۱ سورۂ محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) مدنیّہ ہے، اس میں چار۴ رکوع اور اڑتیس۳۸ آیتیں، پانچ سو اٹھاون ۵۵۸کلمے، دو ہزار چار سو پچھتر ۲۴۷۵ حرف ہیں۔
۲ یعنی جو لوگ خود اسلام میں داخل نہ ہوئے اور دوسروں کو انہوں نے اسلام سے روکا۔
۳ جو کچھ بھی انہوں نے کئے ہوں خواہ بھوکوں کو کھلایا ہو یا اسیروں کو چھڑایا ہو یا غریبوں کی مد د کی ہو یا مسجدِ حرام یعنی خانۂ کعبہ کی عمارت میں کوئی خدمت کی ہو سب برباد ہوئی، آخرت میں اس کا کچھ ثواب نہیں۔ ضحّاک کا قول ہے کہ مراد یہ ہے کہ کفّار نے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے لئے جو مَکر سوچے تھے اور حیلے بنائے تھے اﷲ تعالیٰ نے ان کے وہ تمام کام باطل کر دیئے۔
۵ امورِ دِین میں توفیق عطا فرما کر اور دنیا میں ان کے دشمنوں کے مقابل ان کی مدد فرما کر۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ان کے ایّامِ حیات میں ان کی حفاظت فرما کر کہ ان سے عصیاں واقع نہ ہو۔
۷ یعنی فریقین کے کہ کافروں کے عمل اکارت اور ایمانداروں کی لغزشیں بھی مغفور۔
۱۰ یعنی کثرت سے قتل کر چکو اور باقی ماندوں کو قید کرنے کا موقع آ جائے۔
مسئلہ : مشرکین کے اسیروں کا حکم ہمارے نزدیک یہ ہے کہ انہیں قتل کیا جائے یا مملوک بنا لیا جائے اور احساناً چھوڑنا اور فدیہ لینا، جو اس آیت میں مذکور ہے وہ سورۂ برأت کی آیت اُقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ سے منسوخ ہو گیا۔
۱۲ یعنی جنگ ختم ہو جائے اس طرح کہ مشرکین اطاعت قبول کریں اور اسلام لائیں۔
۱۳ بغیر قتال کے انہیں زمین میں دھنسا کر یا ان پر پتّھر برسا کر یا اور کسی طرح۔
۱۵ قتال میں تاکہ مسلمان مقتول ثواب پائیں اور کافر عذاب۔
۱۶ ان کے اعمال کا ثواب پورا پورا دے گا۔
شانِ نزول : یہ آیت روزِ اُحد نازل ہوئی جب کہ مسلمان زیادہ مقتول و مجروح ہوئے۔
۱۸ وہ منازلِ جنّت میں نو وارد، نا آشنا کی طرح نہ پہنچیں گے جو کسی مقام پر جاتا ہے تو اس کو ہر چیز کے دریافت کرنے کی حاجت درپیش ہوتی ہے بلکہ وہ واقف کارانہ داخل ہوں گے، اپنے منازل اور مساکن پہچانتے ہوں گے، اپنی زوجہ اور خدّام کو جانتے ہوں گے، ہر چیز کا موقع ان کے علم میں ہو گا گویا کہ وہ ہمیشہ سے یہیں کے رہنے بسنے والے ہیں۔
۲۰ معرکۂ جنگ میں اور حجّتِ اسلام پر اور پل صراط پر۔
۲۱ یعنی قرآنِ پاک اس لئے کہ اس میں شہوات و لذّات کے ترک اور طاعات و عبادات میں مشقّتیں اٹھانے کے احکام ہیں جو نفس پر شاق ہوتے ہیں۔
۲۳ کہ انہیں اور ان کی اولاد اور ان کے اموال کو سب کو ہلاک کر دیا۔
۲۴ یعنی اگر یہ کافر سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر ایمان نہ لائیں توان کے لئے پہلے جیسی بہت سی تباہیاں ہیں۔
۲۵ یعنی مسلمانوں کا منصور ہونا اور کافروں کا مقہور ہونا۔
۲۶ دنیا میں چند روز غفلت کے ساتھ اپنے انجام و مآل کو فراموش کئے ہوئے۔
