۱ یہ سورۂ جاثیہ ہے، اس کا نام سورۂ شریعہ بھی ہے، یہ سورت مکّیہ ہے سوائے آیت قُلْ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَغْفِرُوْا کے، اس سورت میں چار ۴رکوع، سینتیس آیتیں، چار سو اٹھاسی ۴۸۸کلمے، دو ہزار ایک سو اکیانوے ۲۱۹۱ حرف ہیں۔
۲ اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیّت پر دلالت کرنے والی۔
۳ یعنی تمہاری پیدائش میں بھی اس کی قدرت و حکمت کی نشانیاں ہیں کہ نطفہ کو خون بناتا ہے، خون کو بستہ کرتا ہے، خونِ بستہ کو گوشت پارہ یہاں تک کہ پورا انسان بنادیتا ہے۔
۴ کہ کبھی گھٹتے ہیں،کبھی بڑھتے ہیں اور ایک جاتا ہے، دوسرا آتا ہے۔
۵ کہ کبھی گرم چلتی، کبھی سرد، کبھی جنوبی، کبھی شمالی، کبھی شرقی، کبھی غربی۔
شانِ نزول :کہا گیا ہے کہ یہ آیت نضر بن حارث کے حق میں نازل ہوئی جو عجم کے قصّے کہانیاں سنا کر لوگوں کو قرآنِ پاک سننے سے روکتا تھا اور یہ آیت ہر ایسے شخص کے لئے عام ہے جو دِین کو ضرر پہنچائے اور ایمان لانے اور قرآن سننے سے تکبر کرے۔
۹ یعنی بعدِ موت ان کا انجام کار اور مآل دوزخ ہے۔
۱۰ مال جس پر وہ بہت نازاں ہیں۔
۱۱ یعنی بت جن کو پوجا کرتے تھے۔
۱۳ بحری سفروں سے اور تجارتوں سے اور غوّاصی کرنے اور موتی وغیرہ نکالنے سے۔
۱۴ اس کے نعمت و کرم اور فضل و احسان کا۔
۱۷ جو دن کہ اس نے مومنین کی مدد کے لئے مقرر فرمائے، یا اللہ تعالیٰ کے دنوں سے وہ وقائع مراد ہیں جن میں وہ اپنے دشمنوں کو گرفتار کرتا ہے۔ بہرحال ان امید نہ رکھنے والوں سے مراد کفّار ہیں اور معنیٰ یہ ہیں کہ کفّار سے جو ایذا پہنچے اور ان کے کلمات جو تکلیف پہنچائیں، مسلمان ان سے در گزر کریں، منازعت نہ کریں وَقِیْلَ اِنَّ الایَٰۃَ مَنْسُوْخۃبِآیَۃِ الْقِتَالِ۔
شانِ نزول : اس آیت کی شانِ نزول میں کئی قول ہیں ایک یہ کہ غزوہ بنی مصطلق میں مسلمان بیرِ مُریسیع پر اترے یہ ایک کنواں تھا عبداللہ بن اُ بَیْ منافق نے اپنے غلام کو پانی کے لئے بھیجا وہ دیر میں آیا تو اس سے سبب دریافت کیا اس نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کنوئیں کے کنارے پر بیٹھے تھے جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشکیں نہ بھر گئیں اس وقت تک انہوں نے کسی کو پانی بھرنے نہ دیا یہ سن کر اس بدبخت نے ان حضرات کی شان میں گستاخانہ کلمے کہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ تلوار لے کر تیار ہوئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اس تقدیر پر آیت مدنی ہو گی۔ مقاتل کا قول ہے کہ قبیلہ بنی غفّار کے ایک شخص نے مکّہ مکرّمہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گالی دی تو آپ نے اس کو پکڑنے کا ارادہ کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
اور ایک قول یہ ہے کہ جب آیت مَنْ ذَالَّذِیْ یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا نازل ہوئی تو فِنْحَاص یہودی نے کہا کہ محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کا رب محتاج ہو گیا (معاذ اﷲ تعالیٰ) اس کو سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تلوار کھینچی اور اس کی تلاش میں نکلے حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے آدمی بھیج کر انہیں واپس بلوالیا۔
۱۹ نیکی اور بدی کا ثواب اور عذاب اس کے کرنے والے پر ہے۔
۲۰ وہ نیکوں اور بدوں کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔
۲۲ ان میں بکثرت انبیاء پیدا کر کے۔
۲۳ حلال کشائش کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے اموال و دیار کا مالک کر کے اور مَنْ و سَلْویٰ نازل فرما کر۔
۲۴ یعنی امرِ دِین اور بیانِ حلال و حرام اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے معبوث ہونے کی۔
۲۵ حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بعثت میں۔
۲۶ اور علم زوالِ اختلاف کا سبب ہوتا ہے اور یہاں ان لوگوں کے لئے اختلاف کا سبب ہوا، اس کا باعث یہ ہے کہ علم ان کا مقصود نہ تھا بلکہ مقصود ان کا جاہ و ریاست کی طلب تھی، اسی لئے انہوں نے اختلاف کیا۔
۲۷ کہ انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی جلوہ افروزی کے بعد اپنے جاہ و ریاست کے اندیشہ سے آپ کے ساتھ حسد اور دشمنی کی اور کافر ہو گئے۔
