۱ سورۃ النجم مکّیہ ہے، اس میں تین۳ رکوع، باسٹھ۶۲ آیتیں، تین سو ساٹھ۳۶۰ کلمے، ایک ہزار چار سو پانچ ۱۴۰۵حرف ہیں۔ یہ وہ پہلی سورت ہے جس کا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اعلان فرمایا اور حرم شریف میں مشرکین کے روبرو پڑھی۔
۲ نجم کی تفسیر میں مفسّرین کے بہت سے قول ہیں بعض نے ثریّا مراد لیا ہے اگرچہ ثریّا کئی تارے ہیں لیکن نجم کا اطلاق ان پر عرب کی عادت ہے۔ بعض نے نجم سے جنسِ نجوم مراد لی ہے۔ بعض نے وہ نباتا ت جو ساق نہیں رکھتے، زمین پر پھیلتے ہیں۔ بعض نے نجم سے قرآن مراد لیا ہے لیکن سب سے لذیذ تفسیر وہ ہے جو حضرت مترجِم قدّس سرّہ نے اختیار فرمائی کہ نجم سے مراد ہے ذاتِ گرامی ہادیِ برحق سیّدِ انبیاء محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی۔ (خازن)
۳ صَاحِبُکُمْ سے مراد سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ہیں۔ معنیٰ یہ ہیں کہ حضور ِ انور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے کبھی طریقِ حق و ہدایت سے عدول نہ کیا، ہمیشہ اپنے رب کی توحید و عبادت میں رہے، آپ کے دامنِ عصمت پر کبھی کسی امرِ مکروہ کی گرد نہ آئی۔ اور بے راہ نہ چلنے سے یہ مراد ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ہمیشہ رشد و ہدایت کی اعلیٰ منزل پر متمکن رہے۔ اعتقادِ فاسد کا شائبہ بھی کبھی آپ کے حاشیۂ بساط تک نہ پہنچ سکا۔
۴ یہ جملہ اولیٰ کی دلیل ہے کہ حضور کا بہکنا اور بے راہ چلنا ممکن و متصور ہی نہیں کیونکہ آپ اپنی خواہش سے کوئی بات فرماتے ہی نہیں جو فرماتے ہیں وحیِ الٰہی ہوتی ہے اور اس میں حضور کے خُلقِ عظیم اور آپ کی اعلیٰ منزلت کا بیان ہے۔ نفس کا سب سے اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ وہ اپنی خواہش ترک کر دے۔(کبیر) اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے ذات و صفات و افعال میں فنا کے اس اعلیٰ مقام پر پہنچے کہ اپنا کچھ باقی نہ رہا تجلّیِ ربّانی کا یہ استیلائے تام ہوا کہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ وحیِ الٰہی ہوتی ہے۔ ( روح البیان)
۵ یعنی سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو۔
۶ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمایا۔ اور اس تعلیم سے مراد قلبِ مبارک تک پہنچا دینا ہے۔
۷ بعض مفسّرین اس طرف گئے ہیں کہ سخت قوّتوں والے طاقتور سے مراد حضرت جبریل ہیں اور سکھا نے سے مراد بتعلیمِ الٰہی سکھانا یعنی وحیِ الٰہی کا پہنچانا ہے۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ شَدِیْدُ الْقُویٰ ذُوْمِرَّۃٍ سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اس نے اپنی ذات کو اس وصف کے ساتھ ذکر فرمایا معنیٰ یہ ہیں کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے بے واسطہ تعلیم فرمائی۔ (تفسیر روح البیان)
۸ عام مفسّرین نے فَاسْتَویٰ کا فاعل بھی حضرت جبریل کو قرار دیا ہے اور یہ معنیٰ لئے ہیں کہ حضرت جبریلِ امین اپنی اصلی صورت پر قائم ہوئے اور اس کا سبب یہ ہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے انہیں ان کی اصلی صورت میں ملاحظہ فرمانے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی تو حضرت جبریل جنابِ مشرق میں حضور کے سامنے نمودار ہوئے اور ان کے وجود سے مشرق سے مغرب تک بھر گیا یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے سوا کسی انسان نے حضرت جبریل کو ان کی اصلی صورت میں نہیں دیکھا۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت جبریل کو دیکھنا تو صحیح ہے اور حدیث سے ثابت ہے لیکن یہ حدیث میں نہیں ہے کہ اس آیت میں حضرت جبریل کو دیکھنا مراد ہے بلکہ ظاہرِ تفسیر میں یہ ہے کہ مراد فَاسْتَویٰ سے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا مکانِ عالی اور منزلتِ رفیعہ میں استویٰ فرمانا ہے۔ (تفسیر کبیر) تفسیرِ روح البیان میں ہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے افقِ اعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر استویٰ فرمایا اور حضرت جبریل سدرۃ المنتہی پر رک گئے آگے نہ بڑھ سکے انہوں نے کہا اگر میں ذرا بھی آگے بڑھوں تو تجلّیاتِ جلال مجھے جَلا ڈالیں اور حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم آگے بڑھ گئے اور مستوائے عرش سے بھی گزر گئے۔ اور حضرت مترجِم قدّس سرّہ کا ترجمہ اس طرف مشیر ہے کہ استویٰ کی اسناد حضرت ربُّ العزّت عزَّ و اعلیٰ کی طرف ہے، اور یہی قول حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔
۹ یہاں بھی عام مفسّرین اسی طرف گئے ہیں کہ یہ حال جبریلِ امین کا ہے لیکن امام رازی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ظاہر یہ ہے کہ یہ حال سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ہے کہ آپ افقِ اعلیٰ یعنی فوقِ سمٰوات تھے جس طرح کہنے والا کہتا ہے کہ میں نے چھت پر چاند دیکھا پہاڑ پر چاند دیکھا اس کے یہ معنیٰ نہیں ہوتے کہ چاند چھت پر یا پہاڑ پر تھا بلکہ یہی معنیٰ ہوتے ہیں کہ دیکھنے والا چھت یا پہاڑ پر تھا اسی طرح یہاں معنیٰ ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فوقِ سمٰوات پر پہنچے تو تجلّیِ ربّانی آپ کی طرف متوجّہ ہوئی۔
۱۰ اس کے معنیٰ میں بھی مفسّرین کے کئی قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت جبریل کا سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے قریب ہونا مراد ہے کہ وہ اپنی صورت اصلی دکھا دینے کے بعد حضور ِ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے قرب میں حاضر ہوئے دوسرے معنیٰ یہ ہیں کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم حضرتِ حق کے قرب سے مشرف ہوئے تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو اپنے قرب کی نعمت سے نوازا اور یہ ہی صحیح تر ہے۔
۱۱ اس میں چند قول ہیں ایک تو یہ کہ نزدیک ہونے سے حضور کا عروج و وصول مراد ہے اور اتر آنے سے نزول و رجوع تو حاصلِ معنیٰ یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے قرب میں باریاب ہوئے پھر وصال کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر خَلق کی طرف متوجّہ ہوئے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت ربُّ العزّت اپنے لطف و رحمت کے ساتھ اپنے حبیب سے قریب ہو اور اس قرب میں زیادتی فرمائی تیسرا قول یہ ہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے مقربِ درگاہِ ربوبیّت ہو کر سجدۂ طاعت ادا کیا۔ (روح البیان) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ قریب ہوا جبّار ربُّ العزّت الخ۔ (خازن)
۱۲ یہ اشارہ ہے تاکیدِ قرب کی طرف کہ قرب اپنے کمال کو پہنچا اور با ادب احبّاء میں جو نزدیکی متصور ہو سکتی ہے وہ اپنی غایت کو پہنچی۔
۱۳ اکثر علمائے مفسّرین کے نزدیک اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندۂ خاص حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو وحی فرمائی۔ (جمل) حضرت جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو وحی فرمائی یہ وحی بے واسطہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کے درمیان کو ئی واسطہ نہ تھا اور یہ خدا اور رسول کے درمیان کے اسرار ہیں جن پر ان کے سوا کسی کو اطلاع نہیں۔ بقلی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس راز کو تمام خَلق سے مخفی رکھا اور نہ بیان فرمایا کہ اپنے حبیب کو کیا وحی فرمائی اور محبّ و محبوب کے درمیان ایسے راز ہوتے ہیں جن کو ان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (روح البیان) علماء نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس شب میں جو آپ کو وحی فرمائی گئی وہ کئی قِسم کے علوم تھے۔ ایک تو علمِ شرائع و احکام جن کی سب کو تبلیغ کی جاتی ہے دوسرے معارفِ الٰہیہ جو خواص کو بتائے جاتے ہیں تیسرے حقائق و نتائجِ علومِ ذوقیہ جو صرف اخصّ الخواص کو تلقین کئے جاتے ہیں اور ایک قِسم وہ اسرار جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ خاص ہیں کوئی ان کا تحمّل نہیں کر سکتا۔ (روح البیان)
