۱ سورۂ فرقان مکّیہ ہے اس میں چھ رکوع اور ستتر ۷۷ آیتیں اور آٹھ سو بانوے کلمے اور تین ہزار سات سو تین حرف ہیں۔
۲ یعنی سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر۔
۳ اس میں حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عمومِ رسالت کا بیان ہے کہ آپ تمام خَلق کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے جِن ہوں یا بشر یا فرشتے یا دیگر مخلوقات سب آپ کے اُمّتی ہیں کیونکہ عالَم ماسوی اللہ کو کہتے ہیں اس میں یہ سب داخل ہیں ملائکہ کو اس سے خارج کرنا جیسا کہ جلالین میں شیخ محلی سے اور کبیر میں امام رازی سے اور شعب الایمان میں بہیقی سے صادر ہوا بے دلیل ہے اور دعویِٰ اجماع غیر ثابت چنانچہ امام سبکی و بازری و ابنِ حزم و سیوطی نے اس کا تعاقب کیا اور خود امام رازی کو تسلیم ہے کہ عالَم ماسوی اللہ کو کہتے ہیں پس وہ تمام خَلق کو شامل ہے ملائکہ کو اس سے خارج کرنے پر کوئی دلیل نہیں۔
علاوہ بریں مسلم شریف کی حدیث ہے اُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَآفَّۃً یعنی میں تمام خَلق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا۔ علامہ علی قاری نے مرقات میں اس کی شرح میں فرمایا یعنی تمام موجودات کی طرف جِن ہوں یا انسان یا فرشتے یا حیوانات یا جمادات۔ اس مسئلہ کی کامل تنقیح و تحقیق شرح و بسط کے ساتھ امام قسطلانی کی مواہبِ لدنیہ میں ہے۔
۴ اس میں یہود و نصاریٰ کا رد ہے جو حضرت عزیز و مسیح علیہما السلام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں معاذ اللہ۔
۵ اس میں بُت پرستوں کا رد ہے جو بُتوں کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں۔
۶ یعنی بُت پرستوں نے بُتوں کو خدا ٹھہرایا جو ایسے عاجز و بے قدرت ہیں۔
۷ یعنی نضر بن حارث اور اس کے ساتھی قرآنِ کریم کی نسبت کہ۔
۸ یعنی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے۔
۹ اور لوگوں سے نضر بن حارث کی مراد یہودی تھے اور عداس و یسار وغیرہ اہلِ کتاب۔
۱۰ نضر بن حارث وغیرہ مشرکین جو یہ بے ہودہ بات کہنے والے تھے۔
۱۱ وہی مشرکین قرآنِ کریم کی نسبت کہ یہ رستم و اسفند یار وغیرہ کے قِصّوں کی طرح۔
۱۲ یعنی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے۔
۱۳ یعنی قرآنِ کریم علومِ غیبی پر مشتمل ہے یہ دلیل صریح ہے اس کی کہ وہ حضرت علَّام الغیوب کی طرف سے ہے۔
۱۴ اسی لئے کُفّار کو مہلت دیتا ہے اور عذاب میں جلدی نہیں فرماتا۔
۱۶ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ آپ نبی ہوتے تو نہ کھاتے نہ بازاروں میں چلتے اور یہ بھی نہ ہوتا تو۔
۱۷ اور ان کی تصدیق کرتا اور ان کی نبوّت کی شہادت دیتا۔
۲۰ اور معاذ اللہ اس کی عقل بجا نہ رہی، ایسی طرح طرح کی بے ہودہ باتیں انہوں نے بکیں۔
۲۱ یعنی جلد آپ کو اس خزانے اور باغ سے بہتر عطا فرماوے جو یہ کافِر کہتے ہیں۔
۲۲ ایک بر س کی راہ سے یا سو برس کی راہ سے دونوں قول ہیں اور آگ کا دیکھنا کچھ بعید نہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کو حیات و عقل اور رویت عطا فرمائے اور بعض مفسِّرین نے کہا کہ مراد ملائکۂ جہنّم کا دیکھنا ہے۔
۲۳ جو نہایت کرب و بے چینی پیدا کرنے والی ہو۔
