یہ سورت مدنی ہے بجُز سات آیتوں کے جو مکۂ مکرّمہ میں نازِل ہوئیں اور '' اِذْیَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ'' سے شروع ہوتی ہیں۔ اس میں پچھتّر آیتیں اور ایک ہزار پچھتّر کلمے اور پانچ ہزار اسی حرف ہیں۔
۲ شانِ نزول : حضرت عُبادہ بن صامِت رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت ہم اہلِ بدر کے حق میں نازِل ہوئی جب غنیمت کے معاملہ میں ہمارے درمیان اختلاف پیدا ہوا اور بدمزگی کی نوبت آ گئی تو اللّٰہ تعالیٰ نے معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکال کر اپنے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے سپرد کیا آپ نے وہ مال برابر تقسیم کر دیا۔
۶ اور اپنے تمام کاموں کو اس کے سپرد کریں۔
۷ بقدر ان کے اعمال کے کیونکہ مؤمنین کے احوال ان اوصاف میں متفاوَت ہیں۔ اس لئے ان کے مراتب بھی جُدا گانہ ہیں۔
۸ جو ہمیشہ اِکرام و تعظیم کے ساتھ بے محنت و مشقت عطا کی جائے۔
۹ یعنی مدینہ طیّبہ سے بدر کی طرف۔
۱۰ کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ انکی تعداد کم ہے، ہتھیار تھوڑے ہیں، دشمن کی تعداد بھی زیادہ ہے اور وہ اسلحہ وغیرہ کا بڑا سامان رکھتا ہے۔ مختصر واقعہ یہ ہے کہ ابو سفیان کے مُلکِ شام سے ایک قافلہ ساتھ آنے کی خبر پا کر سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم اپنے اصحاب کے ساتھ انکے مقابلہ کے لئے روانہ ہوئے، مکّہ مکرّمہ سے ابو جہل قریش کا ایک لشکر گراں لے کر قافلہ امداد کے لئے روانہ ہوا۔ ا بوسفیان تو رستہ سے کترا کر مع اپنے قافلہ کے ساحلِ بحر کی راہ چل پڑے اور ابو جہل سے اس کے رفیقوں نے کہا کہ قافلہ تو بچ گیا اب مکّۂ مکرّمہ واپس چل تو اس نے انکار کر دیا اور وہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے جنگ کرنے کے قصد سے بدر کی طرف چل پڑا۔ سیدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا اور فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کُفّار کے دونوں گروہوں میں سے ایک پر مسلمان کو فتح مند کرے گا خواہ قافلہ ہو یا قریش کا لشکر۔ صحابہ نے اس میں موافقت کی مگر بعض کو یہ عُذر ہوا کہ ہم اس تیاری سے نہیں چلے تھے اور نہ ہماری تعداد اتنی ہے، نہ ہمارے پاس کافی سامانِ اسلحہ ہے۔ یہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو گراں گزرا اور حضور صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ قافلہ تو ساحل کی طرف نکل گیا اور ابو جہل سامنے آ رہا ہے۔ اس پر ان لوگوں نے پھر عرض کیا یا رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیک و سلم قافلے ہی کا تعاقُب کیجئے اور لشکرِ دشمن کو چھوڑ دیجئے، یہ بات ناگوارِ خاطرِ اقدس ہوئی تو حضرت صدیقِ اکبر و حضرتِ عمر رضی اللّٰہ عنہما نے کھڑے ہو کر اپنے اخلاص و فرمانبرداری اور رضا جُوئی و جاں نثاری کا اظہار کیا اور بڑی قوت و استحکام کے ساتھ عرض کی کہ وہ کسی طرح مرضیِ مبارک کے خلاف سُستی کرنے والے نہیں ہیں پھر اور صحابہ نے بھی عرض کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضور کو جو امر فرمایا اس کے مطابق تشریف لے چلیں ہم ساتھ ہیں،کبھی تخلُّف نہ کریں گے، ہم آپ پر ا یمان لائے، ہم نے آپ کی تصدیق کی، ہم نے آپ کے اِتِّباع کے عہد کئے،ہمیں آپ کی اِتِّباع میں سمندر کے اندر کُود جانے سے بھی عذر نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا چلو اللّٰہ کی برکت پر بھروسہ کرو اس نے مجھے وعدہ دیا ہے میں تمہیں بشارت دیتا ہوں،مجھے دشمنوں کے گرنے کی جگہ نظر آ رہی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کُفّار کے مرنے اور گرنے کی جگہ نام بنام بتا دیں اور ایک ایک کی جگہ پر نشانات لگا دیئے اور یہ معجزہ دیکھا گیا کہ ان میں سے جو مر کر گرا اسی نشان پر گرا اس سے خطا نہ کی۔
۱۱ اور کہتے تھے کہ ہمیں لشکرِ قریش کا حال ہی معلوم نہ تھا کہ ہم ان کے مقابلہ کی تیاری کر کے چلتے۔
۱۲ یہ بات کہ حضرت سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم جو کچھ کرتے ہیں حکمِ الٰہی سے کرتے ہیں اور آپ نے اعلان فرما دیا ہے کہ مسلمانوں کو غیبی مدد پہنچے گی۔
۱۳ یعنی قریش سے مقابلہ انہیں ایسا مُہِیب معلوم ہوتا ہے۔
۱۴ یعنی ابو سفیان کے قافلے اور ابو جہل کے لشکر۔
۱۶ دینِ حق کو غلبہ دے اس کو بلند و بالا کرے۔
۱۷ اور انہیں اس طرح ہلاک کرے کہ ان میں سے کوئی باقی نہ بچے۔
۱۸ یعنی اسلام کو ظہور و ثبات عطا فرمائے اور کُفر کو مٹائے۔
۱۹ شانِ نُزول : مسلم شریف کی حدیث ہے روزِ بدر رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے مشرکین کو ملاحَظہ فرمایا کہ ہزار ہیں اور آپ کے اصحاب تین سو دس سے کچھ زیادہ تو حضور قبلے کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے مبارک ہاتھ پھیلا کر اپنے ربّ سے یہ دعا کرنے لگے، یا ربّ جو تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے پورا کر، یاربّ جو تو نے مجھ سے وعدہ کیا عنایت فرما، یاربّ اگر تو اہلِ اسلام کی اس جماعت کو ہلاک کر دے گا تو زمین میں تیری پرستِش نہ ہو گی۔ اسی طرح حضور دعا کرتے رہے یہاں تک کہ دوشِ مبارک سے چادر شریف اُتر گئی تو حضرت ابوبکر حاضر ہوئے اور چادر مبارک دوشِ اقدس پر ڈالی اور عرض کیا یا نبیَ اللّٰہ آپ کی مناجات اپنے ربّ کے ساتھ کافی ہو گئی، وہ بہت جلد اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اس پر یہ آیتِ شریفہ نازِل ہوئی۔