۱۴ آنکھ نے یعنی سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے قلبِ مبارک نے اس کی تصدیق کی جو چشمِ مبارک نے دیکھا۔ معنیٰ یہ ہیں کہ آنکھ سے دیکھا دل سے پہچانا اور اس رویت و معرفت میں شک وتردّد نے راہ نہ پائی اب یہ بات کہ کیا دیکھا بعض مفسّرین کا قول یہ ہے کہ حضرت جبریل کو دیکھا لیکن مذہبِ صحیح یہ ہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو دیکھا اور یہ دیکھنا کس طرح تھا چشمِ سرسے یا چشمِ دل سے اس میں مفسّرین کے دونوں قول پائے جاتے ہیں، حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول ہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رب عزَّوجلّ کو اپنے قلبِ مبارک سے دوبار دیکھا (رواہ مسلم) ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ آپ نے رب عزَّوجلّ کو حقیقتہً چشمِ مبارک سے دیکھا۔ یہ قول حضرت انس بن مالک اور حسن و عکرمہ کا ہے اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو خُلّت اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلام اور سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ کو اپنے دیدار سے امتیاز بخشا۔ (صلوات اللہ تعالٌیٰ علیہم) کعب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دوبار کلام فرمایا اور حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اللہ تعالیٰ کو دو مرتبہ دیکھا۔ (ترمذی) لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دیدار کا انکار کیا اور آیت کو حضرت جبریل کے دیدار پر محمول کیا اور فرمایا کہ جو کوئی کہے کہ محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) نے اپنے رب کو دیکھا اس نے جھوٹ کہا اور سند میں لَاتُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ تلاوت فرمائی۔ یہاں چند باتیں قابلِ لحاظ ہیں ایک یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول نفی میں ہے اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا اثبات میں اور مثبت ہی مقدم ہوتا ہے کیونکہ نافی کسی چیز کی نفی اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سنا نہیں اور مثبت اثبات اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سنا اور جانا تو علم مثبت کے پاس ہے علاوہ بریں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ کلام حضور سے نقل نہیں کیا بلکہ آیت سے اپنے استنباط پر اعتماد فرمایا یہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رائے ہے اور آیت میں ادراک یعنی احاطہ کی نفی ہے نہ رویت کی۔ مسئلہ : صحیح یہ ہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم دیدارِ الٰہی سے مشرّف فرمائے گئے۔ مسلم شریف کی حدیثِ مرفوع سے بھی یہی ثابت ہے، حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما جو بحرالامّۃ ہیں، وہ بھی اسی پر ہیں۔ مسلم کی حدیث ہے رَاَیْتُ رَبِّیْ بِعَیْنِیْ وَبِقَلْبِیْ میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا۔ حضرت حسن بصری علیہ الرحمۃ قَسم کھاتے تھے کہ محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے شبِ معراج اپنے رب کو دیکھا۔ حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں حدیثِ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قائل ہوں حضور نے اپنے رب کو دیکھا اس کو دیکھا اس کو دیکھا۔ امام صاحب یہ فرماتے ہی رہے یہاں تک کہ سانس ختم ہو گیا۔