۲۴ اس طرح کہ ان کے ہاتھ گردنوں سے ملا کر باندھ دیئے گئے ہوں یا اس طرح کہ ہر ہر کافِر اپنے اپنے شیطان کے ساتھ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو۔
۲۵ اور واثبوراہ واثبوراہ کا شور مچائیں گے بایں معنیٰ کہ ہائے اے موت آ جا۔ حدیث شریف میں ہے کہ پہلے جس شخص کو آتشی لباس پہنایا جائے گا وہ ابلیس ہے اور اس کی ذُرِّیَّت اس کے پیچھے ہو گی اور یہ سب موت موت پکارتے ہوں گے ان سے۔
۲۶ کیونکہ تم طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کئے جاؤ گے۔
۲۷ عذاب اور احوالِ جہنم جس کا ذکر کیا گیا۔
۲۸ یعنی مانگنے کے لائق یا وہ جو مؤمنین نے دنیا میں یہ عرض کر کے مانگا۔رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیاحَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً یا یہ عرض کر کے رَبَّنَا وَ اٰتِنَامَا وَ عَدْتَّنَا عَلیٰ رُسُلِکَ ۔
۳۰ یعنی ان کے باطل معبودوں کو خواہ ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول۔ کلبی نے کہا کہ ان معبودوں سے بُت مراد ہیں انہیں اللہ تعالیٰ گویائی دے گا۔
۳۱ اللہ تعالیٰ حقیقتِ حال کا جاننے والا ہے اس سے کچھ بھی مخفی نہیں، یہ سوال مشرکین کو ذلیل کرنے کے لئے ہے کہ ان کے معبود انھیں جھٹلائیں تو ان کی حسرت و ذلّت اور زیادہ ہو۔
۳۲ اس سے کہ کوئی تیرا شریک ہو۔
۳۳ تو ہم دوسرے کو کیا تیرے غیر کے معبود بنانے کا حکم دے سکتے تھے، ہم تیرے بندے ہیں۔
۳۴ اور انہیں اموال و اولاد و طولِ عمر و صحت و سلامت عنایت کی۔
۳۵ شقی، بعد ازیں کُفّار سے فرمایا جائے گا۔
۳۶ یہ کُفّار کے اس طعن کا جواب ہے جو انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پرکیا تھا کہ وہ بازاروں میں چلتے ہیں کھانا کھاتے ہیں یہاں بتایا گیا کہ یہ امور منافیِ نبوّت نہیں بلکہ یہ تمام انبیاء کی عادتِ مستمِرّہ تھی لہٰذا یہ طعن مَحض جہل و عناد ہے۔
۳۷ شانِ نُزول : شُرَفا جب اسلام لانے کا قصد کرتے تھے تو غُرَبا کو دیکھ کر یہ خیال کرتے کہ یہ ہم سے پہلے اسلام لا چکے ان کو ہم پر ایک فضیلت رہے گی بایں خیال وہ اسلام سے باز رہتے اور شُرَفا کے لئے غُرَبا آزمائش بن جاتے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت ابوجہل و ولید بن عقبہ اور عاص بن وائل سہمی اور نضر بن حارث کے حق میں نازِل ہوئی ان لوگوں نے حضرت ابو ذر و ابنِ مسعود و عمّار ابنِ یاسر و بلال وصہیب و عامر بن فہیرہ کو دیکھا کہ پہلے سے اسلام لائے ہیں تو غرور سے کہا کہ ہم بھی اسلام لے آئیں تو انہیں جیسے ہو جائیں گے تو ہم میں اور ان میں فرق کیا رہ جائے گا ۔
اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت فُقَراء مسلمین کی آزمائش میں نازِل ہوئی جن کا کُفّارِ قریش استہزاء کرتے تھے اور کہتے تھے کہ سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اِتّباع کرنے والے یہ لوگ ہیں جو ہمارے غلام اور ارذل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازِل کی اور ان مؤمنین سے فرمایا۔ (خازن)۔
۳۸ اس فقر و شدت پر اور کُفّار کی اس بد گوئی پر۔
۳۹ اس کو جو صبر کرے اور اس کو جو بےصبری کرے۔
۴۰ کافِر ہیں حشر و بعث کے معتقد نہیں اسی لئے۔
