۱ سورۂ شعراء مکیّہ ہے سوائے آخر کی چار آیتوں کے جو وَالشُّعَرَآءُ یَتَّبِعھُمْ سے شروع ہوتی ہیں اس سورت میں گیارہ ۱۱ رکوع اور دو سو ستائیس ۲۲۷ آیتیں اور ایک ہزار دو سو اناسی ۱۲۷۹ کلمے اور پانچ ہزار پانچ سو چالیس۵۵۴۰ حرف ہیں۔
۲ یعنی قرآنِ پاک کی جس کا اعجاز ظاہر ہے اور جو حق کو باطل سے ممتاز کرنے والا ہے اس کے بعد سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے براہِ رحمت و کرم خطاب ہوتا ہے۔
۳ جب اہلِ مکہ ایمان نہ لائے اور انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تکذیب کی تو حضور پر ان کی محرومی بہت شاق ہوئی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتِ کریمہ نازِل فرمائی کہ آپ اس قدر غم نہ کریں۔
۴ اور کوئی معصیت و نافرمانی کے ساتھ گردن نہ اٹھا سکے۔
۵ یعنی دم بدم ان کا کُفر بڑھتا جاتا ہے کہ جو موعظت و تذکیر اور جو وحی نازِل ہوتی ہے وہ اس کا انکار کرتے چلے جاتے ہیں۔
۶ یہ وعید ہے اور اس میں انذار ہے کہ روزِ بدر یا روزِ قیامت جب انہیں عذاب پہنچے گا تب انہیں خبر ہو گی کہ قرآن اور رسول کی تکذیب کا یہ انجام ہے۔
۷ یعنی قِسم قِسم کے بہترین اور نافع نباتات پیدا کئے اور شعبی نے کہا کہ آدمی زمین کی پیداوار ہیں جو جنّتی ہے وہ عزّت والا اور کریم اور جو جہنّمی ہے وہ بدبخت لئیم ہے۔
۸ اللہ تعالیٰ کے کمالِ قدرت پر۔
۹ کافِروں سے انتقام لیتا اور مؤمنین پر رحمت فرماتا ہے۔
۱۰ جنہوں نے کُفر و معاصی سے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور بنی اسرائیل کو غلام بنا کر اور انہیں طرح طرح کی ایذائیں پہنچا کر ان پر ظلم کیا اس قوم کا نام قبط ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا کہ انہیں ان کی بدکرداری پر زجر فرمائیں۔
۱۱ اللہ سے اور اپنی جانوں کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اور اس کی فرمانبرداری کر کے اس کے عذاب سے نہ بچائیں گے اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں۔
۱۳ یعنی گفتگو کرنے میں کسی قدر تکلّف ہوتا ہے اس عقدہ کی وجہ سے جو زبان میں بَایّامِ صِغر سنی مُنہ میں آگ کا انگارہ رکھ لینے سے ہو گیا ہے۔
۱۴ تاکہ وہ تبلیغِ رسالت میں میری مدد کریں۔ جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شام میں نُبوّت عطا کی گئی اس وقت حضرت ہارون علیہ السلام مِصر میں تھے۔
۱۵ کہ میں نے قطبی کو مارا تھا۔
۱۷ تمہیں قتل نہیں کر سکتے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی درخواست منظور فرما کر حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبی کر دیا اور دونوں کو حکم دیا۔
۱۸ جو تم کہو اور جو تمہیں جواب دیا جائے۔
۱۹ تاکہ ہم انہیں سرزمینِ شام میں لے جائیں۔ فرعون نے چار سو برس تک بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھا تھا اور اس وقت بنی اسرائیل کی تعداد چھ لاکھ تیس ہزار ۶۳۰۰۰۰ تھی اللہ تعالیٰ کا یہ حکم پا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام مِصر کی طرف روانہ ہوئے، آپ پشمینہ کا جبہ پہنے ہوئے تھے، دستِ مبارک میں عصا تھا، عصا کے سرے میں زنبیل لٹکی تھی جس میں سفرکا توشہ تھا، اس شان سے آپ مِصر میں پہنچ کر اپنے مکان میں داخل ہوئے، حضرت ہارون علیہ السلام وہیں تھے آپ نے انہیں خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بنا کر فرعون کی طرف بھیجا ہے اور آپ کو بھی رسول بنایا ہے کہ فرعون کو خدا کی طرف دعوت دو یہ سن کر آپ کی والدہ صاحبہ گھبرائیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگیں کہ فرعون تمہیں قتل کرنے کے لئے تمہاری تلاش میں ہے جب تم اس کے پاس جاؤ گے تو تمہیں قتل کرے گا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے یہ فرمانے سے نہ رُکے اور حضرت ہارون کو ساتھ لے کر شب کے وقت فرعون کے دروازے پر پہنچے، دروازہ کھٹکھٹایا پوچھا آپ کون ہیں ؟ حضرت نے فرمایا میں ہوں موسیٰ رب العالمین کا رسول فرعون کو خبر دی گئی اور صبح کے وقت آپ بُلائے گئے آپ نے پہنچ کر اللہ تعالیٰ کی رسالت ادا کی اور فرعون کے پاس جو حکم پہنچانے پر آپ مامور کئے گئے تھے وہ پہنچایا فرعون نے آپ کو پہچانا۔
۲۰ مفسِّرین نے کہا تیس برس اس زمانہ میں حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام فرعون کے لباس پہنتے تھے اور اس کی سواریوں میں سوار ہوتے تھے اور اس کے فرزند مشہور تھے۔
