دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الرُّوم

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم  کے نام سے

 

نام

 

سورہ کا آغاز ہی رومیوں کے بارے میں ایک پیشین گوئی سے ہوا ہے ۔ اس مناسبت سے اس کا نام "اَلرُّوم" ہے ۔

 

زمانۂ نزول

 مکی ہے اور رومیوں کے قریبی علاقہ میں مغلوب ہونے کے بعد نازل ہوئی یعنی نبوت کے ساتویں سال ۶۱۶ ء میں۔

 

مرکزی مضمون

 

آخرت کا یقین پیدا کرنا ہے ۔ یہ یقین اس دنیا کی اصل حقیقت کو جاننے سے پیدا ہوتا ہے نیز اس بات سے بھی کہ اللہ کا ہر وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے ۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۷ میں رومیوں کی مغلوبی کے بعد ان کے غالب ہونے کی پیشین گوئی کی گئی ہے اور اس مناسبت سے کار ساز حقیقی اور آخرت کی طرف ذہنوں کو موڑا گیا ہے ۔

 

آیت ۸ تا ۲۷ میں اللہ کی ان نشانیوں پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے جو زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں اور جو آخرت کا یقین پیدا کرتی ہیں۔

 

آیت ۲۸ تا ۵۴ میں توحید کے حق ہونے اور شرک کے باطل ہونے پر استدلال کیا گیا ہے اور یہ  واضح کیا گیا ہے کہ دین توحید سین فطرت ہے نیز اس دین پر ایمان لانے والوں کو اللہ کی اطاعت کے کاموں میں سرگرم رہنے اور اس کی معصیت کے کاموں سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے اور جو لوگ اس طرح زندگی گزاریں گے انہیں  بہترین انجام کی خوش خبری سنائی گئی ہے ۔

 

آیت ۵۵ تا ۶۰ اختتامی آیات ہیں جن میں کلام کا رخ پھر قیامت اور آخرت کی طرف مڑ گیا ہے ۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم  کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الف۔ لام۔ میم  ۱ *

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رومی مغلوب ہو گۓ  ۲ *

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قریب کے علاقہ میں۔ اور وہ اپنی مغلوبیت کے بعد غالب آ جائیں گے  ۳ *

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چند سال کے اندر  ۴ *۔ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی  ۵ * اور اس دن اہل ایمان خوش ہوں گے  ۶ *

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی نصرت  ۷ * سے ۔ وہ جسے چاہتا ہے نصرت عطاء فرماتا ہے ۔ وہ غالب ہے رحمت والا  ۸ *۔  

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے  ۹ *۔ اللہ  وعدہ خلافی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں  ۱۰ *۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دنیا کی زندگی کے صرف ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ غافل ہیں  ۱۱ *۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا انہوں نے اپنے نفس میں غور نہیں کیا؟ ۱۲ * اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی تمام موجودات کو  (مقصد) حق کے ساتھ ۱۳ * اور ایک مدت مقرر کے لیے پیدا کیا ہے  ۱۴ *۔ مگر بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں  کہ دیکھ لیتے  ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں  ۱۵ *۔ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے ۔ انہوں ے زمین کو زیادہ بویا جوتا تھا اور ان سے زیادہ اسے آباد کیا تھا  ۱۶ *۔ ان کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آۓ تھے ۔ پھر اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے ۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ان لوگوں کا انجام جنہوں نے برائی کی تھی برا ہوا۔ اس لیے کہ انہوں ے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا تھا اور ان کا مذاق اڑاتے رہے ۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہی پیدائش کا آغاز کرتا ہے پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا  ۱۷ * پھر تم اسی طرف لوٹاۓ جاؤ گے ۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس دن قیامت قائم ہو گی مجرم مایوس ہو کر ہکا بکا رہ جائیں گے  ۱۸ *۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے ٹھہراۓ ہوۓ شریکوں میں سے کوئی ان کا سفارشی نہ ہو گا اور وہ اپنے شریکوں کا انکار کریں گے ۔  ۱۹ *

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن وہ گھڑی قائم ہو گی اس دن لوگ الگ الگ  ہو جائیں گے ۔  ۲۰ *

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جو لوگ ایمان لاۓ ہوں گے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہوں گے وہ ایک باغ  ۲۱ * میں خوش و خرم رکھے جائیں گے۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جنہوں نے کفر کیا ہو گا اور ہماری آیتوں کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ہو گا ۲۲ *۔ وہ عذاب میں حاضر کیے جائیں گے ۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ کی تسبیح کرو شام کے وقت بھی اور صبح کے وقت بھی  ۲۳ *۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی کے لیے حمد ہے آسمانوں اور زمین میں  ۲۴ * اور  (اس کی تسبیح کرو) دن کے آخری حصہ میں بھی  ۲۵ * اور اس وقت بھی جب ظہر ہو ۲۶ *۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے  ۲۷ * اور زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے  ۲۸ *۔ اسی طرح تم بھی نکالے جاؤ گے  ۲۹ *۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا  ۳۰ * پھر یکایک تم بشر بن کر پھیلنے لگے  ۳۱ *۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے بیویاں پیدا کیں  ۳۲ *۔ تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو ۳۳ *۔ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کیں  ۳۴ *۔ یقیناً اس کے اندر  نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی خلقت  ۳۵ * اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے  ۳۶ *۔ یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں  ۳۷ *۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی نشانیوں میں سے رات اور دن میں تمہارا سونا  ۳۸ *۔ اور اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے  ۳۹ *۔ یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو سنتے ہیں  ۴۰ *۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی  نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ تم کو بجلی کی چمک دکھاتا ہے جو خوف بھی پیدا کرتی ہے اور امید بھی  ۴۱ * اور آسمان سے پانی برساتا ہے اور زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندگی بخشتا ہے یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں  ۴۲ *۔ پھر جب وہ تم کو زمین سے پکارے گا تم اچانک نکل پڑو گے  ۴۳ *۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں اسی کے مملوک ہیں  ۴۴ *۔ سب اسی کے تابع اور فرمان ہیں  ۴۵ *۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی تخلیق کا آغاز کرتا ہے اور وہی اس کا اعادہ کرے گا (لوٹاۓ گا) اور یہ اس کے لیے زیادہ آسان ۴۶ * ہے ۔ آسمان اور زمین میں اس کی شان اعلیٰ ہے  ۴۷ *۔ اور وہ غالب ہے حکمت والا ۴۸ *۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تمہارے لیے تمہاری اپنی ذات سے متعلق مثال بیان فرماتا ہے ،  کیا تمہارے مملوکوں  (غلاموں) میں سے ایسے بھی ہیں جو ہمارے دیے ہوۓ مال میں تمہارے شریک ہوں کہ تم اور وہ اس میں برابر قرار پائیں۔ اور تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنوں سے ڈرتے ہو ۴۹ *۔ اس طرح ہم اپنی آیتوں کو کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ ظالم ۵۰ * بے جانے بوجھے اپنی خواہشات کے پیچھے چل رہے ہیں  ۵۱ *۔ تو جن کو اللہ نے گمراہ کر دیا ہو ان کو کون راستہ دکھا سکتا ہے ؟  ۵۲ * ایسے لوگوں کا کوئی مدد گار نہ ہو گا۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس تم اپنا رخ اس دین کی طرف کر لو یکسو ہو کر  ۵۳ *۔ وہ فطری دین جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا  ۵۴ *۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں کوئی تبدیلی نہیں  ۵۵ *۔ یہی صحیح دین ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں  ۵۶ *۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  (اپنا رخ اس دین کی طرف کر لو) اس کی طرف رجوع کرتے ہوۓ  ۵۷ * اور اس سے ڈرو  ۵۸ * اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ ۵۹ *۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہوں میں بٹ گۓ  ۶۰ *۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس میں مگن ہے  ۶۱ *۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی طرف رجوع ہو کر پھر جب وہ اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتا ہے تو ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے  ۶۲ *۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا اس کی ناشکری کریں۔ تو مزے کر لو عنقریب تمہیں معلوم ہو جاۓ گا۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم نے کوئی سند ان پر نازل کی ہے جو ان کے ٹھہراۓ ہوۓ شریکوں پر ناطق ہے  ۶۳ *۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اترانے لگتے ہیں اور جبان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے  ۶۴ * تو وہ فوراً مایوس ہو جاتے ہیں  ۶۵ *۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور نپا تلا کر دیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے ۔ یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں  ۶۶ *۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو قرابت دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق  ۶۷ *۔ یہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں  ۶۸ *۔ اور وہی فلاح پانے والے ہیں  ۶۹ *۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں اضافہ ہو تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا ۷۰ * اور زکوٰۃ تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے دیتے ہو تو یہی لوگ ہیں  (اپنے مال کو) بڑھانے والے  ۷۱ *۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا پھر تم کو موت دیتا ہے پھر تم کو زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے ٹھہراۓ ہوۓ شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟  ۷۲ * پاک اور برتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے تاکہ وہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزا چکھاۓ تاکہ وہ رجوع کریں  ۷۳ *۔

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جو پہلے گزر چکے ہیں  ۷۴ *۔ ان میں سے اکثر مشرک تھے  ۷۵ *۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنا رخ اس دین قیم  (صحیح دین) کی طرف کیے رہو قبل اس کے کہ اللہ کی طرف سے وہ دن آۓ جو ٹل نہیں سکتا۔ اس دن وہ الگ الگ ہو جائیں گے  ۷۶ *۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے کفر کیا اس کا کفر اسی پر پڑے گا اور جنہوں نے نیک عمل کیا وہ اپنے ہی لیے  (کامیابی کی) راہ ہموار کر رہے ہیں  ۷۷ *۔

 

۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ وہ اپنے فضل سے ان لوگوں کو جزا دے جو ایمان لاۓ اور جنہوں نے نیک عمل کیے ۔ یقیناً وہ کافروں کو پسند نہیں کرتا  ۷۸ *۔

 

۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ہواؤں کو بھیجتا ہے جو خوش خبری دیتی ہیں۔ تاکہ وہ تمہیں اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاۓ ۷۹ *۔ اور تاکہ کشتیاں اس کے حکم سے چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے تم سے  پہلے بھی رسول ان کی قوموں کی طرف بھیجے تھے اور وہ ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آۓ تھے ۔ پھر ہم نے ان لوگوں کو سزا دی جنہوں نے جرم کیا اور ہم پر لازم تھی مؤمنوں کی نصرت  ۸۰ *۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں پھر وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو آسمان میں پھیلاتا ہے اور ان کے ٹکڑے کر دیتا ہے ۔ پھر تم ان کے اندر سے بارش کو نکلتے ہوۓ دیکھتے ہو۔ پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے تو وہ یکایک خوش ہو جاتے ہیں۔

 

۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس سے قبل  ۸۱ * وہ اس کے برساۓ جانے سے پہلے مایوس تھے  ۸۲ *۔

 

۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو دیکھو اللہ کی رحمت کے آثار کہ کس طرح وہ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ یقیناً وہ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے  ۸۳ * اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

 

۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر ہم باد (نا موافق) بھیج دیں اور وہ اس کو  (اپنی کھیتی کو)  زرد پڑی ہوئی پائیں تو اس کے بعد وہ کفر کرتے رہ جائیں گے  ۸۴ *۔

 

۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہو جب کہ وہ پیٹھ پھیرے چلے جا رہے ہوں  ۸۵ *۔

 

۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال کر راہ پر لا سکتے ہو۔ تم تو ان ہی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور اطاعت قبول کرتے ہیں  ۸۶ *۔

 

۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہی ہے جس نے تم کو کمزور حالت میں پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد تمہیں قوت بخشی پھر اس قوت کے بعد تم پر ضعف اور بڑھاپا طاری کر دیا۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے  ۸۷ *۔ اور وہ سب کچھ سننے والا اور بڑی قدرت رکھنے والا ہے ۔

 

۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس دن قیامت قائم ہو گی مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ وہ ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے اس طرح وہ دھوکا کھاتے رہے ہیں ؟  ۸۸ *۔

 

۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جن کو علم اور ایمان عطا ہوا تھا وہ کہیں گے کہ اللہ کے نوشتہ  (ریکارڈ) میں تم اٹھاۓ جانے کے دن  (روز حشر) تک رہے ہو  ۸۹ *۔ تو یہ اٹھاۓ جانے کا دن ہے لیکن تم جانتے نہ تھے ۔

 

۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن ظالموں کے لیے ان کی معذرت بے سود ہو گی اور ان سے توبہ کا مطالبہ نہیں  کیا جاۓ گا۔  ۹۰ *

 

۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس قرآن میں لوگوں  (کی فہمائش) کے لیے ہر طرح کے مضامین بیان کر دیے ہیں اور  (اے نبی !) خواہ تم کوئی نشانی لے آؤ جنہوں نے کفر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے وہ یہی کہیں گے کہ تم بالکل جھوٹے ہو ۹۱ *۔

 

۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح اللہ مہر لگا دیتا ہے ان لوگوں کے دلوں پر جو علم سے بے بہرہ رہتے ہیں  ۹۲ *۔

 

۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو صبر کرو۔ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے اور تمہیں ہر گز نے وزن نہ پائیں وہ لوگ جو یقین نہیں رکھتے  ۹۳ *۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔ حروف مقطعات کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ برأۃ  نوٹ ۱ سورہ یونس نوٹ ۱ اور سورہ عنکبوت نوٹ ۱۔ اس سورہ میں "ا" کا اشارہ آیات  (نشانیوں) کی طرف ہے جس کی طرف بار بار متوجہ کیا گیا ہے مثال کے طور پر آیت ۱۰، ۲۰، ۲۱، ۲۲،  ۲۴،  ۳۵،  ۴۶ وغیرہ۔

 

"ل" کا اشارہ لِقاءِ رَبِّھِمْ  (اپنے رب کی ملاقات،  آیت ۸) اور لِقاءِ الْاٰخِرَۃِ  (آخرت کی ملاقات آیت ۱۶) کی طرف ہے ۔ اور "م" کا اشارہ مومنین کی طرف ہے جن کی نصرت کا وعدہ آیت ۴،  ۵،  اور ۳۵ میں کیا گیا ہے گویا یہ سورہ دلائل توحید،  آخرت کے یقین اور مومنوں کی نصرت ان تین اہم مضامین پر مشتمل ہے ۔

 

۲۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے زمانہ میں دو عظیم سلطنتیں تھیں ایک فارس  Persian Empire  جو ایران اور عراق پر مشتمل تھیں اور دوسری روم (Roman Empire) جو فلسطین،  شام،  ترکی وغیرہ پر مشتمل تھی اور جس کا دار السلطنت قسطنطنیہ تھا۔  رومی اہل کتاب اور عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے تھے ، مگر داخلی بغاوت کی وجہ سے ان کی سلطنت کافی کمزور ہو گئی تھی۔ اہل فارس مجوسی یعنی آتش پرست تھے ۔ مگر ان کو رومیوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا اور انہوں نے پے درپے حملے کر کے شام اور فلسطین کے علاقہ پر قبضہ کر لیا یہاں تک کہ نبوت کے ساتویں سال یعنی ۶۱۶ ء میں وہ عرب کے شمالی سرحد تک پہنچ گۓ جہاں رومیوں کا قبضہ تھا۔ رومیوں کی شکست سے مشرکین مکہ بہت خوش ہوۓ اور نہیں مسلمانوں پر طنز کرنے کا موقع ملا کہ دیکھو تمہاری طرح یہ بھی کتاب الٰہی کے ماننے والے ہیں۔ اگر یہ حق پر ہوتے تو شکست سے دوچار نہ ہوتے ۔ ان کی ہمدردیاں اہل فارس کے ساتھ تھیں کیونکہ ان دونوں کا مذہب مشرکانہ تھا۔

 

۳۔۔۔۔۔۔ قریبی علاقہ سے مراد شام اور عرب کی درمیان کی سرحد ہے جو اذرعات کہلا تی تھے ۔ یہ تبوک سے اوپر کا علاقہ ہے ۔ یہ علاقہ رومیوں کے زیر تسلط تھا اور اس علاقہ میں لڑائی کا مطلب یہ تھا کہ جنگ عرب کے دروازے پر پہنچ گئی ہے ۔ ظاہر ہے یہ نہایت تشویشناک صورت حال تھی۔ پھر جب اہل فارس کے ہاتھوں رومی مغلوب ہوۓ تو مشرکین مکہ خوشی سے پھولے نہ سماۓ اور ان کی مغلوبیت میں مسلمانوں کی مغلوبیت اور اہل فارس کی فتح میں اپنی فتح کے خواب دیکھنے لگے ۔ مگر ان آیتوں نے مستقبل میں پیش آنے والے واقعہ کی خبر سنا کر لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس آیت میں صریح پیشین گوئی کی گئی ہے کہ رومی اگرچہ مغلوب ہو گۓ ہیں مگر وہ غالب آئیں گے ۔

 

۴۔۔۔۔۔۔ متن میں لفظ "بِضْع"  (چند) استعمال ہوا ہے جو عربی میں تین سے جو تک کے لیے بولا جاتا ہے ۔ گویا اس لفظ کے ذریعہ مدت کا تعین بھی دیا گیا کہ رومی نو سال کے اندر اندر غالب آ جائیں گے ۔

 

واضح رہے کہ اس وقت تک نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت رومیوں تک نہیں پہنچی تھی اور وہ تورات و انجیل پر ایمان لانے کے مدعی تھی اس لیے ان کی حیثیت ایک مسلمان گروہ ہی کی تھی۔ اسی بناء پر قرآن نے ان کی تائید میں پیشین گوئی کی اور اسی بنا پر مکہ کے اہل ایمان ان کے حامی تھے ۔ اس سے یہ اصولی رہنمائی ملتی ہے کہ اگر ایک ملک کے مسلمانوں پر دوسرے ملک کے غیر مسلم حملہ آور ہوں تو دنیا کی مسلمانوں کو اس ملک کے مسلمانوں کی  حمایت کرنا چاہیے جن کے خلاف غیر مسلموں کافروں یا بت پرستوں نے اقدام کیا ہے کیوں کہ مسلمان خواہ وہ ایک بگڑی ہوئی قوم ہی کیوں نہ ہوں ان کا کافروں کے ہاتھوں مغلوب ہونا ہر گز پسندیدہ امر نہیں ہے نیز اس سے دین اسلام کی بھی سبکی ہوتی ہے ۔ اس سے مزید یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ مسلمانوں کے کسی ملک پر مشرکوں اور کافروں کا تسلط خلاف حق ہے کیوں کہ اس سے شرک اور کفر کو اپنا اثر ڈالنے کا موقع ملتا ہے اور معاشرہ میں بگاڑ کے لیے راہ ہموار ہو جاتی ہے ۔ لہٰذا اس کی حمایت ہر گز نہیں کی جا سکتی۔

 

۵۔۔۔۔۔۔ یعنی  پہلے جو رومی مغلوب ہوۓ وہ اللہ ہی کے حکم سے ہوۓ اور بعد میں جب وہ غالب ہوں گے تو اللہ ہی کے حکم سے ہوں گے ۔ مطلب یہ ہے کہ غلبہ و اقتدار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے محروم کرتا ہے ۔ اس کی طرف سے فتح و شکست کے جو فیصلے ہوتے ہیں وہ عدل اور حکمت پر مبنی ہوتے ہیں۔

 

