۱ سورۂ نمل مکیّہ ہے اس میں سات رکوع اور ترانو ے آیتیں اور ایک ہزار تین سو ستّرہ ۱۳۱۷ کلمے اور چار ہزار سات سو ننانوے ۴۷۹۹ حرف ہیں۔
۲ جو حق و باطل میں امتیاز کرتی ہے اور جس میں علوم و حِکَم ودیعت رکھے گئے ہیں۔
۳ اور اس پر مداومت کرتے ہیں اور اس کے شرائط و آداب و جملہ حقوق کی حفاظت کرتے ہیں۔
۵ کہ وہ اپنی برائیوں کو شہوات کے سبب سے بھلائی جانتے ہیں۔
۷ کہ ان کا انجام دائمی عذاب ہے۔ اس کے بعد سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو خطاب ہوتا ہے۔
۸ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان فرمایا جاتا ہے جو دقائقِ علم و لطائفِ حکمت پر مشتمل ہے۔
۹ مَدیَن سے مِصر کو سفر کرتے ہوئے تاریک رات میں جبکہ برف باری سے نہایت سردی ہو رہی تھی اور راستہ گم ہو گیا تھا اور بی بی صاحبہ کو دردِ زِہ شروع ہو گیا تھا۔
۱۰ اور سردی کی تکلیف سے امن پاؤ۔
۱۱ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تحیّت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت کے ساتھ۔
۱۲ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بحکمِ الٰہی عصا ڈال دیا اور وہ سانپ ہو گیا۔
۱۳ نہ سانپ کا نہ کسی اور چیز کا یعنی جب میں انہیں امن دوں تو پھر کیا اندیشہ۔
۱۴ اس کو ڈر ہو گا اور وہ بھی جب توبہ کرے۔
۱۵ توبہ قبول فرماتا ہوں اور بخش دیتا ہوں، اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کو دوسری نشانی دکھائی گئی اور فرمایا گیا۔
۱۷ جن کے ساتھ رسول بنا کر بھیجے گئے ہو۔
۱۸ یعنی انہیں معجزے دکھائے گئے۔
۱۹ اور وہ جانتے تھے کہ بے شک یہ نشانیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں لیکن باوجود اس کے اپنی زبانوں سے انکار کرتے رہے۔
۲۱ یعنی علمِ قضا و سیاست اور حضرت داؤد کو پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کا علم دیا اور حضرت سلیمان کو چوپایوں اور پرندوں کی بولی کا۔ (خازن)۔
۲۲ نبوّت و مُلک عطا فرما کر اور جِن و انس اور شیاطین کو مسخَّر کر کے۔
۲۴ یعنی بکثرت نعمتیں دنیا و آخرت کی ہم کو عطا فرمائی گئیں۔
۲۵ مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کو اللہ تعالیٰ نے مشارق و مغاربِ ارض کا مُلک عطا فرمایا چالیس سال آپ اس کے مالکر ہے پھر تمام دنیا کی مملکت عطا فرمائی جِن، انس، شیطان، پرندے، چوپائے، درندے سب پر آپ کی حکومت تھی اور ہر ایک شے کی زبان آپ کو عطا فرمائی اور عجیب و غریب صنعتیں آپ کے زمانہ میں برروئے کار آئیں۔
۲۶ آگے بڑھنے سے تاکہ سب مجتمع ہو جائیں پھر چَلائے جاتے تھے۔
۲۷ یعنی طائف یا شام میں اس وادی پر گزرے جہاں چیونٹیاں بکثرت تھیں۔
۲۸ جو چیونٹیوں کی ملکہ تھی وہ لنگڑی تھی۔ لطیفہ : جب حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ میں داخل ہوئے اور وہاں کی خَلق آپ کی گرویدہ ہوئی تو آپ نے لوگوں سے کہا جو چاہو دریافت کرو ؟ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت نوجوان تھےآپ نے دریافت فرمایا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی چیونٹی مادہ تھی یا نر ؟ حضرت قتادہ ساکت ہو گئے تو امام صاحب نے فرمایا کہ وہ مادہ تھی آپ سے دریافت کیا گیا کہ یہ آپ کو کس طرح معلوم ہوا ؟ آپ نے فرمایا قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا قَالَت نَملَۃ اگر نر ہوتی تو قرآن شریف میں قَالَ نَمْلَۃ وارد ہوتا۔ (سبحان اللہ اس سے حضرت امام کی شانِ علم معلوم ہوتی ہے) غرض جب اس چیونٹی کی ملکہ نے حضرت سلیمان کے لشکر کو دیکھا توکہنے لگی۔