۲۷ اور انہیں تمیز نہ ہو کہ وہ اس کھانے کے بعد وہ ذبح کئے جائیں گے، یہی حال کفّار کا ہے جو غفلت کے ساتھ دنیا طلبی میں مشغول ہیں اور آنے والی مصیبتوں کا خیال بھی نہیں کرتے۔
۲۹ جو عذاب و ہلاک سے بچا سکے۔ شانِ نزول : جب سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے مکّہ مکرّمہ سے ہجرت کی اور غار کی طرف تشریف لے چلے تو مکّہ مکرّمہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اللہ تعالیٰ کے شہروں میں تو اللہ تعالیٰ کو بہت پیارا ہے اور اللہ تعالیٰ کے شہروں میں تو مجھے بہت پیارا ہے، اگر مشرکین مجھے نہ نکالتے تو میں تجھ سے نہ نکلتا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
۳۰ اور وہ مومنین ہیں کہ وہ قرآنِ معجز اور معجزاتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی برہانِ قوی پر یقینِ کامل اور جزمِ صادق رکھتے ہیں۔
۳۲ اور انہوں نے کفرو بت پرستی اختیار کی، ہرگز وہ مومن اور یہ کافر ایک سے نہیں ہو سکتے اور ان دونوں میں کچھ بھی نسبت نہیں۔
۳۳ یعنی ایسا لطیف کہ نہ سڑے، نہ اس کی بو بدلے، نہ اس کے ذائقہ میں فرق آئے۔
۳۴ بخلاف دنیا کے دودھ کے کہ خراب ہو جاتے ہیں۔
۳۵ خالص لذّت ہی لذّت، نہ دنیا کی شرابوں کی طرح اس کا ذائقہ خراب، نہ اس میں میل کچیل، نہ خراب چیزوں کی آمیزش، نہ وہ سڑ کر بنی، نہ اس کے پینے سے عقل زائل ہو، نہ سر چکرائے، نہ خُمار آئے، نہ دردِ سر پیدا ہو۔ یہ سب آفتیں دنیا ہی کی شراب میں ہیں، وہاں کی شراب ان سب عیوب سے پاک، نہایت لذیذ، مُفرّح، خوش گوار۔
۳۶ پیدائش میں یعنی صاف ہی پیدا کیا گیا، دنیا کے شہد کی طرح نہیں جو مکھی کے پیٹ سے نکلتا ہے اور اس میں موم وغیرہ کی آمیزش ہوتی ہے۔
۳۷ کہ وہ رب ان پر احسان فرماتا ہے اور ان سے راضی ہے اور ان پر سے تمام تکلیفی احکام اٹھالئے گئے ہیں جو چاہیں کھائیں، جتنا چاہیں کھائیں، نہ حساب، نہ عقاب۔
۳۹ خطبہ وغیرہ میں نہایت بے التفاتی کے ساتھ۔
۴۱ یعنی علمائے صحابہ سے، مثل ابنِ مسعود و ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مسخّرگی کے طور پر۔
۴۲ یعنی سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے۔ اﷲ تعاٍلیٰ ان منافقوں کے حق میں فرماتا ہے۔
۴۳ یعنی جب انہوں نے حق کا اتباع ترک کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب کو مردہ کر دیا۔
۴۴ اور انہوں نے نفاق اختیار کیا۔
۴۵ یعنی وہ اہلِ ایمان جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا کلام غور سے سنا اور اس سے نفع اٹھایا۔
۴۶ یعنی بصیرت و علم و شرحِ صدر۔
۴۷ یعنی پرہیزگاری کی توفیق دی اور اس پر مدد فرمائی یا یہ معنیٰ ہیں کہ انہیں پرہیزگاری کی جزا دی اور اس کا ثواب عطا فرمایا۔
۴۹ جن میں سے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بعثتِ مبارکہ اور قمر کا شق ہونا ہے۔
۵۰ یہ اس امّت پر اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے فرمایا کہ ان کے لئے مغفرت طلب فرمائیں اور آپ شفیع، مقبول الشفاعت ہیں۔ اس کے بعد مومنین وغیرِ مومنین سب سے عام خطاب ہے۔
