۱ سورۂ فاطر مکّیہ ہے، اس میں پانچ رکوع، پینتالیس آیتیں، نو سو ستّر ۹۷۰ کلمے، تین ہزار ایک سو تیس حروف ہیں۔
۳ فرشتوں میں اور ان کے سوا اور مخلوق میں۔
۴ مثل بارش و رزق و صحت وغیرہ کے۔
۵ کہ اس نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا، آسمان کو بغیر کسی ستون کے قائم کیا، اپنی راہ بتانے اور حق کی دعوت دینے کے لئے رسولوں کو بھیجا، رزق کے دروازے کھولے۔
۶ مینہ برسا کر اور طرح طرح کے نباتات پیدا کر کے۔
۷ اور یہ جانتے ہوئے کہ وہی خالِق و رازّق ہے ایمان و توحید سے کیوں پھرتے ہو۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تسلّی کے لئے فرمایا جاتا ہے۔
۸ اے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور تمہاری نبوّت و رسالت کو نہ مانیں اور توحید و بَعث و حساب اور عذاب کا انکار کریں۔
۹ انہوں نے صبر کیا آپ بھی صبر فرمائیے،کُفّار کا انبیاء کے ساتھ قدیم سے یہ دستور چلا آتا ہے۔
۱۰ وہ جھٹلانے والوں کو سزا دے گا اور رسولوں کی مدد فرمائے گا۔
۱۱ قیامت ضرور آنی ہے مرنے کے بعد ضرور اٹھنا ہے، اعمال کا حساب یقیناً ہو گا، ہر ایک کو اس کے کئے کی جزاء بے شک ملے گی۔
۱۲ کہ اس کی لذّتوں میں مشغول ہو کر آخرت کو بھول جاؤ۔
۱۳ یعنی شیطان تمہارے دلوں میں یہ وسوسہ ڈال کر کہ گناہوں سے مزہ اٹھا لو اللہ تعالیٰ حلم فرمانے والا ہے وہ درگذر کرے گا، اللہ تعالیٰ بے شک حلم والا ہے لیکن شیطان کی فریب کاری یہ ہے کہ وہ بندوں کو اس طرح توبہ و عملِ صالح سے روکتا ہے اور گناہ و معصیت پر جری کرتا ہے اس کے فریب سے ہوشیار رہو۔
۱۴ اور اس کی اطاعت نہ کرو اور اللہ تعالیٰ کی طاعت میں مشغول رہو۔
۱۵ یعنی اپنے متّبعین کو کُفر کی طرف۔
۱۶ اب شیطان کے متّبِعین اور اس کے مخالفین کا حال تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا جاتا ہے۔
۱۷ جو شیطان کے گروہ میں سے ہیں۔
۱۸ اور شیطان کے فریب میں نہ آئے اور اس کی راہ پر نہ چلے۔
۱۹ ہر گز نہیں بُرے کام کو اچھا سمجھنے والا راہ یاب کی طرح کیا ہو سکتا ہے ؟ وہ اس بدکار سے بدرجہا بدتر ہے جو اپنے خراب عمل کو بُرا جانتا ہو اور حق کو حق اور باطل کو باطل سمجھتا ہو۔ شانِ نُزول : یہ آیت ابوجہل وغیرہ مشرکینِ مکّہ کے حق میں نازل ہوئی جو اپنے شرک و کُفر جیسے قبیح افعال کو شیطان کے بہکانے اور بَھلا سمجھانے سے اچھا سمجھتے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت اصحابِ بدعت و ہَوا کے حق میں نازل ہوئی جن میں روافض و خوارج وغیرہ داخل ہیں جو اپنی بد مذہبیوں کو اچھا جانتے ہیں اور انہیں کے زُمرہ میں داخل ہیں، تمام بد مذہب خواہ وہابی ہوں یا غیرِ مقلِد یا مرزائی یا چکڑالی اور کبیرہ گناہ والے جو اپنے گناہوں کو بُرا جانتے ہیں اور حلال نہیں سمجھتے اس میں داخل نہیں۔
۲۰ کہ افسوس وہ ایمان نہ لائے اور حق کو قبول کرنے سے محروم رہے۔ مراد یہ کہ آپ ان کے کُفر و ہلاکت کا غم نہ فرمائیں۔
