۱ سورۂ لقمان مکّیہ ہے سوائے دو آیتوں کے جو وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَ رْضِ سے شروع ہوتی ہیں، اس سورت میں چار ۴رکوع، چونتیس ۳۴ آیتیں، پانچ سو اڑتالیس کلمے، دو ہزار ایک سو دس حرف ہیں۔
۲ لہو یعنی کھیل ہر اس باطل کو کہتے ہیں جو آدمی کو نیکی سے اور کام کی باتوں سے غفلت میں ڈالے، کہانیاں افسانے اسی میں داخل ہیں۔ شانِ نُزول : یہ آیت نضر بن حارث بن کلدہ کے حق میں نازل ہوئی جو تجارت کے سلسلہ میں دوسرے مُلکوں میں سفر کیا کرتا تھا، اس نے عجمیوں کی کتابیں خریدیں جن میں قصّے کہانیاں تھیں وہ قریش کو سناتا اور کہتا کہ سیدِ کائنات (محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ) تمہیں عاد و ثمود کے واقعات سناتے ہیں اور میں رستم و اسفند یار اور شاہانِ فارس کی کہانیاں سناتا ہوں، کچھ لوگ ان کہانیوں میں مشغول ہو گئے اور قرانِ پاک سننے سے رہ گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
۳ یعنی براہِ جہالت لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے اور قرآنِ کریم سننے سے روکیں اور آیاتِ الٰہیہ کے ساتھ تمسخُر کریں۔
۴ اور ان کی طرف التفات نہ کرے۔
۶ یعنی کوئی ستون نہیں ہے تمہاری نظر خود اس کی شاہد ہے۔
۹ عمدہ اقسام کے نباتات پیدا کئے۔
۱۲ یعنی بُتوں نے جنہیں تم مستحقِ عبادت قرار دیتے ہو۔
۱۳ محمّد بن اسحٰق نے کہا کہ لقمان کا نسب یہ ہے لقمان بن باعور بن ناحور بن تارخ۔ وہب کا قول ہے کہ حضرت لقمان حضرت ایّوب علیہ السلام کے بھانجے تھے۔ مقاتل نے کہا کہ حضرت ایّوب علیہ السلام کی خالہ کے فرزند تھے۔ واقدی نے کہا کہ بنی اسرائیل میں قاضی تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ ہزار سال زندہ رہے اور حضرت داؤد علیہ السلام کا زمانہ پایا اور ان سے علم اخذ کیا اور ان کے زمانہ میں فتویٰ دینا ترک کر دیا اگرچہ پہلے سے فتویٰ دیتے تھے، آپ کی نبوّت میں اختلاف ہے اکثر عُلَماء اسی طرف ہیں کہ آپ حکیم تھے نبی نہ تھے، حکمت عقل و فہم کو کہتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ حکمت وہ علم ہے جس کے مطابق عمل کیا جائے۔ بعض نے کہا کہ حکمت معرفت اور اصابت فی الامور کو کہتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکمت ایسی شے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو جس کے دل میں رکھتا ہے اس کے دل کو روشن کر دیتی ہے۔
۱۴ اس نعمت پر کہ اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کی۔
۱۵ کیونکہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے اور ثواب ملتا ہے۔
۱۶ حضرت لقمان علیٰ نبینا و علیہ السلام کے ان صاحبزادے کا نام انعم یا اشکم تھا اور انسان کا اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ وہ خود کامل ہو اور دوسرے کی تکمیل کرے تو حضرت لقمان علیٰ نبینا و علیہ السلام کا کامل ہونا تو اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ میں بیان فرما دیا اور دوسرے کی تکمیل کرنا وَھُوَ یَعِظُہٗ سے ظاہر فرمایا اور نصیحت بیٹے کو کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نصیحت میں گھر والوں اور قریب تر لوگوں کو مقدم کرنا چاہئے اور نصیحت کی ابتداء منعِ شرک سے فرمائی اس سے معلوم ہوا کہ یہ نہایت اہم ہے۔
