۱۔ سورۂ اَنعام مکی ہے، اس میں بیس رکوع اور ایک سو پینسٹھ آیتیں، تین ہزار ایک سو کلمہ اور بارہ ہزار نو سوپینتیس حرف ہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ یہ کُل سورۃ ایک ہی شب میں بمقام مکّہ مکرّمہ نازل ہوئی اور اس کے ساتھ ستّر ہزار فرشتے آئے جن سے آسمانوں کے کنارہ بھر گئے۔ یہ بھی ایک روایت میں ہے کہ وہ فرشتے تسبیح و تقدیس کرتے آئے اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سبحان ربی العظیم فرماتے ہوئے سربسجود ہوئے۔
۲۔ حضرت کعب احبار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا توریت میں سب سے اول یہی آیت ہے اس آیت میں بندوں کو شانِ استغناء کے ساتھ حمد کی تعلیم فرمائی گئی اور پیدائشِ آسمان و زمین کا ذکر اس لئے ہے کہ ان میں ناظرین کے لئے بہت عجائبِ قدرت و غرائبِ حکمت اور عبرتیں و منافع ہیں۔
ٍ۳۔ یعنی ہر ایک اندھیری اور روشنی خواہ وہ اندھیری شب کی ہو یا کُفر کی یا جہل کی یا جہنّم کی اور روشنی خواہ دن کی ہو یا ایمان و ہدایت و علم و جنّت کی۔ ظلمات کو جمع اور نور کو واحد کے صیغہ سے ذکر فرمانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ باطل کی راہیں بہت کثیر ہیں اور راہِ حق صرف ایک دینِ اسلام۔
۴۔ یعنی باوجود ایسے دلائل پر مطلع ہونے اور ایسے نشانہائے قدرت دیکھنے کے۔
۵۔ دوسروں کو حتّیٰ کہ پتّھروں کو پُوجتے ہیں باوجود یکہ اس کے مُقِر ہیں کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اللّٰہ ہے۔
۶۔ یعنی تمہاری اصل حضرت آدم کو جن کی نسل سے تم پیدا ہوئے۔ فائدہ : اس میں مشرکین کا رد ہے جو کہتے تھے کہ ہم جب گَل کر مٹی ہو جائیں گے پھر کیسے زندہ کئے جائیں گے ؟ انہیں بتایا گیا کہ تمہاری اصل مٹی ہی سے ہے تو پھر دوبارہ پیدا کئے جانے پر کیا تعجب، جس قادر نے پہلے پیدا کیا اس کی قدرت سے بعد موت زندہ فرمانے کو بعید جاننا نادانی ہے۔
۷۔ جس کے پورا ہو جانے پر تم مر جاؤ گے۔
۱۰۔ یہاں حق سے یا قرآن مجید کی آیات مراد ہیں یا سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم اور آپ کے معجزات۔
۱۱۔ کہ وہ کیسی عظمت والی ہے اور اس کی ہنسی بنانے کا اَنجام کیسا وبال و عذاب۔
۱ٍ۳۔ قوّت و مال اور دنیا کے کثیر سامان دے کر۔
۱۵۔ جس سے باغ پرورش پائے اور دنیا کی زندگانی کے لئے عیش و راحت کے اسباب بہم پہنچے۔
۱۶۔ کہ انہوں نے انبیاء کی تکذیب کی اور ان کا یہ سر و سامان انہیں ہلاک سے نہ بچا سکا۔
۱۷۔ اور دوسرے قَرن والوں کو ان کا جانشین کیا، مدعا یہ ہے کہ گزری ہوئی اُمّتوں کے حال سے عبرت و نصیحت حاصل کرنا چاہئے کہ وہ لوگ باوجود قوّت و دولت و کثرتِ مال و عیال کے کُفر و طُغیان کی وجہ سے ہلاک کر دیئے گئے تو چاہئے کہ ان کے حال سے عبرت حاصل کر کے خوابِ غفلت سے بیدار ہوں۔
۱۸۔ شانِ نُزول : یہ آیت نضربن حارث اور عبداللّٰہ بن اُمیّہ اور نَوفَل بن خُوَیلَد کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے کہا تھا کہ محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و سلم ) پر ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک تم ہمارے پاس اللّٰہ کی طرف سے کتاب نہ لاؤ جس کے ساتھ چار فرشتے ہوں، وہ گواہی دیں کہ یہ اللّٰہ کی کتاب ہے اور تم اس کے رسول ہو۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ یہ سب حیلے بہانے ہیں اگر کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب اُتار دی جاتی وہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر اور ٹٹول کر دیکھ لیتے اور یہ کہنے کا موقع بھی نہ ہوتا کہ نظر بندی کر دی گئی تھی کتاب اُترتی نظر آئی، تھا کچھ بھی نہیں تو بھی یہ بدنصیب ایمان لانے والے نہ تھے، اس کو جادو بتاتے اور جس طرح شَقُ القمر کو جادو بتایا اور اس معجِزہ کو دیکھ کر ایمان نہ لائے اس طرح اس پر بھی ایمان نہ لاتے کیونکہ جو لوگ عنادًا انکار کرتے ہیں وہ آیات و معجزات سے منتفِع نہیں ہو سکتے۔
۲۰۔ یعنی سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم پر۔
۲۱۔ اور پھر بھی یہ ایمان نہ لاتے۔
۲۲۔ یعنی عذاب واجب ہو جاتا اور یہ سُنّتِ الٰہیہ ہے کہ جب کُفّار کوئی نشانی طلب کریں اور اس کے بعد بھی ایمان نہ لائیں تو عذاب واجب ہو جاتا ہے اور وہ ہلاک کر دیئے جاتے ہیں۔
۲ٍ۳۔ ایک لمحہ کی بھی اور عذاب مؤخَّر نہ کیا جاتا تو فرشتہ کا اُتارنا جس کو وہ طلب کرتے ہیں انہیں کیا نافع ہوتا۔
۲۴۔ یہ ان کُفّار کا جواب ہے جو نبی علیہ السلام کو کہا کرتے تھے یہ ہماری طرح بشر ہیں اور اسی خَبط میں وہ ایمان سے محروم رہتے تھے، انہیں انسانوں میں سے رسول مبعوث فرمانے کی حکمت بتائی جاتی ہے کہ ان کے منتفِع ہونے اور تعلیمِ نبی سے فیض اٹھانے کی یہی صورت ہے کہ نبی صورتِ بشری میں جلوہ گر ہو کیونکہ فرشتہ کو اس کی اصلی صورت میں دیکھنے کی تو یہ لوگ تاب نہ لا سکتے، دیکھتے ہی ہیبت سے بے ہوش ہو جاتے یا مر جاتے اس لئے اگر بالفرض رسول فرشتہ ہی بنایا جاتا۔
۲۵۔ اور صورتِ انسانی ہی میں بھیجتے تاکہ یہ لوگ اس کو دیکھ سکیں، اس کا کلام سُن سکیں، اس سے دین کے اَحکام معلوم کر سکیں لیکن اگر فرشتہ صورتِ بشری میں آتا تو انہیں پھر وہی کہنے کا موقع رہتا کہ یہ بشر ہے تو فرشتہ کو نبی بنانے کا کیا فائدہ ہوتا۔
۲۶۔ وہ مبتلائے عذاب ہوئے۔ اس میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی تسلّی و تسکینِ خاطر ہے کہ آپ رنجِیدہ و مَلُول نہ ہوں، کُفّار کا پہلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی دستور رہا ہے اور اس کا وبال ان کُفّار کو اٹھانا پڑا ہے نیز مشرکین کو تنبیہ ہے کہ پچھلی اُمّتوں کے حال سے عبرت حاصل کریں اور انبیاء کے ساتھ طریقِ ادب ملحوظ رکھیں تاکہ پہلوں کی طرح مبتلائے عذاب نہ ہوں۔
۲۷۔ اے حبیب صلی اللّٰہ علیہ و سلم ان تمسخُر کرنے والوں سے کہہ دو تم۔
۲۸۔ اور انہوں نے کُفر و تکذیب کا کیا ثمرہ پایا۔
۲۹۔ اگر وہ اس کا جواب نہ دیں تو۔
ٍ۳۰۔ کیونکہ اس کے سوا اور کوئی جواب ہی نہیں ہے اور وہ اس کے خلاف نہیں کر سکتے کیونکہ بُت جن کو مشرکین پُوجتے ہیں وہ بے جان ہیں، کسی چیز کے مالک ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے، خود دوسرے کے مملوک ہیں، آسمان و زمین کا وہی مالک ہو سکتا ہے جو حَیّ و قَیوم، ازلی و ابدی، قادرِ مطلق ہر شئے پر متصرِّف و حکمران ہو، تمام چیزیں اس کے پیدا کرنے سے وجود میں آئی ہوں، ایسا سوائے اللّٰہ کے کوئی نہیں اس لئے تمام سَمَاوی و اَرضی کائنات کا مالک اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔
ٍ۳۱۔ یعنی اس نے رحمت کا وعدہ کیا اور اس کا وعدہ خلاف نہیں ہو سکتا کیونکہ وعدہ خلافی و کذب اس کے لئے محال ہے اور رحمت عام ہے دینی ہو یا دنیوی اپنی معرفت اور توحید اور علم کی طرف ہدایت فرمانا بھی رحمت میں داخل ہے اور کُفّار کو مہلت دینا اور عقوبت میں تعجیل نہ فرمانا بھی کہ اس سے انہیں توبہ اور انابت کا موقع ملتا ہے۔ (جمل وغیرہ)۔
ٍ۳۴۔ یعنی تمام موجودات اسی کی مِلک ہے اور وہ سب کا خالِق، مالک، ربّ ہے۔
ٍ۳۵۔ اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔
ٍ۳۶۔ شانِ نُزول : جب کُفّار نے حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو اپنے باپ دادا کے دین کی دعوت دی تو یہ آیت نازل ہوئی۔
ٍ۳۷۔ یعنی خَلق سب اس کی محتاج ہے وہ سب سے بے نیاز۔
ٍ۳۸۔ کیونکہ نبی اپنی اُمّت سے دین میں سابق ہوتے ہیں۔
۴۱۔ بیماری یا تنگ دستی یا اور کوئی بلا۔
۴۳۔ قادرِ مطلق ہے ہر شے پر ذاتی قدرت رکھتا ہے، کوئی اس کی مشیّت کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا تو کوئی اس کے سوا مستحقِ عبادت کیسے ہو سکتا ہے، یہ ردِ شرک کی دل میں اثر کرنے والی دلیل ہے۔
۴۴۔ شانِ نُزول : اہلِ مکّہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے کہنے لگے کہ اے محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و سلم ) ہمیں کوئی ایسا دکھائیے جو آپ کی رسالت کی گواہی دیتا ہو۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۴۵۔ اور اتنی بڑی اور قابلِ قبول گواہی اور کس کی ہو سکتی ہے۔
۴۶۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ میری نبوّت کی شہادت دیتا ہے اس لئے کہ اس نے میری طرف اس قرآن کی وحی فرمائی اور یہ ایسا معجِزہ ہے کہ تم باوجود فصیح بلیغ صاحبِ زبان ہونے کے اس کے مقابلہ سے عاجز رہے تو اس کتاب کا مجھ پر نازل ہونا اللّٰہ کی طرف سے میرے رسول ہونے کی شہادت ہے، جب یہ قرآن اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے یقینی شہادت ہے اور میری طرف وحی فرمایا گیا تاکہ میں تمہیں ڈراؤں کہ تم حکمِ الٰہی کی مخالفت نہ کرو۔
۴۷۔ یعنی میرے بعد قیامت تک آنے والے جنہیں یہ قرآن پاک پہنچے خواہ وہ انسان ہوں یا جن ان سب کو میں حکمِ الٰہی کی مخالفت سے ڈراؤں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جس شخص کو قرآنِ پاک پہنچا گویا کہ اس نے نبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو دیکھا اور آپ کا کلام مبارک سنا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے کِسریٰ اور قیصر وغیرہ سلاطین کو دعوتِ اسلام کے مکتوب بھیجے (مدارک و خازن) اس کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ کہ مَنْ بَلَغَ میں مَنْ مرفوعُ المحل ہے اور معنیٰ یہ ہیں کہ اس قرآن سے میں تم کو ڈراؤں اور وہ ڈرائیں جنہیں یہ قرآن پہنچے۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ اللّٰہ تر و تازہ کرے اس کو جس نے ہمارا کلام سنا اور جیسا سنا ویسا پہنچایا بہت سے پہنچائے ہوئے سننے والے سے زیادہ اہل ہوتے ہیں اور ایک روایت میں ہے سننے والے سے زیادہ اَفقَہ ہوتے ہیں اس سے فقہا کی منزلت معلوم ہوتی ہے۔
۴۹۔ اے حبیبِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔
۵۰۔ جو گواہی تم دیتے ہو اور اللّٰہ کے ساتھ دوسرے معبود ٹھہراتے ہو۔
۵۲۔ مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ جو شخص اسلام لائے اس کو چاہئے کہ توحید و رسالت کی شہادت کے ساتھ اسلام کے ہر مخالف عقیدہ و دین سے بیزاری کا اظہار کرے۔
۵۳۔ یعنی عُلَمائے یہود و نصاریٰ جنہوں نے توریت و انجیل پائی۔
۵۴۔ آپ کے حُلیہ شریف اور آپ کے نعت و صفت سے جو ان کتابوں میں مذکور ہے۔
۵۵۔ یعنی بغیر کسی شک و شبہ کے۔
۵۶۔ اس کا شریک ٹھہرائے یا جو بات اس کی شان کے لائق نہ ہو اس کی طرف نسبت کرے۔
۵۸۔ کہ عمر بھر کے شرک ہی سے مُکر گئے۔
۵۹۔ ابوسفیان، ولید و نضر اور ابوجہل وغیرہ جمع ہو کر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی تلاوتِ قرآنِ پاک سننے لگے تو نضر سے اس کے ساتھیوں نے کہا کہ محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و سلم ) کیا کہتے ہیں ؟ کہنے لگا میں نہیں جانتا زبان کو حرکت دیتے ہیں اور پہلوں کے قِصّہ کہتے ہیں جیسے میں تمہیں سُنایا کرتا ہوں، ابوسفیان نے کہا کہ ان کی باتیں مجھے حق معلوم ہوتی ہیں ابوجہل نے کہا کہ اس کا اقرار کرنے سے مر جانا بہتر ہے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۶۰۔ اس سے ان کا مطلب کلامِ پاک کی وحیِ الٰہی ہونے کا انکار کرنا ہے۔
۶۱۔ یعنی مشرکین لوگوں کو قرآنِ شریف سے یا رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے اور آپ پر ایمان لانے اور آپ کا اِتّباع کرنے سے روکتے ہیں۔ شانِ نُزول : یہ آیت کہ کُفّارِ مکہ کے حق میں نازل ہوئی جو لوگوں کو سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم پر ایمان لانے اور آپ کی مجلس میں حاضر ہونے اور قرآن کریم سننے سے روکتے تھے اور خود بھی دور رہتے تھے کہ کہیں کلام مبارک ان کے دل میں اثر نہ کر جائے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ یہ آیت حضور کے چچا ابوطالب کے حق میں نازل ہوئی جو مشرکین کو تو حضور کی ایذا رسانی سے روکتے تھے اور خود ایمان لانے سے بچتے تھے۔
۶۲۔ یعنی اس کا ضرر خود انہیں کو پہنچتا ہے۔
۶۴۔ جیسا کہ اوپر اسی رکوع میں مذکور ہو چکا کہ مشرکین سے جب فرمایا جائے گا کہ تمھارے شریک کہاں ہیں تو وہ اپنے کُفر کو چھپا جائیں گے اور اللّٰہ کی قَسم کھا کر کہیں گے کہ ہم مشرک نہ تھے۔ اس آیت میں بتایا گیا کہ پھر جب انہیں ظاہر ہو جائے گا جو وہ چھپاتے تھے یہاں ان کا کُفر اس طرح ظاہر ہو گا کہ ان کے اعضا و جوارح ان کے کُفر و شرک کی گواہیاں دیں گے تب وہ دنیا میں واپس جانے کی تمنّا کریں گے۔
۶۵۔ یعنی کُفّار جو بَعث و آخرت کے منکِر ہیں اور اس کا واقعہ یہ تھا کہ جب نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے کُفّار کو قیامت کے احوال اور آخرت کی زندگانی، ایمانداروں اور فرمانبرداروں کے ثواب، کافِروں اور نافرمانوں پر عذاب کا ذکر فرمایا تو کافِر کہنے لگے کہ زندگی تو بس دنیا ہی کی ہے۔
۶۷۔ کیا تم مرنے کے بعد زندہ نہیں کئے گئے۔
۶۹۔ حدیث شریف میں ہے کہ کافِر جب اپنی قبر سے نکلے گا تو اس کے سامنے نہایت قبیح بھیانک اور بہت بدبو دار صورت آئے گی، وہ کافِر سے کہے گی تو مجھے پہچانتا ہے ؟ کافِر کہے گا نہیں تو وہ کافِر سے کہے گی میں تیرا خبیث عمل ہوں دنیا میں تو مجھ پر سوار رہا تھا آج میں تجھ پر سوار ہوں گا اور تجھے تمام خَلق میں رُسوا کروں گا۔ پھر وہ اس پر سوار ہو جاتا ہے۔
۷۰۔ جسے بقا نہیں جلد گزر جاتی ہے اور نیکیاں اور طاعتیں اگرچہ مؤمنین سے دنیا ہی میں واقع ہوں لیکن وہ امورِ آخرت میں سے ہیں۔
۷۱۔ اس سے ثابت ہوا کہ اعمالِ متّقِین کے سوا دنیا میں جو کچھ ہے سب لہو و لعب ہے۔
۷۲۔ شانِ نُزول : اَخنَس بن شریق اور ابوجہل کی باہم ملاقات ہوئی تو اخنس نے ابوجہل سے کہا اے ابوالحَکَم (کُفّارابو جہل کو ابوالحَکَم کہتے تھے ) یہ تنہائی کی جگہ ہے اور یہاں کوئی ایسا نہیں جو میری تیری بات پر مطلِع ہو سکے اب تو مجھے ٹھیک ٹھیک بتا کہ محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و سلم ) سچّے ہیں یا نہیں ؟ ابوجہل نے کہا کہ اللّٰہ کی قسم محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و سلم ) بے شک سچّے ہیں کبھی کوئی جھوٹا حرف ان کی زبان پر نہ آیا مگر بات یہ ہے کہ یہ قُصَی کی اولاد ہیں اور لِوَا، سقایت، حجابت، ندوہ وغیرہ تو سارے اعزاز انہیں حاصل ہی ہیں، نبوّت بھی انہیں میں ہو جائے تو باقی قریشیوں کے لئے اعزاز کیا رہ گیا۔ ترمذی نے حضرت علی مرتضیٰ سے روایت کی کہ ابوجہل نے حضرت نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے کہا ہم آپ کی تکذیب نہیں کرتے ہم تو اس کتاب کی تکذیب کرتے ہیں جو آپ لائے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۷۳۔ اس میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی تسکینِ خاطر ہے کہ قوم حضور کے صدق کا اعتقاد رکھتی ہے لیکن ان کی ظاہری تکذیب کا باعث ان کا حسد و عناد ہے۔
۷۴۔ آیت کے یہ معنیٰ بھی ہوتے ہیں کہ اے حبیبِ اکرم آپ کی تکذیب آیاتِ الٰہیہ کی تکذیب ہے اور تکذیب کرنے والے ظالم۔
۷۵۔ اور تکذیب کرنے والے ہلاک کئے گئے۔
۷۶۔ اس کے حکم کو کوئی پلٹ نہیں سکتا، رسولوں کی نُصرت اور ان کے تکذیب کرنے والوں کا ہلاک اس نے جس وقت مقدر فرمایا ہے ضرور ہو گا۔
۷۷۔ اور آپ جانتے ہیں کہ انہیں کُفّار سے کیسی ایذائیں پہنچیں، یہ پیشِ نظر رکھ کر آپ دل مطمئن رکھیں۔
۷۸۔ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو بہت خواہش تھی کہ سب لوگ اسلام لے آئں، جو اسلام سے محروم رہتے ہیں ان کی محرومی آپ پر بہت شاق رہتی۔
۷۹۔ مقصود ان کے ایمان کی طرف سے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی امید منقطع کرنا ہے تاکہ آپ کو ان کے اِعراض کرنے اور ایمان نہ لانے سے رنج و تکلیف نہ ہو۔
۸۰۔ دل لگا کر سمجھنے کے لئے وہی پَند پذیر ہوتے ہیں اور دینِ حق کی دعوت قبول کرتے ہیں۔
۸۳۔ اور اپنے اعمال کی جزا پائیں گے۔
۸۵۔ کُفّار کی گمراہی اور ان کی سرکشی اس حد تک پہنچ گئی کہ وہ کثیر آیات و معجزات جو انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے مشاہدہ کئے تھے ان پر قناعت نہ کی اور سب سے مُکر گئے اور ایسی آیت طلب کرنے لگے جس کے ساتھ عذابِ الٰہی ہو جیسا کہ انہوں نے کہا تھا۔ اَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآئے یا ربّ اگر یہ حق ہے تیرے پاس سے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا (تفسیر ابوالسعود)۔
۸۶۔ نہیں جانتے کہ اس کا نُزول ان کے لئے بَلا ہے کہ انکار کرتے ہی ہلاک کر دیئے جائیں گے۔
۸۷۔ یعنی تمام جاندار خواہ وہ بہائم ہو یا درندے یا پرند، تمہاری مثل اُمّتیں ہیں۔ یہ مماثلت جمیع وجوہ سے تو ہے نہیں بعض سے ہے، ان وجوہ کے بیان میں بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ حیوانات تمھاری طرح اللّٰہ کو پہچانتے، واحد جانتے، اس کی تسبیح پڑھتے، عبادت کرتے ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ وہ مخلوق ہونے میں تمہاری مثل ہیں۔ بعض نے کہا کہ وہ انسان کی طرح باہمی الفت رکھتے اور ایک دوسرے سے تفہیم و تَفَہُّم کرتے ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ روزی طلب کرنے، ہلاکت سے بچنے، نر مادہ کی امتیاز رکھنے میں تمہاری مثل ہیں۔ بعض نے کہا کہ پیدا ہونے، مرنے، مرنے کے بعد حساب کے لئے اٹھنے میں تمہاری مثل ہیں۔
۸۸۔ یعنی جملہ علوم اور تمام مَاکَانَ وَ مَا یَکُوْنُ کا اس میں بیان ہے اور جمیع اشاسء کا علم اس میں ہے، اس کتاب سے یا قرآنِ کریم مراد ہے یا لوحِ محفوظ۔ (جمل وغیرہ)۔
۸۹۔ اور تمام دَوَابّ و طیور کا حساب ہو گا، اس کے بعد وہ خاک کر دیئے جائیں گے۔
۹۰۔ کہ حق ماننا اور حق بولنا انہیں میسّر نہیں۔
۹۱۔ جَہل اور حیرت اور کُفر کے۔
۹۲۔ اسلام کی توفیق عطا فرمائے۔
۹۳۔ اور جن کو دنیا میں معبود مانتے تھے ان سے حاجت روائی چاہو گے۔
۹۴۔ اپنے اس دعویٰ میں کہ معاذ اللّٰہ بُت معبود ہیں تو اس وقت انہیں پکارو مگر ایسا نہ کرو گے۔
۹۶۔ جنہیں اپنے اعتقادِ باطل میں معبود جانتے تھے اور ان کی طرف التفات بھی نہ کرو گے کیونکہ تمہیں معلوم ہے کہ وہ تمہارے کام نہیں آ سکتے۔
۹۷۔ فَقر و اِفلاس اور بیماری وغیرہ میں مبتلا کیا۔
۹۸۔ اللّٰہ کی طرف رجوع کریں، اپنے گناہوں سے باز آئیں۔
۹۹۔ وہ بارگاہِ الٰہی میں عاجز ی کرنے کے بجائے کُفر و تکذیب پر مُصِر رہے۔
۱۰۰۔ اور وہ کسی طرح پَند پذیر نہ ہوئے، نہ پیش آئی ہوئی مصیبتوں سے، نہ انبیاء کی نصیحتوں سے۔
۱۰۱۔ صحت و سلامت اور وسعتِ رزق و عیش وغیرہ کے۔
۱۰۲۔ اور اپنے آپ کو اس کا مستحق سمجھے اور قارون کی طرح تکبُّر کرنے لگے۔
۱۰۴۔ اور سب کے سب ہلاک کر دیئے گئے کوئی باقی نہ چھوڑا گیا۔
۱۰۵۔ اس سے معلوم ہوا کہ گمراہوں، بے دینوں، ظالموں کی ہلاکت اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت ہے اس پر شکر کرنا چاہئے۔
۱۰۶۔ اور علم و معرفت کا تمام نظام درہم برہم ہو جائے۔
۱۰۷۔ اس کا جواب یہی ہے کہ کوئی نہیں تو اب توحید پر قوی دلیل قائم ہو گئی کہ جب اللّٰہ کے سوا کوئی اتنی قدرت و اختیار والا نہیں تو عبادت کا مستحق صرف وہی ہے اور شرک بدترین ظلم و جُرم ہے۔
۱۰۸۔ جس کے آثار و علامات پہلے سے معلوم نہ ہوں۔
۱۱۰۔ یعنی کافِروں کے کہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور یہ ہلاکت ان کے حق میں عذاب ہے۔
۱۱۱۔ ایمانداروں کو جنّت و ثواب کی بشارتیں دیتے اور کافِروں کو جہنّم و عذاب سے ڈراتے۔