۲۹ یہ اس نے اس لئے کہا کہ وہ جانتی تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نبی ہیں صاحبِ عدل ہیں جبر اور زیادتی آپ کی شان نہیں ہے اس لئے اگر آپ کے لشکر سے چیونٹیاں کچل جائیں گی تو بے خبری ہی میں کچل جائیں گی کہ وہ گزرتے ہوں اور اس طرف التفات نہ کریں چیونٹی کی یہ بات حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین میل سے سُن لی اور ہوا ہر شخص کا کلام آپ کے سمعِ مبارک تک پہنچاتی تھی جب آپ چیونٹیوں کی وادی پر پہنچے تو آپ نے اپنے لشکروں کو ٹھہرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے گھروں میں داخل ہو گئیں سیر حضرت سلیمان علیہ السلام کی اگرچہ ہوا پر تھی مگر بعید نہیں ہے کہ یہ مقام آپ کا جائے نُزول ہو۔
۳۰ انبیاء کا ہنسنا تبسّم ہی ہوتا ہے جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے وہ حضرات قہقہہ مار کر نہیں ہنستے۔
۳۱ نبوّت و مُلک و علم عطا فرما کر۔
(۲۰) اور پرندوں کا جائزہ لیا تو بولا مجھے کیا ہوا کہ میں ہد ہد کو نہیں دیکھتا یا وہ واقعی حاضر نہیں۔
۳۳ اس کے پر اُکھاڑ کر یا اس کو اس کے پیاروں سے جدا کر کے یا اس کو اس کے اقران کا خادم بنا کر یا اس کو غیر جانوروں کے ساتھ قید کر کے اور ہُدہُد کو حسبِ مصلحت عذاب کرنا آپ کے لئے حلال تھا اور جب پرند آپ کے لئے مسخَّر کئے گئے تھے تو تادیب و سیاست مقتضائے تسخیر ہے۔
۳۴ جس سے اس کی معذوری ظاہر ہو۔
۳۵ نہایت عجز و انکسار اور ادب و تواضُع کے ساتھ معافی چاہ کر۔
۳۷ جو بادشاہوں کے لئے شایان ہوتا ہے۔
۳۸ جس کا طول اسّی گز عرض چالیس گز سونے چاندی کا جواہرات کے ساتھ مُرصّع۔
۳۹ کیونکہ وہ لوگ آفتاب پرست مجوسی تھے۔
۴۰ سیدھی راہ سے مراد طریقِ حق و دینِ اسلام ہے۔
۴۱ آسمان کی چھُپی چیزوں سے مِینہ اور زمین کی چھُپی چیزوں سے نباتات مراد ہیں۔
۴۲ اس میں آفتاب پرستوں بلکہ تمام باطل پرستوں کا رد ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی پوجیں، مقصود یہ ہے کہ عبادت کا مستحق صر ف وہی ہے جو کائناتِ ارضی و سماوی پر قدرت رکھتا ہو اور جمیع معلومات کا عالِم ہو جو ایسا نہیں وہ کسی طرح مستحقِ عبادت نہیں۔
۴۳ پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مکتوب لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ از جانب بندۂ خدا سلیمان بن داؤد بسوئے بلقیس ملکۂ شہرِ سبا بسم اللہ الرحمن الرحیم اس پر سلام جو ہدایت قبول کرے اس کے بعد مدعا یہ کہ تم مجھ پر بلندی نہ چاہو اور میرے حضور مطیع ہو کر حاضر ہو اس پر آپ نے اپنی مُہر لگائی اور ہُدہُد سے فرمایا۔
۴۴ چنانچہ ہُدہُد وہ مکتوب گرامی لے کر بلقیس کے پاس پہنچا اس وقت بلقیس کے گرد اس کے اَعیان و وزراء کا مجمع تھا ہُدہُد نے وہ مکتوب بلقیس کی گود میں ڈال دیا اور وہ اس کو دیکھ کر خوف سے لرز گئی اور پھر اس پر مُہر دیکھ کر۔