۴۱ ہمارے لئے رسول بنا کر یا سیدِ عالم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوّت و رسالت کے گواہ بنا کر۔
۴۲ وہ خود ہمیں خبر دے دیتا کہ سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے رسول ہیں۔
۴۳ اور ان کا تکبُّر انتہا کو پہنچ گیا اور سرکشی حد سے گزر گئی کہ معجزات کا مشاہدہ کرنے کے بعد ملائکہ کے اپنے اوپر اترنے اور اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا سوال کیا۔
۴۴ یعنی موت کے دن یا قیامت کے دن۔
۴۵ روزِ قیامت فرشتے مؤمنین کو بشارت سنائیں گے اور کُفّار سے کہیں گے تمہارے لئے کوئی خوشخبری نہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ فرشتے کہیں گے کہ مؤمن کے سوا کسی کے لئے جنّت میں داخل ہونا حلال نہیں اس لئے وہ دن کُفّار کے واسطے نہایت حسرت و اندوہ اور رنج و غم کا دن ہو گا۔
۴۶ اس کلمے سے وہ ملائکہ سے پناہ چاہیں گے۔
۴۷ حالتِ کُفر میں مثل صلہ رحمی و مہمان داری و یتیم نوازی وغیرہ کے۔
۴۸ نہ ہاتھ سے چھوئے جائیں نہ ان کا سایہ ہو۔ مراد یہ ہے کہ وہ اعمال باطل کر دیئے گئے ان کا کچھ ثمرہ اور کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اعمال کی مقبولیت کے لئے ایمان شرط ہے اور وہ انہیں میسّر نہ تھا اس کے بعد اہلِ جنّت کی فضیلت ارشاد ہوتی ہے۔
۴۹ اور ان کی قرار گاہ ان مغرور متکبِّر مشرکوں سے بلند و بالا بہتر و اعلیٰ۔
۵۰ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا آسمانِ دنیا پھٹے گا اور وہاں کے رہنے والے (فرشتے) اتریں گے اور وہ تمام اہلِ زمین سے زیادہ ہیں جن و انس سب سے پھر دوسرا آسمان پھٹے گا وہاں کے رہنے والے اتریں گے وہ آسمانِ دنیا کے رہنے والوں سے اور جن و انس سب سے زیادہ ہیں اسی طرح آسمان پھٹتے جائیں گے اور ہر آسمان والوں کی تعداد اپنے ماتحتوں سے زیادہ ہے یہاں تک کہ ساتواں آسمان پھٹے گا پھر کرّوبی اتریں گے پھر حاملینِ عرش اور یہ روزِ قیامت ہو گا۔
۵۱ اور اللہ کے فضل سے مسلمانوں پر سہل۔ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کا دن مسلمانوں پر آسان کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ ان کے لئے ایک فرض نماز سے ہلکا ہو گا جو دنیا میں پڑھی تھی۔
۵۲ حسرت و ندامت سے۔ یہ حال اگرچہ کُفّار کے لئے عام ہے مگر عقبہ بن ابی معیط سے اس کا خاص تعلق ہے۔ شانِ نُزول : عقبہ بن ابی معیط اُبَیْ بن خلف کا گہرا دوست تھا حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمانے سے اس نے لَآاِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ کی شہادت دی اور اس کے بعد ابی بن خلف کے زور ڈالنے سے پھر مرتَد ہو گیا اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو مقتول ہونے کی خبر دی چنانچہ بدر میں مارا گیا۔ یہ آیت اس کے حق میں نازِل ہوئی کہ روزِ قیامت اس کو انتہا درجہ کی حسرت و ندامت ہو گی اس حسرت میں وہ اپنے ہاتھ چاب چاب لے گا۔
۵۳ جنّت و نجات کی اور ان کا اِتّباع کیا ہوتا اور ان کی ہدایت قبول کی ہوتی۔
۵۵ اور بلا و عذاب نازِل ہونے کے وقت اس سے علیٰحدگی کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ابوداؤد و ترمذی میں ایک حدیث مروی ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو دیکھنا چاہئیے کس کو دوست بناتا ہے اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم نشینی نہ کرو مگر ایمان دار کے ساتھ اور کھانا نہ کھلاؤ مگر پرہیزگار کو۔