۱۱ٍ۳۔ کُفّار کا طریقہ تھا کہ وہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے طرح طرح کے سُوال کیا کرتے تھے، کبھی کہتے کہ آپ رسول ہیں تو ہمیں بہت سی دولت اور مال دیجئے کہ ہم کبھی محتاج نہ ہوں، ہمارے لئے پہاڑوں کو سونا کر دیجئے، کبھی کہتے کہ گزشتہ اور آئندہ کی خبریں سنائیے اور ہمیں ہمارے مستقبل کی خبر دیجئے کیا کیا پیش آئے گا تاکہ ہم منافِع حاصل کر لیں اور نقصانوں سے بچنے کے پہلے سے انتظام کر لیں، کبھی کہتے ہمیں قیامت کا وقت بتائیے کب آئے گی، کبھی کہتے آپ کیسے رسول ہیں جو کھاتے پیتے بھی ہیں نکاح بھی کرتے ہں، ان کے ان تمام باتوں کا اس آیت میں جواب دیا گیا کہ یہ کلام نہایت بے مَحل اور جاہلانہ ہے کیونکہ جو شخص کسی امر کا مُدعی ہو اس سے وہی باتیں دریافت کی جا سکتی ہیں جو اس کے دعویٰ سے تعلق رکھتی ہوں، غیر متعلق باتوں کا دریافت کرنا اور ان کو اس دعویٰ کے خلاف حُجّت بنانا انتہا درجہ کا جَہل ہے اس لئے ارشاد ہوا کہ آپ فرما دیجئے کہ میرا دعویٰ یہ تو نہیں کہ میرے پاس اللّٰہ کے خزانے ہیں جو تم مجھ سے مال دولت کا سوال کرو اور میں اس کی طرف التفات نہ کروں تو رسالت سے منکِر ہو جاؤ، نہ میرا دعویٰ ذاتی غیب دانی کا ہے کہ اگر میں تمہیں گزشتہ یا آئندہ کی خبریں نہ بتاؤں تو میری نبوّت ماننے میں عُذر کر سکو، نہ میں نے فرشتہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے کہ کھانا پینا، نکاح کرنا قابلِ اعتراض ہو تو جن چیزوں کا دعویٰ ہی نہیں کیا ان کا سوال بے مَحل ہے اور اس کی اجابت مجھ پر لازم نہیں، میرا دعویٰ نبوّت و رسالت کا ہے اور جب اس پر زبردست دلیلیں اور قوی برہانیں قائم ہو چکیں تو غیر متعلق باتیں پیش کرنا کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ فائدہ : اس سے صاف واضح ہو گیا کہ اس آیتِ کریمہ کو سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے غیب پر مطلِع کئے جانے کی نفی کے لئے سند بنانا ایسا ہی بے محل ہے جیسا کُفّار کا ان سوالات کو انکارِ نبوّت کی دستاویز بنانا بے محل تھا علاوہ بریں اس آیت سے حضور سیدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے علمِ عطائی کی نفی کسی طرح مراد ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس صورت میں تعارُض بینَ الآیات کا قائِل ہونا پڑے گا وَ ہُوَ بَاطِل۔ مفسِّرین کا یہ بھی قول ہے کہ حضور کا لَۤا اَقُوْلُ لَکُمْ الآیہ فرمانا بطریقِ تواضع ہے۔ (خازن و مدارک و جمل وغیرہ)۔
۱۱۴۔ اور یہی نبی کا کام ہے تو میں تمہیں وہی دوں گا جس کا مجھے اِذن ہو گا، وہی بتاؤں گا جس کی اجازت ہو گی، وہی کروں گا جس کا مجھے حکم ملا ہو۔
۱۱۵۔ مؤمن و کافِر عالِم و جاہل۔
۱۱۶۔ شانِ نُزول : کُفّار کی ایک جماعت سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئی انہوں نے دیکھا کہ حضور کے گرد غریب صحابہ کی ایک جماعت حاضر ہے جو ادنیٰ درجہ کے لباس پہنے ہوئے ہیں، یہ دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ ہمیں ان لوگوں کے پاس بیٹھتے شرم آتی ہے، اگر آپ انہیں اپنی مجلس سے نکال دیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں اور آپ کی خدمت میں حاضر رہیں، حضور نے اس کو منظور نہ فرمایا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
۱۱۷۔ سب کا حِساب اللّٰہ پر ہے، وہی تمام خَلق کو روزی دینے والا ہے، اس کے سوا کسی کے ذمّہ کسی کا حساب نہیں۔ حاصل معنیٰ یہ کہ وہ ضعیف فُقَراء جن کا اوپر ذکر ہوا آپ کے دربار میں قرب پانے کے مستحق ہیں انہیں دور نہ کرنا ہی بجا ہے۔
۱۱۹۔ کہ انہیں ایمان و ہدایت نصیب کی باوجودیکہ وہ لوگ فقیر غریب ہیں اور ہم رئیس سردار ہیں، اس سے ان کا مطلب اللّٰہ تعالیٰ پر اعتراض کرنا ہے کہ غُرَباء اُمراء پر سبقت کا حق نہیں رکھتے تو اگر وہ حق ہوتا جس پر یہ غُرَباء ہیں تو وہ ہم پر سابق نہ ہوتے۔
۱۲۰۔ اور اپنے فضل و کرم سے وعدہ فرمایا۔
۱۲۱۔ تاکہ حق ظاہر ہو اور اس پر عمل کیا جائے۔
۱۲۲۔ تاکہ اس سے اجتناب کیا جائے۔
۱۲ٍ۳۔ کیونکہ یہ عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے۔
۱۲۴۔ یعنی تمہارا طریقہ اِتّباعِ نفس و خواہشِ ہَوا ہے نہ کہ اِتّباعِ دلیل اس لئے اختیار کرنے کے قابل نہیں۔
۱۲۵۔ اور مجھے اس کی معرفت حاصل ہے، میں جانتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں، روشن دلیل قرآن شریف اور معجزات اور توحید کے براہینِ واضحہ سب کو شامل ہے۔
۱۲۶۔ کُفّار اِستِہزاءً حضور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے کہا کرتے تھے کہ ہم پر جلدی عذاب نازل کرائیے۔ اس آیت میں انہیں جواب دیا گیا اور ظاہر کر دیا گیا کہ حضور سے یہ سوال کرنا نہایت بے جا ہے۔
۱۲۸۔ میں تمہیں ایک ساعت کی مہلت نہ دیتا اور تمہیں ربّ کا مخالف دیکھ کر بے دَرَنگ ہلاک کر ڈالتا لیکن اللّٰہ تعالیٰ حلیم ہے عَقوبت میں جلدی نہیں فرماتا۔
۱۲۹۔ تو جسے وہ چاہے وہی غیب پر مطلع ہو سکتا ہے بغیر اس کے بتائے کوئی غیب نہیں جان سکتا۔ (واحدی)۔
۱ٍ۳۰۔ کتابِ مبین سے لوحِ محفوظ مراد ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے ماَکَانَ وَ مَایَکُوْنُ کے علوم اس میں مکتوب فرمائے۔
۱ٍ۳۱۔ تو تم پر نیند مسلَّط ہوتی ہے اور تمہارے تصرُّفات اپنے حال پر باقی نہیں رہتے۔
۱ٍ۳۲۔ اور عمر اپنی انتہا کو پہنچے۔
۱ٍ۳ٍ۳۔ آخرت میں۔ اس آیت میں بَعث بعدَ الموت یعنی مرنے کے بعد زندہ ہونے پر دلیل ذکر فرمائی گئی جس طرح روزمرّہ سونے کے وقت ایک طرح کی موت تم پر وارد کی جاتی ہے جس سے تمہارے حواس معطل ہو جاتے ہیں اور چلنا پھرنا پکڑنا اور بیداری کے افعال سب معطل ہوتے ہیں، اس کے بعد پھر بیداری کے وقت اللّٰہ تعالیٰ تمام قُویٰ کو ان کے تصرّفات عطا فرماتا ہے یہ دلیل بَیِّن ہے اس بات کی کہ وہ زندگانی کے تصرُّفات بعدِ موت عطا کرنے پر اسی طرح قادر ہے۔
۱ٍ۳۴۔ فرشتے جن کو کِراماً کاتبین کہتے ہیں وہ بنی آدم کی نیکی اور بدی لکھتے رہتے ہیں، ہر آدمی کے ساتھ دو فرشتے ہیں ایک داہنے ایک بائیں، نیکیاں داہنی طرف کا فرشتہ لکھتا ہے اور بدیاں بائیں طرف کا، بندوں کو چاہئے ہوشیار رہیں اور بدیوں اور گناہوں سے بچیں کیونکہ ہر ایک عمل لکھا جاتا ہے اور روزِ قیامت وہ نامۂ اعمال تمام خَلق کے سامنے پڑھا جائے گا تو گناہ کتنی رسوائی کا سبب ہوں گے اللّٰہ پناہ دے۔ ( آمین ثم آمین )۔
۱ٍ۳۵۔ ان فرشتوں سے مراد یا تو تنہا مَلَکُ الموت ہیں، اس صورت میں صیغۂ جمع تعظیم کے لئے ہے یا مَلَکُ الموت مع ان فرشتوں کے مراد ہیں جو ان کے اَعوان ہیں جب کسی کی موت کا وقت آتا ہے مَلَکُ الموت بحکمِ الٰہی اپنے اَعوان کو اس کی روح قبض کرنے کا حکم دیتے ہیں جب روح حلق تک پہنچتی ہے تو خود قبض فرماتے ہیں۔ (خازن)۔
۱ٍ۳۶۔ اور تعمیلِ حکم میں ان سے کوتاہی واقع نہیں ہوتی اور ان کے عمل میں سُستی اور تاخیر راہ نہیں پاتی، اپنے فرائض ٹھیک وقت پر ادا کرتے ہیں۔
۱ٍ۳۷۔ اور اس روز اس کے سوا کوئی حکم کرنے والا نہیں۔
۱ٍ۳۸۔ کیونکہ اس کو سوچنے، جانچنے، شمار کرنے کی حاجت نہیں جس میں دیر ہو۔
۱ٍ۳۹۔ اس آیت میں کُفّار کو تنبیہ کی گئی کہ خشکی اور تری کے سفروں میں جب وہ مبتلائے آفات ہو کر پریشان ہوتے ہیں اور ایسے شدائد و اَہوال پیش آتے ہیں جن سے دل کانپ جاتے ہیں اور خطرات قلوب کو مضطرِب اور بے چین کر دیتے ہیں اس وقت بُت پرست بھی بُتوں کو بھول جاتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ ہی سے دعا کرتا ہے اسی کی جناب میں تضرُّع و زاری کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس مصیبت سے اگر تو نے نجات دی تو میں شکر گزار ہوں گا اور تیرا حقِ نعمت بجا لاؤں گا۔
۱۴۰۔ اور بجائے شکر گزاری کے ایسی بڑی ناشکری کرتے ہو اور یہ جانتے ہوئے کہ بُت نِکمے ہیں، کسی کام کے نہیں پھر انہیں اللّٰہ کا شریک کرتے ہو، کتنی بڑی گمراہی ہے۔
۱۴۱۔ مفسِّرین کا اس میں اختلاف ہے کہ اس آیت سے کون لوگ مراد ہیں، ایک جماعت نے کہا کہ اس سے اُمّتِ محمّدیہ مراد ہے اور آیت انہیں کے حق میں نازل ہوئی۔ بخاری کی حدیث میں ہے کہ جب یہ نازل ہوا کہ وہ قادر ہے تم پر عذاب بھیجے تمہارے اوپر سے، تو سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تیری ہی پناہ مانگتا ہوں اور جب یہ نازل ہوا کہ یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے تو فرمایا میں تیری ہی پناہ مانگتا ہوں اور جب یہ نازل ہوا یا تمہیں بھڑا دے مختلف گروہ کر کے اور ایک کو دوسرے کی سختی چکھائے تو فرمایا یہ آسان ہے۔ مسلم کی حدیث شریف میں ہے کہ ایک روز سیدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجدِ بنی معاویہ میں دو رکعت نماز ادا فرمائی اور اس کے بعد طویل دعا کی پھر صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا میں نے اپنے ربّ سے تین سوال کئے ان میں سے صرف دو قبول فرمائے گئے، ایک سوال تو یہ تھا کہ میری اُمّت کو قحطِ عام سے ہلاک نہ فرمائے یہ قبول ہوا، ایک یہ تھا کہ انہیں غرق سے عذاب نہ فرمائے یہ بھی قبول ہوا، تیسرا سوال یہ تھا کہ ان میں باہَم جنگ و جدال نہ ہو یہ قبول نہیں ہوا۔
۱۴۲۔ یعنی قرآن شریف کو یا نُزولِ عذاب کو۔
۱۴۳۔ میرا کام ہدایت ہے قلوب کی ذمہ داری مجھ پر نہیں۔
۱۴۴۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے جو خبریں دیں ان کے لئے وقت معیّن ہیں ان کا وقوع ٹھیک اسی وقت ہو گا۔
۱۴۵۔ طعن تَشنیع اِستِہزاء کے ساتھ۔
۱۴۶۔ اور ان کی ہم نشینی ترک کر۔
مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ بے دینوں کی جس مجلس میں دین کا احترام نہ کیا جاتا ہو مسلمان کو وہاں بیٹھنا جائز نہیں، اس سے ثابت ہو گیا کہ کُفّار اور بے دینوں کے جلسے جن میں وہ دین کے خلاف تقریریں کرتے ہیں ان میں جانا، سننے کے لئے شرکت کرنا جائز نہیں اور رد و جواب کے لئے جانا مُجالَست نہیں بلکہ اظہارِ حق ہے ممنوع نہیں جیسا کہ اگلی آیت سے ظاہر ہے۔
۱۴۷۔ یعنی طعن و اِستِہزاء کرنے والوں کے گناہ انہیں پر ہیں، انہیں سے اس کا حساب ہو گا، پرہیزگاروں پر نہیں شانِ نُزول : مسلمانوں نے کہا تھا کہ ہمیں گناہ کا اندیشہ ہے جب کہ ہم انہیں چھوڑ دیں اور منع نہ کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