رومیوں نے اپنے دین  (اسلام) میں نئی نئی باتیں پیدا کر لی تھیں اور خانہ جنگی میں مبتلا ہو گۓ تھے اس لیے ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کر دیا گیا تاکہ وہ ہوش میں آئیں اور اپنی اصلاح کر لیں۔ اسی طرح بعد میں اہل فارس کو جو شکست ہوئی وہ اس لیے کہ ظالموں کا زور ٹوٹے ۔

 

۶۔۔۔۔۔۔ یہ اہل ایمان کو خوش خبری سنا دی گئی کہ وہ عنقریب رومیوں کے غالب آنے پر خوشیاں منائیں گے ۔ مگر اس میں اس سے بڑھ کر ایک اور خوشی کی طرف بھی اشارہ تھا اور وہ تھی اہل ایمان کے کفار مکہ پر غالب آنے کی خوشی۔ چنانچہ  ۲ھ۔ ۵۲۴ ء میں بدر کا واقعہ پیش آیا جس میں اہل ایمان کی فتح ہوئی اور کفار مکہ کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ادھر رومی بھی اسی سال فارس پر غالب آ گۓ جس کی صورت یہ ہوئی کہ شاہ روم ہر قل(Hercules)   نے جو قسطنطنیہ میں محصور ہو کر  رہ گیا تھا اپنی فوج کو از سر نو تیار کیا اور ۶۱۳ ء میں ایک منصوبہ کے تحت آزر بائجان کی راہ سے فارس پر حملہ کر دیا اور اندر داخل ہو کر مجوسیوں کا سب سے بڑا آتش کدہ مسمار کر دیا۔ اس وقت خسرو  (Khosrow II) فارس کا بادشاہ تھا۔ وہ اپنی اس شکست کو فتح میں تبدیل نہ کر سکا۔ رومیوں کو اہل فارس پر یہ غلبہ ۶۲۳ ء یا ۶۲۴ میں حاصل ہوا اور اس کے بعد انہوں نے چند سال کے اندر اندر فلسطین اور اپنے تمام علاقے فارس والوں سے واپس لے لیے ۔  (تاریخی تفصیلات کے لیے دیکھیے انسایکلو پیڈیا برٹانیکا۔ ج ۸ ص۔ ۸۷۱ اور،  ج ۱۰ ص ۴۵۴)

 

مختصر یہ کہ ۲ ھ یا ۶۲۴ ء وہ سال ہے جس میں ایک طرف رومیوں کو اہل فارس پر غلبہ حاصل ہوا اور دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اہل ایمان کو کفار مکہ پر فتح نصیب ہوئی۔ اس طرح قرآن کی  پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور اہل ایمان کے لیے دوہری خوشی کا سامان ہوا۔

 

قرآن کی اس پیشین گوئی کا نو سال کے اندر اندر پورا ہو جاتا اس کی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس پیشین گوئی کے پورا ہو جانے پر بہت سے لوگ ایمان لے  آۓ۔

 

۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اہل ایمان کو یہ خوشی نصرت الٰہی کی بنا پر ہو گی۔ اس بنا پر نہیں کہ رومیوں نے اپنے جوہر دکھا کر فتح حاصل کر لیا کیوں کہ اہل ایمان اللہ کی کارسازی پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی نصرت کے امیدوار ہوتے ہیں۔ رومیوں کو فارس پر جو فتح حاصل ہوئی اس کے علاوہ اہل ایمان نے جنگ بدر میں نصرت الٰہی کا جو مشاہدہ کیا وہ بڑا روح پرور اور سرور و انبساط کا باعث تھا۔

 

۸۔۔۔۔۔۔ اللہ غالب ہے اس لیے وہ جس کی مدد کرنا چاہتا ہے اس کو کوئی روک نہیں سکتا اور وہ رحیم ہے اس لیے وہ اہل ایمان پر ضرور رحم فرماۓ گا اور ان کو اپنی نصرت سے نوازے گا۔

 

۹۔۔۔۔۔۔ یعنی رومیوں کے غالب آنے اور اہل ایمان کے نصرت الٰہی پر خوشیاں منانے کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے وہ لازماً پورا ہو کر رہے گا۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ یہ وعدہ پورا ہو کر رہا اور قرآن کا وحی الٰہی ہونا ایک حقیقت واقعہ بن کر سامنے آیا۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔ رومیوں کے غالب آنے کی جو پیشین گوئی قرآن میں کی گئی۔ وہ ایک مثال ہے اللہ کے وعدہ کے پورا ہونے کی تاکہ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جن جن باتوں کے وعدے کیے ہیں وہ سب پورے ہو کر رہیں گے مگر اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ان وعدوں کو خاطر ہی میں نہیں لاتے ۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں بڑی گہری بات ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ دنیا کی زندگی کے بارے میں لوگوں کا علم بالکل سطحی ہے کیونکہ ان کی نگاہیں اس کے صرف ظاہر پر آ کر ٹک گئی ہیں اور اس کا باطنی پہلو ان کی نظروں سے اوجھل ہے ۔ اگر ان کی نگاہیں دور رس ہوتیں تو وہ آخرت کو پا لیتے مگر خوبصورت چھلکے کو دیکھ کر وہ اپنا دل بہلا رہے ہیں اور مغز کی طرف سے بے پرواہ ہیں۔ اس لیے ان کے حصہ میں دنیا کے چھلکے ہی آتے ہیں۔ دنیا میں قوموں کے عروج و زوال اور فتح و شکست کے جو واقعات پیش آتے ہیں ان کی مشت پر جو حقیقتیں ہوتی ہیں ان کو دیکھنے سے وہ قاصر رہتے ہیں اور سطحی راۓ قائم کر بیٹھتے ہیں۔

 

موجودہ سائنس نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ ایک ذرہ محض ذرہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر الکٹرون،  پروٹون اور نیٹرون پر مشتمل ایک پورا نظام ہوتا ہے اور اس میں زبردست قوت پوشیدہ ہوتی ہے چنانچہ ایٹمی توانائی اسی دریافت کا نتیجہ ہے ۔ تعجب ہے کہ ان سب تجربات اور مشاہدات کے بعد بھی انسان کی آنکھیں نہیں کھلتیں اور وہ حیات دنیا کی ظاہری چمک دمک پر ایسا فریفتہ ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر جھانک کر دیکھنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا ؛۔ اگر وہ حیات دنیا کے باطنی حقائق کا سراغ لگانے کی کوشش کرتا تو اس پر آخرت ضرور منکشف ہوتی اور وحی الہٰی کی روشنی میں وہ دنیا کے باطن کو اسی طرح دیکھ لیتا جس طرح وہ خاص قسم کی شعاعوں  (اکسریز (X-Rays کے ذریعہ جسم کے اندرونی حصوں کو دیکھ لیتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ بہتر طریقہ پر دیکھ لیتا۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت کے منکرین اپنے اندر جھانک کر کیوں نہیں دیکھتے کہ ان کا وجدان ان سے کیا کہہ رہا ہے ۔ آیا یہ کہ نہ ان کی پیدائش کا کوئی مقصد ہے اور نہ اس کائنات کی پیدائش کا۔ اور انسان اچھے کام کرے یا برے نتیجہ صفر ہے یا یہ کہ انسان فطرتاً ایک ذمہ دار مخلوق ہے اس لیے اس کی پیدائش کا بھی ایک مقصد ہے اور چونکہ یہ کائنات نہایت حکیمانہ ڈھنگ سے چل رہی ہے اس لیے اس کی پیدائش کی بھی ایک غرض و غایت ہے اور انسان کے اچھے کام کا نتیجہ اچھا نکلنا چاہیے اور برے کام کا برا۔ اگر انسان اپنے وجدان پر غور کرے تو وہ اسے اس دوسری بات ہی کی تائید میں پاۓ گا اور یہ جزا اور سزا کی تائید میں انسان کے وجدان کی گواہی ہے ۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انعام نوٹ ۱۲۴ اور سورہ یونس ۱۵۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کائنات جس طرح ازلی نہیں ہے اسی طرح ابدی بھی نہیں ہے ۔ اس کا آغاز بھی ہے اور انجام بھی۔ یہ کارخانہ ایک وقت مقرر تک ہی چلتا رہے گا جس کی تعین اللہ تعالیٰ نے کی ہے اور اسی کو معلوم ہے کہ اس کا خاتمہ کب ہونا ہے ۔

 

اس کائنات کے ظاہر کو دیکھ کر لوگ یہ خیال کرتے رہے ہیں  کہ یہ ہمیشہ ایسی ہی رہے گی چنانچہ اسی خیال کے مطابق انہوں نے اپنے مذہبی تصورات بھی قائم کر لیے لیکن موجودہ سائنس نے ان تصورات کو غلط ٹھہرایا کیونکہ ایک ذرہ کا پھٹ جانا اور اس میں سے ایک زبردست قوت کا خارج ہو جانا اگر ممکن ہے تو یہ کیوں ممکن نہیں کہ یہ پوری کائنات ایک دھماکے سے دوچار ہو جاۓ اور اس کے پھٹنے سے زبردست قوت خارج ہو جاۓ جو اس کو نیا وجود بخشے ؟

 

۱۵۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انعام نوٹ ۲۰ اور سورہ حج نوٹ ۸۲۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔ یعنی گزری ہوئی قوموں نے ان عربوں سے زیادہ تمدنی ترقی کی تھی مگر رسولوں کو جھٹلانے کے نتیجہ میں ان پر عذاب آیا اور ان کا سارا تمدن خاک میں مل کر رہا۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ عنکبوت نوٹ ۳۶

 

