دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ القَلَم

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

آغاز میں قلم کا ذکرہوا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’ القلم ‘ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جب کہ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی اور رسالت کے دعوے کی بنا پر دیوانہ قرار دیا۔

 

مرکزی مضمون

 

جو لوگ وحی و رسالت کی ناقدری کرتے ہیں اور رسول کو دیوانہ قرار دیتے ہیں انہیں ان کے دنیوی اور اخروی انجام سے خبردار کر دینا ہے۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۱۶ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں واضح کیاگیا ہے کہ آپ کس پایہ کی شخصیت ہیں اور وہ لوگ جو آپ کی مخالفت میں پیش پیش ہیں اور آپ کو دیوانہ قرار دے رہے ہیں کس قماش کے لوگ ہیں اور کیسی گراوٹ میں مبتلا ہیں۔

 

آیت ۱۷ تا ۳۳ میں ایک باغ والوں کی مثال عبرت کے لیے پیش کی گئی ہے جنہوں نے اللہ کی ناشکری کی جس کے نتیجہ میں وہ باغ کی نعمت سے محروم ہو کر رہ گئے۔

 

آیت ۳۴ تا ۳۶ میں تقویٰ اختیار کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے اور اس بات کی نامعقولیت کو واضح کیا گیا ہے کہ منکرینِ آخرت کی نظر میں مسلم اور مجرم سب برابر ہیں۔

 

آیت ۳۷ تا ۴۱ میں منکرین کے موقف کا غلط ہونا واضح کیا گیا ہے۔

 

آیت ۴۲ اور ۴۳ میں انکار کرنے والوں کو متنبہ کیاگیا ہے کہ آج انہیں اللہ کو سجدہ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ انکار کرتے ہیں لیکن ایک دن آنے والا ہے جب لوگوں کو سجدہ کرنے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کرسکیں گے اور ان پر ذلت طاری ہوگی۔

 

آیت ۴۴ تا ۴۷ میں اللہ کی تدبیر سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے ان کی نا معقولیت ان پر واضح کی گئی ہے۔

 

آیت ۴۸ تا ۵۰ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی مخالفت پر صبر کرنے کی تلقین ہے۔

 

آیت ۵۱ اور ۵۲ سورہ کی اختتامی آیتیں ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں واضح کیاگیا ہے کہ آپ جو کلام پیش کررہے ہیں وہ دیوانگی نہیں ہے بلکہ وہ کلامِ الٰہی ہے جو تمام انسانوں کے لیے سرتاسر نصیحت ہے۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ نون ۱* قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جسے وہ لکھتے ہیں۔ ۲*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اپنے رب کے فضل سے دیوانے نہیں ہو۔ ۳*

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہارے لیے یقیناً ایسا اجر ہے جوکبھی ختم نہ ہوگا۔ ۴*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بے شک تم عظیم اخلاق کے مرتبہ پر ہو۔ ۵*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تو عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔کہ تم میں سے کون جنون میں مبتلا ہے۔۶*

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جنہوں نے ہدایت پائی ہے۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا تم ان جھٹلانے والوں کی بات نہ مانو۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ تم نرم پڑو تو یہ بھی پڑیں گے۔ ۷*

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تم ایسے شخص کی بات نہ مانو جو بہت قسمیں کھانے والا ۸* اور ذلیل ہے۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔طعنہ زنی کرنے والا، ۹* چغلخور۔۱۰*

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر سے روکنے والا،۱۱* زیادتی کرنے والا ۱۲*، گناہوں میں ملوث۔۱۳*

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ درشت خو ۱۴* اور پھر بدنام ہے۔ ۱۵*

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا گھمنڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بنا پر ہے کہ وہ مال اور اولاد والا ہے۔ ۱۶*

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ہماری آیتیں اس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ عنقریب ہم اس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے۔ ۱۷*

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح باغ والوں کو آزمائش میں ڈالا تھا۔ ۱۸* جب انہوں نے قسم کھائی کہ صبح سویرے ضرور اس کے پھل توڑیں گے۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور استثناء نہیں کر رہے تھے۔ ۱۹*

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ابھی سوتے ہی پڑے تھے کہ تمہاری رب کی طرف سے ایک گردش آئی۔ ۲۰*

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ کٹی ہوئی کھیتی کی طرح ہو کر رہ گیا۔ ۲۱*

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح انہوں نے ایک دوسرے کو پکارا۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اگر پھل توڑنے ہیں تو سویرے اپنی کھیتی ۲۲* پر پہنچ جاؤ۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ وہ نکل گئے اور چپکے چپکے کہتے جارہے تھے۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔کہ آج کوئی مسکین اس میں تمہارے پاس داخل نہ ہونے پائے۔ ۲۳*

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ صبح سویرے پختہ ارادے کے ساتھ نکلے کہ وہ ایسا کر سکیں گے۔ ۲۴*

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جب اس (باغ)کو دیکھا تو کہنے لگے ہم راستہ بھول گئے۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ ہم محروم ہو کر رہ گئے۔ ۲۵*

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں جو شخص بہتر تھا اس نے کہا میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے ؟ ۲۶*

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پکار اٹھے پاک ہے ہمارا رب۔ ہم ہی قصور وار تھے۔۲۷*

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ ۲۸*

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا افسوس ہم پر! ہم ہی سرکش ہو گئے تھے۔۲۹*

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ امید ہے کہ ہمارا رب اس کے بدلہ میں ہمیں اس سے بہتر باغ عطا فرمائے گا۔ ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ۳۰*

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح ہوتا ہے عذاب۔ ۳۱* اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں بڑا ہے۔ کاش یہ لوگ جانتے !