۱۵ یہ مشرکین کو خطاب ہے جو شبِ معراج کے واقعات کا انکار کرتے اور اس میں جھگڑتے تھے۔
۱۶ کیونکہ تخفیف کی درخواستوں کے لئے چند بار عروج و نزول ہوا، حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے رب عزَّوجلّ کو اپنے قلبِ مبارک سے دو مرتبہ دیکھا اور انہیں سے یہ بھی مروی ہے کہ حضور نے رب عزَّوجلّ کو آنکھ سے دیکھا۔
۱۷ سدرۃ المنتہیٰ ایک درخت ہے جس کی اصل (جڑ) چھٹے آسمان میں ہے اور اس کی شاخیں ساتویں آسمان میں پھیلی ہیں اور بلند ی میں وہ ساتویں آسمان سے بھی گزر گیا ملائکہ اور ارواحِ شہداء و اتقیاء اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔
۱۹ اس میں سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے کمالِ قوّت کا اظہار ہے کہ اس مقام میں جہاں عقلیں حیرت زدہ ہیں آپ ثابت رہے اور جس نور کا دیدار مقصود تھا اس سے بہر ہ اندوز ہوئے، داہنے بائیں کسی طرف ملتفت نہ ہوئے، نہ مقصود کی دید سے آنکھ پھیری، نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح بے ہوش ہوئے بلکہ اس مقام عظیم میں ثابت رہے۔
۲۰ یعنی حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے شبِ معراج عجائبِ مُلک و ملکوت کا ملاحظہ فرمایا اور آپ کا علم تمام معلوماتِ غیبیہ ملکوتیہ پر محیط ہو گیا جیسا کہ حدیثِ اختصامِ ملائکہ میں وارد ہوا ہے اور دوسری اور احادیث میں آیا ہے۔ (روح البیان)
۲۱ لات و عزّیٰ اور منات بتوں کے نام ہیں جنہیں مشرکین پوجتے تھے۔ اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ کیا تم نے ان بتوں کو دیکھا یعنی بنظرِ تحقیق و انصاف اگر اس طرح دیکھا ہو تو تمہیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ یہ محض بے قدرت ہیں اور اللہ تعالیٰ قادرِ برحق کو چھوڑ کر ان بے قدرت بتوں کو پوجنا اور اس کا شریک ٹھہرانا کس قدر ظلمِ عظیم اور خلافِ عقل و دانش ہے اور مشرکینِ مکّہ یہ کہا کرتے تھے کہ یہ بت اور فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
۲۲ جو تمہارے نزدیک ایسی بُری چیز ہے کہ جب تم میں سے کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ بگڑ جاتا ہے اور رنگ تاریک ہو جاتا ہے اور لوگوں سے چھُپتا پھرتا ہے حتیٰ کہ تم بیٹیوں کو زندہ درگور کر ڈالتے ہو پھر بھی اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بتاتے ہو۔
۲۳ کہ جو چیز بُری سمجھتے ہو وہ خدا کے لئے تجویز کرتے ہو۔
۲۴ یعنی ان بتوں کا نام الٰہ اور معبود تم نے اور تمہارے باپ دادا نے بالکل بیجا اور غلط طور پر رکھ لیا ہے، نہ یہ حقیقت میں الٰہ ہیں، نہ معبود۔
۲۵ یعنی ان کا بتوں کو پوجنا عقل و علم و تعلیمِ الٰہی کے خلاف اتباعِ نفس وہو ا اور وہم پرستی کی بنا پر ہے۔
۲۶ یعنی کتابِ الٰہی اور خدا کے رسول جنہوں نے صراحت کے ساتھ بار بار بتایا کہ بت معبود نہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی بھی عبادت کا مستحق نہیں۔
۲۷ یعنی کافر جو بتوں کے ساتھ جھوٹی امیدیں رکھتے ہیں کہ وہ ان کے کام آ ئیں گے، یہ امیدیں باطل ہیں۔
۲۸ جسے جو چاہے دے اس کی عبادت کرنا اور اسی کو راضی رکھنا کام آئے گا۔
۲۹ یعنی ملائکہ باوجود یہ کہ بارگاہِ الٰہی میں قرب و منزلت رکھتے ہیں، بعد ازاں صرف اس کے لئے شفاعت کریں گے جس کے لئے اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو یعنی مومن موحِّد کے لئے، تو بتوں سے شفاعت کی امید رکھنا نہایت باطل ہے کہ نہ انہیں بارگاہِ حق میں قرب حاصل، نہ کفّار شفاعت کے اہل۔
۳۱ کہ انہیں خدا کی بیٹیاں بتاتے ہیں۔
۳۲ امرِ واقعی اور حقیقتِ حال علم ویقین سے معلوم ہوتی ہے نہ کہ وہم و گمان سے۔
۳۴ آخرت پر ایمان نہ لایا کہ اس کا طالب ہوتا۔
