۱ سورۂ سبا مکیّہ ہے سوائے آیت وَیَرَی الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اس میں چھ۶ رکوع، چوّن۵۴ آیتیں اور آٹھ سو تینتیس ۸۳۳کلمے، ایک ہزار پانچ سو بار ہ ۱۵۱۲ حرف ہیں۔
۲ یعنی ہر چیز کا مالک، خالِق اور حاکم اللہ تعالیٰ ہے اور ہر نعمت اسی کی طرف سے تو وہی حمد و ثنا کا مستحق اور سزا وار ہے۔
۳ یعنی جیسا دنیا میں حمد کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے ویسا ہی آخرت میں بھی حمد کا مستحق وہی ہے کیونکہ دونوں جہان اسی کی نعمتوں سے بھرے ہوئے ہیں دنیا میں تو بندوں پر اس کی حمد و ثنا واجب ہے کیونکہ یہ دار التکلیف ہے اور آخرت میں اہلِ جنّت نعمتوں کے سرور اور راحتوں کی خوشی میں اس کی حمد کریں گے۔
۴ یعنی زمین کے اندر داخل ہوتا ہے جیسے کہ بارش کا پانی اور مردے اور دفینے۔
۵ جیسے کہ سبزہ اور درخت اور چشمے اور کانیں اور بوقتِ حشر مُردے۔
۶ جیسے کہ بارش برف اولے اور طرح طرح کی برکتیں اور فرشتے۔
۷ جیسے کہ فرشتے اور دعائیں اور بندوں کے عمل۔
۸ یعنی انہوں نے قیامت کے آنے کا انکار کیا۔
۹ یعنی میرا ربّ غیب کا جاننے والا ہے اس سے کوئی چیز مخفی نہیں تو قیامت کا آنا اور اس کے قائم ہونے کا وقت بھی اس کے علم میں ہے۔
۱۲ اور ان میں طعن کر کے اور ان شِعر و سِحر وغیرہ بتا کر لوگوں کو ان سے روکنا چاہا۔ (اس کا مزید بیان اسی سورت کے آخر رکوع پانچ میں آئے گا)
۱۳ یعنی اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم یا مومنین اہلِ کتاب مثل عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھیوں کے۔
۱۵ یعنی کافِروں نے آپس میں متعجّب ہو کر کہا۔
۱۶ یعنی سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۱۷ جو وہ ایسی عجیب و غریب باتیں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے کُفّار کے اس مقولہ کا رد فرمایا کہ یہ دونوں باتیں نہیں حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ان دونوں سے مبرّا ہیں۔
۱۸ یعنی کافِر بَعث و حساب کا انکار کرنے والے۔
۱۹ یعنی کیا وہ اندھے ہیں کہ انہوں نے آسمان و ز مین کی طرف نظر ہی نہیں ڈالی اور اپنے آگے پیچھے دیکھا ہی نہیں جو انہیں معلوم ہوتا کہ وہ ہر طرف سے احاطہ میں ہیں اور زمین و آسمان کے اقطار سے باہر نہیں جا سکتے اور مُلکِ خدا سے نہیں نکل سکتے اور انہیں بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں، انہوں نے آیات اور رسول کی تکذیب و انکار کے دہشت انگیز جُرم کا ارتکاب کرتے ہوئے خوف نہ کھایا اور اپنی اس حالت کا خیال کر کے نہ ڈرے۔
۲۰ ان کی تکذیب و انکار کی سزائیں قارون کی طرح۔
۲۲ جو دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بَعث پر اور اس کے منکِر کے عذاب پر اور ہر شئے پر قادر ہے۔
۲۳ یعنی نبوّت اور کتاب اور کہا گیا ہے مُلک اور ایک قول یہ ہے کہ حُسنِ صوت وغیرہ تمام چیزیں جو آپ کو خصوصیت کے ساتھ عطا فرمائی گئیں اور اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو حکم دیا۔
۲۴ جب وہ تسبیح کریں ان کے ساتھ تسبیح کرو چنانچہ جب حضرت داؤد علیہ السلام تسبیح کرتے تو پہاڑوں سے بھی تسبیح سنی جاتی اور پرند جھک آتے، یہ آپ کا معجِزہ تھا۔