۱۷ کیونکہ اس میں غیرِ مستحقِ عبادت کو مستحقِ عبادت کے برابر قرار دینا ہے اور عبادت کو اس کے محل کے خلاف رکھنا یہ دونوں باتیں ظلمِ عظیم ہیں۔
۱۸ کہ ان کا فرمانبردار رہے اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ (جیسا کہ اسی آیت میں آگے ارشاد ہے)
۱۹ یعنی اس کا ضعف دَم بدَم ترقی پر ہوتا ہے جتنا حمل بڑھتا جاتا ہے بار زیادہ ہوتا ہے اور ضعف ترقی کرتا ہے، عورت کو حاملہ ہونے کے بعد ضعف اور تعب اور مشقّتیں پہنچتی رہتی ہیں، حمل خود ضعیف کرنے والا ہے دردِ زہ ضعف پر ضعف ہے اور وضع اس پر اور مزید شدّت ہے، دودھ پلانا ان سب پر مزید برآں ہے۔
۲۰ یہ وہ تاکید ہے جس کا ذکر اوپر فرمایا تھا۔ سفیان بن عینیہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ جس نے پنج گانہ نمازیں ادا کیں وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لایا اور جس نے پنجگانہ نمازوں کے بعد والدین کے لئے دعائیں کیں اس نے والدین کی شکر گزاری کی۔
۲۱ یعنی علم سے تو کسی کو میرا شریک ٹھہرا ہی نہیں سکتے کیونکہ میرا شریک محال ہے ہو ہی نہیں سکتا، اب جو کوئی بھی کہے گا تو بے علمی ہی سے کسی چیز کے شریک ٹھہرانے کو کہے گا، ایسا اگر ماں باپ بھی کہیں۔
۲۲ نخعی نے کہا کہ والدین کی طاعت واجب ہے لیکن اگر وہ شرک کا حکم کریں تو ان کی اطاعت نہ کر کیونکہ خالِق کی نافرمانی کرنے میں کسی مخلوق کی طاعت روا نہیں۔
۲۳ حسنِ اخلاق اور حسنِ سلوک اور احسان و تحمّل کے ساتھ۔
۲۴ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور آپ کے اصحاب کی راہ اسی کو مذہبِ سنّت و جماعت کہتے ہیں۔
۲۵ تمہارے اعمال کی جزا دے کر۔ وَصَّیْنَا الْاِ نْسَانَ سے یہاں تک جو مضمون ہے یہ حضرت لقمان علیٰ نبینا و علیہ السلام کا نہیں ہے بلکہ انہوں نے اپنے صاحبزادے کو اللہ تعالیٰ کے شکرِ نعمت کا حکم دیا تھا اور شرک کی ممانعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے والدین کی طاعت اور اس کا محل ارشاد فرما دیا، اس کے بعد پھر حضرت لقمان علیٰ نبینا و علیہ السلام کا مقولہ ذکر کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے فرزند سے فرمایا۔
۲۶ کیسی ہی پوشیدہ جگہ ہو اللہ تعالیٰ سے نہیں چھُپ سکتی۔
۲۷ روزِ قیامت اور اس کا حساب فرمائے گا۔
۲۸ یعنی ہر صغیر و کبیر اس کے احاطۂ علمی میں ہے۔
۲۹ امر بالمعروف و نہی عن المنکَر کرنے سے۔
۳۰ ان کا کرنا لازم ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نماز اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکَر اور صبر بر ایذا یہ ایسی طاعتیں ہیں جن کا تمام اُمّتوں میں حکم تھا۔
۳۲ یعنی جب آدمی بات کریں تو انہیں حقیر جان کر ان کی طرف سے ر خ پھیرنا جیسا متکبِّرین کا طریقہ ہے اختیار نہ کرنا، غنی و فقیر سب کے ساتھ بتواضُع پیش آنا۔