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً متقیوں کے لیے ان کے رب کے پاس نعمت بھری جنتیں ہیں۔ ۳۲*

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں جیسا کریں گے ؟

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ تم لوگوں کو کیا ہوا ہے کیسا فیصلہ کرتے ہو! ۳۳*

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ تمہارے لیے وہی کچھ ہے جو تم پسند کرو گے ؟ ۳۴*

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یا تمہارے ساتھ ہمارے عہد و پیماں ہیں قیامت تک باقی رہنے والے کہ تمہارے لیے وہی کچھ ہے جس کا تم فیصلہ کرو گے ؟ ۳۵*

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سے پوچھو تم میں سے کون اس کا ضامن ہے ؟ ۳۶*

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یا ان کے کچھ شریک ہیں تو لائیں اپنے شریکوں کو اگروہ سچے ہیں۔ ۳۷*

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن سخت مصیبت آ پڑے گی۔ ۳۸* اور ان لوگوں کو سجدے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ سجدہ نہ کرسکیں گے۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی، ذلت ان پر طاری ہوگی۔ سجدے کے لیے ان کو اس وقت بلایا جاتا تھا۔ جب وہ صحیح سالم تھے۔ ۳۹* مگر اس وقت وہ انکار کرتے رہے۔۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ تو (اے نبی!)چھوڑ دو مجھے اور ان کو جو اس کلام کو جھٹلاتے ہیں۔ ۴۰* ہم ان کو اس طرح بتدریج  برے انجام کو۔۔۔۔۔۔۔۔ پہنچائیں گے کہ انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ ۴۱*

 

۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں۔ میری تدبیر نہایت مضبوط ہوتی ہے۔

 

۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم ان سے کوئی معاوضہ طلب کررہے ہو کہ یہ اس کے تاوان سے دبے جا رہے ہوں ؟ ۴۲*

 

۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یا ان کے پاس غیب کا علم ہے جسے ہے لکھ رہے ہوں ؟ ۴۳*

 

۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جاؤ ۴۵* جب اس نے  اپنے رب کو۔۔۔۔۔۔۔۔ پکارا اور وہ غم سے گھٹا ہوا تھا۔ ۴۶*

 

۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر اس کے رب کا فضل اس کو نہ پہنچتا تو وہ مذموم حالت میں چٹیل میدان ہی میں ڈال دیا جاتا ۴۷*

 

۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کے رب نے اسے برگزیدہ کیا اور اسے صالحین میں شامل کیا۔ ۴۸*

 

۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جب یہ کافر ذکر (یاددہانی)کو سنتے ہیں تو اس طرح تمہیں دیکھتے ہیں کہ گویا اپنی نگاہوں سے تمہیں پھسلا دیں گے۔۴۹* اور کہتے ہیں کہ یہ ضرور دیوانہ ہے۔

 

۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ (قرآن) دنیا والوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔ ۵۰*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ حروفِ مقطعات میں سے ہے جن کی تشریح سورۂ بقر ہ نوٹ  ۱ اور سورۂ یونس نوٹ  ۱  میں گزر چکی۔

 

اس سورۂ میں آیتوں کی ترتیب ایسی ہے کہ بیشتر آیتوں کا آخری حرفِ’نون‘ ہے اور سورہ کی اسی خصوصیت کی طرف یہ ’ ن‘ جو آغاز میں آیا ہے اشارہ کرتا ہے۔ اس میں قرآن کے اعجازِ کا پہلو بھی ہے اور حفظ کرنے کے لیے سہل ہونے کا پہلو بھی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس حرف کی تلاوت ایک پر کشش آہنگ پیدا کر دیتی اور دل کلام کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا جو بھی حصہ نازل ہوتا آپ اس کو لکھوانے کا انتظام فرماتے۔ کاتبانِ وحی اسے قلم سے چمڑے کی جھلیوں وغیرہ پر لکھتے۔ اس طرح قرآن قلم کے ذریعہ ضبط تحریر میں آ رہا تھا اور اس کے اوراق کو پڑھ کر اس کے کلامِ الٰہی ہونے کی طرف سے اطمینان حاصل کیا جاسکتا تھا۔ یہاں قلم اور کتابت کی جو قسم کھائی گئی ہے وہ قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے کی شہادت کے طورپر ہے اور جیسا کہ دوسری جگہ واضح کیا جاچکا ہے عربی میں ایسے موقع پر قسم شہادت اور دلالت کے معنی میں ہوتی ہے۔

 

آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا نزول اگرچہ ایک امی قوم میں ہوا ہے مگر اس بات کا پورا اہتمام کیاگیا ہے کہ وہ ضبطِ تحریر میں آئے اور لوگوں تک اللہ کا کلام اپنی اصل شکل میں پہنچے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ محفوظ ہو جائے۔ اب کوئی شخص بھی ان اوراق کا مطالعہ کرسکتا ہے۔ اس کے مضامین خود شہادت دیتے ہیں کہ یہ کلامِ الٰہی ہے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کافر دیوانہ قرار دیتے تھے اس بنا پر کہ آپ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ آسمان سے آپ پر وحی آتی ہے۔ ان کے اسی الزام کی اللہ تعالیٰ نے تردید فرمائی کہ اللہ کا رسول اس کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے بلکہ جو کلام وہ پیش کررہا ہے وہ واقعی وحی ہے جس کو اللہ نے اس پر نازل فرمایا ہے اور اس کے وحی ہونے کا ثبوت نفسِ کلام ہے جس کی کتابت کا اہتمام کیاگیا ہے۔

