۱ سورۂ وَالصّٰفّٰتْ مکّیہ ہے، اس میں پانچ رکوع، ایک سو بیاسی۱۸۲ آیتیں اور آٹھ سو ساٹھ۸۶۰ کلمے اور تین ہزار آٹھ سو چھبّیس ۳۸۲۶ حرف ہیں۔
۲ اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قَسم یاد فرمائی چند گروہوں کی یا تو مراد اس سے ملائکہ کے گروہ ہیں جو نمازیوں کی طرح صف بستہ ہو کر اس کے حکم کے منتظر رہتے ہیں یا عُلَمائے دین کے گروہ جو تہجّد اور تمام نمازوں میں صفیں باندھ کر مصروفِ عبادت رہتے ہیں یا غازیوں کے گروہ جو راہِ خدا میں صفیں باندھ کر دشمنانِ حق کے مقابل ہوتے ہیں۔ (مدارک)
۳ پہلی تقدیر پر جھڑک کر چَلانے والوں سے مراد ملائکہ ہیں جو ابر پر مقرر ہیں اور اس کو حکم دے کر چَلاتے ہیں اور دوسری تقدیر پر وہ عُلَماء جو وعظ و پند سے لوگوں کو جھڑک کر دین کی راہ چَلاتے ہیں تیسری صورت میں وہ غازی جو گھوڑوں کو ڈپٹ کر جہاد میں چَلاتے ہیں۔
۴ یعنی آسمان اور زمین اور ان کی درمیانی کائنات اور تمام حدود و جہات سب کا مالک وہی ہے تو کوئی دوسرا کس طرح مستحقِ عبادت ہو سکتا ہے لہذا وہ شریک سے منزّہ ہے۔
۵ جو زمین کے بہ نسبت اور آسمانوں سے قریب تر ہے۔
۶ یعنی ہم نے آسمان کو ہر ایک نافرمان شیطان سے محفوظ رکھا کہ جب شیاطین آسمان پر جانے کا ارادہ کریں تو فرشتے شہاب مار کر ان کو دفع کر دیں لہذا شیاطین آسمان پر نہیں جا سکتے اور۔
۷ اور آسمان کے فرشتوں کی گفتگو نہیں سن سکتے۔
۸ انگاروں کی جب وہ اس نیّت سے آسمان کی طرف جائیں۔
۱۰ یعنی اگر کوئی شیطان ملائکہ کا کوئی کلمہ کبھی لے بھاگا۔
۱۱ کہ اسے جَلائے اور ایذا پہنچائے۔
۱۳ تو جس قادرِ برحق کو آسمان و زمین جیسی عظیم مخلو ق کا پیدا کر دینا کچھ بھی مشکل اور دشوار نہیں تو انسانوں کا پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہو سکتا ہے۔
۱۴ یہ ان کے ضعف کی ایک اور شہادت ہے کہ ان کی پیدائش کا اصل مادّہ مٹی ہے جو کوئی شدّت و قوّت نہیں رکھتی اور اس میں ان پر ایک اور برہان قائم فرمائی گئی ہے کہ چپکتی مٹی ان کا مادّۂ پیدائش ہے تو اب پھر جسم کے گل جانے اور غایت یہ ہے کہ مٹی ہو جانے کہ بعد اس مٹی سے پھر دوبارہ پیدائش کو وہ کیوں ناممکن جانتے ہیں مادّہ موجود اور صانع موجود پھر دوبارہ پیدائش کیسے محال ہو سکتی۔
۱۵ ان کے تکذیب کرنے سے کہ ایسے واضح الدلالۃ آیات وبیّنات کے باوجود وہ کس طرح تکذیب کرتے ہیں۔
۱۶ آپ سے اور آپ کے تعجّب سے یا مرنے کے بعد اٹھنے سے۔
۱۸ جو ہم سے زمانہ میں مقدم ہیں۔ کُفّار کے نزدیک ان کے باپ دادا کا زندہ کیا جانا خود ان کے زندہ کئے جانے سے زیادہ بعید تھا اس لئے انہوں نے یہ کہا۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے فرماتا ہے۔
۲۰ ایک ہی ہولناک آواز ہے نفخۂ ثانیہ کی۔
۲۱ زندہ ہو کر اپنے افعال اور پیش آنے والے احوال۔
