۱ سورۂ مؤمنون مکیّہ ہے، اس میں چھ ۶رکوع اور ایک سو اٹھارہ آیتیں ہیں اور ایک ہزار آٹھ سو چالیس ۱۸۴۰ کلمے اور چار ہزار آٹھ سو دو حرف ہیں۔
۲ ان کے دلوں میں خدا کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکِن ہوتے ہیں۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ نماز میں خشوع یہ ہے کہ اس میں دل لگا ہوا اور دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور گوشۂ چشم سے کسی طرف نہ دیکھے اور کوئی عبث کام نہ کرے اور کوئی کپڑا شانوں پر نہ لٹکائے اس طرح کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے نہ ہوں اور انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کے حرکات سے باز رہے۔ بعض نے فرمایا کہ خشوع یہ ہے کہ آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے۔
۳ ہر لہو و باطل سے مُجتنِب رہتے ہیں۔
۴ یعنی اس کے پابند ہیں اور مداومت کرتے ہیں۔
۵ اپنی بی بیوں اور باندیوں کے ساتھ جائز طریقے پر قربت کرنے میں۔
۶ کہ حلال سے حرام کی طرف تجاوز کرتے ہیں۔
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ ہاتھ سے قضائے شہوت کرنا حرام ہے۔ سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایک اُمّت کو عذاب کیا جو اپنی شرمگاہوں سے کھیل کرتے تھے۔
۷ خواہ وہ امانتیں اللہ کی ہوں یا خَلق کی اور اسی طرح عہد خدا کے ساتھ ہوں یا مخلوق کے ساتھ سب کی وفا لازم ہے۔
۸ اور انہیں ان کے وقتوں میں ان کے شرائط و آداب کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں۔
۹ مفسِّرین نے فرمایا کہ انسان سے مراد یہاں حضرت آدم ہیں۔
۱۲ یعنی اس میں روح ڈالی، اس بے جان کو جان دار کیا، نُطق اور سمع اور بصر عنایت کی۔
۱۵ ان سے مراد سات آسمان ہیں جو ملائکہ کے چڑھنے اترنے کے رستے ہیں۔
۱۶ سب کے اعمال، اقوال، ضمائر کو جانتے ہیں کوئی چیز ہم سے چھپی نہیں۔
۱۸ جتنا ہمارے علم و حکمت میں خَلق کی حاجتوں کے لئے چاہیے۔
۱۹ جیسا اپنی قدرت سے نازِل فرمایا ایسا ہی اس پر بھی قادر ہیں کہ اس کو زائل کر دیں تو بندوں کو چاہیے کہ اس نعمت کی شکر گزاری سے حفاظت کریں۔
۲۱ جاڑے اور گرمی وغیرہ موسموں میں اور عیش کرتے ہو۔
۲۳ یہ اس میں عجیب صفت ہے کہ وہ تیل بھی ہے کہ منافع اور فوائد تیل کے اس سے حاصل کئے جاتے ہیں، جلایا بھی جاتا ہے، دوا کے طریقہ پر بھی کام میں لایا جاتا ہے اور سالن کا بھی کام دیتا ہے کہ تنہا اس سے روٹی کھائی جا سکتی ہے۔
۲۴ یعنی دودھ خوشگوار موافقِ طبع جو لطیف غذا ہوتا ہے۔
۲۵ کہ ان کے بال، کھال، اُون وغیرہ سے کام لیتے ہو۔
۲۶ کہ انہیں ذبح کر کے کھا لیتے ہو۔
۲۹ اس کے عذاب کا جو اس کے سوا اوروں کو پوجتے ہو۔
۳۲ کہ رسول بھیجے اور مخلوق پرستی کی مُمانعت فرمائے۔
۳۳ کہ بشر بھی رسول ہوتا ہے۔ یہ ان کی کمال حماقت تھی کہ بشر کا رسول ہونا تو تسلیم نہ کیا پتھروں کو خدا مان لیا اور انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی نسبت یہ بھی کہا۔
۳۴ تا آنکہ اس کا جُنون دور ہو، ایسا ہوا تو خیر ورنہ اس کو قتل کر ڈالنا۔ جب حضرت نوح علیہ السلام ان لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوئے اور ان کے ہدایت پانے کی امید نہ رہی تو حضرت۔