مسئلہ : بے دین اور بد مذہب کی دوستی اور اس کے ساتھ صحبت و اختلاط اور اُلفت و احترام ممنوع ہے۔
۵۶ کسی نے اس کو سحر کہا کسی نے شعر اور وہ لوگ ایمان لانے سے محروم رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے حضور کو تسلی دی اور آپ سے مدد کا وعدہ فرمایا جیسا کہ آگے ارشاد ہوتا ہے۔
۵۷ یعنی انبیاء کے ساتھ بدنصیبوں کا یہی معمول رہا ہے۔
۵۸ جیسے کہ توریت و انجیل و زبور میں سے ہر ایک کتاب ایک ساتھ اتری تھی۔ کُفّار کا یہ اعتراض بالکل فضول اور مہمل ہے کیونکہ قرآنِ کریم کا معجِزہ و محتج بہٖ ہونا ہر حال میں یکساں ہے چاہے یکبارگی نازِل ہو یا بتدریج بلکہ بتدریج نازِل فرمانے میں اس کے اعجاز کا اور بھی کامل اظہار ہے کہ جب ایک آیت نازِل ہوئی اور تحدّی کی گئی اور خَلق کا اس کے مثل بنانے سے عاجز ہونا ظاہر ہوا پھر دوسری اتری اسی طرح اس کا اعجاز ظاہر ہوا اس طرح برابر آیت آیت ہو کر قرآنِ پاک نازِل ہوتا رہا اور ہر ہر دم اس کی بے مثالی اور خَلق کی عاجزی ظاہر ہوتی رہی غرض کُفّار کا اعتراض مَحض لغو و بے معنیٰ ہے، آیت میں اللہ تعالیٰ بتدریج نازِل فرمانے کی حکمت ظاہر فرماتا ہے۔
۵۹ اور پیام کا سلسلہ جاری رہنے سے آپ کے قلبِ مبارک کو تسکین ہوتی رہے اور کُفّار کو ہر ہر موقع پر جواب ملتے رہیں علاوہ بریں یہ بھی فائدہ ہے کہ اس کا حفظ سہل اور آسان ہو۔
۶۰ بہ زبانِ جبریل تھوڑا تھوڑا بیس یا تئیس برس کی مدّت میں یا یہ معنیٰ ہیں کہ ہم نے آیت کے بعد آیت بتدریج نازِل فرمائی اور بعض نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قراءت میں ترتیل کرنے یعنی ٹھہر ٹھہر کر بہ اطمینان پڑھنے اور قرآن شریف کو اچھی طرح ادا کرنے کا حکم فرمایا جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہوا وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً ۔
۶۱ یعنی مشرکین آپ کے دین کے خلاف یا آپ کی نبوّت میں قدح کرنے والا کوئی سوال پیش نہ کر سکیں گے۔
۶۲ حدیث شریف میں ہے کہ آدمی روزِ قیامت تین طریقے پر اٹھائے جائیں گے ایک گروہ سواریوں پر، ایک گروہ پیادہ پا اور ایک جماعت منہ کے بل گھسٹتی، عرض کیا گیا یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ منہ کے بل کیسے چلیں گے ؟ فرمایا جس نے پاؤں پر چلایا ہے وہی منہ کے بل چلائے گا۔
۶۳ یعنی قومِ فرعون کی طرف چنانچہ وہ دونوں حضرات ان کی طرف گئے اور انہیں خدا کا خوف دلایا اور اپنی رسالت کی تبلیغ کی لیکن ان بدبختوں نے ان حضرات کو جھٹلایا۔
۶۵ یعنی حضرت نوح اور حضرت ادریس کو اور حضرت شیث کو یا یہ بات ہے کہ ایک رسول کی تکذیب تمام رسولوں کی تکذیب ہے تو جب انہوں نے حضرت نوح کو جھٹلایا تو سب رسولوں کو جھٹلایا۔
۶۶ کہ بعد والوں کے لئے عبرت ہوں۔
۶۷ اور عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم اور ثمود حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ان دونوں قوموں کو بھی ہلاک کیا۔