۲۵ کہ آپ کے دستِ مبارک میں آ کر مثل موم یا گوندھے ہوئے آٹے کے نرم ہو جاتا اور آپ اس سے جو چاہتے بغیر آگ کے اور بغیر ٹھونکے پیٹے بنا لیتے۔ اس کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب آپ بنی اسرائیل کے بادشاہ ہوئے تو آپ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ لوگوں کے حالات کی جستجو کے لئے اس طرح نکلتے کہ لوگ آپ کو نہ پہچانیں اور جب کوئی ملتا اور آپ کو نہ پہچانتا تو اس سے آپ دریافت کرتے کہ داؤد کیسا شخص ہے ؟ سب لوگ تعریف کرتے، اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ بصورتِ انسان بھیجا، حضرت داؤد علیہ السلام نے اس سے بھی حسبِ عادت یہی سوال کیا تو وہ فرشتہ نے کہا کہ داؤد ہیں تو بہت ہی اچھے آدمی،کاش ان میں ایک خصلت نہ ہوتی، اس پر آپ متوجِہ ہوئے اور فرمایا کہ بندۂ خدا کون سی خصلت ؟ اس نے کہا کہ وہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا خرچ بیت المال سے لیتے ہیں، یہ سن کر آپ کے خیال میں آیا کہ اگر آپ بیت المال سے وظیفہ نہ لیتے تو زیادہ بہتر ہوتا اس لئے آپ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ ان کے لئے کوئی ایسا سبب کر دے جس سے آپ اپنے اہل و عیال کا گزارا کریں اور بیت المال (خزانۂ شاہی) سے آپ کو بے نیازی ہو جائے، آپ کی یہ دعا مستجاب ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے لوہے کو نرم کیا اور آپ کو صنعتِ زِرہ سازی کا علم دیا، سب سے پہلے زِرہ بنانے والے آپ ہی ہیں، آپ روزانہ ایک زِرہ بناتے تھے و ہ چار ہزار کو بِکتی تھی، اس میں سے اپنے اور اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ فرماتے اور فقراء و مساکین پر بھی صدقہ کرتے۔ اس کا بیان آیت میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے داؤد علیہ السلام کے لئے لوہا نرم کر کے ان سے فرمایا۔
۲۶ کہ اس کے حلقے یکساں اور متوسط ہوں نہ بہت تنگ نہ فراخ۔
۲۷ چنانچہ آپ صبح کو دمشق سے روانہ ہوتے تو دوپہر کو قیلولہ اُصُطخر میں فرماتے جو مُلکِ فارَس میں ہے اور دمشق سے ایک مہینہ کی راہ پر ہے اور شام کو اُصُطخر سے روانہ ہوتے تو شب کو کابل میں آرام فرماتے، یہ بھی تیز سوار کے لئے ایک مہینہ کا راستہ ہے۔
۲۸ جو تین روز سرزمینِ یمن میں پانی کی طرح جاری رہا اور ایک قول یہ ہے کہ ہر مہینہ میں تین روز جاری رہتا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے تانبے کو پِگھلا دیا جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے لوہے کو نرم کیا تھا۔
۲۹ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے جِنّات کو مطیع کیا۔
۳۰ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی فرمانبرداری نہ کرے۔
۳۱ اور عالی شان عمارتیں اور مسجدیں اور انہیں میں سے بیت المقدس بھی ہے۔
۳۲ درندوں اور پرندوں وغیرہ کی تانبے اور بلور اور پتّھر وغیرہ سے اور اس شریعت میں تصویر بنانا حرام نہ تھا۔
۳۳ اتنے بڑے کہ ایک لگن میں ہزار آدمی کھاتے۔
۳۴ جو اپنے پایوں پر قائم تھیں اور بہت بڑی تھیں حتّیٰ کہ اپنی جگہ سے ہٹائی نہیں جا سکتی تھیں سیڑھیاں لگا کر ان پر چڑھتے تھے یہ یمن میں تھیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے فرمایا کہ۔