۱۴۸۔ مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ پند و نصیحت اور اظہارِ حق کے لئے ان کے پاس بیٹھنا جائز ہے۔
۱۵۰۔ اور اپنے جرائم کے سبب عذابِ جہنّم میں گرفتار نہ ہو۔
۱۵۱۔ دین کو ہنسی اور کھیل بنانے والے اور دنیا کے مفتون۔
۱۵۲۔ اے مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ان مشرکین سے جو اپنے باپ دادا کے دین کی دعوت دیتے ہیں۔
۱۵۳۔ اور اس میں کوئی قدرت نہیں۔
۱۵۴۔ اور اسلام اور توحید کی نعمت عطا فرمائی اور بُت پرستی کے بدترین وبال سے بچایا۔
۱۵۵۔ اس آیت میں حق و باطل کے دعوت دینے والوں کی ایک تمثیل بیان فرمائی گئی کہ جس طرح مسافر اپنے رفیقوں کے ساتھ تھا جنگل میں بھُوتوں اور شیطانوں نے اس کو رستہ بہکا دیا اور کہا منزلِ مقصود کی یہی راہ ہے اور اس کے رفیق اس کو راہِ راست کی طرف بلانے لگے وہ حیران رہ گیا کدھر جائے، انجام اس کا یہی ہو گا کہ اگر وہ بھُوتوں کی راہ پر چل دے تو ہلاک ہو جائے گا اور رفیقوں کا کہا مانے تو سلامت رہے گا اور منزل پر پہنچ جائے گا۔ یہی حال اس شخص کا ہے جو طریقۂ اسلام سے بہکا اور شیطان کی راہ چلا، مسلمان اس کو راہِ راست کی طرف بلاتے ہیں اگر ان کی بات مانے گا راہ پائے گا ورنہ ہلاک ہو جائے گا۔
۱۵۶۔ یعنی جو طریق اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے واضح فرمایا اور جو دین (اسلام) ان کے لئے مقرر کیا وہی ہدایت و نور ہے اور جو اس کے سوا ہے وہ دین باطل ہے۔
۱۵۷۔ اور اسی کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور خاص اسی کی عبادت کریں۔
۱۵۸۔ جن سے اس کی قدرتِ کاملہ اور اس کا علم محیط اور اس کی حکمت و صنعت ظاہر ہے۔
۱۵۹۔ کہ نام کو بھی کوئی سلطنت کا دعویٰ کرنے والا نہ ہو گا، تمام جبابرہ، فراعنہ اور سب دنیا کی سلطنت کا غرور کرنے والے دیکھیں گے کہ دنیا میں جو وہ سلطنت کا دعویٰ رکھتے تھے وہ باطل تھا۔
۱۶۰۔ قاموس میں ہے کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا کا نام ہے۔ امام علامہ جلال الدین سیوطی نے مسالک الحُنَفاء میں بھی ایسا ہی لکھا ہے، چچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں، قرآنِ کریم میں ہے نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَ اِلہٰ اٰبَآ ئِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰھًا وَّاحِدًا۔ اس میں حضرت اسمٰعیل کو حضرت یعقوب کے آباء میں ذکر کیا گیا ہے باوجودیکہ آپ عَم ہیں۔ حدیث شریف میں بھی حضرت سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے حضرت عباس رضی اللّٰہ عنہ کو اَب فرمایا چنانچہ ارشاد کاا رُدُّوْا عَلَیَّ اَبِیْ اور یہاں اَبِی سے حضرت عباس مراد ہیں۔ (مفرداتِ راغب وکبیر وغیرہ)۔
۱۶۱۔ یہ آیت مشرکینِ عرب پر حُجَّت ہے جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معظَّم جانتے تھے اور ان کی فضیلت کے معترف تھے، انہیں دکھایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام بُت پرستی کو کتنا بڑا عیب اور گمراہی بتاتے ہیں اگر تم انہیں مانتے ہو تو بُت پرستی تم بھی چھوڑ دو۔
۱۶۲۔ یعنی جس طرح حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دین میں بِینائی عطا فرمائی ایسے ہی انہیں آسمانوں اور زمین کے مُلک دکھاتے ہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنھما نے فرمایا اس سے آسمانوں اور زمین کی خَلق مراد ہے۔ مجاہد اور سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ آیاتِ سمٰوات و ارض مراد ہیں، یہ اس طرح کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو صَخرہ (پتھر) پر کھڑا کیا گیا اور آپ کے لئے سماوات مکشوف کئے گئے یہاں تک کہ آپ نے عرش و کرسی اور آسمانوں کے تمام عجائب اور جنّت میں اپنے مقام کو معائنہ فرمایا، آپ کے لئے زمین کشف فرما دی گئی یہاں تک کہ آپ نے سب سے نیچے کی زمین تک نظر کی اور زمینوں کے تمام عجائب دیکھے۔ مفسِّرین کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ رویت بچشمِ باطن تھی یا بچشمِ سر۔ (درِّ منثور و خازن وغیرہ)۔
۱۶۳۔ کیونکہ ہر ظاہر و میفر چیز ان کے سامنے کر دی گئی اور خَلق کے اعمال میں سے کچھ بھی ان سے نہ چھُپا رہا۔
۱۶۴۔ عُلَمائے تفسیر اور اصحابِ اَخبار و سِیَر کا بیان ہے کہ نَمرود ابنِ کنعان بڑا جابر بادشاہ تھا، سب سے پہلے اسی نے تاج سر پر رکھا، یہ بادشاہ لوگوں سے اپنی پرستِش کراتا تھا، کاہِن اور مُنجِم کثرت سے اس کے دربار میں حاضر رہتے تھے۔ نمرود نے خواب دیکھا کہ ایک ستارہ طلوع ہوا ہے اس کی روشنی کے سامنے آفتاب ماہتاب بالکل بے نور ہو گئے اس سے وہ بہت خوف زدہ ہوا، کاہنوں سے تعبیر دریافت کی، انہوں نے کہا اس سال تیری قلمرو میں ایک فرزند پیدا ہو گا جو تیرے زَوالِ مُلک کا باعث ہو گا اور تیرے دین والے اس کے ہاتھ سے ہلاک ہوں گے، یہ خبر سن کر وہ پریشان ہوا اور اس نے حکم دے دیا کہ جو بچہ پیدا ہو قتل کر ڈالا جائے اور مرد عورتوں سے علیٰحدہ رہیں اور اس کی نگہبانی کے لئے ایک محکمہ قائم کر دیا گیا۔ تقدیراتِ الٰہیہ کو کون ٹال سکتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حاملہ ہوئیں اور کاہنوں نے نمرود کو اس کی بھی خبر دی کہ وہ بچہ حمل میں آ گیا لیکن چونکہ حضرت کی والدہ صاحبہ کی عمر کم تھی ان کا حمل کسی طرح پہچانا ہی نہ گیا جب زمانۂ ولادت قریب ہوا تو آپ کی والدہ اس تہ خانے میں چلی گئیں جو آپ کے والد نے شہر سے دور کھود کر تیار کیا تھا، وہاں آپ کی ولادت ہوئی اور وہیں آپ رہے، پتھروں سے اس تہ خانہ کا دروازہ بند کر دیا جاتا تھا، روزانہ والدہ صاحبہ دودھ پلا آتی تھیں اور جب وہاں پہنچتی تھیں تو دیکھتی تھیں کہ آپ اپنی سَرِ اَنگُشت چُوس رہے ہیں اور اس سے دودھ برآمد ہوتا ہے، آپ بہت جلد بڑھتے تھے، ایک مہینہ میں اتنا جتنے دوسرے بچے ایک سال میں، اس میں اختلاف ہے کہ آپ تہ خانہ میں کتنے عرصہ رہے۔ بعض کہتے ہیں سات برس، بعض تیرہ برس، بعض سترہ برس، یہ مسئلہ یقینی ہے کہ انبیاء ہر حال میں معصوم ہوتے ہیں اور وہ اپنی ابتدائے ہستی سے تمام اوقاتِ وجود میں عارف ہوتے ہیں، ایک روز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی والدہ سے دریافت فرمایا میرا ربّ (پالنے والا) کون ہے ؟ انہوں نے کہا میں، فرمایا تمہارا ربّ کون ہے ؟ انہوں نے کہا تمہارے والد، فرمایا ان کا ربّ کون ہے ؟ اس پر والدہ نے کہا خاموش رہو اور اپنے شوہر سے جا کر کہا کہ جس لڑکے کی نسبت یہ مشہور ہے کہ وہ زمین والوں کا دین بدل دے گا وہ تمہارا فرزند ہی ہے اور یہ گفتگو بیان کی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابتدا ہی سے توحید کی حمایت اور عقائدِ کُفریہ کا اِبطال شروع فرما دیا اور جب ایک سوراخ کی راہ سے شب کے وقت آپ نے زُہرہ یا مُشتری ستارہ کو دیکھا تو اِقامتِ حُجَّت شروع کر دی کیونکہ اس زمانہ کے لوگ بُت اور کواکب کی پرستش کرتے تھے تو آپ نے ایک نہایت نفیس اور دل نشیں پیرایہ میں انہیں نظر و استدلال کی طرف رہنمائی کی جس سے وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ عالَم بتمامہٖ حادِث ہے، اِلٰہ نہیں ہو سکتا، وہ خود مُوجِد و مُدَبِّر کا محتاج ہے جس کے قدرت و اختیار سے اس میں تغیُّر ہوتے رہتے ہیں۔
۱۶۵۔ اس میں قوم کو تنبیہ ہے کہ جو قمر کو اِلٰہ ٹھہرائے وہ گمراہ ہے کیونکہ اس کا ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونا دلیلِ حدوث و اِمکان ہے۔
۱۶۶۔ شمس مؤنث غیر حقیقی ہے اس کے لئے مذکر و مؤنث کے دونوں صیغے استعمال کئے جا سکتے ہیں، یہاں ہذا مذکر لایا گیا اس میں تعلیمِ ادب ہے کہ لفظِ ربّ کی رعایت کے لئے لفظِ تانیث نہ لایا گیا اسی لحاظ سے اللّٰہ تعالیٰ کی صفت میں عَلّام آتا ہے نہ کہ علامہ۔
۱۶۷۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ثابت کر دیا کہ ستاروں میں چھوٹے سے بڑے تک کوئی بھی ربّ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا، ان کا اِلٰہ ہونا باطل ہے اور قوم جس شرک میں مبتلا ہے آپ نے اس سے بیزاری کا اظہار کیا اور اس کے بعد دینِ حق کا بیان فرمایا جو آگے آتا ہے۔
۱۶۸۔ یعنی اسلام کے سوا باقی تمام اَدیان سے جُدا رہ کر۔
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ دینِ حق کا قیام و استحکام جب ہی ہو سکتا ہے جب کہ تمام اَدیانِ باطلہ سے بیزاری ہو۔
۱۷۰۔ کیونکہ وہ بے جان بُت ہیں نہ ضرر دے سکتے ہیں نہ نفع پہنچا سکتے ہیں، ان سے کیا ڈرنا، یہ آپ نے مشرکین سے جواب میں فرمایا تھا جنہوں نے آپ سے کہا تھا کہ بُتوں سے ڈرو ان کے بُرا کہنے سے کہیں آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچ جائے۔
۱۷۱۔ وہ ہو گی کیونکہ میرا ربّ قادرِ مطلق ہے۔
۱۷۲۔ جو بے جان جَماد اور عاجزِ مَحض ہیں۔
۱۷۴۔ علم و عقل و فہم و فضیلت کے ساتھ جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درجے بلند فرمائے، دنیا میں علم و حکمت و نبوّت کے ساتھ اور آخرت میں قرب و ثواب کے ساتھ۔