۲۰ چنانچہ اوّل ہزار فرشتے آئے پھر تین ہزار پھر پانچ ہزار۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ مسلمان اس روز کافِروں کا تعاقُب کرتے تھے اور کافِر مسلمانوں کے آگے آگے بھاگتا جاتا تھا اچانک اوپر سے کوڑے کی آواز آتی تھی اور سوار کا یہ کلمہ سنا جاتا تھا '' اَقْدِمْ حَیْزومُ '' یعنی آگے بڑھ اے حیز وم ( حیز وم حضرت جبریل علیہ السلام کے گھوڑے کا نام ہے) اور نظر آتا تھا کہ کافِر گر کر مر گیا اور اس کی ناک تلوار سے اُڑا دی گئی اور چہرہ زخمی ہو گیا۔ صحابہ نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے یہ معائنے بیان کئے تو حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ آسمان سوم کی مدد ہے۔ ابوجہل نے حضرت ابنِ مسعود رضی اللّٰہ عنہ سے کہا کہ کہاں سے ضرب آتی تھی ؟ مارنے والا تو ہم کو نظر نہیں آتا تھا آپ نے فرمایا فرشتوں کی طرف سے تو کہنے لگا پھر وہی تو غالب ہوئے تم تو غالب نہیں ہوئے۔
۲۱ تو بندے کو چاہئے کہ اسی پر بھروسہ کرے اور اپنے زور و قوّت اور اسباب و جماعت پر ناز نہ کرے۔
۲۲ حضرت ابنِ مسعود رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ غُنودگی اگر جنگ میں ہو تو امن ہے اور اللّٰہ کی طرف سے ہے اور نماز میں ہو تو شیطان کی طرف سے ہے۔ جنگ میں غُنودگی کا امن ہونا اس سے ظاہر ہے کہ جسے جان کا اندیشہ ہو اسے نیند اور اونگھ نہیں آتی۔ وہ خطرے اور اِضطِراب میں رہتا ہے۔ خوفِ شدید کے وقت غُنودگی آنا حصولِ امن اور زوالِ خوف کی دلیل ہے۔ بعض مفسِّرین نے کہا ہے کہ جب مسلمانوں کو دشمنوں کی کثرت اور مسلمانوں کی قِلّت سے جانوں کا خوف ہوا اور بہت زیادہ پیاس لگی تو ان پر غُنودگی ڈال دی گئی جس سے انہیں راحت حاصل ہوئی اور تَکان اور پیاس رفع ہوئی اور وہ دُشمن سے جنگ کرنے پر قادِر ہوئے، یہ اُونگھ ان کے حق میں نعمت تھی اور یکبارگی سب کو آئی۔ جماعتِ کثیر کا خوفِ شدید کی حالت میں اسی طرح یکبارگی اُونگھ جانا خلافِ عادت ہے اسی لئے بعض عُلَماء نے فرمایا کہ یہ اُونگھ معجِزہ کے حکم میں ہے۔
۲۳ روزِ بدر مسلمان ریگستان میں اُترے، ان کے اور ان کے جانوروں کے پاؤں ریت میں دھنسے جاتے تھے اور مشرکین ان سے پہلے لبِ آب قبضہ کر چکے تھے۔ صحابہ میں بعض حضرات کو وضو کی، بعض کو غسل کی ضرورت تھی اور پیاس کی شدّت تھی تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ تم گمان کرتے ہو کہ تم حق پر ہو، تم میں اللّٰہ کے نبی ہیں اور تم اللّٰہ والے ہو اور حال یہ ہے کہ مشرکین غالب ہو کر پانی پر پہنچ گئے تم بغیر وضو اور غسل کئے نمازیں پڑھتے ہو تو تمہیں دشمن پر فتح یاب ہونے کی کس طرح امید ہے ؟ تو اللّٰہ تعالیٰ نے مِینہ بھیجا جس سے جنگل سیراب ہو گیا اور مسلمانوں نے اس سے پانی پیا اور غسل کئے اور وضو کئے اور اپنی سواریوں کو پلایا اور اپنے برتنوں کو بھرا اور غبار بیٹھ گیا اور زمین اس قابل ہو گئی کہ اس پر قدم جمنے لگے اور شیطان کا وسوسہ زائل ہو ا اور صحابہ کے دل خوش ہوئے اور یہ نعمت فتح و ظَفر حاصل ہونے کی دلیل ہوئی۔
۲۴ ان کی اعانت کر کے اور انہیں بشارت دے کر۔
۲۵ ابو داؤد مازنی جو بدر میں حاضر ہوئے تھے، فرماتے ہیں کہ میں مشرک کی گردن مارنے کے لئے اس کے درپے ہوا اس کا سر میری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گر گیا تو میں نے جان لیا کہ اس کو کسی اور نے قتل کیا۔ سہل بن حنیف فرماتے ہیں کہ روزِ بدر ہم میں سے کوئی تلوار سے اشارہ کرتا تھا تو اس کی تلوار پہنچنے سے پہلے ہی مشرک کا سر جسم سے جدا ہو کر گر جاتا تھا۔ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے یک مشت سنگریزے کُفّار پر پھینک کر مارے تو کوئی کافِر ایسا نہ بچا جس کی آنکھوں میں اس میں سے کوئی پڑا نہ ہو۔ بدر کا یہ واقعہ صبحِ جمعہ سترہ رمضان مبارک ۲ ہجری میں پیش آیا۔
۲۶ جو بدر میں پیش آیا اور کُفّار مقتول اور مقیّد ہوئے یہ تو عذاب دنیا ہے۔
۲۸ یعنی اگر کُفّار تم سے زیادہ بھی ہوں تو ان کے مقابلہ سے نہ بھاگو۔
۲۹ یعنی مسلمانوں میں سے جو جنگ میں کُفّار کے مقابلہ سے بھاگا وہ غضبِ الٰہی میں گرفتار ہوا، اس کا ٹھکانا دوزخ ہے سوائے دو حالتوں کے، ایک تو یہ کہ لڑائی کا ہنر یا کرتب کرنے کے لئے پیچھے ہٹا ہو وہ پیٹھ دینے اور بھاگنے والا نہیں ہے، دوسرے جو اپنی جماعت میں ملنے کے لئے پیچھے ہٹا ہو وہ بھی بھاگنے والا نہیں ہے۔
۳۰ شانِ نُزُول : جب مسلمان جنگِ بدر سے واپس ہوئے تو ان میں سے ایک کہتا تھا کہ میں نے فلاں کو قتل کیا، دوسرا کہتا تھا میں نے فلاں کو قتل کیا اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اس قتل کو تم اپنے زور و قوت کی طرف نسبت نہ کرو کہ یہ درحقیقت اللّٰہ کی امداد اور اس کی تقویت اور تائید ہے۔
