۱ سورۂ بروج مکّیہ ہے، اس میں ایک رکوع، بائیس۲۲ آیتیں، ایک سو نوّ ے۱۹۰ کلمے، چار سو پینسٹھ۴۶۵ حروف ہیں۔
۲ جن کی تعداد بارہ ہے اور ان میں عجائبِ حکمتِ الٰہی نمودار ہیں، آفتابِ ماہتاب اور کواکب کی سیر ان میں معیّن اندازے پر ہے جس میں اختلاف نہیں ہوتا۔
۴ مراد اس سے روزِ جمعہ ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔
۵ آدمی اور فرشتے۔ مراد اس سے روزِ عرفہ ہے۔
۶ مروی ہے کہ پہلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا، جب اس کا جادوگر بوڑھا ہوا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ میرے پاس ایک لڑکا بھیج، جسے میں جادو سکھا دوں، بادشاہ نے ایک لڑکا مقرّر کر دیا، وہ جادو سیکھنے لگا، راہ میں ایک راہب رہتا تھا، اس کے پاس بیٹھنے لگا اور اس کا کلام اس کے دلنشین ہوتا گیا، اب آتے جاتے اس نے راہب کی صحبت میں بیٹھنا مقرّر کر لیا، ایک روز راستہ میں ایک مہیّب جانور مِلا، لڑکے نے ایک پتّھر ہاتھ میں لے کر یہ دعا کی کہ یارب اگر راہب تجھے پیارا ہو تو میرے پتّھر سے اس جانور کو ہلاک کر دے، وہ جانور اس کے پتّھر سے مر گیا، اس کے بعد لڑکا مستجاب الدعوۃ ہوا اور اس کی دعا سے کوڑھی اور اندھے اچھے ہونے لگے، بادشاہ کا ایک مصاحب نابینا ہو گیا تھا، وہ آیا لڑکے نے دعا کی وہ اچھا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آیا اور بادشاہ کے دربار میں پہنچا، اس نے کہا تجھے کس نے اچھا کیا،کہا میرے رب نے، بادشاہ نے کہا میرے سوا اور بھی کوئی رب ہے، یہ کہہ کر اس نے اس پر سختیاں شروع کیں، یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا پتا بتایا، لڑکے پر سختیاں کیں اور اس نے راہب کا پتہ بتایا، راہب پر سختیاں کیں اور اس سے کہا اپنا دِین ترک کر، اس نے انکار کیا تو اس کے سر پر آرا رکھ کر چِروا دیا، پھر مصاحب کو بھی چروا دیا، پھر لڑکے کو حکم دیا کہ پہاڑ کی چوٹی سے گرا دیا جائے، سپاہی اس کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے، اس نے دعا کی، پہاڑ میں زلزلہ آیا سب گر کر ہلاک ہو گئے، لڑکا صحیح و سلامت چلا آیا، بادشاہ نے کہا سپاہی کیا ہوئے، کہا سب کو خدا نے ہلاک کر دیا، پھر بادشاہ نے لڑکے کو سمندر میں غرق کرنے کے لئے بھیجا، لڑکے نے دعا کی، کَشتی ڈوب گئی، تمام شاہی آدمی ڈوب گئے، لڑکا صحیح و سلامت بادشاہ کے پاس آگیا، بادشاہ نے کہا وہ آدمی کیا ہوئے، کہا سب کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کر دیا اور تو مجھے قتل کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ کام نہ کرے جو میں بتاؤں، کہا وہ کیا ؟ لڑکے نے کہا ایک میدان میں سب لوگوں کو جمع کر اور مجھے کھجور کے ڈھنڈ پر سولی دے، پھر میرے ترکش سے ایک تیر نکال کر بسم اللہ رب الغلام کہہ کر مار، ایسا کرے گاتو مجھے قتل کر سکے گا، بادشاہ نے ایسا ہی کیا، تیر لڑکے کی کنپٹی پر لگا، اس نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا اور واصلِ بحق ہو گیا، یہ دیکھ کر تمام لوگ ایمان لے آئے اس سے بادشاہ کو اور زیادہ صدمہ ہوا اور اس نے ایک خندق کھدوائی اور اس میں آگ جلوائی اور حکم دیا جو دِین سے نہ پھرے، اسے اس آگ میں ڈال دو، لوگ ڈالے گئے، یہاں تک کہ ایک عورت آئی، اس کی گود میں بچّہ تھا، وہ ذرا جھجکی، بچّہ نے کہا اے ماں صبر کر، نہ جھجک تو سچّے دِین پر ہے، وہ بچّہ اور ماں بھی آگ میں ڈال دیئے گئے۔ یہ حدیث صحیح ہے مسلم نے اس کی تخریج کی، اس سے اولیاء کی کرامتیں ثابت ہوتی ہیں۔ آیت میں اس واقعہ کا ذکر ہے۔
۷ کرسیاں بچھائے اور مسلمانوں کو آگ میں ڈال رہے تھے۔
۸ شاہی لوگ بادشاہ کے پاس آ کر ایک دوسرے کے لئے گواہی دیتے تھے کہ انہوں نے تعمیلِ حکم میں کوتاہی نہیں کی، ایمانداروں کو آگ میں ڈال دیا۔ مروی ہے کہ جو مومن آگ میں ڈالے گئے، اللہ تعالی نے انکے آگ میں پڑنے سے قبل ان کی روحیں قبض فرما کر انہیں نجات دی اور آگ نے خندق کے کناروں سے باہر نکل کر کنارے پر بیٹھے ہوئے کفّار کو جَلا دیا۔
فائدہ : اس واقعہ میں مومنین کو صبر اور اہلِ مکّہ کی ایذا رسانیوں پر تحمّل کرنے کی ترغیب فرمائی گئی۔
۱۰ اور اپنے کفر سے باز نہ آئے۔
۱۱ آخرت میں بدلہ ان کے کفر کا۔
۱۲ دنیا میں کہ اسی آگ نے انہیں جَلا ڈالا۔ یہ بدلہ ہے مسلمانوں کو آگ میں ڈالنے کا۔
۱۳ جب وہ ظالموں کو عذاب میں پکڑے۔
۱۴ یعنی پہلے دنیا میں پیدا کرے، پھر قیامت میں اعمال کی جزا دینے کے لئے موت کے بعد دوبارہ زندہ کرے۔
۱۵ جن کو کافر انبیاء علیہم السلام کے مقابل لائے۔
۱۶ جو اپنے کفر کے سبب ہلاک کئے گئے۔
۱۷ اے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم آپ کی امّت کے۔
۱۸ آپ کو اور قرآنِ پاک کو جیسا کہ پہلے کافروں کا دستور تھا۔