۳۵ اللہ تعالیٰ کا ان نعمتوں پر جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اس کی اطاعت بجا لا کر۔
۳۶ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی تھی کہ ان کی وفات کا حال جِنّات پر ظاہر نہ ہوتا کہ انسانوں کو معلوم ہو جائے کہ جن غیب نہیں جانتے پھر آپ محراب میں داخل ہوئے اور حسبِ عادت نماز کے لئے اپنے عصا پر تکیہ لگا کر کھڑے ہو گئے، جِنّات حسبِ دستور اپنی خدمتوں میں مشغول رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ حضرت زندہ ہیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا عرصہ دراز تک اسی حال پر رہنا ان کے لئے کچھ حیرت کا باعث نہیں ہوا کیونکہ وہ بارہا دیکھتے تھے کہ آپ ایک ماہ، دو۲ دو۲ ماہ اور اس سے زیادہ عرصہ تک عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور آپ کی نماز بہت دراز ہوتی ہے حتّیٰ کہ آپ کی وفات کے پورے ایک سال بعد تک جِنّات آپ کی وفات پر مطلع نہ ہوئے اور اپنی خدمتوں میں مشغول رہے یہاں تک کہ بحکمِ الٰہی دیمک نے آپ کا عصا کھا لیا اور آپ کا جسمِ مبارک جو لاٹھی کے سہارے سے قائم تھا زمین پر آیا، اس وقت جِنّات کو آپ کی وفات کا علم ہوا۔
۳۸ تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات سے مطلع ہوتے۔
۳۹ اور ایک سال تک عمارت کے کاموں میں تکلیفِ شاقّہ اٹھاتے نہ رہتے۔ مروی ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی بِنا اس مقام پر رکھی تھی جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خیمہ نصب کیا گیا تھا، اس عمارت کے پورا ہونے سے قبل حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کا وقت آ گیا تو آپ نے اپنے فرزندِ ارجمند حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس کی تکمیل کی وصیّت فرمائی چنانچہ آپ نے شیاطین کو اس کی تکمیل کا حکم دیا جب آپ کی وفات کا وقت قریب پہنچا تو آپ نے دعا کی کہ آپ کی وفات شیاطین پر ظاہر نہ ہو تاکہ وہ عمارت کی تکمیل تک مصروفِ عمل رہیں اور انہیں جو علمِ غیب کا دعویٰ ہے وہ باطل ہو جائے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی عمر شریف تریپن سال کی ہوئی تیرہ سال کی عمر شریف میں آپ سریر آرائے سلطنت ہوئے چالیس سال حکمرانی فرمائی۔
۴۰ سبا عرب کا ایک قبیلہ ہے جو اپنے جد کے نام سے مشہور ہے اور وہ جد سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان ہے۔
اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت و قدرت پر دلالت کرنے والی اور وہ نشانی کیا تھی اس کا آگے بیان ہوتا ہے۔
یعنی ان کی وادی کے داہنے اور بائیں دور تک چلے گئے اور ان سے کہا گیا تھا۔
۴۴ باغ ایسے کثیر الثمر تھے کہ جب کوئی شخص سر پر ٹوکرہ لئے گزرتا تو بغیر ہاتھ لگائے قِسم قِسم کے میووں سے اس کا ٹوکرہ بھر جاتا۔
۴۵ یعنی اس نعمت پر اس کی طاعت بجا لاؤ۔
۴۶ لطیف آب و ہوا صاف ستھری سرزمین، نہ اس میں مچھر، نہ مکھی، نہ کھٹمل، نہ سانپ، نہ بچھو، ہوا کی پاکیزگی کا یہ عالَم کہ اگر کہیں اور کا کوئی شخص اس شہر میں گزر جائے اور اس کے کپڑوں میں جوئیں ہوں تو سب مر جائیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ شہرِ سبا صنعا سے تین فرسنگ کے فاصلہ پر تھا۔