۲۲ کہ تم نے ہماری نعمت کی سپاس گزاری نہ کی اور ہمارے ایک آدمی کو قتل کر دیا۔
۲۳ میں نہ جانتا تھا کہ گھونسہ مارنے سے وہ شخص مر جائے گا میرا مارنا تادیب کے لئے تھا نہ قتل کے لئے۔
۲۴ کہ تم مجھے قتل کرو گے اور شہرِ مدیَن کو چلا گیا۔
۲۵ مدیَن سے واپسی کے وقت۔ حکم سے یہاں یا نُبوّت مراد ہے یا علم۔
۲۶ یعنی اس میں تیرا کیا احسان ہے کہ تم نے میری تربیت کی اور بچپن میں مجھے رکھا، کھلایا پہنایا کیونکہ میرے تجھ تک پہنچنے کا سبب تو یہی ہوا کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنایا، ان کی اولادوں کو قتل کیا، یہ تیرا ظلمِ عظیم اس کا باعث ہوا کہ میرے والدین مجھے پرورش نہ کر سکے اور میرے دریا میں ڈالنے پر مجبور ہوئے تو ایسا نہ کرتا تو میں اپنے والدین کے پاس رہتا اس لئے یہ بات کیا اس قابل ہے کہ اس کا احسان جتایا جائے، فرعون موسیٰ علیہ السلام کی اس تقریر سے لاجواب ہوا اور اس نے اسلوبِ کلام بدلا اور یہ گفتگو چھوڑ کر دوسری بات شروع کی۔
جس کے تم اپنے آپ کو رسول بتاتے ہیں۔
۲۸ یعنی اگر تم اشیاء کو دلیل سے جاننے کی صلاحیت رکھتے ہو تو ان چیزوں کی پیدائش اس کے وجود کی کافی دلیل ہے۔ ایقان اس علم کو کہتے ہیں جو استدلال سے حاصل ہو اسی لئے اللہ تعالیٰ کی شان میں موقِن نہیں کہا جاتا۔
۲۹ اس وقت اس کے گرد اس کی قوم کے اشراف میں سے پانچ سو شخص زیوروں سے آراستہ زریں کرسیوں پر بیٹھے تھے ان سے فرعون کا یہ کہنا کیا تم غور سے نہیں سنتے بایں معنیٰ تھا کہ وہ آسمان اور زمین کو قدیم سمجھتے تھے اور ان کے حدوث کے منکِر تھے مطلب یہ تھا کہ جب یہ چیزیں قدیم ہیں تو ان کے لئے ربّ کی کیا حاجت اب حضرت موسیٰ عَلیٰ نَبیِّنا و علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے ان چیزوں سے استدلال پیش کر نا چاہا جن کا حدوث اور جن کی فنا مشاہدہ میں آ چکی ہے۔
۳۰ یعنی اگر تم دوسری چیزوں سے استدلال نہیں کر سکتے تو خود تمہارے نفوس سے استدلال پیش کیا جاتا ہے، اپنے آپ کو جانتے ہو، پیدا ہوئے ہو، اپنے باپ دادا کو جانتے ہو کہ وہ فنا ہو گئے تو اپنی پیدائش سے اور ان کی فنا سے پیدا کرنے اور فنا کر دینے والے کے وجود کا ثبوت ملتا ہے۔
۳۱ فرعون نے یہ اس لئے کہا کہ وہ اپنے سوا کسی معبود کے وجود کا قائل نہ تھا اور جو اس کے معبود ہونے کا اعتقاد نہ رکھے اس کو خارج از عقل کہتا تھا اور حقیقتہً اس طرح کی گفتگو عجز کے وقت آدمی کی زبان پر آتی ہے لیکن حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرضِ ہدایت و ارشاد کو علیٰ وجہِ الکمال ادا کیا اور اس کی اس تمام لایعنی گفتگو کے باوجود پھر مزید بیان کی طرف متوجہ ہوئے۔
۳۲ کیونکہ پورب سے آفتاب کا طلوع کرنا اور پچھم میں غرب ہو جانا اور سال کی فصلوں میں ایک حسابِ معیّن پر چلنا اور ہواؤں اور بارشوں وغیرہ کے نظام یہ سب اس کے وجود و قدرت پر دلالت کرتے ہیں۔
۳۳ اب فرعون متحیر ہو گیا اور آثارِ قدرتِ الٰہی کے انکار کی راہ باقی نہ رہی اور کوئی جواب اس سے بن نہ آیا۔
۳۴ فرعون کی قید قتل سے بدتر تھی، اس کا جیل خانہ تنگ و تاریک عمیق گڑھا تھا، اس میں اکیلا ڈال دیتا تھا نہ وہاں کوئی آواز سنائی آتی تھی نہ کچھ نظر آتا تھا۔
۳۵ جو میری رسالت کی برہان ہو۔ مراد اس سے معجِزہ ہے اس پر فرعون نے۔
۳۶ عصا اژدھا بن کر آسمان کی طرف بقدر ایک میل کے اُڑا پھر اُتر کر فرعون کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا اے مُوسیٰ مجھے جو چاہیئے حکم دیجئے فرعون نے گھبرا کر کہا اس کی قسم جس نے تمہیں رسول بنایا اس کو پکڑو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو دستِ مبارک میں لیا تو مثلِ سابق عصا ہو گیا فرعون کہنے لگا اس کے سوا اور بھی کوئی معجِزہ ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور اس کو یدِ بیضا دکھایا۔
۳۸ اس سے آفتاب کی سی شعاع ظاہر ہوئی۔
۳۹ کیونکہ اس زمانہ میں جادو کا بہت رواج تھا اس لئے فرعون نے خیال کیا کہ یہ بات چل جائے گی اور اس کی قوم کے لوگ اس دھوکے میں آ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے متنفر ہو جائیں گے اور ان کی بات قبول نہ کریں گے۔
۴۰ جو علمِ سحر میں بقول ان کے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر ہو اور وہ لوگ اپنے جادو سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا مقابلہ کریں تاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے حُجّت باقی نہ رہے اور فرعونیوں کو یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ یہ کام جادو سے ہو جاتے ہیں لہٰذا نبوّت کی دلیل نہیں۔