۴۵ اس نے اس خط کو عزّت والا یا اس لئے کہا کہ اس پر مُہر لگی ہوئی تھی اس سے اس نے جانا کہ کتاب کا بھیجنے والا جلیل المنزلت بادشاہ ہے یا اس لئے کہ اس مکتوب کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے نامِ پاک سے تھی پھر اس نے بتایا کہ وہ مکتوب کس کی طرف سے آیا ہے چنانچہ کہا۔
۴۶ یعنی میری تعمیلِ ارشاد کرو اور تکبُّر نہ کرو جیسا کہ بعض بادشاہ کیا کرتے ہیں۔
۴۷ فرمانبردارانہ شان سے مکتوب کا یہ مضمون سنا کر بلقیس اپنی اعیانِ دولت کی طرف متوجّہ ہوئی۔
۴۸ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اگر تیری رائے جنگ کی ہو تو ہم لوگ اس کے لئے تیار ہیں، بہادر اور شجاع ہیں، صاحبِ قوّت و توانائی ہیں، کثیر فوجیں رکھتے ہیں، جنگ آزما ہیں۔
۴۹ اے ملکہ ہم تیری اطاعت کریں گے تیرے حکم کے منتظر ہیں اس جواب میں انہوں نے یہ اشارہ کیا کہ ان کی رائے جنگ کی ہے یا ان کا مدعا یہ ہو کہ ہم جنگی لوگ ہیں رائے اور مشورہ ہمارا کام نہیں تو خود صاحبِ عقل و تدبیر ہے ہم بہرحال تیرا اِتّباع کریں گے جب بلقیس نے دیکھا کہ یہ لوگ جنگ کی طرف مائل ہیں تو اس نے انہیں ان کی رائے کی خطا پر آگاہ کیا اور جنگ کے نتائج سامنے کئے۔
۵۱ قتل اور قید اور اہانت کے ساتھ۔
۵۲ یہی بادشاہوں کا طریقہ ہے بادشاہوں کی عادت کا جو اس کو علم تھا اس کی بنا پر اس نے یہ کہا اور مراد اس کی یہ تھی کہ جنگ مناسب نہیں ہے اس میں مُلک اور اہلِ مُلک کی تباہی و بربادی کا خطرہ ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور کہا۔
۵۳ اس سے معلوم ہو جائے گا کہ وہ بادشاہ ہیں یا نبی کیونکہ بادشاہ عزّت و احترام کے ساتھ ہدیہ قبول کرتے ہیں اگر وہ بادشاہ ہیں تو ہدیہ قبول کر لیں گے اور اگر نبی ہیں تو ہدیہ قبول نہ کریں گے اور سوا اس کے کہ ہم ان کے دین کا اِتّباع کریں وہ اور کسی بات سے راضی نہ ہوں گے تو اس نے پانچ سو غلام ا ور پانچ سو باندیاں بہترین لباس اور زیوروں کے ساتھ آراستہ کر کے زرنگار زینوں پر سوار کر کے بھیجے اور پانچ سو اینٹیں سونے کی اور جواہر سے مرصّع تاج اور مشک و عنبر وغیرہ مع ایک خط کے اپنے قاصد کے ساتھ روانہ کئے، ہُدہُد یہ دیکھ کر چل دیا اور اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس سب خبر پہنچائی آپ نے حکم دیا کہ سونے چاندی کی اینٹیں بنا کر نوفرسنگ کے میدان میں بچھا دی جائیں اور اس کے گرد سونے چاندی سے احاطہ کی بلند دیوار بنا دی جائے اور بر وبحر کے خوبصورت جانور اور جنّات کے بچّے میدان کے دائیں بائیں حاضر کئے جائیں۔
۵۴ یعنی بلقیس کا پیامی مع اپنی جماعت کے ہدیہ لے کر۔
۵۵ یعنی دین اور نبوّت اور حکمت و مُلک۔
۵۷ یعنی تم اہلِ مفاخرت ہو، زخارفِ دنیا پر فخر کرتے ہو اور ایک دوسرے کے ہدیہ پر خوش ہوتے ہو، مجھے نہ دنیا سے خوشی ہوتی ہے نہ اس کی حاجت، اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنا کثیر عطا فرمایا کہ اوروں کو نہ دیا باوجود اس کے دین اور نبوّت سے مجھ کو مشرف کیا۔ اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے وفد کے امیر منضر بن عمرو سے فرمایا کہ یہ ہدیئے لے کر۔