۳۵ یعنی وہ اس قدر کم عقل و کم علم ہیں کہ انہوں نے آخرت پر دنیا کو ترجیح دی ہے یا یہ معنیٰ ہیں کہ ان کے علم کی انتہا و ہم و گمان ہیں جو انہوں نے باند ھ رکھے ہیں کہ ( معاذ اللہ) فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں ان کی شفاعت کریں گے اور اس وہمِ باطل پر بھروسہ کر کے انہوں نے ایمان اور قرآن کی پرواہ نہ کی۔
۳۶ گناہ وہ عمل ہے جس کا کرنے والا عذاب کا مستحق ہو اور بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ گناہ وہ ہے جس کا کرنے والا ثواب سے محروم ہو بعض کا قول ہے ناجائز کام کرنے کو گناہ کہتے ہیں۔ بہرحال گناہ کی دو قسمیں ہیں صغیرہ اور کبیرہ۔ کبیرہ وہ جس کا عذاب سخت ہو اور بعض علماء نے فرمایا کہ صغیرہ وہ جس پر وعید نہ ہو۔ کبیرہ وہ جس پر وعید ہو اور فواحش وہ جن پر حد ہو۔
۳۷ کہ اتنا تو کبائر سے بچنے کی برکت سے معاف ہو جاتا ہے۔
۳۸ شانِ نزول : یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جو نیکیاں کرتے تھے اور اپنے عملوں کی تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہمارے حج۔
۳۹ یعنی تفاخراً اپنی نیکیوں کی تعریف نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حالات کا خود جاننے والا ہے وہ ان کی ابتدائے ہستی سے آخرِ ایام کے جملہ احوال جانتا ہے۔ مسئلہ : اس آیت میں ریا اور خود نمائی اور خود سرائی کی ممانعت فرمائی گئی لیکن اگر نعمتِ الٰہی کے اعتراف اور اطاعت و عبادتِ پُر مسرّت اور اس کے ادائے شکر کے لئے نیکیوں کا ذکر کیا جائے تو جائز ہے۔
۴۰ اور اسی کا جاننا کافی وہی جزا دینے والا ہے دوسروں پر اظہار اور نام و نمود سے کیا فائدہ۔
شانِ نزول : یہ آیت ولید بن مغیرہ کے حق میں نازل ہوئی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا دِین میں اتباع کیا تھا، مشرکین نے اس کو عار دلائی اور کہا کہ تو نے بزرگوں کا دِین چھوڑ دیا اور تو گمراہ ہو گیا اس نے کہا میں نے عذابِ الٰہی کے خوف سے ایسا کیا تو عار دلانے والے کافر نے اس سے کہا کہ اگر تو شرک کی طرف لوٹ آئے اور اس قدر مال مجھ کو دے تو تیرا عذاب میں اپنے ذمّے لیتا ہوں اس پر ولید اسلام سے منحرف و مرتد ہو کر پھر شرک میں مبتلا ہو گیا اور جس شخص سے مال دینا ٹھہرا تھا اس نے تھوڑا سا دیا اور باقی سے منع کر دیا۔
۴۲ باقی۔ شانِ نزول : یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت عاص بن وائل سہمی کے حق میں نازل ہوئی وہ اکثر امور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تائید و موافقت کیا کرتا تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت ابوجہل کے حق میں نازل ہوئی کہ اس نے کہا تھا اللہ تعالیٰ کی قَسم محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) ہمیں بہترین اخلاق کا حکم فرماتے ہیں۔ اس تقدیر پر معنیٰ یہ ہیں کہ تھوڑا سا اقرار کیا اور حقِ لازم میں سے قدرے قلیل ادا کیا اور باقی سے باز رہا یعنی ایمان نہ لایا۔
۴۳ کہ دوسرا شخص اس کا بارِ گناہ اٹھا لے گا اور اس کے عذاب کو اپنے ذمّہ لے گا۔
۴۵ یہ حضرت ابراہیم کی صفت ہے کہ انہیں جو کچھ حکم دیا گیا تھا وہ انہوں نے پورے طورپر ادا کیا اس میں بیٹے کا ذبح بھی ہے اور اپنا آگ میں ڈالا جانا بھی اور اس کے علاوہ اور مامورات بھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس مضمون کا ذکر فرماتا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں میں مذکور فرمایا گیا تھا۔
۴۶ اور کوئی دوسرے کے گناہ پر نہیں پکڑا جاتا اس میں اس شخص کے قول کا ابطال ہے جو ولید بن مغیرہ کے عذاب کا ذمّہ دار بنا تھا اور اس کے گناہ اپنے ذمّہ لینے کو کہتا تھا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ زمانۂ حضرت ابراہیم سے پہلے لوگ آدمی کو دوسرے کے گناہ پر بھی پکڑ لیتے تھے اگر کسی نے کسی کو قتل کیا ہوتا تو بجائے اس قاتل کے اس کے بیٹے یا بھائی یا بی بی یا غلام کو قتل کر دیتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ آیا تو آپ نے اس کی ممانعت فرمائی اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم پہنچایا کہ کوئی کسی کے بار گناہ میں ماخوذ نہیں۔