۳۶ یعنی ہماری حمایت و حفاظت میں۔
۳۷ ان کی ہلاکت کا اور آثارِ عذاب نمودار ہوں۔
۳۸ اور اس میں سے پانی برآمد ہو تو یہ علامت ہے عذاب کے شروع ہونے کی۔
۴۱ یعنی اپنی مؤمنہ بی بی اور ایماندار اولاد یا تمام مؤ منین۔
۴۲ اور کلامِ ازلی میں ان کا عذاب و ہلاک معیّن ہو چکا۔ وہ آپ کا ایک بیٹا تھا کنعان نام اور ایک عورت کہ یہ دونوں کافِر تھے۔ آپ نے اپنے تین فرزندوں سام، حام، یافث اور ان کی بی بیوں کو اور دوسرے مؤمنین کو سوار کیا، کل لوگ جو کشتی میں تھی ان کی تعداد اٹھتر ۷۸ تھی نصف مرد اور نصف عورتیں۔
۴۳ اور ان کے لئے نجات نہ طلب کرنا، دعا نہ فرمانا۔
(۲۸ ) پھر جب ٹھیک بیٹھ لے کشتی پر تُو اور تیرے ساتھ والے تو کہہ سب خوبیاں اللہ کو جس نے ہمیں ان ظالموں سے نجات دی۔
۴۴ کشتی سے اترتے وقت یا اس میں سوار ہوتے وقت۔
۴۵ یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے واقعے میں اور اس میں جو دشمنانِ حق کے ساتھ کیا گیا۔
۴۶ اور عبرتیں اور نصیحتیں اور قدرتِ الٰہی کے دلائل ہیں۔
۴۷ اس قوم کے حضرت نوح علیہ السلام کو اس میں بھیج کر اور ان کو وعظ و نصیحت پر مامور فرما کر تاکہ ظاہر ہو جائے کہ نُزولِ عذاب سے پہلے کون نصیحت قبول کرتا اور تصدیق و اطاعت کرتا ہے اور کون نافرمان تکذیب و مخالفت پر مُصِر رہتا ہے۔
۴۸ یعنی قومِ نوح کے عذاب و ہلاک کے۔
۵۰ یعنی ہود علیہ السلام اور ان کی معرفت اس قوم کو حکم دیا۔
۵۱ اس کے عذاب کا کہ شرک چھوڑو اور ایمان لاؤ۔
۵۲ اور وہاں کے ثواب و عذاب وغیرہ۔
۵۳ یعنی بعض کُفّار جنہیں اللہ تعالیٰ نے فراخیِ عیش اور نعمتِ دنیا عطا فرمائی تھی اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کے نسبت اپنی قوم کے لوگوں سے کہنے لگے۔
۵۴ یعنی یہ اگر نبی ہوتے تو ملائکہ کی طرح کھانے پینے سے پاک ہوتے۔ ان باطن کے اندھوں نے کمالاتِ نبوّت کو نہ دیکھا اور کھانے پینے کے اوصاف دیکھ کر نبی کو اپنی طرح بشر کہنے لگے، یہ بنیاد ان کی گمراہی کی ہوئی چنانچہ اسی سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ آپس میں کہنے لگے۔
(۳۴ ) اور اگر تم کسی اپنے جیسے آدمی کی اطاعت کرو جب تو تم ضرور گھاٹے میں ہو۔
۵۶ یعنی انہوں نے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو بہت بعید جانا اور سمجھا کہ ایسا کبھی ہونے والا ہی نہیں اور اسی خیالِ باطل کی بنا پر کہنے لگے۔
۵۷ اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اس دنیوی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں صرف اتنا ہی ہے۔
۵۸ کہ ہم میں کوئی مرتا ہے، کوئی پیدا ہوتا ہے۔
۵۹ مرنے کے بعد اور اپنے رسولِ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت انہوں نے یہ کہا۔
۶۰ کہ اپنے آپ کو اس کا نبی بتایا اور مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کی خبر دی۔
۶۱ پیغمبر علیہ السلام جب ان کے ایمان سے مایوس ہوئے اور انہوں نے دیکھا کہ قوم انتہائی سرکشی پر ہے تو ان کے حق میں بددعا کی اور بارگاہِ الٰہی میں۔
۶۲ اپنے کُفر و تکذیب پر جب کہ عذابِ الٰہی دیکھیں گے۔
۶۳ یعنی وہ عذاب و ہلاک میں گرفتار کئے گئے۔
۶۴ یعنی وہ ہلاک ہو کر گھاس کوڑے کی طرح ہو گئے۔