۳۳ نہ بہت تیز نہ بہت سُست کہ یہ دونوں باتیں مذموم ہیں ایک میں شانِ تکبُّر ہے اور ایک میں چھچھورا پن۔ حدیث شریف میں ہے کہ بہت تیز چلنا مومن کا وقار کھوتا ہے۔
۳۴ یعنی شور و شغب اور چیخنے چِلّانے سے احتراز کر۔
مدعا یہ ہے کہ شور مچانا اور آواز بلند کرنا مکروہ و ناپسندیدہ ہے اور اس میں کچھ فضیلت نہیں ہے، گدھے کی آواز باوجود بلند ہونے کے مکروہ اور وحشت انگیز ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو نرم آواز سے کلام کرنا پسند تھا اور سخت آواز سے بولنے کو ناپسند رکھتے تھے۔
آسمانوں میں مثل سور ج، چاند، تاروں کے جن سے تم نفع اٹھاتے ہو اور زمینوں میں دریا، نہریں، کانیں، پہاڑ، درخت، پھل، چوپائے وغیرہ جن سے تم فائدے حاصل کرتے ہو۔
ظاہری نعمتوں سے درستیِ اعضاء و حواسِ خمسہ ظاہرہ اور حسن و شکل و صورت مراد ہیں اور باطنی نعمتوں سے علمِ معرفت و ملکاتِ فاضلہ وغیرہ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ نعمتِ ظاہرہ تو اسلام و قرآن ہے اور نعمتِ باطنہ یہ ہے کہ تمہارے گناہوں پر پردے ڈال دیئے، تمہارا افشائے حال نہ کیا، سزا میں جلدی نہ فرمائی۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ نعمتِ ظاہرہ درستیِ اعضاء اور حسنِ صورت ہے اور نعمتِ باطنہ اعتقادِ قلبی۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ نعمتِ ظاہرہ رزق ہے اور باطنہ حسنِ خُلق۔ ایک قول یہ ہے کہ نعمتِ ظاہرہ احکامِ شرعیہ کا ہلکا ہونا ہے اور نعمتِ باطنہ شفاعت۔ ایک قول یہ ہے کہ نعمتِ ظاہرہ اسلام کا غلبہ اور دشمنوں پر فتح یاب ہونا ہے اور نعمتِ باطنہ ملائکہ کا امداد کے لئے آنا۔ ایک قول یہ ہے کہ نعمتِ ظاہرہ رسول کا اِتّباع ہے اور نعمتِ باطنہ ان کی مَحبت۔ رَزَقَنَا اللہُ تَعَالیٰ اِتِّبَاعَہٗ وَ مَحَبَّتَہٗ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۳۸ تو جو کہیں گے جہل و نادانی ہو گا اور شانِ الٰہی میں اس طرح کی جرأت و لب کشائی نہایت بیجا اور گمراہی ہے۔ شانِ نُزول : یہ آیت نصر بن حارث و اُبَیْ بن خلف وغیرہ کُفّار کے حق میں نازل ہوئی جو باوجود بے علم و جاہل ہونے کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے متعلق جھگڑے کیا کرتے تھے۔
۳۹ یعنی اپنے باپ دادا کے طریقے ہی پر رہیں گے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔
۴۰ جب بھی وہ اپنے دادا ہی کی پیروی کئے جائیں گے۔
دینِ خالص اس کے لئے قبول کرے، اس کی عبادت میں مشغول ہو، اپنے کام اس پر تفویض کرے، اسی پر بھروسہ رکھے۔
اے سیدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
یعنی ہم انہیں ان کے اعمال کی سزا دیں گے۔
۴۴ یعنی تھوڑی مہلت دیں گے کہ وہ دنیا کے مزے اٹھائیں۔
۴۵ آخرت میں اور وہ دوزخ کا عذاب ہے جس سے وہ رہائی نہ پائیں گے۔
۴۶ یہ ان کے اقرار پر انہیں الزام دینا ہے کہ جس نے آسمان و زمین پیدا کئے وہ اللہ واحد لاشریک لہٗ ہے تو واجب ہوا کہ اس کی حمد کی جائے، اس کا شکر ادا کیا جائے اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔
۴۷ سب اس کے مملوک، مخلوق اور بندے ہیں تو اس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں۔