مسئلہ : اس آیت سے اس پر سند لائی جاتی ہے کہ انبیاء ملائکہ سے افضل ہیں کیونکہ عالَم اللّٰہ کے سوا تمام موجودات کو شامل ہے، فرشتے بھی اس میں داخل ہیں تو جب تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو ملائکہ پر بھی فضیلت ثابت ہو گئی، یہاں اللّٰہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاء علیہم الصلوٰۃو السلام کا ذکر فرمایا اور اس ذکر میں ترتیب نہ زمانہ کے اعتبار سے ہے نہ فضیلت کے، نہ واو ترتیب کا مقتضی لیکن جس شان سے کہ انبیاء علیہم السلام کے اسماء ذکر فرمائے گئے اس میں ایک عجیب لطیفہ ہے وہ یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انبیاء کی ہر ایک جماعت کو ایک خاص طرح کی کرامت و فضیلت کے ساتھ ممتاز فرمایا تو حضرت نوح و ابراہیم و اسحٰق و یعقوب کا اوّل ذکر کیا کیونکہ یہ انبیاء کے اُصول ہیں یعنی ان کی اولاد میں بکثرت انبیاء ہوئے جن کے اَنساب انہیں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ نبوّت کے بعد مراتبِ معتبرہ میں سے مُلک و اختیار و سلطنت و اقتدار ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت داؤد و سلیمان کو اس کا حَظِّ وافر دیا اور مراتبِ رفیعہ میں سے مصیبت و بلاء پر صابر رہنا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کو اس کے ساتھ ممتاز فرمایا پھر مُلک و صبر کے دونوں مرتبے حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عنایت کئے کہ آپ نے شدّت و بلاء پر مدتوں صبر فرمایا پھر اللّٰہ تعالیٰ نے نبوّت کے ساتھ مُلکِ مِصر عطا کیا۔ کثرتِ معجزات و قوتِ بَراہین بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ و ہارون کو اس کے ساتھ مشرف کیا۔ زُہد و ترکِ دنیا بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہے۔ حضرت زکریا و یحییٰ و عیسیٰ و الیاس کو اس کے ساتھ مخصوص فرمایا، ان حضرات کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے ان انبیاء کا ذکر فرمایا کہ جن کے نہ مُتّبِعین باقی رہے نہ ان کی شریعت جیسے کہ حضرت اسمٰعیل، یسع، یونس، لوط علیہم الصلوٰۃ و السلام۔ اس شان سے انبیاء کا ذکر فرمانے میں ان کی کرامتوں اور خصوصیتوں کا ایک عجیب لطیفہ نظر آتا ہے۔
۱۷۸۔ اس قوم سے یا انصار مراد ہیں یا مہاجرین یا تمام اصحابِ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم یا حضور پر ایمان لانے والے سب لوگ۔ فائدہ : اس آیت میں دلالت ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی نُصرت فرمائے گا اور آپ کی دین کو قوت دے گا اور اس کو تمام اَدیان پر غالب کرے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہ غیبی خبر واقع ہو گئی۔
۱۷۹۔ مسئلہ : عُلَمائے دین نے اس آیت سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم تمام انبیاء سے افضل ہیں کیونکہ خِصالِ کمال و اوصافِ شرف جو جُدا جُدا انبیاء کو عطا فرمائے گئے تھے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے لئے سب کو جمع فرما دیا اور آپ کو حکم دیا فَبھِدٰھُمُ اقْتَدِہْ تو جب آپ تمام ا نبیاء کے اوصافِ کمالیہ کے جامع ہیں تو بے شک سب سے افضل ہوئے۔
۱۸۰۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم تمام خَلق کی طرف مبعوث ہیں اور آپ کی دعوت تمام خَلق کو عام اور کل جہان آپ کی اُمّت۔ (خازن)۔
۱۸۱۔ اور اس کی معرفت سے محروم رہے اور اپنے بندوں پر اس کو جو رحمت و کرم ہے اس کو نہ جانا۔ شانِ نُزول : یہود کی ایک جماعت اپنے حِبرُ الاَحبار مالک ابنِ صیف کو لے کر سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے مجادلہ کرنے آئی سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا میں تجھے اس پروردگار کی قسم دیتا ہوں جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل فرمائی، کیا توریت میں تو نے یہ دیکھا ہے اِنَّ اللَّٰہَ یَبْغَضُ الْحِبْرَ السَّمِیْنَ یعنی اللّٰہ کو موٹا عالِم مبغوض ہے ؟ کہنے لگا ہاں یہ توریت میں ہے، حضور نے فرمایا تو موٹا عالِم ہی تو ہے اس پر غضبناک ہو کر کہنے لگا کہ اللّٰہ نے کسی آدمی پر کچھ نہیں اُتارا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اس میں فرمایا گیا کس نے اُتاری وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے تو وہ لاجواب ہوا اور یہود اس سے برہم ہوئے اور اس کو جھڑکنے لگے اور اس کو حِبر کے عہدہ سے معزول کر دیا۔ (مدارک و خازن)۔
۱۸۲۔ ان میں سے بعض کو جس کا اظہار اپنی خواہش کے مطابق سمجھتے ہو۔
۱۸۳۔ جو تمہاری خواہش کے خلاف کرتے ہیں جیسے کہ توریت کے وہ مضامین جن میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی نعت و صفت مذکور ہے۔
۱۸۴۔ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی تعلیم اور قرآنِ کریم سے۔
۱۸۵۔ یعنی جب وہ اس کا جواب نہ دے سکیں کہ وہ کتاب کس نے اُتاری تو آپ فرما دیجئے اللّٰہ نے۔
۱۸۶۔ کیونکہ جب آپ نے حُجّت قائم کر دی اور انداز و نصیحت نہایت کو پہنچا دی اور ان کے لئے جائے عذر نہ چھوڑی، اس پر بھی وہ باز نہ آئیں تو انہیں ان کی بے ہودگی میں چھوڑ دیجئے۔ یہ کُفّار کے حق میں وعید و تہدید ہے۔
۱۸۸۔ اُمُّ القُریٰ مکّہ مکرّمہ ہے کیونکہ وہ تمام زمین والوں کا قبلہ ہے۔
۱۸۹۔ اور قیامت و آخرت اور مرنے کے بعد اُٹھنے کا یقین رکھتے ہیں اور اپنے انجام سے غافل و بے خبر نہیں ہیں۔
۱۹۰۔ اور نبوّت کا جھوٹا دعویٰ کرے۔
۱۹۱۔ شانِ نُزول : یہ آیت مُسَیلمہ کَذّاب کے بارے میں نازل ہوئی جس نے یَمامہ عَلاقۂ یمن میں نبوّت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ قبیلۂ بنی حنیفہ کے چند لوگ اس کے فریب میں آ گئے تھے یہ کذّاب زمانۂ خلافتِ حضرت ابو بکر صدیق میں وحشی قاتلِ امیرِ حمزہ رضی اللّٰہ عنہ کے ہاتھ سے قتل ہوا۔
۱۹۲۔ شانِ نُزول : یہ عبداللّٰہ بن ابی سرح کاتِبِ وحی کے حق میں نازل ہوئی۔ جب آیت وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ نازل ہوئی اس نے اس کو لکھا اور آخر تک پہنچتے پہنچتے پیدائشِ انسان کی تفصیل پر مطلع ہو کر متعجب ہوا اور اس حالت میں آیت کا آخر فَتَبَارَکَ اللّٰہ ُاَحْسَنُ الْخَالِقِیْن بے اختیار اس کی زبان پر جاری ہو گیا، اس پر اس کو یہ گھمنڈ ہوا کہ مجھ پر وحی آنے لگی اور مرتد ہو گیا، یہ نہ سمجھا کہ نورِ وحی اور قوت و حُسنِ کلام سے آیت کا آخر کلمہ زبان پر آ گیا، اس میں اس کی قابلیت کا کوئی دخل نہ تھا زورِ کلام خود اپنے آخر کو بتا دیا کرتا ہے جیسے کبھی کوئی شاعر نفیس مضمون پڑھے وہ مضمون خود قافیہ بتا دیتا ہے اور سننے والے شاعر سے پہلے قافیہ پڑھ دیتے ہیں، ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہرگز ویسا شعر کہنے پر قادر نہیں تو قافیہ بتانا ان کی قابلیّت نہیں کلام کی قوت ہے اور یہاں تو نورِ وحی اور نورِ نبی سے سینہ میں روشنی آتی تھی چنانچہ مجلس شریف سے جُدا ہونے اور مرتد ہو جانے کے بعد پھر وہ ایک جملہ بھی ایسا بنانے پر قادر نہ ہوا جو نظمِ قرآنی سے مل سکتا، آخر کار زمانۂ اقدس ہی میں قبل فتحِ مکّہ پھر اسلام سے مشرف ہوا۔
۱۹۳۔ اَرواح قبض کرنے کے لئے جھڑکتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں۔
۱۹۴۔ نبوّت اور وحی کے جھوٹے دعوے کر کے اور اللّٰہ کے لئے شریک اور بی بی بچے بتا کر۔
۱۹۵۔ نہ تمہارے ساتھ مال ہے نہ جاہ، نہ اولاد جن کی مَحبت میں تم عمر بھر گرفتار رہے، نہ وہ بُت جنہیں پُوجا کئے، آج ان میں سے کوئی تمہارے کام نہ آیا، یہ کُفّار سے روزِ قیامت فرمایا جاوے گا۔
۱۹۶۔ کہ وہ عبادت کے حقدار ہونے میں اللّٰہ کے شریک ہیں۔ (معاذ اللّٰہ)۔
۱۹۷۔ اور علاقے ٹوٹ گئے، جماعت منتشر ہو گئی۔
۱۹۸۔ تمہارے وہ تمام جھُوٹے دعوے جو تم دنیا میں کیا کرتے تھے باطل ہو گئے۔
۱۹۹۔ توحید و نبوّت کے بیان کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے کمالِ قدرت و علم و حکمت کے دلائل ذکر فرمائے کیونکہ مقصودِ اعظم اللّٰہ سبحانہ اور اس کے تمام صفات و افعال کی معرفت ہے اور یہ جاننا کہ وہی تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے اور جو ایسا ہو وہی مستحقِ عبادت ہو سکتا ہے، نہ کہ وہ بُت جنہیں مشرکین پُوجتے ہیں۔ خشک دانہ اور گٹھلی کو چیر کر ان سے سبزہ اور درخت پیدا کرنا اور ایسی سنگلاخ زمینوں میں ان کے نرم ریشوں کو رواں کرنا جہاں آہنی میخ بھی کام نہ کر سکے اس کی قدرت کے کیسے عجائبات ہیں۔
۲۰۰۔ جاندار سبزہ کو بے جان دانے اور گٹھلی سے اور انسان و حیوان کو نُطفہ سے اور پرند کو انڈے سے۔
۲۰۱۔ جاندار درخت سے بے جان گُٹھلی اور دانہ کو اور انسان و حیوان سے نُطفہ کو اور پرندے سے انڈے کو یہ اس کے عجائبِ قدرت و حکمت ہیں۔
۲۰۲۔ اور ایسے براہین قائم ہونے کے بعد کیوں ایمان نہیں لا تے اور موت کے بعد اٹھنے کا یقین نہیں کرتے، جو بے جان نُطفہ سے جاندار حیوان پیدا کرتا ہے اس کی قدرت سے مُردہ کو زندہ کرنا کیا بعید ہے۔
۲۰۳۔ کہ خَلق اس میں چین پا تی ہے اور دن کی تَکان و ماندگی کو استراحت سے دور کرتی ہے اور شب بیدار زاہد تنہائی میں اپنے ربّ کی عبادت سے چین پا تے ہیں۔
۲۰۴۔ کہ ان کے دورے اور سیر سے عبادات و معاملات کے اوقات معلوم ہوں۔
۲۰۶۔ ماں کے رِحم میں یا زمین کے اوپر۔
۲۰۷۔ باپ کی پُشت میں یا قبر کے اندر۔
۲۰۸۔ پانی ایک اور اس سے جو چیزیں اُگائیں وہ قِسم قِسم اور رنگارنگ۔
۲۰۹۔ باوجودیکہ ان دلائلِ قدرت و عجائبِ حکمت اور اس انعام و اکرام اور ان نعمتوں کے پیدا کرنے اور عطا فرمانے کا اِقتضاء تھا کہ اس کریم کارساز پر ایمان لاتے بجائے اس کے بُت پرستوں نے یہ ستم کیا (جو آیت میں آگے مذکور ہے )کہ۔
۲۱۰۔ کہ ان کی اطاعت کر کے بُت پرست ہو گئے۔
۲۱۱۔ اور بے عورت اولاد نہیں ہوتی اور زوجہ اس کی شان کے لائق نہیں کیونکہ کوئی شے اس کی مثل نہیں۔
۲۱۲۔ تو جو ہے وہ اس کی مخلوق ہے اور مخلوق اولاد نہیں ہو سکتی تو کسی مخلوق کو اولاد بتانا باطل ہے۔
۲۱ٍ۳۔ جس کے صفات مذکور ہوئے اور جس کے یہ صفات ہوں وہی مستحقِ عبادت ہیں۔
۲۱۴۔ خواہ وہ رزق ہو یا اَجَل یا حمل۔
