۱ اس سورت کا نام سورۂ نُون و سورۂ قلم ہے، یہ سورۃ مکّیہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، باون ۵۲ آیتیں، تین سو ۳۰۰کلمے، ایک ہزار دو سو چھپّن ۱۲۵۶ حرف ہیں۔
۲ اللہ تعالیٰ نے قلم کی قَسم ذکر فرمائی اس قلم سے مراد یا تو لکھنے والوں کے قلم ہیں جن سے دینی دنیوی مصالح و فوائد وابستہ ہیں اور یا قلمِ اعلیٰ مراد ہے جو نوری قلم ہے اور اس کا طول فاصلۂ زمین و آسمان کے برابر ہے اس نے بحکمِ الٰہی لوحِ محفوظ پر قیامت تک ہونے والے تمام امور لکھ دیئے۔
۳ یعنی اعمالِ بنی آدم کے نگہبان فرشتوں کے لکھے کی قَسم۔
۴ اس کا لطف و کرم تمہارے شاملِ حال ہے اس نے تم پر انعام و احسان فرمائے نبوّت اور حکمت عطا کی فصاحتِ تامّہ، عقلِ کامل، پاکیزہ خصائل، پسندیدہ اخلاق عطا کئے مخلوق کے لئے جس قدر کمالات امکان میں ہیں سب علیٰ وجہِ الکمال عطا فرمائے، ہر عیب سے ذاتِ عالی صفات کو پاک رکھا۔ اس میں کُفّار کے اس مقولہ کا رد ہے جو انہوں نے کہا تھا۔ یٰۤاَ یُّہَاالَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ اِنَّکَ لَمَجْنُوْن۔
۵ تبلیغِ رسالت و اظہارِ نبوّت اور خَلق کو اﷲ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور کفّار کی ان بے ہودہ باتوں اور افتراؤں اور طعنوں پر صبر کرنے کا۔
۶ حضرت اُمُّ المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا خُلق قرآن ہے۔ حدیث شریف میں ہے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مکارمِ اخلاق و محاسنِ افعال کی تکمیل و تتمیم کے لئے مبعوث فرمایا۔
۷ یعنی اہلِ مکّہ بھی جب ان پر عذاب نازل ہو گا۔
۸ دِین کے معاملہ میں ان کی رعایت کر کے۔
۹ کہ جھوٹی اور باطل باتوں پر قَسمیں کھانے میں دلیر ہے مراد اس سے یا ولید بن مغیرہ ہے یا اسود بن یَغُوث یا اخنس بن شَریق۔ آگے اس کی صفتوں کا بیان ہوتا ہے۔
۱۰ تاکہ لوگوں کے درمیان فساد ڈالے۔
۱۱ بخیل نہ خود خرچ کرے، نہ دوسرے کو نیک کاموں میں خرچ کرنے دے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس کے معنیٰ میں یہ فرمایا ہے کہ بھلائی سے روکنے سے مقصود اسلام سے روکنا ہے کیونکہ ولید بن مغیرہ اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں سے کہتا تھا کہ اگر تم میں سے کوئی اسلام میں داخل ہوا تو میں اسے اپنے مال میں سے کچھ نہ دوں گا۔
۱۴ یعنی بد گوہر تو اس سے افعالِ خبیثہ کا صدور کیا عجب۔ مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ولید بن مغیرہ نے اپنی ماں سے جا کر کہا کہ محمّد (مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) نے میرے حق میں دس باتیں فرمائیں ہیں نوکو تومیں جانتا ہوں کہ مجھ میں موجود ہیں لیکن دسویں بات اصل میں خطا ہونے کی اس کا حال مجھے معلوم نہیں یا تو مجھے سچ سچ بتا دے ورنہ میں تیری گردن ماردوں گا اس پر اس کی ماں نے کہا کہ تیرا باپ نامرد تھا مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ مر جائے گا تو اس کا مال غیر لے جائیں گے تو میں نے ایک چرواہے کوبلا لیا تو اس سے ہے۔
فائدہ : ولید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی شان میں ایک جھوٹا کلمہ کہا تھا مجنون، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اس کے دس واقعی عیوب ظاہر فرما دیئے اس سے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی فضیلت اور شانِ محبوبیّت معلوم ہوتی ہے۔
۱۶ اور اس سے اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ جھوٹ ہے اور اس کا یہ کہنا اس کا نتیجہ ہے کہ ہم نے اس کو مال اور اولاد دی۔
