دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الغَاشِیَة

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

 اس سورہ کی پہلی آیت میں قیامت کی عام اور ہمہ گیر مصیبت کے لیے غاشیہ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کی مناسبت سے اس کا نام ’’الغاشیہ‘‘ ہے۔

 

زمانہ نزول

 

  سورہ مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی ہوگی جبکہ دعوت و تبلیغ کا کام ابھی ابتدائی مرحلہ میں تھا۔

 

مرکزی مضمون

 

  جزا و سزا ہی ہے لیکن چھوٹے چھوٹے فقروں میں جنت و دوزخ کی تصویر کشی ایسے مؤثر پیرایہ میں کی گئی ہے کہ پڑھنے والا بشرط یہ کہ آنکھیں رکھتا ہو اسی دنیا میں ان کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے۔

 

یہ سورہ سابق سورہ کا تکملہ ہے۔ اس میں جنت و دوزخ کا ذکر اجمالاً تھا لیکن اس سورہ میں دونوں کا نقشہ پیش کر دیا گیا ہے اسی لیے نماز میں سورہ الاعلیٰ کے ساتھ سورہ الغاشیہ بھی پڑھی جاتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ اور عیدین کی پہلی رکعت میں سورہ الاعلیٰ پڑھتے تو دوری رکعت میں سورہ الغاشیہ (مسلم کتاب الجمعہ)

 

نظم کلام

 

  آیت ۱ تا ۷ میں ان لوگوں کا انجام بیان کیا گیا ہے جو قیامت کے منکر ہیں اور خدا کے حضور جوابدہی کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔

 

آیت ۸ تا  ۱۶ میں ان لوگوں کا انجام بیان کیا گیا ہے جو قیامت پر یقین رکھتے ہیں اور خدا کے حجور جوابدہی کے تصور کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔

 

آیت ۱۷تا ۲۰ میں آفاق کی بعض نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو خدا کی قدرت و حکمت پر دلالت کرتی ہیں اور ان پر غور کرنے سے قرآن کے اس بیان کی تائید ہوتی ہے کہ وہ خدا قیامت کے برپا کرنے اور جنت و دوزخ والی دنیا پیدا کرنے پر قادر ہے اور ضروری ہے کہ جزا و سزا کا معاملہ پیش آۓ۔

 

آیت ۲۱ تا ۲۶ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ آپؐ کا کام صرف یاد دہانی اور نصیحت کرنا ہے۔ حق کو زبردستی منوانے کی ذمہ داری آپؐ پر نہیں ڈالی گئی ہے لہٰذا جو لوگ آپؐ کی نصیحت سننے کے لیے تیار نہیں ہیں انکا معاملہ اللہ کے حوالہ کرو۔ آخر کار ان کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اس وقت وہاں سے حساب لے لے گا۔

ترجمہ

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمہیں ۱*  چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے ؟ ۲*  

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے چہرے ۳*  اس روز رسوا ہوں گے ۴*  

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشقت کرنے والے تھکے ماندے ہوں گے ۵*  

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دہکتی آگ میں داخل ہوں گے ۶*  

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھولتے چشمہ کا پانی انہیں پلایا جاۓ گا ۷*

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے لیے جھاڑ کانٹے کے سوا کوئی کھانا نہیں ہو گا ۸*  

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو نہ موٹا کرے گا اور نہ بھوک ہی کو دفع کرے گا ۹*  

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے چہرے اس روز با رونق ہوں گے ۱۰*  

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی کوششوں پر شاداں ۱۱*  

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلند پایہ جنت میں ۱۲*

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں کوئی لغو بات نہ سنیں گے ۱۳*  

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں چشمے بہہ رہے ہوں گے ۱۴*

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ اس کے اندر اونچے تخت ہوں گے ۱۵*

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پیالے ہوں گے قرینہ سے رکھے ہوۓ ۱۶*  

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور گاؤ تکیے قطار کی شکل میں لگے ہوۓ۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور قالین بچھے ہوۓ ۱۷*