۳۲ شانِ نُزُول : یہ خِطاب مشرکین کو ہے جنہوں نے بدر میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے جنگ کی اور ان میں سے ابو جہل نے اپنی اور حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نسبت یہ دعا کی کہ یاربّ ہم میں جو تیرے نزدیک اچھا ہو اسکی مدد کر اور جو بُرا ہو اسے مبتلائے مصیبت کر اور ایک روایت میں ہے کہ مشرکین نے مکّۂ مکرّمہ سے بدر کو چلتے وقت کعبۂ معظّمہ کے پردوں سے لپٹ کر یہ دعا کی تھی کہ یاربّ اگر محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ) حق پر ہوں تو ان کی مدد فرما اور اگر ہم حق پر ہوں تو ہماری مدد کر اس پر یہ آیت نازِل ہوئی کہ جو فیصلہ تم نے چاہا تھا وہ کر دیا گیا اور جو گروہ حق پر تھا اس کو فتح دی گئی، یہ تمہارا مانگا ہوا فیصلہ ہے اب آسمانی فیصلہ سے بھی جو ان کا طلب کیا ہوا تھا، اسلام کی حقانیت ثابت ہوئی۔ ابوجہل بھی اس جنگ میں ذلّت اور سوائی کے ساتھ مارا گیا اور اس کا سر رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے حضور میں حاضر کیا گیا۔
۳۳ سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عداوت اور حضور کے ساتھ جنگ کرنے سے۔
۳۴ کیونکہ رسول کی اطاعت اور اللّٰہ کی اطاعت ایک ہی چیز ہے۔ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللّٰہ کی اطاعت کی۔
۳۵ کیونکہ جو سن کر فائدہ نہ اُٹھائے اور نصیحت پذیر نہ ہو اس کا سُننا سُننا ہی نہیں ہے۔ یہ منافقین و مشرکین کا حال ہے مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
۳۶ نہ وہ حق سنتے ہیں، نہ حق بولتے ہیں، نہ حق کو سمجھتے ہیں۔ کان اور زبان و عقل سے فائدہ نہیں اُٹھاتے، جانوروں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ یہ دیدۂ و دانستہ بہرے گونگے بنتے اور عقل سے دشمنی کرتے ہیں۔ شانِ نُزُول : یہ آیت بنی عبد الدار بن قُصَیْ کے حق میں نازل ہوئی جو کہتے تھے کہ جو کچھ محمّد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم لائے ہم اس سے بہرے گونگے اندھے ہیں۔ یہ سب لوگ جنگِ اُحد میں مقتول ہوئے اور ان میں سے صرف دو شخص ا یمان لائے معصب بن عمیر اور سویبط بن حرملہ۔
۳۸ بحالتِ موجودہ یہ جانتے ہوئے کہ ان میں صدقِ رغبت نہیں ہے۔
۳۹ اپنے عِناد اور حق سے دشمنی کے باعث۔
۴۰ کیونکہ رسول کا بلانا اللّٰہ ہی کا بلانا ہے۔ بخاری شریف میں سعید بن معلی سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز پڑھتا تھا مجھے رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے پکارا میں نے جواب نہ دیا پھر میں نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کیا یا رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم میں نماز پڑھ رہا تھا حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کیا اللّٰہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اللّٰہ اور رسول کے بلانے پر حاضر ہو۔ ایسا ہی دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت ابی بن کعب نماز پڑھتے تھے حضور نے انہیں پکارا، انہوں نے جلدی نماز تمام کر کے سلام عرض کیا، حضور نے فرمایا تمہیں جواب دینے سے کیا بات مانِع ہوئی، عرض کیا حضور میں نماز میں تھا۔ حضور نے فرمایا کیا تم نے قرآنِ پاک میں یہ نہیں پایا کہ اللّٰہ اور رسول کے بلانے پر حاضر ہو عرض کیا بے شک آئندہ ایسا نہ ہو گا۔
۴۱ اس چیز سے یا ا یمان مراد ہے کیونکہ کافِر مردہ ہوتا ہے، ا یمان سے اس کو زندگی حاصل ہوتی ہے۔ قتادہ نے کہا کہ وہ چیز قرآن ہے کیونکہ اس سے دلوں کی زندگی ہے اور اس میں نَجات ہے اور عِصمتِ دارین ہے۔ محمد بن اسحاق نے کہا کہ وہ چیز جہاد ہے کیونکہ اس کی بدولت اللّٰہ تعالیٰ ذلّت کے بعد عزّت عطا فرماتا ہے۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ وہ شہادت ہے اس لئے شہداء اپنے ربّ کے نزدیک زندہ ہیں۔
۴۲ بلکہ اگر تم اس سے نہ ڈرے اور اس کے اسباب یعنی ممنوعات کو ترک نہ کیا اور وہ فتنہ نازِل ہوا تو یہ نہ ہو گا کہ اس میں خاص ظالم اور بد کار ہی مبتلا ہوں بلکہ وہ نیک اور بد سب کو پہنچ جائے گا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مؤمنین کو حکم فرمایا کہ وہ اپنے درمیان ممنوعات نہ ہونے دیں یعنی اپنے مقدور تک برائیوں کو روکیں اور گناہ کرنے والوں کو گناہ سے منع کریں اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو عذاب ان سب کو عام ہو گا، خطا کار اور غیر خطا کار سب کو پہنچے گا۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ مخصوص لوگوں کے عمل پر عذاب عام نہیں کرتا جب تک کہ عام طور پر لوگ ایسا نہ کریں کہ ممنوعات کو اپنے درمیان ہوتا دیکھتے رہیں اور اس کے روکنے اور منع کرنے پر قادِر ہوں باوجود اس کے نہ روکیں نہ منع کریں جب ایسا ہوتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ عذاب میں عام و خاص سب کو مبتلا کرتا ہے۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی قوم میں سرگرمِ معاصی ہو اور وہ لوگ باوجود قدرت کے اس کو نہ روکیں تو اللّٰہ تعالیٰ مرنے سے پہلے انہیں عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو قوم نہی عنِ المنکَر ترک کرتی ہے اور لوگوں کو گناہوں سے نہیں روکتی وہ اپنے اس ترکِ فرض کی شامت میں مبتلائے عذاب ہوتی ہے۔
۴۳ اے مؤمنین مہاجرین ابتدائے اسلام میں ہجرت کرنے سے پہلے مکّۂ مکرّمہ میں۔
۴۴ قریش تم پر غالب تھے اور تم۔
۴۶ یعنی اموالِ غنیمت جو تم سے پہلے کسی اُمّت کے لئے حلال نہیں کئے گئے تھے۔