۶۸ یہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم تھی جو بُت پرستی کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی انہوں نے سرکشی کی حضرت شعیب علیہ السلام کی تکذیب کی اور آپ کو ایذا دی، ان لوگوں کے مکان کنوئیں کے گرد تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کیا اور یہ تمام قوم مع اپنے مکانوں کے اس کنوئیں کے ساتھ زمین میں دھنس گئی۔ اس کے علاوہ اور اقوال بھی ہیں۔
۶۹ یعنی قومِ عاد و ثمود اور کنوئیں والوں کے درمیان میں بہت سی اُمّتیں ہیں جن کو انبیاء کی تکذیب کرنے کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ہلاک کیا۔
۷۰ اور حُجّتیں قائم کیں اور ان میں سے کسی کو بغیر اِنذار ہلاک نہ کیا۔
۷۱ یعنی کُفّارِ مکّہ اپنی تجارتوں میں شام کے سفر کرتے ہوئے بار بار۔
۷۲ اس بستی سے مراد سدوم ہے جو قومِ لوط کی پانچ بستیوں میں سب سے بڑی بستی تھی ان بستیوں میں ایک سب سے چھوٹی بستی کے لوگ تو اس خبیث بدکاری کے عامل نہ تھے، جس میں باقی چار بستیوں کے لوگ مبتلا تھے اسی لئے انہوں نے نجات پائی اور وہ چار بستیاں اپنی بد عملی کے باعث آسمان سے پتّھر برسا کر ہلاک کر دی گئیں۔
۷۳ کہ عبرت پکڑ تے اور ایمان لاتے۔
۷۴ یعنی مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کے قائل نہ تھی کہ انہیں آخرت کے ثواب و عذاب کی پرواہ ہوتی۔
۷۶ اس سے معلوم ہوا کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت اور آپ کے اظہارِ معجزات نے کُفّار پر اتنا اثر کیا تھا اور دینِ حق کو اس قدر واضح کر دیا تھا کہ خود کُفّار کو اقرار ہے کہ اگر وہ اپنی ہٹ پر جمے نہ رہتے تو قریب تھا کہ بُت پرستی چھوڑ دیں اور دینِ اسلام اختیار کریں یعنی دینِ اسلام کی حقانیت ان پر خوب واضح ہو چکی تھی اور شکوک و شبہات مٹا ڈالے گئے تھے لیکن وہ اپنی ہٹ اور ضد کی وجہ سے محروم رہے۔
۷۸ یہ اس کا جواب ہے کہ کُفّار نے یہ کہا تھا کہ قریب ہے کہ یہ ہمیں ہمارے خداؤں سے بہکا دیں، یہاں بتایا گیا کہ بہکے ہوئے تم خود ہو اور آخرت میں یہ تم کو خود معلوم ہو جائے گا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف بہکانے کی نسبت مَحض بےجا ہے۔
۷۹ اور اپنی خواہشِ نفس کو پُوجنے لگا اسی کا مطیع ہو گیا وہ ہدایت کس طرح قبول کرے گا۔ مروی ہے کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ ایک پتّھر کو پُوجتے تھے اور جب کہیں انہیں کوئی دوسرا پتھر اس سے اچھا نظر آتا تو پہلے کو پھینک دیتے اور دوسرے کو پوجنے لگتے۔
۸۱ یعنی وہ اپنے شدتِ عناد سے نہ آپ کی بات سنتے ہیں نہ دلائل و براہین کو سمجھتے ہیں بہرے اور ناسمجھ بنے ہوئے ہیں۔
۸۲ کیونکہ چوپائے بھی اپنے ربّ کی تسبیح کرتے ہیں اور جو انہیں کھانے کو دے اس کے مطیع رہتے ہیں اور احسان کرنے والے کو پہچانتے ہیں اور تکلیف دینے والے سے گھبراتے ہیں، نافع کی طلب کرتے ہیں، مُضِر سے بچتے ہیں، چراگاہوں کی راہیں جانتے ہیں، یہ کُفّار ان سے بھی بدتر ہیں کہ نہ ربّ کی اطاعت کرتے ہیں نہ اس کے احسان کو پہچانتے ہیں، نہ شیطان جیسے دشمن کی ضرر رسانی کو سمجھتے ہیں، نہ ثواب جیسی عظیم المنفعت چیز کے طالب ہیں، نہ عذاب جیسے سخت مُضِر مہلکہ سے بچتے ہیں۔
۸۳ کہ اس کی صنعت و قدرت کیسی عجیب ہے۔