۴۷ یعنی اگر تم ربّ کی روزی پر شکر کرو اور اطاعت بجا لاؤ تو وہ بخشش فرمانے والا ہے۔
۴۸ اس کی شکر گزاری سے اور انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کی۔ وہب کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف تیرہ نبی بھیجے جنہوں نے ان کو حق کی دعوتیں دیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلائیں اور اس کے عذاب سے ڈرایا مگر وہ ایمان نہ لائے اور انہوں نے انبیاء کو جھٹلا دیا اور کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ ہم پر خدا کی کوئی بھی نعمت ہو تم اپنے ربّ سے کہہ دو کہ اس سے ہو سکے تو وہ ان نعمتوں کو روک لے۔
۴۹ عظیم سیلاب جس سے ان کے باغ اموال سب ڈوب گئے اور ان کے مکانات ریت میں دفن ہو گئے اور اس طرح تباہ ہوئے کہ ان کی تباہی عرب کے لئے مثل بن گئی۔
۵۱ جیسی ویرانوں میں جم آتی ہیں اس طرح کی جھاڑیوں اور وحشت ناک جنگل کو جو ان کے خوش نما باغوں کی جگہ پیدا ہو گیا تھا بطریقِ مشاکلت باغ فرمایا۔
۵۴ کہ وہاں کے رہنے والوں کو وسیع نعمتیں اور پانی اور درخت اور چشمے عنایت کئے، مراد ان سے شام کے شہر ہیں۔
۵۵ قریب قریب سبا سے شام تک سفر کرنے والوں کو اس راہ میں توشہ اور پانی ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ ہوتی۔
۵۶ کہ چلنے والا ایک مقام سے صبح چلے تو دوپہر کو ایک آبادی میں پہنچ جائے جہاں ضروریات کے تمام سامان ہوں اور جب دوپہر کو چلے تو شام کو ایک شہر میں پہنچ جائے، یمن سے شام تک کا تمام سفر اسی آسائش کے ساتھ طے ہو سکے اور ہم نے ان سے کہا کہ۔
۵۷ نہ راتوں میں کوئی کھٹکا، نہ دنوں میں کوئی تکلیف، نہ دشمن کا اندیشہ، نہ بھوک پیاس کا غم، مالداروں میں حسد پیدا ہوا کہ ہمارے اور غریبوں کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں رہا قریب قریب کی منزلیں ہیں لوگ خراماں خراماں ہوا خوری کرتے چلے جاتے ہیں، تھوڑی دیر کے بعد دوسری آبادی آ جاتی ہے وہاں آرام کرتے ہیں، نہ سفر میں تکان ہے نہ کوفت، اگر منزلیں دور ہوتیں، سفر کی مدّت دراز ہوتی، راہ میں پانی نہ ملتا، جنگلوں اور بیابانوں میں گزر ہوتا تو ہم توشہ ساتھ لیتے، پانی کے انتظام کرتے، سواریاں اور خدام ساتھ رکھتے، سفر کا لطف آتا اور امیر و غریب کا فرق ظاہر ہوتا، یہ خیال کر کے انہوں نے کہا۔
۵۸ یعنی ہمارے اور شام کے درمیان جنگل اور بیابان کر دے کہ بغیر توشہ اور سواری کے سفر نہ ہو سکے۔
۵۹ بعد والوں کے لئے کہ ان کے احوال سے عبرت حاصل کریں۔
۶۰ قبیلہ قبیلہ منتشر ہو گیا وہ بستیاں غرق ہو گئیں اور لوگ بے خانماں ہو کر جُدا جُدا بلاد میں پہنچے۔ غسان شام میں اور ازل عمّان میں اور خزاعہ تہامہ میں اور آلِ خزیمہ عراق میں اور اوس خزرج کا جد عمرو بن عامر مدینہ میں۔
۶۱ اور صبر و شکر مومن کی صفت ہے کہ جب وہ بَلا میں مبتلا ہوتا ہے صبر کرتا ہے اور جب نعمت پاتا ہے شکر بجا لاتا ہے۔
۶۲ یعنی ابلیس جو گمان رکھتا تھا کہ بنی آدم کو وہ شہوت و حرص اور غضب کے ذریعہ گمراہ کر دے گا۔ یہ گمان اس نے اہلِ سبا پر بلکہ تمام کافِروں پر سچّا کر دکھایا کہ وہ اس کے متبع ہو گئے اور اس کی اطاعت کرنے لگے۔ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ شیطان نے نہ کسی پر تلوار کھینچی، نہ کسی پر کوڑے مارے جھوٹے، وعدوں اور باطل امیدوں سے اہلِ باطل کو گمراہ کر دیا۔