۴۷ فرائض کا چھوڑ دینا اللّٰہ تعالیٰ سے خیانت کرنا ہے اور سنّت کا ترک کرنا رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے۔ شانِ نُزُول : یہ آیت ابو لبابہ ہارون بن عبد المنذر انصاری کے حق میں نازِل ہوئی۔ واقعہ یہ تھا کہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے یہودِ بنی قُریظہ کا دو ہفتے سے زیادہ عرصہ تک محاصَرہ فرمایا، وہ اس محاصَرہ سے تنگ آگئے اور ان کے دل خائِف ہو گئے تو ان سے ان کے سردار کعب بن اسد نے یہ کہا کہ اب تین شکلیں ہیں یا تو اس شخص یعنی سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی تصدیق کرو اور ان کی بیعت کر لو کیونکہ قسم بخدا وہ نبیِ مُرسَل ہیں یہ ظاہر ہوچکا اور یہ وہی رسول ہیں جن کا ذکر تمہاری کتاب میں ہے، ان پر ا یمان لے آئے تو جان مال اہل و اولاد سب محفوظ رہیں گے مگر اس بات کو قوم نے نہ مانا تو کعب نے دوسری شکل پیش کی اور کہا کہ تم اگر اسے نہیں مانتے تو آؤ پہلے ہم اپنے بی بی بچوں کو قتل کر دیں پھر تلواریں کھینچ کر محمّدِ مصطفٰے صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اصحاب کے مقابل آئیں کہ اگر ہم اس مقابلہ میں ہلاک بھی ہو جائیں تو ہمارے ساتھ اپنے اہل و اولاد کا غم تو نہ رہے، اس پر قوم نے کہا کہ اہل و اولاد کے بعد جینا ہی کس کام کا تو کعب نے کہا یہ بھی منظور نہیں ہے تو سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے صلح کی درخواست کرو شایداس میں کوئی بہتری کی صورت نکلے تو انہوں نے حضور سے صلح کی درخواست کی لیکن حضور نے منظور نہ فرمایا سوائے اس کے کہ اپنے حق میں سعد بن معاذ کے فیصلہ کو منظور کریں، اس پر انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ابو لبابہ کو بھیج دیجئے کیونکہ ابو لبابہ سے ان کے تعلقات تھے اور ابو لبابہ کا مال اور ان کی اولاد اور ان کے عیال سب بنی قُریظہ کے پاس تھے، حضور نے ابو لبابہ کو بھیج دیا۔ بنی قُریظہ نے ان سے رائے دریافت کی کہ کیا ہم سعد بن معاذ کا فیصلہ منظور کرلیں کہ جو کچھ وہ ہمارے حق میں فیصلہ دیں وہ ہمیں قبول ہو۔ ابو لبابہ نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیر کر اشارہ کیا کہ یہ توگلے کٹوانے کی بات ہے، ابو لبابہ کہتے ہیں کہ میرے قدم اپنی جگہ سے ہٹنے نہ پائے تھے کہ میرے دل میں یہ بات جم گئی کہ مجھ سے اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خیانت واقع ہوئی، یہ سوچ کر وہ حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں تو نہ آئے سیدھے مسجد شریف پہنچے اور مسجد شریف کے ایک سُتون سے اپنے آپ کو بندھوا لیا اور اللّٰہ کی قسم کھائی کہ نہ کچھ کھائیں گے نہ پئیں گے یہاں تک کہ مَرجائیں یا اللّٰہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرے۔ وقتاً فوقتاً ان کی بی بی آ کر انہیں نمازوں کے لئے اور انسانی حاجتوں کے لئے کھول دیا کرتی تھیں اور پھر باندھ دیئے جاتے تھے۔ حضور کو جب یہ خبر پہنچی تو فرمایا کہ ابو لبابہ میرے پاس آتے تو میں ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتا لیکن جب انہوں نے یہ کیا ہے تو میں انہیں نہ کھولوں گا جب تک اللّٰہ ان کی توبہ قبول نہ کرے۔ وہ سات روز بندھے رہے نہ کچھ کھایا نہ پیا یہاں تک کہ بے ہوش ہو کر گر گئے پھر اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی، صحابہ نے انہیں توبہ قبول ہونے کی بشارت دی تو انہوں نے کہا میں خدا کی قسم نہ کُھلوں گا جب تک رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم مجھے خود نہ کھولیں۔ حضرت نے انہیں اپنے دستِ مبارک سے کھول دیا، ابو لبابہ نے کہا میری توبہ اس وقت پوری ہو گی جب میں اپنی قوم کی بستی چھوڑ دوں جس میں مجھ سے یہ خطا سرزد ہوئی اور میں اپنے کُل مال کو اپنے مِلک سے نکال دوں۔ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تہائی مال کا صدقہ کرنا کافی ہے، ان کے حق میں یہ آیت نازِل ہوئی۔
۴۸ کہ آخرت کے کاموں میں سدِ راہ ہوتا ہے۔
۴۹ تو عاقل کو چاہئے کہ اسی کا طلب گار رہے اور مال و اولاد کے سبب سے اس سے محروم نہ ہو۔
۵۰ اس طرح کہ گناہ ترک کرو اور طاعت بجا لاؤ۔
۵۱ اس میں اس واقعہ کا بیان ہے جو حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے ذکر فرمایا کہ کُفّارِ قریش دارالندوہ (کمیٹی گھر) میں رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نسبت مشورہ کرنے کے لئے جمع ہوئے اور ابلیسِ لعین ایک بُڈھے کی صورت میں آیا اور کہنے لگا کہ میں شیخِ نجد ہوں، مجھے تمہارے اس اجتماع کی اطلاع ہوئی تو میں آیا مجھ سے تم کچھ نہ چھپانا، میں تمہارا رفیق ہوں اور اس معاملہ میں بہتر رائے سے تمہاری مدد کروں گا، انہوں نے اس کو شامل کر لیا اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق رائے زنی شروع ہوئی، ابوالبختری نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم) کو پکڑ کر ایک مکان میں قید کر دو اور مضبوط بندشوں سے باندھ دو، دروازہ بند کر دو، صرف ایک سوراخ چھوڑ دو جس سے کبھی کبھی کھانا پانی دیا جائے اور وہیں وہ ہلاک ہو کر رہ جائیں۔ اس پر شیطانِ لعین جو شیخِ نجدی بنا ہوا تھا بہت ناخوش ہوا اور کہا نہایت ناقص رائے ہے، یہ خبر مشہور ہو گی اور ان کے اصحاب آئیں گے اور تم سے مقابلہ کریں گے اور ان کو تمہارے ہاتھ سے چھُڑا لیں گے۔ لوگوں نے کہا شیخِ نجدی ٹھیک کہتا ہے پھر ہشام بن عمرو کھڑا ہوا اس نے کہا میری رائے یہ ہے کہ ان کو (یعنی محمّد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو) اونٹ پر سوار کر کے اپنے شہر سے نکال دو پھر وہ جو کچھ بھی کریں اس سے تمہیں کچھ ضَرر نہیں۔ ابلیس نے اس رائے کو بھی ناپسند کیا اور کہا جس شخص نے تمہارے ہوش اُڑا دیئے اور تمہارے دانشمندوں کو حیران بنا دیا اس کو تم دوسروں کی طرف بھیجتے ہو، تم نے اس کی شیریں کلامی، سیف زبانی، دل کشی نہیں دیکھی ہے اگر تم نے ایسا کیا تو وہ دوسری قوم کے قلوب تسخیر کر کے ان لوگوں کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے۔ اہلِ مجمع نے کہا شیخِ نجدی کی رائے ٹھیک ہے اس پر ابوجہل کھڑا ہوا اور اس نے یہ رائے دی کہ قریش کے ہر ہر خاندان سے ایک ایک عالی نسب جوان منتخب کیا جائے اور ان کو تیز تلوار یں دی جائیں، وہ سب یکبارگی حضرت پر حملہ آور ہو کر قتل کر دیں تو بنی ہاشم قریش کے تمام قبائل سے نہ لڑ سکیں گے۔ غایت یہ ہے کہ خون کا معاوضہ دینا پڑے وہ دے دیا جائے گا۔ ابلیسِ لعین نے اس تجویز کو پسند کیا اور ابوجہل کی بہت تعریف کی اور اسی پر سب کا اتفاق ہو گیا۔ حضرتِ جبریل علیہ السلام نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ گزارش کیا اور عرض کیا کہ حضور اپنی خواب گاہ میں شب کو نہ رہیں، اللّٰہ تعالیٰ نے اِذن دیا ہے مدینہ طیبہ کا عزم فرمائیں۔ حضور نے علی مرتضیٰ کو شب میں اپنی خواب گاہ میں رہنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہماری چادر شریف اوڑھو تمہیں کوئی ناگوار بات پیش نہ آئے گی اور حضور دولت سرائے اقدس سے باہر تشریف لائے اور ایک مشتِ خاک دستِ مبارک میں لی اور آیت'' اِنَّا جَعَلْنَا فِیْ اَعْنَاقِھِمْ اَغْلٰلاً '' پڑھ کر محاصَرہ کرنے والوں پر ماری، سب کی آنکھوں اور سروں پر پہنچی، سب اندھے ہو گئے اور حضور کو نہ دیکھ سکے اور حضور مع ابوبکر صدیق کے غارِ ثور میں تشریف لے گئے اور حضرت علی مرتضیٰ کو لوگوں کو امانتیں پہنچانے کے لئے مکّۂ مکرّمہ میں چھوڑا۔ مشرکین رات بھر سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی دولت سرائے کا پہرہ دیتے رہے، صبح کو جب قتل کے ارادہ سے حملہ آور ہوئے تو دیکھا کہ حضرت علی ہیں، ان سے حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو دریافت کیا گیا کہ کہاں ہیں انہوں نے فرمایا کہ ہمیں معلوم نہیں تو تلاش کے لئے نکلے جب غار پر پہنچے تو مکڑی کے جالے دیکھ کر کہنے لگے کہ اگر اس میں داخل ہوتے تو یہ جالے باقی نہ رہتے۔ حضور اس غار میں تین روز ٹھہرے پھر مدینہ طیبہ روانہ ہوئے۔
۵۲ شانِ نُزول : یہ آیت نضر بن حارث کے حق میں نازِل ہوئی جس نے سیدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے قرآنِ پاک سُن کر کہا تھا کہ ہم چاہتے تو ہم بھی ایسی ہی کتاب کہہ لیتے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کا یہ مقولہ نقل کیا کہ اس میں ان کی کمال بے شرمی و بے حیائی ہے کہ قرآنِ پاک کی تَحدّی فرمانے اور فُصَحائے عرب کو قرآنِ کریم کے مثل ایک سورۃ بنا لانے کی دعوتیں دینے اور ان سب کے عاجز و درماندہ رہ جانے کے بعد یہ کلمہ کہنا اور ایسا اِدّعائے باطل کرنا نہایت ذلیل حرکت ہے۔
۵۳ کُفَّار اور ان میں یہ کہنے والا یا نضر بن حارث تھا یا ابوجہل جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے۔
۵۴ کیونکہ رحمۃ لِلعالمین بنا کر بھیجے گئے ہو اور سنّتِ الٰہیہ یہ ہے کہ جب تک کسی قوم میں اس کے نبی موجود ہوں ان پر عام بربادی کا عذاب نہیں بھیجتا جس سے سب کے سب ہلاک ہو جائیں اور کوئی نہ بچے۔ ایک جماعت مفسِّرین کا قول ہے کہ یہ آیت سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم پر اس وقت نازِل ہوئی جب آپ مکّۂ مکرّمہ میں مقیم تھے پھر جب آپ نے ہجرت فرمائی اور کچھ مسلمان رہ گئے جو استغفار کیا کرتے تھے تو '' وَمَاکَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ'' نازِل ہوا جس میں بتایا گیا کہ جب تک استغفار کرنے والے ایماندار موجود ہیں اس وقت تک بھی عذاب نہ آئے گا پھر جب وہ حضرات بھی مدینہ طیّبہ کو روانہ ہو گئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے فتحِ مکّہ کا اِذن دیا اور یہ عذابِ مَوعود آگیا جس کی نسبت اس آیت میں فرمایا '' وَمَالَھُمْ اَلَّا یُعَذِّبَھُمُ اللّٰہُ '' محمد بن اسحاق نے کہا کہ '' مَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ '' بھی کُفَّار کا مقولہ ہے جو ان سے حکایۃً نقل کیا گیا، اللّٰہ عزوجل نے ان کی جہالت کا ذکر فرمایا کہ اس قدر احمق ہیں، آپ ہی تو یہ کہتے ہیں کہ یاربّ اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر نازِل کر اور آپ ہی یہ کہتے ہیں کہ یا محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم )جب تک آپ ہیں عذاب نازِل نہ ہو گا کیونکہ کوئی اُمّت اپنے نبی کی موجودگی میں ہلاک نہیں کی جاتی، کس قدر مُعارِض اقوال ہیں۔
۵۵ اس آیت سے ثابت ہوا کہ استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے میری اُمّت کے لئے دو امانیں اتاریں۔ ایک میرا ان میں تشریف فرما ہونا، ایک ان کا استغفار کرنا۔