۱۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ شرک جیسا ناقابل معافی جرم کر کے آۓ ہوں گے وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوں گے اور قیامت کے احوال دیکھ کر ان کے ہوش اڑ جائیں گے ۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں جن کو انہوں نے اپنا سفارشی سمجھ کر اللہ کے حقوق و اختیارات میں شریک ٹھہرا رکھا تھا ان سے ان کی ساری عقیدت ختم ہو جاۓ گی اور اس وقت وہ اعتراف کریں گے کہ یہ ہمارے خدا نہیں ہیں۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن ایمان اور کفر کی بنیاد پر لوگوں کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم کیا جاۓ گا۔ رنگ و نسل اور قوم و وطن کے سارے اختلافات بے معنی ہو چکے ہوں گے ۔ عقیدہ و عمل کا اختلاف  اصل اختلاف قرار پاۓ گا اور اسی کی بنیاد پر انسانوں کی گروہ بندی ہو گی۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔ روضۃ  (باغ) کا لفظ استعمال ہوا ہے جو عربی میں اس باغ کے لیے بولا جاتا ہے جو خوش منظر بھی ہو اور جس میں بہ کثرت پانی بھی ہو۔ یہاں جنت کے سر سبز و شاداب اور فرحت و سرور بخشنے والے باغ کا تصور دلانا مقصود ہے ۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔ کفر صرف یہی نہیں کہ اللہ کے وجود کا ناکار کیا جاۓ بلکہ اس کے وجود کو مانتے ہوۓ اس کی آیتوں کا انکار کرنا بھی ہے جن میں وہ تمام نشانیاں شامل ہیں جو اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں نیز وہ آیتیں  بھی جو رسول پر نازل ہوئیں۔ اسی طرح قیامت کے دن اللہ کے حضور پیشی کو جھٹلانا بھی سراسر کفر ہے ۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔ یعنی جب اللہ کی قدرت کے یہ کرشمے ہیں جن کا تم رات دن مشاہدہ کرتے ہو تو چاہیے کہ اس کی پاکی بیان کرو،  اس کے گن گاؤ اور اس کا نام جپتے رہو خاص طور سے دن اور رات کے ہر موڑ پر جب کہ آسمان پر قدرتی آثار ظاہر ہو جاتے ہیں اور فضا میں تغیر ہونے لگتا ہے ۔ خدا کی طرف ذہن کو موڑنے والی ان علامتوں کو دیکھ کر تمہیں اس کی تسبیح و تحمید اور اس کی عبادت میں مشغول ہو جانا چاہیے ۔ تسبیح کا یہ حکم اپنے اندر عمومیت لیے ہوۓ ہے لیکن یہ اور اس کے بعد والی آیت میں پنج وقتہ نماز کی طرف اشارہ ہے جو تسبیح اور تحمید کی بہترین شکل ہے ۔ شام کا وقت مغرب اور عشاء کی نماز کا وقت ہے اور صبح کا وقت فجر کی نماز کا۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان و زمین میں اللہ ہی حمد کا مستحق ہے اور پوری کائنات اس کی حمد و ثنا میں زمزمہ سنج ہے لہٰذا تم بھی اس سے ہم آہنگ ہو جاؤ۔ اس بزم میں کسی اور کا راگ الاپنے اور کسی اور کے نام کی مالا جپنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔ عشیاً  (دن کا آخری حصہ) سے مراد عصر کا وقت ہے یہ وقت نماز عصر ادا کرنے کا ہے ۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔ ظہر یعنی زوال کا وقت۔ یہ اوقات نماز ظہر ادا کرنے کا ہے ۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورہ آل عمران  نوٹ ۴۰ اور سورہ انعام نوٹ ۱۷۷ میں گزر چکی۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورہ بقرہ نوٹ ۱۹۷ میں گزر چکی۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔ یعنی موت کے بعد قیامت کے دن تم دوبارہ پیدا کیے جاؤ گے ۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔ اللہ انسان کا خالق ہے اور جب خالق نے خود بتلایا کہ اس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے تو اس سے زیادہ یقینی بات اور کیا ہو سکتی ہے ؟ اس کی تائید اس بات سے بھی ہو سکتی ہے کہ انسان اپنی غذا مٹی ہی سے حاصل کرتا ہے اور مر کر مٹی ہی میں مل جاتا ہے ۔

 

سائنس کی رو سے بھی زمین پر زندگی کو طہور بعد ہی میں ہوا ہے لیکن ڈارون کا یہ نظریہ کہ انسان بندر سے پیدا ہوا ہے محض قیاسی بات ہے جس کا کوئی علمی ثبوت نہیں ہے اور قرآن کے بیان کے سراسر خلاف ہے ۔

 

مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ حج نوٹ ۷۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔ انسان مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کی نسل ایسی چلی کہ پوری دنیا انسانوں سے آباد ہو گئی اور اربوں انسان دنیا میں پھیلتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ یہ کس کی قدرت کا کرشمہ ہے ؟

 

ماضی کا انسان بھی انسانی تخلیق پر اس پہلو سے غور نہ کرنے کے نتیجہ میں شرک میں مبتلا ہوا اور موجودہ دور کا انسان بھی اس پہلو سے غور نہ کرنے کے نتیجہ میں کفر و الحاد میں مبتلا ہے ۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورہ نحل نوٹ ۱۰۷ میں گزر چکی۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔ بیویوں  (عورتوں) کو پیدا کرنے کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ مردوں کو ان سے سکون حاصل ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورتیں مردوں کے ہاتھ میں محض کھلونا ہیں بلکہ جس طرح ایک اعلیٰ مقصد کے لیے مردوں کی تخلیق ہوئی ہے اسی طرح ایک اعلیٰ مقصد کے لیے عورتوں کی بھی تخلیق ہوئی ہے اس لیے ایک ذمہ دار مخلوق ہونے کے حیثیت سے دونوں برابر ہیں۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔ محبت یہ کہ گہرا جذباتی لگاؤ ایک دوسرے کے ساتھ پیدا ہو جاتا ہے اور رحمت یہ کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے ہمدرد اور غمگسار بنتے ہیں۔ اس طرح دونوں ایک جان دو قالب بن کر رہتے ہیں۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ بقرہ نوٹ ۱۹۶۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔ انسان اگر خود کار مشین  (Automatic Machine) میں ڈھل کر نکلا ہوتا تو سب کی زبان اور سب کا رنگ یکساں ہوتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف قوموں کی مختلف زبانیں ہیں اور رنگ بھی مختلف کوئی کالا ہے تو کوئی گورا کوئی گندمی رنگ کا ہے تو کسی کا رنگ سرخی مائل۔ زبان و رنگ کے یہ اختلافات کیا اس حقیقت کی طرف رہنمائی نہیں کرتے کہ انسان کی پیدائش کے پیچھے ایک ارادہ،  ایک حکمت اور ایک منصوبہ کار فرما ہے جو ایک زبردست مدبر کے وجود پر دلالت کرتا ہے ۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔ یعنی جو جہالت کی تاریکیوں میں نہیں رہتے بلکہ علم کی روشنی میں اپنی فکر بناتے ہیں اور اپنا سفر زندگی طے کرتے ہیں۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔ نیند کی حالت کتنی عجیب و غریب ہے کہ اس میں انسان کو نہ بھوک کا احساس ہوتا ہے اور نہ پیاس کا۔ ساتھ ہی وہ تکان کو دور کر کے تازگی پیدا کرتی ہے اور نیند کے دوران جسم میں اصلاح کا عمل تیزی کے ساتھ انجام پاتا ہے ۔ کیا یہ بس آپ سے آپ ہو رہا ہے ؟

 

۳۹۔۔۔۔۔۔ معاشی دوڑ دھوپ کو اللہ کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ گزر بسر کا سامان اللہ کا محسوس ہونے والا فضل ہے ۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ نصیحت کی باتوں کو سننے کے لیے اپنے کان کھلے رکھتے ہیں وہی پیغمبر کی نصیحت کا اثر قبول کرتے ہیں اور ان علامتوں سے جن کی نشاندہی قرآن کتا ہے صحیح رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ رعد نوٹ ۲۸۔

 

۴۲۔۔۔۔۔۔ آسمان کا تمام اجرام سماوی کے ساتھ اس طرح قائم رہنا اور زمین کا اس طرح برقرار رہنا کہ طویل زمانہ گزر جانے کے بعد نہ ان میں کوئی خرابی پیدا ہو اور نہ ان کے نظام میں کوئی خلل واقع ہو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خدا ہی کی ذات ہے جس کے حکم سے یہ قائم ہیں اور جب اس کے حکم سے قائم ہیں تو وہ اپنے حکم سے ان کو درہم برہم بھی کر سکتا ہے ۔ لہٰذا قیامت ہر گز  نا ممکن نہیں۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔ یعنی تم کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اللہ کا تم کو ایک مرتبہ پکارنا کافی ہو گا۔ جوں ہی وہ تمہیں آواز دے گا تم زمین سے زندہ نکل پڑو گے ۔ یہ نکلنا جسم سمیت ہو گا اور اللہ کی پکار زمین کے اندر سے سنائی دے گی۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کے بندے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی مالک نہیں بلکہ ان سب کا مالک اللہ ہے ۔ انسان بھی پیدائشی طور پر اللہ کا بندہ اور غلام ہے ۔

 

۴۵۔۔۔۔۔۔ یعنی سب اس کے آگے عاجز ہیں اور ان پر اس کے احکام نافذ ہو کر رہتے ہیں۔

 

۴۶۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے لیے دوسری مرتبہ پیدا کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ جب تم مانتے ہو کہ پہلی مرتبہ اس نے پیدا کیا ہے تو پھر دوسری مرتبہ پیدا کرنا اس کے لیے اور آسان ہو گا۔ مگر یہ کیسی بات ہے کہ تم دوسری پیدائش کو نا ممکن خیال کرتے ہو۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کو انسان یا کسی اور مخلوق پر قیاس نہ کرو۔ وہ ایسی بالا تر ہستی ہے جس کی کائنات میں کوئی مثال نہیں۔ وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے اور اس کی صفات نہایت اعلیٰ ہیں۔

 