۲۲ یعنی فرشتے کہیں گے کہ یہ انصاف کا دن ہے یہ حساب و جزا کا دن ہے۔
۲۳ دنیا میں اور فرشتوں کو حکم دیا جائے گا۔
۲۴ ظالموں سے مراد کافِر ہیں اور ان کے جوڑوں سے مراد ان کے شیاطین جو دنیا میں ان کے جلیس و قرین رہتے تھے ہر ایک کافِر اپنے شیطان کے ساتھ ایک ہی زنجیر میں جکڑ دیا جائے گا اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ جوڑوں سے مراد اشباہ و امثال ہیں یعنی ہر کافِر اپنے ہی قِسم کے کُفّار کے ساتھ ہانکا جائے گا، بُت پرست بُت پرستوں کے ساتھ اور آتش پرست آتش پرستوں کے ساتھ وعلیٰ ہذا القیا س۔
۲۶ حدیث شریف میں ہے کہ روزِ قیامت بندہ جگہ سے ہل نہ سکے گا جب تک چار باتیں اس سے نہ پوچھ لی جائیں (۱) ایک اس کی عمر کہ کس کام میں گزری (۲) دوسرے اس کا علم کہ اس پر کیا عمل کیا (۳)تیسرے اس کا مال کہ کہاں سے کمایا کہاں خرچ کیا (۴) چوتھے اس کا جسم کہ اس کو کس کام میں لایا۔
۲۷ یہ ان سے جہنّم کے خازن بطریقِ توبیخ کہیں گے کہ دنیا میں تو ایک دوسرے کی امداد پر بہت غرّہ رکھتے تھے آج دیکھو کیسے عاجز ہو تم میں سے کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکتا۔
۲۹ اپنے سرداروں سے جو دنیا میں بہکاتے تھے۔
۳۰ یعنی بزورِ قوّت ہمیں گمراہی پر آمادہ کرتے تھے۔ اس پر کُفّار کے سردار کہیں گے اور۔
۳۱ پہلے ہی سے کافِر تھے اور ایمان سے با اختیارِ خود اعراض کر چکے تھے۔
۳۲ کہ ہم تمہیں اپنے اِتّباع پر مجبور کرتے۔
۳۳ جو اس نے فرمائی کہ میں ضرور جہنّم کو جِنّوں اور انسانوں سے بھروں گا لہذا۔
۳۴ اس کا عذاب گمراہوں کو بھی اور گمراہ کرنے والوں کو بھی۔
۳۶ گمراہ بھی اور ان کے گمراہ کرنے والے سردار بھی کیونکہ یہ سب دنیا میں گمراہی میں شریک تھے۔
۳۷ اور توحید قبول نہ کرتے تھے شرک سے باز نہ آتے تھے۔
۳۸ یعنی سیدِ عالَم حبیبِ خدا محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے فرمانے سے۔
۳۹ دین و توحید و نفیِ شرک میں۔
۴۰ اس شرک اور تکذیب کا جو دنیا میں کر آئے ہو۔
اور نفیس و لذیذ نعمتیں، خوش ذائقہ، خوشبودار، خوش منظر۔
۴۴ جس کی پاکیزہ نہریں نگاہوں کے سامنے جاری ہوں گی۔
۴۶ بخلاف دنیا کی شراب کے جو بدبو دار اور بد ذائقہ ہوتی ہے اور پینے والا اس کو پیتے وقت منھ بگاڑ بگاڑ لیتا ہے۔
۴۸ بخلاف دنیا کی شراب کے جس میں بہت سے فسادات اور عیب ہیں اس سے پیٹ میں بھی درد ہوتا ہے، سر میں بھی، پیشاب میں بھی تکلیف ہو جاتی ہے، طبیعت مالش کرتی ہے، قے آتی ہے، سر چکراتا ہے، عقل ٹھکانے نہیں رہتی۔
۴۹ کہ اس کے نزدیک اس کا شوہر ہی صاحبِ حُسن اور پیارا ہے۔
۵۰ گرد و غبار سے پاک صاف دلکش رنگ۔
۵۲ کہ دنیا میں کیا حالات و واقعات پیش آئے۔
۵۳ دنیا میں جو مرنے کے بعد اٹھنے کا منکِر تھا اور اس کی نسبت طنز کے طریقہ پر۔
