اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)
۱ سورۃُ المُلک مکّیہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، تیس۳۰ آیتیں، تین سو تیس۳۳۰ کلمے، ایک ہزار تین سو تیرہ۱۳۱۳ حرف ہیں۔
حدیث میں ہے کہ سورۂ مُلک شفاعت کرتی ہے۔ (ترمذی و ابوداؤد) ایک اور حدیث میں ہے اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ایک جگہ خیمہ نصب کیا، وہاں ایک قبر تھی اور انہیں خیال نہ تھا کہ وہ صاحبِ قبر سورۂ مُلک پڑھتے رہے یہاں تک کہ تمام کی، تو خیمہ والے صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا میں نے ایک قبر پر خیمہ لگایا، مجھے خیال نہ تھا کہ یہاں قبر ہے اور تھی وہاں قبر اور صاحبِ قبر سورۂ مُلک پڑھتے تھے، یہاں تک کہ ختم کیا، سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ یہ سورت مانعہ، منجیہ ہے، عذابِ قبر سے نجات دلاتی ہے۔ (الترمذی وقال غریب)
(۱) بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضہ میں سارا ملک (ف ۲) اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۲ جو چاہے کرے، جسے چاہے عزّت دے، جسے چاہے ذلّت۔
(۲) وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو (ف ۳) تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے (ف ۴) اور وہی عزت والا بخشش والا ہے۔
۳ دنیا کی زندگی میں۔
۴ یعنی کون زیادہ مطیع و مخلص ہے۔
(۳) جس نے سات آسمان بنائے ایک کے اوپر دوسرا، تو رحمٰن کے بنانے میں کیا فرق دیکھتا ہے (ف ۵) تو نگاہ اٹھا کر دیکھ (ف ۶) تجھے کوئی رخنہ نظر آتا ہے۔
۵ یعنی آسمانوں کی پیدائش سے قدرتِ الٰہی ظاہر ہے کہ اس نے کیسے مستحکم، استوار، مستقیم، مستوی، متناسب بنائے۔
۶ آسمان کی طرف بارِ دگر۔
(۴) پھر دوبارہ نگاہ اٹھا (ف ۷) نظر تیری طرف ناکام پلٹ آئے گی تھکی ماندی (ف ۸)
۷ اور بار بار دیکھ۔
۸ کہ بار بار کی جستجو سے بھی کوئی خلل نہ پا سکے گی۔
(۵) اور بیشک ہم نے نیچے کے آسمان کو (ف ۹) چراغوں سے آراستہ کیا (ف ۱۰) اور انہیں شیطانوں کے لیے مار کیا (ف ۱۱) اور ان کے لیے (ف ۱۲) بھڑکتی آگ کا عذاب تیار فرمایا (ف ۱۳)
۹ جو زمین کی طرف سب سے زیادہ قریب ہے۔
۱۰ یعنی ستاروں سے۔
۱۱ کہ جب شیاطین آسمان کی طرف ان کی گفتگو سننے اور باتیں چُرانے پہنچیں تو کواکب سے شعلے اور چنگاریاں نکلیں جن سے انہیں مارا جائے۔
۱۲ یعنی شیاطین کے۔
۱۳ آخرت میں۔
(۶) اور جنہوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا (ف ۱۴) ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے، اور کیا ہی برا انجام۔
۱۴ خواہ وہ انسانوں میں سے ہوں یا جنّوں میں سے۔
(۷) جب اس میں ڈالے جائیں گے اس کا رینکنا (چنگھاڑنا) سنیں گے کہ جوش مارتی ہے
(۸) معلوم ہوتا ہے کہ شدت غضب میں پھٹ جائے گی، جب کبھی کوئی گروہ اس میں ڈالا جائے گا اس کے داروغہ (ف ۱۵) ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈر سنانے والا نہ آیا تھا (ف ۱۶)
۱۵ مالک اور ان کے اعوان بطریقِ تو بیخ۔
۱۶ یعنی اللہ کا نبی جو تمہیں عذابِ الٰہی کا خوف دلاتا۔
(۹) کہیں گے کیوں نہیں بیشک ہمارے پاس ڈر سنانے والے تشریف لائے (ف ۱۷) پھر ہم نے جھٹلایا اور کہا اللہ نے کچھ نہیں اُتارا، تم تو نہیں مگر بڑی گمراہی میں۔