اس حقیقت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہنا جو اس کی شان سے فر و تر ہو یا جس سے اس کی شان میں گستاخی ہوتی ہو سراسر جہالت اور گمراہی ہے ۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔ اللہ کی دو صفتیں یہاں بیان ہوئی ہیں۔ عزیز یعنی غالب اور حکیم یعنی حکمت والا۔ وہ غالب ہے اس لیے اس کا یہ وعدہ کہ وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرے گا پور ہو کر رہے گا اور اس کا یہ فیصلہ کہ قیامت بر پا ہو گی اور عدالت قائم ہو گی نہایت حکیمانہ فیصلہ ہے جو نافذ ہو کر رہے گا۔

 

۴۹۔۔۔۔۔۔ یہ مثال شرک کی نامعقولیت کو واضح کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے ۔ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے مال میں برابر کا شریک نہیں سمجھتے اور ان کے شریک نہ ہونے کی بنا پر تم ان سے وہ اندیشہ نہیں رکھتے جو اپنوں سے رکھتے ہو یعنی یہ کہیں کوئی تمہارا حق غصب نہ کر لے یا اس میں بے جا تصرف نہ کر بیٹھے ۔ تو جب تم اللہ کے دیے ہوۓ مال میں اپنے غلاموں کو شریک قرار نہیں دیتے اور ان کو برابری کا حق دار نہیں سمجھتے تو اللہ کی پیدا کی ہوئی مخلوق میں اس کے ساجھی اور شریک کس طرح ٹھہراتے ہو ان کے حقوق اللہ کے حقوق کے برابر کس طرح قرار دیتے ہو؟ جو بات تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ اللہ کے لیے کس طرح پسند کرتے ہو جب کہ اس کی شان بہت بلند و بالا ہے ۔

 

۵۰۔۔۔۔۔۔ مراد مشرک اور بت پرست ہیں۔

 

۵۱۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ شرک و بت پرستی کا علم اور  معقولیت سے کوئی تعلق نہیں وہ محض خواہش پرستی ہے ۔ '

 

۵۲۔۔۔۔۔۔ یعنی جو اللہ کے ٹھہراۓ ہوۓ قانون ضلالت کے مطابق گمراہ ہوا اس کو راہ راست پر لانا کسی کے بس کی بات نہیں۔

 

۵۳۔۔۔۔۔۔ یعنی جب توحید حقیقت ہے ۔ اور سب سے بڑی حقیقت۔ تو چاہیے کہ اس دین توحید کے لیے اپنے قلب و ذہن کو یکسو کر لو اور اسی پر قائم ہو جاؤ۔ تمہاری نگاہیں ادھر ادھر بھٹکنے نہ پائیں بلکہ دین اسلام ہی پر مرتکز ہو کر رہ جائیں۔

 

اسلام کے سوا جو توحید خالص کا دین ہے کسی بھی مذاہب کی طرف ادنی رجحان بھی ایمان کو متزلزل کر دیتا ہے اور تمام مذاہب کے حق ہونے کا تصور تو سراسر گمراہی ہے ۔

 

۵۴۔۔۔۔۔۔ مراد اسلام ہے اور اسلام کو دین فطرت اس لیے کہا گیا ہے کہ :

 

۱)۔ ہر انسان کی سرشت میں ایک خدا کا تصور موجود ہوتا ہے جسے وہ اپنے خالق اور اپنے رب کی حیثیت سے پہچانتا ہے ۔ دوسرے خداؤں کے تصور سے اس کی فطرت بالکل ناآشنا ہوتی ہے ۔

 

خداۓ واحد کی ربوبیت کا عہد عہد فطرت ہے جو تمام انسانوں سے دنیا میں ان کے بھیجے جانے سے پہلے ہی لیا جا چکا ہے ۔ ملاحظہ ہو سورہ اعراف آیت ۱۷۲ نوٹ ۲۶۴،  ۲۶۵

 

۲)۔ انسان کی فطرت بنیادی طور پر بھلائی اور نیکی کے کاموں کو پسند کرتی ہے اور برائی اور شر سے نفرت کرتی ہے اور اسلام ان فطری داعیات کو پروان چڑھاتا ہے ۔

 

۳)۔ انسان کا اپنا ضمیر اور اس کا پورا وجدان اس کو اپنے رب کے حضور جوابدہ ٹھہراتا ہے اسلام اس تصور کی نہ صرف تائید کرتا ہے بلکہ اس کو دل میں راسخ کر دیتا ہے ۔

 

۴)۔ انسانی فطرت سچ اور جھوٹ میں تمیز کرتی ہے اور جب اسلام ایک سچا دین ہونے کی حیثیت سے اس کے سامنے آ جاتا ہے تو وہ اس کی طرف اس طرح لپکتی ہے جس طرح سوئی مقناطیس کی طرف،  یہ تو خواہشات،  تعصبات اور شیطانی وساوس ہیں جو رکاوٹ بنتے ہیں۔

 

۵)۔ پانی کی فطرت ڈھلوان کی طرف بہنا ہے اسی طرح انسان کی فطرت راہ راست پر چلنا ہے اگر گمراہی کے اسباب نہ ہوں تو جوں ہی اس پر اسلام کی شاہراہ واضح ہو گی وہ اسی پر چل پڑے گا۔ گویا اسلام فطرت کے مضمرات اور اشارات کی توضیح ہے اس لیے یہ ہر شخص کا اپنا دین ہے اور یہ اسلام ہی ہے جو پورے دعوے کے ساتھ کہتا ہے کہ یہ دین دین فطرت ہے جب کہ کوئی دوسرا دین یہ دعویٰ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔

 

اسلام کے دین فطرت ہونے کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح واضح فرمایا ہے :

 

مَامِنْ مَوْ لُوْ دٍ اِلَّا یُو لَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یَھَوِّ دَ ا نِہِ وَیُنَصِّرَانِہِ وَ یُشَرِّکَانِہِ۔  (مسلم کتاب القدر)

 

" حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : کوئی بچہ ایسا نہیں جو فطرت پر پیدا نہ ہوتا ہو۔ پھر اس کے والدین اسے یہودی،  نصرانی یا مشرک بنا دیتے ہیں "۔

 

یعنی بچہ کو اس کے فطری دین سے پھیر کر کسی اور مذہب سے وابستہ کرنے والی چیز ایک خارجی عمل ہوتا ہے یہ عمل والدین یا ماحول انجام دیتا ہے خواہ وہ یہودیت کی شکل میں ہو یا نصرانیت کی شکل میں بدھ مت کی شکل میں ہو یا ہندومت کی شکل میں،  بت پرسیت کی شکل میں ہو یا الحاد و دہریت کی شکل میں۔

 

غرضیکہ جس شخص نے بھی اپنی فطرت کو مسخ نہ کیا ہو وہ اسلام کو اپنے دل ہی کی آواز سمجھے گا۔

 

۵۵۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے اور جس سانچے  (Model) میں ڈھالا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہ کی جاۓ۔ اگرچہ یہ بات عقیدہ کے تعلق سے ارشاد ہوئی ہے لیکن الفاظ کی عمومیت معنی کی وسعت کو لیے ہوۓ ہے جس میں  ظاہری ساخت کو تبدیل نہ کرنا بھی شامل ہے ۔ چنانچہ اس زمانہ میں بعض فیشن ایسے تھے جن سے خلق اللہ  (اللہ کی بنائی ہوئی ساخت) میں تغیر واقع ہوتا تھا اس لیے حدیث میں نہ صرف ان کی ممانعت کر دی گئی بلکہ ایسے فیشن پرستوں کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا مثلاً بھووں کو باریک کرنا،  دانتوں کے درمیان درزیں بنانا،  ہاتھوں کو گوندھنا وغیرہ۔

 

چنانچہ حدیث میں آتا ہے :

 

عن عبداللہ رضی اللہ عنہ قال لَعَنَ اللہُ الوشماتِ وَالْمُسْتَوْ شِماتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلّجَتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَیّرَات خلْؒقَ اللہِ مَلِی لَا اَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَ سَلّم وَ ھُوَفی کتاب اللہ،   (صحیح البخاری۔ کتاب اللباس)۔ "حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ نے لعنت فرمائی ہے گوندھنے والیوں،  گندھوانے والیوں بھووں کے بال نوچ نوچ کر نکالنے والیوں اور دانتوں کے درمیان درزیں پیدا کرنے والیوں پر جو حسن کے لیے اللہ کی خلقت میں تغیر کرتی ہیں۔ میں ان پر کیوں نہ لعنت کروں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت فرمائی ہے اور یہ بات اللہ کی کتاب میں موجود ہے  (یعنی رسول کی اطاعت کا حکم) "

 

اسی طرح موجودہ زمانہ میں ڈاڑھی منڈھانے کا فیشن جب کہ ڈاڑھی فطری طور پر رجولیت  (مردانگی) کا اظہار ہے ،  محض خوبصورتی بڑھانے کے لیے پلاسٹک سرجری کے ذریعہ اپنے چہرہ کو بدلنا اپنی پنڈلیوں کو نازک بنانا،  کسی واقعی مجبوری کے بغیر نس بندی کرانا وغیرہ۔

 

۵۶۔۔۔۔۔۔ اور آج بھی اکثر لوگوں کا حال یہی ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ اسلام ہی فطری اور سچا دین ہے ۔ وہ یا تو یہ سمجھتے ہیں کہ جس مذہب میں وہ پیدا ہوۓ ہیں وہ صحیح مذہب ہے یا یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے سب ہی مذاہب صحیح ہیں جن میں اسلام بھی شامل ہے ۔

 

۵۷۔۔۔۔۔۔ یعنی دین اسلام کی طرف اپنا رخ اس طور سے کر لو کہ دل میں اللہ کے لیے رجوع و انابت ہو۔۔

 

۵۸۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کی عظمت کے تصور سے ڈرو اور اس کی نا فرمانی سے بچو۔

 