۵۸ یعنی اگر وہ میرے پاس مسلمان ہو کر حاضر نہ ہوئے تو یہ انجام ہو گا، جب قاصد ہدیئے لے کر بلقیس کے پاس واپس گئے اور تمام واقعات سنائے تو اس نے کہا بے شک وہ نبی ہیں اور ہمیں ان سے مقابلہ کی طاقت نہیں اور اس نے اپنا تخت اپنے سات محلوں میں سے سب سے پچھلے محل میں محفوظ کر کے تمام دروازے مقفّل کر دیئے اور ان پر پہرہ دار مقرر کر دیئے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا انتظام کیا تاکہ دیکھے کہ آپ اس کو کیا حکم فرماتے ہیں اور وہ ایک لشکرِ گراں لے کر آپ کی طرف روانہ ہوئی جس میں بارہ ہزار نواب تھے اور ہر نواب کے ساتھ ہزاروں لشکری جب اتنے قریب پہنچ گئی کہ حضرت سے صرف ایک فرسنگ کا فاصلہ رہ گیا۔
۵۹ اس سے آپ کا مدّعا یہ تھا کہ اس کا تخت حاضر کر کے اس کو اللہ تعالیٰ کے قدرت اور اپنی نبوّت پر دلالت کرنے والا معجِزہ دکھاویں۔ بعضوں نے کہا ہے کہ آپ نے چاہا کہ اس کے آنے سے قبل اس کی وضع بدل دیں اور اس سے اس کی عقل کا امتحان فرمائیں کہ پہچان سکتی ہے یا نہیں۔
۶۰ اور آپ کا اجلاس صبح سے دوپہر تک ہوتا تھا۔
۶۱ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا میں اس سے جلد چاہتا ہوں۔
۶۲ یعنی آپ کے وزیر آصف بن برخیا جو اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم جانتے تھے۔
۶۳ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا لاؤ حاضر کرو آصف نے عرض کیا آپ نبی ابنِ نبی ہیں اور جو رتبہ بارگاہِ الٰہی میں آپ کو حاصل ہے یہاں کس کو میسّر ہے آپ دعا کریں تو وہ آپ کے پاس ہی ہو گا آپ نے فرمایا تم سچ کہتے ہو اور دعا کی، اسی وقت تخت زمین کے نیچے نیچے چل کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی کے قریب نمودار ہوا۔
۶۴ کہ اس شکر کا نفع خود اس شکر گزار کی طرف عائد ہوتا ہے۔
۶۵ اس جواب سے اس کا کمالِ عقل معلوم ہوا اب اس سے کہا گیا کہ یہ تیرا ہی تخت ہے دروازہ بند کرنے، قفل لگانے، پہرہ دار مقرر کرنے سے کیا فائدہ ہوا، اس پر اس نے کہا۔
۶۶ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور آپ کی صحتِ نبوّت کی ہُدہُد کے واقعہ سے اور امیرِ وفد سے۔
۶۷ ہم نے آپ کی اطاعت اور آپ کی فرمانبرداری اختیار کی۔
۶۸ اللہ کی عبادت و توحید سے یا اسلام کی طرف تقدم سے۔
۶۹ وہ صحن شفاف آبگینہ کا تھا اس کے نیچے آب جاری تھا، اس میں مچھلیاں تھیں اور اس کے وسط میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت تھا جس پر آپ جلوہ افروز تھے۔
۷۰ تاکہ پانی میں چل کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو۔
۷۱ یہ پانی نہیں ہے۔ یہ سن کر بلقیس نے اپنی ساقیں چھُپا لیں اور اس سے اس کو بہت تعجّب ہوا اور اس نے یقین کیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا مُلک و حکومت اللہ کی طرف سے ہے اور ان عجائبات سے اس نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور آپ کی نبوّت پر استدلال کیا، اب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو اسلام کی دعوت دی۔
۷۲ کہ تیرے غیر کو پوجا آفتاب کی پرستش کی۔
۷۳ چنانچہ اس نے اخلاص کے ساتھ توحید و اسلام کو قبول کیا اور خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت اختیار کی۔
۷۴ اور کسی کو اس کا شریک نہ کرو۔