 

مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۸۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی ہے کہ کافروں کے اس الزام پر آپ صبر کریں اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا اجر عطا فرمانے والا ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ یعنی ایسا انعام جو ہمیشہ باقی رہے گا۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق و سیرت کے اعتبار سے نہایت اعلیٰ مرتبہ پر تھے۔ ایسی عظیم شخصیت پر دیوانہ ہونے کا الزام لگانا بڑی نا معقول اور خلافِ واقعہ بات تھی۔ اس کی تردید میں یہاں آپ کی اخلاقی عظمت کے پہلو کو واضح کیاگیا ہے۔ کیا کوئی دیوانہ شخص اخلاق کے بلند معیار پر ہوتا ہے ؟ اگر نہیں تو آپ کا اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار اس الزام کی تردید کے لیے کافی ہے۔

 

قرآن و حدیث کے علاوہ تاریخ کے اوراق میں آپ کی سیرت بالکل محفوظ ہے اور اس تفصیل کے ساتھ محفوظ ہے کہ آج بھی ہم تاریخ کے اوراق میں آپ کی شخصیت کو اس طرح دیکھ سکتے ہیں کہ گویا آپ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ تاریخ کے یہ اوراق ایک ایسی شخصیت کو پیش کرتے ہیں جو آہنی عزم رکھنے والی، بلند کردار، پاک سیرت اور ایسی عظیم المرتبت ہے کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی عنقریب انجام تمہارے سامنے آئے گا اور تم دیکھ لو گے کہ کون دیوان پن میں مبتلا تھا۔ کافر جب اپنے انجام کو دیکھ لیں گے تو انہیں احساس ہوگا کہ وہ خود ہی پاگل پن میں مبتلا تھے کہ اپنے سچے خیر خواہ کی بات نہیں سنی اور اس انجام کو پہنچ گئے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی یہ جھٹلانے والے چاہتے ہیں کہ تم اپنے دین کے معاملہ میں نرم پڑوتو وہ بھی نرم پڑیں اور لے اور دے کے اصول پر کوئی سمجھوتہ ہوجائے مگر دین کے معاملہ میں نرمی برتنے اور کسی دوسرے مذہب سے سمجھوتہ کرنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ سچا دین وہی ہے جو اللہ نے نازل فرمایا ہے اس میں جو کمی بیشی بھی کی جائے گی وہ اللہ پر افترائ( جھوٹ باندھنا) ہوگا اور اس کے بعد یہ دین خالص نہیں رہے گا۔

 

اس حکم کا منشاء کافروں پر یہ واضح کرنا تھا کہ اللہ کا رسول اس کے احکام کا پابند ہے اور اس سے یہ امید ہرگز نہ رکھیں کہ وہ دین کے معاملہ میں کسی مصالحتcompromise کے لیے آمادہ ہوجائے گا۔ یہ ذمہ داری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں کی بھی ہے کہ وہ دین شریعت کے معاملہ میں سخت رہیں اور کافروں کے آگے نہ جھکیں۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  بہ کثرت قسمیں کھانے والا وہی شخص ہوتا ہے جو اپنا اعتماد کھوچکا ہوتا ہے۔ کافروں کے لیڈر جھوٹی قسمیں کھا کھاکر لوگوں کو یقین دلاتھے تھے کہ ان کامشرکانہ اور بت پرستانہ مذہب سچا ہے اور اس شخص پر جو نبوت کا دعویٰ کررہا ہے وحی ہرگز نہیں آتی۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  طعنہ زنی اور عیب چینی بہت بری عادت ہے۔ ایسا شخص دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ یہاں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ بدخصلت شخص نیک شخصیتوں پر بھی انگلیاں اٹھارہا ہے۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی فساد کی غرض سے ادھر کی باتیں ادھر لگانے والا۔ لوگوں کو آپس میں لڑانے کے لیے ان کی باتیں نقل کرنا اور ایک دوسرے کے بارے میں برے تاثرات پیدا کرنا بہت بری عادت اور مفسدانہ حرکت ہے۔ آیت کا خصوصی اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اس کردار کا شخص اہل ایمان کی باتوں کو غلط رنگ میں لوگوں کے سامنے پیش کر ک انہیں ان کے خلاف اکسا رہا ہے۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی مال کو بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے سے روکنے والا مراد بخیل ہے۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ظلم و زیادتی کرنے والا۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جائز اور ناجائز میں تمیز نہ کرنے والا۔ فسق و فجور میں غرق۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی سخت مزاج اور جھگڑالو۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اپنی بد اخلاقی اور اپنے شر کی وجہ سے بدنام ہے اور سوسائٹی کا نہایت کمینہ شخص ہے۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اس کے گھمنڈ نے اس کے اندر یہ بری خصلتیں پیدا کیں اور وہ گھمنڈ میں اس لیے مبتلا ہوا کہ اللہ نے اس کو مال اور اولاد بخشی ہے حالانکہ اس پر اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا۔

 

