سورہ اعراف مکی ہے، اس میں دو سو چھ آیتیں اور چوبیس رکوع ہیں
یہ سورت مکّۂ مکرّمہ میں نازِل ہوئی اور ایک روایت میں ہے کہ یہ سورت مکیّہ ہے سواء پانچ آیتوں کے جن میں سے پہلی وَاسْئَلْھُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ ہے اس سورت میں دو سو چھ۲۰۶ آیتیں اور چوبیس رکوع ہیں اور تین ہزار تین سو پچیس کلمے اور چودہ ہزار دس ۱۴۰۱۰ حرف ہیں۔
۲۔ بایں خیال کہ شاید لوگ نہ مانیں اور اس سے اِعراض کریں اور اس کی تکذیب کے درپے ہوں۔
۳۔ یعنی قرآن شریف جس میں ہدایت و نور کا با ن ہے۔ زُجاج نے کہا کہ اِتّباع کرو قرآن کا اور اس چیز کا جو نبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم لائے کیونکہ یہ سب اللّٰہ کا نازِل کیا ہوا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں فرمایا۔ مَآاٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ الآیہ یعنی جو کچھ رسول تمہارے پاس لائیں اسے اخذ کرو اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز رہو۔
۴۔ اب حکمِ الٰہی کا اِتّباع ترک کرنے اور اس سے اِعراض کرنے کے نتائج پچھلی قوموں کے حالات میں دکھائے جاتے ہیں۔
۵۔ معنیٰ یہ ہیں کہ ہمارا عذاب ایسے وقت آیا جب کہ انہیں خیال بھی نہ تھا یا تو رات کا وقت تھا اور وہ آرام کی نیند سوتے تھے یا دن میں قیلولہ کا وقت تھا اور وہ مصروفِ راحت تھے نہ عذاب کے نُزول کی کوئی نشانی تھی نہ قرینہ کہ پہلے سے آگاہ ہوتے اچانک آ گیا اس سے کُفَّار کو مُتنبِّہ کیا جاتا ہے کہ وہ اسبابِ امن و راحت پر مغرور نہ ہوں، عذابِ الٰہی جب آتا ہے تو دَفعَۃً آ جاتا ہے۔
۶۔ عذاب آنے پر انہوں نے اپنے جُرم کا اِعتِراف کیا اور اس وقت اِعتِراف بھی فائدہ نہیں دیتا۔
۷۔ کہ انہوں نے رسولوں کی دعوت کا کیا جواب دیا اور ان کے حکم کی کیا تعمیل کی۔
۸۔ کہ انہوں نے اپنی اُمّتوں کو ہمارے پیام پہنچائے اور ان اُمّتوں نے انہیں کیا جواب دیا۔
۹۔ رسولوں کو بھی اور ان کی اُمّتوں کو بھی کہ انہوں نے دنیا میں کیا کیا۔
۱۰۔ اس طرح کہ اللّٰہ عزّوجلّ ایک میزان قائم فرمائے گا جس کا ہر ایک پلّہ اتنی وُسعت رکھے گا جیسی مشرق و مغرب کے درمیان وُسعت ہے۔ ابنِ جوزی نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بارگاہِ الٰہی میں میزان دیکھنے کی درخواست کی جب میزان دکھائی گئی اور آپ نے اس کے پلّوں کی وُسعت دیکھی تو عرض کیا یا ربّ کس کا مقدور ہے کہ ان کو نیکیوں سے بھر سکے ارشاد ہوا کہ اے داؤد میں جب اپنے بندوں سے راضی ہوتا ہوں تو ایک کھجور سے اس کو بھر دیتا ہوں یعنی تھوڑی نیکی بھی مقبول ہو جائے تو فضلِ الٰہی سے اتنی بڑھ جاتی ہے کہ میزان کو بھر دے۔
۱۲۔ اور ان میں کوئی نیکی نہ ہوئی یہ کُفّار کا حال ہو گا جو ایمان سے محروم ہیں اور اس وجہ سے ان کا کوئی عمل مقبول نہیں۔
۱ٍ۳۔ کہ ان کو چھوڑتے تھے، جھٹلاتے تھے، ان کی اِطاعت سے منہ موڑتے تھے۔
۱۴۔ اور اپنے فضل سے تمہیں راحتیں دیں باوجود اس کے تم۔
۱۵۔ شکر کی حقیقت نعمت کا تصور اور اس کا اظہار ہے اور ناشکری نعمت کو بھول جانا اور اس کو چھُپانا۔
(۱۱) اور بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس، یہ سجدہ کرنے والوں میں نہ ہوا۔
(۱۲) فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا (ف ۱۶) بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا (ف ۱۷)
۱۶۔ مسئلہ : اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امر وُجوب کے لئے ہوتا ہے اور سجدہ نہ کرنے کا سبب دریافت فرمانا تَوبیخ کے لئے ہے اور اس لئے کہ شیطان کی مُعانَدت اور اس کا کُفر و کِبر اور اپنی اصل پر مُفتخِر ہونا اور حضرت آدم علیہ السلام کے اصل کی تحقیر کرنا ظاہر ہو جائے۔
۱۷۔ اس سے اس کی مراد یہ تھی کہ آگ مِٹی سے افضل و اعلیٰ ہے تو جس کی اصل آگ ہو گی وہ اس سے افضل ہو گا , جس کی اصل مِٹی ہو اور اس خبیث کا یہ خیال غلط و باطل ہے کیونکہ افضل وہ ہے جسے مالک و مولیٰ فضیلت دے، فضیلت کا مدار اصل و جوہر پر نہیں بلکہ مالک کی اِطاعت و فرمانبرداری پر ہے اور آگ کا مِٹی سے افضل ہونا یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ آگ میں طیش و تیزی اور تَرَفُّع ہے۔ یہ سبب اِستِکبار کا ہوتا ہے اور مٹی سے وقار، حِلم و حیا و صبر حاصل ہوتے ہیں، مِٹی سے مُلک آباد ہوتے ہیں آگ سے ہلاک، مِٹی امانت دار ہے جو چیز اس میں رکھی جائے اس کو محفوظ رکھے اور بڑھائے۔ آگ فنا کر دیتی ہے باوجود اس کے لطف یہ ہے کہ مِٹی آگ کو بجھا دیتی ہے اور آگ مِٹی کو فنا نہیں کر سکتی علاوہ بَریں حماقَت و شَقاوَت اِبلیس کی یہ کہ اس نے نَص کے موجود ہوتے ہوئے اس کے مُقابِل قیاس کیا اور جو قیاس کہ نص کے خلاف ہو وہ ضرور مردود۔
۱۸۔ جنّت سے کہ یہ جگہ اطاعت و تواضُع والوں کی ہے منکِر و سرکش کی نہیں۔
۱۹۔ کہ انسان تیری مَذمَّت کرے گا اور ہر زبان تجھ پر لعنت کرے گی اور یہی تکبّر والے کا انجام ہے۔
۲۰۔ اور مُدَّت اس مہلت کی سورۂ حِجر میں بیان فرمائی گئی۔ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ اِلیٰ یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ اور یہ وقت نَفخَۂ اُولیٰ کا ہے جب سب لوگ مر جائیں گے , شیطان نے مُردوں کے زندہ ہونے کے وقت تک کی مہلت چاہی تھی اور اس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ موت کی سختی سے بچ جائے یہ قبول نہ ہوا اور نَفخَۂ اولیٰ تک کی مُہلت دی گئی۔
۲۱۔ کہ بنی آدم کے دل میں وسوسے ڈالوں اور انہیں باطِل کی طرف مائِل کروں گناہوں کی رغبت دلاؤں تیری اِطاعت اور عبادت سے روکوں اور گمراہی میں ڈالوں۔
۲۲۔ یعنی چاروں طرف سے انہیں گھیر کر راہِ راست سے روکوں گا۔
۲ٍ۳۔ چونکہ شیطان بنی آدم کو گمراہ کرنے اور مبتلائے شہوات و قَبائِح کرنے میں اپنی انتہائی سَعی خرچ کرنے کا عَزم کر چکا تھا اس لئے اسے گمان تھا کہ وہ بنی آدم کو بِہکا لے گا۔ انہیں فریب دے کر خداوندِ عالَم کی نعمتوں کے شکر اور اس کی طاعت و فرمانبرداری سے روک دے گا۔
(۱۸) فرمایا یہاں سے نکل جا رد کیا گیا راندہ ہوا، ضرور جو اُن میں سے تیرے کہے پر چلا میں تم سب سے جہنم بھر دوں گا (ف ۲۴)
۲۴۔ تجھ کو بھی اور تیری ذُرِّیّت کو بھی اور تیری اطاعت کرنے والے آدمیوں کو بھی، سب کو جہنّم میں داخل کیا جائے گا، شیطان کو جنّت سے نکال دینے کے بعد حضرت آدم کو خِطاب فرمایا جو آگے آتا ہے۔
۲۶۔ یعنی ایسا وسوسہ ڈالا کہ جس کا نتیجہ یہ ہو کہ وہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے سامنے بَرہنہ ہو جائیں۔ اس آیت سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ وہ جسم جس کو عورت کہتے ہیں اس کو چھپانا ضروری اور کھولنا منع ہے اور یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اس کا کھولنا ہمیشہ سے عقل کے نزدیک مذموم اور طبیعتوں کو ناگوار رہا ہے۔
۲۷۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان دونوں صاحبوں نے اب تک ایک دوسرے کا سِتر نہ دیکھا تھا۔
۲۸۔ کہ جنّت میں رہو اور کبھی نہ مرو۔
۲۹۔ معنیٰ یہ ہیں کہ اِبلیس ملعون نے جھوٹی قسم کھا کر حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ و السلام کو دھوکا دیا اور پہلا جھوٹی قسم کھانے والا اِبلیس ہی ہے حضرت آدم علیہ السلام کو گمان بھی نہ تھا کہ کوئی اللہ کی قسم کھا کر جھوٹ بول سکتا ہے اس لئے آپ نے اس کی بات کا اعتبار کیا۔
ٍ۳۰۔ اور جنّتی لباس جسم سے جدا ہو گئے۔ اور ان میں ایک دوسرے سے اپنا بدن چھُپا نہ سکا اس وقت تک ا ن صاحبوں میں سے کسی نے خود بھی اپنا سِتر نہ دیکھا تھا اور نہ اس وقت تک انہیں اس کی حاجت پیش آئی تھی۔
۳۱۔ اے آدم و حوّا مع اپنی ذُرِّیّت کے جو تم میں ہے۔
ٍ۳ٍ۳۔ یعنی ایک لباس تو وہ ہے جس سے بدن چھُپایا جائے اور سِتر کیا جائے اور ایک لباس وہ ہے جس سے زینت ہو اور یہ بھی غرض صحیح ہے۔
ٍ۳۴۔ پرہیز گاری کا لباس ایمان حیا، نیک خصلتیں، نیک عمل ہیں۔ یہ بے شک لباسِ زینت سے افضل و بہتر ہیں۔
۳۵۔ شیطان کی کَیّا دی اور حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ اس کی عداوت کا بیان فرما کر بنی آدم کو مُتنبِّہ اور ہوشیار کیا جاتا ہے کہ وہ شیطان کے وسوسے اور اِغواء اور اس کی مکّاریوں سے بچتے رہیں جو حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ساتھ ایسی فریب کاری کر چکا ہے وہ ان کی اولاد کے ساتھ کب درگزر کرنے والا ہے۔
ٍ۳۶۔ اللّٰہ تعالیٰ نے جنّوں کو ایسا اِدراک دیا ہے کہ وہ انسانوں کو دیکھتے ہیں اور انسانوں کو ایسا اِدراک نہیں ملا کہ وہ جنّوں کو دیکھ سکیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ شیطان انسان کے جِسم میں خون کی راہوں میں پیر جاتا ہے۔ حضرت ذوالنون رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ اگر شیطان ایسا ہے کہ وہ تمہیں دیکھتا ہے تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو تم ایسے سے مدد چاہو جو اس کو دیکھتا ہو اور وہ اسے نہ دیکھ سکے یعنی اللّٰہ کریم ستار، رحیم غفار سے مدد چاہو۔
۳۷۔ اور کوئی قبیح فعل یا گناہ ان سے صادر ہو جیسا کہ زمانۂ جاہِلیَّت کے لوگ مرد و عورت ننگے ہو کر کعبۂ مُعظَّمہ کا طواف کرتے تھے۔ عطاء کا قول ہے کہ بے حیائی شرک ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہر قبیح فعل اور تمام مَعاصی و کَبائر اس میں داخل ہیں اگرچہ یہ آیت خاص ننگے ہو کر طواف کرنے کے بارے میں آئی ہو، جب کُفّار کی ایسی بے حیائی کے کاموں پر ان کی مَذّمت کی گئی تو اس پر انہوں نے جو کہا وہ آگے آتا ہے۔
ٍ۳۸۔ کُفّار نے اپنے افعالِ قبیحہ کے دو عذر بیان کئے، ایک تو یہ کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کو یہی فعل کرتے پایا لہٰذا ان کی اِتّباع میں یہ بھی کرتے ہیں یہ تو جاہِلِ بدکار کی تقلید ہوئی اور یہ کسی صاحبِ عقل کے نزدیک جائز نہیں، تقلید کی جاتی ہے اہلِ علم و تقویٰ کی نہ کہ جاہِلِ گمراہ کی۔ دوسرا عذر ان کا یہ تھا کہ اللّٰہ نے انہیں ان افعال کا حکم دیا ہے، یہ مَحض اِفتراء و بُہتان تھا چنانچہ اللّٰہ تبارک و تعالیٰ رد فرماتا ہے۔
ٍ۳۹۔ یعنی جیسے اس نے تمہیں نیست سے ہَست کیا ایسے ہی بعدِ موت زندہ فرمائے گا۔ یہ اُخروی زندگی کا انکار کرنے والوں پر حُجّت ہے اور اس سے یہ بھی مُستفاد ہوتا ہے کہ جب اسی کی طرف پلٹنا ہے اور وہ اعمال کی جزا دے گا تو طاعات و عبادات کو اس کے لئے خالص کرنا ضروری ہے۔
۴۰۔ ایمان و معرِفت کی اور انہیں طاعت و عبادت کی توفیق دی۔
۴۲۔ ان کی اِطاعت کی، ان کے کہے پر چلے، ان کے حکم سے کُفر و مَعاصی کو اختیار کیا۔
۴۳۔ یعنی لباسِ زینت اور ایک قول یہ ہے کہ کنگھی کرنا خوشبو لگانا داخلِ زینت ہے۔
مسئلہ : اور سنّت یہ ہے کہ آدمی بہتر ہَیئت کے ساتھ نماز کے لئے حاضر ہو کیونکہ نماز میں ربّ سے مُناجات ہے تو اس کے لئے زینت کرنا عِطر لگانا مُستحَب جیسا کہ سِتر، طہارت واجب ہے۔ شا نِ نُزول : مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ زمانۂ جاہِلیّت میں دن میں مرد اور عورتیں رات میں ننگے ہو کر طواف کرتے تھے، اس آیت میں سِتر چھُپانے اور کپڑے پہننے کا حکم دیا گیا اور اس میں دلیل ہے کہ سترِ عورت نماز و طواف اور ہر حال میں واجب ہے۔
۴۴۔ شانِ نُزول : کَلبی کا قول ہے کہ بنی عامر زمانۂ حج میں اپنی خوراک بہت ہی کم کر دیتے تھے اور گوشت اور چکنائی تو بالکل کھاتے ہی نہ تھے اور اس کو حج کی تعظیم جانتے تھے، مسلمانوں نے انہیں دیکھ کر عرض کیا یا رسولَ اللّٰہ ہمیں ایسا کرنے کا زیادہ حق ہے، اس پر یہ نازِل ہوا کہ کھاؤ اور پیو گوشت ہو خواہ چکنائی ہو اور اِسراف نہ کرو اور وہ یہ ہے کہ سیر ہو چکنے کے بعد بھی کھاتے رہو یا حرام کی پرواہ نہ کرو اور یہ بھی اِسراف ہے کہ جو چیز اللّٰہ تعالیٰ نے حرام نہیں کی اس کو حرام کر لو۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کھا جو چاہے اور پہن جو چاہے اِسراف اور تکبّر سے بچتا رہ۔
مسئلہ : آیت میں دلیل ہے کہ کھانے اور پینے کی تمام چیزیں حَلال ہیں سوائے ان کے جن پر شریعت میں دلیلِ حُرمت قائم ہو کیونکہ یہ قاعدہ مقرَّرہ مسلَّمہ ہے کہ اصل تمام اشیاء میں اِباحت ہے مگر جس پر شارع نے مُمانَعت فرمائی ہو اور اس کی حُرمت دلیلِ مستقل سے ثابت ہو۔
۴۵۔ خواہ لباس ہو یا اور سامانِ زینت۔
۴۶۔ اور کھانے پینے کی لذیذ چیزیں۔
مسئلہ : آیت اپنے عُموم پر ہے ہر کھانے کی چیز اس میں داخل ہے کہ جس کی حُرمت پر نَص وارد نہ ہوئی ہو (خازن) تو جو لوگ توشۂ گیارہویں، میلاد شریف، بزرگوں کی فاتِحۂ عُرس، مجالسِ شہادت وغیرہ کی شیرینی، سبیل کے شربت کو ممنوع کہتے ہیں وہ اس آیت کے خلاف کر کے گناہ گار ہوتے ہیں اور اس کو ممنوع کہنا اپنی رائے کو دین میں داخل کرنا ہے اور یہی بِدعت و ضَلالت ہے۔
۴۷۔ جن سے حلال و حرام کے احکام معلوم ہوں۔
۴۸۔ جو یہ جانتے ہیں کہ اللّٰہ واحِد لاشریک لہٗ ہے وہ جو حرام کرے وہی حرام ہے۔