۴۱ وہ دن فرعونیوں کی عید کا تھا اور اس مقابلہ کے لئے وقتِ چاشت مقرر کیا گیا تھا۔
۴۲ تاکہ دیکھو کہ دونوں فریق کیا کرتے ہیں اور ان میں کون غالب آتا ہے۔
۴۳ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر۔ اس سے مقصود ان کا جادو گروں کا اِتّباع کرنا نہ تھا بلکہ غرض یہ تھی کہ اس حیلہ سے لوگوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اِتّباع سے روکیں۔
۴۴ تمہیں درباری بنایا جائے گا، تمہیں خاص اعزاز دیئے جائیں گے، سب سے پہلے داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی، سب سے بعد تک دربار میں رہو گے۔ اس کے بعد جادو گروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا کہ کیا حضرت پہلے اپنا عصا ڈالیں گے یا ہمیں اجازت ہے کہ ہم اپنا سامانِ سحر ڈالیں۔
۴۵ تاکہ تم اس کا انجام دیکھ لو۔
۴۶ انہیں اپنے غلبہ کا اطمینان تھا کیونکہ سحر کے اعمال میں جو انتہا کے عمل تھے یہ ان کو کام میں لائے تھے اور یقینِ کامل رکھتے تھے کہ اب کوئی سحر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
۴۷ جو انہوں نے جادو کے ذریعہ سے بنائیں تھیں یعنی ان کی رسیاں اور لاٹھیاں جو جادو سے اژدھے بن کر دوڑتے نظر آ رہے تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اژدھا بن کر ان سب کو نگل گیا پھر اس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے دستِ مبارک میں لیا تو وہ مثلِ سابق عصا تھا جب جادوگروں نے یہ دیکھا تو انہیں یقین ہو گیا کہ یہ جادو نہیں ہے۔
۴۸ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام تمہارے استاد ہیں اسی لئے وہ تم سے بڑھ گئے۔
۴۹ کہ تمہارے ساتھ کیا کیا جائے۔
۵۰ اس سے مقصود یہ تھا کہ عام خَلق ڈر جائے اور جادو گروں کو دیکھ کر لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لے آئیں۔
۵۱ خواہ دنیا میں کچھ بھی پیش آئے کیونکہ۔
۵۲ ایمان کے ساتھ اور ہمیں اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید ہے۔
۵۳ رعیّتِ فرعون میں سے یا اس مجمع کے حاضرین میں سے۔ اس واقعہ کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کئی سال وہاں اقامت فرمائی اور ان لوگوں کو حق کی دعوت دیتے رہے لیکن ان کی سرکشی بڑھتی گئی۔
۵۴ یعنی بنی اسرائیل کو مِصر سے۔
۵۵ فرعون اور اس کے لشکر پیچھا کریں گے اور تمہارے پیچھے پیچھے دریا میں داخل ہوں گے ہم تمہیں نَجات دیں گے اور انہیں غرق کریں گے۔
۵۶ لشکروں کو جمع کرنے کے لئے جب لشکر جمع ہو گئے تو ان کی کثرت کے مقابل بنی اسرائیل کی تعداد تھوڑی معلوم ہونے لگی چنانچہ فرعون نے بنی اسرائیل کی نسبت کہا۔
۵۷ ہماری مخالفت کر کے اور بے ہماری اجازت کے ہماری سرزمین سے نکل کر۔
۶۰ فرعون اور اس کی قوم کے غرق کے بعد۔
۶۱ اور ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کو دیکھا۔
۶۲ اب وہ ہم پر قابو پا لیں گے نہ ہم ان کے مقابلہ کی طاقت رکھتے ہیں نہ بھاگنے کی جگہ ہے کیونکہ آگے دریا ہے۔
۶۳ وعدۂ الٰہی پر کامل بھروسہ ہے۔
۶۴ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریا پر عصا مارا۔
۶۵ اور اس کے بارہ حصہ نمودار ہوئے۔
۶۶ اور ان کے درمیان خشک راہیں۔
۶۷ یعنی فرعون اور فرعونیوں کو تا آنکہ وہ بنی اسرائیل کے راستوں میں چل پڑے جو ان کے لئے دریا میں بقدرتِ الٰہی پیدا ہوئے تھے۔
۶۹ یعنی فرعون اور اس کی قوم کو اس طرح کہ جب بنی اسرائیل کل کے کل دریا سے باہر ہو گئے اور تمام فرعونی دریا کے اندر آ گئے تو دریا بحکمِ الٰہی مل گیا اور مثلِ سابق ہو گیا اور فرعون مع اپنی قوم کے ڈوب گیا۔
۷۰ اللہ تعالی کی قدرت پر اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معجِزہ ہے۔
۷۱ یعنی اہلِ مِصر میں صرف آسیہ فرعون کی بی بی اور حِزْ قِیْل جن کو مؤمنِ آلِ فرعون کہتے ہیں وہ اپنا ایمان چھپائے رہتے تھے اور فرعون کے چچا زاد تھے اور مریم جس نے حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبر کا نشان بتایا تھا جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے تابوت کو دریا سے نکالا۔
۷۲ کہ اس نے کافِروں کو غرق کر کے ان سے انتقام لیا۔
۷۳ مومنین پر جنہیں غرق سے نَجات دی۔