۲۱۵۔ مسائل : اِدراک کے معنیٰ ہیں مَرئی کے جوانِب و حدود پر واقف ہونا اسی کو اِحاطہ کہتے ہیں۔ ادراک کی یہی تفسیر حضرت سعید ابنِ مسیّب اور حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے منقول ہے اور جمہور مفسِّرین ادراک کی تفسیر احاطہ سے فرماتے ہیں اور احاطہ اسی چیز کا ہو سکتا ہے جس کے حدود و جہات ہوں، اللّٰہ تعالیٰ کے لئے حد و جِہت محال ہے تو اس کا ادراک و احاطہ بھی ناممکن، یہی مذہب ہے اہلِ سُنّت کا، خوارج و معتزِلہ وغیرہ گمراہ فرقے ادراک اور رویت میں فرق نہیں کرتے اس لئے وہ اس گمراہی میں مبتلا ہو گئے کہ انہوں نے دیدارِ الٰہی کو محالِ عقلی قرار دے دیا باوجودیکہ نفیِ رویت نفیِ علم کو مستلزم ہے ورنہ جیسا کہ باری تعالیٰ بخلاف تمام موجودات کے بلا کیفیت و جِہت جانا جا سکتا ہے ایسے ہی دیکھا بھی جا سکتا ہے کیونکہ اگر دوسری موجودات بغیر کیفیت و جِہت کے دیکھی نہیں جا سکتی تو جانی بھی نہیں جا سکتی، راز اس کا یہ ہے کہ رویت و دید کے معنیٰ یہ ہیں کہ بصر کسی شئے کو جیسی کہ وہ ہو ویسا جانے تو جو شئے جِہت والی ہو گی اس کی رویت و دید جِہت میں ہو گی اور جس کے لئے جِہت نہ ہو گی اس کی دید بے جہت ہو گی۔ دیدارِ الٰہی : آخرت میں اللّٰہ تعالیٰ کا دیدار مومنین کے لئے اہلِ سُنّت کا عقیدہ اور قرآن و حدیث و اِجماعِ صحابہ و سلفِ اُمّت کے دلائلِ کثیرہ سے ثابت ہے۔ قرآنِ کریم میں فرمایا وُجُوہ ُ یَّوْمَئِذٍ نَاضِرَۃٌ اِلیٰ رَبھِا نَاظِرَۃٌ اس سے ثابت ہے کہ مومنین کو روزِ قیامت ان کے ربّ کا دیدار میسّر ہو گا، اس کے علاوہ اور بہت آیات اور صحاح کی کثیر احادیث سے ثابت ہے۔ اگر دیدارِ الٰہی ناممکن ہوتا تو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام دیدار کا سوال نہ فرماتے۔ رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرُ اِلَیْکَ ارشاد نہ کرتے اور ان کے جواب میں اِنِ استقَرَّ مَکَانَہ، فَسَوْفَ تَرَانِیْ نہ فرمایا جاتا۔ ان دلائل سے ثابت ہو گیا کہ آخرت میں مؤمنین کے لئے دیدارِ الٰہی شرع میں ثابت ہے اور اس کا انکار گمراہی۔
۲۱۷۔ اور کُفّار کی بے ہودہ گوئیوں کی طرف التفات نہ کرو، اس میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی تسکینِ خاطر ہے کہ آپ کُفّار کی یاوَہ گوئیوں سے رنجیدہ نہ ہوں، یہ ان کی بدنصیبی ہے کہ وہ ایسی واضح برہانوں سے فائدہ نہ اٹھائیں۔
۲۱۸۔ قتادہ کا قول ہے کہ مسلمان کُفّار کے بُتوں کی بُرائی کیا کرتے تھے تاکہ کُفّار کو نصیحت ہو اور وہ بُت پرستی کے عیب سے باخبر ہوں مگر ان ناخدا شَناس جاہلوں نے بجائے پند پذیر ہونے کے شانِ الٰہی میں بے ادبی کے ساتھ زبان کھولنی شروع کی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اگرچہ بُتوں کو برا کہنا اور ان کی حقیقت کا اظہار طاعت و ثواب ہے لیکن اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی شان میں کُفّار کی بد گوئیوں کو روکنے کے لئے اس کو منع فرمایا گیا۔ ابنِ اَنباری کا قول ہے کہ یہ حکم اول زمانہ میں تھا جب اللّٰہ تعالیٰ نے اسلام کو قوت عطا فرمائی منسوخ ہو گیا۔
۲۱۹۔ وہ جب چاہتا ہے حسبِ اقتضائے حکمت نازل فرماتا ہے۔
۲۲۱۔ حق کے ماننے اور دیکھنے سے۔
۲۲۲۔ ان آیات پر جو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے دستِ اقدس پر ظاہر ہوئی تھیں مثل شقُ القمر وغیرہ معجزاتِ باہِرات کے۔
۲۲ٍ۳۔ شانِ نُزول : ابنِ جریر کا قول ہے کہ یہ آیت اِستِہزاء کرنے والے قریش کی شان میں نازل ہوئی جنہوں نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے کہا تھا کہ اے محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و سلم ) آپ ہمارے مُردوں کو اُٹھا لایئے ہم ان سے دریافت کر لیں کہ آپ جو فرماتے ہیں یہ حق ہے یا نہیں اور ہمیں فرشتے دکھائیے جو آپ کے رسول ہونے کی گواہی دیں یا اللّٰہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لائیے۔ اس کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۲۲۵۔ اس کی مشیّت جو ہوتی ہے وہی ہوتا ہے، جو اس کے علم میں اہلِ سعادت ہیں وہ ایمان سے مشّرف ہوتے ہیں۔
۲۲۶۔ نہیں جانتے کہ یہ لوگ وہ نشانیاں بلکہ اس سے زیادہ دیکھ کر بھی ایمان لانے والے نہیں۔ (جمل و مدراک)۔
۲۲۷۔ یعنی وسوسے اور فریب کی باتیں اِغوا کرنے کے لئے۔
۲۲۸۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے امتحان میں ڈالتا ہے تاکہ اس کے محنت پر صابر رہنے سے ظاہر ہو جائے کہ یہ جَزیلِ ثواب پانے والا ہے۔
۲۲۹۔ اللّٰہ انہیں بدلہ دے گا، رسوا کرے گا اور آپ کی مدد فرمائے گا۔
۲ٍ۳۱۔ یعنی قرآن شریف جس میں امر و نہی، وعدہ و وعید اور حق و باطل کا فیصلہ اور میرے صدق کی شہادت اور تمہارے اِفتراء کا بیان ہے۔ شا نِ نُزول : سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے مشرکین کہا کرتے تھے کہ آپ ہمارے اور اپنے درمیان ایک حَکَمْ مقرر کیجئے ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔
۲ٍ۳۲۔ کیونکہ ان کے پاس اس کی دلیلیں ہیں۔
۲ٍ۳ٍ۳۔ نہ کوئی اس کی قَضا کا تبدیل کرنے والا، نہ حُکم کا رد کرنے والا، نہ اس کا وعدہ خلاف ہو سکے۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ کلام جب تامّ ہے تو وہ قابلِ نقص و تغییر نہیں اور وہ قیامت تک تحریف و تغییر سے محفوظ ہے۔ بعض مفسِّرین فرماتے ہیں معنیٰ یہ ہیں کہ کسی کی قدرت نہیں کہ قرآنِ پاک کی تحریف کر سکے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ اس کی حفاظت کا ضامن ہے۔ (تفسیر ابوالسعود)۔
۲ٍ۳۴۔ اپنے جاہل اور گمراہ باپ دادا کی تقلید کرتے ہیں، بصیرت و حق شَناسی سے محروم ہیں۔
۲ٍ۳۵۔ کہ یہ حلال ہے یہ حرام اور اٹکل سے کوئی چیز حلال حرام نہیں ہوتی جسے اللّٰہ اور اس کے رسول نے حلال کیا وہ حلال اور جسے حرام کیا وہ حرام۔
۲ٍ۳۶۔ یعنی جو اللّٰہ تعالیٰ کے نام پر ذَبح کیا گیا، نہ وہ جو اپنی موت مَرا یا بُتوں کے نام پر ذَبح کیا گیا وہ حرام ہے، حِلّت اللّٰہ کے نام پر ذَبح ہونے سے متعلق ہے۔ یہ مشرکین کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ جو انہوں نے مسلمانوں پر کیا تھا کہ تم اپنا قتل کیا ہوا تو کھاتے ہو اور اللّٰہ کا مارا ہوا یعنی جو اپنی موت مرے اس کو حرام جانتے ہو۔
۲ٍ۳۸۔ مسئلہ : اس سے ثابت ہوا کہ حرام چیزوں کا مفصّل ذکر ہوتا ہے اور ثبوتِ حُرمت کے لئے حکمِ حُرمت درکار ہے اور جس چیز پر شریعت میں حُرمت کا حکم نہ ہو وہ مباح ہے۔
۲ٍ۳۹۔ تو عندَ الاِضطرار قدرِ ضرورت روا ہے۔
۲۴۰۔ وقتِ ذَبح نہ تحقیقًا نہ تقدیراً، خواہ اس طرح کہ وہ جانور اپنی موت مر گیا ہو یا اس طرح کہ اس کو بغیر تسمیہ کے یا غیرِ خدا کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، یہ سب حرام ہیں لیکن جہاں مسلمان ذَبح کرنے والا وقتِ ذَبح بسم اللّٰہِ اللّٰہُ اکبرکہنا بھول گیا وہ ذبح جائز ہے، وہاں ذکر تقدیری ہے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا۔
۲۴۱۔ اور اللّٰہ کے حرام کئے ہوئے کو حلال جانو۔
۲۴۲۔ کیونکہ دین میں حکمِ الٰہی کو چھوڑنا اور دوسرے کے حکم کو ماننا، اللّٰہ کے سوا اورکو حاکم قرار دینا شرک ہے۔
۲۴۳۔ مُردہ سے کافِر اور زندہ سے مومن مراد ہے کیونکہ کُفر قلوب کے لئے موت ہے اور ایمان حیات۔
۲۴۴۔ نور سے ایمان مراد ہے جس کی بدولت آدمی کُفر کی تاریکیوں سے نجات پاتا ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ نور سے کتاب اللّٰہ یعنی قرآن مراد ہے۔
۲۴۵۔ اور بینائی حاصل کر کے راہِ حق کا امتیاز کر لیتا ہے۔
۲۴۶۔ کُفر و جَہل و تِیرہ باطنی کی۔ یہ ایک مثال ہے جس میں مومن و کافِر کا حال بیان فرمایا گیا ہے کہ ہدایت پانے والا مومن اس مُردہ کی طرح ہے جس نے زندگانی پائی اور اس کو نور ملا جس سے وہ مقصود کی راہ پاتا ہے اور کافِر اس کی مثل ہے جو طرح طرح کی اندھیریوں میں گرفتار ہوا اور ان سے نکل نہ سکے، ہمیشہ حیرت میں مُبتَلا رہے۔ یہ دونوں مثالیں ہر مومن و کافِر کے لئے عام ہیں اگر چہ بقول حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما ان کا شا نِ نُزول یہ ہے کہ ابوجہل نے ایک روز سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم پر کوئی نَجَس چیز پھینکی تھی اس روز حضرت امیرِ حمزہ رضی اللّٰہ عنہ شکار کو گئے ہوئے تھے، جس وقت وہ ہاتھ میں کمان لئے ہوئے شکار سے واپس آئے تو انہیں اس واقعہ کی خبر دی گئی گو ابھی تک وہ ایمان سے مشرف نہ ہوئے تھے مگر یہ خبر سُن کر ان کو نہایت طیش آیا اور وہ ابوجہل پر چڑھ گئے اور اس کو کمان سے مارنے لگے اور ابوجہل عاجزی و خوشامد کرنے لگا اور کہنے لگا اے ابویعلیٰ (حضرت امیر حمزہ کی کُنیت ہے ) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ محمّد (مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ) کیسا دین لائے اور انہوں نے ہمارے معبودوں کو بُرا کہا اور ہمارے باپ دادا کی مخالفت کی اور ہمیں بد عقل بتایا، اس پر حضرت امیرِ حمزہ نے فرمایا تمہارے برابر بد عقل کون ہے کہ اللّٰہ کو چھوڑ کر پتھروں کو پُوجتے ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّٰہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمّد مصطفیٰ (صلی اللّٰہ علیہ و سلم ) اللّٰہ کے رسول ہیں، اسی وقت حضرت امیرِ حمزہ اسلام لے آئے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی تو حضرت امیرِ حمزہ کا حال اس کے مشابہ ہے جو مُردہ تھا، ایمان نہ رکھتا تھا، اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو زندہ کیا اور نورِ باطن عطا فرمایا اور ابوجہل کی شان یہی ہے کہ وہ کُفر و جَہل کی تاریکیوں میں گرفتار ہے اور۔
۲۴۷۔ اور طرح طرح کے حیلوں اور فریبوں اور مکاریوں سے لوگوں کو بہکاتے اور باطل کو رواج دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
۲۴۸۔ کہ اس کا وبال انہیں پر پڑتا ہے۔
۲۴۹۔ یعنی جب تک ہمارے پاس وحی نہ آئے اور ہمیں نبی نہ بنایا جائے۔ شانِ نُزول : ولید بن مغیرہ نے کہا تھا کہ اگر نبوّت حق ہو تو اس کا زیادہ مستحق میں ہوں کیونکہ میری عمر سیدِ عالَم (صلی اللّٰہ علیہ و سلم ) سے زیادہ ہے اور مال بھی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
۲۵۰۔ یعنی اللّٰہ جانتا ہے کہ نبوّت کی اہلیت اور اس کا استحقاق کس کو ہے کس کو نہیں، عمر و مال سے کوئی مستحقِ نبوّت نہیں ہو سکتا اور یہ نبوّت کے طلب گار تو حسد، مکر، بدعہدی وغیرہ قبائح افعال اور رذائل خِصال میں مبتلا ہیں، یہ کہاں اور نبوّت کا منصبِ عالی کہاں۔
