۱ سورۂ شوریٰ جمہور کے نزدیک مکّیہ ہے اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ایک قول میں اس کی چار آیتیں مدینہ طیّبہ میں نازل ہوئیں جن میں کی پہلی قُلْ لَّۤآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا ہے، اس سورت میں پانچ۵ رکوع، تریپن۵۳ آیتیں، آٹھ سو ساٹھ ۸۶۰کلمے اور تین ہزار پانچ سو اٹھاسی ۳۵۸۸حرف ہیں۔
۳ انبیاء علیہم السلام میں سے وحی فرما چکا۔
۴ اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے علوئے شان سے۔
۵ یعنی ایمان داروں کے لئے کیونکہ کافر اس لائق نہیں ہیں کہ ملائکہ ان کے لئے استغفار کریں، یہ ہو سکتا ہے کہ کافروں کے لئے یہ دعا کریں کہ انہیں ایمان دے کر ان کی مغفرت فرما۔
۶ یعنی بت جن کو وہ پوجتے اور معبود سمجھتے ہیں۔
۷ ان کے اعمال، افعال اس کے سامنے ہیں، وہ انہیں بدلہ دے گا۔
۸ تم سے ان کے افعال کا مؤاخذہ نہ ہو گا۔
۹ یعنی تمام عالَم کے لوگ ان سب کو۔
۱۰ یعنی روزِ قیامت سے ڈراؤ جس میں اﷲ تعالیٰ اوّلین و آخرین اور اہلِ آسمان و زمین سب کو جمع فرمائے گا اور اس جمع کے بعد پھر سب متفرّق ہوں گے۔
۱۱ اس کو اسلام کی توفیق دیتا ہے۔
۱۲ یعنی کافروں کو کوئی عذاب سے بچانے والا نہیں۔
۱۳ یعنی کفّار نے اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنا والی بنا لیا ہے، یہ باطل ہے۔
۱۴ تو اسی کو والی بنانا سزاوار ہے۔
۱۵ دِین کی باتوں میں سے کفّار کے ساتھ۔
۱۶ روزِ قیامت تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا تم ان سے کہو۔
۲۰ مراد یہ ہے کہ آسمان و زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں خواہ مینہ کے خزانے ہوں یا رزق کے۔
۲۱ جس کے لئے چاہے وہ مالک ہے، رزق کی کنجیاں اس کے دستِ قدرت میں ہیں۔
۲۲ نوح علیہ السلام صاحبِ شرع انبیاء میں سب سے پہلے نبی ہیں۔
۲۳ اے سیدِ انبیاء محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۲۴ معنیٰ یہ ہیں کہ حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام سے آپ تک اے سیدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جتنے انبیاء ہوئے سب کے لئے ہم نے دِین کی ایک ہی راہ مقرر کی جس میں وہ سب متفق ہیں وہ راہ یہ ہے۔
۲۵ مراد دِین سے اسلام ہے، معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی طاعت اور اس پر اور اس کے رسولوں پر اور اس کی کتابوں پر اور روزِ جزا پر اور باقی تمام ضروریاتِ دِین پر ایمان لانا لازم کرو کہ یہ امور تمام انبیاء کی امّتوں کے لئے یکساں لازم ہیں۔
۲۶ حضرت علیِ مرتضیٰ کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ جماعت رحمت اور فرقت عذاب ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اصولِ دِین میں تمام مسلمان خواہ وہ کسی عہد یا کسی امّت کے ہوں یکساں ہیں، ان میں کوئی اختلاف نہیں، البتہ احکام میں امّتیں باعتبار اپنے احوال و خصوصیات کے جداگانہ ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجاً۔
۲۷ یعنی بتوں کو چھوڑنا اور توحید اختیار کرنا۔
۲۸ اپنے بندوں میں سے اسی کو توفیق دیتا ہے۔
۳۰ یعنی اہلِ کتاب نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے بعد جو دِین میں اختلاف ڈالا کہ کسی نے توحید اختیار کی، کوئی کافر ہو گیا، وہ اس سے پہلے جان چکے تھے کہ اس طرح اختلاف کرنا اور فرقہ فرقہ ہو جانا گمراہی ہے لیکن باوجود اس کے انہوں نے یہ سب کچھ کیا۔
۳۱ اور ریاست و نا حق کی حکومت کے شوق میں۔
۳۴ کافروں پر دنیا میں عذاب نازل فرما کر۔