۶۵ یعنی خدا کی رحمت سے دور ہوں انبیاء کی تکذیب کرنے والے۔
۶۶ مثل قومِ صالح اور قومِ لوط اور قومِ شعیب وغیرہ کے۔
۶۷ جس کے لئے ہلاک کا جو وقت مقرر ہے وہ ٹھیک اسی وقت ہلاک ہو گی اس میں کچھ بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی۔
۶۸ اور اس کی ہدایت کو نہ مانا اور اس پر ایمان نہ لائے۔
۶۹ اور بعد والوں کو پہلوں کی طرح ہلاک کر دیا۔
۷۰ کہ بعد والے افسانہ کی طرح انکا حال بیان کیا کریں اور ان کے عذاب و ہلاک کا بیان سببِ عبرت ہو۔
۷۱ مثل عصا و یدِ بیضا وغیرہ معجزات۔
۷۲ اور اپنے تکبُّر کے باعث ایمان نہ لائے۔
۷۳ بنی اسرائیل پر اپنے ظلم و ستم سے جب حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام نے انہیں ایمان کی دعوت دی۔
۷۴ یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون پر۔
۷۵ یعنی بنی اسرائیل ہمارے زیرِ فرمان ہیں تو یہ کیسے گوارا ہوکہ اسی قوم کے دو۲ آدمیوں پر ایمان لا کر ان کے مطیع بن جائیں۔
۷۷ یعنی توریت شریف فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کے بعد۔
۷۸ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو۔
۷۹ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا فرما کر اپنی قدرت کی۔
۸۰ اس سے مراد یا بیت المقدس ہے یا دمشق یا فلسطین، کئی قول ہیں۔
۸۱ یعنی زمین ہموار، فراخ، پھلوں والی جس میں رہنے والے بآسائش بسر کرتے ہیں۔
۸۲ یہاں پیغمبروں سے مراد یا تمام رسول ہیں اور ہر ایک رسول کو ان کے زمانہ میں یہ ندا فرمائی گئی یا رسولوں سے مراد خاص سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام، کئی قول ہیں۔
۸۵ اور فرقے فرقے ہو گئے یہودی، نصرانی، مجوسی وغیرہ۔
۸۶ اور اپنے ہی آپ کو حق پر جانتا ہے اور دوسروں کو باطل پر سمجھتا ہے اس طرح ان کے درمیان دینی اختلافات ہیں، اب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خطاب ہوتا ہے۔
۸۷ یعنی ان کے کُفر و ضلال اور ان کی جہالت و غفلت میں۔
۹۰ اور ہماری یہ نعمتیں ان کے اعمال کی جزاء ہیں یا ہمارے راضی ہونے کی دلیل ہیں، ایسا خیال کرنا غلط ہے واقعہ یہ نہیں ہے۔
۹۱ کہ ہم انہیں ڈھیل دے رہے ہیں۔
۹۲ انہیں اس کے عذاب کا خوف ہے۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مؤمن نیکی کرتا ہے اور خدا سے ڈرتا ہے اور کافِر بدی کرتا ہے اور نڈر رہتا ہے۔
۹۳ اور اس کی کتابوں کو مانتے ہیں۔
۹۴ زکوٰۃ و صدقات یا یہ معنیٰ ہیں کہ اعمالِ صالحہ بجا لاتے ہیں۔
۹۵ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ حضرت اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ کیا اس آیت میں ان لوگوں کا بیان ہے جو شرابیں پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں ؟ فرمایا اے صدیق کی نور دیدہ ایسا نہیں یہ ان لوگوں کا بیان ہے جو روزے رکھتے ہیں، صدقے دیتے ہیں اور ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ اعمال نا مقبول نہ ہو جائیں۔
۹۶ یعنی نیکیوں کو، معنیٰ یہ ہیں کہ وہ نیکیوں اور اُمّتوں پر سبقت کرتے ہیں۔
۹۷ اس میں ہر شخص کا عمل مکتوب ہے اور وہ لوحِ محفوظ ہے۔
۹۸ نہ کسی کی نیکی گھٹائی جائے گی نہ بدی بڑھائی جائے گی، اس کے بعد کُفّار کا ذکر فرمایا جاتا ہے۔