۴۹۔ یہ خِطاب مشرکین سے ہے جو بَرہنہ ہو کر خانۂ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور اللّٰہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی پاک چیزوں کو حرام کر لیتے تھے، ان سے فرمایا جاتا ہے کہ اللّٰہ نے یہ چیزیں حرام نہیں کیں اور ان سے اپنے بندوں کو نہیں روکا، جن چیزوں کو اس نے حرام فرمایا وہ یہ ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ بیا ن فرماتا ہے ان میں سے بے حیائیاں ہیں جو کھلی ہوئی ہوں یا چھپی ہوئی، قولی ہوں یا فعلی۔
۵۲۔ وقتِ مُعیّن جس پر مُہلت ختم ہو جاتی ہے۔
۵۳۔ مفسِّرین کے اس میں دو قول ہیں۔ ایک تو یہ کہ رُسُل سے تمام مُرسَلین مراد ہیں، دوسرا یہ کہ خاص سیدِ عالَم خاتَم الانبیاء صلی اللّٰہ علیہ و سلم مراد ہیں جو تمام خَلق کی طرف رسول بنائے گئے ہیں اور صیغۂ جَمع تعظیم کے لئے ہے۔
۵۶۔ یعنی جتنی عمر اور روزی اللّٰہ نے ان کے لئے لکھ دی ہے ان کو پہنچے گی۔
۵۷۔ مَلکُ المَوت اور ان کے اَعوان ان لوگوں کی عمریں اور روزیاں پوری ہونے کے بعد۔
۵۸۔ ان کا کہیں نام و نشان ہی نہیں۔
۶۱۔ جو اس کے دین پر تھا تو مشرک مشرکوں پر لعنت کریں گے اور یہود یہودیوں پر اور نصاریٰ نصاریٰ پر۔
۶۲۔ یعنی پہلوں کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ سے کہیں گے۔
۶۳۔ کیونکہ پہلے خود بھی گمراہ ہوئے اور انہوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا اور پچھلے بیص ایسے ہی ہیں کہ خود گمراہ ہوئے اور گمراہوں کا ہی اِتّباع کرتے رہے۔
۶۴۔ کہ تم میں سے ہر فریق کے لئے کیسا عذاب ہے۔
۶۵۔ کُفر و ضَلال میں دونوں برابر ہیں۔
۶۶۔ کُفر کا اور اعمالِ خبیثہ کا۔
۶۷۔ نہ ان کے اعمال کے لئے نہ ان کی ارواح کے لئے کیونکہ ان کے اعمال و ارواح دونوں خیثا ہیں۔ حضرتِ ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ کُفّار کی ارواح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور مؤمنین کی ارواح کے لئے کھولے جاتے ہیں۔ ابنِ جُرَیْج نے کہا کہ آسمان کے دروازے نہ کافِروں کے اعمال کے لئے کھولے جائیں نہ ارواح کے لئے یعنی نہ زندگی میں ان کا عمل ہی آسمان پر جا سکتا ہے نہ بعدِ موت روح۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ آسمان کے دروازے نہ کھولے جانے کے یہ معنیٰ ہیں کہ وہ خیر و برکت اور رحمت کے نُزول سے محروم رہتے ہیں۔
۶۸۔ اور یہ مَحال، تو کُفّارکا جنّت میں داخل ہونا مَحال کیونکہ مَحال پر جو موقوف ہو وہ مَحال ہوتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ کُفّار کا جنّت سے مَحروم رہنا قطعی ہے۔
۶۹۔ مُجرِمین سے یہاں کُفّار مراد ہیں کیونکہ اوپر ان کی صفت میں آیاتِ الٰہیّہ کی تکذیب اور ان سے تکبُّر کرنے کا بیان ہو چکا ہے۔
۷۰۔ یعنی اوپر نیچے ہر طرف سے آگ انہیں گھیرے ہوئے ہے۔
۷۱۔ جو دنیا میں ان کے درمیان تھے اور طبیعتیں صاف کر دی گئیں اور ان میں آپس میں نہ باقی رہی مگر مَحبت و مَودَّت۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ یہ ہم اہلِ بدر کے حق میں نازِل ہوا اور یہ بھی آپ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا مجھے امید ہے کہ میں اور عثمان اور طلحہ او زبیر ان میں سے ہوں جن کے حق میں اللّٰہ تعالیٰ نے وَنَزَعْنَا مَافِیْ صُدُوْرھِمْ مِّنْ غِلٍّ فرمایا۔ حضرت علی مرتضیٰ کے اس ارشاد نے رَفض کی بَیخ و بنیاد کا قَلع قَمع کر دیا۔
۷۲۔ مؤمنین جنّت میں داخل ہوتے وقت۔
۷۳۔ اور ہمیں ایسے عمل کی توفیق دی جس کا یہ اجر و ثواب ہے اور ہم پر فضل و رحمت فرمائی اور اپنے کرم سے عذابِ جہنَّم سے محفوظ کیا۔
۷۴۔ اور جو انہوں نے ہمیں دنیا میں ثواب کی خبریں دیں وہ سب ہم نے عیاں دیکھ لیں، ان کی ہدایت ہمارے لئے کمال لطف و کرم تھا۔
۷۵۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے جب جنّتی جنّت میں داخل ہوں گے، ایک نِدا کرنے والا پکارے گا تمہارے لئے زندگانی ہے، کبھی نہ مرو گے تمہارے لئے تندرستی ہے، کبھی بیمار نہ ہو گے تمہارے لئے عیش ہے، کبھی تنگ حال نہ ہو گے۔ جنّت کو میراث فرمایا گیا اس میں اشارہ ہے کہ وہ مَحض اللّٰہ کے فضل سے حاصل ہوئی۔
۷۶۔ اور رسولوں نے فرمایا تھا کہ ایمان و طاعت پر اجر و ثواب پاؤ گے۔
۷۷۔ کُفر و نافرمانی پر عذاب کا۔
۷۸۔ اور لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے منع کرتے ہیں۔
۷۹۔ یعنی یہ چاہتے ہیں کہ دینِ الٰہی کو بدل دیں اور جو طریقہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اس میں تغیّر ڈال دیں۔ (خازن)۔
۸۱۔ یہ کس طبقہ کے ہوں گے اس میں بہت مختلف اقوال ہیں۔ ایک قول تو یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہوں وہ اَعراف پر ٹھہرے رہیں گے جب اہلِ جنّت کی طرف دیکھیں گے تو انہیں سلام کریں گے اور دوزخیوں کی طرف دیکھیں گے تو کہیں گے یاربّ ہمیں ظالِم قوم کے ساتھ نہ کر، آخر کار جنّت میں داخل کئے جائیں گے۔ ایک قول یہ ہے کہ جو لوگ جِہاد میں شہید ہوئے مگر ان کے والدین ان سے ناراض تھے وہ اَعراف میں ٹھہرائے جائیں گے۔ ایک قول یہ ہے کہ جو لوگ ایسے ہیں کہ ان کے والدین میں سے ایک ان سے راضی ہو ایک ناراض وہ اعراف میں رکھے جائیں گے۔ ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ اَعراف کا مرتبہ اہلِ جنّت سے کم ہے۔ مجاہد کا قول یہ ہے اَعراف میں صُلَحاء، فُقَراء، عُلَماء ہوں گے اور ان کا وہاں قیام اس لئے ہو گا کہ دوسرے ان کے فضل و شرف کو دیکھیں اور ایک قول یہ ہے کہ اَعراف میں اَنبیاء ہوں گے اور وہ اس مکانِ عالی میں تمام اہلِ قیامت پر مُمتاز کئے جائیں گے اور انکی فضیلت اور رتبۂ عالیہ کا اظہار کیا جائے گا تاکہ جنّتی اور دوزخی ان کو دیکھیں اور وہ ان سب کے احوال اور ثواب و عذاب کے مقدار و احوال کا معائنہ کریں۔ ان قولوں پر اصحابِ اَعراف جنّتیوں میں سے افضل لوگ ہوں گے کیونکہ وہ باقیوں سے مرتبہ میں اعلیٰ ہیں۔ ان تمام اقوال میں کچھ تناقُض نہیں ہے ا س لئے کہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ اَعراف میں ٹھہرائے جائیں اور ہر ایک کے ٹھہرانے کی حکمت جُداگانہ ہو۔
۸۲۔ دونوں فریق سے جنّتی اور دوزخی مراد ہیں، جنّتیوں کے چہرے سفید اور تر و تازہ ہوں گے اور دوزخیوں کے چہرے سِیاہ اور آنکھیں نیلی، یہی ان کی علامتیں ہیں۔
۸۶۔ اور اہلِ اَعراف غریب مسلمانوں کی طرف اشارہ کر کے کُفّار سے کہیں گے۔
۸۷۔ جن کو تم دنیا میں حقیر سمجھتے تھے اور۔
۸۸۔ اب دیکھ لو کہ جنّت کے دائمی عیش و راحت میں کس عزّت و احترام کے ساتھ ہیں۔
۸۹۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ جب اَعراف والے جنّت میں چلے جائیں گے تو دوزخیوں کو بھی طمع دامن گیر ہو گی اور وہ عرض کریں گے یاربّ جنّت میں ہمارے رشتہ دار ہیں، اجازت فرما کہ ہم انہیں دیکھیں ان سے بات کریں، اجازت دی جائے گی تو وہ اپنے رشتہ داروں کو جنّت کی نعمتوں میں دیکھیں گے اور پہچانیں گے لیکن اہلِ جنّت ان دوزخی رشتہ داروں کو نہ پہچانیں گے کو نکہ دوزخیوں کے منہ کالے ہوں گے صورتیں بگڑ گئی ہوں گی تو و ہ جنّتیوں کو نام لے لے کر پکاریں گے۔ کوئی اپنے باپ کو پکارے گا کوئی بھائی کو اور کہے گا میں جل گیا مجھ پر پانی ڈالو اور تمہیں اللّٰہ نے دیا ہے کھانے کو دو، اس پر اہلِ جنّت۔
۹۰۔ کہ حلال و حرام میں اپنی ہَوائے نفس کے تابع ہوئے جب ایمان کی طرف انہیں دعوت دی گئی مَسخَرگی کرنے لگے۔
۹۱۔ اس کی لذّتوں میں آخرت کو بھول گئے۔
۹۴۔ نہ اس پر ایمان لاتے تھے نہ اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔
۹۵۔ یعنی بجائے کُفر کے ایمان لائیں اور بجائے معصیت اور نافرمانی کے طاعت اور فرمانبرداری اختیار کریں مگر نہ انہیں شَفاعت مُیسّر آئے گی نہ دنیا میں واپس بھیجے جائیں گے۔
۹۶۔ اور جھوٹ بکتے تھے کہ بُت خدا کے شریک ہیں اور اپنے پُجاریوں کی شَفاعت کریں گے، اب آخرت میں انہیں معلوم ہو گیا کہ ان کے یہ دعوے جھوٹے تھے۔
۹۷۔ مع ان تمام چیزوں کے جو ان کے درمیان ہیں جیسا کہ دوسری آیت میں وارد ہوا۔ وَلَقَدْخَلَقْنَا السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ۔
۹۸۔ چھ دن سے دنیا کے چھ دنوں کی مقدار مراد ہے کیونکہ یہ دن تو اس وقت تھے نہیں، آفتاب ہی نہ تھا جس سے دن ہوتا اور اللّٰہ تعالیٰ قادر تھا کہ ایک لمحہ میں یا اس سے کم میں پیدا فرماتا لیکن اتنے عرصہ میں ان کی پیدائش فرمانا بہ تقاضائے حکمت ہے اور اس سے بندوں کو اپنے کاموں میں تدریج اختیار کرنے کا سبق ملتا ہے۔
۹۹۔ یہ اِستِواء مُتَشابِہات میں سے ہے۔ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں کہ اللّٰہ کی اس سے جو مراد ہے حق ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ اِستِواء معلوم ہے اور اس کی کیفیت مجہول اور اس پر ایمان لانا واجب۔ حضرت مُتَرجِم قُدِّسَ سِرُّہ نے فرمایا، یا اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ آفرِینَش کا خاتِمہ عرش پر جا ٹھہرا۔ واللّٰہ اعلم باسرار کتابہ۔
۱۰۰۔ دعا اللّٰہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنے کو کہتے ہیں اور یہ داخلِ عبادت ہے کیونکہ دعا کرنے والا اپنے آپ کو عاجِز و مُحتاج اور اپنے پروردگار کو حقیقی قادر و حاجت رَوا اعتِقاد کرتا ہے۔ اسی لئے حدیث شریف میں وارِد ہوا اَلدُّعَآ ءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ تَضَرُّع سے اظہارِ عِجز و خُشوع مراد ہے اور ادب دعا میں یہ ہے کہ آہستہ ہو۔ حسن رضی اللّٰہ عنہ کا قول ہے کہ آہستہ دعا کرنا علانیہ دعا کرنے سے ستّر درجہ زیادہ افضل ہے۔
مسئلہ : اس میں عُلَماء کا اختلاف ہے کہ عبادات میں اظہار افضل ہے یا اِخفاء، بعض کہتے ہیں کہ اِخفاء افضل ہے کیونکہ وہ رِیا سے بہت دور ہے، بعض کہتے ہیں کہ اظہار افضل ہے اس لئے کہ اس سے دوسروں کو رغبتِ عبادت پیدا ہوتی ہے۔ ترمذی نے کہا کہ اگر آدمی اپنے نفس پر رِیا کا اندیشہ رکھتا ہو تو اس کے لئے اِخفاء افضل ہے اور اگر قلب صاف ہو اندیشۂ رِیا نہ ہو تو اظہار افضل ہے۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ فرض عبادتوں میں اظہار افضل ہے، نمازِ فرض مسجد ہی میں بہتر ہے اور زکوٰۃ کا اظہار کر کے دینا ہی افضل ہے اور نفل عبادات میں خواہ وہ نماز ہو یا صدَقہ وغیرہ ان میں اِخفاء افضل ہے۔ دعا میں حد سے بڑھنا کئی طرح ہوتا ہے اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بہت بلند آواز سے چیخے۔
۱۰۱۔ کُفر ومَعصیّت و ظلم کر کے۔
۱۰۲۔ اَنبیاء کے تشریف لانے، حق کی دعوت فرمانے، اَحکام بیان کرنے، عدل قائم فرمانے کے بعد۔
۱۰۳۔ بارش کا اور رحمت سے یہاں مینہ مراد ہے۔
۱۰۴۔ جہاں بارش نہ ہوئی تھی سبزہ نہ جما تھا۔
۱۰۵۔ یعنی جس طرح مردہ زمین کو ویرانی کے بعد زندگی عطا فرماتا اور اس کو سرسبز و شاداب فرماتا ہے اور اس میں کھیتی، درخت، پھل پھول پیدا کرتا ہے۔ ایسے ہی مُردوں کو قبروں سے زندہ کر کے اٹھائے گا کیونکہ جو خشک لکڑی سے تر و تازہ پھل پیدا کرنے پر قادر ہے اسے مُردوں کا زندہ کرنا کیا بعید ہے۔ قدرت کی یہ نشانی دیکھ لینے کے بعد عاقِل، سلیمُ الحواس کو مُردوں کے زندہ کئے جانے میں کچھ تردُّد باقی نہیں رہتا۔
۱۰۶۔ یہ مؤمن کی مثال ہے جس طرح عمدہ زمین پانی سے نفع پاتی ہے اور اس میں پھول پھل پیدا ہوتے ہیں اسی طرح جب مؤمن کے دل پر قرآنی انوار کی بارش ہوتی ہے تو وہ اس سے نفع پاتا ہے، ایمان لاتا ہے، طاعات و عبادات سے پھلتا پھولتا ہے۔
۱۰۷۔ یہ کافِر کی مثال ہے کہ جیسے خراب زمین بارش سے نفع نہیں پاتی ایسے ہی کافِر قرآن پاک سے مُنتفِع نہیں ہوتا۔
۱۰۸۔ جو توحید و ایمان پر حُجّت و بُرہان ہیں۔
۱۰۹۔ حضرت نوح علیہ السلام کے والد کا نام لمک ہے، وہ متوشلخ کے، وہ اخنوخ علیہ السلام کے فرزند ہیں، اخنوخ حضرت اِدریس علیہ الصلوٰۃ و السلام کا نام ہے۔ حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ و السلام چالیس یا پچاس سال کی عمر میں نبوّت سے سرفراز فرمائے گئے۔ آیاتِ بالا میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے دلائلِ قُدرت و غَرائبِ صَنعت بیان فرمائے جن سے اس کی توحید و رَبوبیّت ثابت ہوتی ہے اور مرنے کے بعد اٹھنے اور زندہ ہونے کی صحت پر دلائلِ قاطعہ قائم کئے، اس کے بعد انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السّلام کا ذکر فرماتا ہے اور ان کے ان معاملات کا جو انہیں اُمّتوں کے ساتھ پیش آئے۔ اس میں نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلّم کی تسلّی ہے کہ فقط آپ ہی کی قوم نے قبولِ حق سے اِعراض نہیں کیا بلکہ پہلی اُمّتیں بھی اِعراض کرتی رہیں اور انبیاء کی تکذیب کرنے والوں کا انجام دنیا میں ہلاک اور آخرت میں عذابِ عظیم ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ انبیاء کی تکذیب کرنے والے غضبِ الٰہی کے سزا وار ہوتے ہیں۔ جو شخص سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلّم کی تکذیب کرے گا اس کا بھی یہی انجام ہو گا۔ انبیاء کے ان تذکروں میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلّم کی نبوّت کی زبردست دلیل ہے کیونکہ حضور اُمّی تھے پھر آپ کا ان واقعات کو تفصیلاً بیان فرمانا بالخصوص ایسے مُلک میں جہاں اہلِ کتاب کے عُلَماء بکثرت موجود تھے اور سرگرم مخالِف بھی تھے، ذرا سی بات پاتے تو بہت شور مچاتے، وہاں حضور کا ان واقعات کو بیان فرمانا اور اہلِ کتاب کا ساکِت و حیران رہ جانا صریح دلیل ہے کہ آپ نبیِ برحق ہیں اور پروردگارِ عالَم نے آپ پر علوم کے دروازے کھول دیئے ہیں۔