۲۱ جس میں سبزہ اور کھیتی نہیں اور خشک سالی سے وہاں کی زمین بے جان ہو گئی ہے۔
۲۲ اور اس کو سرسبز و شاداب کر دیتے ہیں اس سے ہماری قدرت ظاہر ہے۔
۲۳ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے ایک صحابی نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ مُردے کس طرح زندہ فرمائے گا ؟ خَلق میں اس کی کوئی نشانی ہو تو ارشاد فرمائیے، فرمایا کہ کیا تیرا کسی ایسے جنگل میں گذر ہوا ہے جو خشک سالی سے بے جان ہو گیا ہو اور وہاں سبزہ کا نام و نشان نہ رہا ہو پھر کبھی اسی جنگل میں گزر ہوا ہو اور اس کو ہرا بھرا لہلہاتا پایا ہو ؟ ان صحابہ نے عرض کیا بے شک ایسا دیکھا ہے حضور نے فرمایا ایسے ہی اللہ مُردوں کو زندہ کرے گا اور خَلق میں یہ اس کی یہ نشانی ہے۔
۲۴ دنیا و آخرت میں وہی عزّت کا مالک ہے جسے چاہے عزّت دے تو جو عزّت کا طلب گار ہو وہ اللہ تعالیٰ سے عزّت طلب کرے کیو نکہ ہر چیز اس کے مالک ہی سے طلب کی جاتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ربّ تبارک و تعالیٰ ہر روز فرماتا ہے جسے عزّتِ دارَین کی خواہش ہو چاہئے کہ وہ حضرت عزیز جَلَّتۡ عِزّ تُہ کی اطاعت کرے اور ذریعہ طلبِ عزّت کا ایمان اور اعمالِ صالحہ ہیں۔
۲۵ یعنی اس کے محلِّ قبول و رضا تک پہنچتا ہے اور پاکیزہ کلام سے مراد کلمۂ توحید و تسبیح و تحمید و تکبیر وغیرہ ہیں جیسا کہ حاکم و بیہقی نے روایت کیا اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کلمۂ طیّب کی تفسیر ذکر سے فرمائی اور بعض مفسِّرین نے قرآن اور دعا بھی مراد لی ہے۔
۲۶ نیک کام سے مراد وہ عمل و عبادت ہے جو اخلاص سے ہو اور معنیٰ یہ ہیں کہ کلمۂ طیّبہ عمل کو بلند کرتا ہے کیونکہ عمل بے توحید و ایمان مقبول نہیں یا یہ معنیٰ ہیں کہ عملِ صالح کو اللہ تعالیٰ رفعتِ قبول عطا فرماتا ہے یا یہ معنیٰ ہیں کہ عملِ نیک عمل کرنے والے کا مرتبہ بلند کرتے ہیں تو جو عزّت چاہے اس کو لازم ہے کہ نیک عمل کرے۔
۲۷ مراد ان مَکَر کرنے والوں سے وہ قریش ہیں جنہوں نے دار النَّدوہ میں جمع ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نسبت قید کرنے اور قتل کرنے اور جِلا وطن کرنے کے مشورہ کئے تھے جس کا تفصیلی بیان سورۂ انفال میں ہو چکا ہے۔
۲۸ اور وہ اپنے داؤں و فریب میں کامیاب نہ ہوں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ان کے شر سے محفوظ رہے اور انہوں نے اپنی مکّاریوں کی سزائیں پائیں کہ بدر میں قید بھی ہوئے، قتل بھی کئے گئے اور مکّہ مکرّمہ سے نکالے بھی گئے۔
۲۹ یعنی تمہاری اصل حضرت آدم علیہ السلام کو۔
۳۲ یعنی لوحِ محفوظ میں۔ حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ معمّر وہ ہے جس کی عمر ساٹھ سال پہنچے اور کم عمر والا وہ جو اس سے قبل مر جائے۔
۳۳ یعنی عمل و اَجل کا مکتوب فرمانا۔
دریا میں چلتے ہوئے اور ایک ہی ہوا میں آتی بھی ہیں جاتی بھی ہیں۔
۳۸ تجارتوں میں نفع حاصل کر کے۔
۳۹ اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزاری کرو۔