۷۶ ہر فریق اپنے ہی کو حق پر کہتا اور دونوں باہم جھگڑتے کافِر گروہ نے کہا اے صالح جس عذاب کا تم وعدہ دیتے ہو اس کو لاؤ اگر رسولوں میں سے ہو۔
۷۸ بھلائی سے مراد عافیّت و رحمت ہے۔
۷۹ عذاب نازِل ہونے سے پہلے کُفر سے توبہ کر کے ایمان لا کر۔
۸۰ اور دنیا میں عذاب نہ کیا جائے۔
۸۱ حضرت صالح علیہ السلام جب مبعوث ہوئے اور قوم نے تکذیب کی اس کے باعث بارش رک گئی قحط ہو گیا، لوگ بھوکے مرنے لگے اس کو انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کی تشریف آوری کی طرف نسبت کیا اور آپ کی آمد کو بد شگونی سمجھا۔
۸۲ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ بد شگونی جو تمہارے پاس آئی یہ تمہارے کُفر کے سبب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی۔
۸۳ آزمائش میں ڈالے گئے یا اپنے دین کے باعث عذاب میں مبتلا ہو۔
۸۴ یعنی ثمود کے شہر میں جس کا نام حجر ہے ان کے شریف زادوں میں سے نو شخص تھے جن کا سردار قدار بن سالف تھا یہی لوگ ہیں جنہوں نے ناقہ کی کونچیں کاٹنے میں سعی کی تھی۔
۸۵ یعنی رات کے وقت ان کو اور ان کی اولاد کو اور ان کے متّبِعین کو جو ان پر ایمان لائے ہیں قتل کر دیں گے۔
۸۶ جس کو ان کے خون کا بدلہ طلب کرنے کا حق ہو گا۔
۸۷ یعنی ان کے مَکر کی جزا یہ دی کہ ان کے عذاب میں جلدی فرمائی۔
۸۸ یعنی ان نو شخصوں کو۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شب حضرت صالح علیہ السلام کے مکان کی حفاظت کے لئے فرشتے بھیجے تو وہ نو شخص ہتھیار باندھ کر تلواریں کھینچ کر حضرت صالح علیہ السلام کے دروازے پر آئے فرشتوں نے ان کے پتّھر مارے وہ پتّھر لگتے تھے اور مارنے والے نظر نہ آتے تھے اس طرح ان نو کو ہلاک کیا۔
۹۱ ان کی نافرمانی سے۔ ان لوگوں کی تعداد چار ہزار تھی۔
۹۲ اس بے حیائی سے مراد ان کی بدکاری ہے۔
۹۳ یعنی اس فعل کی قباحت جانتے ہو یا یہ معنیٰ ہیں کہ ایک دوسرے کے سامنے بے پردہ بالاعلان بدفعلی کا ارتکاب کرتے ہو یا یہ کہ تم اپنے سے پہلے نافرمانی کرنے والوں کو تباہی اور ان کے عذاب کے آثار دیکھتے ہو پھر بھی اس بداعمالی میں مبتلا ہو۔
۹۴ باوجودیکہ مَردوں کے لئے عورتیں بنائی گئی ہیں مَردوں کے لئے مرد اور عورتوں کے لئے عورتیں نہیں بنائی گئیں لہذا یہ فعل حکمتِ الٰہی کی مخالفت ہے۔
۹۶ اور اس گندے کام کو منع کرتے ہیں۔
۹۹ یہ خِطاب ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو کہ پچھلی امّتوں کے ہلاک پر اللہ تعالیٰ کی حمد بجا لائیں۔
۱۰۰ یعنی انبیاء و مرسلین پر۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ چُنے ہوئے بندوں سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اصحاب مراد ہیں۔
۱۰۱ خدا پرستوں کے لئے جو خاص اس کی عبادت کریں اور اس پر ایمان لائیں اور وہ انہیں عذاب و ہلاک سے بچائے۔
۱۰۲ یعنی بُت جو اپنے پرستاروں کے کچھ کام نہ آ سکیں تو جب ان میں کوئی بھلائی نہیں وہ کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے تو ان کو پوجنا اور معبود ماننا نہایت بے جا ہے اس کے بعد چند انواع ذکر فرمائے جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور اس کے کمالِ قدرت پر دلالت کرتے ہیں۔