۱۱۱۔ تو اس کے سوا کسی کو نہ پوجو۔
۱۱۲۔ روزِ قیامت کا یا روزِ طوفان کا اگر تم میری نصیحت قبول نہ کرو اور راہِ راست پر نہ آؤ۔
۱۱ٍ۳۔ جس کو تم خوب جانتے اور اس کے نسب کو پہچانتے ہو۔
۱۱۴۔ یعنی حضرت نوح علیہ السلام کو۔
۱۱۶۔ جسے حق نظر نہ آتا تھا حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ ان کے دل اندھے تھے، نورِ معرِفت سے ان کو بَہرہ نہ تھا۔
۱۱۷۔ یہاں عادِ اُولیٰ مراد ہے، یہ حضرت ہُود علیہ السلام کی قوم ہے اور عادِ ثانیہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ہے اسی کو ثَمُود کہتے ہیں، ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔ (جمل)۔
۱۲۰۔ یعنی رسالت کے دعویٰ میں سچا نہیں جانتے۔
۱۲۱۔ کُفّار کا حضرت ہُود علیہ السلام کی جناب میں یہ گستاخانہ کلام کہ تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں، جھوٹا گمان کرتے ہیں، انتہا درجہ کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ مستحق اس بات کے تھے کہ انہیں سخت ترین جواب دیا جاتا مگر آپ نے اپنے اَخلاق و ادب اور شانِ حِلم سے جو جواب دیا اس میں شانِ مقابَلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور ان کی جَہالت سے چشم پوشی فرمائی۔ اس سے دنیا کو سبق ملتا ہے کہ سُفَہاء اور بدخِصَال لوگوں سے اس طرح مُخاطَبہ کرنا چاہئے مع ہٰذا آپ نے اپنی رِسالت اور خیر خواہی و امانت کا ذکر فرمایا۔ اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ اہلِ عِلم و کمال کو ضرورت کے موقع پر اپنے منصب و کمال کا اِظہار جائز ہے۔
۱۲۲۔ یہ اس کا کتنا بڑا احسان ہے۔
۱۲ٍ۳۔ اور بہت زیادہ قوّت طُولِ قامت عنایت کیا۔
۱۲۴۔ اور ایسے مُنعِم پر ایمان لاؤ اور طاعات و عبادات بجا لا کر اس کے احسان کی شکر گزاری کرو۔
۱۲۵۔ یعنی اپنے عبادت خانہ سے حضرت ہُود علیہ السلام اپنی قوم کی بستی سے علیحدہ ایک تنہائی کے مقام میں عبادت کیا کرتے تھے جب آپ کے پاس وحی آتی تو قوم کے پاس آ کر سنا دیتے۔
۱۲۹۔ اور تمہاری سرکشی سے تم پر عذاب آنا واجب و لازم ہو گیا۔
۱ٍ۳۰۔ اور انہیں پوجنے لگے اور معبود ماننے لگے باوجود یکہ ان کی کچھ حقیقت ہی نہیں ہے اور اُ لُوہیّت کے معنیٰ سے قَطعاً خالی و عاری ہیں۔
۱ٍ۳۲۔ جو ان کے مُتّبِع تھے اور ان پر ایمان لائے تھے۔
۱ٍ۳ٍ۳۔ اس عذاب سے جو قومِ ہُود پر اترا۔
۱ٍ۳۴۔ اور حضرت ہُود علیہ السلام کی تکذیب کرتے۔
۱ٍ۳۵۔ اور اس طرح ہلاک کر دیا کہ ان میں ایک بھی نہ بچا۔ مختصر واقعہ یہ ہے کہ قومِ عاد اَحقاف میں رہتی تھی جو عُمَّان و حَضر مُوت کے درمیان عَلاقۂ یمن میں ایک ریگستان ہے۔ انہوں نے زمین کو فِسق سے بھر دیا تھا اور دنیا کی قوموں کو اپنی جَفا کاریوں سے اپنے زورِ قوّت کے زُعم میں پامال کر ڈالا تھا۔ یہ لوگ بُت پرست تھے ان کے ایک بُت کا نام صَداء، ایک کاصَمُود، ایک کا ہَباء تھا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان میں حضرت ہُود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، آپ نے انہیں توحید کا حکم دیا، شرک وبُت پرستی اور ظلم و جَفا کاری کی ممانَعت کی، اس پر وہ لوگ منکِر ہوئے آپ کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زور آور کون ہے ؟ چند آدمی ان میں سے حضرت ہُود علیہ السلام پر ایمان لائے وہ تھوڑے تھے اور اپنا ایمان چھپائے رہتے تھے۔ ان مؤمنین میں سے ایک شخص کا نام مَرثَد ابنِ سعد بن عضیر تھا وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے جب قوم نے سرکشی کی اور اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام کی تکذیب کی اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی مضبوط عمارتیں بنائیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ انہیں گمان ہے کہ وہ دنیا میں ہمیشہ ہی رہیں گے جب ان کی نوبت یہاں تک پہنچی تو اللّٰہ تعالیٰ نے بارش روک دی تین سال بارش نہ ہوئی اب وہ بہت میبت میں مبتلا ہوئے اور اس زمانہ میں دستور یہ تھا کہ جب کوئی بلا یا مصیبت نازِل ہوتی تھی تو لوگ بیت اللّٰہ الحرام میں حاضر ہو کر اللّٰہ تعالیٰ سے اس کے دفع کی دعا کرتے تھے اسی لئے ان لوگوں نے ایک وفد بیت اللّٰہ کو روانہ کیا، اس وفد میں قیل بن عنزا اور نعیم بن ہزال اور مرثد بن سعد تھے، یہ وہی صاحب ہیں جو حضرت ہُود علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے۔ اس زمانہ میں مکّۂ مکرَّمہ میں عمالیق کی سُکونت تھی اور ان لوگوں کا سردار معاویہ بن بکر تھا اس شخص کا نانِہال قومِ عاد میں تھا اسی علاقہ سے یہ وفد مکۂ مکرَّمہ کے حوالی میں معاویہ بن بکر کے یہاں مقیم ہوا اس نے ان لوگوں کا بہت اِکرام کیا، نہایت خاطر و مَدارَات کی، یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور باندیوں کا ناچ دیکھتے تھے۔ اس طرح انہوں نے عیش و نشاط میں ایک مہینہ بسر کیا، معاویہ کو خیال آیا کہ یہ لوگ تو راحت میں پڑ گئے اور قوم کی مصیبت کو بھول گئے جو وہاں گرفتارِ بَلا ہے مگر معاویہ بن بکر کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر وہ ان لوگوں سے کچھ کہے تو شاید وہ یہ خیال کریں کہ اب اس کو میزبانی گِراں گزرنے لگی ہے اس لئے اس نے گانے والی باندی کو ایسے اشعار دیئے جن میں قومِ عاد کی حاجت کا تذکِرہ تھا جب باندی نے وہ نظم گائی تو ان لوگوں کویاد آیا کہ ہم اس قوم کی مصیبت کی فریاد کرنے کے لئے مکّۂ مکرّمہ بھیجے گئے ہیں، اب انہیں خیال ہوا کہ حرم شریف میں داخل ہو کر قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں اس وقت مرثد بن سعد نے کہا کہ اللّٰہ کی قسم تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا لیکن اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اور اللّٰہ تعالیٰ سے توبہ کرو تو بارش ہو گی اور اس وقت مرثد نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا، ان لوگوں نے مرثدکو چھوڑ دیا اور خود مکّۂ مکرَّمہ جا کر دعا کی، اللّٰہ تعالیٰ نے تین اَبر بھیجے ایک سفید، ایک سُرخ، ایک سیاہ اور آسمان سے نِدا ہوئی کہ اے قیل! اپنے اور اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک ابر اختیار کر اس نے ابرِ سیاہ کو اختیار کیا بَایں خیال کہ اس سے بہت پانی برسے گا چنانچہ وہ ابر قومِ عاد کی طرف چلا اور وہ لوگ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے مگر اس میں سے ایک ہوا چلی وہ اس شدّت کی تھی کہ اونٹوں اور آدمیوں کو اُ ڑا اُ ڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند کر لئے مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے اس نے دروازے بھی اُکھیڑ دیئے اور ان لوگوں کو ہلاک بھی کر دیا اور قدرتِ الٰہی سے سیاہ پرندے نمودار ہوئے جنہوں نے ان کی لاشوں کو اُٹھا کر سمُندر میں پھینک دیا۔ حضرت ہُود مؤمنین کو لے کر قوم سے جُدا ہو گئے تھے اس لئے وہ سلامت رہے۔ قوم کے ہلاک ہونے کے بعد ایمانداروں کو ساتھ لے کر مکّۂ مکرّمہ تشریف لائے اور آخر عُمر شریف تک وہیں اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے۔
۱ٍ۳۶۔ جو حجِاز و شام کی درمیان سر زمینِ حَجر میں رہتے تھے۔
۱ٍ۳۹۔ جو نہ کسی پیٹھ میں رہا، نہ کسی پیٹ میں، نہ کسی نر سے پیدا ہوا، نہ مادہ سے، نہ حمل میں رہا، نہ اس کی خِلقَت تدریجاً کمال کو پہنچی بلکہ طریقۂ عادیہ کے خلاف وہ پہاڑ کے ایک پتھر سے دَفعتاً پیدا ہوا۔ اس کی یہ پیدائش معجِزہ ہے پھر وہ ایک دن پانی پیتا ہے اور تمام قبیلۂ ثمود ایک دن۔ یہ بھی معجِزہ ہے کہ ایک ناقہ ایک قبیلہ کے برابر پی جائے اس کے علاوہ اس کے پینے کے روز اس کا دودھ دوہا جاتا تھا اور وہ اتنا ہوتا تھا کہ تمام قبیلہ کو کافی ہو اور پانی کے قائم مقام ہو جائے یہ بھی معجِزہ اور تمام وُحُوش و حیوانات اس کی باری کے روز پانی پینے سے باز رہتے تھے یہ بھی معجزہ۔ اتنے معجزات حضرت صالح علیہ السلام کے صدقِ نبوّت کی زبردست حُجّتیں ہیں۔
۱۴۰۔ نہ مارو، نہ ہکاؤ، اگر ایسا کیا تو یہی نتیجہ ہو گا۔
۱۴۲۔ موسمِ گرما میں آرام کرنے کے لئے۔
۱۴۵۔ ان کے دین کو قبول کرتے ہیں، ان کی رسالت کو مانتے ہیں۔
(۷۶) متکبر بولے جس پر تم ایمان لائے ہمیں اس سے انکار ہے،
۱۴۸۔ جب کہ انہوں نے سرکشی کی۔ منقول ہے کہ ان لوگوں نے چَہار شَنبہ کو ناقہ کی کونچیں کاٹی تھیں تو حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا کہ تم اس کے بعد تین روز زندہ رہو گے، پہلے روز تمہارے سب کے چہرے زَرد ہو جائیں گے، دوسرے روز سُرخ، تیسرے روز سیاہ، چوتھے روز عذاب آئے گا چنانچہ ا یسا ہی ہوا، یک شنبہ کو دوپہر کے قریب آسمان سے ایک ہَولناک آواز آئی جس سے ان لوگوں کے دل پھٹ گئے اور سب ہلاک ہو گئے۔
۱۴۹۔ جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بھتیجے ہیں آپ اہلِ سَدوم کی طرف بھیجے گئے اور جب آپ کے چچا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شام کی طرف ہجرت کی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سر زمینِ فلسطین میں نُزول فرمایا اور حضرت لوط علیہ السلام اُردن میں اترے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو اہلِ سَدوم کی طرف مبعوث کیا آپ ان لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے تھے اور فعلِ بد سے روکتے تھے جیسا کہ آیت شریف میں ذکر آتا ہے۔
۱۵۰۔ یعنی ان کے ساتھ بَد فعلی کرتے ہو۔
۱۵۱۔ کہ حلال کو چھوڑ کر حرام میں مبتلا ہوئے اور ایسے خبیث فعل کا ارتکاب کیا۔ انسان کو شہوت بقائے نسل اور دنیا کی آبادی کے لئے دی گئی ہے اور عورتیں مَحلِّ شہوت و موضوعِ نسل بنائی گئی ہیں کہ ان سے بطریقۂ معروف حسبِ اجازتِ شرع اولاد حاصل کی جائے، جب آدمیوں نے عورتوں کو چھوڑ کر ان کا کام مَردوں سے لینا چاہا تو وہ حد سے گزر گئے اور انہوں نے اس قوّت کے مقصدِ صحیح کو فوت کر دیا کیونکہ مَرد کو نہ حمل رہتا ہے نہ وہ بچّہ جنتا ہے تو اس کے ساتھ مشغول ہونا سوائے شیطانیت کے اور کیا ہے ! عُلَمائے سِیَر و اَخبار کا بیان ہے کہ قومِ لُوط کی بستیاں نہایت سرسبز و شاداب تھیں اور وہاں غَلّے اور پھل بکثرت پیدا ہوتے تھے زمین کا دوسرا خِطّہ اس کا مِثل نہ تھا اس لئے جا بجا سے لوگ یہاں آتے تھے اور انہیں پریشان کرتے تھے، ایسے وقت میں اِبلیسِ لعین ایک بوڑھے کی صورت میں نمودار ہوا اور ان سے کہنے لگا کہ اگر تم مہمانوں کی اس کثرت سے نَجات چاہتے ہو تو جب وہ لوگ آئیں تو ان کے ساتھ بَد فعلی کرو، اس طرح یہ فعلِ بَد انہوں نے شیطان سے سیکھا اور ان میں رائج ہوا۔
۱۵۲۔ یعنی حضرت لوط اور انکے مُتّبِعین۔
۱۵۳۔ اور پاکیزگی ہی اچھی ہوتی ہے وہی قابلِ مدح ہے لیکن اس قوم کا ذوق اتنا خراب ہو گیا تھا کہ انہوں نے اس صفتِ مدح کو عیب قرار دیا۔
۱۵۴۔ یعنی حضرت لوط علیہ السلام کو۔
۱۵۵۔ وہ کافِرہ تھی اور اس قوم سے مَحبت رکھتی تھی۔
۱۵۶۔ عجیب طرح کا جس میں ایسے پتھر برسے کہ گندھک اور آگ سے مرکَّب تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ بستی میں رہنے والے جو وہاں مقیم تھے وہ تو زمین میں دھنسا دیئے گئے اور جو سفر میں تھے وہ ا س بارش سے ہلاک کیے گئے۔
۱۵۷۔ مجاہد نے کہا کہ حضرت جبریل علیہ السلام نازِل ہوئے اور انہوں نے اپنا بازو قومِ لوط کی بستیوں کے نیچے ڈال کر اس خطہ کو اکھاڑ لیا اور آسمان کے قریب پہنچ کر اس کو اوندھا کر کے گرا دیا اور اسکے بعد پتھروں کی بارش کی گئی۔
۱۵۸۔ حضرت شُعیب علیہ السلام نے۔
۱۵۹۔ جس سے میری نبوّت و رِسالت یقینی طور پر ثابت ہوتی ہے، اس دلیل سے معجِزہ مراد ہے۔
۱۶۰۔ ان کے حق دیانت داری کے ساتھ پورے پورے ادا کرو۔
۱۶۱۔ اور دین کا اِتّباع کرنے میں لوگوں کے لئے سدِّ راہ نہ بنو۔
۱۶۲۔ تمہاری تعداد زیادہ کر دی تو اس کی نعمت کا شکر کرو اور ایمان لاؤ۔
۱۶۳۔ بہ نگاہِ عبرت پچھلی اُمّتوں کے احوال اور گزرے ہوئے زمانوں میں سرکشی کرنے والوں کے انجام و مآل دیکھو اور سوچو۔
۱۶۴۔ یعنی اگر تم میری رسالت میں اختلاف کر کے دو فرقے ہو گئے ایک فرقے نے مانا اور ایک منکِر ہوا۔
۱۶۵۔ کہ تصدیق کرنے والے ایمانداروں کو عزّت دے اور انکی مدد فرمائے اور جھٹلانے والے منکرین کو ہلاک کرے اور انہیں عذاب دے۔
۱۶۶۔ کیونکہ وہ حاکمِ حقیقی ہے۔
۱۶۷۔ حضرت شُعیب علیہ السلام نے۔
۱۶۸۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ ہم تمہارا دین نہ قبول کریں گے اور اگر تم نے ہم پر جبر کیا جب بھی نہ مانیں گے کیونکہ۔