۵۹۔۔۔۔۔۔ یہ فقرہ کہ " نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ" اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مسلمان کو مشرک سے ممتاز کرنے والی چیز نماز ہے ۔ نماز قائم کر کے آدمی موحد  (توحید کا ماننے والا) بنتا ہے اور اس کو ترک کر کے اپنے کو شرک اور کفر کی راہ پر ڈال لیتا ہے ۔

 

یہ حقیقت ہے کہ نماز اول تا آخر توحید پر مشتمل ہے ۔ وہ بندہ اور اللہ کے درمیان مناجات اور دعا ہے جس میں نہ کوئی واسطہ ہے اور نہ وسیلہ نہ کسی کی جاہ کا حوالہ دی جاتا ہے نہ کسی کے صدقے میں کچھ مانگا ناتا ہے بلکہ جو کچھ مانگا جاتا ہے اپنے رب سے براہ راست مانگا جاتا ہے اسی کی حمد و ثنا کرتے ہوۓ۔ اگر مسلمان نماز میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے اسی پر غور کریں تو اپنا دامن شر کو بدعات سے جھاڑ دیں۔

 

۶۰۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انعام نوٹ ۲۹۵ ۔

 

۶۱۔۔۔۔۔۔ یعنی ہر مذہب کے پیرو اپنے اپنے مذہب پر خوش اور اس کے معتقد ہیں۔ وہ کبھی یہ سوچنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے کہ جس مذہب پر وہ اعتقاد رکھتے ہیں وہ واقعی اللہ کا نازل کیا ہوا مذہب ہے یا انسانوں کا خود ساختہ۔

 

۶۲۔۔۔۔۔۔ تکلیف میں کدا کا یاد آ جاتا در حقیقت فطرت کی آواز ہے لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگ توحید کے قائل ہو جاتے لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے تکلیف کو دور فرماتا ہے تو انسانوں کی ایک تعداد ایسی ہے جو اس رحمت کو کسی اور کی نوازش قرار دینے اور اس کو خدا کے اختیارات میں شریک ٹھہرانے لگتی ہے ۔

 

۶۳۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا ان لوگوں کے پاس اللہ کی نازل کردہ کوئی سند ہے جو  اس بات کی شہادت دیتی ہو کہ اللہ نے اپنے اختیارات میں فلاں اور فلاں کو شریک کر لیا ہے لہٰذا تم ان کو حاجت روائی لے لیے پکار سکتے ہو اور وہ تمہاری پکار بھی سن سکتے ہیں اور تمہاری فریاد رسی بی کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسی کوئی سند تمہارے پاس موجود نہیں ہے تو تمہارا یہ دعویٰ کتنا غلط اور بے بنیاد ہے ؟

 

معلوم ہوا کہ مختلف مذاہب کی جو کتابیں مقدس سمجھی جاتی ہیں ان میں اگر دیوی دیوتاؤں کا تصور ہے یا خدا کے صفات اور اس کے حقوق و اختیارات میں کسی کو شریک ٹھہرایا گیا ہے تو وہ خدائی سند کی حیثیت ہر گز نہیں رکھتیں کیوں کہ خد نے اس قسم کی کوئی بات کبھی کسی پیغمبر پر نازل نہیں کی اور نہ اپنی کسی کتاب میں بیان فرمایا۔ بلکہ ان مذاہب کے پیروؤں نے وہم پرستی اور انکل کی بنیاد پر خدا کے شریک ٹھہراۓ اور ان کو اپنی مذہبی کتابوں اور گرنتھوں میں شامل کر لیا۔

 

یہ تو ہے مشرکین کا معاملہ لیکن مسلمانوں میں سے بھی ان کے بدعت پسند گروہ نے کچھ کم ظلم نہیں کیا ہے ۔ وہ قطب ابدال اور اولیاء کو اس عالم میں متصرف مانتے ہیں اور تاویل یہ کرتے ہیں ہ ہم ان کو خدا نہیں مانتے بلکہ یہ مانتے ہیں کہ خدا نے ان کو تصرف کے اختیارات دیے ہیں اس لیے وہ مانگنے والے کو دے دیتے ہیں،  فریاد کو پہنچتے اور تکلیف کو دور کرتے ہیں،  غریب کو نوازتے ہیں اور پکارنے والی کی مدد کرتے ہیں۔  سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سند کہاں نازل کی ہے کہ فلاں اور فلاں کو اس نے تصرف کے اختیارات دے رکھے ہیں لہٰذا حاجت روائی کے لیے ان کو پکارا کرو وہ تمہاری مدد کو پہنچیں گے ؟ کیا قرآن میں ایسی کوئی آیت دکھائی جا سکتی ہے ؟ ہر گز نہیں بلکہ قرآن  تو صاف صاف کہتا ہے کہ سارے اختیارات میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ اگر کسی کو اس نے خدائی کے اختیارات دیے ہوتے تو اس کے ذکر سے قرآن کیسے خالی ہو سکتا تھا ؟ پھر یہ بھی سوچیے کہ کسی یا پیر کو دستگیر یا غوث  (فریاد رس) ماننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کی پکار کو جو اس کو پکارتے ہیں غیب میں رہتے ہوۓ سنتا ہے اور ان میں سے ہر ہر شخص کے حال کو جانتا ہے کہ کون مومن ہے اور کون منافق،  کون بیک ہے اور کون بد،  کس نے اس کی منت مانی ہے اور اس کے نام کی نذر و نیاز کرتا ہے ۔ اس تفصیلی واقفیت کے بعد ہی وہ ولی کسی کی فریاد کو پہنچ سکتا ہے اور کسی کی مدد کر سکتا ہے ۔ کسی ولی کسی کی فریاد کو پہنچ سکتا ہے اور کسی کی مدد کر سکتا ہے ۔ کسی ولی کے بارے میں یہ عقیدہ کیا اس کو عالم الغیب ماننے کے مترادف نہیں ہے ؟ اور اگر یہ شرک نہیں تو پھر شرک کیا ہے ؟

 

۶۴۔۔۔۔۔۔ انسان پر جو مصیبتیں آتی ہیں وہ اگرچہ آزمائش کے طور پر آتی ہیں لیکن بسا اوقات اس کے کرتوتوں کے سبب بھی آتی ہیں اور یہ بات عام مشاہدہ میں بھی آتی رہتی ہے ۔

 

۶۵۔۔۔۔۔۔ انسان کا یہ طرز عمل غلط ہے ۔ خدا کی کسی عنایت پر نہ اترانا صحیح ہے اور نہ کسی تکلیف کے پہنچنے پر مایوس ہونا صحیح۔ اسے پہلی حالت میں شکر کرنا چاہیے اور دوسری حالت میں صبر۔

 

۶۶۔۔۔۔۔۔ ایک نشانی یہ کہ رازق اللہ ہی ہے ۔ دوسری یہ کہ رزق خدائی منصوبہ کے مطابق انسان کو ملتا ہے ۔ تیسری یہ کہ اللہ جس کو رزق کم دینا چاہے اس کے لیے اسباب ویسے ہی بنتے ہیں اور انسان کے بس میں یہ نہیں ہے کہ وہ محض پانی تدبیر سے جتنا چاہے رزق حاصل کر لے ۔ چنانچہ کتنے ہی لوگ باوجود اپنی صلاحیت اور تدابیر کے کشادہ رزق حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ ناکامی اس بات کا ثبوت ہے کہ تدبیر ہی سب کچھ نہیں بلکہ اللہ کی مشیت اصل چیز ہے اور چوتھی نشانی یہ کہ رزق کی تنگی اور کشادگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس کو نپا تلا رزق مل رہا ہے وہ اللہ کی نظر میں محبوب نہیں ہے اور جس کو وافر رزق مل رہا ہے وہ ا سکی نظر میں  محبوب ہے بلکہ دونوں ہی صورتوں میں انسان کا امتحان ہے پہلی صورت میں اس کے صبر کا اور دوسری صورت میں اس کے شکر کا۔

 

۶۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے جو رزق تمہیں دیا ہے اس میں امتحان کا پہلو یہ ہے کہ تم ان حقوق کو ادا کرتے ہو یا نہیں جو اس کے دیے ہوۓ رزق میں تم پر اپنے قرابت داروں اور دوسرے حاجت مندوں کے تعلق سے اخلاقاً اور شرعاً عائد ہوتے ہیں۔

 

مسافر سے مراد وہ مسافر ہے جو مسافرت کی وجہ سے مدد کا مستحق ہو گیا ہو۔ مکی دور میں قرابت داروں،  مسکینوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرنے کی تاکید ان کی اخلاقی اور شرعی اہمیت کو واضح کرتی ہے ۔

 

۶۸۔۔۔۔۔۔ یعنی ان حقوق کی ادائیگی خالصۃً  رضاۓ الٰہی کے لیے ہونی چاہیے ۔ اس میں نام و نمود کا کوئی شائبہ نہ ہو۔

 

۶۹۔۔۔۔۔۔ یعنی فلاح پانے والے لوگ وہی ہیں جو اللہ کی رضا جوئی کے لیے کام کریں گے اور ان ذمہ داریوں کو پرا کریں گے جو اس نے اپنے بندوں پر عائد کی ہیں۔

 

۷۰۔۔۔۔۔۔ یہ پہلی آیت ہے جس میں سود کی بے برکتی واضح کی گئی اور یہ اشارہ تھا اس کے  شرعاً نا پسندیدہ ہونے کی طرف۔ مکہ میں جو اس وقت دار الکفر ہو کر رہ گیا تھا سود کی قباحت کو طاہر کرنے والی آیت کا نزول گویا آغاز شریعت ہی میں ذہنوں کو سود کی مخالفت کے رخ پر ڈالنے کے ہم معنی تھا۔ بعد میں اس کی صریح حرمت کا حکم مدینہ میں نازل ہوا  (دیکھیے سورہ بقرہ آیت ۲۷۵ تا ۲۷۹ اور نوٹ ۴۵۵ تا ۴۶۴ نیز سورہ آل عمران آیت ۱۳۰ نوٹ ۱۶۰)۔