۱۷ یعنی اس کا چہرہ بگاڑ دیں گے اور اس کی بد باطنی کی علامت اس کے چہرہ پر نمودار کر دیں گے تاکہ اس کے لئے سببِ عار ہو آخرت میں تو یہ سب کچھ ہو گا ہی مگر دنیا میں بھی یہ خبر پوری ہو کر رہی اور اس کی ناک دغیلی ہو گئی کہتے ہیں کہ بدر میں اس کی ناک کٹ گئی کَذَا قِیْلَ خَازِن وَمدَارک وَجَلَالَیْنِ وَ اُعْتُرِاضَ عَلَیْہِ بِاَنَّ وَلِیْداً کَانَ مِنَ المُسْتَہْزِ ئِیۡنَ الَّذِیْنَ مَاتُوْا قَبْلَ بَدْرٍ۔
۱۸ یعنی اہلِ مکّہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی دعا سے جو آپ نے فرمائی تھی کہ یارب انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر جیسی حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں ہوئی تھی چنانچہ اہلِ مکّہ قحط کی ایسی مصیبت میں مبتلا کئے گئے کہ وہ بھوک کی شدّت میں مردار اور ہڈیاں تک کھا گئے اور اس طرح آزمائش میں ڈالے گئے۔
۱۹ اس باغ کا نام ضردان تھا یہ باغ صنعاء یمن سے دو فرسنگ کے فاصلہ پر سرِ راہ تھا اس کا مالک ایک مردِ صالح تھا جو باغ کے میوے کثرت سے فقراء کو دیتا تھا جب باغ میں جاتا فقراء کو بلا لیتا تمام گرے پڑے میوے فقراء لے لیتے اور باغ میں بستر بچھا دیئے جاتے جب میوے توڑے جاتے تو جتنے میوے بستروں پر گرتے وہ بھی فقراء کو دے دیئے جاتے اور جو خالص اپنا حصّہ ہوتا اس سے بھی دسواں حصّہ فقراء کو دے دیتا اسی طرح کھیتی کاٹتے وقت بھی اس نے فقراء کے حقوق بہت زیادہ مقرر کئے تھے اس کے بعد اس کے تین بیٹے وارث ہوئے انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ مال قلیل ہے کنبہ بہت ہے اگر والد کی طرح ہم بھی خیرات جاری رکھیں تو تنگ دست ہو جائیں گے آپس میں مل کر قَسمیں کھائیں کہ صبح تڑکے لوگوں کے اٹھنے سے پہلے باغ چل کر میوے توڑ لیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔
۲۱ یہ لوگ تو قَسمیں کھا کر سو گئے۔
۲۳ یعنی ایک بَلا آئی بحکمِ الٰہی آگ نازل ہوئی اور باغ کو تباہ کر گئی۔
۲۵ اور ان لوگوں کو کچھ خبر نہیں یہ صبح تڑکے اٹھے۔
۲۶ کہ کسی مسکین کو نہ آنے دیں گے اور وہ تمام میوہ اپنے قبضہ میں لائیں گے۔
۲۷ یعنی باغ کو کہ اس میں میوہ کا نام و نشان نہیں۔
۲۸ یعنی کسی اور باغ پر پہنچ گئے ہمارا باغ تو بہت میوہ دار ہے پھر جب غور کیا اور اس کے درو دیوار کو دیکھا اور پہچانا کہ اپنا ہی باغ ہے تو بولے۔
۲۹ اس کے منافع سے مسکینوں کو نہ دینے کی نیّت کر کے۔
۳۰ اور اس ارادۂ بد سے توبہ کیوں نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر کیوں نہیں بجا لاتے۔
۳۱ اور آخرِ کار ان سب نے اعتراف کیا کہ ہم سے خطا ہوئی اور ہم حد سے متجاوز ہو گئے۔
۳۲ کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر نہ کیا اور باپ دادا کے نیک طریقہ کو چھوڑا۔
۳۳ اس کے عفوو کرم کی امید رکھتے ہیں ان لوگوں نے صدق و اخلاص سے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کے عوض اس سے بہتر باغ عطا فرمایا جس کا نام باغِ حیوان تھا اور اس میں کثرتِ پیداوار اور لطافتِ آب و ہوا کا یہ عالَم تھا کہ اس کے انگوروں کا ایک خوشہ ایک گدھے پر بار کیا جاتا تھا۔
۳۴ اے کفّارِ مکّہ ہوش میں آؤ یہ تو دنیا کی مار ہے۔
۳۵ عذابِ آخرت کو اور اس سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ اور رسول کی فرمانبرداری کرتے۔
۳۷ شانِ نزول : مشرکین نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ اگر مرنے کے بعد پھر ہم اٹھائے بھی گئے تو وہاں بھی ہم تم سے اچھے رہیں گے اور ہمارا ہی درجہ بلند ہو گا جیسے کہ دنیا میں ہمیں آسائش ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جو آگے آتی ہے۔
۳۸ اور ان مخلص فرمانبرداروں کو ان معاند باغیوں پر فضیلت نہ دیں گے ہماری نسبت ایسا گمان فاسد۔