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کیے گۓ ہیں ؟

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آسمان کو کہ کیسا بلند کیا گیا ہے ؟

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پہاڑوں کو کہ کس طرح کھڑے کر دۓ گۓ ہیں ؟

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زمین کو کہ کس طرح بچھائی گئی ہے ۱۸*  

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو (اے پیغمبر!)  تم نصیحت کرو کہ تمہارا کام بس نصیحت کرنا ہے۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان پر جبر کرنا نہیں ہے ۱۹*  

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جو منہ موڑے گا ۲۰*  اور کفر کرے گا ۲۱*  

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا۔ ۲۲*  

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے شک ہماری ہی طرف ہے ان کی واپسی ۲۳*

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ہمارے ہی ذمہ ہے ان سے حساب لینا ۲۴*  

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب گو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے لیکن مقصود عام انسانوں کو آگاہ کرنا ہے۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھا جانے والی آفت (الغاشیہ) سے مراد قیامت ہے مطلب یہ ہے کہ قیامت کا ظہور ایک ہمہ گیر آفت کی شکل میں ہو گا جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ یہاں اس بات کو سوالیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے تاکہ سننے والے چونک جائیں اور آگے جو احوال قیامت پیش کیے جا رہے ہیں ان کو بغور سنیں۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چہرے (وجوہ) سے مراد اشخاص ہیں۔ چونکہ انسان کی اندرونی کیفیت کا اظہار چہرے سے ہوتا ہے اور اس کی شخصیت بھی اسی سے پہنچانی جاتی ہے اس لیے یہاں اشخاص کے لیے چہروں (وجوہ) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان لوگوں کے حال کا بیان ہے جو جزا و سزا کا انکار کرتے رہے اور اس تصور کے تحت زندگی گزارتے رہے کہ نہ انہیں خدا کے حجور حاضر ہونا ہے اور نہ اپنے کیے کا حساب پیش کرنا ہے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن منکرین کو سخت مشقت کے  کام کرنا پڑیں گے جن سے تھک کر وہ نڈھال ہو جائیں گے۔ مثلاً قبروں سے اٹھتے ہیں اپنے موقف تک دوڑنے ، پیشی کے انظار میں سالہا سال تک سخت گرمی میں بھوکے پیاسے کھڑے ہونے ، طوق پہننے اور زنجیریں گھسیٹنے جیسے کام۔ جن لوگوں نے دنیا میں شرعی پابندیوں سے اپنے  کو آزاد کر رکھا تھا اور نماز جیسی عبادت کو وہ بوجھل خیال کرتے رہے  ان کی اس سہولت پسندی اور تن آسانی کا ٹھیک ٹھیک بدلہ یہی ہوگا کہ وہ قیمات کے  دن تھکا دینے والے کام کریں اور ’’ قید با مشقت ‘‘ کی سزا بھگتیں۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیمات کے  موقف سے جب یہ منکرین لوٹیں گے تو سیدھے جہنم رسید ہوں گے جس کی آگ بھڑک رہی ہو گی۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھولتا ہوا پانی اس لیے کہ جب انہوں نے خدا اور آخرت سے بے نیاز ہو کر زندگی گزاری اور اس کے انعام کا اپنے کو امیدوار نہیں بنایا تو وہ بجا طور پر اس بات کے مستحق ہوۓ کہ ان کی تواضع آخرت میں کھولتے ہوۓ پانی سے کی جاۓ۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی  کھانے کے لیے انہیں غذائیت رکھنے والی اور ذائقہ دار کوئی چیز نہیں ملے گی البتہ جھاڑ کانٹے اور اسی طرح زقوم اور پیپ وغیرہ انہیں ضرور کھانا پڑیں گے جو ظاہر ہے غذا کا کام نہیں دے سکتے۔

 