۵۵ اور ہم سے حساب لیا جائے گا، یہ بیان کر کے اس جنّتی نے اپنے جنّتی دوستوں سے۔
۵۶ کہ میرے اس ہم نشین کا جہنّم میں کیا حال ہے۔
۵۷ کہ عذاب کے اندر گرفتار ہے تو اس جنّتی نے اس سے۔
۵۹ اور اپنے رحمت و کرم سے مجھے تیرے اغوا سے محفوظ نہ رکھتا اور اسلام پر قائم رہنے کی توفیق نہ دیتا۔
۶۰ تیرے ساتھ جہنّم میں اور جب موت ذبح کر دی جائے گی تو اہلِ جنّت فرشتوں سے کہیں گے۔
۶۲ فرشتے کہیں گے نہیں اور اہلِ جنّت کا یہ دریافت کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ تلذُّذ اور دائمی حیات کی نعمت اور عذاب سے مامون ہونے کے احسان پر اس کی نعمت کا ذکر کرنے کے لئے ہے اور اس ذکر سے انہیں سرور حاصل ہو گا۔
۶۳ یعنی جنّتی نعمتیں اور لذّتیں اور وہاں کے نفیس و لطیف مآ کل و مشارب اور دائمی عیش اور بے نہایت راحت و سرور۔
۶۴ نہایت تلخ، انتہا کا بدبو دار، حد درجہ کا بدمزہ، سخت ناگوار جس سے دوزخیوں کی میزبانی کی جائے گی اور ان کو اس کے کھانے پر مجبور کیا جائے گا۔
۶۵ کہ دنیا میں کافِر اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آگ درختوں کو جَلا ڈالتی تو آگ میں درخت کیسے ہو گا۔
۶۶ اور اس کی شاخیں جہنّم کے درکات میں پہنچتی ہیں۔
۶۷ یعنی نہایت بد ہیئت اور قبیح المنظر۔
۶۸ شدّت کی بھوک سے مجبور ہو کر۔
۶۹ یعنی جہنّمی تھوہڑ سے ان کے پیٹ بھریں گے وہ جلتا ہو گا پیٹوں کو جَلائے گا، اس کی سوزش سے پیاس کا غلبہ ہو گا اور مدّت تک تو پیاس کی تکلیف میں رکھے جائیں گے پھر جب پینے کو دیا جائے گا تو گرم کھولتا پانی اس کی گرمی اور سوزش اس تھوہڑ کی گرمی اور جلن سے مل کر اور تکلیف و بے چینی بڑھائے گی۔
۷۰ کیونکہ زقوم کھِلانے اور گرم پانی پلانے کے لئے، ان کو اپنے درکات سے دوسرے درکات میں لے جایا جائے گا، اس کے بعد پھر اپنے درکات کی طرف لوٹائے جائیں گے، اس کے بعد ان کے مستحقِ عذاب ہونے کی علّت ارشاد فرمائی جاتی ہے۔
۷۱ اور گمراہی میں ان کا اِتّباع کرتے ہیں اور حق کے دلائلِ واضحہ سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
۷۲ اسی وجہ سے کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کی غلط راہ نہ چھوڑی اور حُجّت و دلیل سے فائدہ نہ اٹھایا۔
۷۳ یعنی انبیاء علیہم السلام جنہوں نے ان کو گمراہی اور بدعملی کے بُرے انجام کا خوف دلایا۔
۷۴ کہ وہ عذاب سے ہلاک کئے گئے۔
۷۵ ایماندار جنہوں نے اپنے اخلاص کے سبب نجات پائی۔
۷۶ اور ہم سے اپنی قوم کے عذاب و ہلاک کی درخواست کی۔
۷۷ کہ ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی اور ان سے پورا انتقام لیا کہ انہیں غرق کر کے ہلاک کر دیا۔