ان آیتوں میں کسی مخصوص کافر کا حال نہیں بلکہ کفار کے لیڈروں کا حال بیان کیاگیا ہے کہ ایک طرف ایسی بداطوار اور کمینہ قیادت ہے جو دعوت اسلامی کے خلاف لوگوں کو اکسا رہی ہے اور دوسری طرف اللہ کے رسول کی قیادت ہے جو نہایت بلندی کردار اور اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز ہے۔ اب تم سوچ لو کہ تمہارا سچا قائد اور رہنما کون ہے ؟

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اس کی ناک پر ذلت کا نشان لگائیں گے۔ وہ تکبر سے اپنی ناک اونچی رکھنا چاہتا ہے لیکن ایسے شخص کی ناک انسان کی ناک نہیں بلکہ حیوان کی سونڈ ہے اور اس لائق ہے کہ اسے ذلت کا مزہ چکھایا جائے۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث نے کفارِ مکہ کو آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ اگر وہ آپ کی دعوت کو قبول کر لیتے ہیں تو ان پر دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ کھلے گی اور اگر وہ انکار کرتے ہیں تو ان پر دنیا میں بھی عذاب آئے گا اور آخرت میں بھی انہیں ابدی عذاب بھگتنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں عبرت کے لیے ایک باغ والوں کی مثال پیش کی گئی ہے۔ یہ مثال کسی فرضی قصہ کی نہیں ہے بلکہ ایک واقعہ کی ہے جو حقیقۃً پیش آیا تھا۔آگے باغ والوں کی جو گفتگو نقل ہوئی ہے وہ اس کے واقعہ ہونے کی شہادت دیتی ہے۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قسم کھا کر پورے وثوق کے ساتھ انہوں نے کہا کہ وہ صبح سویرے باغ کے پھل توڑیں گے اور انشاء اللہ ( اگر اللہ نے چاہا تو) نہ کہا۔ وہ اللہ کو بھول گئے اور خدا اعتمادی کو چھوڑ کر خود اعتمادی کے فریب میں مبتلا ہو گئے۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اسی رات جب کہ وہ سوتے پڑے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے باغ پر آفت نازل کر دی۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔  وہ آفت ایسی تھی کہ پورا باغ تہس نہس ہو کر رہ گیا۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔  باغ میں کاشت کے لیے بھی قطعات ہوتے ہیں اس لیے اس کو کھیتی کہا گیا۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ ان کی طرف سے سخت بخل کا اظہار تھا۔ وہ مسکینوں کا حق ادا کرنا نہیں چاہتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے پیداوار میں مسکینوں کا حق رکھا ہے جس کا داعیہ انسان کی فطرت میں موجود ہے اور وہ اسے ایک معروف کی حیثیت سے جانتا ہے اور شریعت میں اس کو ادا کرنے کی سخت تاکید آئی ہے۔ یہ تاکید سابقہ شریعتوں میں بھی رہی ہے۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی وہ سارے پھل توڑ کر اپنے لیے رکھ لیں گے اور کسی محتاج کو پاس میں پھٹکنے کا موقع نہیں دیں گے۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔  جب باغ کو دیکھا تو اجڑ چکا تھا۔ پہلے تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید ہم غلط جگہ پر پہنچ گئے ہیں بعد میں انہیں احساس ہوا کہ باغ تو ان کا اپنا ہی ہے لیکن وہ ایسا تباہ ہوگیا ہے کہ اب کاٹنے کے لیے کچھ بھی نہیں رہا بس حسرت ہی حسرت رہ گئی۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔  ان باغ والوں میں ایک شخص ایسا بھی تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے سمجھ عطا کی تھی اور وہ اللہ کا ذکر اور اس کی تسبیح کرنے والوں میں سے تھا۔ اس نے انہیں یاددلایا کہ کیا میں نے تم سے کہانہ تھا کہ تم اللہ کی تسبیح کیوں نہیں کرتے ؟ اس نے بہت مختصر مگر جامع بات کہی۔ جو شخص اللہ کی تسبیح کرتا ہے وہ اسے لازماً یاد کرتا ہے۔ وہ اس کی پاکی بیان کرتا ہے تو اپنے بندہ عاجز ہونے کا اعتراف بھی کرتا ہے۔ وہ غرورِ نفس میں مبتلا نہیں ہوتا بلکہ سارے کام اسی کے بھروسہ پر کرتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے حقوق ادا کرتا ہے۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔  اس وقت انہیں احساس ہوا کہ باغ کی تباہی اللہ کا ظلم نہیں ہے وہ پاک ہے اس سے کہ کوئی غلط کام کرے۔ دراصل قصوروار ہم ہی تھے کہ اللہ کو بھول گئے تھے اس لیے ہمیں اپنے کرتوتوں کی سزا ملی۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی وہ آپس میں ایک دوسرے پر الزام عائد کرنے لگے کہ تم نے غلط مشورہ دیا اور ہم تمہاری باتوں میں آ گئے۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔  بالآخر انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم ہی سرکش ہو گئے تھے جس کی سزا ہمیں ملی ہے۔ اور اس پر انہیں افسوس بھی ہوا۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔  انہوں نے توبہ کی اور وہ اپنے رب کی طرف پُر امید ہو کر رجوع ہوئے۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی سرکشی کے نتیجہ میں اللہ کا عذاب آتا ہے اور اچانک آتا ہے جس طرح باغ پر آفت آئی اور باغ والے کفِ افسوس ملتے رہ گئے۔ انہوں نے اپنے بہترین آدمی کی نصیحت کو قبول نہیں کیا اور اپنے انجام کو دیکھ لیا۔