۷۵ حضرت ابراہیم علیہ السلام جانتے تھے کہ وہ لوگ بُت پرست ہیں باوجود اس کے آپ کا سوال فرمانا اس لئے تھا تاکہ انہیں دکھا دیں کہ جن چیزوں کو وہ لوگ پوجتے ہیں وہ کسی طرح اس کے مستحق نہیں۔
۷۶ جب یہ کچھ نہیں تو انہیں تم نے معبود کس طرح قرار دیا۔
۷۷ کہ نہ یہ علم رکھتے ہیں نہ قدرت، نہ کچھ سنتے ہیں نہ کوئی نفع یا ضَرر پہنچا سکتے ہیں۔
۷۸ میں ان کا پوجا جانا گوارا نہیں کر سکتا۔
۷۹ میرا ربّ ہے، میرا کارساز ہے، میں اس کی عبادت کرتا ہوں، وہ مستحقِ عبادت ہے اس کے اوصاف یہ ہیں۔
۸۰ نِیست سے ہست فرمایا اور اپنی طاعت کے لئے بنایا۔
۸۱ آدابِ خِلّت کی جیسی کہ سابق میں ہدایت فرما چکا ہے مصالح دنیا و دین کی۔
۸۲ اور میرا روزی دینے والا ہے۔
۸۳ میرے امراض دور کرتا ہے۔ ابنِ عطا نے کہا معنیٰ یہ ہیں کہ جب میں خَلق کی دید سے بیمار ہوتا ہوں تو مشاہدۂ حق سے مجھے شفا عطا فرماتا ہے۔
۸۴ موت اور حیات اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
۸۵ انبیاء معصوم ہیں، گناہ ان سے صادر نہیں ہوتے، ان کا استغفار اپنے ربّ کے حضور تواضع ہے اور اُمّت کے لئے طلبِ مغفرت کی تعلیم ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ان صفاتِ الٰہیہ کو بیان کرنا اپنی قوم پر اقامتِ حجّت ہے کہ معبود وہی ہو سکتا ہے جس کے یہ صفات ہوں۔
۸۶ حکم سے یا علم مراد ہے یا حکمت یا نبوّت۔
۸۷ یعنی انبیاء علیہم السلام اور آپ کی یہ دعا مستجاب ہوئی چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنَّہ، فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔
۸۸ یعنی ان اُمّتوں میں جو میرے بعد آئیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ عطا فرمایا کہ تمام اہلِ ادیان ان سے مَحبت رکھتے ہیں اور ان کی ثنا کرتے ہیں۔
۸۹ جنہیں تو جنّت عطا فرمائے گا۔
۹۰ توبہ و ایمان عطا فرما کر اور یہ دعا آپ نے اس لئے فرمائی کہ وقتِ مفارقت آپ کے والد نے آپ سے ایمان لانے کا وعدہ کیا تھا جب ظاہر ہو گیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے اس کا وعدہ جھوٹا تھا تو آپ اس سے بیزار ہو گئے جیسا کہ سور ۂ براءت میں ہے مَاکَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلاَّ عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَا اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ، اَنَّہ، عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ۔
۹۲ جو شرک کُفر و نفاق سے پاک ہو اس کو اس کا مال بھی نفع دے گا جو راہِ خدا میں خرچ کیا ہو اور اولاد بھی جو صالح ہو جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جب آدمی مرتا ہے اس کے عمل منقطع ہو جاتے ہیں سوا تین کے ایک صدقۂ جاریہ دوسرا وہ مال جس سے وہ لوگ نفع اٹھائیں تیسری نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔
۹۴ بطریقِ زجر و تو بیخ کے ان کے شرک و کُفر پر۔
۹۶ یعنی بُت اور ان کے پُجاری سب اوندھے کر کے جہنّم میں ڈال دیئے جائیں گے۔
۹۷ یعنی اس کے اِتّباع کرنے والے جِن ہوں یا انسان۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ ابلیس کے لشکروں سے اس کی ذُرِّیَّت مراد ہے۔
۹۸ جنہوں نے بُت پرستی کی دعوت دی یا وہ پہلے لوگ جن کا ہم نے اِتّباع کیا یا ابلیس اور اس کی ذُرِّیَّت نے۔
۹۹ جیسے کہ مؤمنین کے لئے انبیاء اور اولیاء اور ملائکہ اور مؤمنین شفاعت کرنے والے ہیں۔
۱۰۰ جو کام آئے۔ یہ بات کُفّار اس وقت کہیں گے جب دیکھیں گے کہ انبیاء اور اولیاء اور ملائکہ اور صالحین ایمان داروں کی شفاعت کر رہے ہیں اور ان کی دوستیاں کام آرہی ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جنّتی کہے گا میرے فلاں دوست کا کیا حال ہے اور وہ دوست گناہوں کی وجہ سے جہنّم میں ہو گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اس کے دوست کو نکالو اور جنّت میں داخل کرو تو جو لوگ جہنّم میں باقی رہ جائیں گے وہ یہ کہیں گے کہ ہمارا کوئی سفارشی نہیں ہے اور نہ کوئی غم خوار دوست۔ حسن رحمۃ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ایماندار دوست بڑھاؤ کیونکہ وہ روزِ قیامت شفاعت کریں گے۔
۱۰۲ یعنی نوح علیہ السلام کی تکذیب تمام پیغمبروں کی تکذیب ہے کیونکہ دین تمام رسولوں کا ایک ہے اور ہر ایک نبی لوگوں کو تمام انبیاء پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں۔
۱۰۳ اللہ تعالیٰ سے کہ کُفر و معاصی ترک کرو۔