۵۶ اور مؤمنین کو طوافِ کعبہ کے لئے نہیں آنے دیتے جیسا کہ واقعۂ حُدیبیہ کے سال سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے اصحاب کو روکا۔
۵۸ یعنی نماز کی جگہ سیٹی اور تالی بجاتے ہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنھما نے فرمایا کہ قریش ننگے ہو کر خانۂ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے اور یہ فعل ان کا یا تو اس اعتقادِ باطل سے تھا کہ سیٹی اور تالی بجانا عبادت ہے اور یا اس شرارت سے کہ ان کے اس شور سے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز میں پریشانی ہو۔
۶۰ یعنی لوگوں کو اللّٰہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے سے مانع ہوں۔ شانِ نُزول : یہ آیت کُفّار میں سے ان بارہ قریشیوں کے حق میں نازِل ہوئی جنہوں نے لشکرِ کُفّار کا کھانا اپنے ذمّہ لیا تھا اور ہر ایک ان میں سے لشکر کو کھانا دیتا تھا ہر روز دس اونٹ۔
۶۱ کہ مال بھی گیا اور کام بھی نہ بنا۔
۶۲ یعنی گروہِ کُفّار کو گروہِ مؤمنین سے ممتاز کر دے۔
۶۳ کہ دنیا و آخرت کے ٹوٹے میں رہے اور اپنے مال خرچ کر کے عذابِ آخرت مول لیا۔
۶۴ مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافِر جب کُفر سے باز آئے اور اسلام لائے تو اس کا پہلا کُفر اور مَعاصی مُعاف ہو جاتے ہیں۔
۶۵ کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو ہلاک کرتا ہے اور اپنے انبیاء اور اولیاء کی مدد فرماتا ہے۔
۶۸ تم اس کی مدد پر بھروسہ رکھو۔
۶۹ خواہ قلیل یا کثیر۔ غنیمت وہ مال ہے جو مسلمانوں کو کُفّار سے جنگ میں بطریقِ قَہر و غلبہ حاصل ہو۔
مسئلہ : مالِ غنیمت پانچ حصوں پر تقسیم کیا جائے اس میں سے چار حصے غانمین کے۔
۷۰ مسئلہ : غنیمت کا پانچواں حصہ پھر پانچ حصوں پر تقسیم ہو گا ان میں سے ایک حصہ جو کُل مال کا پچیسواں حصہ ہو ا وہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ہے اور ایک حصہ آپ کے اہلِ قرابت کے لئے اور تین حصے یتیموں اور مسکینوں، مسافروں کے لئے۔ مسئلہ : رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد حضور اور آپ کے اہلِ قرابت کے حصے بھی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کو ملیں گے اور پانچواں حصہ انہیں تین پر تقسیم ہو جائے گا۔ یہی قول ہے امام ابوحنیفہ رضی اللّٰہ عنہ کا۔
۷۱ اس دن سے روزِ بدر مراد ہے اور دونوں فوجوں سے مسلمانوں اور کافِروں کی فوجیں اور یہ واقعہ سترہ یا انیس رمضان کو پیش آیا۔ اصحابِ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی تعداد تین سو دس سے کچھ زیادہ تھی اور مشرکین ہزار کے قریب تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں ہزیمت دی ان میں سے ستّر سے زیادہ مارے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے۔
۷۳ قریش کا جس میں ابوسفیان وغیرہ تھے۔
۷۴ تین میل کے فاصلہ پر ساحل کی طرف۔
۷۵ یعنی اگر تم اور وہ باہم جنگ کا کوئی وقت مُعیّن کرتے پھر تمہیں اپنی قلت و بے سامانی اور ان کی کثرت و سامان کا حال معلوم ہوتا تو ضرور تم ہیبت و اندیشہ سے میعاد میں اختلاف کرتے۔
۷۶ یعنی اسلام اور مسلمین کی نصرت اور دین کا اعزاز اور دشمنانِ دین کی ہلاکت اس لئے تمہیں اس نے بے میعاد ہی جمع کر دیا۔
۷۷ یعنی حجُّتِ ظاہرہ قائم ہونے اور عبرت کا معائنہ کر لینے کے بعد۔
۷۸ محمد بن اسحٰق نے کہا کہ ہلاک سے کُفر، حیات سے ایمان مراد ہے۔ معنی یہ ہیں کہ جو کوئی کافِر ہو اس کو چاہیے کہ پہلے حُجّت قائم کرے اور ایسے ہی جو ایمان لائے وہ یقین کے ساتھ ایمان لائے اور حُجّت و برہان سے جان لے کہ یہ دین حق ہے اور بدر کا واقعہ آیاتِ واضحہ میں سے ہے اس کے بعد جس نے کُفر اختیار کیا وہ مکابر ہے، اپنے نفس کو مغالَطہ دیتا ہے۔
۷۹ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت تھی کہ نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو کُفّار کی تعداد تھوڑی دکھائی گئی اور آپ نے اپنا یہ خواب اصحاب سے بیان کیا اس سے ان کی ہمتیں بڑھیں اور اپنے ضعف و کمزوری کا اندیشہ نہ رہا اور انہیں دشمن پر جرأت پیدا ہوئی اور قلب قوی ہوئے۔ انبیاء کا خواب حق ہوتا ہے آپ کو کُفّار دکھائے گئے تھے اور ایسے کُفّار جو دنیا سے بے ایمان جائیں اور کُفر ہی پر ان کا خاتمہ ہو وہ تھوڑے ہی تھے کیونکہ جو لشکر مقابل آیا تھا اس میں کثیر لوگ وہ تھے جنہیں اپنی زندگی میں ایمان نصیب ہوا اور خواب میں قِلّت کی تعبیر ضعف سے ہے چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غالب فرما کر کُفّار کا ضعف ظاہر کر دیا۔
۸۰ اور ثبات و فرار میں متردِّد رہتے۔
۸۱ تم کو بُزدلی اور تردُّد اور باہمی اختلاف سے۔
۸۳ حضرت ابنِ مسعود رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ وہ ہماری نگاہوں میں اتنے کم جچے کہ میں نے اپنے برابر والے ایک شخص سے کہا کہ تمہارے گمان میں کافِر ستّر ہوں گے اس نے کہا کہ میرے خیال میں سو ہیں اور تھے ہزار۔