۵۱ اپنے اشغال میں اور معاش کے کاموں میں۔
۵۲ یعنی وہ تمہارے تمام احوال کا جاننے والا ہے، اس سے کچھ بھی مخفی نہیں۔
۵۳ شانِ نزول : مومنین کو جہاد فی سبیل اللہ تعالیٰ کا بہت ہی شوق تھا، وہ کہتے تھے کہ ایسی سورت کیوں نہیں اترتی جس میں جہاد کا حکم ہوتا کہ ہم جہاد کریں، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۵۴ جس میں صاف غیر محتمل بیان ہو اور اس کا کوئی حکم منسوخ ہونے والا نہ ہو۔
۵۹ ایمان و اطاعت پر قائم رہ کر۔
۶۰ رشوتیں لو، ظلم کرو، آپس میں لڑو، ایک دوسرے کو قتل کرو۔
۶۴ کفر کے، کہ حق کی بات ان میں پہنچنے ہی نہیں پاتی۔
۶۶ اور طریقِ ہدایت واضح ہو چکا تھا۔ قتادہ نے کہا کہ یہ کفّارِ اہلِ کتاب کا حال ہے جنہوں نے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو پہچانا اور آپ کی نعت و صفت اپنی کتاب میں دیکھی، پھر باوجود جاننے پہچاننے کے کفر اختیار کیا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور ضحّاک و سدی کا قول ہے کہ اس سے منافق مراد ہیں جو ایمان لا کر کفر کی طرف پھر گئے۔
۶۷ اور برائیوں کو ان کی نظر میں ایسا مزیّن کیا کہ انہیں اچھا سمجھے۔
۶۸ کہ ابھی بہت عمر پڑی ہے، خوب دنیا کے مزے اٹھا لو اور ان پر شیطان کا فریب چل گیا۔
۶۹ یعنی اہلِ کتاب یا منافقین نے پوشیدہ طور پر۔
۷۲ یعنی سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی عداوت اور حضور کے خلاف انکے دشموں کی امداد کرنے میں اور لوگوں کو جہاد سے روکنے میں۔
۷۴ اور وہ بات رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی معیّت میں جہاد کو جانے سے روکنا اور کافروں کی مدد کرنا ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ وہ بات توریت کے ان مضامین کا چھُپانا ہے جن میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نعت شریف ہے۔
۷۷ یعنی ان کی وہ عداوتیں جو وہ مومنین کے ساتھ رکھتے ہیں۔
۷۸ حدیث : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کوئی منافق مخفی نہ رہا۔ آپ سب کو ان کی صورتوں سے پہچانتے تھے۔
۷۹ اور وہ اپنے ضمیر کا حال ان سے چھُپا نہ سکیں گے، چنانچہ اس کے بعد جو منافق لب ہلاتا تھا حضور اس کے نفاق کو اس کی بات سے اور اس کے فحوائے کلام سے پہچان لیتے تھے۔ فائدہ : اللہ تعالیٰ نے حضور کو بہت سے وجوہِ علم عطا فرمائے، ان میں سے صورت سے پہچاننا بھی ہے اور بات سے پہچاننا بھی۔
۸۰ یعنی اپنے بندوں کے تمام اعمال ہر ایک کو اس کے لائق جزا دے گا۔
۸۳ تاکہ ظاہر ہو جائے کہ طاعت و اخلاص کے دعوے میں تم میں سے کون اچھا ہے۔