۷۸ تو اب دنیا میں جتنے انسان ہیں سب حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کَشتی سے اُترنے کے بعد ان کے ہمراہیوں میں جس قدر مرد و عورت تھے سبھی مر گئے سوا آپ کی اولاد اور ان کی عورتوں کے، انہیں سے دنیا کی نسلیں چلیں، عرب اور فارس اور روم آپ کے فرزند سام کی اولاد سے ہیں اور سوڈان کے لوگ آپ کے بیٹے حام کی نسل سے اور ترک اور یاجوج ماجوج وغیرہ آپ کے صاحب زادے یافث کی اولاد سے۔
۷۹ یعنی ان کے بعد والے انبیاء علیہم السلام اور ان کی اُمّتوں میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکرِ جمیل باقی رکھا۔
۸۰ یعنی ملائکہ اور جنّ و انس سب ان پر قیامت تک سلام بھیجا کریں۔
۸۱ یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے کافِروں کو۔
۸۲ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے دین و ملت اور انہیں کے طریق و سنّت پر ہیں، حضرت نوح علیہ السلام و حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان دو ہزار چھ سو چالیس برس کا زمانی فرق ہے اور دونوں حضرات کے درمیان جو عہد گزرا اس میں صرف دو نبی ہوئے حضرت ہود و حضرت صالح علیہما السلام۔
۸۳ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے قلب کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کیا اور ہر چیز سے فارغ کر لیا۔
۸۵ کہ جب تم اس کے سوا دوسرے کو پُوجو گے تو کیا وہ تمہیں بے عذاب چھوڑ دے گا باوجود یہ کہ تم جانتے ہو کہ وہی منعِمِ حقیقی، مستحقِ عبادت ہے۔ قوم نے کہا کہ کل کو ہماری عید ہے، جنگل میں میلہ لگے گا، ہم نفیس کھانے پکا کر بُتوں کے پاس رکھ جائیں گے اور میلہ سے واپس ہو کر تبرُّک کے طور پر ان کو کھائیں گے، آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں اور مجمع اور میلہ کی رونق دیکھیں، وہاں سے واپس ہو کر بُتوں کی زینت اور سجاوٹ اور ا ن کا بناؤ سنگار دیکھیں، یہ تماشا دیکھنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ آپ بُت پرستی پر ہمیں ملامت نہ کریں گے۔
۸۶ جیسے کہ ستارہ شناس نجوم کے ماہر ستاروں کے مواقعِ اتصالات و انصرافات کو دیکھا کرتے ہیں۔
۸۷ قوم نجوم کی بہت معتقد تھی وہ سمجھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں سے اپنے بیمار ہونے کا حال معلوم کر لیا، اب یہ کسی متعدّی مرض میں مبتلا ہونے والے ہیں اور متعدّی مرض سے وہ لوگ بہت ڈرتے تھے۔ مسئلہ : علمِ نجوم حق ہے اور سیکھنے میں مشغول ہونا منسوخ ہو چکا۔ مسئلہ : شرعاً کوئی مرض متعدّی نہیں ہوتا یعنی ایک شخص کا مرض بعینہٖ دوسرے میں نہیں پہنچ جاتا، مادّوں کے فساد اور ہوا وغیرہ کی سَمِیّتوں کے اثر سے ایک وقت میں بہت سے لوگوں کو ایک طرح کے مرض ہو سکتے ہیں لیکن حدوث مرض کا ہر ایک میں جداگانہ ہے، کسی کا مرض کسی دوسرے میں نہیں پہنچتا۔
۸۸ اپنی عید کی طرف اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھوڑ گئے آپ بُت خانہ میں آئے۔
