۱ سورۂ حاقّہ مکّیہ ہے، اس میں دو ۲رکوع، باون ۵۲ آیتیں، دو سو چھپّن۲۵۶ کلمے، ایک ہزار چار سو تیئیس ۱۴۲۳حرف ہیں۔
۲ یعنی قیامت جو حق و ثابت ہے اور اس کا وقوع یقینی و قطعی ہے جس میں کوئی شک نہیں۔
۳ یعنی وہ نہایت عجیب و عظیم الشان ہے۔
۴ جس کے اہوال واحوال اور شدائد تک فکرِ انسانی کا طائر پرواز نہیں کر سکتا۔
۶ چہار شنبہ سے چہار شنبہ تک آخرِ ماہ شوال میں نہایت تیز سردی کے موسم میں۔
۸ کہ موت نے انہیں ایسا ڈھا دیا۔
۹ کہا گیا ہے کہ آٹھویں روز جب صبح کو وہ سب لوگ ہلاک ہو گئے تو ہواؤں نے انہیں اڑا کر سمندر میں پھینک دیا اور ایک بھی باقی نہ رہا۔
۱۰ ا س سے بھی پہلی امّتوں کے کفّار۔
۱۱ نافرمانیوں کی شامت سے مثلِ قومِ لوط کی بستیوں کے یہ سب۔
۱۲ افعالِ قبیحہ و معاصی و شرک کے مرتکب ہوئے۔
۱۳ جو ان کی طرف بھیجے گئے تھے۔
۱۴ اور وہ درختوں، عمارتوں، پہاڑوں اور ہر چیز سے بلند ہو گیا تھا۔ یہ بیان طوفانِ نوح کا ہے علیہ السلام۔
۱۵ جب کہ تم اپنے آباء کے اصلاب میں تھے حضرت نوح علیہ السلام کی۔
۱۶ اور حضرت نوح علیہ السلام کو اور ان کے ساتھ والوں کو جو انپر ایمان لائے تھے نجات دی اور باقیوں کو غرق کیا۔
۱۷ یعنی مومنین کو نجات دینے اور کافروں کے ہلاک فرمانے کو۔
۱۹ کام کی باتوں کو تاکہ ان سے نفع اٹھائے۔
۲۰ یعنی قیامت قائم ہو جائے گی۔
۲۱ یعنی وہ نہایت کمزور ہو گا باوجود اس کے کہ پہلے بہت مضبوط و مستحکم تھا۔
۲۲ یعنی جن فرشتوں کا مسکن آسمان ہے وہ اس کے پھٹنے پر اس کے کناروں پر کھڑے ہوں گے پھر بحکمِ الٰہی اتر کر زمین کا احاطہ کریں گے۔
۲۳ حدیث شریف میں ہے کہ حاملینِ عرش آج کل چار ہیں روزِ قیامت ان کی تائید کے لئے چار کا اور اضافہ کیا جائے گا آٹھ ہو جائیں گے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اس سے ملائکہ کی آٹھ صفیں مراد ہیں جن کی تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانے۔
۲۴ اللہ تعالیٰ کے حضور حساب کے لئے۔
۲۵ یہ سمجھ لے گا کہ وہ نجات پانے والوں میں ہے اور نہایت فرح و سرور کے ساتھ اپنی جماعت اور اپنے اہل و اقارب سے۔
۲۶ یعنی مجھے دنیا میں یقین تھا کہ آخرت میں مجھ سے حساب لیا جائے گا۔
۲۷ کہ کھڑے بیٹھے لیٹے ہر حال میں بآسانی لے سکیں اور ان لوگوں سے کہا جائے گا۔
۲۸ یعنی جو اعمالِ صالحہ کہ دنیا میں تم نے آخرت کے لئے کئے۔
۲۹ جب اپنے نامۂ اعمال کو دیکھے گا اور اس میں اپنے بد اعمال مکتوب پائے گا تو شرمندہ و رسوا ہو کر۔
۳۰ اور حساب کے لئے نہ اٹھایا جاتا اور یہ ذلّت و رسوائی پیش نہ آتی۔
۳۱ جو میں نے دنیا میں جمع کیا تھا وہ ذرا بھی میرا عذاب ٹال نہ سکا۔
۳۲ٍٍ اور میں ذلیل و محتاج رہ گیا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اس سے اسکی مراد یہ ہو گی کہ دنیا میں جو حجّتیں میں کیا کرتا تھا وہ سب باطل ہو گئیں اب اللہ تعالیٰ جہنّم کے خازنوں کو حکم دے گا۔
۳۳ اس طرح کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن سے ملا کر طوق میں باندھ دو۔
۳۵ یعنی وہ زنجیر اس میں اس طرح داخل کر دو جیسے کسی چیز میں ڈورا پرویا جاتا ہے۔
۳۶ اس کی عظمت و وحدانیّت کا معتقد نہ تھا۔
۳۷ نہ اپنے نفس کو، نہ اپنے اہل کو، نہ دوسروں کو۔ اس میں اشارہ ہے کہ وہ بعث کا قائل نہ تھا کیونکہ مسکین کا کھانا دینے والا مسکین سے تو کسی بدلہ کی امید رکھتا ہی نہیں محض رضائے الٰہی و ثوابِ آخرت کی امید پر مسکین کو دیتا ہے اور جو بعث و آخرت پر ایمان ہی نہ رکھتا ہو اسے مسکین کو کھلانے کی کیا غرض۔
۳۹ جو اسے کچھ نفع پہنچائے یا شفاعت کرے۔
۴۱ یعنی تمام مخلوقات کی قَسم جو تمہارے دیکھنے میں آئے اس کی بھی، جو نہ آئے اس کی بھی۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ مَا تُبْصِرُوْنَ سے دنیا اور مَا لَا تُبْصِرُوْنَ سے آخرت مراد ہے۔ اس کی تفسیر میں مفسّرین کے اور بھی کئی قول ہیں۔
۴۲ محمّد مصطفیٰ حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۴۳ جو ان کے رب عزَّ و علا نے فرمائیں۔
۴۵ بالکل بے ایمان ہو اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ نہ یہ شِعر ہے، نہ اس میں شعریّت کی کوئی بات پائی جاتی ہے۔
۴۶ جیسا کہ تم میں سے بعضے کافر اس کتابِ الٰہی کی نسبت کہتے ہیں۔
۴۷ نہ اس کتاب کی ہدایات کو دیکھتے ہو، نہ اس کی تعلیموں پر غور کرتے ہو کہ اس میں کیسی روحانی تعلیم ہے نہ اس کی فصاحت و بلاغت اور اعجازِ بے مثالی پر غور کرتے ہو جو یہ سمجھو کہ یہ کلام۔
۴۸ جو ہم نے نہ فرمائی ہوتی تو۔
۴۹ جس کے کاٹتے ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔
۵۰ کہ وہ روزِ قیامت جب قرآن پر ایمان لانے والوں کا ثواب اور اس کے انکار کرنے والوں اور جھٹلانے والوں کا عذاب دیکھیں گے تو اپنے ایمان نہ لانے پر افسوس کریں گے اور حسرت و ندامت میں گرفتار ہوں گے۔
۵۱ کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
۵۲ اور اس کا شکر کرو کہ اس نے تمہاری طرف اپنے اس کلامِ جلیل کی وحی فرمائی۔