۱ سورۂ طور مکّیہ ہے، اس میں دو ۲رکوع، انچاس ۴۹آیتیں، تین سو بارہ ۳۱۲کلمے، ایک ہزار پانچ سو ۱۵۰۰ حرف ہیں۔
۲ یعنی اس پہاڑ کی قَسم جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شرفِ کلام سے مشرف فرمایا۔
۳ اس نوشتہ سے مراد یا توریت ہے یا قرآن یا لوحِ محفوظ یا اعمال نویس فرشتوں کے دفتر۔
۴ بیت المعمور ساتویں آسمان میں عرش کے سامنے کعبہ شریف کے بالکل مقابل ہے، یہ آسمان والوں کا قبلہ ہے، ہر روز ستّر ہزار فرشتے اس میں طواف و نماز کے لئے حاضر ہوتے ہیں، پھر کبھی انہیں لوٹنے کا موقع نہیں ملتا ۲۴ہر روز نئے ستّر ہزار حاضر ہوتے ہیں۔ حدیثِ معراج میں بصحت ثابت ہوا ہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ساتویں آسمان میں بیت المعمور کو ملاحظہ فرمایا۔
۵ اس سے مراد آسمان ہے جو زمین کے لئے بمنزلۂ چھت کے ہے یا عرش جو جنّت کی چھت ہے۔ (قرطبی عن ابنِ عباس)
۶ مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت تمام سمندروں کو آگ کر دے گا جس سے جہنّم کی آگ میں اور بھی زیادتی ہو جائے گی۔ (خازن)
۷ جس کا کفّار کو وعدہ دیا گیا ہے۔
۸ چکّی کی طرح گھومیں گے اور اس طرح حرکت میں آئیں گے کہ ان کے اجزاء مختلف و منتشر ہو جائیں۔
۹ جیسے کہ غبار ہوا میں اڑتا ہے، یہ دن قیامت کا دن ہو گا۔
۱۲ اور جہنّم کے خازن کافروں کے ہاتھ گردنوں سے اور پاؤں پیشانیوں سے ملا کر باندھیں گے اور انہیں منہ کے بَل جہنّم میں ڈھکیل دیں گے اور ان سے کہا جائے گا۔
۱۴ یہ ان سے اس لئے کہا جائے گا کہ وہ دنیا میں سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی طرف سِحر کی نسبت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہماری نظر بندی کر دی ہے۔
۱۵ نہ کہیں بھاگ سکتے ہو، نہ عذاب سے بچ سکتے ہو اور یہ عذاب۔
۱۷ اس کے عطا و نعمت، خیر و کرامت پر۔
۱۹ جو تم نے دنیا میں کئے کہ ایمان لائے اور خدا اور رسول کی طاعت اختیار کی۔
۲۰ جنّت میں اگرچہ باپ دادا کے درجے بلند ہوں تو بھی ان کی خوشی کے لئے ان کی اولاد ان کے ساتھ ملا دی جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس اولاد کو بھی وہ درجہ عطا فرمائے گا۔
۲۱ انہیں ان کے اعمال کا پورا ثواب دیا اور اولاد کے درجے اپنے فضل و کرم سے بلند کئے۔
۲۲ یعنی ہر کافر اپنے کفری عمل میں دوزخ کے اندر گرفتار ہے۔ (خازن)
۲۳ یعنی اہلِ جنّت کو ہم نے اپنے احسان سے دم بدم مزید نعمتیں عطا فرمائیں۔
۲۴ جیسا کہ دنیا کی شراب میں قِسم قِسم کے مفاسد تھے کیونکہ شرابِ جنّت کے پینے سے نہ عقل زائل ہوتی ہے، نہ خصلتیں خراب ہوتی ہیں، نہ پینے والا بے ہودہ بکتا ہے، نہ گنہگار ہوتا ہے۔
۲۵ خدمت کے لئے اور انکے حسن و صفا و پاکیزگی کا یہ عالَم ہے۔
۲۶ جنہیں کوئی ہاتھ ہی نہ لگا۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ کسی جنّتی کے پاس خدمت میں دوڑنے والے غلام ہزار سے کم نہ ہوں گے اور ہر غلام جدا جدا خدمت پر مقرر ہو گا۔
۲۷ یعنی جنّتی جنّت میں ایک دوسرے سے دریافت کریں گے کہ دنیامیں کس حال میں تھے اور کیا عمل کرتے تھے، اور یہ دریافت کرنا نعمتِ الٰہی کے اعتراف کے لئے ہو گا۔
۲۸ اللہ تعالیٰ کے خو ف سے اور اس اندیشہ سے کہ نفس و شیطان خللِ ایمان کا باعث نہ ہوں اور نیکیوں کے روکے جانے اور بدیوں پر گرفت کئے جانے کا بھی اندیشہ تھا۔
۳۰ یعنی آتشِ جہنّم کے عذاب سے جو جسموں میں داخل ہونے کی وجہ سے سموم یعنی لُو کے نام سے موسوم کی گئی۔
۳۱ یعنی دنیا میں اخلاص کے ساتھ صرف۔
۳۲ کفّارِ مکّہ کو۔ اور ان کے کاہن اور مجنوں کہنے کی وجہ سے آپ نصیحت سے باز نہ رہیں اس لئے۔
۳۳ یہ کفّارِ مکّہ آپ کی شان میں۔
۳۴ کہ جیسے ان سے پہلے شاعر مر گئے اور ان کے جتھے ٹوٹ گئے یہی حال ان کا ہونا ہے۔ ( معاذ اللہ) اور وہ کفّار یہ بھی کہتے تھے کہ ان کے والد کی موت جوانی میں ہوئی ہے ان کی بھی ایسی ہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب سے فرماتا ہے۔
۳۶ کہ تم پر عذابِ الٰہی آئے، چنانچہ یہ ہوا اور وہ کفّار بدر میں قتل و قید کے عذاب میں گرفتار کئے گئے۔