۴۷ یعنی عمل۔ مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی ہی نیکیوں سے فائدہ پاتا ہے یہ مضمون بھی صُحُفِ ابراہیم و موسیٰ کا ہے۔ علیہما السلام اور کہا گیا ہے کہ ان ہی امّتوں کے لئے خاص تھا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ یہ حکم ہماری شریعت میں آیت اَ لْحَقْنَا بھِِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ سے منسوخ ہو گیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص نے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے عرض کیا کہ میری ماں کی وفات ہو گئی اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں کیا نافع ہو گا ؟ فرمایا : ہاں۔ مسائل اور بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ میّت کو صدقات و طاعات سے جو ثواب پہنچایا جاتا ہے پہنچتا ہے اور اس پر علمائے امّت کا اجماع ہے اور اسی لئے مسلمانوں میں معمول ہے کہ وہ اپنے اموات کو فاتحہ، سوم، چہلم، برسی، عرس وغیرہ میں طاعات و صدقات سے ثواب پہنچاتے رہتے ہیں یہ عمل احادیث کے بالکل مطابق ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں انسان سے کافر مراد ہے اور معنیٰ یہ ہیں کہ کافر کو کوئی بھلائی نہ ملے گی بجز اس کے جو اس نے کی ہو کہ دنیا ہی میں وسعتِ رزق یا تندرستی وغیرہ سے اس کا بدلہ دے دیا جائے گا تاکہ آخرت میں اس کا کچھ حصّہ باقی نہ رہے۔ اور ایک معنیٰ آیت کے مفسّرین نے یہ بھی بیان کئے ہیں کہ آدمی بمقتضائے عدل وہی پائے گا جو اس نے کیا ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جو چاہے عطا فرمائے۔ اور ایک قول مفسّرین کا یہ بھی ہے کہ مومن کے لئے دوسرا مومن جو نیکی کرتا ہے وہ نیکی خود اسی مومن کی شمار کی جاتی ہے جس کے لئے کی گئی ہو کیونکہ اس کا کرنے والا مثل نائب و وکیل کے اس کا قائم مقام ہوتا ہے۔
۴۹ آخرت میں اسی کی طرف رجوع ہے وہی اعمال کی جزا دے گا۔
۵۰ جسے چاہا خوش کیا، جسے چاہا غمگین کیا۔
۵۱ یعنی دنیا میں موت دی اور آخرت میں زندگی عطا فرمائی۔ یا یہ معنیٰ کہ باپ دادا کو موت دی اور ان کی اولاد کو زندگی بخشی، یا یہ مراد کہ کافروں کو موتِ کفر سے ہلاک کیا اور ایمانداروں کو ایمانی زندگی بخشی۔
۵۳ یعنی موت کے بعد زندہ فرمانا۔
۵۴ جو کہ شدّتِ گرما میں جو زاء کے بعد طالع ہوتا ہے۔ اہلِ جاہلیّت اس کی عبادت کرتے تھے اس آیت میں بتایا گیا کہ سب کا رب اللہ ہے اس ستارہ کا رب بھی اللہ ہی ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔
۵۵ بادِ صرصر سے عاد دو۲ ہیں ایک تو قومِ ہود، ان کو پہلی عاد کہتے ہیں اور ان کے بعد والوں کو دوسری عاد کہ وہ انہیں کے اعقاب تھے۔
۵۶ جو صالح علیہ السلام کی قوم تھی۔
۵۸ کہ حضرت نوح علیہ السلام ان میں ہزار برس کے قریب تشریف فرمارہے مگر انہوں نے دعوت قبول نہ کی اور ان کی سرکشی کم نہ ہوئی۔
۵۹ مراد اس سے قومِ لوط کی بستیاں ہیں جنہیں حضرت جبریل علیہ السلام نے بحکمِ الٰہی اٹھا کر اوندھا ڈال دیا اور زیرو زبر کر دیا۔
۶۰ یعنی نشان کئے ہوئے پتّھر برسائے۔
۶۱ یعنی سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۶۲ جو اپنی قوموں کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔
۶۴ یعنی وہی اس کو ظاہر فرمائے گا۔ یا یہ معنیٰ ہیں کہ اس کے اہوال اور شدائد کو اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی نہیں دفع کر سکتا اور اللہ تعالیٰ دفع نہ فرمائے گا۔
۶۵ یعنی قرآنِ مجید سے منکِر ہوتے ہو۔