۶۳ انہوں نے اس کا اِتّباع نہ کیا۔
۶۴ جن کے حق میں اس کا گمان پورا ہوا۔
۶۵ اے محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم مکّہ مکرّمہ کے کافِروں سے۔
۶۷ کہ وہ تمہاری مصیبتیں دور کریں لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ کسی نفع و ضرر میں۔
۶۹ یعنی شفاعت کرنے والوں کو ایمانداروں کی شفاعت کا اذن دیا۔
۷۰ یعنی آسمان سے مینہ برسا کر اور زمین سے سبزہ اُگا کر۔
۷۱ کیونکہ اس سوال کا بَجُز اس کے اور کوئی جواب ہی نہیں۔
۷۲ یعنی دونوں فریقوں میں سے ہر ایک کے لئے ان دونوں حالوں میں سے ایک حال ضروری ہے۔
۷۳ اور یہ ظاہر ہے کہ جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کو روزی دینے والا، پانی برسانے والا، سبزہ اُگانے والا جانتے ہوئے بھی بُتوں کو پُوجے جو کسی ایک ذرّہ بھر چیز کے مالک نہیں (جیسا کہ اوپر آیات میں بیان ہو چکا ) وہ یقیناً کھُلی گمراہی میں ہے۔
۷۴ بلکہ ہر شخص سے اس کے عمل کا سوال ہو گا اور ہر ایک اپنے عمل کی جزا پائے گا۔
۷۶ تو اہلِ حق کو جنّت میں اور اہلِ باطل کو دوزخ میں داخل کرے گا۔
۷۷ یعنی جن بُتوں کو تم نے عبادت میں شریک کیا ہے مجھے دکھاؤ تو کس قابل ہیں، کیا وہ کچھ پیدا کرتے ہیں، روزی دیتے ہیں اور جب یہ کچھ نہیں تو ان کو خدا کا شریک بنانا اور ان کی عبادت کرنا کیسی عظیم خطا ہے اس سے باز آؤ۔
۷۸ اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی رسالت عامّہ ہے تمام انسان اس کے احاطہ میں ہیں گورے ہوں یا کالے، عربی ہوں یا عجمی، پہلے ہوں یا پچھلے سب کے لئے آپ رسول ہیں اور وہ سب آپ کے اُمّتی۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے سیدِ عالَم علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا فرمائی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ دی گئیں (۱) ایک ماہ کی مسافت کے رعب سے میری مدد کی گئی (۲) تمام زمین میرے لئے مسجد اور پاک کی گئی کہ جہاں میرے اُمّتی کو نماز کا وقت ہو نماز پڑھے (۳) اور میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھیں (۴) اور مجھے مرتبۂ شفاعت عطا کیا گیا (۵) اور انبیاء خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے اور میں تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا گیا۔ حدیث میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے فضائلِ مخصوصہ کا بیان ہے جن میں سے ایک آپ کی رسالتِ عا مّہ ہے جو تمام جن و انس کو شامل ہے خلاصہ یہ کہ حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم تمام خَلق کے رسول ہیں اور یہ مرتبہ خاص آپ کا ہے جو قرآنِ کریم کی آیات اور احادیثِ کثیرہ سے ثابت ہے سورۂ فرقان کی ابتداء میں بھی اس کا بیان گزر چکا ہے۔ (خازن)
۷۹ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل کی۔
۸۱ اور اپنے جہل کی وجہ سے آپ کی مخالفت کرتے ہیں۔
۸۳ یعنی اگر تم مہلت چاہو تو تاخیر ممکن نہیں اور اگر جلدی چاہو تو تقدم ممکن نہیں بہر تقدیر اس وعدہ کا اپنے وقت پر پورا ہونا۔
۸۷ اور ہمیں ایمان لانے سے نہ روکتے۔