۲۵۱۔ اس کو ایمان کی توفیق دیتا ہے اور اس کے دل میں روشنی پیدا کرتا ہے۔
۲۵۲۔ کہ اس میں علم اور دلائلِ توحید و ایمان کی گنجائش نہ ہو تو اس کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ جب اس کو ایمان کی دعوت دی جاتی ہے اور اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اس پر نہایت شاق ہوتا ہے اور اس کو بہت دشوار معلوم ہوتا ہے۔
۲۵۴۔ ان کو بہکایا اور اغوا کیا۔
۲۵۵۔ اس طرح کہ انسانوں نے شہوات و مَعاصی میں ان سے مدد پائی اور جِنّوں نے انسانوں کو اپنا مطیع بنایا، آخر کار اس کا نتیجہ پایا۔
۲۵۶۔ وقت گزر گیا، قیامت کا دن آ گیا، حسرت و ندامت باقی رہ گئی۔
۲۵۷۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ یہ اِستثناء اس قوم کی طرف راجع ہے جس کی نسبت علمِ الٰہی میں ہے کہ وہ اسلام لائیں گے اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی تصدیق کریں گے اور جہنّم سے نکالے جائیں گے۔
۲۵۸۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ اللّٰہ جب کسی قوم کی بھلائی چاہتا ہے تو اچھوں کو ان پر مسلّط کرتا ہے، بُرائی چاہتا ہے تو بُروں کو۔ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جو قوم ظالم ہوتی ہے اس پر ظالم بادشاہ مسلّط کیا جاتا ہے تو جو اس ظالم کے پنجۂ ظلم سے رہائی چاہیں انہیں چاہئے کہ ظلم ترک کریں۔
۲۶۰۔ اور عذابِ الٰہی کا خوف دلاتے۔
۲۶۱۔ کافِر جن اور انسان اقرار کریں گے رسول ان کے پاس آئے اور انہوں نے زبانی پیام پہنچائے اور اس دن کے پیش آنے والے حالات کا خوف دلایا لیکن کافِروں نے ان کی تکذیب کی اور ان پر ایمان نہ لائے۔ کفّار کا یہ اقرار اس وقت ہو گا جب کہ ان کے اعضاء و جوارِح ان کے شرک و کُفر کی شہادت دیں گے۔
۲۶۲۔ قیامت کا دن بہت طویل ہو گا اور اس میں حالات بہت مختلف پیش آئیں گے۔ جب کُفّار مومنین کے انعام و اکرام اور عزّت و منزلت کو دیکھیں گے تو اپنے کُفر و شرک سے منکر ہو جائیں گے اور اس خیال سے کہ شاید مُکر جانے سے کچھ کام بنے یہ کہیں گے وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ یعنی خدا کی قَسم ہم مشرک نہ تھے، اس وقت ان کے مونہوں پر مُہریں لگا دی جائیں گی اور ان کے اعضاء ان کے کُفر و شرک کی گواہی دیں گے۔ اسی کی نسبت اس آیت میں ارشاد ہوا وَشَھِدُوْا عَلیٰ اَنْفُسھِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْ کَافِرِیْنَ۔
۲۶۵۔ بلکہ رسول بھیجے جاتے ہیں وہ انہیں ہدایتیں فرماتے ہیں، حُجّتیں قائم کرتے ہیں، اس پر بھی وہ سرکشی کرتے ہیں تب ہلاک کئے جاتے ہیں۔
۲۶۶۔ خواہ وہ نیک ہو یا بد۔ نیکی اور بدی کے درجہ ہیں انہی کے مطابق ثواب و عذاب ہو گا۔
۲۶۹۔ وہ چیز خواہ قیامت ہو یا مرنے کے بعد اٹھنا یا حساب یا ثواب و عذاب۔
۲۷۰۔ زمانۂ جاہلیت میں مشرکین کا طریقہ تھا کہ وہ اپنی کھیتیوں اور درختوں کے پھلوں اور چوپایوں اور تمام مالوں میں سے ایک حصّہ تو اللّٰہ کا مقرر کرتے تھے اور ایک حصہ بُتوں کا، تو جو حصّہ اللّٰہ کے لئے مقرر کرتے تھے اس کو تو مہمانوں اور مسکینوں پر صَرف کر دیتے تھے اور جو بُتوں کے لئے مقرر کرتے تھے وہ خاص ان پر اور ان کے خادموں پر صرف کرتے اور جو حصّہ اللّٰہ کے لئے مقرر کرتے اگر اس میں سے کچھ بُتوں والے حصہ میں مل جاتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر بُتوں والے حصّہ میں سے کچھ اس میں سے ملتا تو اس کو نکال کر پھر بُتوں ہی کے حصّہ میں شامل کر دیتے۔ اس آیت میں ان کی اس جہالت اور بد عقلی کا ذکر فرما کر ان پر تنبیہ فرمائی گئی۔
۲۷۲۔ اور انتہا درجہ کے جَہل میں گرفتار ہیں، خالِق مُنعِم کے عزت و جلال کی انہیں ذرا بھی معرفت نہیں اور فسادِ عقل اس حد تک پہنچ گیا کہ انہوں نے بے جان بُتوں پتّھر کی تصویروں کو کارسازِ عالَم کے برابر کر دیا اور جیسا اس کے لئے حصّہ مقرر کیا ایسا ہی بُتوں کے لئے بھی کیا، بے شک یہ بہت ہی بُرا فعل اور انتہا کا جہل اور عظیم خَطا و ضلال ہے، اس کے بعد ان کے جہل اور ضلالت کی ایک اور حالت ذکر فرمائی جاتی ہے۔
۲۷۳۔ یہاں شریکوں سے مراد وہ شیاطین ہیں جن کی اطاعت کے شوق میں مشرکین اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی معصیت گوارا کرتے تھے اور ایسے قبائح افعال اور جاہلانہ افعال کے مرتکب ہوتے تھے جن کو عقلِ صحیح کبھی گوارا نہ کر سکے اور جن کی قباحت میں ادنیٰ سمجھ کے آدمی کو بھی تردُّد نہ ہو، بُت پرستی کی شامت سے وہ ایسے فسادِ عقل میں مبتلا ہوئے کہ حیوانوں سے بدتر ہو گئے اور اولاد جس کے ساتھ ہر جاندار کو فطرۃً مَحبت ہوتی ہے شیاطین کے اِتّباع میں اس کا بے گناہ خون کرنا انہوں نے گوارا کیا اور اس کو اچھا سمجھنے لگے۔
۲۷۴۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ یہ لوگ پہلے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے دین پر تھے شیاطین نے ان کو اغوا کر کے ان گمراہیوں میں ڈالا تاکہ انہیں دینِ اسمٰعیلی سے منحرف کرے۔
۲۷۵۔ مشرکین اپنے بعض مویشیوں اور کھیتیوں کو اپنے باطل معبودوں کے ساتھ نامزد کر کے کہ۔
۲۷۷۔ یعنی بُتوں کی خدمت کرنے والے وغیرہ۔
۲۷۸۔ جن کو بحیرہ، سائبہ، حامی کہتے ہیں۔
۲۷۹۔ بلکہ ان بُتوں کے نام پر ذَبح کرتے ہیں اور ان تمام افعال کی نسبت یہ خیال کرتے ہیں کہ انہیں اللّٰہ نے اس کا حکم دیا ہے۔
۲۸۰۔ صرف انہیں کے لئے حلال ہے اگر زندہ پیدا ہو۔
۲۸۲۔ شانِ نُزول : یہ آیت زمانۂ جاہلیت کے ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جو اپنی لڑکیوں کو نہایت سنگ دلی اور بے رحمی کے ساتھ زندہ درگور کر دیا کرتے تھے، ربیعہ و مُضَر وغیرہ قبائل میں اس کا بہت رواج تھا اور جاہلیت کے بعض لوگ لڑکوں کو بھی قتل کرتے تھے اور بے رحمی کا یہ عالَم تھا کہ کتّوں کی پرورش کرتے اور اولاد کو قتل کرتے تھے، ان کی نسبت یہ ارشاد ہوا کہ تباہ ہوئے۔ اس میں شک نہیں کہ اولاد اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کی ہلاکت سے اپنی تعداد کم ہوتی ہے، اپنی نسل مٹتی ہے، یہ دنیا کا خسارہ ہے، گھر کی تباہی ہے اور آخرت میں اس پر عذابِ عظیم ہے تو یہ عمل دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہوا اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ کر لینا اور اولاد جیسی عزیز اور پیاری چیز کے ساتھ اس قسم کی سَفّاکی اور بے دردی گوارا کرنا انتہا درجہ کی حَماقت اور جَہالت ہے۔
۲۸۳۔ یعنی بحیرے، سائبہ، حامی وغیرہ جو مذکور ہو چکے۔
۲۸۴۔ کیونکہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ایسے مذموم افعال کا اللّٰہ نے حکم دیا ہے ان کا یہ خیال اللّٰہ پر اِفتراء ہے۔
۲۸۶۔ یعنی ٹٹیوں پر قائم کئے ہوئے مثل انگور وغیرہ کے۔
۲۸۷۔ رنگ اور مزے اور مقدار اور خوشبو میں باہَم مختلف۔
۲۸۸۔ مثلاً رنگ میں یا پتوں میں۔
۲۸۹۔ مثلاً ذائقہ اور تاثیر میں۔
۲۹۰۔ معنیٰ یہ ہیں کہ یہ چیزیں جب پھلیں کھانا تو اسی وقت سے تمہارے لئے مباح ہے اور اس کی زکوٰۃ یعنی عُشر اس کے کامل ہونے کے بعد واجب ہوتا ہے جب کھیتی کاٹی جائے یا پھل توڑے جائیں۔
مسئلہ : لکڑی، بانس، گھانس کے سوا زمین کی باقی پیداوار میں اگر یہ پیداوار بارش سے ہو تو اس میں عُشر واجب ہوتا ہے اور اگر رہٹ وغیرہ سے ہو تو نصف عُشر۔
۲۹۲۔ چوپائے دو قسم کے ہوتے ہیں کچھ بڑے جو لادنے کے کام میں آتے ہیں، کچھ چھوٹے مثل بکری وغیرہ کے جو اس قابل نہیں، ان میں سے جو اللہ تعالیٰ نے حلال کئے انہیں کھاؤ اور اہلِ جاہلیت کی طرح اللّٰہ کی حلال فرمائی ہوئی چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ۔
۲۹۳۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے نہ بھیڑ بکری کے نَر حرام کئے نہ ان کی مادائیں حرام کںا، نہ ان کی اولاد، ان میں سے تمہارا یہ فعل کہ کبھی نَر حرام ٹھہراؤ کبھی مادہ، کبھی ان کے بچّے، یہ سب تمہارا اِختراع ہے اور ہوائے نفس کا اِتّباع، کوئی حلال چیز کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوتی۔
۲۹۴۔ اس آیت میں اہلِ جاہلیت کو توبیخ کی گئی جو اپنی طرف سے حلال چزکوں کو حرام ٹھہرا لیا کرتے تھے جن کا ذکر اوپر کی آیات میں آ چکا ہے، جب اسلام میں احکام کا بیان ہوا تو انہوں نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے جدال کیا اور ان کا خطیب مالک بن عوف جشمی سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ یا محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و سلم ) ہم نے سُنا ہے آپ ان چیزوں کو حرام کرتے ہیں جو ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں حضور نے فرمایا تم نے بغیر کسی اصل کے چند قِسمیں چوپایوں کی حرام کر لیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے آٹھ نَر و مادہ اپنے بندوں کے کھانے اور ان کے نفع اٹھانے کے لئے پیدا کئے، تم نے کہاں سے انہیں حرام کیا، ان میں حُرمت نَر کی طرف سے آئی یا مادہ کی طرف سے ؟ مالک بن عوف یہ سن کر ساکِت اور متحیّر رہ گیا اور کچھ نہ بول سکا، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے فرمایا بولتا کیوں نہیں، کہنے لگا آپ فرمائیے میں سنوں گا سبحان اللّٰہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے کلام کی قوت اور زور نے اہلِ جاہلیت کے خطیب کو ساکت و حیران کر دیا اور وہ بول ہی کیا سکتا تھا، اگر کہتا کہ نَر کی طرف سے حُرمت آئی تو لازم ہوتا کہ تمام نَر حرام ہوں، اگر کہتا کہ مادہ کی طرف سے تو ضروری ہوتا کہ ہر ایک مادہ حرام ہو اور اگر کہتا جو پیٹ میں ہے وہ حرام ہے تو پھر سب ہی حرام ہو جاتے کیونکہ جو پیٹ میں رہتا ہے وہ نَر ہوتا ہے یا مادہ۔ وہ جو تخصیصیں قائم کرتے تھے اور بعض کو حلال اور بعض کو حرام قرار دیتے تھے اس حُجّت نے ان کے اس دعویِ تحریم کو باطل کر دیا علاوہ بریں ان سے یہ دریافت کرنا کہ اللّٰہ نے نر حرام کئے ہیں یا مادہ یا ان کے بچے، یہ منکِرِ نبوّت مخالف کو اِقرارِ نبوّت پر مجبور کرتا تھا کیونکہ جب تک نبوّت کا واسطہ نہ ہو تو اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کا کسی چیز کو حرام فرمانا کیسے جانا جا سکتا ہے چنانچہ اگلے جملہ نے اس کو صاف کیا ہے۔