۳۶ یعنی اپنی کتاب پر مضبوط ایمان نہیں رکھتے یا یہ معنیٰ ہیں کہ وہ قرآن کی طرف سے یا سیدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی طرف سے شک میں پڑے ہیں۔
۳۷ یعنی ان کفّار کے اس اختلاف و پراگندگی کی وجہ سے انہیں توحید اور ملّتِ حنیفیہ پر متفق ہونے کی دعوت دو۔
۳۸ دِین پر اور دِین کی دعوت دینے پر۔
۳۹ یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام کتابوں پر کیونکہ متفرقین بعض پر ایمان لاتے تھے اور بعض سے کفر کرتے تھے۔
۴۰ تمام چیزوں میں اور جمیع احوال میں اور ہر فیصلہ میں۔
۴۲ ہر ایک اپنے عمل کی جزا پائے گا۔
کیونکہ حق ظاہر ہو چکا وَھٰذِہِ الْآ یَۃُ مَنْسُوْخَۃبِآ یَۃِ الْقِتَالِ۔
۴۵ مراد ان جھگڑنے والوں سے یہود ہیں، وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو پھر کفر کی طرف لوٹائیں اس لئے جھگڑا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا دِین پرانا، ہماری کتاب پرانی، ہمارے نبی پہلے، ہم تم سے بہتر ہیں۔
۴۸ یعنی قرآنِ پاک جو قِسم قِسم کے دلائل و احکام پر مشتمل ہے۔
۴۹ یعنی اس نے اپنی کتبِ منزّلہ میں عدل کا حکم دیا۔ بعض مفسّرین نے کہا ہے کہ مراد میزان سے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ذاتِ گرامی ہے۔
۵۰ شانِ نزول : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے قیامت کا ذکر فرمایا تو مشرکین نے بطریقِ تکذیب کہا کہ قیامت کب ہو گی ؟ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔
۵۱ اور یہ گمان کرتے ہیں کہ قیامت آنے والی ہی نہیں، اسی لئے بطریقِ تمسخر جلدی مچاتے ہیں۔
۵۲ بے شمار احسان کرتا ہے نیکوں پر بھی اور بدوں پر بھی حتّیٰ کہ بندے گناہوں میں مشغول رہتے ہیں اور وہ انہیں بھوک سے ہلاک نہیں کرتا۔
۵۳ اور فراخیِ عیش عطا فرماتا ہے مومن کو بھی اور کافر کو بھی حسبِ اقتضائے حکمت۔ حدیث شریف میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بعضے مومن بندے ایسے ہیں کہ تونگری ان کے قوّت و ایمان کا باعث ہے، اگر میں انہیں فقیر محتاج کر دوں تو ان کے عقیدے فاسد ہو جائیں اور بعضے بندے ایسے ہیں کہ تنگی اور محتاجی ان کے قوّتِ ایمان کا باعث ہے، اگر میں انہیں غنی، مالدار کر دوں تو ان کے عقیدے خراب ہو جائیں۔
۵۴ یعنی جس کو اپنے اعمال سے نفعِ آخرت مقصود ہو۔
۵۵ اس کو نیکیوں کی توفیق دے کر اور اس کے لئے خیرات و طاعات کی راہیں سہل کر کے اور اس کی نیکیوں کا ثواب بڑھا کر۔
۵۶ یعنی جس کا عمل محض دنیا حاصل کرنے کے لئے ہو اور وہ آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ (مدارک)
۵۷ یعنی دنیا میں جتنا اس کے لئے مقدّر کیا ہے۔
۵۸ کیونکہ اس نے آخرت کے لئے عمل کیا ہی نہیں۔
۵۹ معنیٰ یہ ہیں کہ کیا کفّارِ مکّہ اس دِین کو قبول کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرّر فرمایا یا ان کے کچھ ایسے شرکاء ہیں شیاطین وغیرہ۔
۶۱ جو شرک و انکارِ بعث پر مشتمل ہے۔
۶۲ یعنی وہ دِینِ الٰہی کے خلاف ہے۔
۶۳ اور جزاء کے لئے روزِ قیامت معیّن نہ فرما دیا گیا ہوتا۔
۶۴ اور دنیا ہی میں تکذیب کرنے والوں کو گرفتارِ عذاب کر دیا جاتا۔
۶۵ آخرت میں۔ اور ظالموں سے مراد یہاں کافر ہیں۔
۶۶ یعنی کفر و اعمالِ خبیثہ سے جو انہوں نے دنیا میں کمائے تھے۔ اس اندیشہ سے کہ اب انکی سزا ملنے والی ہے۔
۶۷ ضرور ان سے کسی طرح بچ نہیں سکتے ڈریں یا نہ ڈریں۔
۶۸ تبلیغِ رسالت اور ارشاد و ہدایت۔
