۱ سورۂ حشر مدنیّہ ہے، اس میں تین ۳رکوع، چوبیس ۲۴آیتیں، چار سو پینتالیس ۴۴۵کلمے، ایک ہزار نو سو تیرہ۱۹۱۳ حرف ہیں۔
۲ شانِ نزول : یہ سورت بنی نضِیر کے حق میں نازل ہوئی، یہ لوگ یہودی تھے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم مدینہ طیّبہ میں رونق افروز ہوئے تو انہوں نے حضور سے اس شرط پر صلح کی کہ نہ آپ کے ساتھ ہو کر کسی سے لڑیں، نہ آپ سے جنگ کریں، جب جنگِ بدر میں اسلام کی فتح ہوئی تو بنی نضِیر نے کہا یہ وہی نبی ہیں جن کی صفت توریت میں ہے، پھر جب اُحد میں مسلمانوں کو ہزیمت کی صورت پیش آئی تو یہ شک میں پڑے اور انہوں نے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور حضور کے نیاز مندوں کے ساتھ عداوت کا اظہار کیا اور جو معاہدہ کیا تھا وہ توڑ دیا اور ان کا ایک سردار کعب بن اشرف یہودی چالیس یہودی سواروں کو ساتھ لے کر مکّہ مکرّمہ پہنچا اور کعبۂ معظّمہ کے پردے تھام کر قریش کے سرداروں سے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے خلاف معاہدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے علم دینے سے حضور اس حال پر مطّلع تھے اور بنی نضِیر سے ایک خیانت اور بھی واقع ہو چکی تھی کہ انہوں نے قلعہ کے اوپر سے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر بارادۂ فاسد ایک پتّھر گرایا تھا، اللہ تعالیٰ نے حضور کو خبردار کر دیا اور بفضلہٖ تعالیٰ حضور محفوظ رہے۔ غرض جب یہود بنی نضِیرنے خیانت کی اور عہد شکنی کی اور کفّارِ قریش سے حضور کے خلاف عہد کیا تو سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے محمّد بن مسلمہ انصاری کو حکم دیا اور انہوں نے کعب بن اشرف کو قتل کر دیا، پھر حضور مع لشکر کے بنی نضِیر کی طرف روانہ ہوئے اور ان کا محاصرہ کر لیا، یہ محاصرہ اکّیس روز رہا، اس درمیان میں منافقین نے یہود سے ہمدردی و موافقت کے بہت معاہدے کئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ناکام کیا، یہود کے دلوں میں رعب ڈالا، آخر کار انہیں حضور کے حکم سے جِلا وطن ہونا پڑا اور وہ شام و اریحا و خیبر کی طرف چلے گئے۔
۵ یہ جِلا وطنی ان کا پہلا حشر ہے اور دوسرا حشر ان کا یہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں اپنے زمانۂ خلافت میں خیبر سے شام کی طرف نکالا یا آخرِ حشر روزِ قیامت کا حشر ہے کہ آگ سب لوگوں کو سرزمینِ شام کی طرف لے جائے گی اور وہیں ان پر قیامت قائم ہو گی، اس کے بعد اہلِ اسلام سے خطاب فرمایا جاتا ہے۔
۶ مدینہ سے، کیونکہ وہ صاحبِ قوّت، صاحبِ لشکر تھے، مضبوط قلعے رکھتے تھے، ان کی تعداد کثیر تھی، جاگیردار، صاحبِ مال۔
۷ یعنی خطرہ بھی نہ تھا کہ مسلمان ان پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔
۸ ان کے سردار کعب بن اشرف کے قتل سے۔
۹ اور ان کو ڈھاتے ہیں تاکہ جو لکڑی وغیرہ انہیں اچھی معلوم ہو وہ جِلا وطن ہوتے وقت اپنے ساتھ لے جائیں۔
۱۰ کہ ان کے مکانوں کے جو حصّے باقی رہ جاتے تھے۔ انہیں مسلمان گرا دیتے تھے تاکہ جنگ کے لئے میدان صاف ہو جائے۔
۱۱ اور انہیں قتل و قید میں مبتلا کرتا جیسا کہ یہودِ بنی قریضہ کے ساتھ کیا۔
۱۲ ہر حال میں خواہ جِلا وطن کئے جائیں یا قتل کئے جائیں۔
