۱ سورۂ معارج مکّیہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، چوالیس ۴۴ آیتیں، دو سو چوبیس۲۲۴ کلمے، نو سو انتیس۹۲۹ حرف ہیں۔
۲ شانِ نزول : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے جب اہلِ مکّہ کو عذابِ الٰہی کا خوف دلایا تو وہ آپس میں کہنے لگے کہ اس عذاب کے مستحق کو ن لوگ ہیں ؟ اور یہ کن پر آئے گا ؟ سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے پوچھو تو انہوں نے حضور سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے دریافت کیا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور حضور سے سوال کرنے والا نضر بن حارث تھا، اس نے دعا کی تھی کہ یارب اگر یہ قرآن حق ہو اور تیرا کلام ہو تو ہمارے اوپر آسمان سے پتّھر برسا، یا درد ناک عذاب بھیج۔ ان آیتوں میں ارشاد فرمایا گیا کہ کافر طلب کریں یا نہ کریں عذاب جو ان کے لئے مقدر ہے ضرور آنا ہے، اسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔
۴ جو فرشتوں میں مخصوص فضل و شرف رکھتے ہیں۔
۵ یعنی اس مقامِ قرب کی طرف جو آسمان میں اس کے اوامر کا جائے نزول ہے۔
۶ وہ روزِ قیامت ہے جس کے شدائد کافروں کی نسبت تو اتنے دراز ہوں گے اور مومن کے لئے ایک فرض نماز سے بھی سُبک تر ہو گا۔
۸ اور یہ خیال کرتے ہیں کہ واقع ہونے والا ہی نہیں۔
۱۱ ہر ایک کو اپنی ہی پڑی ہو گی۔
۱۲ کہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے لیکن اپنے حال میں ایسے مبتلا ہوں گے کہ نہ ان سے حال پوچھیں گے، نہ بات کر سکیں گے۔
۱۴ یہ کچھ اس کے کام نہ آئے گا اور کسی طرح وہ عذاب سے بچ نہ سکے گا۔
۱۵ نام لے لے کر کہ اے کافر میرے پاس آ، اے منافق میرے پاس آ۔
۱۶ حق کے قبول کرنے اور ایمان لانے سے۔
۱۷ مال کو، اور اس کے حقوقِ واجبہ ادا نہ کئے۔
۱۸ تنگ دستی و بیماری وغیرہ کی۔
۲۰ یعنی انسان کی حالت یہ ہے کہ اسے کوئی ناگوار حالت پیش آتی ہے تو اس پر صبر نہیں کرتا اور جب مال ملتا ہے تو اس کو خرچ نہیں کرتا۔
۲۱ کہ فرائضِ پنجگانہ کو ان کے اوقات میں پابندی سے ادا کرتے ہیں، یعنی مومن ہیں۔
۲۲ مراد اس سے زکوٰۃ ہے جس کی مقدار معلوم ہے یا وہ صدقہ جو آدمی اپنے نفس پر معیّن کرے تو اسے معیّن اوقات میں ادا کیا کرے۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ صدقاتِ مستحبّہ کے لئے اپنی طرف سے وقت معیّن کرنا شرع میں جائز اور قابلِ مدح ہے۔
۲۳ یعنی دونوں قِسم کے محتاجوں کو دے، انہیں بھی جو حاجت کے وقت سوال کرتے ہیں اور انہیں بھی جو شرم سے سوال نہیں کرتے اور ان کی محتاجی ظاہر نہیں ہوتی۔
۲۴ اور مرنے کے بعد اٹھنے اور حشر و نشر و جزا و قیامت سب پر ایمان رکھتے ہیں۔
۲۵ چاہے آدمی کتنا ہی نیک، پارسا، کثیرُ الطاعۃ والعبادۃ ہو مگر اسے عذابِ الٰہی سے بے خوف ہونا نہ چاہئے۔
۲۷ کہ حلال سے حرام کی طرف تجاوز کرتے ہیں۔
مسئلہ : اس آیت سے متعہ، لواطت، جانوروں کے ساتھ قضائے شہوت اور ہاتھ سے استمناء کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔
۲۸ شرعی امانتوں کی بھی اور بندوں کی امانتوں کی بھی اور خَلق کے ساتھ جو عہد ہیں ان کی بھی اور حق کے جو عہد ہیں ان کی بھی نذریں اور قَسمیں بھی اس میں داخل ہیں۔
۲۹ صدق و انصاف کے ساتھ، نہ اس میں رشتہ داری کا پاس کرتے ہیں، نہ زبردست کو کمزور پر ترجیح دیتے ہیں، نہ کسی صاحبِ حق کا تلفِ حق گوارا کرتے ہیں۔
۳۰ نماز کا ذکر مکرّر فرمایا گیا۔ اس میں یہ اظہار ہے کہ نماز بہت اہم ہے یا یہ کہ ایک جگہ فرائض مراد ہیں دوسری جگہ نوافل۔ اور حفاظت سے مراد یہ ہے کہ اس کے ارکان اور واجبات اور سنّتوں اور مستحبّات کو کامل طور پر ادا کرتے ہیں۔
۳۲ شانِ نزول: یہ آیت کفّار کی اس جماعت کے حق میں نازل ہوئی جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے گرد حلقے باندھ کر گروہ کے گروہ جمع ہوتے تھے اور آپ کا کلامِ مبارک سنتے اور اس کو جھٹلاتے اور استہزاء کرتے اور کہتے کہ اگر یہ لوگ جنّت میں داخل ہوں گے جیسا کہ محمّد ( مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) فرماتے ہیں تو ہم ضرور ان سے پہلے اس میں داخل ہوں گے۔ انکے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ ان کافروں کا کیا حال ہے کہ آپ کے پاس بیٹھتے بھی ہیں اور گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھتے بھی ہیں پھر بھی جو آپ سے سنتے ہیں اس سے نفع نہیں اٹھاتے۔
۳۴ یعنی نطفہ سے جیسے سب آدمیوں کو پیدا کیا تو اس سبب سے کوئی جنّت میں داخل نہ ہو گا جنّت میں داخل ہونا ایمان پر موقوف ہے۔
۳۵ یعنی آفتاب کے ہر جائے طلوع اور ہر جائے غروب کا یا ہر ہر ستارہ کے مشرق و مغرب کا، مقصد اپنی ربوبیّت کی قَسم یاد فرمانا ہے۔
۳۶ اس طرح کہ انہیں ہلاک کر دیں اور بجائے ان کے اپنی فرمانبردار مخلوق پیدا کریں۔
۳۷ اور ہماری قدرت کے احاطہ سے باہر نہیں ہو سکتا۔