۱ سورۂ سجدہ مکّیہ ہے سوا تین آیتوں کے جو اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِناً سے شروع ہوتی ہیں، اس سورت میں تیس آیتیں اور تین سو اسّی کلمے اور ایک ہزار پانچ سو اٹھارہ حرف ہیں۔
۲ یعنی قرآنِ کریم کا معجزہ کر کے اس طرح کہ اس کے مثل ایک سورت یا چھوٹی سی عبارت بنانے سے تمام فصحاء و بلغاء عاجز رہ گئے۔
۴ یعنی سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی۔
۵ ایسے لوگوں سے مراد زمانۂ فطرت کے لوگ ہیں، وہ زمانہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سے سیدِ انبیاء محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بعثت تک تھا کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی رسول نہیں آیا۔
۶ جیسا استوا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔
۷ یعنی اے گروہِ کُفّار جب تم اللہ تعالیٰ کی راہِ رضا اختیار نہ کرو اور ایمان نہ لاؤ تو نہ تمہیں کوئی مدد گار ملے گا جو تمہاری مدد کر سکے نہ کوئی شفیع جو تمہاری شفاعت کرے۔
۸ یعنی دنیا کہ قیامت تک ہونے والے کاموں کی اپنے حکم و امر اور اپنے قضا و قدر سے۔
۹ امر و تدبیر فَنائے دنیا کے بعد۔
۱۰ یعنی ایامِ دنیا کے حساب سے اور وہ دن روزِ قیامت ہے، روزِ قیامت کی درازی بعض کافِروں کے لئے ہزار برس کے برابر ہو گی اور بعض کے لئے پچاس ہزار برس کے برابر جیسے کہ سورۂ معارج میں ہے تَعْرُجُ الْمَلٰۤئِکَۃُ وَ الرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْ مٍ کَانَ مِقْدَارُہ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ اور مومن پر یہ دن ایک نمازِ فرض کے وقت سے بھی ہلکا ہو گا جو دنیا میں پڑھتا تھا جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا۔
۱۲ حسبِ اقتضائے حکمت بنائی، ہر جاندار کو وہ صورت دی جو اس کے لئے بہتر ہے اور اس کو ایسے اعضاء عطا فرمائے جو اس کے معاش کے لئے مناسب ہیں۔
۱۳ حضرت آدم علیہ السلام کو اس سے بنا کر۔
۱۵ اور اس کو بے حس بے جان ہونے کے بعد حساس اور جاندار کیا۔
۱۶ تاکہ تم سنو اور دیکھو اور سمجھو۔
۱۸ اور مٹی ہو جائیں گے اور ہمارے اجزا مٹی سے ممتاز نہ رہیں گے۔
۱۹ یعنی موت کے بعد اٹھنے اور زندہ کئے جانے کا انکار کر کے وہ اس انتہا تک پہنچے ہیں کہ عاقبت کے تمام امور کے منکِر ہیں حتّیٰ کہ ربّ کے حضور حاضر ہونے کے بھی۔
۲۰ اس فرشتہ کا نام عزرائیل ہے علیہ السلام اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحیں قبض کرنے پر مقرر ہیں، اپنے کام میں کچھ غفلت نہیں کرتے جس کا وقت آ جاتا ہے بے درنگ اس کی روح قبض کر لیتے ہیں۔ مروی ہے کہ مَلَک الموت کے لئے دنیا مثلِ کفِ دست کر دی گئی ہے تو وہ مشارق و مغارب کی مخلوق کی روحیں بے مشقّت اٹھا لیتے ہیں اور رحمت و عذاب کے بہت فرشتے ان کے ماتحت ہیں۔
۲۱ اور حساب و جزا کے لئے زندہ کر کے اٹھائے جاؤ گے۔
۲۳ اپنے افعال و کردار سے شرمندہ و نادم ہو کر اور عرض کرتے ہوں گے۔
۲۴ مرنے کے بعد اٹھنے کو اور تیرے وعدہ وعید کے صدق کو جن کے ہم دنیا میں منکِر تھے۔
۲۵ تجھ سے تیرے رسولوں کی سچّائی کو تو اب دنیا میں۔
