۱ سورۃ الاعلٰی مکّیہ ہے، اس میں ایک ۱ رکوع، انیس۱۹ آیتیں، بہتّر ۲ ۷کلمے، دو سو اکانوے ۲۹۱ حرف ہیں
۲ یعنی اس کا ذکر عظمت و احترام کے ساتھ کرو۔ حدیث میں ہے جب یہ آیت نازل ہوئی سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا اس کو اپنے سجدہ میں داخل کرو یعنی سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہو۔ (ابوداؤد)
۳ یعنی ہر چیز کی پیدائش ایسی مناسب فرمائی جو پیدا کرنے والے کے علم و حکمت پر دلالت کرتی ہے۔
۴ یعنی امور کو ازل میں مقدر کیا اور اس کی طرف راہ دی، یا یہ معنٰی ہیں کہ روزیاں مقدر کیں اور ان کے طریقِ کسب کی راہ بتائی۔
۵ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو بشارت ہے کہ آپ کو حفظِ قرآن کی نعمت بے محنت عطا ہوئی اور یہ آپ کا معجزہ ہے کہ اتنی بڑی کتابِ عظیم بغیر محنت و مشقّت اور بغیر تکرار و دور کے آپ کو حفظ ہو گئی۔ (جمل)
۶ مفسّرین نے فرمایا کہ یہ استثناء واقع نہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا کہ آپ کچھ بھولیں۔ (خازن)
۷ کہ وحی تمہیں بے محنت یاد رہے گی۔ مفسّرین کا ایک قول یہ ہے کہ آسانی کے سامان سے شریعتِ اسلام مراد ہے جو نہایت سہل و آسان ہے۔
۹ اور کچھ لوگ اس سے منتفع ہوں۔
۱۲ شانِ نزول : بعض مفسّرین نے فرمایا کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ کے حق میں نازل ہوئی۔
۱۳ کہ مر کر ہی عذاب سے چھوٹ سکے۔
۱۴ ایسا جینا جس سے کچھ بھی آرام پائے۔
۱۵ ایمان لا کر، یا یہ معنٰی ہیں کہ اس نماز کے لئے طہارت کی، اس تقدیر پر آیت سے نماز کے لئے وضو اور غسل ثابت ہوتا ہے۔ (تفسیر احمدی)
۱۷ پنج گانہ۔ مسئلہ : اس آیت سے تکبیر افتتاح ثابت ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ نماز کا جزو نہیں ہے کیونکہ نماز کا اس پر عطف کیا گیا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ افتتاح نماز کا اللہ تعالیٰ کے ہر نام سے جائز ہے اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ تَزکّٰی سے صدقۂ فطر دینا اور رب کا نام لینے سے عید گاہ کے راستہ میں تکبیریں کہنا اور نماز سے نمازِ عید مراد ہے۔ (تفسیر مدارک و احمدی )
۱۸ آخرت پر۔ اسی لئے وہ عمل نہیں کرتے جو وہاں کام آئیں۔