 

آیت کا مطلب یہ ہے کہ سود دے کر تم یہ سمجھتے ہو کہ جس کو سود دیا اس کا مال بڑھے گا مگر اس کا بڑھنا خیر سے خالی اور ایسا بے برکت ہوتا ہے کہ اس سے مال میں در حقیقت کوئی افسانہ نہیں ہوتا۔ اللہ کی نظر میں سودی لین دین ایسا نا پسندیدہ معاملہ ہے کہ اس کے نزدیک سود کے مال کی کوڑی برابر بھی قیمت نہیں۔ اور نہ سودی قرضوں پر اس کے ہاں کوئی اجر مرتب ہوتا ہے ۔  (بلکہ شدید گناہ کا کام ہے جیسا کہ سورہ بقرہ آیت ۲۷۵ میں بیان ہوا)۔

 

آیت میں سود دینے کا ذکر ہوا ہے جس کی مناسبت زکوٰۃ دینے کے مقابلہ میں جس کا ذکر بعد کے فقرہ میں ہوا ہے بالکل واضح ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ سود کا دینا باعث خیر نہیں ہے البتہ زکوٰۃ دینا باعث خیر ہے ۔ اس طرح سود لینے والے کو غیرت دلائی گئی ہے کہ قرض دے کر جو سود لیتا ہے اس سے بظاہر اس کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے مگر ایسا مال لینے والے کے لیے حقیقی نشو و نما کا باعث نہیں بنتا کیونکہ سود ظلم ہے اور ظلم کا انجام خسران ہی ہے ۔

 

آیت پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے حالات میں اہل ایمان کے لیے سود دینے کی مجبوری رہی ہو گی اس لیے سود کی مذمت کرتے ہوۓ نشانہ ان لوگوں کو بنایا گیا جو قرض دے کر اپنے مال کو بڑھانے کے لیے سود لیتے تھے ۔

 

مفسرین کے ایک گروہ نے اس آیت میں "ربا" سے مراد عطیہ اور ہدیہ لیا ہے اور تاویل یہ کی ہے کہ کسی کو ہدیہ اس نیت سے دینا کہ اس سے زیادہ اس سے واپس ملے گا اگرچہ گناہ نہیں ہے لیکن شرعاً پسندیدہ بھی نہیں ہے ۔ مگر "ربا" کے یہ معنی لینے کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ "ربا" قرآن کی ایک اصطلاح ہے جس سے سود یعنی وہ زیادتی ہی مراد ہے جو قرض یا واجبات  (دین) میں تاخیر کی بنیاد پر وصول کی جاۓ۔ پھر محل کلام بھی دلیل ہے کہ یہاں سود ہی مراد ہے کیونکہ اوپر کی آیت میں حاجت مندوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم ہو اور یہاں حق تلفی کی وہ صورت جو سود کی شکل میں ہوتی ہے بیان ہوئی نیز بعد والے فقرے میں سود کے بالمقابل زکوٰۃ کے با برکت ہونے کے پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے ۔

 

۷۱۔۔۔۔۔۔ یعنی زکوٰۃ دینے سے بظاہر مال گھٹتا نظر آتا ہے لیکن ایسے مال کی حقیقی معنی میں نشو و نما ہوتی ہے ۔ وہ خیر و برکت کا باعث بنتا ہے ۔ اور زکوٰۃ دینے پر بہت بڑا اجر ملتا ہے ۔

 

حدیث میں صدقہ کا اجر اس طرح بیان ہوا ہے :

 

مَنْ تَصَدَّ قَ بِعَدْلِثَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَلَا ٰیَقْبَلُ اللہُ اِلَّا الطَّیِّبَ فَاِنَّ اللہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہِ تُمَّ یَرَبِّیْھَا  لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَ بِّی اَحَدُ کُمْ فَلُوَّہٗ حَتَّی  تَلُونَ مِثْلَالْجَبَلِ۔  (صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ) " جو شخص اپنی پاک کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرتا ہے ۔ اور اللہ صرف پاک صدقہ ہی کو قبول فرماتا ہے ۔ تو اللہ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول فرماتا ہے پھر اس کو صدقہ دینے والے کے لیے اس طرح نشو و نما دیتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے "۔

 

۷۲۔۔۔۔۔۔ یعنی جب تمہارے ٹھہراۓ شریک ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کرتے تو وہ معبود کیسے ہوۓ ؟

 

۷۳۔۔۔۔۔۔ یہاں فساد سے مراد بد امنی ہے ۔ جو بحر و بر میں برپا ہو گئی تھی چنانچہ عرب کے علاقہ میں قتل و غارت گری کا ماحول تھا اور قریبی ملکوں فارس اور  روم میں تو جنگ ہی برپا تھی۔ اس قتل و غارت گری اور جنگ کے اثرات سے دریاؤں اور سمندروں کے سفر بھی محفوظ نہیں تھے ۔ اسی صورت حال کو خشکی اور تری میں فساد برپا ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کو نتیجہ قرار دیا گیا ہے لوگوں کے کرتوتوں کا۔ مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے جب اللہ کی نافرمانی کیا راہ اختیار کی تو ان میں اخلاقی اور عملی بگاڑ پیدا ہوا اور جب بگاڑ پیدا ہوا تو لوگ قتل غارت گری اور جنگ پر آمادہ ہو گۓ جس  سے ہر طرف بد امنی پھیل گئی۔ واضح ہو کہ لوگوں کے غلط طرز عمل کے نتیجہ میں انسانی سوسائٹی امن سے محروم ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ دنیا میں یہ سزا نہیں ان ہی کے ہاتھوں اس لیے دلواتا رہتا ہے کہ وہ ٹھوکر کھانے کے بعد سنبھل کر لیں اور اپنے رب کی طرف رجوع کریں۔

 

موجودہ زمانہ میں تو بد امنی بالکل عام ہو گئی ہے ۔ خون خرابہ،  لوٹ مار،  فسادات اور جنگوں نے دنیا کو جہنم کا نمونہ بنا دیا ہے ۔ جنگ کی صورت میں تو سمندر بھی محفوظ نہیں رہتے اور بڑے بڑے جہاز غرق کر دیے جاتے ہیں۔ اور لڑائی خشکی و تری ہی میں نہیں ہوتی فضا میں بھی راکٹ چھوڑے جاتے ہیں۔ ہوائی جہاز کے اغوا کے واقعات آۓ دن ہوتے رہتے ہیں اور بموں کا استعمال تو بالکل عام ہو گیا ہے ۔ گویا انسان نے ترقی کی تو یہ کہ فضا کو بھی پر خطر بنا دیا۔ اس طرح انسانیت کے لیے امن و چین کی جگہ نہ خشکی رہی اور نہ تری اور نہ ہی فضاۓ آسمانی۔ ہر جگہ لوگ اپنے ہی کیے کا مزہ چکھ رہے ہیں۔

 

۷۴۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انعام نوٹ ۲۰۔

 

۷۵۔۔۔۔۔۔ مراد وہ قومیں ہیں جن پر عذاب آیا۔ ان قوموں میں اکثریت مشرکوں ہی  کی تھی۔ توحید پر ایمان لانے والے بہت کم تھے اور وہی بچا لیے گۓ۔

 

۷۶۔۔۔۔۔۔ یعنی لوگ اپنے عقیدہ و عمل کی بناء پر الگ الگ گروہوں میں بٹ جائیں گے ۔

 

۷۷۔۔۔۔۔۔ اس طرح قرآن ہر شخص کو اس کی اپنی ذمہ داری محسوس کراتا ہے اور یہ دعوت قرآنی اور دعوت انبیائی کی اہم ترین خصوصیت ہے ۔ موجودہ دور میں دعوت اسلامی کو پیش کرنے کا ایک ایسا طریقہ رائج ہو گیا ہے جو فرد کو اس کی ذاتی ذمہ داری سے زیادہ سوسائٹی کو اس کی اجتماعی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتا ہے اور نجات اخروی سے زیادہ " نجات دنیوی" کا فکر مند بناتا ہے ۔

 

۷۸۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کا سب سے اہم اور مثبت پہلو یہی ہے کہ اللہ اپنے وفادار بندوں کو اپنے فضل سے نوازے ۔ رہے کافر اور سرکش لوگ تو اللہ انہیں ہر گز پسند نہیں کرتا اور جب وہ پسند نہیں کرتا تو ان کو وہ کیوں اپنے فضل سے نوازنے لگے ۔ انہوں نے جیسا کیا ویسا بھریں گے ۔

 

 ۷۹ ۔۔۔۔۔۔ یعنی بارانِ رحمت کا۔

 

۸۰۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر لوگ ہواؤں اور اس قسم کی دوسری نشانیوں کے ذریعہ بھی اپنے رب کی صحیح پہچان  (معرفت) حاصل نہیں کرتے تو اللہ نے ان پر حجت قائم کرنے کے لیے رسول بھیجے ۔ پھر حق کے پوری طرح واضح ہو جانے کے بعد بھی جنہوں نے کفر کر کے مجرمانہ طرز عمل اختیار کیا ان کو آخر کار سزا دی گئی اور جب انہیں سزا دینے اور ہلاک کرنے کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بچا لیا۔ یہ اس کی نصرت تھی جو بالآخر اہل ایمان کے حق میں ظاہر ہوئی اور اللہ کا یہ پہلے سے طے شدہ فیصلہ تھا کہ وہ اس عذاب سے جو رسول کو جھٹلانے کی صورت میں اس کی قوم پر آۓ گا اہل ایمان کو وہ بچاۓ گا اور فتح مندی انہیں کے حصہ میں آۓ گی۔

 

۸۱۔۔۔۔۔۔ یعنی ان ہواؤں کو بھیجے جانے اور ان کے بادلوں کو اٹھاۓ جانے سے قبل۔

 