۱۰۴ اس کی وحی و رسالت کی تبلیغ پر اور آپ کی امانت آپ کی قوم کو مُسلَّم تھی جیسے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امانت پر عرب کو اتفاق تھا۔
۱۰۵ جو میں توحید و ایمان و طاعتِ الٰہی کے متعلق دیتا ہوں۔
۱۰۶ یہ بات انہوں نے غرور سے کہی غُرَباء کے پاس بیٹھنا انہیں گوارا نہ تھا اس میں وہ اپنی کسرِ شان سمجھتے تھے اس لئے ایمان جیسی نعمت سے محروم رہے۔ کمینے سے مراد ان کی غُرَباء اور پیشہ ور لوگ تھے اور ان کو رذیل اور کمین کہنا یہ کُفّار کا متکبِّرانہ فعل تھا ورنہ درحقیقت صنعت اور پیشہ حیثیت دین سے آدمی کو ذلیل نہیں کرتا۔ غنا اصل میں دینی غنا ہے اور نسب تقویٰ کا نسب۔ مسئلہ : مؤمن کو رذیل کہنا جائز نہیں خواہ وہ کتنا ہی محتاج و نادار ہو یا وہ کسی نسب کا ہو۔ (مدارک)۔
۱۰۷ وہ کیا پیشے کرتے ہیں مجھے اس سے کیا مطلب میں انہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں۔
۱۰۹ تو نہ تم انہیں عیب لگاؤ نہ پیشوں کے باعث ان سے عار کرو پھر قوم نے کہا کہ آپ کمینوں کو اپنی مجلس سے نکال دیجئے تاکہ ہم آپ کے پاس آئیں آپ کی بات مانیں اس کے جواب میں فرمایا۔
۱۱۰ یہ میری شان نہیں کہ میں تمہاری ایسی خواہشوں کو پورا کروں اور تمہارے ایمان کے لالچ میں مسلمانوں کو اپنے پاس سے نکال دوں۔
۱۱۱ برہانِ صحیح کے ساتھ جس سے حق و باطل میں امتیاز ہو جائے تو جو ایمان لائے وہی میرا مقرَّب ہے اور جو ایمان نہ لائے وہی دور۔
۱۱۳ حضرت نوح علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں۔
۱۱۴ تیری وحی و رسالت میں۔ مراد آپ کی یہ تھی کہ میں جو ان کے حق میں بددعا کرتا ہوں اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ انہوں نے مجھے سنگسار کرنے کی دھمکی دی نہ یہ کہ انہوں نے میرے متّبِعین کو رذیل کہا بلکہ میری دعا کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے تیرے کلام کو جھٹلایا اور تیری رسالت کے قبول کرنے سے انکار کیا۔
۱۱۵ ان لوگوں کی شامتِ اعمال سے۔
۱۱۶ جو آدمیوں پرندوں اور حیوانوں سے بھری ہوئی تھی۔
۱۱۷ یعنی حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو نَجات دینے کے بعد۔
۱۱۸ عاد ایک قبیلہ ہے اور در اصل یہ ایک شخص کا نام ہے جس کی اولاد سے یہ قبیلہ ہے۔
۱۲۰ کہ اس پر چڑھ کر گزرنے والوں سے تمسخُر کرو اور یہ اس قوم کا معمول تھا انہوں نے سرِ راہ بلند بِنائیں بنا لی تھیں وہاں بیٹھ کر راہ چلنے والوں کو پریشان کرتے اور کھیل کرتے۔
۱۲۲ تلوار سے قتل کر کے دُرّے مار کر نہایت بے رحمی سے۔
۱۲۳ یعنی وہ نعمتیں جنہیں تم جانتے ہو آگے ان کا بیان فرمایا جاتا ہے۔
۱۲۴ اگر تم میری نافرمانی کر لو۔ اس کا جواب ان کی طرف یہ ہوا کہ۔
۱۲۵ ہم کسی طرح تمہاری بات نہ مانیں گے اور تمہاری دعوت قبول نہ کریں گے۔
۱۲۶ یعنی جن چیزوں کا آپ نے خوف دلایا یہ پہلوں کا دستور ہے وہ بھی ایسی ہی باتیں کہا کرتے تھے اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہم ان باتوں کا اعتبار نہیں کرتے انہیں جھوٹ جانتے ہیں یا آیت کے معنیٰ یہ ہیں کہ یہ موت و حیات اور عمارتیں بنانا پہلوں کا طریقہ ہے۔
۱دنیا میں نہ مرنے کے بعد اٹھنا نہ آخرت میں حساب۔
۱۳۱ کہ یہ نعمتیں کبھی زائل نہ ہوں اور کبھی عذاب نہ آئے کبھی موت نہ آئے آگے ان نعمتوں کا بیان ہے۔
۱۳۲ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ فرہ بمعنی فخر و غرور ہے معنیٰ یہ ہوئے کہ اپنی صنعت پر غرور کرتے اتراتے۔
۱۳۳ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ مُسرفین سے مراد مشرکین۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ مُسرفین سے مراد وہ نو شخص ہیں جنہوں نے ناقہ کو قتل کیا تھا۔
۱۳۴ کُفر و ظلم اور معاصی کے ساتھ۔
۱۳۵ ایمان لا کر اور عدل قائم کر کے اور اللہ کے مطیع ہو کر۔ معنیٰ یہ ہیں کہ ان کا فساد ٹھوس ہے جس میں کسی طرح نیکی کا شائبہ بھی نہیں اور بعض مُفسدین ایسے بھی ہوتے ہیں کہ کچھ فساد بھی کرتے ہیں کچھ نیکی بھی ان میں ہوتی ہے مگر یہ ایسے نہیں۔
۱۳۶ یعنی بار بار بکثرت جادو ہوا ہے جس کی وجہ سے عقل بجا نہیں رہی۔ (معاذ اللہ)۔
۱۳۹ اس میں اس سے مزاحمت نہ کرو۔ یہ ایک اونٹنی تھی جو ان کے معجِزہ طلب کرنے پر ان کے حسب خواہش بدعائے حضرت صالح علیہ السلام پتھر سے نکلی تھی اس کا سینہ ساٹھ گز کا تھا جب اس کے پینے کا دن ہوتا تو وہ وہاں کا تمام پانی پی جاتی اور جب لوگوں کے پینے کا دن ہوتا تو اس دن نہ پیتی۔ (مدارک)۔