۱۰۳ عظیم ترین اشیاء جو مشاہدے میں آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرتِ عظیمہ پر دلالت کرتی ہیں ان کا ذکر فرمایا۔ معنی یہ ہیں کہ کیا بُت بہتر ہیں یا وہ جس نے آسمان اور زمین جیسی عظیم اور عجیب مخلوق بنائی۔
۱۰۴ یہ تمہاری قدرت میں نہ تھا۔
۱۰۵ کیا یہ دلائلِ قدرت دیکھ کر ایسا کہا جا سکتا ہے ہر گز نہیں وہ واحد ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
۱۰۶ جو اس کے لئے شریک ٹھہراتے ہیں۔
۱۰۷ وزنی پہاڑ جو اسے جنبش سے روکتے ہیں۔
۱۰۸ کہ کھاری میٹھے ملنے نہ پائیں۔
۱۰۹ جو اپنے رب کی توحید اور اس کے قدرت و اختیار کو نہیں جانتے اور اس پر ایمان نہیں لاتے۔
۱۱۱ کہ تم اس میں سکونت کرو اور قرناً بعد قرنٍ اس میں متصرّف رہو۔
۱۱۴ رحمت سے مراد یہاں بارش ہے۔
۱۱۵ اس کی موت کے بعد اگرچہ موت کے بعد زندہ کئے جانے کے کُفّار مقر و معترف نہ تھے لیکن جب کہ اس پر براہین قائم ہیں تو ان کا اقرار نہ کرنا کچھ قابلِ لحاظ نہیں بلکہ جب وہ ابتدائی پیدائش کے قائل ہیں تو انہیں اعادے کا قائل ہونا پڑے گا کیونکہ ابتداء اعادے پر دلالتِ قویہ کرتی ہے تو اب ان کے لئے کوئی جائے عذر و انکار باقی نہیں رہی۔
۱۱۶ آسمان سے بارش اور زمین سے نباتات۔
۱۱۷ اپنے اس دعویٰ میں کہ اللہ کے سوا اور بھی معبود ہیں تو بتاؤ جو صفات و کمالات اُوپر ذکر کئے گئے وہ کس میں ہیں اور جب اللہ کے سوا ایسا کوئی نہیں تو پھر کسی دوسرے کو کس طرح معبود ٹھہراتے ہو یہاں ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ فرما کر ان کے عجز و بطلان کا اظہار منظور ہے۔
۱۱۸ وہی جاننے والا ہے غیب کا اس کو اختیار ہے جسے چاہے بتائے چنانچہ اپنے پیارے انبیاء کو بتاتا ہے جیسا کہ سورۂ آلِ عمران میں ہے۔ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰکِنَّ اﷲَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآءُ یعنی اللہ کی شان نہیں کہ تمہیں غیب کا علم دے ہاں اللہ چُن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے اور بکثرت آیات میں اپنے پیارے رسولوں کو غیبی علوم عطا فرمانے کا ذکر فرمایا گیا اور خود اسی پارے میں اس سے اگلے رکوع میں وارد ہے وَمَا مِنْ غَآئِبَۃٍ فِی السَّمَآئے وَالْاَ رْضِ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ o یعنی جتنے غیب ہیں آسمان اور زمین کے سب ایک بتانے والی کتاب میں ہیں۔ شانِ نُزول : یہ آیت مشرکین کے حق میں نازِل ہوئی جنہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قیامت کے آنے کا وقت دریافت کیا تھا۔
۱۱۹ اور انہیں قیامت قائم ہونے کا علم و یقین حاصل ہو گیا جو وہ اس کا وقت دریافت کرتے ہیں۔
۱۲۰ انہیں ابھی تک قیامت کے آنے کا یقین نہیں ہے۔
۱۲۲ یعنی (معاذ اﷲ) جھوٹی باتیں۔
۱۲۳ کہ وہ انکار کے سبب عذاب سے ہلاک کئے گئے۔
۱۲۴ ان کے اعراض و تکذیب کرنے اور اسلام سے محروم رہنے کے سبب۔
۱۲۵ کیونکہ اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہے۔
۱۲۶ یعنی یہ وعدۂ عذاب کب پورا ہو گا۔
۱۲۷ یعنی عذابِ الٰہی چنانچہ وہ عذاب روزِ بدر ان پر آ ہی گیا اور باقی کو وہ بعدِ موت پائیں گے۔
۱۲۸ اسی لئے عذاب میں تاخیر فرماتا ہے۔
۱۲۹ اور شکر گزاری نہیں کرتے اور اپنی جہالت سے عذاب کی جلدی کرتے ہیں۔