۸۹ یعنی اس کھانے کو جو تمہارے سامنے رکھا ہے بُتوں نے اس کا کچھ جواب نہ دیا اور وہ جواب ہی کیا دیتے تو آپ نے فرمایا۔
۹۰ اس پر بھی بُتوں کی طرف سے کوئی جواب نہ ہوا، وہ بے جان پتّھرتھے جواب کیا دیتے۔
۹۱ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بُتوں کو مار مار کر پارہ پارہ کر دیا، جب کافِروں کو اس کی خبر پہنچی۔
۹۲ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہم تو ان بُتوں کو پُوجتے ہیں تم انہیں توڑتے ہو۔
۹۳ تو پُوجنے کا مستحق وہ ہے نہ بُت، اس پر وہ حیران ہو گئے اور ان سے کوئی جواب نہ بن آیا۔
۹۴ پتّھر کی تیس گز لمبی بیس گز چوڑی چار دیواری پھر اس کو لکڑیوں سے بھر دو اور ان میں آگ لگا دو یہاں تک کہ آگ زور پکڑے۔
۹۵ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس آگ میں سلامت رکھ کر چنانچہ آگ سے آپ سلامت برآمد ہوئے۔
۹۶ اس دار الکفر سے ہجرت کر کے جہاں جانے کا میرا ربّ حکم دے۔
۹۷ چنانچہ بحکمِ الٰہی آپ سرزمینِ شام میں ارضِ مقدَّسہ کے مقام پر پہنچے تو آپ نے اپنے ربّ سے دعا کی۔
۹۸ یعنی تیرے ذبح کا انتظام کر رہا ہوں اور انبیاء علیہم السلام کی خواب حق ہوتی ہے اور ان کے افعال بحکمِ الٰہی ہوا کرتے ہیں۔
۹۹ یہ آپ نے اس لئے کہا تھا کہ فرزند کو ذبح سے وحشت نہ ہو اور اطاعتِ امرِ الٰہی کے لئے وہ برغبت تیار ہوں چنانچہ اس فرزندِ ارجمند نے رضا ئے الٰہی پر فدا ہونے کا کمالِ شوق سے اظہار کیا۔
۱۰۰ یہ واقعہ مِنیٰ میں واقع ہوا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرزند کے گلے پر چھری چلائی، قدرتِ الٰہی کہ چھری نے کچھ بھی کام نہ کیا۔
۱۰۱ اطاعت و فرمانبرداری کمال کو پہنچا دی، فرزند کو ذبح کے لئے بے دریغ پیش کر دیا بس اب اتنا کافی ہے۔
۱۰۲ اس میں اختلاف ہے کہ یہ فرزند حضرت اسمٰعیل ہیں یا حضرت اسحٰق علیہما السلام لیکن دلائل کی قوّت یہی بتاتی ہے کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہی ہیں اور فدیہ میں جنّت سے بکری بھیجی گئی تھی جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح فرمایا۔
۱۰۴ واقعۂ ذبح کے بعد حضرت اسحٰق کی خوشخبری اس کی دلیل ہے کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل علیہما السلام ہیں۔
۱۰۵ ہر طرح کی برکت دینی بھی اور دنیوی بھی اور ظاہری برکت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد میں کثرت کی اور حضرت اسحٰق علیہ السلام کی نسل سے بہت سے انبیاء کئے حضرت یعقوب سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک۔
فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ کسی باپ کے صاحبِ فضائلِ کثیرہ ہونے سے اولاد کا بھی ویسا ہی ہونا لازم نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی شانیں ہیں، کبھی نیک سے نیک پیدا کرتا ہے، کبھی بد سے بد، کبھی بد سے نیک، نہ اولاد کا بد ہونا آباء کے لئے عیب ہو، نہ آباء کی بدی اولاد کے لئے۔