۸۴ صبحِ صادق کے طلوع کے بعد سے آفتاب کے طلوع تک کہ اس وقت تمام زمین میں سایہ ہی سایہ ہوتا ہے نہ دھوپ ہے نہ اندھیرا ہے۔
۸۵ کہ آفتاب کے طلوع سے بھی زائل نہ ہوتا۔
۸۶ کہ طلوع کے بعد آفتاب جتنا اونچا ہوتا گیا سایہ سمٹتا گیا۔
۸۷ کہ اس میں روزی تلاش کرو اور کاموں میں مشغول ہو۔ حضرت لقمان نے اپنے فرزند سے فرمایا جیسے سوتے ہو پھر اٹھتے ہو ایسے ہی مرو گے اور موت کے بعد پھر اٹھو گے۔
۸۹ جہاں کی زمین خشکی سے بے جان ہو گئی۔
۹۰ کہ کبھی کسی شہر میں بارش ہو کبھی کسی میں، کبھی کہیں زیادہ ہو کبھی کہیں، مختلف طور پر حسبِ اقتضائے حکمت۔ ایک حدیث میں ہے کہ آسمان سے روز و شب کی تمام ساعتوں میں بارش ہوتی رہتی ہے اللہ تعالیٰ اسے جس خطہ کی جانب چاہتا ہے پھیرتا ہے اور جس زمین کو چاہتا ہے سیراب کرتا ہے۔
۹۱ اور اللہ تعالیٰ کی قدرت و نعمت میں غور کریں۔
۹۲ اور آپ پر سے اِنذار کا بار کم کر دیتے لیکن ہم نے تمام بستیوں کے اِنذار کا بار آپ ہی پر رکھا تاکہ آپ تمام جہان کے رسول ہو کر کُل رسولوں کی فضیلتوں کے جامع ہوں اور نبوّت آپ پر ختم ہو کہ آپ کے بعد پھر کوئی نبی نہ ہو۔
۹۳ کہ نہ میٹھا کھاری ہو نہ کھاری میٹھا، نہ کوئی کسی کے ذائقہ کو بدل سکے جیسے کہ دجلہ دریائے شور میں میلوں تک چلا جاتا ہے اور اس کے ذائقہ میں کوئی تغیر نہیں آتا عجب شانِ الٰہی ہے۔
۹۶ کہ اس نے ایک نطفہ سے دو قسم کے انسان پیدا کئے مذکر اور مؤنث پھر بھی کافِروں کا یہ حال ہے کہ اس پر ایمان نہیں لاتے۔
۹۸ کیونکہ بُت پرستی کرنا شیطان کو مدد دینا ہے۔
۱۰۰ کُفر و معصیت پر عذابِ جہنّم کا۔
۱۰۲ اور اس کا قُرب اور اس کی رضا حاصل کرے مراد یہ ہے کہ ایمانداروں کا ایمان لانا اور ان کا طاعتِ الٰہی میں مشغول ہونا ہی میرا اجر ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے اس پر جزا عطا فرمائے گا اس لئے کہ صُلَحائے اُمّت کے ایمان اور ان کی نیکیوں کے ثواب انہیں بھی ملتے ہیں اور ان کے انبیاء کو جن کی ہدایت سے وہ اس رتبہ پر پہنچے۔
۱۰۳ اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے کیونکہ مرنے والے پر بھروسہ کرنا عاقل کی شان نہیں۔
۱۰۴ اس کی تسبیح و تحمید کرو اس کی طاعت اور شکر بجا لاؤ۔
۱۰۵ نہ اس سے کسی کا گناہ چھپے نہ کوئی اس کی گرفت سے اپنے کو بچا سکے۔
۱۰۶ یعنی اتنی مقدار میں کیونکہ لیل و نہار اور آفتاب تو تھے ہی نہیں اور اتنی مقدار میں پیدا کرنا اپنی مخلوق کو آہستگی اور اطمینان کی تعلیم کے لئے ہے ورنہ وہ ایک لمحہ میں سب کچھ پیدا کر دینے پر قادر ہے۔
۱۰۷ سلف کا مذہب یہ ہے کہ استواء اور اس کے امثال جو وارد ہوئے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی کیفیت کے درپے نہیں ہوتے اس کو اللہ جانے۔ بعض مفسِّرین استواء کو بلندی اور برتری کے معنیٰ میں لیتے ہیں اور بعض استیلا کے معنیٰ میں لیکن قولِ اول ہی اسلم و اقویٰ ہے۔
۱۰۸ اس میں انسان کو خِطاب ہے کہ حضرت رحمٰن کے صفات مردِ عارف سے دریافت کرے۔
۱۰۹ یعنی جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مشرکین سے فرمائیں کہ۔
۱۱۰ اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ رحمٰن کو جانتے نہیں اور یہ باطل ہے جو انہوں نے براہِ عناد کہا کیونکہ لغتِ عرب کا جاننے والا خوب جانتا ہے کہ رحمٰن کے معنیٰ نہایت رحمت والا ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے۔