 

کافر اس سے سبق حاصل کریں۔ ان کے درمیان اللہ کا رسول بہترین شخصیت ہے جو ان کی خیر خواہی کررہا ہے لیکن اگر انہوں نے رسول کی نصیحت پر کان نہیں دھرا اور توحید کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے تو انہیں اپنی سرکشی کی سزا دنیا میں بھی ملے گی اور آخرت میں اس سے کہیں زیادہ سخت سزا بھگتنا ہوگی۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔  اوپر کافروں کے لیے عذاب کا ذکر تھا اس آیت میں اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے اخروی انعام کا ذکر ہوا ہے۔ قرآن سزا کے پہلو بہ پہلو جزا کا بھی ذکر کرتا ہے تاکہ لوگ سزا سے ڈریں اور اپنے کو انعام کا مستحق بنائیں۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔  کافروں کے سردار اپنی خوشحالی کی بنا پر سمجھتے تھے کہ ہم سے اللہ خوش ہے اسی لیے اس نے ہم کو یہ نعمتیں عطا کی ہیں جب کہ رسول اور اس کے پیروؤں کو تنگی کی زندگی گذارناپڑ رہی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اللہ ان سے خوش نہیں ہے ، لہٰذا اگر آخرت برپا ہوئی تو وہاں بھی ہم نعمتوں سے نوازے جائیں گے اور اللہ کی ناراضگی ان لوگوں کے حصہ میں آئے گی۔ کافروں کے اسی خیال کی تردید کرتے ہوئے یہاں فرمایاگیا ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ کے نزدیک اس کے فرمانبردار بندوں کی کوئی قدر نہیں اور وہ ان کے ساتھ مجرموں کا سا معاملہ کرے گا۔ اور تم اپنے کفر اور نافرمانی کے باوجود انعام کے مستحق قرار پاؤ گئے ؟ کیسی نا معقول اور غیر منصفانہ باتیں ہیں جو تم کرتے ہو؟

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی کیا تمہارے پاس کوئی آسمانی کتاب ہے جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ عمل پر نہیں بلکہ تمہاری مرضی پر سب کچھ موقوف ہے جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔  اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر تم اس زع میں مبتلا ہو کہ ہم ابراہیم کی نسل سے ہیں جن کے ساتھ اللہ کے عہد و پیماں تھے اس لیے ہم اللہ کے منظورِ نظر ہیں۔ جو کچھ بھی ہم کریں ہم پر کوئی گرفت ہونے والی نہیں۔ تو اللہ نے ابراہیم سے ان کی نسل کے تعلق سے ایسا کوئی عہد نہیں باندھا تھا۔ امامت کا جو سلسلہ ان کو نسل میں چلایا جانے والا تھا اس کے بارے میں یہ صراحت کر دی گئی تھی کہ لَاَینَالُ عَہْدِی الظَّالِمِینَ (میرا یہ عہد ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔بقرہ:۱۲۴) اور اللہ نے کسی بھی قوم کو نجات کا پٹہ لکھ کر نہیں دیا ہے کہ وہ اپنی من مانی کرنے کے لیے آزاد ہے بلکہ انبیاء کے واسطہ سے ہر قوم کو یہی تعلیم دی گئی تھی کہ ہر شخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہے اور اپنے عمل کے مطابق اسے اچھا یا برا پھل پانا ہے۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی تم میں سے کون اس قسم کے عہد و پیمان کو ثابت کر دکھانے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے ؟ ظاہر ہے ایسے کھوکھلے دعوے کبھی ثابت نہیں کئے جا سکتے۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے ان کے لیے نجات کا پروانہ لکھ دیا ہے تو ان کو سامنے لائیں تاکہ اس کی حقیقت واضح ہو۔

 

مسلمانوں کا جاہل طبقہ بھی اس خیالِ خام میں مبتلا ہے کہ فلاں اور فلاں بزرگ کے ہم عقیدتمند ہیں اس لیے ہمارے اعمال کیسے ہی ہوں۔ ہم پر کوئی گرفت ہونے والی نہیں۔ ہمارے بزرگ ہمیں دنیا میں بھی آفتوں سے بچائیں گے اور آخرت میں بھی ہماری نجات کا ذریعہ بنیں گے۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔  متن میں لفظ ’ساق‘ استعمال ہوا ہے جس کے لفظی معنی پنڈلی کے بھی ہیں اور درخت کے تنہ اور کسی چیز کی اصل کے بھی ہیں۔ یہاں یہ لفظ نکرہ اسم عامcommon noun) ) استعمال ہوا ہے اور ایک خاص ترکیب میں اس لیے اہل لغت کہتے ہیں کہ یہ عربی کا محاورہ ہے جس کے معنی شدتِ امر کے ہیں۔ چنانچہ لسا ن العرب میں ہے :

 

الساق فی اللغۃ الامرالشدید،وکشفہ مثل فی شدۃ الامر کمایقال للشحیح یدہ مغلولۃ ولا یدثم ولا غُلَّ، وانما ہو مَثَلٌ شدۃ البخل، وکذالک ہٰذا لاساق ہناک ولا کشف۔( لسان العرب ج ۱۰ ص ۱۶۸)

 