۱۳۰ یعنی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عداوت رکھنا اور آپ کی مخالفت میں مکاریاں کرنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے وہ اس کی سزا دے گا۔
۱۳۱ یعنی لوحِ محفوظ میں ثبت ہیں اور جنہیں ان کا دیکھنا بفضلِ الٰہی میّسر ہے ان کے لئے ظاہر ہیں۔
۱۳۲ دینی امور میں اہلِ کتاب نے آپس میں اختلاف کیا ان کے بہت فِرقے ہو گئے اور آپس میں لعن طعن کرنے لگے تو قرآنِ کریم نے اس کا بیان فرمایا ایسا بیان کیا کہ اگر وہ انصاف کریں اور اس کو قبول کریں اور اسلام لائیں تو ان میں یہ باہمی اختلاف باقی نہ رہے۔
۱۳۳ مُردوں سے مراد یہاں کُفّار ہیں جن کے دل مُردہ ہیں چنانچہ اسی آیت میں ان کے مقابل اہلِ ایمان کا ذکر فرمایا۔ اِنْ تُسْمِعُ اِلاَّ مَنْ یُّؤْمِنُ بِایٰٰتِنَا جو لوگ اس آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر استدلال کرتے ہیں ان کا استدلال غلط ہے چونکہ یہاں مُردہ کُفّار کو فرمایا گیا اور ان سے بھی مطلقاً ہر کلام کے سننے کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ پند و موعِظت اور کلامِ ہدایت کے بسمعِ قبول سننے کی نفی ہے اور مراد یہ ہے کہ کافِر مُردہ دل ہیں کہ نصیحت سے منتفع نہیں ہوتے۔ اس آیت کے معنی یہ بتانا کہ مردے نہیں سنتے بالکل غلط ہے صحیح احادیث سے مُردوں کا سُننا ثابت ہے۔
۱۳۴ معنیٰ یہ ہیں کہ کُفّار غایت اعراض و روگردانی سے مُردے اور بہرے کے مثل ہو گئے ہیں کہ انہیں پکارنا اور حق کی دعوت دینا کسی طرح نافع نہیں ہوتا۔
۱۳۵ جن کی بصیرت جاتی رہی اور دل اندھے ہو گئے۔
۱۳۶ جن کے پاس سمجھنے والے دل ہیں اور جو علمِ الٰہی میں سعادتِ ایمان سے بہرہ اندوز ہونے والے ہیں۔(بیضاوی و کبیر و ابوالسعود و مدارک)۔
۱۳۷ یعنی ان پر غضبِ الٰہی ہو گا اور عذاب واجب ہو جائے گا اور حُجّت پوری ہو چکے گی اس طرح کہ لوگ امر بالمعروف اور نہی منکر ترک کر دیں گے اور ان کی درستی کی کوئی امید باقی نہ رہے گی یعنی قیامت قریب ہو جائے گی اور اس کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں گی اور اس وقت توبہ نفع نہ دے گی۔
۱۳۸ اس چوپایہ کو دابۃ الارض کہتے ہیں یہ عجب شکل کا جانور ہو گا جو کوہِ صفا سے برآمد ہو کر تمام شہروں میں بہت جلد پھرے گا، فصاحت کے ساتھ کلام کرے گا، ہر شخص کی پیشانی پر ایک نشان لگائے گا، ایمانداروں کی پیشانی پر عصائے موسیٰ علیہ السلام سے نورانی خط کھینچے گا، کافِر کی پیشانی پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگُشتری سے سیاہ مُہر لگائے گا۔
۱۳۹ بزبانِ فصیح اور کہے گا ہذا مؤمن و ہذا کا فِر یہ مؤمن ہے اور یہ کافِر ہے۔
۱۴۰ یعنی قرآنِ پاک پر ایمان نہ لاتے تھے جس میں بَعث و حساب و عذاب و خروجِ دابۃ الارض کا بیان ہے اس کے بعد کی آیت میں قیامت کا بیان فرمایا جاتا ہے۔
۱۴۱ جو کہ ہم نے اپنے انبیاء پر نازِل فرمائیں۔ فوج سے مراد جماعتِ کثیرہ ہے۔
۱۴۲ روزِ قیامت موقَفِ حساب میں۔
۱۴۳ اور تم نے ان کی معرفت حاصل نہ کی تھی بغیر سوچے سمجھے ہی ان آیتوں کا انکار کر دیا۔
۱۴۴ جب تم نے ان آیتوں کو بھی نہیں سوچا۔ تم بے کار تو نہیں پیدا کئے گئے تھے۔