۸۸ یعنی تم شب و روز ہمارے لئے مَکَر کرتے تھے اور ہمیں ہر وقت شرک پر ابھارتے تھے۔
۸۹ دونوں فریق تابع بھی اور متبوع بھی، پیرو بھی اور ان کے بہکانے والے بھی ایمان نہ لانے پر۔
۹۱ خواہ بہکانے والے ہوں یا ان کے کہنے میں آنے والے تمام کُفّار کی یہی سزا ہے۔
۹۳ اس میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تسکینِ خاطر فرمائی گئی کہ آپ ان کُفّار کی تکذیب و انکار سے رنجیدہ نہ ہوں، کُفّار کا انبیاء علیہم السلام کے ساتھ یہی دستور رہا ہے اور مالدار لوگ اسی طرح اپنے مال اور اولاد کے غرور میں انبیاء کی تکذیب کرتے رہے ہیں۔ شانِ نزول : دو شخص شریکِ تجارت تھے ان میں سے ایک مُلکِ شام کو گیا اور ایک مکّہ مکرّمہ میں رہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم مبعوث ہوئے اور اس نے مُلکِ شام میں حضور کی خبرسنی تو اپنے شریک کو خط لکھا اور اس سے حضور کا مفصّل حال دریافت کیا، اس شریک نے جواب میں لکھا کہ محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اپنی نبوّت کا اعلان تو کیا ہے لیکن سوائے چھوٹے درجے کے حقیر و غریب لوگوں کے اور کسی نے ان کا اِتّباع نہیں کیا جب یہ خط اس کے پاس پہنچا تو وہ اپنے تجارتی کام چھوڑ کر مکّہ مکرّمہ آیا اور آتے ہی اپنے شریک سے کہا کہ مجھے سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا پتہ بتاؤ اور معلوم کر کے حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ دنیا کو کیا دعوت دیتے ہیں اور ہم سے کیا چاہتے ہیں ؟ فرمایا بُت پرستی چھوڑ کر ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور آپ نے احکامِ اسلام بتائے، یہ باتیں اس کے دل میں اثر کر گئیں اور وہ شخص پچھلی کتابوں کا عالِم تھا کہنے لگا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ بے شک اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، حضور نے فرمایا تم نے یہ کیسے جانا ؟ اس نے کہا کہ جب کبھی کوئی نبی بھیجا گیا پہلے چھوٹے درجے کے غریب لوگ ہی اس کے تابع ہوئے یہ سنتِ الٰہیہ ہمیشہ ہی جاری رہی۔ اس پر آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۹۴ یعنی جب دنیا میں ہم خوش حال ہیں تو ہمارے اعمال و افعال اللہ تعالیٰ کو پسند ہوں گے اور ایسا ہوا تو آخرت میں عذاب نہیں ہو گا، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس خیالِ باطل کا ابطال فرما دیا کہ ثوابِ آخرت کو معیشتِ دنیا پر قیاس کرنا غلط ہے۔
۹۵ بطریقِ اِبتلا و امتحان تو دنیا میں روزی کی کشائش رضائے الٰہی کی دلیل نہیں اور ایسے ہی اس کی تنگی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی دلیل نہیں، کبھی گنہگار پر وسعت کرتا ہے، کبھی فرمانبردار پر تنگی، یہ اس کی حکمت ہے ثوابِ آخرت کو اس پر قیاس کرنا غلط و بیجا ہے۔
۹۶ یعنی مال کسی کے لئے سببِ قرب نہیں سوائے مومنِ صالح کے جو اس کو راہِ خدا میں خرچ کرے اور اولاد کسی کے لئے سببِ قرب نہیں سوائے اس مومن کے جو انہیں نیک علم سکھائے، دین کی تعلیم دے اور صالح و متقی بنائے۔
۹۷ ایک نیکی کے بدلے دس سے لے کر سات سو گنے تک اور اس سے بھی زیادہ جتنا خدا چاہے۔
۹۸ یعنی جنّت کے منازلِ بالا میں۔