۶۹ اور تمام انبیاء کا یہی طریقہ ہے۔ شانِ نزول: حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم مدینہ طیّبہ میں رونق افروز ہوئے اور انصار نے دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذمّہ مصارف بہت ہیں اور مال کچھ بھی نہیں ہے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور حضور کے حقوق و احسانات یاد کر کے حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے بہت سا مال جمع کیا اور اس کو لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور کی بدولت ہمیں ہدایت ہوئی، ہم نے گمراہی سے نجات پائی، ہم دیکھتے ہیں، کہ حضور کے مصارف بہت زیادہ، اس لئے ہم یہ مال خدّامِ آستانہ کی خدمت میں نذر کے لئے لائے ہیں، قبول فرما کر ہماری عزّت افزائی کی جائے، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے وہ اموال واپس فرما دیئے۔
۷۰ تم پر لازم ہے کیونکہ مسلمانوں کے درمیان مودّت، محبّت واجب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَلْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضھُُمْ اَوْلِیَآ ءُ بَعْضٍ۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ مسلمان مثل ایک عمارت کے ہیں جس کا ہر ایک حِصّہ دوسرے حصّہ کو قوّت اور مدد پہنچاتا ہے، جب مسلمانوں میں باہم ایک دوسرے کے ساتھ محبّت واجب ہوئی تو سیدِ عالَمین صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ کس قدر محبّت فرض ہو گی، معنیٰ یہ ہیں کہ میں ہدایت و ارشاد پر کچھ اجرت نہیں چاہتا لیکن قرابت کے حقوق تو تم پر واجب ہیں، ان کا لحاظ کرو اور میرے قرابت والے تمہارے بھی قرابتی ہیں، انہیں ایذا نہ دو۔ حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ قرابت والوں سے مراد حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی آلِ پاک ہے۔ (بخاری) مسئلہ: اہلِ قرابت سے کون کون مراد ہیں اس میں کئی قول ہیں، ایک تو یہ کہ مراد اس سے حضرت علی و حضرت فاطمہ و حسنین کریمین ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہم، ایک قول یہ ہے کہ آلِ علی و آلِ عقیل و آلِ جعفر و آلِ عباس مراد ہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ حضور کے وہ اقارب مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور وہ مخلصینِ بنی ہاشم و بنی مطّلب ہیں، حضور کی ازواجِ مطہّرات حضور کے اہلِ بیت میں داخل ہیں۔ مسئلہ : حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی محبّت اور حضور کے اقارب کی محبّت دِین کے فرائض میں سے ہے۔ (جمل وخازن وغیرہ)
۷۱ یہاں نیک کام سے مراد یا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے آلِ پاک کی محبّت ہے یا تمام امورِ خیر۔
۷۲ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نسبت کفّارِ مکّہ۔
۷۳ نبوّت کا دعویٰ کر کے یا قرآنِ کریم کو کتابِ الٰہی بتا کر۔
۷۴ کہ آپ کو ان کی بد گوئیوں سے ایذا نہ ہو۔
۷۶ جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر نازل فرمائیں چنانچہ ایسا ہی کیا کہ ان کے باطل کو مٹایا اور کلمۂ اسلام کو غالب کیا۔
۷۷ مسئلہ : توبہ ہر ایک گناہ سے واجب ہے اور توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی بدی و معصیّت سے باز آئے اور جو گناہ اس سے صادر ہوا اس پر نادم ہو اور ہمیشہ گناہ سے مجتنب رہنے کا پختہ ارادہ کرے، اور اگر گناہ میں کسی بندے کی حق تلفی بھی تھی تو اس حق سے بطریقِ شرعی عہدہ برآ ہو۔
۷۹ تکبّر و غرور میں مبتلا ہو کر۔
۸۰ جس کے لئے جتنا مقتضائے حکمت ہے اس کو اتنا عطافرماتا ہے۔
۸۱ اور مینھ سے نفع دیتا ہے اور قحط کو دفع فرماتا ہے۔