یہ بدلہ بھی ٹھیک ان کے عمل کے مطابق ہوگا کیونکہ انہوں نے خدا سے ملنے کا نکار کر کے دنیا میں کانٹے ہی بوۓ تھے اس لیے انہوں نے جو بویا تھا وہی انہیں کھانے کے لیے ملے گا۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان جھاڑ کانٹوں میں سرے سے غذائیت ہی نہیں ہوگی اس لیے جسم نہ توانائی حاصل ہو سکے گی اور نہ بھوک ہی مٹ سکے گی۔

 

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جسم کو تقویت پہنچانے اور بھوک کو مٹانے کے لیے طرح طرح کی ذائقہ دار غذائیں بخشی تھیں لیکن جب انہوں نے ان نعمتوں کو پانے کے  بعد بھی اپنے رب کی نا شکری کی تو وہ اسی لائق ٹھہرے کہ جھاڑ کانٹے کھائیں۔

 

واضح رہے کہ متن میں لفظ ’’ضریع‘‘ استعمال ہوا ہے جو ایک خار دار اور زہریلی جھاڑی کا نام ہے۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ان لوگوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے جو آخرت پر ایمان لاۓ اور خدا کے حضور جواب دہی کے اندیشہ سے ذمہ دارانہ زندگی گزارتے رہے۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنی کوششوں کے بہترین نتائج دیکھ کر وہ خود ہوں گے کہ اچھا ہوا انہوں نے آخرت کو مقصود بنا کر زندگی بسر کی اور دنیا پرستی میں مبتلا نہیں ہوۓ۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ ایسے باغ میں ہوں گے جو بلندی پر بھی ہو گا اور اعلیٰ درجہ کا بھی۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کی سوسائٹی اس قدر پاکیزہ اور وہاں کی مجلسیں اتنی شائستہ ہوں گی کہ نہ تو کوئی شخص ناشائستہ بات اپنی زبان سے نکالے گا اور نہ کسی کو بیہودہ بات سننے کے لیے سمع خراشی کرنا ہوگی۔ دنیا کے موجودہ ماحول سے جہاں فحش باتوں اور لغو گانوں سے اپنے کانوں کو محفوظ رکھنا ممکن نہیں رہا ہے جنت کا ماحول بالکل مختلف اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا حامل ہوگا اور یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوگی جو پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو نصیب ہوگی۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنت میں چشموں کا رواں ہونا ایک تو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کی سر سبزی و شادابی کبھی ختم ہونے والی نہیں اور دوسرے اس بات کی طرف کہ پانی اور دوسرے اعلیٰ قسم کے مشروبات وہاں وافر مقدار میں مہیّا ہوں گے۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اونچے اور شاندار تخت شاہانہ زندگی کی علامت ہیں اور اہل جنت کو ایسی ہی زندگی نصیب ہوتی۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پیالے یا گلاس سامنے رکھے ہوۓ ہوں گے۔ انہیں جنت کے مشروبات پینے کے لیے کوئی زحمت کرنا نہیں ہوگی۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہل جنت کی زندگی کیسی آسائش کی زندگی ہوگی۔ اور ان کے لیے کیسا وافر اور نفیس سامان آرائش وہاں موجود ہو گا۔

 

اوپر کی آیات میں جنت کی جو تصویر پیش کی گئی ہے اس سے جنت کا صحیح اور صاف ستھرا تصور کرنے کے لیے کافی ہے۔ رہی اس کی اصل حقیقت تو عالم آخرت کی چیزوں کو ہم مادی پیمانوں سے ناپ نہیں سکتے اس لیے اس پر بحثیں کھڑی کرنا بالکل نے سود ہے۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر قیمات اور جنت و دوزخ کا جو ذکر ہوا اس کا انکار کرنے والوں کی یہاں دعوت فکر دی گئی ہے۔ اور اس سلسلہ میں گرد و پیش کی چیزوں کی طرف انہیں متوجہ کیا گیا ہے۔ صحراۓ عرب میں دورانِ سفر ان کی نگاہ سب سے پہلے اونٹ پر پڑتی تھی اس لیے انہیں سب سے پہلے اس پر غور کرنے کی دوت دی گئی ہے کہ کیا یہ دیکھتے نہیں کہ یہ جانور کن خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔؟ جن خصوصیات کی صحرائی زندگی کے لیے ضرورت تھی ٹھیک ان خصوصیات کے ساتھ اونٹوں کا پیدا کیا جاتا کیا اللہ کی صفت قدرت ، ربوبیت اور حکمت پر دلالت نہیں کرتا ؟