۱۶۹۔ اور تمہارے دینِ باطل کے قُبح و فساد کا علم دیا ہے۔
۱۷۰۔ اور اس کو ہلاک کرنا منظور ہو اور ایسا ہی مقدّر ہو۔
۱۷۱۔ اپنے تمام اُمور میں، وہی ہمیں ایمان پر ثابت رکھے گا وہی زیادتِ اِیقان کی توفیق دے گا۔
۱۷۲۔ زُ جاج نے کہا کہ اس کے یہ معنیٰ ہو سکتے ہیں کہ اے ربّ ہمارے امر کو ظاہر فرما دے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ ان پر ایسا عذاب نازِل فرما جس سے ان کا باطل پر ہونا اور حضرت شُعیب علیہ السلام اور ان کے مُتّبِعین کا حق پر ہونا ظاہر ہو۔
۱۷۳۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس قوم پر جہنّم کا دروازہ کھولا اور ان پر دوزخ کی شدید گرمی بھیجی جس سے سانس بند ہو گئے، اب نہ انہیں سایہ کام دیتا تھا نہ پانی اس حالت میں وہ تِہ خانہ میں داخل ہوئے تاکہ وہاں انہیں کچھ امن ملے لیکن وہاں باہر سے زیادہ گرمی تھی وہاں سے نکل کر جنگل کی طرف بھاگے، اللّٰہ تعالیٰ نے ایک اَبر بھیجا جس میں نہایت سرد اور خوش گوار ہوا تھی، اس کے سایہ میں آئے اور ایک نے دوسرے کو پُکار پُکار کر جمع کر لیا، مرد، عورتیں، بچّے سب مجتمع ہو گئے تو وہ بحکمِ الٰہی آگ بن کر بھڑک اُٹھا اور وہ اس میں اس طرح جل گئے جیسے بھاڑ میں کوئی چیز بھُن جاتی ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت شُعیب علیہ السلام کو اصحابِ ایکہ کی طرف بھی مبعوث فرمایا تھا اور اہلِ مَد یَن کی طرف بھی۔ اصحابِ ایکہ تو اَ بر سے ہلاک کئے گئے اور اہلِ مَد یَن زلزلہ میں گرفتار ہوئے اور ایک ہولناک آواز سے ہلاک ہو گئے۔
۱۷۵۔ مگر تم کسی طرح ایمان نہ لائے۔
۱۷۶۔ جس کو اس کی قوم نے نہ جھٹلایا ہو۔
۱۷۷۔ فَقر و تنگدستی اور مَرض و بیماری میں گرفتار کیا۔
۱۷۸۔ تکبُّر چھوڑیں، توبہ کریں، حکمِ الٰہی کے مطیع بنیں۔
۱۷۹۔ کہ سختی و تکلیف کے بعد راحت و آسائش پہنچنا اور بدنی و مالی نعمتیں ملنا اِطاعت و شکر گزاری کا مُسدَدعِی ہے۔
۱۸۰۔ انکی تعداد بھی زیادہ ہوئی اور مال بھی بڑھے۔
۱۸۱۔ یعنی زمانہ کا دستور ہی یہ ہے کبھی تکلیف ہوتی ہے کبھی راحت۔ ہمارے باپ دادا پر بھی ایسے احوال گذر چکے ہیں۔ اس سے ان کا مُدّعا یہ تھا کہ پچھلا زمانہ جو سختیوں میں گزرا ہے وہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ عُقوبت و سزا نہ تھا تو اپنا دین ترک کرنا نہ چاہئے نہ ان لوگوں نے شدّت و تکلیف سے کچھ نصیحت حاصل کی نہ راحت و آرام سے ان میں کوئی جذبۂ شکر و طاعت پیدا ہوا وہ غَفلت میں سرشار رہے۔
۱۸۲۔ جب کہ انہیں عذاب کا خیال بھی نہ تھا۔ ان واقعات سے عبرت حاصل کرنی چاہئے اور بندوں کو گناہ و سرکشی ترک کر کے اپنے مالِک کا رضا جُو ہونا چاہئے۔
۱۸۳۔ اور خدا اور رسول کی اِطاعت اختیار کرتے اور جس چیز کو اللّٰہ اور رسول نے منع فرمایا اس سے باز رہتے۔
۱۸۴۔ ہر طرف سے انہیں خیر پہنچتی، وقت پر نافِع اور مفید بارشیں ہوتیں، زمین سے کھیتی پھل بکثرت پیدا ہوتے، رزق کی فراخی ہوتی، امن و سلامتی رہتی، آفتوں سے محفوظ رہتے۔
۱۸۶۔ اور اَنواعِ عذاب میں مُبتلا کیا۔
۱۸۷۔ کُفّار خواہ وہ مکّۂ مُکرّمہ کے رہنے والے ہوں یا گِرد و پیش کے یا اور کہیں کے۔
۱۸۸۔ اور عذاب کے آنے سے غافل ہوں۔
۱۸۹۔ اور اس کے ڈھیل دینے اور دُنیوی نعمت دینے پر مغرور ہو کر اس کے عذاب سے بے فکر ہو گئے ہیں۔
۱۹۰۔ اور اس کے مُخلِص بندے اس کا خوف رکھتے ہیں۔ رَبیع بن خَثیم کی صاحبزادی نے ان سے کہا کیا سبب ہے میں دیکھتی ہوں سب لوگ سوتے ہیں اور آپ نہیں سوتے ہیں ؟ فرمایا ! اے نورِ نظر، تیرا باپ شَب کو سونے سے ڈرتا ہے یعنی یہ کہ غافل ہو کر سو جانا کہیں سببِ عذاب نہ ہو۔
۱۹۱۔ جیسا کہ ہم نے ان کے مورِثوں کو ان کی نافرمانی کے سبب ہلاک کیا۔
۱۹۲۔ اور کوئی پَند و نصیحت نہیں مانتے۔
۱۹۳۔ قوم حضرت نوح اور عاد و ثمود اور قوم حضرت لُوط و قوم حضرت شعیب کی۔
۱۹۴۔ تاکہ معلوم ہو کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ان پر ایمان لانے والوں کی اپنے دشمنوں یعنی کافِروں کے مُقابلہ میں مدد کیا کرتے ہیں۔
۱۹۷۔ اپنے کُفر و تکذیب پر جمے ہی رہے۔
۱۹۸۔ جن کی نسبت اس کے علم میں ہے کہ کُفر پر قائم رہیں گے اور کبھی ایمان نہ لائیں گے۔
۱۹۹۔ انہوں نے اللّٰہ کے عہد پورے نہ کئے ان پر جب کبھی کوئی مصیبت آتی تو عہد کرتے کہ یاربّ تو اگر اس سے ہمیں نَجات دے تو ہم ضرور ایمان لائیں گے پھر جب نَجات پاتے عہد سے پھِر جاتے۔ (مَدارِک)۔
۲۰۱۔ یعنی مُعجزاتِ وَاضِحات مثل یَدِ بَیضا و عصا وغیرہ۔
۲۰۲۔ انہیں جھٹلایا اور کُفر کیا۔
۲۰۳۔ کیونکہ رسول کی یہی شان ہے وہ کبھی غلط بات نہیں کہتے اور تبلیغِ رِسالت میں ان کا کِذب مُمکِن نہیں۔
۲۰۴۔ جس سے میری رسالت ثابت ہے اور وہ نشانی مُعجزات ہیں۔
۲۰۵۔ اور اپنی قید سے آزاد کر دے تاکہ وہ میرے ساتھ اَرضِ مُقدّسہ میں چلے جائیں جو ان کا وطن ہے۔
۲۰۶۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے عصا ڈالا تو وہ ایک بڑا اژدہا بن گیا زَرد رنگ، مُنہ کھولے ہوئے، زمین سے ایک مِیل اونچا، اپنی دُم پر کھڑا ہو گیا اور ایک جبڑا اس نے زمین پر رکھا اور ایک قصرِ شاہی کی دیوار پر پھر اس نے فرعون کی طرف رُخ کیا تو فرعون اپنے تخت سے کُود کر بھاگا اور ڈر سے اس کی رِیح نِکل گئی اور لوگوں کی طرف رُخ کیا تو ایسی بھاگ پڑی کہ ہزاروں آدمی آپس میں کُچَل کر مَر گئے۔ فرعون گھر میں جا کر چیخنے لگا اے موسیٰ ! تمہیں اس کی قسم جس نے تمہیں رسول بنایا اس کو پکڑ لو میں تم پر ایمان لاتا ہوں اور تمہارے ساتھ بَنی اِسرائیل کو بھیجے دیتا ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو اُٹھا لیا تو وہ مثلِ سابِق عصا تھا۔
۲۰۷۔ اور اس کی روشنی اور چمک نورِ آفتاب پر غالب ہو گئی۔
۲۰۸۔ جس نے جادو سے نظر بندی کی اور لوگوں کو عصا اَژدھا نظر آنے لگا اور گندُمی رنگ کا ہاتھ آفتاب سے زیادہ روشن معلوم ہونے لگا۔
۲۱۱۔ جو سِحر میں ماہِر ہو اور سب سے فائِق، چنانچہ لوگ روانہ ہوئے اور اَطراف و بِلاد میں تلاش کر کے جادوگروں کو لے آئے۔
۲۱ٍ۳۔ جادُوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کا یہ ادب کیا کہ آپ کو مُقَدّم کیا اور بغیر آپ کی اجازت کے اپنے عمل میں مشغول نہ ہوئے، اس ادب کا عِوض انہیں یہ ملا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں ایمان و ہدایت کے ساتھ مُشَرّف کیا۔
۲۱۴۔ یہ فرمانا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اس لئے تھا کہ آپ ان کی کچھ پروا ہ نہیں کرتے تھے اور اعتمادِ کامل رکھتے تھے کہ ان کے معجزے کے سامنے سِحر ناکام و مَغلوب ہو گا۔
۲۱۵۔ اپنا سامان جس میں بڑے بڑے رَسّے اور شَہتیر تھے تو وہ اَژدھے نظر آنے لگے اور میدان ان سے بھرا معلوم ہونے لگا۔
۲۱۶۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا ڈالا تو وہ ایک عظیمُ الشّان اَژدہا بن گیا۔ ابنِ زید کا قول ہے کہ یہ اجتماع اِسکندریہ میں ہوا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اَژدھے کی دُم سمندر کے پار پہنچ گئی تھی، وہ جادو گَروں کی سِحر کاریوں کو ایک ایک کر کے نِگل گیا اور تمام رَسّے و لَٹّھے جو انہوں نے جمع کئے تھے جو تین سو اُونٹ کا بار تھے سب کا خاتِمہ کر دیا، جب موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اس کو دستِ مبارَک میں لیا تو پہلے کی طرح عصا ہو گیا اور اس کا حُجم اور وَزن اپنے حال پر رہا، یہ دیکھ کر جادو گَروں نے پہچان لیا کہ عصائے موسیٰ سِحر نہیں اور قدرتِ بَشَری ایسا کرشمہ نہیں دِکھا سکتی، ضرور یہ اَمرِ سَماوی ہے۔ یہ بات سمجھ کر وہ اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ کہتے ہوئے سجدے میں گر گئے۔
۲۱۷۔ یعنی یہ مُعجِزہ دیکھ کر ان پر ایسا اثر ہوا کہ وہ بے اختیار سجدے میں گر گئے، معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے پیشانیاں پکڑ کر زمین پر لگا دیں۔
۲۱۸۔ یعنی تم نے اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے سب نے مُتّفِق ہو کر۔
۲۱۹۔ اور خود اس پر مسلّط ہو جاؤ۔
۲۲۰۔ کہ میں تمہارے ساتھ کس طرح پیش آتا ہوں۔
۲۲۱۔ نِیل کے کنارے حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ دنیا میں پہلا سُولی دینے والا، پہلا ہاتھ پاؤں کاٹنے والا فرعون ہے۔ فرعون کی اس گفتگو پر جادو گَروں نے یہ جواب دیا جو اگلی آیت میں مذکور ہے۔
۲۲۲۔ تو ہمیں موت کا کیا غم کیونکہ مَر کر ہمیں اپنے ربّ کی لِقاء اور اس کی رَحمت نصیب ہو گی اور جب سب کو اسی کی طرف رُجوع کرنا ہے تو وہ خود ہمارے تیرے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔
۲۲ٍ۳۔ یعنی ہم کو صَبرِ کامِل تام عطا فرما اور اس کثرت سے عطا فرما جیسے پانی کسی پر اُنڈیل دیا جاتا ہے۔
۲۲۴۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا یہ لوگ دن کے اوّل وقت میں جادو گَر تھے اور اسی روز آخر وقت میں شہید۔
۲۲۵۔ یعنی مِصر میں تیری مُخالفت کریں اور وہاں کے باشندوں کا دین بدلیں اور یہ انہوں نے اس لئے کہا تھا کہ ساحِروں کے ساتھ چھ لاکھ آدمی ایمان لے آئے تھے۔ (مَدارِک)۔
۲۲۶۔ کہ نہ تیری عبادت کریں نہ تیرے مقرّر کئے ہوئے معبودوں کی۔ سدی کا قول ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کے لئے بُت بنوا دیئے تھے اور ان کی عبادت کرنے کا حکم دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں تمہارا بھی ربّ ہوں اور ان بُتوں کا بھی۔ بعض مُفسِّرین نے فرمایا کہ فرعون دَہرِی تھا یعنی صانِعِ عالَم کے وجود کا مُنکِر، اس کا خیال تھا کہ عالَمِ سَفلی کے مُدبِّر کَواکِب ہیں اسی لئے اس نے ستاروں کی صورتوں پر بُت بنوائے تھے ان کی خود بھی عبادت کرتا تھا اور دوسروں کو بھی ان کی عبادت کا حکم دیتا تھا اور اپنے آپ کو مطاع و مَخدُوم زمین کا کہتا تھا اسی لئے اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلیٰ کہتا تھا۔
۲۲۷۔ قومِ فرعون کے سرداروں نے فرعون سے یہ جو کہا تھا کہ کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو اس لئے چھوڑتا ہے کہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں، اس سے ان کا مطلب فرعون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اور آپ کی قوم کے قتل پر اُبھارنا تھا جب انہوں نے ایسا کیا تو موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ان کو نُزولِ عذاب کا خوف دلایا اور فرعون اپنی قوم کی خواہش پر قدرت نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کی قوّت سے مَرعُوب ہو چکا تھا اسی لئے اس نے اپنی قوم سے یہ کہا کہ ہم بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کریں گے، لڑکیوں کو چھوڑ دیں گے۔ اس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ اس طرح قومِ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعداد گھٹا کر ان کی قوّت کم کریں گے اور عوام میں اپنا بھرم رکھنے کے لئے یہ بھی کہہ دیا کہ ہم بے شک ان پر غالب ہیں لیکن فرعون کے اس قول سے کہ ہم بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کریں گے، بنی اسرائیل میں کچھ پریشانی پیدا ہو گئی اور انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام سے اس کی شکایت کی، اس کے جواب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمایا۔ ( جو اس کے بعد آتا ہے )۔
۲۲۹۔ مصیبتوں اور بلاؤں پر اور گھبراؤ نہیں۔
۲ٍ۳۰۔ اور زمینِ مِصر بھی اس میں داخل ہے۔
۲ٍ۳۱۔ یہ فرما کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توقُع دلائی کہ فرعون اور اس کی قوم ہلاک ہو گی اور بنی اسرائیل ان کی زمینوں اور شہروں کے مالک ہوں گے۔
۲ٍ۳۲۔ انہیں کے لئے فَتح و ظَفر ہے اور انہیں کے لئے عاقبتِ محمودہ۔
۲ٍ۳ٍ۳۔ کہ فرعون اور فرعونیوں نے طرح طرح کی مصیبتوں میں مُبتلا کر رکھّا تھا اور لڑکوں کو بہت زیادہ قتل کیا تھا۔
۲ٍ۳۴۔ کہ اب وہ پھر ہماری اولاد کے قتل کا ارادہ رکھتا ہے تو ہماری مدد کب ہو گی اور یہ مصیبتیں کب دفع کی جائیں گی۔
۲ٍ۳۵۔ اور کس طرح شکرِ نعمت بجا لاتے ہو۔
۲ٍ۳۶۔ اور فَقر و فاقہ کی مصیبت میں گرفتار کیا۔
۲ٍ۳۷۔ اور کُفر و معصیّت سے باز آئیں۔ فرعون نے اپنی چار سو برس کی عمر میں سے تین سو بیس سال تو اس آرام کے ساتھ گزارے تھے کہ اس مدّت میں کبھی درد یا بخار یا بھوک میں مُبتلا ہی نہیں ہوا، اب قَحط سالی کی سختی ان پر اس لئے ڈالی گئی کہ وہ اس سختی ہی سے خدا کو یاد کریں اور اس کی طرف متوجّہ ہوں لیکن وہ کُفر میں اس قدر راسِخ ہو چکے تھے کہ ان تکلیفوں سے بھی ان کی سرکشی ہی بڑھتی رہی۔
۲ٍ۳۸۔ اور اَرزانی و فَراخی و امن و عافیت ہوتی۔
۲ٍ۳۹۔ یعنی ہم اس کے مستحق ہی ہیں اور اس کو اللّٰہ کا فضل نہ جانتے اور شکرِ الٰہی نہ بجا لاتے۔
۲۴۰۔ اور کہتے کہ یہ بَلائیں ان کی وجہ سے پہنچیں اگر یہ نہ ہوتے تو یہ مصیبتیں نہ آتیں۔
۲۴۱۔ جو اس نے مُقدّر کیا ہے وہی پہنچتا ہے اور یہ ان کے کُفر کے سبب ہے۔ بعض مفسِّرین فرماتے ہیں معنیٰ یہ ہیں کہ بڑی شامت تو وہ ہے جو ان کے لئے اللّٰہ کے یہاں ہے یعنی عذابِ دوزخ۔