۱۴۰ نہ اس کو مارو نہ اس کی کونچیں کاٹو۔
۱۴۱ نُزولِ عذاب کی وجہ سے اس دن کو بڑا فرمایا گیا تاکہ معلوم ہو کہ وہ عذاب اس قدر عظیم اور سخت تھا کہ جس دن میں وہ واقع ہوا اس کو اس کی وجہ سے بڑا فرمایا گیا۔
۱۴۲ کونچیں کاٹنے والے شخص کا نام قِدار تھا اور وہ لوگ اس کے اس فعل سے راضی تھے اس لئے کونچیں کاٹنے کی نسبت ان سب کی طرف کی گئی۔
۱۴۳ کونچیں کاٹنے پر نُزولِ عذاب کے خوف سے نہ کہ معصیت پر تائبانہ نادم ہوئے ہوں یا یہ بات کہ آثارِ عذاب دیکھ کر نادم ہوئے ایسے وقت کی ندامت نافع نہیں۔
۱۴۴ جس کی انہیں خبر دی گئی تھی تو ہلاک ہو گئے۔
۱۴۵ اس کے یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں کہ کیا مخلوق میں ایسے قبیح اور ذلیل فعل کے لئے تمہیں رہ گئے ہو جہاں کے اور لوگ بھی تو ہیں انہیں دیکھ کر تمہیں شرمانا چاہئے اور یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں کہ بکثرت عورتیں ہوتے ہوئے اس فعلِ قبیح کا مرتکب ہونا انتہا درجہ کی خباثت ہے۔
۱۴۶ کہ حلال طیّب کو چھوڑ کر حرام خبیث میں مبتلا ہوتے ہو۔
۱۴۷ نصیحت کرنے اور اس فعل کو برا کہنے سے۔
۱۴۸ شہر سے اور تمہیں یہاں نہ رہنے دیا جائے گا۔
۱۴۹ اور مجھے اس سے نہایت دشمنی ہے پھر آپ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی۔
۱۵۰ اس کی شامتِ اعمال سے محفوظ رکھ۔
۱۵۱ یعنی آپ کی بیٹیوں کو اور ان تمام لوگوں کو جو آپ پر ایمان لائے۔
۱۵۲ جو آپ کی بی بی تھی اور وہ اپنی قوم کے فعل پر راضی تھی اور جو معصیت پر راضی ہو وہ عاصی کے حکم میں ہوتا ہے اسی لئے وہ بڑھیا گرفتارِ عذاب ہوئی اور اس نے نجات نہ پائی۔
۱۵۳ پتھروں کا یا گندھک اور آگ کا۔
۱۵۴ یہ بن مدیَن کے قریب تھا اس میں بہت درخت اور جھاڑیاں تھیں اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کو ان کی طرف مبعوث فرمایا تھا جیسا کہ اہلِ مدیَن کی طرف مبعوث کیا تھا اور یہ لوگ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے نہ تھے۔
۱۵۵ ان تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا یہی عنوان رہا کیونکہ وہ سب حضرات اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی اطاعت اور اخلاص فی العباد ۃ کا حکم دیتے اور تبلیغِ رسالت پر کوئی اجر نہیں لیتے تھے لہذا سب نے یہی فرمایا۔
۱۵۶ لوگوں کے حقوق کم نہ کرو ناپ اور تول میں۔
۱۵۷ رہزنی اور لوٹ مار کر کے اور کھتیاں تباہ کر کے۔ یہی ان لوگوں کی عادتیں تھیں حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں ان سے منع فرمایا۔
۱۵۸ نبوّت کا انکار کرنے والے انبیاء کی نسبت بالعموم یہی کہا کرتے تھے جیسا کہ آج کل کے بعضے فاسد العقیدہ کہتے ہیں۔
۱۶۰ اور جس عذاب کے تم مستحق ہو وہ جو عذاب چاہے گا تم پر نازِل فرمائے گا۔
۱۶۱ جو کہ اس طرح ہوا کہ انہیں شدید گرمی پہنچی ہوا بند ہوئی اور سات روز گرمی کے عذاب میں گرفتار رہے، تہ خانوں میں جاتے وہاں اور زیادہ گرمی پاتے اس کے بعد ایک ابر آیا سب اس کے نیچے آ کے جمع ہو گئے اس سے آگ برسی اور سب جل گئے۔ (اس واقعہ کا بیان سورۂ اعراف اور سورۂ ہود میں گزر چکا ہے۔
۱۶۲ روح الامین سے حضرت جبریل مراد ہیں جو وحی کے امین ہیں۔
۱۶۳ تاکہ آپ اسے محفوظ رکھیں اور سمجھیں اور نہ بھولیں۔ دل کی تخصیص اس لئے ہے کہ درحقیقت وہی مخاطب ہے اور تمیز و عقل و اختیار کا مقام بھی وہی ہے، تمام اعضاء اس کے مسخّر و مطیع ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ دل کے درست ہونے سے تمام بدن درست ہو جاتا ہے اور اس کے خراب ہونے سے سب جسم خراب اور فرح و سرور و رنج و غم کا مقام دل ہی ہے جب دل کو خوشی ہوتی ہے تمام اعضاء پر اس کا اثر پڑتا ہے تو وہ مثل رئیس کے ہے وہی موضع ہے عقل کا تو امیرِ مطلق ہوا اور تکلیف جو عقل و فہم کے ساتھ مشروط ہے اسی کی طرف راجع ہوئی۔
۱۶۴ اِنَّہٗ کی ضمیر کا مرجع اگر قرآن ہو تو اس کے معنیٰ یہ ہوں گے کہ اس کا ذکر تمام کتبِ سماویہ میں ہے اور اگر سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف ضمیر راجع ہو تو معنیٰ یہ ہوں گے کہ اگلی کتابوں میں آپ کی نعمت و صفت مذکور ہے۔
۱۶۵ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صدقِ نبوّت و رسالت پر۔