۴۸ اور ساری خَلق اللہ تعالیٰ کے کلمات کو لکھے اور وہ تمام قلم اور ان تمام سمندروں کی سیاہی ختم ہو جائے۔
۴۹ کیونکہ معلوماتِ الٰہیہ غیرِ متناہی ہیں۔ شانِ نُزول : جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ہجرت کر کے مدینہ طیّبہ تشریف لائے تو یہود کے علماء و احبار نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلاً یعنی تمہیں تھوڑا علم دیا گیا تو اس سے آپ کی مراد ہم لوگ ہیں یا صرف اپنی قوم ؟ فرمایا سب مراد ہیں، انہوں نے کہا کیا آپ کی کتاب میں یہ نہیں ہے کہ ہمیں توریت دی گئی ہے اس میں ہر شے کا علم ہے ؟ حضور نے فرمایا کہ ہر شے کا علم بھی علمِ الٰہی کے حضور قلیل ہے اور تمہیں تو اللہ تعالیٰ نے اتنا علم دیا ہے کہ اس پر عمل کرو تو نفع پاؤ، انہوں نے کہا آپ کیسے یہ خیال فرماتے ہیں آپ کا قول تو یہ ہے کہ جسے حکمت دی گئی اسے خیرِ کثیر دی گئی تو علمِ قلیل اور خیرِ کثیر کیسے جمع ہو۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی، اس تقدیر پر یہ آیت مدنی ہو گی۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہود نے قریش سے کہا تھا کہ مکّہ میں جا کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے اس طرح کا کلام کریں۔ ایک قول یہ ہے کہ مشرکین نے یہ کہا تھا کہ قرآن اور جو کچھ محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم لاتے ہیں یہ عنقریب تمام ہو جائے گا پھر قصّہ ختم۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
۵۰ اللہ پر کچھ دشوار نہیں اس کی قدرت یہ ہے کہ ایک کُن سے سب کو پیدا کر دے۔
۵۱ یعنی ایک کو گھٹا کر دوسرے کو بڑھا کر اور جو وقت ایک میں سے گھٹاتا ہے دوسرے میں بڑھا دیتا ہے۔
۵۳ یعنی روزِ قیامت تک یا اپنے اپنے اوقاتِ معیّنہ تک، سورج آخر سال تک اور چاند آخرِ ماہ تک۔
۵۴ وہی ان اشیائے مذکورہ پر قادر ہے تو وہی مستحقِ عبادت ہے۔
۵۵ فنا ہونے والے ان میں سے کوئی مستحقِ عبادت نہیں ہو سکتا۔
۵۶ اس کی رحمت اور اس کے احسان سے۔
۵۸ جو بلاؤں پر صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر گزار ہو، صبر و شکر یہ دونوں صفتیں مومن کی ہیں۔
۶۰ اور اس کے حضور تضرُّع اور زاری کرتے ہیں اور اسی سے دعا و التجاء، اس وقت ماسوا کو بھول جاتے ہیں۔
۶۱ اپنے ایمان و اخلاص پر قائم رہتا کُفر کی طرف نہیں لوٹتا۔ شانِ نُزول : کہا گیا ہے کہ یہ آیت عکرمہ بن ابی جہل کے حق میں نازل ہوئی جس سال مکّہ مکرّمہ کی فتح ہوئی تو وہ سمندر کی طرف بھاگ گئے، وہاں بادِ مخالف نے گھیرا اور خطرے میں پڑ گئے تو عکرمہ نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اس خطرے سے نجات دے تو میں ضرور سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا یعنی اطاعت کروں گا، اللہ تعالیٰ نے کرم کیا ہوا ٹھہر گئی اور عکرمہ مکّہ مکرّمہ کی طرف آ گئے اور اسلام لائے اور بڑا مخلصانہ اسلام لائے اور بعض ان میں ایسے تھے جنہوں نے عہدِ وفا نہ کیا، ان کی نسبت اگلے جملہ میں ارشاد ہوتا ہے۔