۱۰۸ کہ انہیں نبوّت و رسالت عنایت فرمائی۔
۱۱۰ کہ فرعون اور فرعونیوں کے مظالم سے رہائی دی۔
۱۱۳ جس کا بیان بلیغ اور وہ حدود و احکام وغیرہ کی جامع۔ اس کتاب سے مراد توریت شریف ہے۔
۱۱۴ جو بَعلَبَکَّ اور ان کے نواح کے لوگوں کی طرف سے مبعوث ہوئے۔
۱۱۵ یعنی کیا تمہیں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں۔
۱۱۶ بعل ان کے بت کا نام تھا جو سونے کا تھا اس کی لمبائی بیس گز تھی چار منھ تھے، اس کی بہت تعظیم کرتے تھے جس مقام میں وہ تھا اس جگہ کا نام بک تھا اسی سے بَعلَبَکَّ مرکب ہوا یہ بلادِ شام میں ہے۔
۱۱۹ یعنی اس قوم میں سے اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے جو حضرت الیاس علیہ السلام پر ایمان لائے انہوں نے عذاب سے نجات پائی۔
۱۲۱ یعنی حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے کفّار کو۔
۱۲۳ یعنی اپنے سفروں میں روز و شب تم ان کے آثار و منازل پر گزرتے ہو۔
۱۲۵ حضرت ابنِ عباس اور وہب کا قول ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم سے عذاب کا وعدہ کیا تھا اس میں تاخیر ہوئی تو آپ ان سے چھُپ کر نکل گئے اور آپ نے دریائی سفر کا قصد کیا کَشتی پر سوار ہوئے دریا کے درمیان میں کَشتی ٹھہر گئی اور اس کے ٹھہرنے کا کوئی سببِ ظاہر موجود نہ تھا۔ ملّاحوں نے کہا اس کَشتی میں اپنے مولا سے بھاگا ہوا کوئی غلام ہے قرعہ ڈالنے سے ظاہر ہو جائے گا قرعہ ڈالا گیا تو آپ ہی کے نام نکلا، تو آپ نے فرمایا کہ میں ہی وہ غلام ہوں اور آپ پانی میں ڈال دیئے گئے کیونکہ دستور یہی تھا کہ جب تک بھاگا ہوا غلام دریا میں غرق نہ کر دیا جائے اس وقت تک کَشتی چلتی نہ تھی۔
۱۲۶ کہ کیوں نکلنے میں جلدی کی اور قوم سے جدا ہونے میں امرِ الٰہی کا انتظار نہ کیا۔
۱۲۷ یعنی ذکرِ الٰہی کی کثرت کرنے والا اور مچھلی کے پیٹ میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ط پڑھنے والا۔
۱۲۹ مچھلی کے پیٹ سے نکال کر اسی روز یا تین روز یا سات روز یا چالیس روز کے بعد۔
۱۳۰ یعنی مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے باعث آپ ایسے ضعیف و نحیف اور نازک ہو گئے تھے جیسا بچّہ پیدائش کے وقت ہوتا ہے جسم کی کھال نرم ہو گئی اور بدن پر کوئی بال باقی نہ رہا تھا۔
۱۳۱ سایہ کرنے اور مکھیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے۔
۱۳۲ کدّو کی بیل ہوتی ہے جو زمین پر پھیلتی ہے۔ مگر یہ آپ کا معجزہ تھا کہ یہ کدّو کا درخت قد والے درختوں کی طرح شاخ رکھتا تھا اور اس کے بڑے بڑے پتّوں کے سایہ میں آپ آرام کرتے تھے۔ اور بحکمِ الٰہی روزانہ ایک بکری آتی اور اپنا تھن حضرت کے دہانِ مبارک میں دے کر آپ کو صبح و شام دودھ پلا جاتی یہاں تک کہ جسمِ مبارک کی جِلد شریف یعنی کھال مضبوط ہوئی اور اپنے موقع سے بال جمے اور جسم میں توانائی آئی۔