۱۶۶ اپنی کتابوں سے اور لوگوں کو خبریں دیتے ہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اہلِ مکہ نے یہودِ مدینہ کے پاس اپنے معتمدین کو یہ دریافت کرنے بھیجا کہ کیا نبیِ آخر الزمان سیدِ کائنات محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نسبت ان کی کتابوں میں کوئی خبر ہے ؟ اس کا جواب عُلَمائے یہود نے یہ دیا کہ یہی ان کا زمانہ ہے اور ان کی نعت و صفت توریت میں موجود ہے۔ عُلَمائے یہود میں سے حضرت عبداللہ ابن سلام اور ابنِ یامین اور ثعلبہ اور اسد اور اُسید یہ حضرات جنہوں نے توریت میں حضور کے اوصاف پڑھے تھے حضور پر ایمان لائے۔
۱۶۷ معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے یہ قرآنِ کریم ایک فصیح بلیغ عربی نبی پر اُتارا جس کی فصاحت اہلِ عرب کو مسلّم ہے اور وہ جانتے ہیں کہ قرآنِ کریم مُعجِز ہے اور اس کی مثل ایک سورت بنانے سے بھی تمام دنیا عاجز ہے علاوہ بریں عُلَمائے اہلِ کتاب کا اتفاق ہے کہ اس کے نُزول سے قبل اس کے نازِل ہونے کی بشارت اور اس نبی کی صفت ان کی کتابوں میں انہیں مل چکی ہے، اس سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ نبی اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں اور یہ کتاب اس کی نازِل فرمائی ہوئی ہے اور کُفّار جو طرح طرح کی بیہودہ باتیں اس کتاب کے متعلق کہتے ہیں سب باطل ہیں اور خود کُفار بھی متحیّر ہیں کہ اس کے خلاف کیا بات کہیں، اس لئے کبھی اس کو پہلوں کی داستانیں کہتے ہیں، کبھی شعر، کبھی سحر اور کبھی یہ کہ معاذ اللہ اس کو خود سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنا لیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی غلط نسبت کر دی ہے اس طرح کے بیہودہ اعتراض معانِد ہر حال میں کر سکتا ہے حتیٰ کہ اگر بالفرض یہ قرآن کسی غیر عربی شخص پر نازِل کیا جاتا جو عربی کی مہارت نہ رکھتا اور باوجود اس کے وہ ایسا مُعجِز قرآن پڑھ کر سُناتا جب بھی لوگ اسی طرح کُفر کرتے جس طرح انہوں نے اب کُفر و انکار کیا کیونکہ ان کے کُفر و انکار کا باعث عناد ہے۔
۱۶۸ یعنی ان کافِروں کے جن کا کُفر اختیار کرنا اور اس پر مُصِر رہنا ہمارے علم میں ہے تو ان کے لئے ہدایت کا کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے کسی حال میں وہ کُفر سے پلٹنے والے نہیں۔
۱۶۹ تاکہ ہم ایمان لائیں اور تصدیق کریں لیکن اس وقت مہلت نہ ملے گی جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کُفّار کو اس عذاب کی خبر دی تو براہِ تمسخُر و استہزاء کہنے لگے کہ یہ عذاب کب آئے گا ؟ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
۱۷۲ یعنی دنیا کی زندگانی اور اس کا عیش خواہ طویل بھی ہو لیکن نہ وہ عذاب کو دفع کر سکے گا نہ اس کی شدت کم کر سکے گا۔
۱۷۳ پہلے حُجّت قائم کر دیتے ہیں ڈر سنانے والوں کو بھیج دیتے ہیں اس کے بعد بھی جو لوگ راہ پر نہیں آتے اور حق کو قبول نہیں کرتے ان پر عذاب کرتے ہیں۔
۱۷۴ اس میں کُفّار کا رد ہے جو کہتے تھے کہ جس طرح شیاطین کاہنوں کے پاس آسمانی خبریں لاتے ہیں اسی طرح معاذ اللہ حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس قرآن لاتے ہیں۔ اس آیت میں ان کے اس خیال کو باطل کر دیا کہ یہ غلط ہے۔
۱۷۶ کیونکہ یہ ان کے مقدور سے باہر ہے۔
۱۷۷ یعنی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی طرف جو وحی ہوتی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ کر دیا جب تک کہ فرشتہ اس کو بارگاہِ رسالت میں پہنچائے اس سے پہلے شیاطین اس کو نہیں سن سکتے اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے۔
۱۷۸ حضور کے قریب کے رشتہ دار نبی ہاشم اور بنی مطلب ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں اعلان کے ساتھ انذار فرمایا اور خدا کا خوف دلایا جیسا کہ احادیثِ صحیحہ میں وارد ہے۔
۱۸۰ جو صدق و اخلاص سے آپ پر ایمان لائیں خواہ وہ آپ سے قرابت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں۔
۱۸۱ یعنی اللہ تعالیٰ، تم اپنے تمام کام اس کو تفویض کرو۔
۱۸۲ نماز کے لئے یا دعا کے لئے یا ہر اس مقام پر جہاں تم ہو۔