۳۷ جو وہ حضور کی شان میں کہتے ہیں شاعر، ساحر، کاہن، مجنون، ایسا کہنا بالکل خلافِ عقل ہے اور طرّہ یہ کہ مجنون بھی کہتے جائیں اور شاعر، ساحر، کاہن بھی اور پھر اپنے عاقل ہونے کا دعویٰ۔
۳۸ کہ عناد میں اندھے ہو رہے ہیں اور کفر و طغیان میں حد سے گزر گئے۔
۳۹ یعنی سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اپنے دل سے۔
۴۰ اور دشمنی و خبثِ نفس سے ایسے طعن کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر حجّت قائم فرماتا ہے کہ اگر ان کے خیال میں قرآن جیسا کلام کوئی انسان بنا سکتا ہے۔
۴۱ جو حسن و خوبی اور فصاحت و بلاغت میں اس کے مثل ہو۔
۴۲ یعنی کیا وہ ماں باپ سے پیدا نہ ہوئے، جماد، بے عقل ہیں جن پر حجّت قائم نہ کی جائے گی ایسا نہیں یا یہ معنیٰ ہیں کہ کیا وہ نطفہ سے پیدا نہیں ہوئے اور کیا انہیں خدا نے نہیں بنایا۔
۴۳ کہ انہوں نے اپنے آپ کو خود ہی بنا لیا ہو یہ بھی محال ہے تو لا محالہ انہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا پھر کیا سبب ہے کہ وہ اس کی عبادت نہیں کرتے اور بتوں کو پوجتے ہیں۔
۴۴ یہ بھی نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوائے آسمان و زمین پیدا کرنے کی کوئی قدرت نہیں رکھتا تو کیوں اس کی عبادت نہیں کرتے۔
۴۵ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت و خالقیّت کا اگر اس کا یقین ہوتا تو ضرور اس کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر ایمان لاتے۔
۴۶ نبوّت اور رزق وغیرہ کے، کہ انہیں اختیار ہو جہاں چاہے خرچ کریں اور جسے چاہیں دیں۔
۴۷ خود مختار جو چاہے کریں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔
۴۹ اور انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کون پہلے ہلاک ہو گا اور کس کی فتح ہو گی اگر انہیں اس کا دعویٰ ہو۔
۵۰ یہ ان کی سفاہت اور بے وقوفی کا بیان ہے کہ اپنے لئے تو بیٹے پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرتے ہیں جن کو بُرا جانتے ہیں۔
۵۲ اور تاوان کی زیر باری کے باعث اسلام نہیں لاتے یہ بھی تو نہیں ہے پھر اسلام لانے میں انہیں کیا عذر ہے۔
۵۳ کہ مرنے کے بعد نہ اٹھیں گے اور اٹھے بھی تو عذاب نہ کئے جائیں گے، یہ بات بھی نہیں۔
۵۴ دارالنّدوہ میں جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کے نبی ہادیِ برحق صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ضرر و قتل کے مشورے کرتے ہیں۔
۵۵ انکے مَکر و کید کا وبال انہیں پر پڑے گا، چنانچہ ایسا ہی ہو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ان کے مَکر سے محفوظ رکھا اور انہیں بدر میں ہلاک کیا۔
۵۶ جو انہیں روزی دے اور عذابِ الٰہی سے بچا سکے۔
۵۷ یہ جواب ہے کفّار کے اس مقولہ کا جو کہتے تھے کہ ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا کر عذاب کیجئے، اللہ تعالیٰ اسی کے جواب میں فرماتا ہے کہ ان کا کفر و عناد اس حد پر پہنچ گیا ہے کہ اگر ان پر ایسا ہی کیا جائے کہ آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دیا جائے اور آسمان سے اسے گرتے ہوئے دیکھیں تو بھی کفر سے باز نہ آئیں اور براہِ عناد یہی کہیں کہ یہ تو ابر ہے اس سے ہم سیراب ہوں گے۔
۵۸ مراد اس سے نفخۂ اولیٰ کا دن ہے۔
۵۹ غرض کسی طرح عذابِ آخرت سے بچ نہ سکیں گے۔
۶۰ ان کے کفر کے سبب عذابِ آخرت سے پہلے اور وہ عذاب یا تو بدر میں قتل ہونا ہے یا بھوک و قحط کی ہفت سالہ مصیبت یا عذابِ قبر۔
۶۱ کہ وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں۔
۶۲ اور جو مہلت انہیں دی گئی ہے اس پر دل تنگ نہ ہو۔
۶۳ تمہیں وہ کچھ ضرر نہیں پہنچا سکتے۔
۶۴ نماز کے لئے۔ اس سے تکبیرِ اولیٰ کے بعد سُبْحَا نَکَ اللّٰھُمَّ پڑھنا مراد ہے یا یہ معنیٰ ہیں کہ جب سو کر اٹھو تو اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کیا کرو یا یہ معنیٰ ہیں کہ ہر مجلس سے اٹھتے وقت حمد و تسبیح بجا لایا کرو۔
۶۵ یعنی تاروں کے چھُپنے کے بعد۔ مراد یہ ہے کہ ان اوقات میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرو۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ تسبیح سے مراد نماز ہے۔