۸۲۔۔۔۔۔۔ بارش کا نظام انسان کو دعوت فکر دیتا ہے اور لوگوں کی نا امیدی کو امید میں تبدیل بھی کر دیتا ہے مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ نہ وہ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ بارش کا یہ حیرت انگیز نظام کس کے قدرت کی کرشمہ سازی ہے اور نہ اس خوشی پر جو انہیں مایوسی کے بعد ہوتی ہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔

 

۸۳۔۔۔۔۔۔ یعنی مردہ زمین کا بارش ہوتے ہی زندہ ہو جانا اللہ کی رحمت کا ظہور ہے اور اسی طرح مردہ انسانوں کا زندہ ہو جانا بھی اس کی رحمت کا ظہور ہو گا۔ یہ اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ دوسری زندگی کا مثبت پہلو رحمت الٰہی کا ظہور ہے اس کے نیک بندوں کے حق میں جن لوگوں نے اپنا رز خالص ہونا دنیوی زندگی میں ثابت کر دکھایا انہیں اخروی زندگی میں اعلیٰ مقام پر رکھا جاۓ اور انہیں اپنی رحمت سے مالا مال کیا جاۓ۔ رہا کھوٹ تو وہ آگ ہی میں جلاۓ جانے کے لائق ہے ۔

 

۸۴۔۔۔۔۔۔ اوپر رحمت لانے والی ہواؤں کا ذکر تھا یہاں آفت لانے والی ہوا کا ذکر ہے کہ اگر ہم ایسی تند ہوا چلائیں جو کھیتوں کو ان کے سر سبز ہونے کے بعد تہس نہس کر کے رکھ دے اور اس کا سبز رنگ زرد رنگ میں تبدیل ہو کر رہ جاۓ تو یہ اپنے رب سے شاکی ہو کر کفر ہی کرنے لگیں گے ۔ ان کا طرز عمل اپنے رب کے ساتھ بہت عجیب ہے ۔ اس کی نوازش پر وہ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور مصیبت کے پہنچ جانے پر وہ کفر کرنے لگتے ہیں۔

 

۸۵۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورہ نمل نوٹ ۱۱۸ میں گزر چکی۔

 

واضح رہے کہ سماع موتیٰ  (مردوں کے سننے ) کی تائید میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث جو پیش کی جاتی ہے کہ آپ نے بدر میں کفار کی لاشوں سے خطاب کرتے ہوۓ فرمایا تھا:

 

ھَلْ وَجَدْ تُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ثُمَّ قَلَ اِنَّہُمْ الْآ نَیَسْمَعُوْنَ مَا اَقُوْلُ۔  (بخاری کتاب المفازی)

 

" کیا تم نے اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا ؟ پھر  فرمایا اس وقت وہ سن رہے ہیں جو میں کہہ رہا ہوں۔ "

 

تو اس حدیث کا وہ مفہوم نہیں ہے جو عام طور سے سمجھا جاتا ہے چنانچہ بخاری ہی کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی تردید کرتے ہوۓ فرمایا۔

 

اِنَّمَا قَلَ النَّبیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ اِنَّھُمُ الْآ نَ لَیَعُلَمُوْنَ اَنَّ الَّذِی کُنْتَاَقُوْلْ لَھُمْ حُوَا لْحَقُّ تَمُ قَرَأ تْ اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمُوْتٰی حَتّٰی قَرأت الْاٰیَۃَ۔

 

"نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تو یہ فرمایا کہ انہیں اب معلوم ہو گیا ہے کہ میں جو کچھ ان سے کہتا تھا وہ حق ہے پھر حضرت عائشہ نے یہ آیت اخیر تک پڑھی اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی تم مردوں کو نہیں سنا سکتے ۔۔۔۔۔ "

 

اور جب قرآن واضح طور سے کہہ رہا ہے کہ تم مردوں کو نہیں سنا سکتے تو پھر کسی بھی متعلقہ حدیث کے لازماً وہی معنی لینا ہوں گے جو قرآن کے اس بیان سے مطابقت رکھتے ہوں۔

 

۸۶۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ نمل نوٹ ۱۱۹۔

 

۸۷۔۔۔۔۔۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ کمزور حالت میں ہوتا ہے پھر رفتہ رفتہ قوت پا کر جوانی کی عمر کو پہنچتا ہے تو مضبوط اور طاقت ور بن جاتا ہے ۔ پھر یہ طاقت رفتہ رفتہ اس سے چھین لی جاتی ہے چنانچہ بڑھاپے میں وہ پھر کمزور ہو کر رہ جاتا ہے یہ ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیلی اور انسان کی خود اپنے معاملہ میں یہ بے بسی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس کا رب ہی ہے جو جس طرح چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جن مرحلوں سے چاہتا ہے اس کو گزارتا ہے ۔ پھر انسان کو یہ کس طرح زیب دیتا ہے کہ قوت پا لینے کے بعد گھمنڈ کرنے لگے اور اپنے رب کو بھول جاۓ۔

 

۸۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جو وقت انہوں نے موت کے بعد گزارا اس کے بارے میں وہ خیال کریں گے کہ وہ ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں تھا حالانکہ وہ ایک مدت گزار چکے ہوں گے ۔ وہجس طرح موت اور قیامت کے درمیانی وقفہ کے بارے میں غلط اندازہ لگائیں گے سی طرح وہ دنیا میں بھی اپنے بارے میں غلط اندازہ لگاتے رہے ہیں۔ اگر اس وقت وہ اپنی دنیوی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھتے تو وہ انہیں بہت مختصر محسوس ہوتی اور وہ آخرت کو اصل زندگی سمجھ کر اس کے لیے تیاری کرتے مگر دھوکے میں رہ کر انہوں نے یہ موقع کھو دیا۔

 

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قبر  (عالم برزخ) میں تو کافر طویل عرصہ تک عذاب بھگت چکے ہوں گے پھر وہ اس کو ایک گھڑی بھر کی بات کس طرح خیال کریں گے ؟ تو اصل میں برزخ میں وہ جس حالت میں رہیں گے وہ نیند سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے ۔ سورہ یٰس میں ہے کہ جب وہ قیامت کے دن اٹھیں گے تو کہیں گے مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقدِنَا۔  (ہماری خواب گاہوں سے ہم کو کس نے اٹھایا) اور یہ واقعہ ہے کہ نیند کی حالت میں جو کچھ انسان پر گزرتی ہے وہ سب اول تو اسے یاد نہیں رہتا پھر نیند سے اٹھنے کے بعد اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی سوۓ تھے ابھی اٹھے ۔ اس لیے اگر کافر ان واردات کو بھلا چکے ہوں جو ان کی روح پر قیامت تک گزرتی رہی اور وہ یہ محسوس کریں کہ ہم گھڑی بھر سو کر اٹھے ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ برزخ کے احوال کی اس نوعیت کو سامنے نہ رکھنے کی وجہ سے لوگ برزخ کے عذاب ہی کے منکر ہو جاتے ہیں حالانکہ کافروں کے لیے برزخ کا عذاب قرآن سے ثابت ہے اور حدیث میں اس کو عذاب قبر سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کا تعلق روح سے ہے کیونکہ جسم سڑ گل کر مٹی بن جاتا ہے اور کتنے ہی کافروں کی لاشوں کی قبریں بنتی ہی نہیں ہیں کیونکہ وہ جلائی جاتی ہیں۔ البتہ قیامت کے دن انسان کو جسم سمیت اٹھایا جاۓ گا۔ اس صورت میں کافر عذاب کی تکلیف پوری طرح محسوس کریں گے ۔

 

۸۹۔۔۔۔۔۔ یعنی تم موت اور قیامت کے درمیان کی طویل مدت عالم برزخ میں گزار چکے ہو۔ یہ مدت کتنی تھی وہ اللہ ہی کو معلوم ہے اور اس کے ریکارڈ میں اس کا اندراج ہے ۔

 

۹۰۔۔۔۔۔۔ یعنی امتحان کا وقت نکل چکا ہو گا اور وہ جزا و سزا کا دن ہو گا اس لیے جن لوگوں نے اپنے جنس پر ظلم کر کے اپنے کو شرک اور کفر کی راہ پر ڈال دیا تھا ان کی نہ معذرت قابل قبول ہو گی اور نہ ان کے لیے اس بات کا موقع ہو گا کہ وہ توبہ کر کے اللہ سے معافی مانگیں۔ یہ موقع دنیا میں تھا جو انہوں نے کھو دیا۔

 

۹۱۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ سمجھنا چاہتے ہیں ان کے لیے قرآن کافی ہے لیکن جو اپنے کفر کو چھوڑنا نہیں چاہتے وہ کوئی بڑے سے بڑا حسی معجزہ بھی نبی سے صادر ہوتے ہوۓ دیکھ لیں تب بھی وہ نبی کو جھٹلانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے ۔

 

۹۲۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ علم ہدایت سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور اس سے دور ہی دور رہنا چاہتے ہیں وہ رفتہ رفتہ قبول حق کی صلاحیت کھو دیتے ہیں اور پھر نصیحت کی کوئی بات ان کے دل میں اترنے نہیں پاتی۔ اس نفسیاتی کیفیت کو دلوں پر مہر لگنے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

 

۹۳۔۔۔۔۔۔ یہ نبی کو اور اس کے واسطہ سے اہل ایمان کو نصیحت ہے کہ تم حالات کی ناسازگاری سے پریشان نہ ہو بلکہ صبر کے ساتھ حق پر جمے رہو اور پورے حوصلہ اور مضبوطی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہو تاکہ آخرت پر یقین نہ رکھنے والے تم کو بے وقعت خیال کر کے یہ راۓ قائم نہ کر بیٹھیں کہ ان لوگوں کو آسانی سے دبایا جا سکتا ہے بلکہ تمہاری یہ حیثیت ان پر واضح ہو جانی چاہیے کہ یہ لوہے کے چنے کو چبانا آسان نہیں۔

***