’’ساق لغت میں امر شدید کو کہتے ہیں اور اس کا کشف ہونا شدت امر کے لیے مثال کے طور پر ہے۔ جس طرح بخیل کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا ہاتھ بندھا ہوا ہے حالانکہ ایسے موقع پر نہ ہاتھ ہوتا ہے اور نہ بندھن بلکہ یہ شدت بخل کے لیے ایک مثال ہوتی ہے اسی طرح یہاں ( اس محاورہ میں ) بھی نہ ساق کا کوئی وجود ہے اور نہ کشف کا۔‘‘

 

جمہور مفسرین نے بھی اس کو شدتِ امر ہی کے معنی میں لیا ہے اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ’’ جس دن سخت مصیبت آ پڑے گی۔ ‘‘ کیا ہے۔ لیکن بعض مفسرین نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ ’’ قیامت کے دن جب اللہ اپنی پنڈلی کھولے گا‘‘ اور اس کی تائید میں صحیحین کی وہ حدیث پیش کی ہے جس میں :

 

فَکْشِفْ رَبُّنَا عَنْ سَاقِۃِ ’’ جب ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا۔‘‘( بخاری کتاب التفسیر)

 

 کے الفاظ آئے ہیں۔ مگر اول تو یہ الفاط قرآن کے الفاظ سے مطابقت نہیں رکھتے کیونکہ قرآن نے اللہ کی پنڈلی کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے بلہ اسم عام ساق( پنڈلی) کا لفظ استعمال کیا ہے مزید یہ کہ یہ حدیث اگرچہ صحیحین کی ہے لیکن اس کے ایک راوی زید بن اسلم ہیں جن کے بارے میں کلام کی گنجائش ہے۔ ابن عینیہ کہتے ہیں زید بن اسلم نیک شخص تھے لیکن حفظ کے معاملہ میں کمزوری تھی اور ابو حاتم کہتے ہیں زید کی ابو سعید سے روایت مرسل ہوتی ہے۔ ابن حبان نے ان کا شمار ثقہ راویوں میں کیا ہے اور ابن عبدالبر نے مقدمہ میں جو بات بیان کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تدلیس ( جو اسناد کا نقص ہے ) کیا کرتے تھے۔(تہذیب التہذیب ج ۳ ص ۳۹۷)

 

اور عبیداللہ بن عمر کہتے ہیں ہم اس سے رویت میں حرج محسوس نہیں کرتے لیکن وہ قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے تھے۔( میز ان الاعتدال ج۲ ص ۹۸)

 

معلوم ہوتا ہے یہ حدیث بالمعنی بیان ہوئی ہے ( یعنی اصل الفاظ محفوظ نہیں ہیں ) اس لیے قرآن کے الفاظ ہی اصل حجت ہیں اوروہ شدتِ امر کے معنی میں ہیں۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی میدانِ حشر میں ایک موقع وہ ہوگا جب کہ ان کافروں سے کہا جائے گا کہ اللہ کو سجدہ کرو اور وہ سجدہ کرنا چاہیں گے مگر ان کی پیٹھ جھک نہ سکے گی اور وہ عاجز رہ جائیں گے۔ یہ مظاہرہ اس لیے کرایا جائے گا تاکہ انہیں احساس ہو کہ دنیا میں صحیح سالم ہو کر وہ اللہ کو سجدہ نہیں کرتے تھے بلکہ غیر اللہ کے آگے جھکتے تھے حالانکہ اس وقت انہیں اللہ کو سجدہ کرنے کے کیے کہا جاتا تھا۔ انہیں اللہ کا رسول ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دے رہا تھا جس میں اس کو سجدہ کرنا بھی شامل تھا۔ اس سجدہ سے انکار کر کے انہوں نے اپنے لیے کیسی ذلت کا سامان کیا ہے۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اب تم ان جھٹلانے والوں کی فکر نہ کرو میں ان سے نمٹ لوں گا۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ایسے اسباب پیدا کروں گا کہ وہ ظاہری حالات کو دیکھ کر اپنے لیے عافیت محسوس کریں گے لیکن وہ ان کی تباہی کا سامان ہوگا۔ کافر اپنے کو خوشحال دیکھ کر فریب میں مبتلا ہوجاتے ہیں لیکن ان کی خوشحالی ان کی بدحالی کا سبب بن جاتی ہے۔ اسی طرح وہ اللہ کے دین کی مخالفت میں جو تدبیریں کرتے ہیں وہ الٹی پڑجاتی ہیں۔ جو جال وہ بچھاتے ہیں اس میں وہ خود ہی پھنس جاتے ہیں۔

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کی تشریح سورۂ شعراء نوٹ ۹۸ میں گزر چکی۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کی تشریح سورۂ طور نوٹ ۴۰ میں گزر چکی۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ تم صبر کے ساتھ اللہ کے فیصلہ کا انتظار کرو۔ جب تک وہ حکم نہ دے اپنا مقام چھوڑ کر کہیں چلے نہ جاؤ۔

 

۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔  صاحب الحوت( مچھلی والے ) سے مراد حضرت یونس علیہ السلام ہیں جن کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔ ان کی قوم نے ان کو جھٹلادیا تھا اس لیے وہ برہم ہوکر اس بستی سے نکل گئے تھے اور اللہ کے حکم کا انتظار نہیں کیاتھا۔ ان کے اس قصور کی بنا پر ان کو اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے پیٹ میں پہنچادیا تھا۔ یہ واقعہ سورۂ صافات آیت  ۱۳۹ تا  ۱۴۸  میں بیان ہوا ہے۔ یہاں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایاگیا ہے کہ ان کی طرح جلدی نہ کرو اور جبتک اللہ ہجرت کا حکم نہ دے اپنی جگہ نہ چھوڑو۔