۲۶ اور اب ہم ایمان لے آئے لیکن اس وقت کا ایمان لانا انہیں کچھ کام نہ دے گا۔
۲۷ اور اس پر ایسا لطف کرتے کہ اگر وہ اس کو اختیار کرتا تو راہ یاب ہوتا لیکن ہم نے ایسا نہ کیا کیونکہ ہم کافِروں کو جانتے تھے کہ وہ کُفر ہی اختیار کریں گے۔
۲۸ جنہوں نے کُفر اختیار کیا اور جب وہ جہنّم میں داخل ہوں گے تو جہنّم کے خازن ان سے کہیں گے۔
۲۹ اور دنیا میں ایمان لائے تھے۔
۳۰ عذاب میں اب تمہاری طرف التفات نہ ہو گا۔
۳۱ تواضُع اور خشوع سے اور نعمتِ اسلام پر شکر گزاری کے لئے۔
۳۲ یعنی خوابِ استراحت کے بستروں سے اٹھتے ہیں اور اپنے راحت و آرام کو چھوڑتے ہیں۔
۳۳ یعنی اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور اس کی رحمت کی امید کرتے ہیں یہ تہجُّد ادا کرنے والوں کی حالت کا بیان ہے۔
شانِ نُزول : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت ہم انصاریوں کے حق میں نازل ہوئی کہ ہم مغرب پڑھ کر اپنی قیام گاہوں کو واپس نہ آتے تھے جب تک کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نمازِ عشاء نہ پڑھ لیتے۔
۳۴ جس سے وہ راحتیں پائیں گے اور ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔
یعنی ان طاعتوں کا جو انہوں نے دنیا میں ادا کیں۔
شانِ نُزول : حضرت علی مرتضیٰ کرّم اللہ تعالیٰ وجہ سے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کسی بات میں جھگڑ رہا تھا، دورانِ گفتگو میں کہنے لگا خاموش ہو جاؤ تم لڑکے ہو میں بوڑھا ہوں، میں بہت زبان دراز ہوں، میری نوکِ سنان تم سے زیادہ تیز ہے، میں تم سے زیادہ بہادر ہوں، میں بڑا جھتے دار ہوں، حضرت علی مرتضیٰ کرّم اللہ تعالیٰ وجہ نے فرمایا چپ تو فاسق ہے، مراد یہ تھی کہ جن باتوں پر تو ناز کرتا ہے انسان کے لئے ان میں سے کوئی قابلِ مدح نہیں، انسان کا فضل و شرف ایمان و تقویٰ میں ہے جسے یہ دولت نصیب نہیں وہ انتہا کا رذیل ہے، کافِر مومن کے برابر نہیں ہو سکتا، اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت علی مرتضیٰ کرّم اللہ تعالیٰ وجہ کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی۔
یعنی مومنینِ صالحین کی جنّتِ ماویٰ میں عزّت و اکرام کے ساتھ مہمانداری کی جائے گی۔
۳۹ دنیا ہی میں قتل اور گرفتاری اور قحط و امراض وغیرہ میں مبتلا کر کے چنانچہ ایسا ہی پیش آیا کہ حضور کی ہجرت سے قبل قریش امراض و مصائب میں گرفتار ہوئے اور بعدِ ہجرت بدر میں مقتول ہوئے، گرفتار ہوئے اور سات برس قحط کی ایسی سخت مصیبت میں مبتلا رہے کہ ہڈیاں اور مردار اور کتّے تک کھا گئے۔
اور آیات میں غور نہ کیا اور ان کے وضوح و ارشاد سے فائدہ نہ اٹھایا اور ایمان سے بہرہ اندوز نہ ہوا۔
یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب کے ملنے میں یا یہ معنیٰ ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ملنے اور ان سے ملاقات ہونے میں شک نہ کرو چنانچہ شبِ معراج حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔
۴۴ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یا توریت کو۔
۴۶ لوگوں کو خدا کی طاعت اور اس کی فرمانبرداری اور اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی شریعت کا اِتّباع، توریت کے احکام کی تعمیل اور یہ امامِ انبیائے بنی اسرائیل تھے یا انبیاء کے متّبِعین۔