۹۹ یعنی قرآنِ کریم پر زبانِ طعن کھولتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اپنی ان باطل کاریوں سے وہ لوگوں کو ایمان لانے سے روک دیں گے اور ان کا یہ مَکَر اسلام کے حق میں چل جائے گا اور وہ ہمارے عذاب سے بچ رہیں گے کیونکہ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ مرنے کے بعد اٹھنا ہی نہیں ہے تو عذاب ثواب کیسا۔
۱۰۰ اور ان کی مکّاریاں انہیں کچھ کام نہ آئیں گی۔
۱۰۲ دنیا میں یا آخرت میں۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خرچ کرو تم پر خرچ کیا جائے گا۔ دوسری حدیث میں ہے صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا، معاف کرنے سے عزّت بڑھتی ہے، تو اضُع سے مرتبے بلند ہوتے ہیں۔
۱۰۳ کیونکہ اس کے سوا جو کوئی کسی کو دیتا ہے خواہ بادشاہ لشکر کو یا آقا غلام کو یا صاحبِ خانہ اپنے عیال کو وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی اور اس کی عطا فرمائی ہوئی روزی میں سے دیتا ہے، رزق اور اس سے منتفع ہونے کے اسباب کا خالِق سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں وہی رزّاقِ حقیقی ہے۔
۱۰۶ یعنی ہماری ان سے کوئی دوستی نہیں تو ہم کس طرح ان کے پُوجنے سے راضی ہو سکتے تھے ہم اس سے بَری ہیں۔
۱۰۷ یعنی شیاطین کو کہ ان کی اطاعت کے لئے غیرِ خدا کو پُوجتے تھے۔
۱۰۹ اور وہ جھوٹے معبود اپنے پجاریوں کو کچھ نفع نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔
۱۱۱ یعنی آیاتِ قرآن زبانِ سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے۔
۱۱۲ حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نسبت۔
۱۱۶ یعنی آپ سے پہلے مشرکینِ عرب کے پاس نہ کوئی کتاب آئی نہ رسول جس کی طرف اپنے دین کی نسبت کر سکیں تو یہ جس خیال پر ہیں ان کے پاس اس کی کوئی سند نہیں وہ ان کے نفس کا فریب ہے۔
۱۱۷ یعنی پہلی اُمّتوں نے مثل قریش کے رسولوں کی تکذیب کی اور ان کو۔
۱۱۸ یعنی جو قوّت و کثرتِ مال و اولاد و طولِ عمر پہلوں کو دی گئی تھی مشرکینِ قریش کے پاس تو اس کا دسواں حصّہ بھی نہیں، ان کے پہلے تو ان سے طاقت و قوّت مال و دولت میں دس گنے سے زیادہ تھے۔
۱۱۹ یعنی ان کو ناپسند رکھنا اور عذاب دینا اور ہلاک فرمانا یعنی پہلے مکذِّبین نے جب میرے رسولوں کو جھٹلایا تو میں نے اپنے عذاب سے انہیں ہلاک کیا اور ان کی طاقت و قوّت اور مال و دولت کوئی چیز بھی کام نہ آئی ان لوگوں کی کیا حقیقت ہے انہیں ڈرنا چاہئے۔
۱۲۰ اگر تم نے اس پر عمل کیا تو تم پر حق واضح ہو جائے گا اور تم وَساوِس و شبہات اور گمراہی کی مصیبت سے نجات پاؤ گے وہ نصیحت یہ ہے۔
۱۲۱ مَحض طلبِ حق کی نیّت سے اپنے آپ کو طرفداری اور تعصّب سے خالی کر کے۔
۱۲۲ تاکہ باہم مشورہ کر سکو اور ہر ایک دوسرے سے اپنی فکر کا نتیجہ بیان کر سکے اور دونوں انصاف کے ساتھ غور کر سکیں۔
۱۲۳ تاکہ مجمع اور اژدہام سے طبیعت متوحّش نہ ہو اور تعصّب اور طرفداری و مقابلہ و لحاظ وغیرہ سے طبیعتیں پاک رہیں اور اپنے دل میں انصاف کرنے کا موقع ملے۔
