط وغیرہ کے ساتھ۔
۳۰۲ اور آنکھوں سے نکل بھاگنے کے اشارے کرتا ہے اور کہتا ہے۔
۳۰۳ اگر دیکھتا ہوا تو بیٹھ گئے ورنہ نکل گئے۔
۳۰۶ اپنے نفع و ضَرر کو نہیں سوچتے۔
۳۰۷ محمّدِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم عربی قرشی، جن کے حسب و نسب کو تم خوب پہچانتے ہوکہ تم میں سب سے عالی نسب ہیں اور تم ان کے صدق و امانت، زہد و تقویٰ، طہارت و تقدّس اور اخلا قِ حمیدہ کو بھی خوب جانتے ہو اور ایک قراء ۃ میں اَنْفَسِکُمْ بفتحِ فا آیا ہے، اس کے معنیٰ ہیں کہ تم میں سب سے نفیس تر اور اشرف و افضل۔ اس آیتِ کریمہ میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی تشریف آوری یعنی آپ کے میلادِ مبارک کا بیان ہے۔ ترمذی کی حدیث سے بھی ثابت ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی پیدائش کا بیان قیام کر کے فرمایا۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ محفلِ میلادِ مبارک کی اصل قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
۳۰۸ اس آیت میں اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے دو ناموں سے مشرف فرمایا۔ یہ کمال تکریم ہے اس سرورِ انور صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی۔
۳۰۹ یعنی منافقین و کُفّار آپ پر ایمان لانے سے اعراض کریں۔
۳۱۰ حاکم نے مستدرک میں اُبَی ابنِ کعب سے ایک حدیث روایت کی ہے کہ لَقَدْ جَاءَ کُمْ سے آخر سورت تک دونوں آیتیں قرآنِ کریم میں سب کے بعد نازِل ہوئیں۔