۲۹۵۔ جب یہ نہیں ہے اور نبوّت کا تو اقرار نہیں کرتے تو ان احکامِ حُرمت کو اللّٰہ کی طرف نسبت کرنا کِذب و باطل و افترائے خالص ہے۔
۲۹۶۔ ان جاہل مشرکوں سے جو حلال چیزوں کو اپنی خواہشِ نفس سے حرام کر لیتے ہیں۔
۲۹۷۔ اس میں تنبیہ ہے کہ حُرمت جہتِ شرع سے ثابت ہوتی ہے نہ ہَوائے نفس سے۔
مسئلہ : تو جس چیز کی حُرمت شرع میں وارد نہ ہو اس کو ناجائز و حرام کہنا باطل، ثبوتِ حُرمت خواہ وحیِ قرآنی سے ہو یا وحیِ حدیث سے، یہی معتبر ہے۔
۲۹۸۔ تو جو خون بہتا نہ ہو مثلاً جگر و تِلی کے وہ حرام نہیں۔
۲۹۹۔ اور ضرورت نے اسے ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے پر مجبور کیا ایسی حالت میں مضطَر ہو کر اس نے کچھ کھایا۔
ٍ۳۰۰۔ اس پر مؤاخذہ نہ فرمائے گا۔
۳۰۱۔ جو انگلی رکھتا ہو خواہ چوپایہ ہو یا پرند، اس میں اُونٹ اور شُتر مرغ داخل ہیں۔ (مدارک) بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ یہاں شُتر مرغ اور بط اور اونٹ خاص طور پر مراد ہیں۔
ٍ۳۰۲۔ یہود اپنی سرکشی کے باعث ان چیزوں سے محروم کئے گئے لہذا یہ چیزیں ان پر حرامر ہیں اور ہماری شریعت میں گائے بکری کی چربی اور اُونٹ اور بط اور شتر مرغ حلال ہیں، اسی پر صحابہ اور تابعین کا اِجماع ہے۔ (تفسیرِ احمدی)۔
ٍ۳۰۳۔ مُکذِّبین کو مہلت دیتا ہے اور عذاب میں جلدی نہیں فرماتا تاکہ انہیں ایمان لانے کا موقع ملے۔
ٍ۳۰۴۔ اپنے وقت پر آ ہی جاتا ہے۔
ٍ۳۰۵۔ یہ خبر غیب ہے کہ جو بات وہ کہنے والے تھے وہ بات پہلے سے بیان فرما دی۔
ٍ۳۰۶۔ ہم نے جو کچھ کیا یہ سب اللّٰہ کی مشیّت سے ہوا، یہ دلیل ہے اس کی کہ وہ اس سے راضی ہے۔
ٍ۳۰۷۔ اور یہ عذرِ باطل ان کے کچھ کام نہ آیا کیونکہ کسی امر کا مشیّت میں ہونا اس کی مرضی و مامور ہونے کو مستلزم نہیں، مرضی وہی ہے جو انبیاء کے واسطے سے بتائی گئی اور اس کا امر فرمایا گیا۔
ٍ۳۰۸۔ اور غلط اٹکلیں چلاتے ہو۔
ٍ۳۰۹۔ کہ اس نے رسول بھیجے، کتابیں نازل فرمائیں، راہِ حق واضح کر دی۔
ٍ۳۱۰۔ جسے تم اپنے لئے حرام قرار دیتے ہو اور کہتے ہو کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے، یہ گواہی اس لئے طلب کی گئی کہ ظاہر ہو جائے کہ کُفّار کے پاس کوئی شاہد نہیں ہے اور جو وہ کہتے ہیں وہ ان کی تراشیدہ بات ہے۔
ٍ۳۱۱۔ اس میں تنبیہ ہے کہ اگر یہ شہادت واقع ہو بی تو وہ مَحض اِتّباعِ ہَوا اور کِذب و باطل ہو گی۔
ٍ۳۱۲۔ بُتوں کو معبود مانتے ہیں اور شرک میں گرفتار ہیں۔
(۱۵۱) تم فرماؤ آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں جو تم پر تمہارے رب نے حرام کیا (ف ۳۱۳) یہ کہ اس کا کوئی شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو (ف ۳۱۴) اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث، ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے (ف ۲۱۵) اور بے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی (ف ۳۱۶) اور جس جان کی اللہ نے حرمت رکھی اسے ناحق نہ مارو (ف ۳۱۷) یہ تمہیں حکم فرمایا ہے کہ تمہیں عقل ہو
ٍ۳۱۴۔ کیونکہ تم پر ان کے بہت حقوق ہیں انہوں نے تمہاری پرورش کی، تمہارے ساتھ شفقت اور مہربانی کا سلوک کیا، تمہاری ہر خطرے سے نگہبانی کی، ان کے حقوق کا لحاظ نہ کرنا اور ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کا ترک کرنا حرام ہے۔
ٍ۳۱۵۔ اس میں اولاد کو زندہ درگور کرنے اور مار ڈالنے کی حُرمت بیان فرمائی گئی جس کا اہلِ جاہلیت میں دستور تھا کہ وہ اکثر ناداری کے اندیشہ سے اولاد کو ہلاک کرتے تھے، انہیں بتایا گیا کہ روزی دینے والا تمہارا، ان کا سب کا اللّٰہ ہے پھر تم کیوں قتل جیسے شدید جُرم کا اِرتکاب کرتے ہو۔
ٍ۳۱۶۔ کیونکہ انسان جب کھُلے اور ظاہر گناہ سے بچے اور چھُپے گناہ سے پرہیز نہ کرے تو اس کا ظاہر گناہ سے بچنا بھی لِلّٰہِیَّت سے نہیں، لوگوں کے دکھانے اور ان کی بد گوئی سے بچنے کے لئے ہے اور اللّٰہ کی رضا و ثواب کا مستحق وہ ہے جو اس کے خوف سے گناہ ترک کرے۔
ٍ۳۱۷۔ وہ امور جن سے قتل مباح ہوتا ہے یہ ہیں مُرتَد ہونا یا قِصاص یا بیا ہے ہوئے کا زنا۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے فرمایا کوئی مسلمان جو لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی گواہی دیتا ہو، اس کا خون حلال نہیں مگر ان تین سببوں میں سے کسی ایک سبب سے یا تو بیا ہے ہونے کے باوجود اس سے زنا سرزد ہوا ہو یا اس نے کسی کو ناحق قتل کیا ہو اور اس کا قصاص اس پر آتا ہو یا وہ دین چھوڑ کر مرتَد ہو گیا ہو۔
ٍ۳۱۹۔ اس وقت اس کا مال اس کے سپرد کر دو۔
۳۲۰۔ ان دونوں آیتوں میں جو حکم دیا۔
ٍ۳۲۱۔ جو اسلام کے خلاف ہوں، یہودیت ہو یا نصرانیت یا اور کوئی ملّت۔
ٍ۳۲۴۔ اور بَعث و حساب اور ثواب و عذاب اور دیدارِ الٰہی کی تصدیق کریں۔
۳۲۵۔ یعنی قرآن شریف جو کثیرُ الخیر اور کثیرُ النفع اور کثیرُ البرکۃ ہے اور قیامت تک باقی رہے گا اور تحریف و تبدیل و نَسخ سے محفوظ رہے گا۔
ٍ۳۲۶۔ یعنی یہود و نصاریٰ پر توریت اور انجیل۔
ٍ۳۲۷۔ کیونکہ وہ ہماری زبان ہی میں نہ تھی نہ ہمیں کسی نے اس کے معنیٰ بتائے، اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم نازل فرما کر ان کے اس عُذر کو قطع فرما دیا۔
۳۲۸۔ کُفّار کی ایک جماعت نے کہا تھا کہ یہود و نصاریٰ پر کتابیں نازل ہوئیں مگر وہ بدعقلی میں گرفتار رہے، ان کتابوں سے منتفِع نہ ہوئے، ہم ان کی طرح خفیفُ العقل اور نادان نہیں ہیں، ہماری عقلیں صحیح ہیں، ہماری عقل و ذہانت اور فہم و فراست ایسی ہے کہ اگر ہم پر کتاب اُترتی تو ہم ٹھیک راہ پر ہوتے، قرآن نازل فرما کر ان کا یہ عُذر بھی قطع فرما دیا چنانچہ آگے ارشاد ہوتا ہے۔
ٍ۳۲۹۔ یعنی یہ قرآنِ پاک جس میں حُجّتِ واضحہ اور بیان صاف اور ہدایت و رحمت ہے۔
ٍ۳ٍ۳۰۔ جب وحدانیت و رسالت پر زبردست حُجّتیں قائم ہو چُکیں اور اعتقاداتِ کُفر و ضلال کا بُطلان ظاہر کر دیا گیا تو اب ایمان لانے میں کیوں تَوقُّف ہے، کیا انتِظار باقی ہے۔
ٍ۳ٍ۳۱۔ ان کی اَرواح قبض کرنے کے لئے۔
ٍ۳ٍ۳۲۔ قیامت کی نشانیوں میں سے۔ جمہور مفسِّرین کے نزدیک اس نشانی سے آفتاب کا مغرب سے طُلوع ہونا مراد ہے۔ ترمذی کی حدیث میں بھی ایسا ہی وارد ہے، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ قیامت قائم نہ ہو گی جب تک آفتاب مغرب سے طلوع نہ کرے اور جب وہ مغرب سے طلوع کرے گا اور اسے لوگ دیکھیں گے تو سب ایمان لائیں گے اور یہ ایمان نفع نہ دے گا۔
ٍ۳ٍ۳ٍ۳۔ یعنی طاعت نہ کی تھی، معنیٰ یہ ہیں کہ نشانی آنے سے پہلے جو ایمان نہ لائے نشانی کے بعد اس کا ایمان قبول نہیں، اسی طرح جو نشانی سے پہلے توبہ نہ کرے بعد نشانی کے اس کی توبہ قبول نہیں لیکن جو ایمان دار پہلے سے نیک عمل کرتے ہوں گے نشانی کے بعد بھی ان کے عمل مقبول ہوں گے۔
ٍ۳ٍ۳۴۔ ان میں سے کسی ایک کا یعنی موت کے فرشتوں کی آمد یا عذاب یا نشانی آنے کا۔
ٍ۳ٍ۳۵۔ مثل یہود و نصاریٰ کے۔ حدیث شریف میں ہے یہود اکہتر ۷۱ فرقے ہو گئے، ان سے صرف ایک ناجی ہے باقی سب ناری اور نصاریٰ بہتر ۷۲ فرقے ہو گئے ایک ناجی باقی سب ناری اور میری اُمّت تہتر ۷۳ فرقے ہو جائے گی وہ سب کے سب ناری ہوں گے سوائے ایک کے جو سَوادِ اعظم یعنی بڑی جماعت ہے اور ایک روایت میں ہے کہ جو میری اور میرے اصحاب کی راہ پر ہے۔
ٍ۳ٍ۳۶۔ اور آخرت میں انہیں اپنے کردار کا انجام معلوم ہو جائے گا۔
ٍ۳ٍ۳۷۔ یعنی ایک نیکی کرنے والے کو دس نیکیوں کی جزا اور یہ بھی حد و نہایت کے طریقہ پر نہیں بلکہ اللّٰہ تعالیٰ جس کے لئے جتنا چاہے اس کی نیکیوں کو بڑھائے، ایک کے سات سو کرے یا بے حساب عطا فرمائے۔ اصل یہ ہے کہ نیکیوں کا ثواب مَحض فضل ہے، یہی مذہب ہے اہلِ سُنّت کا اور بدی کی اُتنی ہی جزا، یہ عدل ہے۔
ٍ۳ٍ۳۸۔ یعنی دینِ اسلام جو اللّٰہ کو مقبول ہے۔
ٍ۳ٍ۳۹۔ اس میں کفّارِ قُریش کا رد ہے جو گمان کرتے تھے کہ وہ دینِ ابراہیمی پر ہیں، اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مشرک و بُت پرست نہ تھے تو بُت پرستی کرنے والے مشرکین کا یہ دعویٰ کہ وہ ابراہیمی ملّت پر ہیں باطل ہے۔
ٍ۳۴۰۔ اوّلیّت یا تو اس اعتبار سے ہے کہ انبیاء کا اسلام ان کی اُمّت پر مقدّم ہوتا ہے یا اس اعتبار سے کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم اوّل مخلوقات ہیں تو ضرور اوّل المسلمین ہوئے۔
ٍ۳۴۱۔ شا نِ نُزول : کُفّار نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے کہا تھا کہ آپ ہمارے دین کی طرف لوٹ آئیے اور ہمارے معبودوں کی عبادت کیجئے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ ولید بن مغیرہ کہتا تھا کہ میرا رستہ اختیار کرو اس میں اگر کچھ گناہ ہے تو میری گردن پر۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ وہ رستہ باطل ہے، خدا شَناس کس طرح گوارا کر سکتا ہے کہ اللّٰہ کے سوا کسی اور کو ربّ بتائے اور یہ بھی باطل ہے کہ کسی کا گناہ دوسرا اٹھا سکے۔
ٍ۳۴۲۔ ہر شخص اپنے گناہ میں ماخوذ ہو گا دوسرے کے گناہ میں نہیں۔
۳۴۴۔ کیونکہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم خاتَم النبّیِین ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور آپ کی اُمّت آخرُ الاُمَم ہے اس لئے ان کو زمین میں پہلوں کا خلیفہ کیا کہ اس کے مالک ہوں اور اس میں تصرُّف کریں۔
ٍ۳۴۵۔ شکل و صورت میں، حسن و جمال میں، رزق و مال میں، علم و عقل میں، قوّت و کمال میں۔
ٍ۳۴۶۔ یعنی آزمائش میں ڈالے کہ تم نعمت و جاہ و مال پا کر کیسے شکر گزار رہتے ہو اور باہم ایک دوسرے کے ساتھ کس قسم کے سلوک کرتے ہو۔