۴۷ اپنے دین پر اور دشمنوں کی طرف سے پہنچنے والی مصیبتوں پر۔
فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ صبر کا ثمرہ امامت اور پیشوائی ہے۔
۴۸ یعنی انبیاء میں اور ان کی اُمّتوں میں یا مومنین و مشرکین میں۔
۴۹ امورِ دین میں سے اور حق و باطل والوں کو جُدا جُدا ممتاز کر دے گا۔
۵۱ کتنی اُمّتیں مثلِ عاد و ثمود و قومِ لوط کے۔
۵۲ یعنی اہلِ مکّہ جب بسلسلۂ تجارت شام کے سفر کرتے ہیں تو ان لوگوں کے منازل و بلاد میں گزرتے ہیں اور ان کی ہلاکت کے آثار دیکھتے ہیں۔
۵۳ جو عبرت حاصل کریں اور پند پذیر ہوں۔
۵۴ جس میں سبزہ کا نام و نشان نہیں۔
۵۵ چوپائے بھوسہ اور وہ خود غلّہ۔
۵۶ کہ وہ یہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے کمالِ قدرت پر استدلال کریں اور سمجھیں کہ جو قادرِ برحق خشک زمین سے کھیتی نکالنے پر قادر ہے مُردوں کا زندہ کرنا اس کی قدرت سے کیا بعید۔
۵۷ مسلمان کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور مشرکین کے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور فرمانبردار اور نافرمان کو ان کے حسبِ عمل جزا دے گا، اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہم پر رحمت و کرم کرے گا اور کُفّار و مشرکین کو عذاب میں مبتلا کرے گا، اس پر کافِر بطورِ تمسخُر و اِستِہزاء کہتے تھے کہ یہ فیصلہ کب ہو گا، اس کا وقت کب آئے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب سے ارشاد فرماتا ہے۔
۵۹ توبہ و معذرت کی فیصلہ کے دن سے یا روزِ قیامت مراد ہے یا روزِ فتحِ مکّہ یا روزِ بدر بر تقدیرِ اوّل اگر روزِ قیامت مراد ہو تو ایمان کا نافع نہ ہونا ظاہر ہے کیونکہ ایمان وہی مقبول ہے جو دنیا میں ہو اور دنیا سے نکلنے کے بعد نہ ایمان مقبول ہو گا نہ ایمان لانے کے لئے دنیا میں واپس آنا میسّر آئے گا اور اگر فیصلہ کے دن سے روزِ بدر یا روزِ فتحِ مکّہ مراد ہو تو معنیٰ یہ ہیں کہ جبکہ عذاب آ جائے اور وہ لوگ قتل ہونے لگیں تو حالتِ قتل میں ان کا ایمان لانا قبول نہ کیا جائے گا اور نہ عذاب مؤخّر کر کے انہیں مہلت دی جائے چنانچہ جب مکّہ مکرّمہ فتح ہوا تو قوم بنی کنانہ بھاگی حضرت خالد بن ولید نے جب انہیں گھیرا اور انہوں نے دیکھا کہ اب قتل سر پر آ گیا کوئی امید جاں بَری کی نہیں تو انہوں نے اسلام کا اظہار کیا، حضرت خالد نے قبول نہ فرمایا اور انہیں قتل کر دیا۔ (جمل وغیرہ)
۶۱ بخاری و مسلم شریف کی حدیث شریف میں ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم روزِ جمعہ نمازِ فجر میں یہ سورت یعنی سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر پڑھتے تھے۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ جب تک حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم یہ سورت اور سورۂ تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ پڑھ نہ لیتے خواب نہ فرماتے۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ سورۂ سجدہ عذابِ قبر سے محفوظ رکھتی ہے۔ (خازن و مدارک)