۱۱۱ یعنی سجدہ کا حکم ان کے لئے اور زیادہ ایمان سے دوری کا باعث ہوا۔
۱۱۲ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ بروج سے کواکبِ سبعہ سیّارہ کے منازل مراد ہیں جن کی تعداد بارہ۱۲ ہے (۱) حمل (۲) ثور (۳) جوزہ (۴) سرطان (۵) اسد (۶) سنبلہ (۷) میزان (۸) عقرب (۹) قوس (۱۰) جدی (۱۱) دلو (۱۲) حوت۔
۱۱۳ چراغ سے یہاں آفتاب مراد ہے۔
۱۱۴ کہ ان میں ایک کے بعد دوسرا آتا ہے اور اس کا قائم مقام ہوتا ہے کہ جس کا عمل رات یا دن میں سے کسی ایک میں قضا ہو جائے تو دوسرے میں ادا کرے ایسا ہی فرمایا حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اور رات اور دن کا ایک دوسرے کے بعد آنا اور قائم مقام ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کی دلیل ہے۔
۱۱۵ اطمینان و وقار کے ساتھ متواضعانہ شان سے نہ کہ متکبِّرانہ طریقہ پر، جُوتے کھٹکھٹاتے، پاؤں زور سے مارتے، اتراتے کہ یہ متکبِّرین کی شان ہے اور شرع نے اس کو منع فرمایا۔
۱۱۶ اور کوئی ناگوار کلمہ یا بےہودہ یا خلافِ ادب و تہذیب بات کہتے ہیں۔
۱۱۷ یہ سلامِ متارکت ہے یعنی جاہلوں کے ساتھ مجادلہ کرنے سے اِعراض کرتے ہیں یا یہ معنیٰ ہیں کہ ایسی بات کہتے ہیں جو درست ہو اور اس میں ایذا اور گناہ سے سالم رہیں۔ حسن بصری نے فرمایا کہ یہ تو ان بندوں کے دن کا حال ہے اور ان کی رات کا بیان آگے آتا ہے، مراد یہ ہے کہ ان کی مجلسی زندگی اور خَلق کے ساتھ معاملہ ایسا پاکیزہ ہے اور ان کی خلوت کی زندگانی اور حق کے ساتھ رابطہ یہ ہے جو آگے بیان فرمایا جاتا ہے۔
۱۱۸ یعنی نماز اور عبادت میں شب بیداری کرتے ہیں اور رات اپنے ربّ کی عبادت میں گزارتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کرم سے تھوڑی عبادت والوں کو بھی شب بیداری کا ثواب عطا فرماتا ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ جس کسی نے بعدِ عشاء دو رکعت یا زیادہ نفل پڑھے وہ شب بیداری کرنے والوں میں داخل ہے۔
مسلم شریف میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے جس نے عشا ء کی نماز بجماعت ادا کی اس نے نصف شب کے قیام کا ثواب پایا اور جس نے فجر بھی با جماعت ادا کی وہ تمام شب کے عبادت کرنے والے کی مثل ہے۔
۱۱۹ یعنی لازم جُدا نہ ہونے والا۔ اس آیت میں ان بندوں کی شب بیداری اور عبادت کا ذکر فرمانے کے بعد ان کی اس دعا کا بیان کیا اس سے یہ اظہار مقصود ہے کہ وہ باوجود کثرتِ عبادت کے اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے حضور تضرُّع کرتے ہیں۔
۱۲۰ اسراف معصیت میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ ایک بزرگ نے کہا کہ اسراف میں بھلائی نہیں، دوسرے بزرگ نے کہا نیکی میں اسراف ہی نہیں اور تنگی کرنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے حقوق کے ادا کرنے میں کمی کرے یہی حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے کسی حق کو منع کیا اس نے اِقتار کیا یعنی تنگی کی اور جس نے ناحق میں خرچ کیا اس نے اسراف کیا یہاں ان بندوں کے خرچ کرنے کا حال ذکر فرمایا جاتا ہے کہ وہ اسراف و اِقتار کے دونوں مذموم طریقوں سے بچتے ہیں۔