۱۴ شانِ نزول : جب بنی نضِیر اپنے قلعوں میں پناہ گزیں ہوئے تو سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ان کے درخت کاٹ ڈالنے اور انہیں جَلا دینے کا حکم دیا، اس پر وہ دشمنانِ خدا بہت گھبرائے اور رنجیدہ ہوئے اور کہنے لگے کہ کیا تمہاری کتاب میں اس کا حکم ہے ؟ مسلمان اس باب میں مختلف ہو گئے، بعض نے کہا درخت نہ کاٹو، یہ غنیمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی۔ بعض نے کہا اس سے کفّار کو رسوا کرنا اور انہیں غیظ میں ڈالنا منظور ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں بتایا گیا کہ مسلمانوں میں جو درخت کاٹنے والے ہیں ان کا عمل بھی درست ہے اور جو کاٹنا نہیں چاہتے وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ درختوں کا کاٹنا اور چھوڑ دینا یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے اذن و اجازت سے ہیں۔
۱۵ یعنی یہود کو ذلیل کرے درخت کاٹنے کی اجازت دے کر۔
۱۷ یعنی اس کے لئے تمہیں کوئی مشقّت اور کوفت اٹھانا نہیں پڑی، صرف دو میل کا فاصلہ تھا، سب لوگ پیادہ پا چلے گئے، صرف رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سوار ہوئے۔
۱۸ اپنے دشمنوں میں سے۔ مرا دیہ ہے کہ بنی نضِیر سے جو مال غنیمتیں حاصل ہوئیں ان کے لئے مسلمانوں کو جنگ کرنا نہیں پڑی، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ان پر مسلّط کر دیا تو یہ مال حضور کی مرضی پر ہے، جہاں چاہیں خرچ کریں، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے یہ مال مہاجرین پر تقسیم کر دیا اور انصار میں سے صرف تین صاحبِ حاجت لوگوں کو دیا اور وہ ابودجانہ سماک بن خرشہ اور سہل بن حنیف اور حارث بن صمّہ ہیں۔
۱۹ پہلی آیت میں غنیمت کا جو حکم مذکور ہوا اس آیت میں اسی کی تفصیل ہے اور بعض مفسّرین نے اس قول کی مخالفت کی اور فرمایا کہ پہلی آیت اموالِ بنی نضِیر کے باب میں نازل ہوئی، ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لئے خاص کیا اور یہ آیت ہر اس شہر کی غنیمتوں کے باب میں ہے جس کو مسلمان اپنی قوّت سے حاصل کریں۔ (مدارک)
۲۰ رشتہ داروں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اہلِ قرابت ہیں یعنی بنی ہاشم و بنی مطّلب۔
۲۱ اور غرباء اور فقراء نقصان میں رہیں جیسا کہ زمانۂ جاہلیّت میں دستور تھا کہ غنیمت میں سے ایک چہارم تو سردار لے لیتا تھا، باقی قوم کے لئے چھوڑ دیتا تھا، اس میں سے مال دار لوگ بہت زیادہ لے لیتے تھے اور غریبوں کے لئے بہت ہی تھوڑا بچتا تھا، اسی معمول کے مطابق لوگوں نے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے عرض کیا کہ حضور غنیمت میں سے چہارم لیں، باقی ہم باہم تقسیم کر لیں گے، اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرما دیا اور تقسیم کا اختیار نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو دیا اور اس کا طریقہ ارشاد فرمایا۔
۲۲ غنیمت میں سے، کیونکہ وہ تمہارے لئے حلال ہے یا یہ معنیٰ ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم تمہیں جو حکم دیں اس کا اتباع کرو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی اطاعت ہر امر میں واجب ہے۔
۲۳ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی مخالفت نہ کرو اور ان کے تعمیلِ ارشاد میں سستی نہ کرو۔
۲۴ ان پر جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نافرمانی کریں اور مالِ غنیمت میں جیسا کہ اوپر ذکر کئے ہوئے لوگوں کا حق ہے ایسا ہی۔
۲۵ اور ان کے گھروں اور مالوں پر کفّارِ مکّہ نے قبضہ کر لیا۔
مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ کفّار استیلاء سے اموالِ مسلمین کے مالک ہو جاتے ہیں۔
۲۷ اپنے جان و مال سے دِین کی حمایت میں۔
۲۸ ایمان و اخلاص میں۔ قتادہ نے فرمایا کہ ان مہاجرین نے گھر اور مال اور کنبے اللہ تعالیٰ اور رسول کی محبّت میں چھوڑے اور اسلام کو قبول کیا اور ان تمام شدّتوں اور سختیوں کو گوارا کیا جو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے انہیں پیش آئیں، ان کی حالتیں یہاں تک پہنچیں کہ بھوک کی شدّت سے پیٹ پر پتّھر باندھتے تھے اور جاڑوں میں کپڑا نہ ہونے کے باعث گڑھوں اور غاروں میں گذارا کرتے تھے۔ حدیث شریف میں ہے کہ فقرائے مہاجرین اغنیا سے چالیس سال قبل جنّت میں جائیں گے۔
۲۹ یعنی مہاجرین سے پہلے یا ان کی ہجرت سے پہلے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے۔
۳۱ یعنی مدینۂ پاک کو وطن اور ایمان کو اپنا مستقر بنایا اور اسلام لائے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تشریف آوری سے دو سال پہلے مسجدیں بنائیں، ان کا یہ حال ہے کہ۔
۳۲ چنانچہ اپنے گھروں میں انہیں اتارتے ہیں، اپنے مالوں میں انہیں نصف کا شریک کرتے ہیں۔
۳۳ یعنی ان کے دلوں میں کوئی خواہش و طلب نہیں پیدا ہوتی۔
۳۴ مہاجرین۔ یعنی مہاجرین کو جو اموالِ غنیمت دیئے گئے انصار کے دل میں ان کی کوئی خواہش نہیں پیدا ہوتی رشک تو کیا ہوتا سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی برکت نے قلوب ایسے پاک کر دیئے کہ انصار مہاجرین کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں۔
۳۶ شانِ نزول : حدیث شریف میں ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں ایک بھوکا شخص آیا، حضور نے ازواجِ مطہرات کے حجروں پر معلوم کرایا کیا کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ معلوم ہوا کسی بی بی صاحبہ کے یہاں کچھ بھی نہیں ہے، تب حضور نے اصحاب سے فرمایا جو اس شخص کو مہمان بنائے، اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے، حضرت ابوطلحہ انصاری کھڑے ہو گئے اور حضور سے اجازت لے کر مہمان کو اپنے گھر لے گئے، گھر جا کر بی بی سے دریافت کیا، کچھ ہے ؟ انہوں نے کہا کچھ نہیں، صرف بچّوں کے لئے تھوڑا سا کھانا رکھا ہے، حضرت ابوطلحہ نے فرمایا بچّوں کو بَہلا کر سُلا دو اور جب مہمان کھانے بیٹھے تو چراغ درست کرنے اٹھو اور چراغ کو بجھا دو تاکہ وہ اچھی طرح کھا لے، یہ اس لئے تجویز کی کہ مہمان یہ نہ جان سکے کہ اہلِ خانہ اس کے ساتھ نہیں کھا رہے ہیں کیونکہ اس کو یہ معلوم ہو گا تو وہ اصرار کرے گا اور کھانا کم ہے بھوکا رہ جائے گا، اس طرح مہمان کو کھلایا اور آپ ان صاحبوں نے بھوکے رات گذاری، جب صبح ہوئی اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ِ اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا رات فلاں فلاں لوگوں میں عجیب معاملہ پیش آیا، اللہ تعالیٰ ان سے بہت راضی ہے اور یہ آیت نازل ہوئی۔
۳۷ یعنی جس کے نفس کو لالچ سے پاک کیا گیا۔
۳۸ یعنی مہاجرین و انصار کے۔ اس میں قیامت تک پیدا ہونے والے مسلمان داخل ہیں۔