۱۲۴ اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نسبت غور کرو کہ کیا جیسا کہ کُفّار آپ کی طرف جنّون کی نسبت کرتے ہیں اس میں سچّائی کا کچھ شائبہ بھی ہے ؟ تمہارے اپنے تجربہ میں قریش میں یا نوعِ انسان میں کوئی شخص بھی اس مرتبہ کا عاقل نظر آیا ہے ؟ کیا ایسا ذہین ایسا صائب الرائے دیکھا ہے، ایسا سچّا، ایسا پاک نفس کوئی اور بھی پایا ہے ؟ جب تمہارا نفس حکم کر دے اور تمہارا ضمیر مان لے کہ حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ان اوصاف میں یکتا ہیں تو تم یقین جانو۔
۱۲۷ یعنی میں نصیحت و ہدایت اور تبلیغ و رسالت پر تم سے کوئی اجر نہیں طلب کرتا۔
۱۳۰ یعنی شرک و کُفر مٹ گیا، نہ اس کی ابتدا رہی، نہ اس کا اعادہ مراد یہ ہے کہ وہ ہلاک ہو گیا۔
۱۳۱ کُفّارِ مکّہ حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کہتے تھے کہ آپ گمراہ ہو گئے۔ (معاذ اللہ تعالیٰ) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو حکم دیا کہ آپ ان سے فرما دیں کہ اگر یہ فرض کیا جائے کہ میں بہکا تو اس کا وبال میرے نفس پر ہے۔
۱۳۲ حکمت و بیان کی کیونکہ راہ یاب ہونا اسی کی توفیق و ہدایت پر ہے۔،انبیاء سب معصوم ہوتے ہیں گناہ ان سے نہیں ہو سکتا اور حضور تو سید الانبیاء ہیں صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم، خَلق کو نیکیوں کی راہیں آپ کے اِتّباع سے ملتی ہیں باوجود جلالتِ منزلت و رفعتِ مرتبت کے آپ کو حکم دیا گیا کہ ضلالت کی نسبت علیٰ سبیلِ الفرض اپنے نفس کی طرف فرمائیں تاکہ خَلق کو معلوم ہو کہ ضلالت کا منشاء انسان کا نفس ہے، جب اس کو اس پر چھوڑ دیا جاتا ہے اس سے ضلالت پیدا ہوتی ہے اور ہدایت حضرتِ حق عزّ و علا کی رحمت و موہبت سے حاصل ہوتی ہے نفس اس کا منشاء نہیں۔
۱۳۳ ہر راہ یاب اور گمراہ کو جانتا ہے اور ان کے عمل و کردار سے باخبر ہے کوئی کتنا ہی چھُپائے کسی کا حال اس سے چھُپ نہیں سکتا۔ عرب کے ایک مایہ ناز شاعر اسلام لائے تو کُفّار نے ان سے کہا کہ کیا تم اپنے دین سے پھر گئے اور اپنے بڑے شاعر اور زبان کے ماہر ہو کر محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر ایمان لائے ؟ انہوں نے کہا ہاں وہ مجھ پر غالب آ گئے، قرآنِ کریم کی تین آیتیں میں نے سنیں اور چاہا کہ ان کے قافیہ پر تین شِعر کہوں ہر چند کوشش کی، محنت اٹھائی، اپنی قوّت صَرف کر دی مگر یہ ممکن نہ ہو سکا تب مجھے یقین ہو گیا کہ یہ بشر کا کلام نہیں وہ آیتیں قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَقْذِفُ بِالْحَقِّ سے سَمِیْع قَرِیْب تک ہیں۔ (روح البیان)
۱۳۴ کُفّار کو مرنے یا قبر سے اٹھنے کے وقت یا بدر کے دن۔
۱۳۵ اور کوئی جگہ بھاگنے اور پناہ لینے کی نہ پا سکیں گے۔
۱۳۶ جہاں بھی ہوں گے کیونکہ کہیں بھی ہوں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے دور نہیں ہو سکتے اس وقت حق کی معرفت کے لئے مضطر ہوں گے۔
۱یعنی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر۔
۱۳۸ یعنی اب مکلَّف ہونے کے محل سے دور ہو کر توبہ و ایمان کیسے پا سکیں گے۔
۱۴۰ یعنی بے جانے کہہ گزرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی شان میں کہا تھا کہ وہ شاعر ہیں، ساحر ہیں، کاہن ہیں اور انہوں نے کبھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے شعر و سحر و کہانت کا صدور نہ دیکھا تھا۔
۱یعنی صدق و واقعیّت سے دور کہ ان کے ان مطاعن کو صدق سے قرب و نزدیکی بھی نہیں۔