۱۰۰ جو ایمانداروں کے ذکر کئے گئے۔
۱۰۱ اور وہ روز بروز تہ تیغ کئے گئے اور ایک قول یہ ہے کہ اس عذاب سے مراد فاقوں اور بھوک کی وہ مصیبت ہے جو سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا سے ان پر مسلّط کی گئی تھی اور اس قحط سے ان کی حالت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ وہ کتّے اور مردار تک کھا گئے تھے۔
۱۰۴ اور ان آیات کو نہ مانتے تھے اور ان پر ایمان نہ لاتے تھے۔
۱۰۵ اور یہ کہتے ہوئے کہ ہم اہلِ حرم ہیں اور بیت اللہ کے ہمسایہ ہیں، ہم پر کوئی غالب نہ ہو گا ہمیں کسی کا خوف نہیں۔
۱۰۶ کعبۂ معظّمہ کے گرد جمع ہو کر اور ان کہانیوں میں اکثر قرآن پاک پر طعن اور اس کو سحر اور شعر کہنا اور سید عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں بے جا باتیں کہنا ہوتا تھا۔
۱۰۷ یعنی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور آپ پر ایمان لانے کو اور قرآنِ کریم کو۔
۱۰۸ یعنی قرآنِ پاک میں غور نہیں کیا اور اس کے اعجاز پر نظر نہیں ڈالی جس سے انہیں معلوم ہوتا کہ یہ کلام حق ہے اس کی تصدیق لازم ہے اور جو کچھ اس میں ارشاد فرمایا گیا وہ سب حق اور واجب التسلیم ہے اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صدق و حقانیت پر اس میں دلالاتِ واضحہ موجود ہیں۔
۱۰۹ یعنی رسول کا تشریف لانا ایسی نرالی بات نہیں ہے جو کبھی پہلے عہد میں ہوئی ہی نہ ہو اور وہ یہ کہہ سکیں کہ ہمیں خبر ہی نہ تھی کہ خدا کی طرف سے رسول آیا بھی کرتے ہیں، کبھی پہلے کوئی رسول آیا ہوتا اور ہم نے اس کا تذکرہ سنا ہوتا تو ہم کیوں اس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہ مانتے، یہ عذر کرنے کا موقع بھی نہیں ہے کیونکہ پہلی اُمّتوں میں رسول آچکے ہیں اور خدا کی کتابیں نازِل ہو چکی ہیں۔
۱۱۰ اور حضور کی عمر شریف کے جملہ احوال کو نہ دیکھا اور آپ کے نسبِ عالی اور صدق و امانت اور وفورِ عقل و حسنِ اخلاق اور کمالِ حلم اور وفا و کرم و مُروّت وغیرہ پاکیزہ اخلاق و محاسنِ صفات اور بغیر کسی سے سیکھے آپ کے علم میں کامل اور تمام جہان سے اعلم اور فائق ہونے کو نہ جانا کیا ایسا ہے ؟۔
۱۱۱ حقیقت میں یہ بات تو نہیں بلکہ وہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور آپ کے اوصاف و کمالات کو خوب جانتے ہیں اور آپ کے برگزیدہ صفات شہرۂ آفاق ہیں۔
۱۱۲ یہ بھی سرا سر غلط اور باطل ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ جیسا دانا اور کامل العقل شخص ان کے دیکھنے میں نہیں آیا۔
۱۱۳ یعنی قرآنِ کریم جو توحیدِ الٰہی و احکامِ دین پر مشتمل ہے۔
۱۱۴ کیونکہ اس میں ان کے خواہشاتِ نفسانیہ کی مخالفت ہے اس لئے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے صفات و کمالات کو جاننے کے باوجود حق کی مخالفت کرتے ہیں۔ اکثر کی قید سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حال ان میں بیشتر لوگوں کا ہے چنانچہ بعض ان میں ایسے بھی تھے جو آپ کو حق پر جانتے تھے اور حق انہیں بُرا بھی نہیں لگتا تھا لیکن وہ اپنی قوم کی موافقت یا اُن کے طعن و تشنیع کے خوف سے ایمان نہ لائے جیسے کہ ابو طالب۔