تو رات بڑھ جاتی ہے یہاں تک کہ بڑھنے والی دن یا رات کی مقدار پندرہ گھنٹہ تک پہنچتی ہے اور گَھٹنے والا نو گھنٹے کا رہ جاتا ہے۔
یعنی روزِ قیامت تک کہ جب قیامت آ جائے گی تو ان کا چلنا موقوف ہو جائے گا اور یہ نظام باقی نہ رہے گا۔
۴۵ کیونکہ اصلاً قدرت و اختیار نہیں رکھتے۔
۴۶ اور بیزاری کا اظہار کریں گے اور کہیں گے تم ہمیں نہ پُوجتے تھے۔
۴۷ یعنی دارَین کے احوال اور بُت پرستی کے مآل کی جیسی خبر اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور کوئی نہیں دے سکتا۔
۴۸ یعنی اس کے فضل و احسان کے حاجت مند ہو اور تمام خَلق اس کی محتاج ہے۔ حضرت ذوالنّون نے فرمایا کہ خَلق ہر دم اور ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے اور کیوں نہ ہو گی ان کی ہستی اور ان کی بقا سب اس کے کرم سے ہے۔
۴۹ یعنی تمہیں معدوم کر دے کیونکہ وہ بے نیاز اور غنی بالذّات ہے۔
۵۰ بجائے تمہارے جو مطیع اور فرمانبردار ہو۔
۵۱ معنیٰ یہ ہیں کہ روزِ قیامت ہر ایک جان پر اسی کے گناہوں کا بار ہو گا جو اس نے کئے ہیں اور کوئی جان کسی دوسرے کے عوض نہ پکڑی جائے گی البتہ جو گمراہ کرنے والے ہیں ان کے گمراہ کرنے سے جو لوگ گمراہ ہوئے ان کی تمام گمراہیوں کا بار ان گمراہوں پر بھی ہو گا اور ان گمراہ کرنے والوں پر بھی جیسا کہ کلامِ کریم میں ارشاد ہوا وَ لَیَحْمِلُنَّ اَ ثْقَالَھُمْ وَ اَ ثْقَالاً مَّعَ اَ ثْقَالھِمْ اور درحقیقت یہ ان کی اپنی کمائی ہے دوسرے کی نہیں۔
۵۲ باپ یا ماں، بیٹا یا بھائی کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ماں باپ بیٹے کو لپٹیں گے اور کہیں گے اے ہمارے بیٹے ہمارے کچھ گناہ اٹھا لے، وہ کہے گا میرے امکان میں نہیں میرا اپنا بار کیا کم ہے۔
۵۳ یعنی بدیوں سے بچا اور نیک عمل کئے۔
۵۴ اس نیکی کا نفع وہی پائے گا۔
۵۵ یعنی جاہل اور عالِم یا کافِر اور مومن۔
۶۰ یعنی مومنین اور کُفّار یا عُلَماء اور جھُّال۔
۶۱ یعنی جس کی ہدایت منظور ہو اس کو توفیق عطا فرماتا ہے۔
۶۲ یعنی کُفّار کو۔ اس آیت میں کُفّار کو مُردوں سے تشبیہ دی گئی کہ جس طرح مردے سنی ہوئی بات سے نفع نہیں اٹھا سکتے اور پند پذیر نہیں ہوتے، بد انجام کُفّار کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ہدایت و نصیحت سے منتفع نہیں ہوتے۔ اس آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ آیت میں قبر والوں سے مراد کُفّار ہیں نہ کہ مردے اور سننے سے مراد وہ سنتا ہے جس پر راہ یابی کا نفع مرتب ہو، رہا مُردوں کا سننا وہ احادیثِ کثیرہ سے ثابت ہے۔ اس مسئلہ کا بیان بیسویں پارے کے دوسرے رکوع میں گزرا۔
۶۳ تو اگر سننے والا آپ کے اِنذار پر کان رکھے اور بگوشِ قبول سنے تو نفع پائے اور اگر مصرِّین منکِرین میں سے ہو اور آپ کی نصیحت سے پند پذیر نہ ہو تو آپ کا کچھ حرج نہیں وہی محروم ہے۔
۶۶ خواہ وہ نبی ہو یا عالِمِ دین جو نبی کی طرف سے خَلقِ خدا کو اللہ تعالیٰ کا خوف دلائے۔