۲۴۲۔ جب ان کی سرکشی یہاں تک پہنچی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے حق میں بد دعا کی۔ آپ مُستَجابُ الدعوات تھے، دعا قبول ہوئی۔
۲۴۳۔ جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کُفر و سرکشی پر جمے رہے تو ان پر آیاتِ الٰہیہ پِیاپے وارِد ہونے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے دعا کی تھی کہ یاربّ ! فرعون زمین میں بہت سرکش ہو گیا اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی، انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو ان کے لئے سزا ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت تو اللّٰہ تعالیٰ نے طوفان بھیجا، اَبر آیا، اندھیرا ہوا، کثرت سے بارش ہونے لگی، قُبطِیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں کی ہَنسلِیوں تک آ گیا، ان میں سے جو بیٹھا ڈوب گیا، نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کر سکتے تھے، سنیچر سے سنیچر تک سات روز تک اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر ان کے گھروں سے متصل تھے ان کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجِز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام سے عرض کیا ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت رفع ہو تو ہم آپ پر ایمان لائیں اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی طوفان کی مصیبت رفع ہوئی، زمین میں وہ سرسبزی و شادابی آئی جو پہلے نہ دیکھی تھی، کھیتیاں خوب ہوئیں، درخت خوب پھلے تو فرعونی کہنے لگے یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا پھر اللّٰہ تعالیٰ نے ٹِڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں، تختے، سامان حتّیٰ کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قُبطِیوں کے گھروں میں بھر گئیں اور بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔ اب قُبطِیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی، ایمان لانے کا وعدہ کیا اس پر عہد و پیمان کیا۔ سات روز یعنی شنبہ سے شنبہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے انہیں دیکھ کر کہنے لگے یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دین نہیں چھوڑتے چنانچہ ایمان نہ لائے عہدِ وفا نہ کیا اور اپنے اعمالِ خبیثہ میں مبتلا ہو گئے۔ ایک مہینہ عافیت سے گزرا پھر اللّٰہ تعالیٰ نے قُمَّل بھیجے۔ اس میں مفسِّرین کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ قُمَّل گھُن ہے، بعض کہتے ہیں جوں، بعض کہتے ہیں ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے، اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھا لئے، کپڑوں میں گھس جاتا تھا اور جِلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں بھر جاتا تھا اگر کوئی دس بوری گیہوں چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے۔ یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بَھنویں، پَلکیں چاٹ گئے، جسم پر چَیچک کی طرح بَھرجاتے، سونا دشوار کر دیا تھا۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا ہم توبہ کرتے ہیں آپ اس بَلا کے دفع ہونے کی دعا فرمائیے چنانچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت کی دعا سے رفع ہوئی لیکن فرعونیوں نے پھر عہد شکنی کی اور پہلے سے زیادہ خبیث تر عمل شروع کئے، ایک مہینہ امن میں گذرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بددعا کی تو اللّٰہ تعالیٰ نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اسکی مجلس میں مینڈک بھر جاتے تھے، بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر مُنہ میں پہنچتا۔ ہانڈیوں میں مینڈک، کھانوں میں مینڈک، چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تھے، آگ بجھ جاتی تھی، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے۔ اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے عہد و پیمان لے کر دعا کی تو سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی دفع ہوئی اور ایک مہینہ عافیت سے گزرا لیکن پھر انہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کُفر کی طرف لوٹے پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بد دعا فرمائی تو تمام کنووں کا پانی، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا، انہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کر دی۔ انہوں نے کہا کیسی نظر بندی ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں تو فرعون نے حکم دیا کہ قُبطِی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں تو جب بنی اسرائیل نکالتے تو پانی نکلتا قُبطی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور ان سے پانی مانگا تو وہ پانی ان کے برتن میں آتے ہی خون ہو گیا تو فرعونی عورت کہنے لگی کہ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کُلی کر دے جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا خون ہو گیا۔ فرعون خود پیاس سے مُضطر ہوا تو اس نے تر درختوں کی رَطوبت چُوسی وہ رَطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہو گئی۔ سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی مُیسّر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰ علیٰ نبِیّنا و علیہ الصلوٰۃ و السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی رفع ہوئی مگر ایمان پھر بھی نہ لائے۔
۲۴۴۔ ایک کے بعد دوسری اور ہر عذاب ایک ہفتہ قائم رہتا اور دوسرے عذاب سے ایک مہینہ کا فاصلہ ہوتا۔
۲۴۵۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لائے۔
۲۴۶۔ کہ وہ آپ کی دعا قبول فرمائے گا۔
۲۴۷۔ یعنی دریائے نیل میں جب بار بار انہیں عذابوں سے نجات دی گئی اور وہ کسی عہد پر قائم نہ رہے اور ایمان نہ لائے اور کُفر نہ چھوڑا تو وہ میعاد پوری ہونے کے بعد جو ان کے لئے مقرر فرمائی گئی تھی انہیں اللّٰہ تعالیٰ نے غرق کر کے ہلاک کر دیا۔
۲۴۸۔ اصلاً تدبُّر و التفات نہ کرتے تھے۔
۲۵۱۔ نہروں، درختوں، پھلوں، کھیتیوں اور پیداوار کی کثرت سے۔
۲۵۲۔ ان تمام عمارتوں اور ایوانوں اور باغوں کو۔
۲۵۳۔ فرعون اور اس کی قوم کو دسویں محرّم کو غرق کرنے کے بعد۔
۲۵۴۔ اور ان کی عبادت کرتے تھے۔ ابنِ جُرَیْح نے کہا کہ یہ بُت گائے کی شکل کے تھے ان کو دیکھ کر بنی اسرائیل۔
۲۵۵۔ کہ اتنی نشانیاں دیکھ کر بھی نہ سمجھے کہ اللّٰہ واحد لاشریک لہ ہے اس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں اور کسی کی عبادت جائز نہیں۔
۲۵۷۔ یعنی خدا وہ نہیں ہوتا جو تلاش کر کے بنا لیا جائے بلکہ خدا وہ ہے جس نے تمہیں فضیلت دی کیونکہ وہ فضل و احسان پر قادر ہے تو وہی عبادت کا مستحق ہے۔
۲۵۸۔ یعنی جب اس نے تم پر ایسی عظیم نعمتیں فرمائیں تو تمہیں کب شایان ہے کہ تم اس کے سوا اور کی عبادت کرو۔
۲۵۹۔ تورَیت عطا فرمانے کے لئے ماہِ ذُوالقَعدہ کی۔
۲۶۱۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کا بنی اسرائیل سے وعدہ تھا کہ جب اللّٰہ تعالیٰ ان کے دشمن فرعون کو ہلاک فرما دے تو وہ ان کے پاس اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے ایک کتاب لائیں گے جس میں حلال و حرام کا بیان ہو گا۔ جب اللّٰہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ربّ سے اس کتاب کے نازِل فرمانے کی درخواست کی، حکم ہوا کہ تیس روزے رکھیں جب وہ روزے پورے کر چکے تو آپ کو اپنے دہنِ مبارک میں ایک طرح کی بُو معلوم ہوئی، آپ نے مسواک کی، ملائکہ نے عرض کیا کہ ہمیں آپ کے دہنِ مبارک سے بڑی محبوب خوشبو آیا کرتی تھی آپ نے مسواک کر کے اس کو ختم کر دیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ ماہِ ذی الحِجّہ میں دس روزے اور رکھیں اور فرمایا کہ اے موسیٰ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ روزے دار کے منہ کی خوشبو میرے نزدیک خوشبوئے مُشک سے زیادہ اَطیَب ہے۔
۲۶۲۔ پہاڑ پر مُناجات کے لئے جاتے وقت۔
۲۶۳۔ آیت سے ثابت ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام سے کلام فرمایا اس پر ہمارا ایمان ہے اور ہماری کیا حقیقت ہے کہ ہم اس کلام کی حقیقت سے بَحث کر سکیں۔ اَخبار میں وارد ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کلام سننے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے طہارت کی اور پاکیزہ لباس پہنا اور روزہ رکھ کر طورِ سِینا میں حاضر ہوئے، اللّٰہ تعالیٰ نے ایک ابر نازِل فرمایا جس نے پہاڑ کو ہر طرف سے بقدر چار فرسنگ کے ڈھک لیا۔ شیاطین اور زمین کے جانور حتیٰ کہ ساتھ رہنے والے فرشتے تک وہاں سے علیٰحدہ کر دیئے گئے اور آپ کے لئے آسمان کھول دیا گیا تو آپ نے ملائکہ کو مُلاحظہ فرمایا کہ ہوا میں کھڑے ہیں اور آپ نے عرشِ الٰہی کو صاف دیکھا یہاں تک کہ اَلواح پر قلموں کی آواز سنی اور اللّٰہ تعالیٰ نے آپ سے کلام فرمایا۔ آپ نے اس کی بارگاہ میں اپنے معروضات پیش کئے اس نے اپنا کلامِ کریم سُنا کر نوازا۔ حضرت جبریل علیہ السلام آپ کے ساتھ تھے لیکن جو اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا وہ انہوں نے کچھ نہ سُنا۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کو کلامِ ربّانی کی لذّت نے اس کے دیدار کا آرزو مند بنایا۔ ( خازن وغیرہ)۔
۲۶۴۔ ان آنکھوں سے سوال کر کے بلکہ دیدارِ الٰہی بغیر سوال کے مَحض اس کی عطا و فضل سے حاصل ہو گا، وہ بھی اس فانی آنکھ سے نہیں بلکہ باقی آنکھ سے یعنی کوئی بشر مجھے دنیا میں دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرا دیکھنا ممکن نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ دیدارِ الٰہی ممکن ہے اگرچہ دنیا میں نہ ہو کیونکہ صحیح حدیثوں میں ہے کہ روزِ قیامت مؤمنین اپنے ربّ عزّوجلّ کے دیدار سے فیضیاب کئے جائیں گے علاوہ بریں یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام عارِف باللّٰہ ہیں، اگر دیدارِ الٰہی ممکن نہ ہوتا تو آپ ہر گز سوال نہ فرماتے۔
۲۶۵۔ اور پہاڑ کا ثابت رہنا امرِ ممکن ہے کیونکہ اس کی نسبت فرمایا جَعَلَہٗ دَکاًّ اس کو پاش پاش کر دیا تو جو چیز اللّٰہ تعالیٰ کی مجعول ہو اور جس کو وہ موجود فرمائے ممکن ہے کہ وہ نہ موجود ہو اگر اس کو نہ موجود کرے کیونکہ وہ اپنے فعل میں مختار ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ پہاڑ کا استِقرار امرِ ممکن ہے مَحال نہیں اور جو چیز امرِ ممکن پر معلّق کی جائے وہ بھی ممکن ہی ہوتی ہے مَحال نہیں ہوتی لہٰذا دیدارِ الٰہی جس کو پہاڑ کے ثابت رہنے پر معلّق فرمایا گیا وہ ممکن ہوا تو ان کا قول باطِل ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کا دیدار مَحال بتاتے ہیں۔
۲۶۷۔ توریت کی جو سات یا دس تھیں زَبَرجَد کی یا زُمُرّد کی۔
۲۶۸۔ اس کے اَحکام پر عامل ہوں۔
۲۶۹۔ جو آخرت میں ان کا ٹھکانا ہے۔ حَسن و عطا نے کہا کہ بے حُکموں کے گھر سے جہنّم مراد ہے۔ قَتادہ کا قول ہے کہ معنیٰ یہ ہیں کہ میں تمہیں شام میں داخل کروں گا اور گزری ہوئی اُمّتوں کے منازِل دکھاؤں گا جنہوں نے اللّٰہ کی مخالَفت کی تاکہ تمہیں اس سے عبرت حاصل ہو۔ عطیہ عوفی کا قول ہے کہ دار الفاسقین سے فرعون اور اس کی قوم کے مکانات مراد ہیں جو مِصر میں ہیں۔ سدی کا قول ہے کہ اس سے منازلِ کُفّار مراد ہیں۔ کلبی نے کہا کہ عاد و ثمود اور ہلاک شدہ اُمّتوں کے منازِل مراد ہیں جن پر عرب کے لوگ اپنے سفروں میں ہو کر گزرا کرتے تھے۔
۲۷۰۔ ذوالنون قُدِّسَ سِرُّہٗ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ حکمتِ قرآن سے اہلِ باطل کے قُلوب کا اکرام نہیں فرماتا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا مراد یہ ہے کہ جو لوگ میرے بندوں پر تَجبُّر کرتے ہیں اور میرے اولیاء سے لڑتے ہیں میں انہیں اپنی آیتوں کے قبول اور تصدیق سے پھیر دوں گا تاکہ وہ مجھ پر ایمان نہ لائیں یہ ان کے عناد کی سزا ہے کہ انہیں ہدایت سے محروم کیا گیا۔
۲۷۱۔ یہی تَکبُّر کا ثمرہ، مُتَکبِّر کا انجام ہے۔
۲۷۲۔ طور کی طرف اپنے ربّ کی مُناجات کے لئے جانے کے۔
۲۷۳۔ جو انہوں نے قومِ فرعون سے اپنی عید کے لئے عارِیَت لئے تھے۔
۲۷۴۔ اور اس کے مُنہ میں حضرت جبریل کے گھوڑے کے قدم کے نیچے کی خاک ڈالی جس کے اثر سے وہ۔
۲۷۵۔ ناقِص ہے، عاجِز ہے، جَماد ہے یا حیوان، دونوں تقدیروں پر صلاحیّت نہیں رکھتا کہ پُوجا جائے۔
۲۷۶۔ کہ انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت سے اِعراض کیا اور ایسے عاجِز و ناقِص بَچھڑے کو پُوجا۔
۲۷۷۔ اپنے ربّ کی مُناجات سے مشرّف ہو کر طور سے۔
۲۷۸۔ اس لئے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو خبر دے دی تھی کہ سامری نے ان کی قوم کو گمراہ کر دیا۔
۲۷۹۔ کہ لوگوں کو بَچھڑا پُوجنے سے نہ روکا۔