۴۰ جو منقطع نہ ہوں اس مضمون کی۔
۴۱ اپنے لئے ا للہ تعالیٰ کے نزدیک خیر و کرامت کا۔ اب اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو خطاب فرماتا ہے۔
۴۳ کہ آخرت میں انہیں مسلمانوں سے بہتر یا ان کے برابر ملے گا۔
۴۴ جو اس دعوے میں ان کی موافقت کریں اور ذمّہ دار بنیں۔
۴۵ حقیقت میں وہ باطل پر ہیں نہ ان کے پاس کوئی کتاب جس میں یہ مذکور ہو جو وہ کہتے ہیں، نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد، نہ کوئی ان کا ضامن، نہ موافق۔
۴۶ جمہور کے نزدیک کشفِ ساق شدّت و صعوبتِ امر سے عبارت ہے جو روزِ قیامت حساب و جزا کے لئے پیش آئے گی۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ قیامت میں وہ بڑا سخت وقت ہے سلف کا یہی طریقہ ہے کہ وہ اس کے معنیٰ میں کلام نہیں کرتے اور یہ فرماتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس سے جو مراد ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف تفویض کرتے ہیں۔
۴۷ یعنی کفّار و منافقین بطریقِ امتحان و توبیخ۔
۴۸ ان کی پشتیں تانبے کے تختے کی طرح سخت ہو جائیں گی۔
۴۹ کہ ان پر ذلّت و ندامت چھائی ہوئی ہو گی۔
۵۰ اور اذانوں اور تکبیروں میں حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے ساتھ انہیں نماز و سجدے کی دعوت دی جاتی تھی۔
۵۱ باوجود اس کے سجدہ نہ کرتے تھے اسی کا نتیجہ ہے جو یہاں سجدے سے محروم رہے۔
۵۴ اپنے عذاب کی طرف اس طرح کہ باوجود معصیّتوں اور نافرمانیوں کے انہیں صحت و رزق سب کچھ ملتا رہے گا اور دم بدم عذاب قریب ہوتا جائے گا۔
۵۷ اور تاوان کا ان پر ایسا بارِ گراں ہے جس کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے۔
۵۸ غیب سے مراد یہاں لوحِ محفوظ ہے۔
۶۰ جو وہ ان کے حق میں فرمائے۔ اور چندے ان کی ایذاؤں پر صبر کرو۔ قِیْلَ اِنَّہ مَنْسُوخ بِآٰ یٰۃِ السَّیْفِ
۶۱ قوم پر تعجیلِ غضب میں۔ اور مچھلی والے سے مراد حضرت یونس علیہ السلام ہیں۔
۶۳ اور اللہ تعالیٰ ان کے عذر و دعا کو قبول فرما کر ان پر انعام نہ فرماتا۔
۶۴ لیکن اللہ تعالیٰ نے رحمت فرمائی۔
۶۵ اور بغض و عداوت کی نگاہوں سے گھور گھور کر دیکھتے ہیں۔ شانِ نزول : منقول ہے کہ عرب میں بعض لوگ نظر لگانے میں شہرۂ آفاق تھے اور ان کی یہ حالت تھی کہ دعویٰ کر کر کے نظر لگاتے تھے اور جس چیز کو انہوں نے گزند پہنچانے کے ارادے سے دیکھا دیکھتے ہی ہلاک ہو گئی، ایسے بہت واقعات ان کے تجربہ میں آچکے تھے کفّار نے ان سے کہا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو نظر لگائیں تو ان لوگوں نے حضور کو بڑی تیز نگاہوں سے دیکھا اور کہا کہ ہم نے اب تک نہ ایسا آدمی دیکھا نہ ایسی دلیلیں دیکھیں اور ان کا کسی چیز کو دیکھ کر حیرت کرنا ہی ستم ہوتا تھا لیکن ان کی یہ تمام جِدّ و جُہد کبھی مثل ان کے اور مکائد کے جو رات دن وہ کرتے رہتے تھے بے کار گئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ان کے شر سے محفوظ رکھا اور یہ آیت نازل ہوئی۔ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جس کو نظر لگے اس پر یہ آیت پڑھ کر دم کر دی جائے۔
۶۶ براہِ حسد و عناد، اور لوگوں کو نفرت دلانے کے لئے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی شان میں جب آپ کو قرآنِ کریم پڑھتے دیکھتے ہیں۔
۶۷ یعنی قرآن شریف یا سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۶۸ جنّوں کے لئے بھی اور انسانوں کے لئے بھی یا ذکر معنیٰ فضل و شرف کے ہے اس پر تقدیر پر معنیٰ یہ ہیں کہ سید عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و سلم تمام جہانوں کے لئے شرف ہیں ان کی طرف جنّوں کی نسبت کرنا کور باطنی ہے (مدارک)