۶۸ اپنے رسولوں کو، کُفّار کا قدیم سے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ یہی برتاؤ رہا ہے۔
۶۹ یعنی نبوّت پر دلالت کرنے والے معجزات۔
۷۱ طرح طرح کے عذابوں سے بسبب ان کی تکذیبوں کے۔
۷۴ سبز، سرخ، زرد وغیرہ طرح طرح کے انار، سیب، انجیر، انگور، کھجور وغیرہ بے شمار۔
۷۵ جیسے پھلوں اور پہاڑوں میں یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی آیتیں اور اپنے نشانہائے قدرت اور آثارِ صنعت جن سے اس کی ذات و صفات پر استدلال کیا جائے ذکر کئے، اس کے بعد فرمایا۔
۷۶ اور اس کے صفات جانتے اور اس کی عظمت کو پہچانتے ہیں، جتنا علم زیادہ اتنا خوف زیادہ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ مخلوق میں اللہ تعالیٰ کا خوف اس کو ہے جو اللہ تعالیٰ کے جبروت اور اس کی عزّت و شان سے باخبر ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا قَسم اللہ عزَّوجلَّ کی کہ میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور سب سے زیادہ اس کا خوف رکھنے والا ہوں۔
۷۹ اور ان کے ظاہر و باطن کا جاننے والا۔
۸۰ یعنی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی اُمّت کو یہ کتاب عطا فرمائی جنہیں تمام اُمّتوں پر فضیلت دی اور سیدِ رُسُل صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی غلامی و نیاز مندی کی کرامت و شرافت سے مشرف فرمایا، اس اُمّت کے لوگ مختلف مدارج و مراتب رکھتے ہیں۔
۸۱ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ سبقت لے جانے والا مومنِ مخلص ہے اور مقتصد یعنی میانہ روی کرنے والا وہ جس کے عمل ریا سے ہوں اور ظالم سے مراد یہاں وہ ہے جو نعمتِ الٰہی کا منکِر تو نہ ہو لیکن شکر بجا نہ لائے۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ ہمارا سابق تو سابق ہی ہے اور مقتصد ناجی اور ظالم مغفور اور ایک اور حدیث میں ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا نیکیوں میں سبقت لے جانے والا جنّت میں بے حساب داخل ہو گا اور مقتصد سے حساب میں آسانی کی جائے گی اور ظالم مقامِ حساب میں روکا جائے گا اس کو پریشانی پیش آئے گی پھر جنّت میں داخل ہو گا۔ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ سابق عہدِ رسالت کے وہ مخلصین ہیں جن کے لئے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے جنّت کی بشارت دی اور مقتصد وہ اصحاب ہیں جو آپ کے طریقہ پر عامل رہے اور ظالم لنفسہٖ ہم تم جیسے لوگ ہیں یہ کمالِ انکسار تھا۔ حضرت اُمّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا کہ اپنے آپ کو اس تیسرے طبقہ میں شمار فرمایا باوجود اس جلالتِ منزلت و رفعتِ درَجت کے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی تھی اور بھی اس کی تفسیر میں بہت اقوال ہیں جو تفاسیر میں مفصلاً مذکور ہیں۔