 

۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی یونس (علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ میں جب کہ وہ غم سے گھٹ رہے تھے اللہ کو پکارا۔ انہوں نے وہ تسبیح کی جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو مچھلی کے پیٹ سے نجات دی۔ ان کی تسبیح کا ذکر سورۂ انبیاء آیت ۸۷ میں ہوا ہے۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی مچھلی نے جب انہیں اگل دیا تھا تو وہ ایک چٹیل میدان تھا۔ وہاں وہ ابتر حالت میں پڑے رہتے لیکن اللہ کا ان پر فضل ہوا اور اس چٹیل میدان میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے سایہ دار درخت اگایا اور ان کی ہر طرح دستگیری کی۔ دیکھئے سورۂ صافات نوٹ ۱۲۸۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کے قصور کو معاف کر کے رسالت کا فریضہ انجام دینے کے لیے انہیں پھر چن لیا اور انہیں اصلاح کی توفیق عطا فرماکر صالحین کے زمرہ میں شامل کر لیا۔

 

پیغمبر کی زندگی نمونہ ہوتی ہے۔ اگر کبھی ان سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر متنبہ فرماتا ہے اور وہ فوراً اپنی اصلاح کر لیتے ہیں۔ اس طرح نہ ان کی صالحیت پر کوئی حرف آتا ہے اور نہ لوگوں کی غلط رہنمائی ہوتی ہے۔

 

۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ تعبیر ہے کافروں کے بغض بھری نگاہوں سے دیکھنے کی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب قرآن سناتے ہوئے دیکھتے تو غضبناک آنکھوں سے دیکھتے اور اس طرح مرعوب کرنے کی کوشش کرتے کہ آپ لڑکھڑا جائیں لیکن آپ پر اللہ کافضل ایسا ہوا کہ کافرو ں کی یہ حرکتیں آپ پر ہرگز اثر انداز نہ ہو سکیں۔

 

نگاہوں سے پھسلادینے کا مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان کر دیا گیا اور یہ ایسی ہی بات ہے جسے ہم کہتے ہیں۔ ’’ وہ مجھے اس طرح دیکھ رہا تھا کہ ابھی کھا جائے گا۔‘‘ ظاہر اس کا مطلب واقعی کھا جانا نہیں ہوتا بلکہ یہ شدتِ غضب کی تعبیر ہے۔

 

بعض مفسرین نے اس آیت سے نظر لگ جانے کے حق ہونے پر استدلال کیا ہے اور اس سلسلہ میں حدیث ’’العَینُ حقٌ‘‘ ( نظر کا لگ جانا حق ہے ) بھی پیش کی ہے جسے بخاری، مسلم ابو داؤد نے روایت کیا ہے (دیکھئے بخاری کتاب الطب، مسلم کتاب السلام اور ابو داؤد کتاب الطب) مگر نظر لگ جانا جس معنی میں بولا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کو بری نظر سے دیکھئے اور اس نظر بد کے اثر سے اس کی طبیعت خراب ہوجائے یا وہ بیمار پڑے۔لیکن آیت میں ایسی کوئی بات بیان نہیں ہوئی ہے اس میں تو جو بات ارشاد ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کافر پیغمبر کو جب کہ وہ قرآن سنارہے ہوتے ہیں اس غضب سے دیکھتے ہیں گویا اپنی شدت نگاہ سے پیغمبر کو اپنے موقف سے ہٹادیں گے۔ کہاں یہ بات جو بلاغت کے اسلوب میں کہی گئی ہے اور کہا ں ’’ نظر بد‘‘ کی بات۔ مختصر یہ کہ اس آیت سے نظر لگ جانے کے مروجہ تصور پر استدلال صحیح نہیں۔

 

رہی حدیث ’ العَینُ حقٌ‘(نظر کا لگ جانا حق ہے ) تو اس کا مفہوم بھی قرآن و سنت کے واضح احکام کی روشنی ہی میں متعین کرنا چاہیے۔ قرآن وہم پرستی کی جڑ کاٹ دیتا ہے اور علم کی روشنی میں چلنے کی ہدایت کرتا ہے وَلَاے قْفُ مَالَے سَ لَکَ بِہٖ عِلْم(اس چیز کے پیچھے نہ پڑو جس کا تمہیں علم نہیں )( بنی اسرائیل: ۳۶)

 