۶۳ روزِ قیامت ہر انسان نفسی نفسی کہتا ہو گا اور باپ بیٹے کے اور بیٹا باپ کے کام نہ آ سکے گا، نہ کافِروں کی مسلمان اولاد انہیں فائدہ پہنچا سکے گی نہ مسلمان ماں باپ کافِر اولاد کو۔
۶۴ ایسا دن ضرور آنا اور بَعث و حساب و جزا کا وعدہ ضرور پورا ہونا ہے۔
۶۵ جس کی تمام نعمتیں اور لذّتیں فانی کہ ان کے شیفتہ ہو کر نعمتِ ایمان سے محروم رہ جاؤ۔
۶۶ یعنی شیطان دور و دراز کی امیدوں میں ڈال کر معصیّتوں اور میں مبتلا نہ کر دے۔
۶۷ شانِ نُزول : یہ آیت حارث بن عمرو کے حق میں نازل ہوئی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قیامت کا وقت دریافت کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ میں نے کھیتی بوئی ہے خبر دیجئے مینہ کب آئے گا اور میری عورت حاملہ ہے مجھے بتائیے کہ اس کے پیٹ میں کیا ہے لڑکا یا لڑکی، یہ تو مجھے معلوم ہے کہ کل میں نے کیا کیا، یہ مجھے بتائیے کہ آئندہ کل کو کیا کروں گا، یہ بھی جانتا ہوں کہ میں کہاں پیدا ہوا مجھے یہ بتائیے کہ کہاں مروں گا۔ اس کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۶۸ جس کو چاہے اپنے اولیا اور اپنے محبوبوں میں سے انہیں خبردار کرے۔ اس آیت میں جن پانچ چیزوں کے علم کی خصوصیّت اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ بیان فرمائی گئی انہیں کی نسبت سورۂ جن میں ارشاد ہوا عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْھِرُ عَلیٰ غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضیٰ مِنْ رَّسُوْلٍ غرض یہ کہ بغیر اللہ تعالیٰ کے بتائے ان چیزوں کا علم کسی کو نہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے محبوبوں میں سے جسے چاہے بتائے اور اپنے پسندیدہ رسولوں کو بتانے کی خبر خود اس نے سورۂ جن میں دی ہے خلاصہ یہ کہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور انبیاء و اولیاء کو غیب کا علم اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے بطریقِ معجِزہ و کرامت عطا ہوتا ہے، یہ اس اختصاص کے منافی نہیں اور کثیر آیتیں اور حدیثیں اس پر دلالت کرتی ہیں، بارش کا وقت اور حمل میں کیا ہے اور کل کو کیا کرے اور کہاں مَرے گا ان امور کی خبریں بکثرت اولیاء و انبیاء نے دی ہیں اور قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرشتوں نے حضرت اسحٰق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی اور حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت یحیی علیہ السلام کے پیدا ہونے کی اور حضرت مریم کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیدا ہونے کی خبریں دیں تو ان فرشتوں کو بھی پہلے سے معلوم تھا کہ ان حملوں میں کیا ہے اور ان حضرات کو بھی جنہیں فرشتوں نے اطلاعیں دیں تھی اور ان سب کا جاننا قرآنِ کریم سے ثابت ہے تو آیت کے معنیٰ قطعاً یہی ہیں کہ بغیر اللہ تعالیٰ کے بتائے کوئی نہیں جانتا۔ اس کے یہ معنیٰ لینا کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے بھی کوئی نہیں جانتا مَحض باطل اور صدہا آیات و احادیث کے خلاف ہے۔ (خازن، بیضاوی، احمدی، روح البیان وغیرہ)