۸۳ یہ خطاب مومنینِ مکلَّفین سے ہے جن سے گناہ سرزد ہوتے ہیں، مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں، ان تکلیفوں کو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کا کَفّارہ کر دیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے رفعِ درجات کے لئے ہوتی ہے جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں وارد ہے انبیاء علیہم السلام جو گناہوں سے پاک ہیں اور چھوٹے بچّے جو مکلَّف نہیں ہیں اس آیت کے مخاطب نہیں۔ فائدہ : بعضے گمراہ فرقے جو تناسخ کے قائل ہیں اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ چھوٹے بچّوں کو جو تکلیف پہنچتی ہے، اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ان کے گناہوں کا نتیجہ ہو اور ابھی تک ان سے کوئی گناہ ہوا نہیں تو لازم آیا کہ اس زندگی سے پہلے کوئی اور زندگی ہو جس میں گناہ ہوئے ہوں، یہ بات باطل ہے کیونکہ بچّے اس کلام کے مخاطب ہی نہیں جیسا کہ بالعموم تمام خطاب عاقلین، بالغین کو ہوتے ہیں، پس تناسخ والوں کا استدلال باطل ہوا۔
۸۴ جو مصیبتیں تمہارے لئے مقدّر ہو چکی ہیں ان سے کہیں بھاگ نہیں سکتے، بچ نہیں سکتے۔
۸۵ کہ اس کی مرضی کے خلاف تمہیں مصیبت و تکلیف سے بچا سکے۔
۹۰ صابر، شاکر سے مومنِ مخلص مراد ہے جو سختی و تکلیف میں صبر کرتا ہے اور راحت و عیش میں شکر۔
۹۳ گناہوں میں سے کہ ان پر عذاب نہ کرے۔
۹۶ صرف چند روز اس کو بقا نہیں۔
۹۸ شانِ نزول : یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نازل ہوئی جب آپ نے اپنا کل مال صدقہ کر دیا اور اس پر عرب کے لوگوں نے آپ کو ملامت کی۔
۹۹ شانِ نزول : یہ آیت انصار کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کر کے ایمان و طاعت کو اختیار کیا۔
۱۰۱ وہ جلدی اور خود رائی نہیں کرتے۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو قوم مشورہ کرتی ہے وہ صحیح راہ پر پہنچتی ہے۔
۱۰۲ یعنی جب ان پر کوئی ظلم کرے تو انصاف سے بدلہ لیتے ہیں اور بدلے میں حد سے تجاوز نہیں کرتے۔ ابنِ زید کا قول ہے کہ مومن دو طرح کے ہیں ایک وہ جو ظلم کو معاف کرتے ہیں، پہلی آیت میں ان کا ذکر فرمایا گیا، دوسرے وہ جو ظالم سے بدلہ لیتے ہیں، ان کا اس آیت میں ذکر ہے۔ عطا نے کہا کہ یہ وہ مومنین ہیں جنہیں کفّار نے مکّہ مکرّمہ سے نکالا اور ان پر ظلم کیا پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سرزمین میں تسلّط دیا اور انہوں نے ظالموں سے بدلہ لیا۔
۱۰۳ معنیٰ یہ ہیں کہ بدلہ قدرِ جنایت ہونا چاہئے، اس میں زیادتی نہ ہو اور بدلے کو برائی کہنا مجاز ہے کہ صورۃً مشابہ ہونے کے سبب سے کہا جاتا ہے اور جس کو وہ بدلہ دیا جائے اسے بُرا معلوم ہوتا ہے اور برائی کے ساتھ تعبیر کرنے میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اگرچہ بدلہ لینا جائز ہے لیکن عفو اس سے بہتر ہے۔
۱۰۴ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ظالموں سے وہ مراد ہیں جو ظلم کی ابتدا کریں۔
۱۰۶ تکبّر اور معاصی کا ارتکاب کر کے۔
۱۰۷ ظلم و ایذا پر اور بدلہ نہ لیا۔
۱۱۰ یعنی دنیا میں تاکہ وہاں جا کر ایمان لے آئیں۔
۱۱۱ یعنی ذلّت و خوف کے باعث آگ کو دزدیدہ نگاہوں سے دیکھیں گے جیسے کوئی گردن زدنی اپنے قتل کے وقت تیغ زن کی تلوار کو دزدیدہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔
۱۱۲ جانوں کا ہارنا تو یہ ہے کہ وہ کفر اختیار کر کے جہنّم کے دائمی عذاب میں گرفتار ہوئے اور گھر والوں کا ہارنا یہ ہے کہ ایمان لانے کی صورت میں جنّت کی جو حوریں ان کے لئے نامزد تھیں ان سے محروم ہو گئے۔
۱۱۴ اور اس کے عذاب سے بچا سکتے۔
۱۱۵ خیر کا۔ نہ وہ دنیا میں حق تک پہنچ سکے، نہ آخرت میں جنّت تک۔