۱۲۱ عبدالملک بن مروان نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی بیٹی بیاہتے وقت خرچ کا حال دریافت کیا تو حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نیکی دو بدیوں کے درمیان ہے اس سے مراد یہ تھی کہ خرچ میں اعتدال نیکی ہے اور وہ اسراف و اقتار کے درمیان ہے جو دونوں بدیاں ہیں اس سے عبدالملک نے پہچان لیا کہ وہ اس آیت کے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مفسِّرین کا قول ہے کہ اس آیت میں جن حضرات کا ذکر ہے وہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحابِ کبار ہیں جو نہ لذت و تنعُّم کے لئے کھاتے، نہ خوبصورتی اور زینت کے لئے پہنتے، بھوک روکنا، ستر چھپانا، سردی گرمی کی تکلیف سے بچنا اتنا ان کا مقصد تھا۔
۱۲۳ اور اس کا خون مباح نہ کیا جیسے کہ مؤمن و معاہد اس کو۔
۱۲۴ صالحین سے ان کبائر کی نفی فرمانے میں کُفّار پر تعریض ہے جو ان بدیوں میں گرفتار تھے۔
۱۲۵ یعنی وہ شرک کے عذاب میں بھی گرفتار ہو گا اور ان معاصی کا عذاب اس عذاب پر اور زیادہ کیا جائے گا۔
۱۲۷ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر۔
۱۲۸ یعنی بعدِ توبہ نیکی اختیار کرے۔
۱۲۹ یعنی بدی کرنے کے بعد نیکی کی توفیق دے کر یا یہ معنیٰ کہ بدیوں کو توبہ سے مٹا دے گا اور ان کی جگہ ایمان و طاعت وغیرہ نیکیاں ثبت فرمائے گا۔ (مدارک) مسلم کی حدیث میں ہے کہ روزِ قیامت ایک شخص حاضر کیا جائے گا ملائکہ بحکمِ الٰہی اس کے صغیرہ گناہ ایک ایک کر کے اس کو یاد دلاتے جائیں گے وہ اقرار کرتا جائے گا اور اپنے بڑے گناہوں کے پیش ہونے سے ڈرتا ہو گا اس کے بعد کہا جائے گا کہ ہر ایک بدی کے عوض تجھ کو نیکی دی گئی، یہ بیان فرماتے ہوئے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کی بندہ نوازی اور اس کی شانِ کرم پر خوشی ہوئی اور چہرۂ اقدس پر سرور سے تبسّم کے آثار نمایاں ہوئے۔
۱۳۰ اور جھوٹوں کی مجلس سے علیٰحدہ رہتے ہیں اور ان کے ساتھ مخالطت نہیں کرتے۔
۱۳۱ اور اپنے کو لہو و باطل سے ملوث نہیں ہونے دیتے ایسی مجالس سے اعراض کرتے ہیں۔
۱۳۳ کہ نہ سوچیں نہ سمجھیں بلکہ بگوشِ ہوش سنتے ہیں اور بچشمِ بصیرت دیکھتے ہیں اور اس نصیحت سے پند پذیر ہوتے ہیں نفع اٹھاتے ہیں اور ان آیتوں پر فرمانبردارانہ گرتے ہیں۔
۱۳۴ یعنی فرحت و سرور۔ مراد یہ ہے کہ ہمیں بی بیاں اور اولاد نیک صالح متقی عطا فرما کہ ان کے حُسنِ عمل اور ان کی اطاعتِ خدا و رسول دیکھ کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی اور دل خوش ہوں۔
۱۳۵ یعنی ہمیں ایسا پرہیزگار اور ایسا عابد و خدا پرست بنا کہ ہم پرہیزگاروں کی پیشوائی کے قابل ہوں اور وہ دینی امور میں ہماری اقتدا کریں۔
مسئلہ : بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ اس میں دلیل ہے کہ آدمی کو دینی پیشوائی اور سرداری کی رغبت و طلب چاہیئے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے صالحین بندوں کے اوصاف ذکر فرمائے اس کے بعد ان کی جزا ذکر فرمائی جاتی ہے۔
۱۳۶ ملائکہ تحِیت و تسلیم کے ساتھ ان کی تکریم کریں گے یا اللہ عزوجل ان کی طرف سلام بھیجے گا۔
۱۳۷ اے سیدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اہلِ مکہ سے کہ۔