 

صحرا میں اونٹ پر سفر کرنے والوں کو آسمان ، پہاڑ ، اور زمین نظر آتے ہیں اس لیے ان سے کہا گیا کہ ان ہی چیزوں پر غور کریں کہ کیا یہ بلند آسمان اللہ کی عظیم قدرت کی شہادت نہیں دیتا اور کیا یہ پہاڑ جو زمین پر کھڑے کر دیے گۓ ہیں اس کی محکم کاریگری اور صناعی کا نشان نہیں ہیں اور کیا یہ زمین جسے اس طرح بچھا دیا گیا ہے کہ وہ اربوں انسانوں کے بسنے کے قابل ہو گئی اس کی ربوبیت اور حکمت پر دلالت نہیں کرتی ؟ اگر یہ سب کچھ صحیح ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور  عقل کہتی ہے کہ یہی بات صحیح ہے۔ تو پھر اس خدا کے لیے قیامت کو برپا کرنا ، انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اور جنت و دوزخ والی دنیا بنا دینا کیا مشکل ہے ؟ اور کیا اس کی ربوبیت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ ایک دن ایسا لاۓ جس میں وہ اپنے بندوں سے حساب لے کہ انہوں نے اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر اس کی شکر گزاری کی یا نا شکری ؟ اور کیا یہ بات اس کی حکمت کے خلاف نہ ہو گی کہ انسان جیسی اعلیٰ مخلوق کی کوئی غایت نہ ہو اور اس کی تخلیق کے پیچھے سرے سے کوئی منصوبہ اور کوئی اسکیم ہی نہ ہو ؟

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پیغمبر کا کام تذکیر و دعوت اور انداز و تبلیغ ہے۔ لوگوں سے زبردستی بات منوا لینے کا کام پیغمبر کے سپرد نہیں کیا گیا ہے۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہ موڑنا یہ ہے کہ آدمی نصیحت کی بات سننا پسند نہ کرے ، قرآن کی تذکیر اس پر گراں ہو اور جب یاد دھانی کی کوئی بات اس کے سامنے آ جاۓ تو وہ اس سے عدم دلچسپی کا اظہار کرے یا کترا کر نکل جاۓ۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کفر یہ ہے کہ آدمی قرآن کی تذکیر کو قبول نہ کرے اور اس کی ہدایت اور تعلیات کو ماننے سے انکار کر دے۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی منکرین پر آخرت میں اللہ کا عذاب ایسا زبردست ہو گا کہ اس کا مقابلہ دنیا کی بڑی سے بڑی سزا سے نہیں کیا جا سکتا۔ مگر قرآن کی اس واضح تنبیہ کے باوجود جو لوگ کفر کی راہ اختیار کریں انہیں اس انجام کو پہنچنے سے کون بچا سکتا ہے !

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی طرف واپسی کا مطلب یہ ہے کہ سب کو ایک دن اسی کے حضور حاضر ہونا ہے کسی اور کے حضور نہیں پھر یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ آدمی اس فکر ہی سے بے نیاز ہو جاۓ کہ اسے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن جب اللہ کے حضور تمام لوگوں کی حاضری ہوگی تو وہ ہر ایک سے حساب لے گا۔ اس  وقت ان لوگوں کو جنہوں نے پیغمبر کی نصیحت پر کان نہیں دھرا اور قرآن کی رہنمائی کو قبول کنے سے انکار کرتے رہے سخت جواب دہی کرنا ہوگی۔