۲۸۰۔ اور میرے توریت لے کر آنے کا انتظار نہ کیا۔
۲۸۱۔ توریت کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے۔
۲۸۲۔ کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اپنی قوم کا ایسی بدترین معصیّت میں مبتلا ہونا نہایت شاق اور گِراں ہوا، تب حضرت ہارون علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے۔
۲۸۳۔ میں نے قوم کو روکنے اور انکو وَعظ و نصیحت کرنے میں کمی نہیں کی لیکن۔
۲۸۴۔ اور میرے ساتھ ایسا سُلوک نہ کرو جس سے وہ خوش ہوں۔
۲۸۵۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنے بھائی کا عُذر قبول کر کے بارگاہِ الٰہی میں۔
۲۸۶۔ اگر ہم میں سے کسی سے کوئی اِفراط یا تفریط ہو گئی۔ یہ دعا آپ نے بھائی کو راضی کرنے اور اَعدا کی شَماتَت رفع کرنے کے لئے فرمائی۔
۲۸۷۔ مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ گناہ خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ جب بندہ ان سے توبہ کرتا ہے تو اللّٰہ تبارَک و تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے ان سب کو معاف فرماتا ہے۔
۲۸۸۔ کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ساتھ اللّٰہ کے حضور حاضر ہو کر قوم کی گوسالہ پرستی کی عُذر خواہی کریں چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام انہیں لے کر حاضر ہوئے۔
۲۸۹۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ زلزلہ میں مبتلا ہونے کا سبب یہ تھا کہ قوم نے جب بچھڑا قائم کیا تھا یہ ان سے جدا نہ ہوئے تھے۔ (خازن)۔
۲۹۰۔ یعنی مِیقات میں حاضر ہونے سے پہلے تاکہ بنی اسرائیل ان سب کی ہلاکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے اور انہیں مجھ پر قتل کی تہمت لگانے کا موقع نہ ملتا۔
۲۹۱۔ یعنی ہمیں ہلاک نہ کر اور اپنا لطف و کرم فرما۔
۲۹۲۔ اور ہمیں توفیقِ طاعت مَرحمت فرما۔
۲۹۳۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے۔
۲۹۴۔ مجھے اختیار ہے سب میرے مَملوک اور بندے ہیں کسی کو مجالِ اعتراض نہیں۔
۲۹۵۔ دنیا میں نیک اور بد سب کو پہنچتی ہے۔
۲۹۷۔ یہاں رسول سے بہ اجماع مفسِّرین سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و سلم مراد ہیں۔ آپ کا ذکر وصفِ رسالت سے فرمایا گیا کیونکہ آپ اللّٰہ اور اس کے مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں۔ فرائضِ رسالت ادا فرماتے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ کے اوامِر و نہی و شرائِع و اَحکام اس کے بندوں کو پہنچاتے ہیں، اس کے بعد آپ کی توصیف میں نبی فرمایا گیا اس کا ترجمہ حضرت مُتَرجِم قُدِّسَ سِرُّہ نے (غیب کی خبریں دینے والے ) کیا ہے اور یہ نہایت ہی صحیح ترجمہ ہے کیونکہ نَبَاْ خبر کو کہتے ہیں جو مفیدِ علم ہو اور شائبۂ کِذب سے خالی ہو۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ اس معنیٰ میں بکثرت مستعمل ہوا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا قُلْ ھُوَ نَبَؤُ عَظِیمٌ ایک جگہ فرمایا تِلْکَ مِنْ اَنْبَآئے الْغَیْبِ نُوْحِیْھَآ اِلَیْکَ ایک جگہ فرمایا فَلَمَّا اَنْبَأَھُمْ بِاَسْمَآئے ھِمْ اور بکثرت آیات میں یہ لفظ اس معنیٰ میں وارد ہوا ہے پھر یہ لفظ یا فاعِل کے معنیٰ میں ہو گا یا مفعول کے معنیٰ میں، پہلی صورت میں اس کے معنیٰ غیب کی خبریں دینے والے اور دوسری صورت میں اس کے معنیٰ ہوں گے غیب کی خبریں دیئے ہوئے اور دونوں معنیٰ کو قرآنِ کریم سے تائید پہنچتی ہے۔ پہلے معنیٰ کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے نَبِّیءْ عِبَادِیْ دوسری آیت میں فرمایا قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ اور اسی قبیل سے ہے حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ارشاد جو قرآنِ کریم میں وارِد ہوا اُنَبِّئُکُمْ بِمَا تَاْکُلُوْنَ وَمَا تَدَّ خِرُوْنَ اور دوسری صورت کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے۔ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ اور حقیقت میں انبیاء علیہم السلام غیب کی خبریں دینے والے ہی ہوتے ہیں۔ تفسیرِ خازن میں ہے کہ آپ کے وصف میں نبی فرمایا کیونکہ نبی ہونا اعلیٰ اور اشرف مراتب میں سے ہے اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ اللّٰہ کے نزدیک بہت بلند درجے رکھنے والے اور اس کی طرف سے خبر دینے والے ہیں۔ اُمِّی کا ترجمہ حضرت متَرجِم قُدِّسَ سِرُّہ نے (بے پڑھے ) فرمایا یہ ترجمہ بالکل حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما کے ارشاد کے مطابق ہے اور یقیناً اُمِّی ہونا آپ کے معجزات میں سے ایک معجِزہ ہے کہ دنیا میں کسی سے پڑھا نہیں اور کتاب وہ لائے جس میں اوّلین و آخرین اور غیبوں کے علوم ہیں۔ (خازن) خاکی وبَر اُوج عرش منزل، اُمِّی و کتاب خانہ در دِل دیگر : اُمِّی و دقیقہ دان عالَم، بے سایہ و سائبان عالَم صلوٰۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسَلَامُہ۔
۲۹۸۔ یعنی توریت و انجیل میں آپ کی نعت و صفت و نبوّت لکھی پائیں گے۔ حدیث : حضرت عطاء ابنِ یسار نے حضرت عبداللّٰہ بن عَمرو رضی اللّٰہ عنہ سے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے وہ اوصاف دریافت کئے جو توریت میں مذکور ہیں انہوں نے فرمایا کہ حضور کے جو اوصاف قرآنِ کریم میں آئے ہیں انہیں میں کے بعض اوصاف توریت میں مذکور ہیں، اس کے بعد انہوں نے پڑھنا شروع کیا اے نبی ہم نے تمہیں بھیجا شاہِد و مبشِّر اور نذیر اور اُمّیّوں کا نگہبان بنا کر۔ تم میرے بندے اور میرے رسول ہو میں نے تمہارا نام مُتوَکِّل رکھا، نہ بد خُلق ہو نہ سخت مزاج، نہ بازاروں میں آواز بلند کرنے والے، نہ بُرائی سے بُرائی کو دفع کرو لیکن خطا کاروں کو معاف کرتے ہو اور ان پر احسان فرماتے ہو، اللّٰہ تعالیٰ تمہیں نہ اُٹھائے گا جب تک کہ تمہاری برکت سے غیر مُستقیم مِلّت کو اس طرح راست نہ فرماوے کہ لوگ صِدق و یقین کے ساتھ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پکارنے لگیں اور تمہاری بدولت اندھی آنکھیں بینا اور بہرے کان شُنوا اور پردوں میں لپٹے ہوئے دل کشادہ ہو جائیں اور حضرت کعب اَحبار سے حضور کی صفات میں توریت شریف کا یہ مضمون بھی منقول ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کی صفت میں فرمایا کہ میں انہیں ہر خوبی کے قابِل کروں گا، اور ہر خُلقِ کریم عطا فرماؤں گا اور اطمینانِ قلب و وقار کو ان کا لباس بناؤں گا اور طاعات و اِ حسان کو ان کا شعار کروں گا اور تقویٰ کو ان کا ضمیر اور حکمت کو ان کا راز اور صدق و وفا کو ان کی طبیعت اور عفو و کرم کو ان کی عادت اور عدل کو ان کی سیرت اور اظہارِ حق کو ان کی شریعت اور ہدایت کو ان کا اِمام اور اسلام کو ان کی مِلّت بناؤں گا۔ اَحمد انکا نام ہے، خَلق کو ان کے صدقے میں گمراہی کے بعد ہدایت اور جہالت کے بعد علم و معرِفت اور گمنامی کے بعد رِفعت و منزِلت عطا کروں گا اور انہیں کی برکت سے قِلّت کے بعد کثرت اور فقر کے بعد دولت اور تفرُّقے کے بعد مَحبت عنایت کروں گا، انہیں کی بدولت مختلف قبائل غیر مُجتمع خواہشوں اور اختلاف رکھنے والے دلوں میں اُلفت پیدا کروں گا اور ان کی اُمّت کو تمام اُمّتوں سے بہتر کروں گا۔ ایک اور حدیث میں توریت شریف سے حضور کے یہ اوصاف منقول ہیں میرے بندے احمدِ مختار، انکا جائے ولادت مکّۂ مکرّمہ اور جائے ہجرت مدینہ طیّبہ ہے، ان کی اُمّت ہر حال میں اللّٰہ کی کثیر حمد کرنے والی ہے۔ یہ چند نقول احادیث سے پیش کئے گئے، کُتُبِ اِلٰہیہ حضور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی نعت و صِفَت سے بھری ہوئی تھیں۔ اہلِ کتاب ہر قَرن میں اپنی کتابوں میں تراش خراش کرتے رہے اور ان کی بڑی کوشِش اس پر مسلّط رہی کہ حضور کا ذکر اپنی کتابوں میں نام کو نہ چھوڑیں۔ توریت انجیل وغیرہ ان کے ہاتھ میں تھیں اس لئے انہیں اس میں کچھ دشواری نہ تھی لیکن ہزاروں تبدیلیں کرنے کے بعد بھی موجودہ زمانہ کی بائیبل میں حضور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی بِشارت کا کچھ نہ کچھ نشان باقی رہ ہی گیا۔ چنانچہ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور ۱۹۳۱ء کی چھپی ہوئی بائیبل میں یوحنّا کی انجیل کے باب چودہ کی سولھویں آیت میں ہے۔ اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔ لفظِ مددگار پر حاشیہ ہے اس میں اس کے معنیٰ وکیل یا شفیع لکھے تو اب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بعد ایسا آنے والا جو شفیع ہو اور ابد تک رہے یعنی اس کا دین کبھی منسوخ نہ ہو بجُز سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے کون ہے پھر اُنتیسویں تیسویں آیت میں ہے۔ اور اب میں نے تم سے اس کے ہونے سے پہلے کہہ دیا ہے تاکہ جب ہو جائے تو تم یقین کرو اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں کیسی صاف بِشارت ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی اُمّت کو حضور کی ولادت کا کیسا منتظِر بنایا اور شوق دلایا ہے اور دنیا کا سردار خاص سیدِ عالَم کا ترجمہ ہے اور یہ فرمانا کہ مجھ میں اس کا کچھ نہیں حضور کی عظمت کا اظہار اور اس کے حضور اپنا کمالِ ادب و انکسار ہے پھر اسی کتاب کے باب سولہ کی ساتویں آیت ہے۔ لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا اس میں حضور کی بشارت کے ساتھ اس کا بھی صاف اظہار ہے کہ حضور خاتَم الانبیاء ہیں، آپ کا ظہور جب ہی ہو گا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تشریف لے جائیں۔ اس کی تیرھویں آیت ہے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا اس آیت میں بتایا گیا کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی آمد پر دینِ الٰہی کی تکمیل ہو جائے گی اور آپ سچائی کی راہ یعنی دینِ حق کو مکمّل کر دیں گے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا اور یہ کلمہ کہ اپنی طرف سے نہ کہے گا جو کچھ سنے گا وہی کہے گا خاص مَایَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ اِنْ ھُوَ اِلَّاوَحْیٌ یُّوْحیٰ کا ترجمہ ہے اور یہ جملہ کہ تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا اس میں صاف بیان ہے کہ وہ نبیِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ و سلم غیبی علوم تعلیم فرمائیں گے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا۔ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ اور مَاھُوَعَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ۔
۲۹۹۔ یعنی سخت تکلیفیں جیسے کہ توبہ میں اپنے آپ کو قتل کرنا اور جن اعضاء سے گناہ صادِر ہوں ان کو کاٹ ڈالنا۔
ٍ۳۰۰۔ یعنی احکامِ شاقّہ جیسے کہ بدن اور کپڑے کے جس مقام کو نَجاست لگے اس کو قینچی سے کاٹ ڈالنا اور غنیمتوں کو جلانا اور گناہوں کا مکانوں کے دروازوں پر ظاہر ہونا وغیرہ۔
ٍ۳۰۱۔ یعنی محمّدِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و سلم پر۔
ٍ۳۰۲۔ اس نُور سے قرآن شریف مراد ہے جس سے مومن کا دل روشن ہوتا ہے اور شک و جہالت کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں اور علم و یقین کی ضیاء پھیلتی ہے۔
ٍ۳۰۳۔ یہ آیت سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے عُمومِ رسالت کی دلیل ہے کہ آپ تمام خَلق کے رسول ہیں اور کُل جہاں آپ کی اُمّت۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے حضور فرماتے ہیں پانچ چیزیں مجھے ایسی عطا ہوئیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملیں۔ (۱) ہر نبی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں سُرخ و سیاہ کی طرف مبعوث فرمایا گیا۔ (۲) میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں اور مجھ سے پہلے کسی کے لئے نہیں ہوئی تھیں۔ (۳) میرے لئے زمین پاک اور پاک کرنے والی (قابلِ تَیَمُّم) اور مسجد کی گئی جس کسی کو کہیں نماز کا وقت آئے وہیں پڑھ لے۔ (۴) دشمن پر ایک ماہ کی مَسافت تک میرا رُعب ڈال کر میری مدد فرمائی گئی۔ (۵) اور مجھے شفاعت عنایت کی گئی۔ مسلم شریف کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ میں تمام خَلق کی طرف رسول بنایا گیا اور میرے ساتھ انبیاء ختم کئے گئے۔
ٍ۳۰۶۔ ہر گروہ کے لئے ایک چشمہ۔
ٍ۳۰۷۔ تاکہ دھوپ سے امن میں رہیں۔
ٍ۳۱۱۔ یعنی حکم تو تھا کہ حِطَّۃُ کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوں، حطۃ توبہ اور استغفار کا کلمہ ہے لیکن وہ بجائے اس کے براہِ تمسخُر حنطۃ فی شعیرۃ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔
ٍ۳۱۲۔ یعنی عذاب بھیجنے کا سبب ان کا ظلم اور حکمِ الٰہی کی مخالفت کرنا ہے۔