۸۴ یہاں تک کہ ابو جہل نے کہا کہ انہیں رسیّوں میں باندھ لو گویا کہ وہ مسلمانوں کی جماعت کو اتنا قلیل دیکھ رہا تھا مقابلہ کرنے اور جنگ آزما ہونے کے لائق بھی خیال نہیں کرتا تھا اور مشرکین کو مسلمانوں کی تعداد تھوڑی دکھانے میں یہ حکمت تھی کہ مشرکین مقابلہ پر جم جائیں، بھاگ نہ پڑیں اور یہ بات ابتداء میں تھی، مقابلہ ہونے کے بعد انہیں مسلمان بہت زیادہ نظر آنے لگے۔
۸۵ یعنی اسلام کا غلبہ اور مسلمانوں کی نصرت اور شرک کا ابطال اور مشرکین کی ذلّت اور رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے معجزے کا اظہار کہ جو فرمایا تھا وہ ہوا کہ جماعتِ قلیلہ لشکرِ گراں پر فتح یاب ہوئی۔
۸۶ اس سے مدد چاہو اور کُفّار پر غالب ہونے کی دعائیں کرو۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو ہر حال میں لازم ہے کہ وہ اپنے قلب و زبان کو ذکرِ الٰہی میں مشغول رکھے اور کسی سختی و پریشانی میں بھی اس سے غافل نہ ہو۔
۸۷ اس آیت سے معلوم ہوا کہ باہمی تنازع ضعف و کمزوری اور بے وقاری کا سبب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ باہمی تنازع سے محفوظ رہنے کی تدبیر خدا اور رسول کی فرماں برداری اور دین کا اِتِّباع ہے۔
۸۹ شانِ نُزول : یہ آیت کُفّارِ قریش کے حق میں نازِل ہوئی جو بدر میں بہت اتراتے اور تکبّر کرتے آئے تھے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا کی یاربّ یہ قریش آگئے تکبّر و غُرور میں سرشار اور جنگ کے لئے تیار، تیرے رسول کو جھٹلاتے ہیں۔ یاربّ اب وہ مدد عنایت ہو جس کا تو نے وعدہ کیا تھا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ جب ابوسفیان نے دیکھا کہ قافلہ کو کوئی خطرہ نہیں رہا تو انہوں نے قریش کے پاس پیام بھیجا کہ تم قافلہ کی مدد کے لئے آئے تھے اب اس کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لہذا واپس جاؤ۔ اس پر ابو جہل نے کہا کہ خدا کی قسم ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ ہم بدر میں اُتریں، تین روز قیام کریں، اونٹ ذَبح کریں، بہت سے کھانے پکائیں، شرابیں پئیں، کنیزوں کا گانا بجانا سنیں، عرب میں ہماری شہرت ہو اور ہماری ہیبت ہمیشہ باقی رہے لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا جب وہ بدر میں پہنچے تو جامِ شراب کی جگہ انہیں ساغرِ موت پینا پڑا اور کنیزوں کی ساز و نوا کی جگہ رونے والیاں انہیں روئیں۔ اللّٰہ تعالیٰ مؤمنین کو حکم فرماتا ہے کہ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں اور سمجھ لیں کہ فخر و ریا اور غرور تکبّر کا انجام خراب ہے، بندے کو اخلاص اور اطاعتِ خدا اور رسول چاہئے۔
۹۰ اور رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی عداوت اور مسلمانوں کی مخالفت میں جو کچھ انہوں نے کیا تھا اس پر ان کی تعریفیں کیں اور انہیں خبیث اعمال پر قائم رہنے کی رغبت دلائی اور جب قریش نے بدر میں جانے پر اتفاق کرلیا تو انہیں یاد آیا کہ ان کے اور قبیلہ بنی بکر کے درمیان عداوت ہے ممکن تھا کہ وہ یہ خیال کر کے واپسی کا قصد کرتے، یہ شیطان کو منظور نہ تھا اس لئے اس نے یہ فریب کیا کہ وہ سراقہ بن مالک بن جعثم بنی کنانہ کے سردار کی صورت میں نمودار ہوا اور ایک لشکر اور ایک جھنڈا ساتھ لے کر مشرکین سے آ ملا اور ان سے کہنے لگا کہ میں تمہارا ذمہ دار ہوں، آج تم پر کوئی غالب آنے والا نہیں جب مسلمانوں اور کافِروں کے دونوں لشکر صف آرا ہوئے اور رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مشتِ خاک مشرکین کے مُنہ پر ماری اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے اور حضرت جبریل، ابلیسِ لعین کی طرف بڑھے جو سراقہ کی شکل میں حارث بن ہشام کا ہاتھ پکڑ ے ہوئے تھا وہ ہاتھ چھٹا کر مع اپنے گروہ کے بھاگا۔ حارث پکارتا رہ گیا سراقہ سراقہ تم تو ہمارے ضامن ہوئے تھے کہاں جاتے ہو، کہنے لگا مجھے وہ نظر آتا ہے جو تمہیں نظر نہیں آتا۔ اس آیت میں اس واقعہ کا بیان ہے۔
۹۱ اور امن کی جو ذمہ داری لی تھی اس سے سبک دوش ہوتا ہوں۔ اس پر حار ث بن ہشام نے کہا کہ ہم تیرے بھروسہ پر آئے تھے اس حالت میں ہمیں رسوا کرے گا، کہنے لگا۔
۹۳ کہیں وہ مجھے ہلاک نہ کر دے۔ جب کُفّار کو ہزیمت ہوئی اور وہ شکست کھا کر مکّۂ مکرّمہ پہنچے تو انہوں نے یہ مشہور کیا کہ ہماری شکست و ہزیمت کا باعث سراقہ ہوا، سراقہ کو یہ خبر پہنچی تو اسے حیرت ہوئی اور اس نے کہا یہ لوگ کیا کہتے ہیں نہ مجھے ان کے آنے کی خبر، نہ جانے کی، ہزیمت ہو گئی جب میں نے سنا ہے تو قریش نے کہا کہ تو فلاں فلاں روز ہمارے پاس آیا تھا اس نے قسم کھائی کہ یہ غلط ہے تب انہیں معلوم ہوا کہ وہ شیطان تھا۔
۹۵ یہ مکّۂ مکرّمہ کے کچھ لوگ تھے جنہوں نے کلمۂ اسلام تو پڑھ لیا تھا مگر ابھی تک ان کے دلوں میں شک و تردُّد باقی تھا۔ جب کُفّارِ قریش سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے جنگ کے لئے نکلے یہ بھی ان کے ساتھ بدر میں پہنچے، وہاں جا کر مسلمانوں کو قلیل دیکھا تو شک اور بڑھا اور مُرتدّ ہو گئے اور کہنے لگے۔
۹۶ کہ باوجود اپنی ایسی قلیل تعداد کے ایسے لشکر گراں کے مقابل ہو گئے۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۹۷ اور اپنا کام اس کے سپرد کر دے اور اس کے فضل و احسان پر مطمئن ہو۔
۹۹ لوہے کہ گُرز جو آگ میں لال کئے ہوئے ہیں اور ان سے جو زخم لگتا ہے اس میں آگ پڑتی ہے اور سوزش ہوتی ہے، ان سے مار کر فرشتے کافِروں سے کہتے ہیں۔