۸۵ اور وہ صدقہ وغیرہ کسی چیز کا ثواب نہ پائیں گے کیونکہ جو کام اللہ تعالیٰ کے لئے نہ ہو اس کا ثواب ہی کیا ؟ شانِ نزول : جنگِ بدر کے لئے جب قریش نکلے تو وہ سال قحط کا تھا، لشکر کا کھانا قریش کے دولت مندوں نے نوبت بنوبت اپنے ذمّہ لے لیا تھا، مکّہ مکرّمہ سے نکل کر سب سے پہلا کھانا ابوجہل کی طرف سے تھا، جس کے لئے اس نے دس اونٹ ذبح کئے تھے، پھر صفوان نے مقامِ عُسفان میں نو۹اونٹ، پھر سہل نے مقامِ قدید میں دس، یہاں سے وہ لوگ سمندر کی طرف پھر گئے اور رستہ گم ہو گیا، ایک دن ٹھہرے، وہاں شیبہ کی طرف سے کھانا ہوا، نو اونٹ ذبح ہوئے، پھر مقامِ ابواء میں پہنچے، وہاں مُقَیَّسْ جمحی نے نو اونٹ ذبح کئے۔ حضرت عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کی طرف سے بھی دعوت ہوئی، اس وقت تک آپ مشرف بہ اسلام نہ ہوئے تھے، آپ کی طرف سے دس اونٹ ذبح کئے گئے، پھر حارث کی طرف سے نو، اور ابوالبختری کی طرف سے بدر کے چشمے پر دس اونٹ۔ ان کھانا دینے والوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔
۸۶ یعنی ایمان و طاعت پر قائم رہو۔
۸۷ ریا یا نفاق سے۔ شانِ نزول : بعض لوگوں کا خیال تھا کہ جیسے شرک کی وجہ سے تمام نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں اسی طرح ایمان کی برکت سے کوئی گناہ ضرر نہیں کرتا۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل فرمائی گئی اور بتایا گیا کہ مومن کے لئے اطاعتِ خدا اور رسول ضروری ہے گناہوں سے بچنا لازم ہے۔ مسئلہ : اس آیت میں عمل کے باطل کرنے کی ممانعت فرمائی گئی تو آدمی جو عمل شروع کرے خواہ وہ نفل ہی ہو نماز یا روزہ یا اور کوئی، لازم ہے کہ اس کو باطل نہ کرے۔
۸۸ شانِ نزول : یہ آیت اہلِ قلیب کے حق میں نازل ہوئی۔ قلیب بدر میں ایک کنواں ہے جس میں مقتول کفّار ڈالے گئے تھے ابوجہل اور اس کے ساتھی، اور حکم آیت کا ہر کافر کے لئے عام ہے جو کفر پر مرا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت نہ فرمائے گا، اس کے بعد اصحابِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو خطاب فرمایا جاتا ہے ٍاور حکم میں تمام مسلمان شامل ہیں۔
۸۹ یعنی دشمن کے مقابل میں کمزوری نہ دکھاؤ۔
۹۰ کفّار کو۔ قرطبی میں ہے کہ اس آیت کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے، بعض نے کہا یہ آیت وَاِنْ جَنَحُوْا کی ناسخ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے صلح کی طرف مائل ہونے کو منع فرمایا جب کہ صلح کی حاجت نہ ہو اور بعض علماء نے کہا کہ یہ آیت منسوخ ہے اور آیت وَاِنْ جَنَحُوْا اس کی ناسخ، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور دونوں آیتیں دو مختلف وقتوں اور مختلف حالتوں میں نازل ہوئیں، اور ایک قول یہ ہے کہ آیت وَاِنْ جَنَحُوْا کا حکم ایک معیّن قوم کے ساتھ خاص ہے اور یہ آیت عام ہے کہ کفّار کے ساتھ معاہدہ جائز نہیں مگر عندالضرورت جب کہ مسلمان ضعیف ہوں اور مقابلہ نہ کر سکیں۔
۹۱ تمہیں اعمال کا پورا پورا اجر عطا فرمائے گا۔
۹۲ نہایت جلد گزرنے والی اور اس میں مشغول ہونا کچھ بھی نافع نہیں۔
۹۳ ہاں راہِ خدا میں خرچ کرنے کا حکم دے گا تاکہ تمہیں اس کا ثواب ملے۔
۹۵ جہاں خرچ کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے۔
۹۶ صدقہ دینے اور فرض ادا کرنے میں۔