۱۳۳ پہلے کی طرح سرزمینِ موصل میں قومِ نینویٰ کے۔
۱۳۴ آثارِ عذاب دیکھ کر۔ (اس کا بیان سورۂ یونس کے دسویں رکوع میں گذر چکا ہے اور اس واقعہ کا بیان سورۂ انبیاء کے چھٹے رکوع میں بھی آ چکا ہے)
۱۳۵ یعنی ان کی آخرِ عمر تک انہیں آسائش کے ساتھ رکھا۔ اس واقعہ کے بیان فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے فرماتا ہے کہ آپ کفّارِ مکّہ سے انکارِ بعث کی وجہ دریافت کیجئے چنانچہ ارشاد فرماتا ہے۔
۱۳۶ جیسا کہ جہینہ اور بنی سلمہ وغیرہ کفّار کا اعتقاد ہے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔
۱۳۷ یعنی اپنے لئے تو بیٹیاں گوارا نہیں کرتے، بُری جانتے ہیں اور پھر ایسی چیز کو خدا کی طرف نسبت کرتے ہیں۔
۱۳۸ دیکھ رہے تھے کیونکہ ایسی بے ہودہ بات کہتے ہیں۔
۱۴۰ اور اتنا نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک اور منزّہ ہے۔
۱جیسا کہ بعض مشرکین نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جنّوں میں شادی کی اس سے فرشتے پیدا ہوئے(معاذ اللہ) کیسے عظیم کفر کے مرتکب ہوئے۔
۱یعنی اس بے ہودہ بات کے کہنے والے۔
۱۴۵ ایماندار اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں ان تمام باتوں سے جو کفّارِ نابکار کہتے ہیں۔
۱۴۶ یعنی تمہارے بت سب کے سب وہ اور۔
۱۴۸ جس کی قسمت ہی میں یہ ہے کہ وہ اپنے کردارِ بد سے مستحقِ جہنّم ہو۔
۱۴۹ جس میں اپنے رب کی عبادت کرتا ہے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ آسمانوں میں بالشت بھر بھی جگہ ایسی نہیں ہے جس میں کوئی فرشتہ نماز نہ پڑھتا ہو یا تسبیح نہ کرتا ہو۔
۱۵۰ یعنی مکّہ مکرّمہ کے کفّار و مشرکین سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے کہا کرتے تھے کہ۔
۱۵۲ اس کی اطاعت کرتے اور اخلاص کے ساتھ عبادت بجا لاتے پھر جب تمام کتابوں سے افضل و اشرف معجِز کتاب انہیں ملی یعنی قرآنِ مجید نازل ہوا۔
۱۵۵ جب تک کہ تمہیں ان کے ساتھ قتال کرنے کا حکم دیا جائے۔
۱۵۶ طرح طرح کے عذاب دنیا و آخرت میں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کفّار نے براہِ تمسخر و استہزاء کہا کہ یہ عذاب کب نازل ہو گا اس کے جواب میں اگلی آیت نازل ہوئی۔
۱۵۷ جو کافر اس کی شان میں کہتے ہیں اور اس کے لئے شریک اور اولاد ٹھہراتے ہیں۔
۱۵۸ جنہوں نے اللہ عزَّوجلَّ کی طرف سے توحید اور احکامِ شرع پہنچائے انسانی مراتب میں سب سے اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ خود کامل ہو اور دوسروں کی تکمیل کرے یہ شان انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی ہے تو ہر ایک پر ان حضرات کا اتباع اور ان کی اقتدا لازم ہے۔