۳۹ یعنی اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی طرف سے۔ مسئلہ : جس کے دل میں کسی صحابی کی طرف سے بغض یا کدورت ہو اور وہ ان کے لئے دعائے رحمت و استغفار نہ کرے وہ مومنین کے اقسام سے خارج ہے کیونکہ یہاں مومنین کی تین قِسمیں فرمائی گئیں۔ مہاجرین، انصار اور ان کے بعد والے جوان کے تابع ہوں اور ان کی طرف سے دل میں کوئی کدورت نہ رکھیں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کریں تو جو صحابہ سے کدورت رکھے رافضی ہو یا خارجی وہ مسلمانوں کی ان تینوں قِسموں سے خارج ہے، حضرت اُمُّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ لوگوں کو حکم تو یہ دیا گیا کہ صحابہ کے لئے استغفار کریں، اور کرتے ہیں یہ کہ گالیاں دیتے ہیں۔
۴۰ عبداللہ بن اُ بَی بن سلول منافق اور اس کے رفیقوں کو۔
۴۱ یعنی بنی قُرَیْظَہ و بنی نضِیر۔
۴۳ یعنی تمہارے خلاف کسی کا کہا نہ مانیں گے، نہ مسلمانوں کا، نہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا۔
۴۴ یعنی یہود سے، منافقین کے یہ سب وعدے جھوٹے ہیں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ منافقین کے حال کی خبر دیتا ہے۔
۴۶ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ یہود نکالے گئے اور منافقین ان کے ساتھ نہ نکلے اور یہود سے مقاتلہ ہوا اور منافقین نے یہود کی مدد نہ کی۔
۴۷ جب یہ مدد گار بھاگ نکلیں گے تو منافق۔
۴۹ کہ تمہارے سامنے تو اظہارِ کفر سے ڈرتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اللہ تعالیٰ دلوں کی چھُپی باتیں جانتا ہے دل میں کفر رکھتے ہیں۔
۵۰ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو نہیں جانتے ورنہ جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے ڈرتے۔
۵۱ یعنی جب وہ آپس میں لڑیں تو بہت شدّت اور قوّت والے ہیں لیکن مسلمانوں کے مقابل بزدل اور نامرد ثابت ہوں گے۔
۵۲ اس کے بعد یہود کی ایک مثل ارشاد فرمائی۔
۵۳ یعنی ان کا حال مشرکینِ مکّہ کا سا ہے کہ بدر میں۔
۵۴ یعنی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ عداوت رکھنے اور کفر کرنے کا کہ ذلّت و رسوائی کے ساتھ ہلاک کئے گئے۔
۵۵ اور منافقین کا یہودِ بنی نضِیر کے ساتھ سلوک ایسا ہے جیسے۔
۵۶ ایسے ہی منافقین نے یہودِ بنی نضِیر کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا، جنگ پر آمادہ کیا، ان سے مدد کے وعدے کئے اور جب ان کے کہے سے وہ اہلِ اسلام سے برسرِ جنگ ہوئے تو منافق بیٹھ رہے، ان کا ساتھ نہ دیا۔
۵۸ اور اس کے حکم کی مخالفت نہ کرو۔
۵۹ یعنی روزِ قیامت کے لئے کیا اعمال کئے ؟
۶۰ اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں سرگرم رہو۔
۶۲ کہ ان کے لئے فائدہ دینے والے اور کام آنے والے عمل کر لیتے۔
۶۴ جن کے لئے عیشِ مخلّد و راحتِ سرمد ہے۔
۶۵ اور اس کو انسان کی سی تمیز عطا کرتے۔
۶۶ یعنی قرآن کی عظمت و شان ایسی ہے کہ پہاڑ کو اگر ادراک ہوتا تو وہ باوجود اتنا سخت اور مضبوط ہونے کے پاش پاش ہو جاتا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفّار کے دل کتنے سخت ہیں کہ ایسے با عظمت کلام سے اثر پذیر نہیں ہوتے۔
۶۷ موجود کا بھی اور معدوم کا بھی، دنیا کا بھی اور آخرت کا بھی۔
۶۸ مُلک و حکومت کا حقیقی مالک کہ تمام موجودات اس کے تحتِ مُلک و حکومت ہے اور اس کی مالکیّت و سلطنت دائمی ہے جسے زوال نہیں۔
۶۹ ہر عیب سے اور تمام برائیوں سے۔
۷۱ اپنے عذاب سے اپنے فرمانبردار بندوں کو۔
۷۲ یعنی عظمت اور بڑائی والا اپنی ذات اور تمام صفات میں اور اپنی بڑائی کا اظہار اسی کے شایاں اور لائق ہے کہ اس کا ہر کمال عظیم ہے اور ہر صفت عالی، مخلوق میں کسی کو نہیں پہنچتا کہ تکبر یعنی اپنی بڑائی کا اظہار کرے، بندے کے لئے عجز و انکسار شایاں ہے۔