۱۴۶ کہ ان کے لئے کوئی حُجّت اور کوئی گفتگو باقی نہیں ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ عذاب ان پر اس طرح چھا جائے گا کہ وہ بول نہ سکیں گے۔
۱۴۷ اور آیت میں بَعث بعد الموت پر دلیل ہے اس لئے کہ جو دن کی روشنی کو شب کی تاریکی سے اور شب کی تاریکی کو دن کی روشنی سے بدلنے پر قادر ہے وہ مردے کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے نیز انقلابِ لیل و نہار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ان کی دنیوی زندگی کا انتظام ہے تو یہ عبث نہیں کیا گیا بلکہ اس زندگانی کے اعمال پر عذاب و ثواب کا ترتُّب مقتضائے حکمت ہے اور جب دنیا دارالعمل ہے تو ضروری ہے کہ ایک دارِ آخرت بھی ہو وہاں کی زندگانی میں یہاں کے اعمال کی جزا ملے۔
۱۴۸ اور اس کے پھونکنے والے حضرت اسرافیل ہوں گے علیہ السلام۔
۱۴۹ ایسا گھبرانا جو سببِ موت ہو گا۔
۱۵۰ اور جس کے قلب کو اللہ تعالیٰ سکون عطا فرمائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ شُہداء ہیں جو اپنی تلواریں گلوں میں حمائل کئے عرش کے گرد حاضر ہوں گے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا وہ شہداء ہیں اس لئے کہ وہ اپنے ربّ کے نزدیک زندہ ہیں فَزَعْ ان کو نہ پہنچے گا۔ ایک قول یہ ہے کہ نفخہ کے بعد حضرت جبریل و میکائل و اسرافیل و عزرائیل ہی باقی رہیں گے۔
۱۵۱ یعنی روزِ قیامت سب لوگ بعدِ موت زندہ کئے جائیں گے اور موقف میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرتے حاضر ہوں گے۔ صیغۂ ماضی سے تعبیر فرمانا تحققِ وقوع کے لئے ہے۔
۱۵۲ معنیٰ یہ ہیں کہ نفخہ کے وقت پہاڑ دیکھنے میں تو اپنی جگہ ثابت و قائم معلوم ہوں گے اور حقیقت میں وہ مثل بادلوں کے نہایت تیز چلتے ہوں گے جیسے کہ بادل وغیرہ بڑے جسم چلتے ہیں متحرک نہیں معلوم ہوتے یہاں تک کہ وہ پہاڑ زمین پر گر کر اس کے برابر ہو جائیں گے پھر ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیں گے۔
۱۵۳ نیکی سے مراد کلمۂ توحید کی شہادت ہے۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ اخلا صِ عمل اور بعض نے کہا کہ ہر طاعت جو اللہ کے لئے کی ہو۔
۱۵۵ جو خوفِ عذاب سے ہو گی پہلی گھبراہٹ جس کا اوپر کی آیت میں ذکر ہوا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔
۱۵۷ یعنی وہ اوندھے منہ آگ میں ڈالے جائیں گے اور جہنّم کے خازن ان سے کہیں گے۔
۱۵یعنی شرک اور معاصی اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے فرمائے گا کہ آپ فرما دیجئے کہ۔
۱۵۹ یعنی مکّہ مکرّمہ کے اور اپنی عبادت اس ربّ کے ساتھ خاص کروں مکّۂ مکرّمہ کا ذکر اس لئے ہے کہ وہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وطن اور وحی کا جائے نُزول ہے۔
۱۶۰ کہ وہاں نہ کسی انسان کا خون بہایا جائے نہ کوئی شکار مارا جائے نہ وہاں کی گھانس کاٹی جائے۔
۱۶۱ مخلوقِ خدا کو ایمان کی دعوت دینے کے لئے۔
۱۶۲ اس کا نفع و ثواب وہ پائے گا۔
۱۶۳ اور رسولِ خدا کی اطاعت نہ کرے اور ایمان نہ لائے۔
۱۶۴ میرے ذمہ پہنچا دینا تھا وہ میں نے انجام دیا ھَذِہ ایٰۃ نسختھا ایٰۃ القتال۔
۱۶۵ ان نشانیوں سے مراد شقِ قمر وغیرہ معجزات ہیں اور وہ عقوبتیں جو دنیا میں آئیں جیسے کہ بدر میں کُفّار کا قتل ہونا، قید ہونا، ملائکہ کا انہیں مارنا۔