ٍ۳۱ٍ۳۔ حضرت نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو خِطاب ہے کہ آپ اپنے قریب رہنے والے یہود سے تَو بِیخاً اس بستی والوں کا حال دریافت فرمائیں۔ مقصود اس سوال سے یہ تھا کہ کُفّار پر ظاہر کر دیا جائے کہ کُفر و معصیت ان کا قدیمی دستور ہے، سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی نبوّت اور حضور کے معجزات کا انکار کرنا یہ ان کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے ان کے پہلے بھی کُفر پر مُصِر رہے ہیں، اس کے بعد ان کے اَسلاف کا حال بیان فرمایا کہ وہ حکمِ الٰہی کی مخالفت کے سبب بندروں اور سُوروں کی شکل میں مسخ کر دیئے گئے۔ اس بستی میں اختلاف ہے کہ وہ کون تھی۔ حضرتِ ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ وہ ایک قَریہ مِصر و مدینہ کے درمیان ہے، ایک قول ہے کہ مدین و طور کے درمیان، زُہری نے کہا کہ وہ قَریہ طبریہ شام ہے اور حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما کی ایک روایت میں ہے کہ وہ مَدْیَنْ ہے، بعض نے کہا اِیلہ ہے واللّٰہ تعالیٰ اعلم۔
ٍ۳۱۴۔ کہ باوجود ممانعت کے ہفتے کے روز شکار کرتے۔ اس بستی کے لوگ تین گروہ میں منقسم ہو گئے تھے، ایک تہائی ایسے لوگ تھے جو شکار سے باز رہے اور شکار کرنے والوں کو منع کرتے تھے اور ایک تہائی خاموش تھے دوسروں کو منع نہ کرتے تھے اور منع کرنے والوں سے کہتے تھے ایسی قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللّٰہ ہلاک کرنے والا ہے اور ایک گروہ وہ خطا کار لوگ تھے جنہوں نے حکمِ الٰہی کی مخالفت کی اور شکار کیا اور کھایا اور بیچا اور جب وہ اس معصیّت سے باز نہ آئے تو منع کرنے والے گروہ نے کہا کہ ہم تمہارے ساتھ بُود و باش نہ رکھیں گے اور گاؤں کو تقسیم کر کے درمیان میں ایک دیوار کھینچ دی، منع کرنے والوں کا ایک دروازہ الگ تھا جس سے آتے جاتے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے خطا کاروں پر لعنت کی، ایک روز منع کرنے والوں نے دیکھا کہ خطا کاروں میں سے کوئی نہیں نکلا تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید آج شراب کے نشہ میں مدہوش ہو گئے ہوں گے انہیں دیکھنے کے لئے دیوار پر چڑھے تو دیکھا کہ وہ بندروں کی صورتوں میں مسخ ہو گئے تھے اب یہ لوگ دروازہ کھول کر داخل ہوئے تو وہ بندر اپنے رشتہ داروں کو پہچانتے تھے اور ان کے پاس آ کر ان کے کپڑے سونگھتے تھے اور یہ لوگ ان بندر ہو جانے والوں کو نہیں پہچانتے تھے، ان لوگوں نے ان سے کہا کیا ہم لوگوں نے تم سے منع نہیں کیا تھا انہوں نے سَر کے اشارے سے کہا ہاں اور وہ سب ہلاک ہو گئے اور منع کرنے والے سلامت رہے۔
ٍ۳۱۵۔ تاکہ ہم پر نہی عنِ المنکَر ترک کرنے کا اِلزام نہ رہے۔
ٍ۳۱۶۔ اور وہ نصیحت سے نفع اُٹھا سکیں۔
ٍ۳۱۷۔ وہ بندر ہو گئے اور تین روز اسی حال میں مبتلا رہ کر ہلاک ہو گئے۔
ٍ۳۱۹۔ چنانچہ ان پر اللّٰہ تعالیٰ نے بختِ نصر اور سنجاریب اور شاہانِ روم کو بھیجا جنہوں نے انہیں سخت ایذائیں اور تکلیفیں دیں اور قیامت تک کے لئے ان پر جِزیہ اور ذِلّت لازم ہوئی۔
ٍ۳۲۰۔ انکے لئے جو کُفر پر قائم رہیں۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ ان پر عذاب مُستَمِر رہے گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
ٍ۳۲۱۔ ان کو جو اللّٰہ کی اطاعت کریں اورا یمان لائیں۔
ٍ۳۲۲۔ جو اللّٰہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم پر ا یمان لائے اور دین پر ثابت رہے۔
ٍ۳۲ٍ۳۔ جنہوں نے نافرمانی کی اور جنہوں نے کُفر کیا اور دین کو بدلا اور مُتغیَّر کیا۔
ٍ۳۲۴۔ بھلائیوں سے نعمت و راحت اور بُرائیوں سے شدّت و تکلیف مراد ہے۔
۳۲۵۔ جن کی دو قسمیں بیان فرمائی گئیں۔
ٍ۳۲۶۔ یعنی توریت کے جو انہوں نے اپنے اَسلاف سے پائی اور اس کے اوامِر و نواہی اور تحلیل و تحریم وغیرہ مضامین پر مطّلع ہوئے۔ مدارک میں ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے زمانہ میں تھے ان کی حالت یہ ہے کہ۔
ٍ۳۲۷۔ بطورِ رشوت کے احکام کی تبدیل اور کلام کی تغیِیر پر اور و ہ جانتے بھی ہیں کہ یہ حرام ہے لیکن پھر بھی اس گناہِ عظیم پر مُصِر ہیں۔
ٍ۳۲۸۔ اور ان گناہوں پر ہم سے کچھ مؤاخَذہ نہ ہو گا۔
ٍ۳۲۹۔ اور آئندہ بھی گناہ کرتے چلے جائیں۔ سدی نے کہا کہ بنی اسرائیل میں کوئی قاضی ایسا نہ ہوتا تھا جو رشوت نہ لے جب اس سے کہا جاتا تھا کہ تم رشوت لیتے ہو تو کہتا تھا کہ یہ گناہ بخش دیا جائے گا، اس کے زمانہ میں دوسرے اس پر طعن کرتے تھے لیکن جب وہ مر جاتا یا معزول کر دیا جاتا اور وہی طعن کرنے والے اس کی جگہ حاکِم و قاضی ہوتے تو وہ بھی اسی طرح رشوت لیتے۔
ٍ۳ٍ۳۰۔ لیکن باوجود اس کے انہوں نے اس کے خلاف کیا۔ توریت میں گناہ پر اصرار کرنے والے کے لئے مغفرت کا وعدہ نہ تھا تو ان کا گناہ کئے جانا، توبہ نہ کرنا اور اس پر یہ کہنا کہ ہم سے مؤاخذہ نہ ہو گا یہ اللّٰہ پر افترا ہے۔
ٍ۳ٍ۳۱۔ جو اللّٰہ کے عذاب سے ڈریں اور رشوت و حرام سے بچیں اور اس کی فرمانبرداری کریں۔
۳ٍ۳۲۔ اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں اور اس کے تمام احکام کو مانتے ہیں اور اس میں تغیِیر و تبدیل روا نہیں رکھتے۔ شانِ نُزول : یہ آیت اہلِ کتاب میں سے حضرت عبداللّٰہ بن سلام وغیرہ ایسے اصحاب کے حق میں نازِل ہوئی جنہوں نے پہلی کتاب کا اِتّباع کیا اور اس کی تحریف نہ کی، اس کے مضامین کو نہ چھپایا اور اس کتاب کے اِتّباع کی بدولت انہیں قرآنِ پاک پر ا یمان نصیب ہوا۔ (خازن و مدارک)۔
ٍ۳ٍ۳ٍ۳۔ جب بنی اسرائیل نے تکالیفِ شاقّہ کی وجہ سے احکامِ توریت کو قبول کرنے سے انکار کیا تو حضرت جبریل نے بحکمِ الٰہی ایک پہاڑ جس کی مقدار ان کے لشکر کے برابر ایک فرسنگ طویل، ایک فرسنگ عریض تھی اُٹھا کر سائبان کی طرح ان کے سرداروں کے قریب کر دیا اور ان سے کہا گیا کہ احکامِ توریت قبول کرو ورنہ یہ تم پر گرا دیا جائے گا۔ پہاڑ کو سروں پر دیکھ کر سب کے سب سجدے میں کر گر گئے مگر اس طرح کے بایاں رخسارہ و ابرو تو انہوں نے سجدے میں رکھ دی ا ور داہنی آنکھ سے پہاڑ کو دیکھتے رہے کہ کہیں گر نہ پڑے چنانچہ اب تک یہودیوں کے سجدے کی یہی شان ہے۔
ٍ۳ٍ۳۵۔ حدیث شریف میں ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذُرِّیَّت نکالی ا ور ان سے عہد لیا۔ آیات و حدیث دونوں پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذُرِّیَّت نکالنا اس سلسلہ کے ساتھ تھا جس طرح کہ دنیا میں ایک دوسرے سے پیدا ہوں گے اور انکے لئے ربوبیت اور وحدانیت کے دلائل قائم فرما کر اور عقل دے کر ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت طلب فرمائی۔
ٍ۳ٍ۳۶۔ اپنے اوپر اور ہم نے تیری ربوبیت اور وحدانیت کا اقرار کیا، یہ شاہِد کرنا اس لئے ہے۔
ٍ۳ٍ۳۷۔ ہمیں کوئی تنبیہ نہیں کی گئی تھی۔
ٍ۳ٍ۳۸۔ جیسا انہیں دیکھا ان کے اِتّباع و اقتداء میں ویسا ہی کرتے رہے۔
ٍ۳ٍ۳۹۔ یہ عذر کرنے کا موقع نہ رہا جب کہ ان سے عہد لے لیا گیا اور ان کے پاس رسول آئے اور انہوں نے اس عہد کو یاد دلایا اور توحید پر دلائل قائم ہوئے۔
ٍ۳۴۰۔ تاکہ بندے تدبُّر و تفکُّر کر کے حق و ا یمان قبول کریں۔
ٍ۳۴۱۔ شرک و کُفر سے توحید و ا یمان کی طرف اور نبی صاحبِ معجزات کے بتانے سے اپنے عہدِ میثاق کو یاد کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔
۳۴۲۔ یعنی بلعم باعور جس کا واقعہ مفسِّرین نے اس طرح بیان کیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جبّارین سے جنگ کا قصد کیا اور سر زمینِ شام میں نُزول فرمایا تو بلعم باعور کی قوم اس کے پاس آئی اور اس سے کہنے لگی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت تیز مزاج ہیں اور ان کے ساتھ کثیر لشکر ہے وہ یہاں آئے ہیں ہمیں ہمارے بلاد سے نکالیں گے اور قتل کریں گے اور بجائے ہمارے بنی اسرائیل کو اس سر زمین میں آباد کریں گے، تیرے پاس اسمِ اعظم ہے اور تیری دعا قبول ہوتی ہے تو نکل اور اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کر اللّٰہ تعالیٰ انہیں یہاں سے ہٹا دے۔ بلعم باعور نے کہا تمہارا بُرا ہو حضرت مُوسیٰ علیہ السلام نبی ہیں اور ان کے ساتھ فرشتے ہیں اور ا یمان دار لوگ ہیں، میں کیسے ان پر دعا کروں ؟ میں جانتا ہوں جو اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا مرتبہ ہے اگر میں ایسا کروں تو میری دنیا و آخرت برباد ہو جائے گی مگر قوم اس سے اصرار کرتی رہی اور بہت اِلحاح و زاری کے ساتھ انہوں نے اپنا یہ سوال جاری رکھا تو بلعم باعور نے کہا کہ میں اپنے ربّ کی مرضی معلوم کر لوں اور اس کا یہی طریقہ تھا کہ جب کبھی کوئی دعا کرتا پہلے مرضی الٰہی معلوم کر لیتا اور خواب میں اس کا جواب مل جاتا چنانچہ اس مرتبہ بھی اس کو یہی جواب ملا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ہمراہیوں کے خلاف دعا نہ کرنا، اس نے قوم سے کہہ دیا کہ میں نے اپنے ربّ سے اجازت چاہی تھی مگر میرے ربّ نے ان پر دعا کرنے کی مُمانعت فرما دی تب قوم نے اس کو ہدیئے اور نذرانے دیئے جو اس نے قبول کئے اور قوم نے اپنا سوال جاری رکھا تو پھر دوسری مرتبہ بلعم باعور نے ربّ تبارَک و تعالیٰ سے اجازت چاہی اس کا کچھ جواب نہ ملا، اس نے قوم سے کہہ دیا کہ مجھے اس مرتبہ کچھ جواب ہی نہ ملا قوم کے لوگ کہنے لگے کہ اگر اللّٰہ کو منظور نہ ہوتا تو وہ پہلے کی طرح دوبارہ بھی منع فرماتا اور قوم کا اِلحاح و اصرار اور بھی زیادہ ہوا حتیٰ کہ انہوں نے اس کو فتنہ میں ڈال دیا اور آخر کار وہ بددعا کرنے کے لئے پہاڑ پر چڑھا تو جو بددعا کرتا اللّٰہ تعالیٰ اس کی زبان کو اس کی قوم کی طرف پھیر دیتا تھا اور اپنی قوم کے لئے جو دعائے خیر کرتا تھا بجائے قوم کے بنی اسرائیل کا نام اس کی زبان پر آتا تھا۔ قوم نے کہا اے بلعم یہ کیا کر رہا ہے ؟ بنی اسرائیل کے لئے دعا کرتا ہے ہمارے لئے بددعا، کہا یہ میرے اختیار کی بات نہیں، میری زبان میرے قبضہ میں نہیں ہے اور اس کی زبان باہر نکل پڑی تو اس نے اپنی قوم سے کہا میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہو گئیں۔ اس آیت میں اس کا بیان ہے۔
ٍ۳۴۳۔ اور ان کا اِتّباع نہ کیا۔
۳۴۴۔ اور بلند درجہ عطا فرما کر اَبرار کی منازِل میں پہنچاتے۔
ٍ۳۴۵۔ اور دنیا کا مَفتوں ہو گیا۔
ٍ۳۴۶۔ یہ ایک ذلیل جانور کے ساتھ تشبیہ ہے کہ دنیا کی حِرص رکھنے والا اگر اس کو نصیحت کرو تو مفید نہیں , مبتلائے حرص رہتا ہے، چھوڑ دو تو اسی حرص کا گرفتار۔ جس طرح زبان نکالنا کُتّے کی لازمی طبیعت ہے ایسی ہی حرص ان کے لئے لازم ہو گئی ہے۔
۳۴۷۔ یعنی کُفّار جو آیاتِ الٰہیہ میں تدبّر سے اِعراض کرتے ہیں، ان کا کافِر ہونا اللّٰہ کے علمِ ازلی میں ہے۔
ٍ۳۴۸۔ یعنی حق سے اعراض کر کے آیاتِ الٰہیہ بھی تدبّر کرنے سے محروم ہو گئے اور یہی دل کا خاص کام تھا۔
ٍ۳۴۹۔ راہِ حق و ہدایت اور آیاتِ الٰہیہ اور دلائلِ توحید۔
ٍ۳۵۰۔ موعِظت و نصیحت کو بگوش قبول اور باوجود قلب و حواس رکھنے کے وہ امورِ دین میں ان سے نفع نہیں اٹھاتے لہٰذا۔
ٍ۳۵۱۔ کہ اپنے قلب و حواس سے مَدارکِ علمیّہ و معارِفِ ربّانیّہ کا اِدراک نہیں کرتے ہیں۔ کھانے پینے کے دُنیوی کاموں میں تمام حیوانات بھی اپنے حواس سے کام لیتے ہیں، انسان بھی اتنا ہی کرتا رہا تو اس کو بہائِم پر کیا فضیلت۔
ٍ۳۵۲۔ کیونکہ چوپایہ بھی اپنے نفع کی طرف بڑھتا ہے اور ضَرر سے بچتا اور اس سے پیچھے ہٹتا ہے اور کافِر جہنّم کی راہ پر چل کر اپنا ضَرر اختیار کرتا ہے تو اس سے بدتر ہوا۔ آدمی روحانی، شہوانی، سماوی، ارضی ہے جب اس کی روح شہوات پر غالب ہو جاتی ہے تو ملائکہ سے فائِق ہو جاتا ہے اور جب شہوات روح پر غلبہ پا جاتی ہیں تو زمین کے جانوروں سے بدتر ہو جاتا ہے۔
۳۵۳۔ حدیث شریف میں ہے اللّٰہ تعالیٰ کے ننانوے نام جس کسی نے یاد کر لئے جنّتی ہوا۔ عُلَماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اسمائے اِلٰہیہ ننانوے میں منحصَر نہیں ہیں۔ حدیث کا مقصود صرف یہ ہے کہ اتنے ناموں کے یاد کرنے سے انسان جنّتی ہو جاتا ہے۔ شانِ نُزول : ابو جہل نے کہا تھا کہ محمّد (مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ) کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ ایک پروردگار کی عبادت کرتے ہیں پھر وہ اللّٰہ اور رحمٰن دو کو کیوں پکارتے ہیں ؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور اس جاہِل بے خِرَد کو بتایا گیا کہ معبود تو ایک ہی ہے نام اس کے بہت ہیں۔
ٍ۳۵۴۔ اس کے ناموں میں حق و استِقامت سے نکلنا کئی طرح پر ہے۔ مسائل : ایک تو یہ کہ اس کے ناموں کو کچھ بگاڑ کر غیروں پر اِطلاق کرنا جیسے کہ مشرکین نے اِلٰہ کا لات اور عزیز کا عُزّیٰ اور منان کا منات کر کے اپنے بُتوں کے نام رکھے تھے، یہ ناموں میں حق سے تجاوز اور ناجائز ہے، دوسرے یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ایسا نام مقرّر کیا جائے جو قرآن و حدیث میں نہ آیا ہو یہ بھی جائز نہیں جیسے کہ سخی یا رفیق کہنا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے اسماء توقیفیہ ہیں۔ تیسرے حسنِ ادب کی رعایت کرنا تو فقط یا ضار، یا مانِع، یا خالِق القِردۃ کہنا جائز نہیں بلکہ دوسرے اسماء کے ساتھ ملا کر کہا جائے گا یا ضار، یا نافِع اور یا مُعطی، یا خالِقَ الخَلق۔ چوتھے یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے کوئی ایسا نام مقرّر کیا جائے جس کے معنیٰ فاسِد ہوں یہ بھی بہت سخت ناجائز ہے جیسے کہ لفظ رام اور پرماتما وغیرہ۔ پنجم ایسے اسماء کا اطلاق جن کے معنیٰ معلوم نہیں ہیں اور یہ نہیں جانا جا سکتا کہ وہ جلالِ الٰہی کے لائق ہیں یا نہیں۔