۱۷ اور انہوں نے احکامِ الٰہی پہنچائے اور خدا کے غضب اور عذابِ آخرت سے ڈرایا۔
(۱۰) اور کہیں گے اگر ہم سنتے یا سمجھتے (ف ۱۸) تو دوزخ والوں میں نہ ہوتے۔
۱۸ رسولوں کی ہدایت اور اس کو مانتے۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ تکلیف کا مدار اَدِلّۂ سمعیّہ و عقلیّہ دونوں پر ہے اور دونوں حجّتیں ملزمہ ہیں۔
(۱۱) اب اپنے گناہ کا اقرار کیا (ف ۱۹) تو پھٹکار ہو دوزخیوں کو۔
۱۹ کہ رسولوں کی تکذیب کرتے تھے اور اس وقت کا اقرار کچھ نافع نہیں۔
(۱۲) بیشک جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں (ف ۲۰) ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے (ف ۲۱)
۲۰ اور اس پر ایمان لاتے ہیں۔
۲۱ ان کی نیکیوں کی جزاء۔
(۱۳) اور تم اپنی بات آہستہ کہو یا آواز سے، وہ تو دلوں کی جانتا ہے (ف ۲۲)
۲۲ اس پر کچھ مخفی نہیں۔ شانِ نزول : مشرکین آپس میں کہتے تھے چپکے چپکے بات کرو محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کا خدا سن نہ پائے۔ اس پریہ آیت نازل ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ اس سے کوئی چیز چھُپ نہیں سکتی یہ کوشش فضول ہے۔
(۱۴) کیا وہ نہ جانے جس نے پیدا کیا؟ (ف ۲۳) اور وہی ہے ہر باریکی جانتا خبردار۔
۲۳ اپنی مخلوق کے احوال کو۔
(۱۵) وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین رام (تابع) کر دی تو اس کے رستوں میں چلو اور اللہ کی روزی میں سے کھاؤ (ف ۲۴) اور اسی کی طرف اٹھنا ہے (ف ۲۵)
۲۴ جو اس نے تمہارے لئے پیدا فرمائی۔
۲۵ قبروں سے جزا کے لئے۔
(۱۶) کیا تم اس سے نڈر ہو گئے جس کی سلطنت آسمان میں ہے کہ تمہیں زمین میں دھنسا دے (ف ۲۶) جبھی وہ کانپتی رہے (ف ۲۷)
۲۶ جیسا قارون کو دھنسایا۔
۲۷ تاکہ تم اس کے اسفل میں پہنچو۔
(۱۷) یا تم نڈر ہو گئے اس سے جس کی سلطنت آسمان میں ہے کہ تم پر پتھراؤ بھیجے (ف ۲۸) تو اب جانو گے (ف ۲۹) کیسا تھا میرا ڈرانا۔
۲۸ جیسا لوط علیہ السلام کی قوم پر بھیجا تھا۔
۲۹ یعنی عذاب دیکھ کر۔
(۱۸) اور بیشک ان سے اگلوں نے جھٹلایا (ف ۳۰) تو کیسا ہوا میرا انکار (ف ۳۱)
۳۰ یعنی پہلی امّتوں نے۔
۳۱ جب میں نے انہیں ہلاک کیا۔
(۱۹) اور کیا انہوں نے اپنے اوپر پرندے نہ دیکھے پر پھیلاتے (ف ۳۲) اور سمیٹتے انہیں کوئی نہیں روکتا (ف ۳۳) سوا رحمٰن کے (ف ۳۴) بیشک وہ سب کچھ دیکھتا ہے۔
۳۲ ہوا میں اڑتے وقت۔
۳۳ پر پھیلانے اور سمیٹنے کی حالت میں گرنے سے۔
۳۴ یعنی باوجود یہ کہ پرندے بوجھل، موٹے جسیم ہوتے ہیں اور شے ثقیل طبعاً پستی کی طرف مائل ہوتی ہے وہ فضا میں نہیں رک سکتی اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ ٹھہرے رہتے ہیں ایسے ہی آسمانوں کو جب تک وہ چاہے رکے ہوئے ہیں اور وہ نہ روکے تو گر پڑیں۔
(۲۰) یا وہ کونسا تمہارا لشکر ہے کہ رحمٰن کے مقابل تمہاری مدد کرے (ف ۳۵) کافر نہیں مگر دھوکے میں (ف ۳۶)
۳۵ اگر وہ تمہیں عذاب کرنا چاہے۔
۳۶ یعنی کافر شیطان کے اس فریب میں ہیں کہ ان پر عذاب نازل نہ ہو گا۔
(۲۱) یا کونسا ایسا ہے جو تمہیں روزی دے اگر وہ اپنی روزی روک لے (ف ۳۷) بلکہ وہ سرکش اور نفرت میں ڈھیٹ بنے ہوئے ہیں (ف ۳۸)
۳۷ یعنی اس کے سوا کوئی روزی دینے والا نہیں۔
۳۸ کہ حق سے قریب نہیں ہوتے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کافر و مومن کے لئے ایک مثل بیان فرمائی۔