۱۱۶ اس طرح کہ اس میں وہ مضامین مذکور ہوتے جن کی کُفّار خواہش کرتے ہیں جیسے کہ چند خدا ہونا اور خدا کے بیٹا اور بیٹیاں ہونا وغیرہ کُفریات۔
۱۱۷ اور تمام عالم کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔
۱۱۹ انہیں ہدایت کرنے اور راہِ حق بتانے پر۔ ایسا تو نہیں اور وہ کیا ہیں اور آپ کو کیا دے سکتے ہیں تم اگر اجر چاہو۔
۱۲۰ اور اس کا فضل آپ پر عظیم اور جو جو نعمتیں اس نے آپ کو عطا فرمائی وہ بہت کثیر اور اعلیٰ تو آپ کو ان کی کیا پرواہ پھر جب وہ آپ کے اوصاف و کمالات سے واقف بھی ہیں، قرآنِ پاک کا اعجاز بھی ان کی نگاہوں کے سامنے ہے اور آپ ان سے ہدایت و ارشاد کا کوئی اجر و عوض بھی طلب نہیں فرماتے تو اب انہیں ایمان لانے میں کیا عذر رہا۔
۱۲۱ تو ان پر لازم ہے کہ آپ کی دعوت قبول کریں اور اسلام میں داخل ہوں۔
۱۲۴ یعنی اپنے کُفر و عناد اور سرکشی کی طرف لوٹ جائیں گے اور یہ تملُّق و چاپلوسی جاتی رہے گی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مؤمنین کی عداوت اور تکبُّر جو ان کا پہلا طریقہ تھا وہی اختیار کریں گے۔ شانِ نُزول : جب قریش سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا سے سات برس کے قحط میں مبتلا ہوئے اور حالت بہت ابتر ہو گئی تو ابوسفیان ان کی طرف سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کیا آپ اپنے خیال میں رحمۃ للعالمین بنا کر نہیں بھیجے گئے ؟ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک، ابوسفیان نے کہا کہ بڑوں کو تو آپ نے بدر میں تہِ تیغ کر دیا اولاد جو رہی وہ آپ کی بددعا سے اس حالت کو پہنچی کہ مصیبت قحط میں مبتلا ہوئی، فاقوں سے تنگ آگئی، لوگ بھوک کی بے تابی سے ہڈیاں چاپ گئے، مُردار تک کھا گئے میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں اور قرابت کی، آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہم سے اس قحط کو دور فرمائے۔ حضور نے دعا کی اور انہوں نے اس بلا سے رہائی پائی۔ اس واقعہ کے متعلق یہ آیتیں نازِل ہوئیں۔
۱۲۶ بلکہ اپنے تمرُّد و سرکشی پر ہیں۔
۱۲۷ اس عذاب سے یا قحط سالی مراد ہے جیسا کہ روایتِ مذکور ہ شانِ نُزول کا مقتضیٰ ہے یا روزِ بدر کا قتل، یہ اس قول کی بنا پر ہے کہ واقعۂ قحط واقعۂ بدر سے پہلے ہوا اور بعض مفسِّرین نے کہا کہ اس سخت عذاب سے موت مراد ہے، بعض نے کہا کہ قیامت۔
۱۲۸ تاکہ سنو اور دیکھو اور سمجھو اور دینی اور دنیوی منافع حاصل کرو۔
۱۲۹ کہ تم نے ان نعمتوں کی قدر نہ جانی اور ان سے فائدہ نہ اٹھایا اور کانوں، آنکھوں اور دلوں سے آیاتِ الٰہیہ کے سننے، دیکھنے، سمجھنے اور معرفتِ الٰہی حاصل کرنے اور مُنعمِ حقیقی کا حق پہچان کر شکر گزار بننے کا نفع نہ اٹھایا۔
۱۳۱ ان میں سے ہر ایک کا دوسرے کے بعد آنا اور تاریکی و روشنی اور زیادتی و کمی میں ہر ایک کا دوسرے سے مختلف ہونا یہ سب اس کی قدرت کے نشان ہیں۔
۱۳۲ کہ ان سے عبرت حاصل کرو اور ان میں خدا کی قدرت کا مشاہدہ کر کے مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو تسلیم کرو اور ایمان لاؤ۔
۱۳۴ جن کی کچھ بھی حقیقت نہیں۔ کُفّار کے اس مقولہ کا رد فرمانے اور ان پر حُجُّت قائم فرمانے کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ارشاد فرمایا۔