ٍ۳۵۵۔ یہ گروہ حق پژوہ عُلَماء اور ہادیانِ دین کا ہے۔ اس آیت سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ ہر زمانہ کے اہلِ حق کا اِجماع حُجّت ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی زمانہ حق پرستوں اور دین کے ہادیوں سے خالی نہ ہو گا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ ایک گروہ میری اُمّت کا تا قیامت دینِ حق پر قائم رہے گا اس کو کسی کی عداوت و مخالفت ضَرر نہ پہنچا سکے گی۔
ٍ۳۵۹۔ شانِ نُزول : جب نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے کوہِ صفا پر چڑھ کر شب کے وقت قبیلہ قبیلہ کو پکارا اور فرمایا کہ میں تمہیں عذابِ الٰہی سے ڈرانے والا ہوں اور آپ نے انہیں اللّٰہ کا خوف دلایا اور پیش آنے والے حوادِث کا ذکر کیا تو ان میں سے کسی نے آپ کی طرف جُنون کی نسبت کی۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کیا انہوں نے فِکر و تامُّل سے کام نہ لیا اور عاقِبت اندیشی و دور بینا بالکل بالائے طاق رکھ دی اور یہ دیکھ کر کہ سید الانبیاء صلی اللّٰہ علیہ و سلم اقوال و افعال میں ان کے مخالِف ہیں اور دنیا اور اس کی لذّتوں سے آپ نے مُنہ پھیر لیا ہے، آخرت کی طرف متوجہ ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور اس کا خوف دلانے میں شب و روز مشغول ہیں۔ ان لوگوں نے آپ کی طرف جُنون کی نسبت کر دی یہ ان کی غلطی ہے۔
ٍ۳۶۰۔ ان سب میں اس کی وحدانیت اور کمالِ حکمت و قدرت کی روشن دلیلیں ہیں۔
ٍ۳۶۱۔ اور وہ کُفر پر مر جائیں اور ہمیشہ کے لئے جہنّمی ہو جائیں۔ ایسے حال میں عاقِل پر ضروری ہے کہ وہ سوچے سمجھے دلائل پر نظر کرے۔
ٍ۳۶۲۔ یعنی قرآنِ پاک کے بعد اور کوئی کتاب اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے بعد اور کوئی رسُول آنے والا نہیں جس کا انتظار ہو کیونکہ آپ خاتَم الانبیاء ہیں۔
ٍ۳۶۳۔ شانِ نُزول : حضرتِ ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ یہودیوں نے نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے کہا تھا کہ اگر آپ نبی ہیں تو ہمیں بتائیے کہ قیامت کب قائم ہو گی کیونکہ ہمیں اس کا وقت معلوم ہے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی۔
ٍ۳۶۴۔ قیامت کے وقت کا بتانا رسالت کے لوازم سے نہیں ہے جیسا کہ تم نے قرار دیا اور اے یہود تم نے جو اس کا وقت جاننے کا دعویٰ کیا یہ بھی غلط ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو مخفی کیا ہے اور اس میں اس کی حکمت ہے۔
ٍ۳۶۵۔ اس کے اِخفاء کی حکمت تفسیرِ روح البیان میں ہے کہ بعض مشائخ اس طرف گئے ہیں کہ نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو باِعلام الٰہی وقتِ قیامت کا علم ہے اور یہ حَصر آیت کے مُنافی نہیں۔
۳۶۶۔ شانِ نُزول : غزوۂ بنی مُصطلَق سے واپسی کے وقت راہ میں تیز ہو ا چلی چوپائے بھاگے تو نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے خبر دی کہ مدینہ طیبہ میں رفاعہ کا انتقال ہو گیا اور یہ بھی فرمایا کہ دیکھو میرا ناقہ کہاں ہے ؟ عبداللّٰہ بن اُبَیِ منافِق اپنی قوم سے کہنے لگا ان کا کیسا عجیب حال ہے کہ مدینہ میں مرنے والے کی تو خبر دے رہے ہیں اور اپنا ناقہ معلوم ہی نہیں کہ کہاں ہے۔ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم پر اس کا یہ قول بھی مخفی نہ رہا، حضور صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے فرمایا منافِق لوگ ایسا ایسا کہتے ہیں اور میرا ناقہ اس گھاٹی میں ہے اس کی نکیل ایک درخت میں اُلجھ گئی ہے چنانچہ جیسا فرمایا تھا اسی شان سے وہ ناقہ پایا گیا اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی۔ (تفسیر کبیر)۔
ٍ۳۶۷۔ وہ مالکِ حقیقی ہے جو کچھ ہے اس کی عطا سے ہے۔
ٍ۳۶۸۔ یہ کلام براہِ ادب و تواضُع ہے۔ معنیٰ یہ ہیں کہ میں اپنی ذات سے غیب نہیں جانتا، جو جانتا ہوں وہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطلاع اور اس کی عطا سے۔ (خازن ) حضرت مُتَرجِم قُدِّسَ سِرُّہ نے فرمایا بھلائی جمع کرنا اور بُرائی نہ پہنچنا اسی کے اختیار میں ہو سکتا ہے جو ذاتی قدرت رکھے اور ذاتی قدرت وہی رکھے گا جس کا علم بھی ذاتی ہو کیونکہ جس کی ایک صفت ذاتی ہے اس کے تمام صفات ذاتی، تو معنیٰ یہ ہوئے کہ اگر مجھے غیب کا علم ذاتی ہوتا تو قدرت بھی ذاتی ہوتی اور میں بھلائی جمع کر لیتا اور برائی نہ پہنچنے دیتا۔ بھلائی سے مراد راحتیں اور کامیابیاں اور دشمنوں پر غلبہ ہے اور برائیوں سے تنگی و تکلیف اور دشمنوں کا غالب آنا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھلائی سے مراد سرکشوں کا مُطیع اور نافرمانوں کا فرمانبردار اور کافِروں کا مؤمن کر لینا ہو اور بُرائی سے بدبخت لوگوں کا باوجود دعوت کے محروم رہ جانا، تو حاصلِ کلام یہ ہو گا کہ اگر میں نفع و ضَرر کا ذاتی اختیار رکھتا تو اے منافقین و کافِرین تمہیں سب کو مومِن کر ڈالتا اور تمہاری کُفری حالت دیکھنے کی تکلیف مجھے نہ پہنچتی۔
ٍ۳۶۹۔ سنانے والا ہوں کافِروں کو۔
۳۷۰۔ عِکرمہ کا قول ہے کہ اس آیت میں خِطاب عام ہے ہر ایک شخص کو اور معنیٰ یہ ہیں کہ اللّٰہ وہی ہے جس نے تم میں سے ہر ایک کو ایک جان سے یعنی اس کے باپ سے پیدا کیا اور اس کی جِنس سے اس کی بی بی کو بنایا پھر جب وہ دونوں جمع ہوئے اور حمل ظاہر ہوا اور ان دونوں نے تندرست بچہ کی دعا کی اور ایسا بچہ ملنے پر ادائے شکر کا عہد کیا پھر اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں ویسا ہی بچہ عنایت فرمایا۔ ان کی حالت یہ ہوئی کہ کبھی تو وہ اس بچہ کو طبائع کی طرف نسبت کرتے ہیں جیسے دہریوں کا حال ہے، کبھی ستاروں کی طرف جیسا کواکب پرستوں کا طریقہ ہے، کبھی بُتوں کی طرف جیسا بُت پرستوں کا دستور ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ان کے اس شرک سے برتر ہے۔ (کبیر)۔
ٍ۳۷۱۔ یعنی اس کے باپ کی جِنس سے اس کی بی بی بنائی۔
ٍ۳۷۲۔ مرد کا چھانا کنایہ ہے جماع کرنے سے اور ہلکا سا پیٹ رہنا ابتدائے حمل کی حالت کا بیان ہے۔
ٍ۳۷۳۔ بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ اس آیت میں قریش کو خِطاب ہے جو قُصَیْ کی اولاد ہیں۔ ان سے فرمایا گیا کہ تمہیں ایک شخص قُصَی سے پیدا کیا اور اس کی بی بی اسی کی جِنس سے عرَبی قرَشی کی تاکہ اس سے چین و آرام پائے پھر جب ان کی درخواست کے مطابق انہیں تندرست بچہ عنایت کیا تو انہوں نے اللّٰہ کی اس عطا میں دوسروں کو شریک بنایا اور اپنے چاروں بیٹوں کا نام عبد مُناف، عبدالعُزّیٰ، عبد قُصَی اور عبدالدار رکھا۔
ٍ۳۷۴۔ یعنی بُتوں کو جنہوں نے کچھ نہیں بنایا۔
ٍ۳۷۵۔ اس میں بُتوں کی بے قدری اور بُطلانِ شرک کا بیان اور مشرکین کے کمالِ جہل کا اِظہار ہے اور بتایا گیا ہے کہ عبادت کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جو عابِد کو نفع پہنچانے اور ا س کا ضَرر دفع کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔ مشرکین جن بُتوں کو پُوجتے ہیں ان کی بے قدرتی اس درجہ کی ہے کہ وہ کسی چیز کے بنانے والے نہیں، کسی چیز کے بنانے والے تو کیا ہوتے خود اپنی ذات میں دوسرے سے بے نیاز نہیں، آپ مخلوق ہیں، بنانے والے کے محتاج ہیں، اس سے بڑھ کر بے اختیاری یہ ہے کہ وہ کسی کی مدد نہیں کر سکتے اور کسی کی کیا مدد کریں خود انہیں ضَرر پہنچے تو دفع نہیں کر سکتے، کوئی انہیں توڑ دے، گرا دے جو چاہے کرے وہ اس سے اپنی حفاظت نہیں کر سکتے، ایسے مجبور بے اختیار کو پُوجنا انتہا درجہ کا جہل ہے۔
ٍ۳۷۷۔ کیونکہ وہ نہ سُن سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔
ٍ۳۷۸۔ وہ بہرحال عاجِز ہیں ایسے کو پُوجنا اور معبود بنانا بڑی بے خِرَدی ہے۔
۳۷۹۔ اور اللّٰہ کے مملوک و مخلوق، کسی طرح پُوجنے کے قابل نہیں اس پر بھی اگر تم انہیں معبود کہتے ہو ؟۔
ٍ۳۸۰۔ یہ کچھ بھی نہیں تو پھر اپنے سے کمتر کو پُوج کر کیوں ذلیل ہوتے ہو۔
ٍ۳۸۱۔ شانِ نُزول : سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے جب بُت پرستی کی مَذمّت کی اور بُتوں کی عاجزی اور بے اختیاری کا بیان فرمایا تو مشرکین نے دھمکایا اور کہا کہ بُتوں کو بُرا کہنے والے تباہ ہو جاتے ہیں، برباد ہو جاتے ہیں، یہ بُت انہیں ہلاک کر دیتے ہیں۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی کہ اگر بُتوں میں کچھ قدرت سمجھتے ہو تو انہیں پُکارو اور میری نقصان رسانی میں ان سے مدد لو اور تم بھی جو مکر و فریب کر سکتے ہو وہ میرے مقابلہ میں کرو اور اس میں دیر نہ کرو، مجھے تمہاری اور تمہارے معبودوں کی کچھ بھی پرواہ نہیں اور تم سب میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔
ٍ۳۸۲۔ اور میری طرف وحی بھیجی اور میری عزّت کی۔
ٍ۳۸۳۔ اور ان کا حافِظ و ناصِر ہے اس پر بھروسہ رکھنے والوں کو مشرکین وغیرہ کا کیا اندیشہ، تم اور تمہارے معبود مجھے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
ٍ۳۸۴۔ تو میرا کیا بگاڑ سکیں گے۔
۳۸۵۔ کیونکہ بُتوں کی تصویریں اس شکل کی بنائی جاتی تھیں جیسے کوئی دیکھ رہاہے۔
ٍ۳۸۷۔ اور وہ اس وسوسے کو دور کر دیتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
ٍ۳۸۹۔ مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس وقت قرآنِ کریم پڑھا جائے خواہ نماز میں یا خارِجِ نماز، اس وقت سننا اور خاموش رہنا واجب ہے۔ جمہور صحابہ رضی اللّٰہ عنہم اس طرف ہیں کہ یہ آیت مقتدی کے سننے اور خاموش رہنے کے باب میں ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس میں خطبہ سننے کے لئے گوش بر آواز ہونے اور خاموش رہنے کا حکم ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے نماز و خطبہ دونوں میں بغور سُننا اور خاموش رہنا واجب ثابت ہوتا ہے۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللّٰہ عنہما کی حدیث میں ہے آپ نے کچھ لوگوں کو سنا کہ وہ نماز میں امام کے ساتھ قرأت کرتے ہیں تو نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اس آیت کے معنیٰ سمجھو۔ غرض اس آیت سے قرأت خَلْفَ الْاِمام کی ممانَعت ثابت ہوتی ہے اور کوئی حدیث ایسی نہیں ہے جس کو اس کے مقابل حُجّت قرار دیا جا سکے۔ قرأت خَلفَ الاِمام کی تائید میں سب سے زیادہ اعتماد جس حدیث پر کیا جاتا ہے وہ یہ ہے۔ لَاصَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ مگر اس حدیث سے قرأت خَلفَ الاِمَامِ کا وجوب تو ثابت نہیں ہوتا صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ بغیر فاتحہ کے نماز کامِل نہیں ہوتی تو جب کہ حدیث قرأۃُ الامامِؒ لَہ قِرَاء َۃٌ سے ثابت ہے کہ امام کا قرأت کرنا ہی مقتدی کا قرأت کرنا ہے تو جب امام نے قرأت کی اور مقتدی ساکِت رہا تو اس کی قرأت حُکمیہ ہوئی اس کی نماز بے قرأت کہاں رہی، یہ قرأت حُکمیہ ہے تو امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے سے قرآن و حدیث دونوں پر عمل ہو جاتا ہے اور قرأت کرنے سے آیت کا اِتّباع ترک ہوتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ وغیرہ کچھ نہ پڑھے۔
ٍ۳۹۰۔ اوپر کی آیت کے بعد اس آیت کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف سننے والے کو خاموش رہنا اور بے آواز نکالے دل میں ذکر کرنا یعنی عظمت و جلالِ الٰہی کا استِحضار لازم ہے کذا فی تفسیر ابنِ جریر۔ اس سے امام کے پیچھے بلند یا پست آواز سے قرأت کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اور دل میں عظمت و جلالِ حق کا استحضار اور ذکرِ قلبی ہے۔
مسئلہ : ذکر بالجَہر اور ذکر بالاِخفاء دونوں میں نُصوص وارِد ہیں، جس شخص کو جس قسم کے ذکر میں ذوق و شوقِ تام و اخلاصِ کامل مَیسّر ہو اس کے لئے وہی افضل ہے کذافی ردّالمحتار وغیرہ۔
ٍ۳۹۱۔ شام عصر و مغرب کے درمیان کا وقت ہے ان دونوں وقتوں میں ذکر افضل ہے کیونکہ نمازِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب تک اور اسی طرح نمازِ عصر کے بعد غروب تک نماز ممنوع ہے اس لئے ان وقتوں میں ذکر مُستحَب ہوا تاکہ بندے کے تمام اوقات قربت و طاعت میں مشغول رہیں۔
ٍ۳۹۳۔ یہ آیت آیاتِ سجدہ میں سے ہے ان کے پڑھنے اور سننے والے دونوں پر سجدہ لازم ہو جاتا ہے۔ مُسلم شریف کی حدیث میں ہے جب آدمی آیتِ سجدہ پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہے اور کہتا ہے افسوس بنی آدم کو سجدہ کا حکم دیا گیا وہ سجدہ کر کے جنّتی ہوا اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا تو میں انکار کر کے جہنّمی ہو گیا۔