۱۸۳ جب تم اپنے تہجُّد پڑھنے والے اصحاب کے احوال ملاحظہ فرمانے کے لئے شب کو دورہ کرتے ہو۔ بعض مفسِّرین نے کہا معنیٰ یہ ہیں کہ جب تم امام ہو کر نماز پڑھاتے ہو اور قیام و رکوع و سجود و قعود میں گزرتے ہو۔ بعض مفسِّرین نے کہا معنیٰ یہ ہیں کہ وہ آپ کی گردشِ چشم کو دیکھتا ہے نمازوں میں کیونکہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پس و پیش یکساں ملاحظہ فرماتے تھے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے بخدا مجھ پر تمہارا خشوع و رکوع مخفی نہیں میں تمہیں اپنے پسِ پشت دیکھتا ہوں۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ اس آیت میں ساجدین سے مؤمنین مراد ہیں اور معنیٰ یہ ہیں کہ زمانۂ حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے لے کر حضرت عبداللہ و آمنہ خاتون تک مؤمنین کی اصلاب و ارحام میں آپ کے دورے کو ملاحظہ فرماتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ آپ کے تمام اصول آباء و اجداد حضرت آدم علیہ السلام تک سب کے سب مؤمن ہیں۔ ( مدارک و جمل وغیرہ)۔
۱۸۴ تمہارے قول و عمل اور تمہاری نیت کو اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کے جواب میں جو کہتے تھے کہ محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر شیطان اترتے ہیں یہ ارشاد فرماتا ہے۔
۱۸۵ مثل مسیلمہ وغیرہ کاہنوں کے۔
۱۸۶ جو انہوں نے ملائکہ سے سُنی ہوتی ہے۔
۱۸۷ کیونکہ وہ فرشتوں سے سُنی ہوئی باتوں میں اپنی طرف سے بہت جھوٹ ملا دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک بات سنتے ہیں تو سو جھوٹ اس کے ساتھ ملاتے ہیں اور یہ بھی اس وقت تک تھا جب تک کہ وہ آسمان پر پہنچنے سے روکے نہ گئے تھے۔
۱۸۸ ان کے اشعار میں کہ ان کو پڑھتے ہیں رواج دیتے ہیں باوجود یکہ وہ اشعار کذب و باطل ہوتے ہیں۔ شانِ نُزول : یہ آیت شعرائے کُفّار کے حق میں نازِل ہوئی جو سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجو میں شعر کہتے تھے اور کہتے تھے کہ جیسا محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہتے ہیں ایسا ہم بھی کہہ لیتے ہیں اور ان کی قوم کے گمراہ لوگ ان سے ان اشعار کو نقل کرتے تھے۔ ان لوگوں کی آیت میں مذمت فرمائی گئی۔
۱۸۹ اور ہر طرح کی جھوٹی باتیں بناتے ہیں اور ہر لغو و باطل میں سخن آرائی کرتے ہیں جھوٹی مدح کرتے ہیں جھوٹی ہجو کرتے ہیں۔
۱۹۰ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اگر کسی کا جسم پیپ سے بھر جائے تو یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ شعر سے پر ہو مسلمان شعراء جو اس طریقہ سے اجتناب کرتے ہیں اس حکم سے مستثنیٰ کئے گئے۔
۱۹۱ اس میں شعرائے اسلام کا استثناء فرمایا گیا وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت لکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی حمد لکھتے ہیں، اسلام کی مدح لکھتے ہیں، پند و نصائح لکھتے ہیں، اس پر اجر و ثواب پاتے ہیں۔ بخاری شریف میں ہے کہ مسجدِ نبوی میں حضرت حسّان کے لئے منبر بچھایا جاتا تھا وہ اس پر کھڑے ہو کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مفاخر پڑھتے تھے اور کُفّار کی بدگوئیوں کا جواب دیتے تھے اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے حق میں دعا فرماتے جاتے تھے۔ بخاری کی حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بعض شعر حکمت ہوتے ہیں۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مجلس مبارک میں اکثر شعر پڑھے جاتے تھے جیسا کہ ترمذی میں جابر بن سمرہ سے مروی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ شعر کلام ہے بعض اچھا ہوتا ہے بعض بُرا، اچھے کو لو بُرے کو چھوڑ دو۔ شعبی نے کہا کہ حضرت ابوبکر صدیق شعر کہتے تھے، حضرت علی ان سب سے زیادہ شعر فرمانے والے تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
۱۹۲ اور شعر ان کے لئے ذکرِ الٰہی سے غفلت کا سبب نہ ہو سکا بلکہ ان لوگوں نے جب شعر کہا بھی تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کی توحید اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت اور اصحابِ کرام و صُلحائے اُمّت کی مدح اور حکمت و موعظت اور زہد و ادب میں۔
۱۹۴ کُفّار کی طرف سے کہ انہوں نے مسلمانوں کی اور ان کے پیشواؤں کی ہجو کی ان حضرات نے اس کو دفع کیا اور اس کے جواب دیئے یہ مذموم نہیں ہیں بلکہ مستحقِ اجر و ثواب ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ مؤمن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی یہ ان حضرات کا جہاد ہے۔
۱۹۵ یعنی مشرکین جنہوں نے سیدُ الطاہرین افضلُ الخَلق رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجو کی۔
۱۹۶ موت کے بعد۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا جہنّم کی طرف اور وہ برا ہی ٹھکانا ہے۔