۱ سورۂ نباء اس کو سورۂ تساؤل اور سورۂ عَمَّ یَتَسَآءَ لُوْنَ بھی کہتے ہیں، یہ سورت مکّیہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، چالیس ۴۰یا اکتالیس۴۱ آیتیں، ایک سو تہتّر کلمے۱۷۳ نو سو ستّر۹۷۰ حرف ہیں۔
۳ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے جب اہلِ مکّہ کو توحید کی دعوت دی اور مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کی خبر دی اور قرآنِ کریم کی تلاوت فرما کر انہیں سنایا تو ان میں باہم گفتگوئیں شروع ہوئیں اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ محمّد صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کیا دِین لائے ہیں اس آیت میں ان کی گفتگوؤں کا بیان ہے اور تفخیمِ شان کے لئے استفہام کے پیرایہ میں بیان فرمایا، یعنی وہ کیا عظیمُ الشان بات ہے جس میں یہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ بات بیان فرمائی جاتی ہے۔
۴ بڑی خبر سے مراد یا قرآن ہے یا سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نبوّت اور آپ کا دِین یا مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کا مسئلہ۔
۵ کہ بعضے تو قطعی انکار کرتے ہیں، بعضے شک میں ہیں اور قرآنِ کریم کو ان میں سے کوئی تو سِحر کہتا ہے، کوئی شِعر، کوئی کہانت اور کوئی اور کچھ۔ اسی طرح سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو کوئی ساحر کہتا، ہے، کوئی شاعر، کوئی کاہن۔
۶ اس تکذیب و انکار کے نتیجہ کو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے عجائبِ قدرت میں سے چند چیزیں ذکر فرمائیں تاکہ یہ لوگ ان کی دلالت سے اللہ تعالیٰ کی توحید کو جانیں اور یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ عالَم کو پیدا کرنے اور اس کے بعد اس کو فنا کرنے اور بعدِ فنا پھر حساب و جزا کے لئے پیدا کرنے پر قادر ہے۔
۷ کہ تم اس میں رہو اور وہ تمہاری قرار گاہ ہو۔
۱۰ تمہارے جسموں کے لئے تاکہ اس سے کوفت اور تکان دور ہو اور راحت حاصل ہو۔
۱۱ جو اپنی تاریکی سے ہر چیز کو چھُپاتی ہے۔
۱۲ کہ تم اس میں اللہ تعالیٰ کا فضل اور اپنی روزی تلاش کرو۔
۱۳ جن پر زمانہ گزرنے کا اثر نہیں ہوتا اور کہنگی و بوسیدگی ان تک راہ نہیں پاتی، مراد ان چنائیوں سے سات آسمان ہیں۔
۱۴ یعنی آفتاب جس میں روشنی بھی ہے اور گرمی بھی۔
۱۵ تو جس نے اتنی چیزیں پیدا کر دیں وہ انسان کو مرنے کے بعد زندہ کرے تو کیا تعجّب نیز ان اشیاء کا پیدا کرنا حکیم کا فعل ہے اور حکیم کا فعل ہر گز عبث اور بے کار نہیں ہوتا اور مرنے کے بعد اٹھنے اور سزا و جزا کے انکار کرنے سے لازم آتا ہے کہ منکِر کے نزدیک تمام افعال عبث ہوں اور عبث ہونا باطل تو بعث و جزا کا انکار بھی باطل۔ اس برہانِ قوی سے ثابت ہو گیا کہ مرنے کے بعد اٹھنا اور حساب و جزا ضرور ہے اس میں شک نہیں۔
۱۸ اپنی قبروں سے حساب کے لئے موقف کی طرف۔
۱۹ اور اس میں راہیں بن جائیں گی ان سے ملائکہ اتریں گے۔
۲۰ جن کی نہایت نہیں یعنی ہمیشہ رہیں گے۔
۲۱ جیسے عمل ویسی جزا، جیسا کفر بدترین جُرم ہے ویسا ہی سخت ترین عذاب ان کو ہو گا۔
۲۲ کیونکہ وہ مرنے کے بعد اٹھنے کے منکِر تھے۔
۲۴ ان کے تمام نیک و بد اعمال ہمارے علم میں ہیں ہم ان پر جزا دیں گے۔ اور آخرت میں وقتِ عذاب ان سے کہا جائے گا۔
۲۵ جنّت میں جہاں انہیں عذاب سے نجات ہو گی اور ہر مراد حاصل ہو گی۔
۲۶ جن میں قِسم قِسم کے نفیس پھلوں والے درخت۔
۲۸ یعنی جنّت میں نہ کوئی بے ہودہ بات سننے میں آئے گی نہ وہاں کوئی کسی کو جھٹلائے گا۔
۳۳ دنیا میں اور اسی کے مطابق عمل کیا۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ ٹھیک بات سے کلمۂ طیّبہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مراد ہے۔
۳۴ عملِ صالح کر کے تاکہ عذاب سے محفوظ رہے۔
۳۷ یعنی ہر نیکی بدی اس کے نامۂ اعمال میں درج ہو گی جس کو وہ روزِ قیامت دیکھے گا۔
۳۸ تاکہ عذاب سے محفوظ رہتا۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ روزِ قیامت جب جانوروں اور چوپایوں کو اٹھایا جائے گا اور انہیں ایک دوسرے سے بدلہ دلایا جائے گا اگر سینگ والے نے بے سینگ والے کو مارا ہو گا تو اسے بدلہ دلایا جائے گا، اس کے بعد وہ سب خاک کر دیئے جائیں گے یہ دیکھ کر کافر تمنّا کرے گا کہ کاش میں بھی خاک کر دیا جاتا۔ بعض مفسّرین نے اس کے یہ معنیٰ بیان کئے ہیں کہ مومنین پر اللہ تعالیٰ کے انعام دیکھ کر کافر تمنّا کرے گا کہ کاش وہ دنیا میں خاک ہوتا یعنی متواضع ہوتا متکبر و سرکش نہ ہوتا۔ ایک قول مفسّرین کا یہ بھی ہے کہ کافر سے مراد ابلیس ہے جس نے حضرت آدم علیہ السلام پر طعنہ کیا تھا کہ وہ مٹی سے پیدا کئے گئے اور اپنے آگ سے پیدا کئے جانے پر افتخار کیا تھا جب وہ حضرت آدم اور ان کی ایماندار اولاد کے ثواب کو دیکھے گا اور اپنے آپ کو شدّتِ عذاب میں مبتلا پائے گا تو کہے گا کاش میں مٹی ہوتا یعنی حضرت آدم کی طرح مٹی سے پیدا کیا ہوا ہوتا۔