۲۹ اے حبیبِ خدا محمّد صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۳۰ یعنی رؤسائے قریش کی جو اپنے دِین کی دعوت دیتے ہیں۔
۳۱ صرف دنیا میں، آخرت میں ان کا کوئی دوست نہیں۔
۳۲ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، ڈر والوں سے مراد مومنین ہیں اور آگے قرآنِ پاک کی نسبت ارشاد ہوتا ہے۔
۳۳ کہ اس سے انہیں امورِ دِین میں بینائی حاصل ہوتی ہے۔
۳۵ یعنی ایمانداروں اور کافروں کی موت و حیات برابر ہو جائے ایسا ہر گز نہیں ہو گا کیونکہ ایماندار زندگی میں طاعت پر قائم رہے اور کافر بدیوں میں ڈوبے رہے تو ان دونوں کی زندگی برابر نہ ہوئی، ایسے ہی موت بھی یکساں نہیں کہ مومن کی موت بشارت و رحمت و کرامت پر ہوتی ہے اور کافر کی رحمت سے مایوسی اور ندامت پر۔ شانِ نزول : مشرکینِ مکّہ کی ایک جماعت نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ اگر تمہاری بات حق ہو اور مرنے کے بعد اٹھنا ہو تو بھی ہمیں ہی افضل رہیں گے جیسا کہ دنیا میں ہم تم سے بہتر رہے، ان کی رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔
۳۶ مخالف سرکش مخلص فرمانبردار کے برابر کیسے ہو سکتا ہے ؟ مومنین جَنّاتِ عالیات میں عزّت و کرامت اور عیش و راحت پائیں گے اور کفّار اسفلُ السافلین میں ذلّت و اہانت کے ساتھ سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔
۳۷ کہ اس کی قدرت و وحدانیّت کی دلیل ہو۔
۳۸ نیک نیکی کا اور بد بدی کا، اس آیت سے معلوم ہوا کہ اس عالَم کی پیدائش سے اظہارِ عدل و رحمت مقصود ہے اور یہ پوری طرح قیامت ہی میں ہو سکتا ہے کہ اہلِ حق اور اہلِ باطل میں امتیاز کامل ہو، مومن مخلص درجاتِ جنّت میں ہوں اور کافر نافرمان درکاتِ جہنّم میں۔
۳۹ اور اپنی خواہش کا تابع ہو گیا، جسے نفس نے چاہا پوجنے لگا، مشرکین کا یہی حال تھا کہ وہ پتّھر اور سونے اور چاندی وغیرہ کو پوجتے تھے، جب کوئی چیز انہیں پہلی چیز سے اچھی معلوم ہوتی تھی تو پہلی کو توڑ دیتے پھینک دیتے، دوسروں کو پوجنے لگتے۔
۴۰ کہ اس گمراہ نے حق کو جان پہچان کر بے راہی اختیار کی۔ مفسّرین نے اس کے یہ معنیٰ بھی بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے انجام کار اور اس کے شقی ہونے کو جانتے ہوئے اسے گمراہ کیا یعنی اللہ تعالیٰ پہلے سے جانتا تھا کہ یہ اپنے اختیار سے راہِ حق سے منحرف ہو گا اور گمراہی اختیار کرے گا۔
۴۱ تو اس نے ہدایت و موعظت کو نہ سنا اور نہ سمجھا اور راہِ حق کو نہ دیکھا۔
۴۳ یعنی اس زندگی کے علاوہ اور کوئی زندگی نہیں۔
۴۴ یعنی بعضے مرتے ہیں اور بعضے پیدا ہوتے ہیں۔
۴۵ یعنی روز و شب کا دورہ وہ اسی کو مؤثر اعتقاد کرتے تھے اور مَلَک الموت کا اور بحکمِ الٰہی روحیں قبض کئے جانے کا انکار کرتے تھے اور ہر ایک حادثہ کو دہر اور زمانہ کی طرف منسوب کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۴۶ یعنی وہ یہ بات بے علمی سے کہتے ہیں۔
مسئلہ : حوادث کو زمانہ کی طرف نسبت کرنا اور ناگوار حوادث رونما ہونے سے زمانہ کو بُرا کہنا ممنوع ہے، احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔
۴۸ یعنی قرآنِ پاک کی آیتیں جن میں اللہ تعالیٰ کے بعث بعد الموت پر قادر ہونے کی دلیلیں مذکور ہیں، جب کفّار ان کے جواب سے عاجز ہوتے ہیں۔
۵۰ اس بات میں کہ مردے زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔
۵۱ دنیا میں بعد اس کے کہ تم بے جان نطفہ تھے۔
۵۲ تمہاری عمریں پوری ہونے کے وقت۔
۵۳ زندہ کر کے تو جو پروردگار ایسی قدرت والا ہے وہ تمہارے باپ دادا کے زندہ کرنے پر بھی بالیقین قادر ہے، وہ سب کو زندہ کرے گا۔
۵۴ اس کو کہ اللہ تعالیٰ مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے اور ان کا نہ جاننا دلائل کی طرف ملتفت نہ ہونے اور غور نہ کرنے کے باعث ہے۔
۵۵ یعنی اس دن کافروں کا ٹوٹے میں ہونا ظاہر ہو گا۔
۵۸ یعنی ہم نے فرشتوں کو تمہارے عمل لکھنے کا حکم دیا تھا۔
۶۰ اور ان پر ایمان نہ لاتے تھے۔
۶۵ جو انہوں نے دنیا میں کئے تھے۔ اور ان کی سزائیں۔
۶۷ کہ ایمان و طاعت چھوڑ بیٹھے۔
۶۸ جو تمہیں اس عذاب سے بچا سکے۔
۶۹ کہ تم اس کے مفتوں ہو گئے اور تم نے بعث و حساب کا انکار کر دیا۔
۷۰ یعنی اب ان سے یہ بھی مطلوب نہیں کہ وہ توبہ کر کے اور ایمان و طاعت اختیار کر کے اپنے رب کو راضی کریں کیونکہ اس روز کوئی اور توبہ قبول نہیں۔