اگر کوئی شخص بیمار پڑتا ہے تو اس کے باریمیں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کو نظر بد لگ گئی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ نظر بد لگ جانے سے بیمار ہوا ہے اور کسی اور وجہ سے بیمار نہیں ہوا؟ ظاہر ہے یہ محض وہم ہے اور اوہام کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں۔ پھر نظر لگ جانے کا یہ تصور بھی عجیب ہے کہ کوئی شخص کسی کو خوبصورت دیکھ کر متاثر ہوتا ہے تو اس کی نظر لگ جاتی ہے اور وہ خوبصورت مرد یا عورت بیمار پڑجاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نظر بد کسی کی خوبی کو دیکھ کر لگ جاتی ہے یا اس سے بغض کی بناء پر؟ یہ تصور بھی ہے کہ اگر کوئی شخص کھانا کھارہا ہو اور دوسرا شخص اس کو حریصانہ نگاہ سے دیکھ لیتا ہے تو اس کی نظر لگ جاتی ہے اور کھانے والے کو قے ہوجاتی ہے مگر یہ معاملہ صرف وہم پرستوں کے ساتھ ہوتا ہے اوروں کے ساتھ نہیں۔ ایسا کیوں ؟ کیا ہزاروں لوگ بازاروں میں کھانا نہیں کھاتے اور حریص لوگوں کا ان کے پاس سے گذرنہیں ہوتا پھر انہیں قے کیوں نہیں ہوتی؟ مزید طُرفہ تماشہ یہ ہے کہ نظر لگ جانا ایک عقیدہ کی بات بن گیا ہے چنانچہ نظر اتارنے کے لیے بھی ایک خاص فارمولا مروج ہے اوروہ یہ کہ کچھ ہلدی ، نمک اور رائی وغیرہ ہاتھ میں لے کر اس شخص کے سر سے پاؤں تک پھیرا جاتا ہے اور پھر آگ میں ان چیزوں کو جلایا جاتا ہے اور ان کے جلنے کی بُو اٹھتی ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ نظر اترگئی۔ معلوم ہوتا ہے یہ طریقہ ہندوؤں سے لیاگیا ہے کیونکہ ان میں نظر اتارنے کے لیے جلانے کا طریقہ رائج ہے۔ بہر صورت نظر لگنے اور اتارنے کا یہ تصور سراسر جاہلی ہے۔ اسلام میں ایسی وہمی باتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

 

جس طرح انسان کسی کی چیخ سن کر غمگین ہوجاتا ہے مہیب آواز اسے مرعوب کر دیتی ہے اسی طرح نگاہیں بھی انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں مثال کے طور پر ایک قاتل جن شر انگیز نگاہوں سے دیکھتا ہے آدمی گھبراہٹ میں مبتلا ہوجاتا ہے اور بعض شر انگیز نگاہیں ایسی بھی ہو سکتی ہیں کہ شدتِ تاثر سے آدمی کے چہرے کا رنگ بدل جائے۔ یہ سب طبعی اسباب کی بنا پر ممکن ہے اور جب کوئی واضح سبب موجود ہو تو ہم اس کو اس شریا تکلیف کا سبب قرار دیں گے جو کسی کو پہنچتی ہو۔ حدیث اَلْعَے نُ حَقٌ (نظر کا لگ جانا حق ہے )اس معنی میں ہے۔ شر انگیز نگاہیں برے اثرات ڈالتی ہیں اور انسان کبھی مرعوب ہوجاتا ہے اور کبھی گھبراہٹ میں اس طرح مبتلا ہوجاتا ہے کہ اس کے چہرہ کا رنگ ہی فق پڑ جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ظاہری سبب موجود نہ ہو تو کسی تکلیف کے پہنچنے پر اسے نظر بد پر محمول کرنا محض وہمی پن ہے اور کسی کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ اس کی نظر لگ گئی ہے جب کہ اس کا کوئی ثبوت نہ ہو بدگمانی ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ فَاِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحَدِیثِ  ’’بد گمانی بد ترین جھوٹ ہے۔‘‘

 

العین حق ( نظر کا لگ جانا حق ہے ) کا جو مطلب ہم نے اوپر بیان کیا ہے اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں جبرائیل علیہ السلام نے آپ کے بیمار ہوجانے پر جو دعا پڑھی تھی اس میں اَوْعَینِ حَاسِدٍ اللّٰہُ یشْفِیکَ(یا حاسد کی نظر کے شر سے۔ اللہ آپ کو شفا دے۔ مسلم کتاب السلام) کے الفاظ ہیں جو سورۂ فلق کی آیت وَمِنْ شَرِّحَاسِدٍ اِذاَ حَسَدَ( حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے ) کیالفاظ و مفہوم سے مناسبت رکھتے ہیں۔( اس آیت کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ فلق نوٹ ۷) اس لیے حدیث  العین حق کو کسی ایسے معنی میں لینا صحیح نہ ہوگا جو ظاہری اسباب کے خلاف ہوں اور وہم و ظن میں مبتلا کرنے والے ہوں۔

 

حدیث میں نظر لگ جانے سے شفایابی کے لیے بھی وہی دعا تجویز کی گئی ہے جو دوسری بیماریوں سے شفایابی کے لیے ہے یعنی: اَذْہِب الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ اَنْتَ الشَافِیْ۔لاَ شِفَاءَ اِلاَّ شِفَاءُ کَ شِفَاء اًلاَّ یقَادِرُ سَقَمًا۔’’ اے انسانوں کے رب! تکلیف کو دور فرما دے۔ شفاء عطا فرما کہ تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفا کے سوا کوئی شفاء نہیں۔ ایسی شفا عطا فرما جو کسی بھی بیماری کو باقی رہنے نہ دے۔‘‘(بخاری کتاب الطب)

 

یہ بہترین دعا ہے۔ اس کو چھوڑ کر ٹونے ٹوٹکے کرنا عقیدہ کے فساد کا موجب ہے۔

 

۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قرآن کو پیغمبر کی زبان سے سن کر یہ لوگ انہیں دیوانہ کہتے ہیں حالانکہ یہ قرآن تمام دنیا والوں کے لیے سرتا سر نصیحت ہے اور ان کو وہ سبق یاد دلارہا ہے جو ان کی فطرت میں ودیعت ہوا ہے۔

 

یہ آیت یہ صراحت بھی کرتی ہے کہ قرآن صرف عربوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا کی تمام قوموں کے لیے نصیحت بن کر نازل ہوا ہے۔

 

٭٭٭٭٭