۱۳۵ اس کے خالِق و مالک کو تو بتاؤ۔
۱۳۶ کیونکہ بجُز اس کے کوئی جواب ہی نہیں اور مشرکین اللہ تعالیٰ کی خالقیت کے مُقِر بھی ہیں جب وہ یہ جواب دیں۔
۱۳۷ کہ جس نے زمین کو اور اس کی کائنات کو ابتداءً پیدا کیا وہ ضرور مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔
۱۳۸ اس کے غیر کو پوجنے اور شرک کرنے سے اور اس کے مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہونے کا انکار کرنے سے۔
۱۳۹ اور ہر چیز پر حقیقی قدرت و اختیار کس کا ہے ؟۔
۱۴۱ یعنی کس شیطانی دھوکے میں ہو کہ توحید و طاعتِ الٰہی کو چھوڑ کر حق کو باطل سمجھ رہے ہو جب تم اقرار کرتے ہو کہ قدرتِ حقیقی اسی کی ہے اور اس کے خلاف کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا تو دوسرے کی عبادت قطعاً باطل ہے۔
۱۴۲ کہ اللہ کے نہ اولاد ہو سکتی ہے نہ اس کا شریک یہ دونوں باتیں مَحال ہیں۔
۱۴۳ جو اس کے لئے شریک اور اولاد ٹھہراتے ہیں۔
۱۴۴ وہ اس سے منزّہ ہے کیونکہ نوع اور جنس سے پاک ہے اور اولاد وہی ہو سکتی ہے جو ہم جنس ہو۔
۱۴۶ اور اس کو دوسرے کے تحتِ تصرُّف نہ چھوڑتا۔
۱۴۷ اور دوسرے پر اپنی برتری اور اپنا غلبہ پسند کرتا کیونکہ متقابل حکومتیں اسی کی مقتضی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ دو خدا ہونا باطل ہے خدا ایک ہی ہے اور ہر چیز اسی کے تحتِ تصرُّف ہے۔
۱۴۸ کہ اس کے لئے شریک اور اولاد ٹھہراتے ہیں۔
۱۵۰ اور ان کا قرین اور ساتھی نہ بنانا یہ دعا بہ طریقِ تواضع و اظہارِ عبدیت ہے باوجودیکہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان کا قرین اور ساتھی نہ کریگا اسی طرح انبیائے معصومین استغفار کیا کرتے ہیں باوجود یکہ انہیں اپنی مغفرت اور اکرامِ خداوندی کا علم یقینی ہوتا ہے، یہ سب بہ طریقِ تواضع و اظہارِ بندگی ہے۔
۱۵۱ یہ جواب ہے ان کُفّار کا جو عذابِ موعود کا انکار کرتے اور اس کی ہنسی اڑاتی تھے انہیں بتایا گیا کہ اگر تم غور کرو تو سمجھ لو گے کہ اللہ تعالیٰ اس وعدہ کے پورا کرنے پر قادر ہے پھر وجہِ انکار اور سببِ استہزاء کیا اور عذاب میں جو تاخیر ہو رہی ہے اس میں اللہ کی حکمتیں ہیں کہ ان میں سے جو ایمان لانے والے ہیں وہ ایمان لے آئیں اور جن کی نسلیں ایمان لانے والی ہیں ان سے وہ نسلیں پیدا ہو لیں۔
۱۵۲ اس جملۂ جمیلہ کے معنیٰ بہت وسیع ہیں، اس کے یہ معنیٰ بھی ہیں کہ توحید جو اعلیٰ بہتری ہے اس سے شرک کی برائی کو دفع فرمائے اور یہ بھی کہ طاعت و تقویٰ کو رواج دے کر معصیت اور گناہ کی برائی دفع کیجئے اور یہ بھی کہ اپنے مکارمِ اخلاق سے خطا کاروں پر اس طرح عفو و رحمت فرمائے جس سے دین میں کوئی سُستی نہ ہو۔
۱۵۳ اللہ اور اس کے رسول کی شان میں، تو ہم اس کا بدلہ دیں گے۔
۱۵۴ جن سے وہ لوگوں کو فریب دے کر معاصی اور گناہوں میں مبتلا کرتے ہیں۔
۱۵۵ یعنی کافِر وقتِ موت تک تو اپنے کُفر و سرکشی اور خدا اور رسول کی تکذیب اور مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کے انکار پر مُصِر رہتا ہے اور جب موت کا وقت آتا ہے اور اس کو جہنّم میں اس کا جو مقام ہے دکھایا جاتا ہے اور جنّت کا وہ مقام بھی دکھایا جاتا ہے کہ اگر وہ ایمان لاتا تو یہ مقام اسے دیا جاتا۔