۸۳ اس غم سے مراد یا دوزخ کا غم ہے یا موت کا یا گناہوں کا یا طاعتوں کے غیرِ مقبول ہونے کا یا اہوالِ قیامت کا، غرض انہیں کوئی غم نہ ہو گا اور وہ اس پر اللہ کی حمد کریں گے۔
۸۴ کہ گناہوں کو بخشتا ہے اور طاعتیں قبول فرماتا ہے۔
۸۵ اور مَر کر عذاب سے چھوٹ سکیں۔
۸۷ یعنی جہنّم میں چیختے اور فریاد کرتے ہوں گے کہ۔
۸۸ یعنی دوزخ سے نکال اور دنیا میں بھیج۔
۸۹ یعنی ہم بجائے کُفر کے ایمان لائیں اور بجائے معصیت و نافرمانی کے تیری اطاعت اور فرمانبرداری کریں، اس پر انہیں جواب دیا جائے گا۔
۹۰ یعنی رسولِ اکرم سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۹۱ تم نے اس رسولِ محترم کی دعوت قبول نہ کی اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری بجا نہ لائے۔
۹۳ اور ان کے املاک و مقبوضات کا مالک و متصرف بنایا اور ان کے منافع تمہارے لئے مباح کئے تاکہ تم ایمان و طاعت اختیار کر کے شکر گزاری کرو۔
۹۴ اور ان نعمتوں پر شکرِ الٰہی نہ بجا لائے۔
۹۵ یعنی اپنے کُفر کا وبال اسی کو برداشت کرنا پڑے گا۔
۹۹ کہ آسمانوں کے بنانے میں انہیں کچھ دخل ہو کس سبب سے انہیں مستحقِ عبادت قرار دیتے ہو۔
۱۰۰ ان میں سے کوئی بھی بات نہیں۔
۱۰۱ کہ ان میں جو بہکانے والے ہیں وہ اپنے متّبِعین کو دھوکا دیتے ہیں اور بُتوں کی طرف سے انہیں باطل امیدیں دلاتے ہیں۔
۱۰۲ ورنہ آسمان و زمین کے درمیان شرک جیسی معصیت ہو تو آسمان و زمین کیسے قائم رہیں۔
۱۰۳ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بعثت سے پہلے قریش نے یہود و نصاریٰ کے اپنے رسولوں کو نہ ماننے اور ان کو جھٹلانے کی نسبت کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرے کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول آئے اور انہوں نے انہیں جھٹلایا اور نہ مانا، خدا کی قَسم اگر ہمارے پاس کوئی رسول آئے تو ہم ان سے زیادہ راہ پر ہوں گے اور اس رسول کو ماننے میں ان کے بہتر گروہ پر سبقت لے جائیں گے۔
۱۰۴ یعنی سیدُ المرسلین خاتمُ النّبیّین حبیبِ خدا محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی رونق افروزی و جلوہ آرائی ہوئی۔
۱۰۶ بُرے داؤں سے مراد یا تو شرک و کُفر ہے اور یا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ مَکَر و فریب کرنا۔
۱۰۷ یعنی مکّار پر چنانچہ فریب کاری کرنے والے بدر میں مارے گئے۔
۱۰۸ کہ انہوں نے تکذیب کی اور ان پر عذاب نازل ہوئے۔
۱۰۹ یعنی کیا انہوں نے شام اور عراق اور یمن کے سفروں میں انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کرنے والوں کی ہلاکت و بربادی اور ان کے عذاب اور تباہی کے نشانات نہیں دیکھے کہ ان سے عبرت حاصل کرتے۔
۱۱۰ یعنی وہ تباہ شدہ قومیں ان اہلِ مکّہ سے زور و قوّت میں زیادہ تھیں باوجود اس کے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ وہ عذاب سے بھاگ کر کہیں پناہ لے سکتیں۔
۱۱۳ انہیں ان کے اعمال کی جزا دے گا جو عذاب کے مستحق ہیں انہیں عذاب فرمائے گا اور جو لائقِ کرم ہیں ان پر رحم و کرم کرے گا۔