۱۱۶ اور سیدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی فرماں برداری کر کے توحید و عبادتِ الٰہی اختیار کرو۔
۱۱۷ اس سے مراد یا موت کا دن ہے یا قیامت کا۔
۱۱۸ اپنے گناہوں کا یعنی اس دن کوئی رہائی کی صورت نہیں، نہ عذاب سے بچ سکتے ہو، نہ اپنے اعمالِ قبیحہ کا انکار کر سکتے ہو جو تمہارے اعمال ناموں میں درج ہیں۔
۱۱۹ ایمان لانے اور اطاعت کرنے سے۔
۱۲۰ کہ تم پر ان کے اعمال کی حفاظت لازم ہو۔
۱۲۱ اور وہ تم نے ادا کر دیا۔ (وکان ہٰذا قبل الامربالجہاد)
۱۲۲ خواہ وہ دولت و ثروت ہو یا صحت و عافیّت یا امن و سلامت یا جاہ و مرتبت۔
۱۲۳ یا اور کوئی مصیبت و بَلا مثل قحط و بیماری و تنگ دستی وغیرہ کے رونما ہو۔
۱۲۴ یعنی ان کی نافرمانیوں اور معصیّتوں کے سبب سے۔
۱۲۶ جیسا چاہتا ہے تصرّف فرماتا ہے،کوئی دخل دینے اور اعتراض کرنے کی مجال نہیں رکھتا۔
۱۲۹ کہ اس کے اولاد ہی نہ ہو، وہ مالک ہے، اپنی نعمت کو جس طرح چاہے تقسیم کرے، جسے جو چاہے دے، انبیاء علیہم السلام میں بھی یہ سب صورتیں پائی جاتی ہیں، حضرت لوط و حضرت شعیب علیہما السلام کے صرف بیٹیاں تھیں،کوئی بیٹا نہ تھا اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صرف فرزند تھے، کوئی دُختر ہوئی ہی نہیں اور سیدِ انبیاء حبیبِ خدا محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے چار فرزند عطا فرمائے اور چار صاحب زادیاں اور حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کوئی اولاد ہی نہیں۔ٍ
۱۳۰ یعنی بے واسطہ اس کے دل میں القا فرما کر اور الہام کر کے بیداری میں یا خواب میں، اس میں وحی کا وصول بے واسطہ سمع کے ہے اور آیت میں اِلاَّوَحْیًا سے یہی مراد ہے، اس میں یہ قید نہیں کہ اس حال میں سامع متکلم کو دیکھتا ہو یا نہ دیکھتا ہو۔ مجاہد سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کے سینۂ مبارک میں زبور کی وحی فرمائی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ذبحِ فرزند کی خواب میں وحی فرمائی اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے معراج میں اسی طرح کی وحی فرمائی جس کا فَاَوۡحیٰ اِلیٰ عَبْدِہٖ مَآ اَوْحیٰ میں بیا ن ہے، یہ سب اسی قِسم میں داخل ہیں، انبیاء کے خواب حق ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ انبیاء کے خواب وحی ہیں۔ (تفسیر ابی السعودو کبیر و مدارک وزرقانی علی المواہب وغیرہ)
۱۳۱ یعنی رسول پسِ پردہ اس کا کلام سنے، اس طریقِ وحی میں بھی کوئی واسطہ نہیں، مگر سامع کو اس حال میں متکلم کا دیدار نہیں ہوتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اسی طرح کے کلام سے مشرف فرمائے گئے۔ شانِ نزول : یہود نے حضور ِ پر نور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کہا تھا کہ اگر آپ نبی ہیں تو اللہ تعالیٰ سے کلام کرتے وقت اس کو کیوں نہیں دیکھتے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام دیکھتے تھے حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے جواب دیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں دیکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مسئلہ: اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کے لئے کوئی ایسا پردہ ہو جیسا جسمانیات کے لئے ہوتا ہے، اس پردہ سے مراد سامع کا دنیا میں دیدار سے محجوب ہونا ہے۔
۱۳۲ اس طریقِ وحی میں رسول کی طرف فرشتہ کی وساطت ہے۔
۱۳۳ اے سیدِ عالَم خاتَمُ المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۱۳۴ یعنی قرآنِ پاک جو دلوں میں زندگی پیدا کرتا ہے۔