۱۵۷ اور اعمالِ نیک بجا لا کر اپنی تقصیرات کا تدارُک کروں اس پر اس کو فرمایا جائے گا۔
۱۵۸ حسرت و ندامت سے یہ ہونے والی نہیں اور اس کا کچھ فائدہ نہیں۔
۱۵۹ جو انہیں دنیا کی طرف واپس ہونے سے مانع ہے اور وہ موت ہے۔ (خازن) بعض مفسِّرین نے کہا کہ برزخ وقتِ موت سے وقتِ بعث تک کی مدت کو کہتے ہیں۔
۱۶۰ پہلی مرتبہ جس کو نفخۂ اُولیٰ کہتے ہیں جیسا کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے۔
۱۶۱ جن پر دنیا میں فخر کیا کرتے تھے اور آپس کے نسبی تعلقات منقطع ہو جائیں گے اور قرابت کی مَحبتیں باقی نہ رہیں گی اور یہ حال ہو گا کہ آدمی اپنے بھائی اور ماں اور باپ اور بی بی اور بیٹوں سے بھاگے گا۔
۱۶۲ جیسے کہ دنیا میں پوچھتے تھے کیونکہ ہر ایک اپنے ہی حال میں مبتلا ہو گا پھر دوسری بار صُور پھُونکا جائے گا اور بعدِ حساب لوگ ایک دوسرے کا حال دریافت کریں گے۔
۱۶۳ اعمالِ صالحہ اور نیکیوں سے۔
۱۶۴ نیکیاں نہ ہونے کے باعث اور وہ کُفّار ہیں۔
۱۶۵ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ آگ ان کو بھون ڈالے گی اور اوپر کا ہونٹ سُکڑ کر نصف سر تک پہنچے گا اور نیچے کا ناف تک لٹک جائے گا، دانت کھلے رہ جائیں گے (خدا کی پناہ) اور ان سے فرمایا جائے گا۔
۱۶۷ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ دوزخی لوگ جہنّم کے داروغہ مالک کو چالیس برس تک پکارتے رہیں گے اس کے بعد وہ کہے گا کہ تم جہنّم ہی میں پڑے رہو گے پھر وہ پروردگار کو پکاریں گے اور کہیں گے اے ربّ ہمارے ہمیں دوزخ سے ا ور یہ پکار ان کی دنیا سے دونی عمر کی مدّت تک جاری رہے گی، اس کے بعد انہیں یہ جواب دیا جائے گا جو اگلی آیت میں ہے (خازن) اور دنیا کی عمر کتنی ہے، اس میں کئی قول ہیں بعض نے کہا کہ دنیا کی عمر سات ہزار برس ہے، بعض نے کہا بارہ ہزار برس، بعض نے کہا تین لاکھ ساٹھ برس واللہ تعالیٰ اعلم (تذکرہ قرطبی)۔
۱۶۸ اب ان کی امیدیں منقطع ہو جائیں گی اور یہ اہلِ جہنّم کا آخر کلام ہو گا پھر اس کے بعد انہیں کلام کرنا نصیب نہ ہو گا، روتے، چیختے، ڈکراتے، بھونکتے رہیں گے۔
۱۶۹ شانِ نُزول : یہ آیتیں کُفّارِ قریش کے حق میں نازِل ہوئیں جو حضرت بلال و حضرت عمار و حضرت صہیب و حضرت خبّاب وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم فقراء اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تمسخُر کرتے تھے۔
۱۷۰ یعنی ان کے ساتھ تمسخُر کرنے میں اتنے مشغول ہوئے کہ۔
۱۷۲ یعنی دنیا میں اور قبر میں۔
۱۷۳ یہ جواب اس وجہ سے دیں گے کہ اس دن کی دہشت اور عذاب کی ہیبت سے انہیں اپنے دنیا میں رہنے کی مدّت یاد نہ رہے گی اور انہیں شک ہو جائے گا اسی لئے کہیں گے۔
۱۷۴ یعنی ان ملائکہ سے جن کو تو نے بندوں کی عمریں اور ان کے اعمال لکھنے پر مامور کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے۔
۱۷۶ اور آخرت میں جزا کے لئے اٹھنا نہیں بلکہ تمہیں عبادت کے لئے پیدا کیا کہ تم پر عبادت لازم کریں اور آخرت میں تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ تو تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دیں۔
۱۷۷ یعنی غیر اللہ کی پرستِش مَحض باطل بے سند ہے۔