(۲۲) تو کیا وہ جو اپنے منہ کے بل اوندھا چلے (ف ۳۹) زیادہ راہ پر ہے یا وہ جو سیدھا چلے (ف ۴۰) سیدھی راہ پر (ف ۴۱)
۳۹ نہ آگے دیکھے نہ پیچھے نہ دائیں نہ بائیں۔
۴۰ راستہ کو دیکھتا۔
۴۱ جو منزلِ مقصود تک پہنچانے والی ہے، مقصود اس مثل کا یہ ہے کہ کافر گمراہی کے میدان میں اس طرح حیران و سرگرداں جاتا ہے کہ نہ اسے منزل معلوم نہ راہ پہچانے اور مومن آنکھیں کھولے راہِ حق دیکھتا پہچانتا چلتا ہے۔
(۲۳) تم فرماؤ (ف ۴۲) وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لیے کان اور آنکھ اور دل بنائے (ف ۴۳) کتنا کم حق مانتے ہو (ف ۴۴)
۴۲ اے مصطفیٰ صلی اللہ عَلَیْکَ وَ سلم مشرکین سے کہ جس خدا کی طرف میں تمہیں دعوت دیتا ہوں وہ۔
۴۳ جو آلاتِ علم ہیں لیکن تم نے ان قویٰ سے فائدہ نہ اٹھایا، جو سنا وہ نہ مانا، جو دیکھا اس سے عبرت حاصل نہ کی، جو سمجھا اس میں غور نہ کیا۔
۴۴ کہ اللہ تعالیٰ کے عطا فرمائے ہوئے قویٰ اور آلاتِ ادراک سے وہ کام نہیں لیتے جس کے لئے وہ عطا ہوئے یہی سبب ہے کہ شرک و کفر میں مبتلا ہوتے ہو۔
(۲۴) تم فرماؤ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف اٹھائے جاؤ گے (ف ۴۵)
۴۵ روزِ قیامت حساب و جزا کے لئے۔
(۲۵) اور کہتے ہیں (ف ۴۶) یہ وعدہ (ف ۴۷) کب آئے گا اگر تم سچے ہو۔
۴۶ مسلمانوں سے تمسخر و استہزاء کے طور پر۔
۴۷ عذاب یا قیامت کا۔
(۲۶) تم فرماؤ یہ علم تو اللہ کے پاس ہے، اور میں تو یہی صاف ڈر سنانے والا ہوں (ف ۴۸)
۴۸ یعنی عذاب و قیامت کے آنے کا تمہیں ڈر سناتا ہوں اتنے ہی کا مامور ہوں اسی سے میرا فرض ادا ہو جاتا ہے وقت کا بتانا میرے ذمّہ نہیں۔
(۲۷) پھر جب اسے (ف ۴۹) پاس دیکھیں گے کافروں کے منہ بگڑ جائیں گے (ف ۵۰) اور ان سے فرما دیا جائے گا (ف ۵۱) یہ ہے جو تم مانگتے تھے (ف ۵۲)
۴۹ یعنی عذابِ موعود کو۔
۵۰ چہرے سیاہ پڑ جائیں گے، وحشت و غم سے صورتیں خراب ہو جائیں گی۔
۵۱ جہنّم کے فرشتے کہیں گے۔
۵۲ اور انبیاء علیہم السلام سے کہتے تھے کہ وہ عذاب کہاں ہے ؟ جلدی لاؤ، اب دیکھ لو یہ ہے وہ عذاب جس کی تمہیں طلب تھی۔
(۲۸) تم فرماؤ (ف ۵۳) بھلا دیکھو تو اگر اللہ مجھے اور میرے ساتھ والوں کو (ف ۵۴) بلاک کر دے یا ہم پر رحم فرمائے (ف ۵۵) تو وہ کونسا ہے جو کافروں کو دکھ کے عذاب سے بچا لے گا (ف ۵۶)
۵۳ اے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کفّارِ مکّہ سے جو آپ کی موت کی آرزو رکھتے ہیں۔
۵۴ یعنی میرے اصحاب کو۔
۵۵ اور ہماری عمریں دراز کر دے۔
(۲۹) تم فرماؤ وہی رحمٰن ہے (ف ۵۷) ہم اس پر ایمان لائے اور اسی پر بھروسہ کیا، تو اب جان جاؤ گے (ف ۵۸) کون کھلی گمراہی میں ہے۔
۵۶ تمہیں تو اپنے کفر کے سبب ضرور عذاب میں مبتلا ہونا ہماری موت تمہیں کیا فائدہ دے گی۔
۵۷ جس کی طرف ہم تمہیں دعوت دیتے ہیں۔
۵۸ یعنی وقتِ عذاب۔
(۳۰) تم فرماؤ بھلا دیکھو تو اگر صبح کو تمہارا پانی زمین میں دھنس جائے (ف ۵۹) تو وہ کون ہے جو تمہیں پانی لا دے نگاہ کے سامنے بہتا (ف ۶۰)
۵۹ اور اتنی گہرائی میں پہنچ جائے کہ ڈول وغیرہ سے ہاتھ نہ آ سکے۔
۶۰ کہ اس تک ہر ایک کا ہاتھ پہنچ سکے یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت میں ہے تو جو کسی چیز پر قدرت نہ رکھے انہیں کیوں عبادت میں اس قادرِ برحق کا شریک کرتے ہو۔