۱۰۱ یعنی جو تم نے کسب کیا کُفر اور عصیان۔
۱۰۲ کسی پر بے جرم عذاب نہیں کرتا اور کافِر پر عذاب کرنا عدل ہے۔
۱۰۳ یعنی ان کافِروں کی عادت کُفر و سرکشی میں فرعونی اور ان سے پہلوں کی مثل ہے تو جس طرح وہ ہلاک کئے گئے یہ بھی روزِ بدر قتل و قید میں مبتلا کئے گئے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ جس طرح فرعونیوں نے حضرت موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نبوّت کو یہ یقین جان کر ان کی تکذیب کی یہی حال ان لوگوں کا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کو جان پہچان کر تکذیب کرتے ہیں۔
۱۰۴ اور زیادہ بدتر حال میں مبتلا نہ ہوں جیسے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کُفّارِ مکّہ کو روزی دے کر بھوک کی تکلیف رفع کی، امن دے کر خوف سے نجات دی اور ان کی طرف اپنے حبیب سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو نبی بنا کر مبعوث کیا۔ انہوں نے ان نعمتوں پر شکر تو نہ کیا بجائے اس کے یہ سرکشی کی کہ نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تکذیب کی، ان کی خوں ریزی کے درپے ہوئے اور لوگوں کو راہِ حق سے روکا۔ سدی نے کہا کہ اللّٰہ کی نعمت حضرت سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔
۱۰۵ ایسے ہی یہ کُفّارِ قریش ہیں جنہیں بدر میں ہلاک کیا گیا۔
۱۰۶ شانِ نزول : '' اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ'' اور اس کے بعد کی آیتیں بنی قُریظہ کے یہودیوں کے حق میں نازِل ہوئیں جن کا رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے عہد تھا کہ وہ آپ سے نہ لڑیں گے، نہ آپ کے دشمنوں کی مدد کریں گے، انہوں نے عہد توڑا اور مشرکینِ مکّہ نے جب رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے جنگ کی تو انھوں نے ہتھیاروں سے ان کی مدد کی پھر حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے معذرت کی کہ ہم بھول گئے تھے اور ہم سے قصور ہوا پھر دوبارہ عہد کیا اور اس کو بھی توڑا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں سب جانوروں سے بدتر بتایا کیونکہ کُفّار سب جانوروں سے بدتر ہیں اور باوجود کُفر کے عہد شکن بھی ہوں تو اور بھی خراب۔
۱۰۷ خدا سے نہ عہد شکنی کے خراب نتیجے سے اور نہ اس سے شرماتے ہیں باوجود یہ کہ عہد شکنی ہر عاقل کے نزدیک شرمناک جرم ہے اور عہد شکنی کرنے والا سب کے نزدیک بے اعتبار ہو جاتا ہے۔ جب اس کی بے غیرتی اس درجہ پہنچ گئی تو یقیناً وہ جانوروں سے بدتر ہیں۔
۱۰۸ اور ان کی ہمتیں توڑ دو اور ان کی جماعتیں منتشر کر دو۔
۱۱۰ اور ایسے آثار و قرائن پائے جائیں جن سے ثابت ہو کہ وہ عذر کریں گے اور عہد پر قائم نہ رہیں گے۔
۱۱۱ یعنی انہیں اس عہد کی مخالفت کرنے سے پہلے آگاہ کردو کہ تمہاری بدعہدی کے قرائن پائے گئے لہذا وہ عہد قابلِ اعتبار نہ رہا اس کی پابندی نہ کی جائے گی۔
۱۱۲ جنگِ بدر سے بھاگ کر قتل و قید سے بچ گئے اور مسلمانوں کے۔
۱۱۳ اپنے گرفتار کرنے والے کو۔ اس کے بعد مسلمانوں کو خِطاب ہوتا ہے۔
۱۱۴ خواہ وہ ہتھیار ہوں یا قلعے یا تیر اندازی۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آیت کی تفسیر میں قوت کے معنیٰ رمی یعنی تیر اندازی بتائے۔
۱۱۵ یعنی کُفّار اہلِ مکّہ ہوں یا دوسرے۔
۱۱۶ ابنِ زید کا قول ہے کہ یہاں اوروں سے منافقین مراد ہیں۔ حسن کا قول ہے کہ کافِر جن۔
۱۱۹ اور صلح کا اظہار مَکر کے لئے کریں۔
۱۲۰ جیسا کہ قبیلۂ اوس و خزرج میں مَحبت و الفت پیدا کر دی باوجود یہ کہ ان میں سو برس سے زیادہ کی عداوتیں تھیں اور بڑی بڑی لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں، یہ مَحض اللّٰہ کا کرم ہے۔
۱۲۱ یعنی ان کی باہمی عداوت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ انہیں ملا دینے کے لئے تمام سامان بے کار ہو چکے تھے اور کوئی صورت باقی نہ رہی تھی، ذرا ذرا سی بات میں بگڑ جاتے اور صدیوں تک جنگ باقی رہتی، کسی طرح دو دل نہ مل سکتے جب رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم مبعوث ہوئے اور عرب لوگ آپ پر ایمان لائے اور انہوں نے آپ کا اِتِّباع کیا تو یہ حالت بدل گئی اور دلوں سے دیرینہ عداوتیں اور کینے دور ہوئے اور ایمانی مَحبتیں پیدا ہوئیں۔ یہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا روشن معجِزہ ہے۔
۱۲۲ شانِ نُزُول : سعید بن جبیر حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے ایمان لانے کے بارے میں نازِل ہوئی۔ ایمان سے صرف تینتیس مرد اور چھ عورتیں مشرّف ہوچکے تھے تب حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اسلام لائے۔ اس قول کی بنا پر یہ آیت مکّی ہے نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم سے مدنی سورت میں لکھی گئی۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت غزوۂ بدر میں قبلِ قتال نازِل ہوئی اس تقدیر پر آیت مدنی ہے اور مؤمنین سے یہاں ایک قول میں انصار، ایک میں تمام مہاجرین و انصار مراد ہیں۔
۱۲۳ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ اور بِشارت ہے کہ مسلمانوں کی جماعت صابر رہے تو بمددِ الٰہی دس گنے کافِروں پر غالب رہے گی کیونکہ کُفّار جاہل ہیں اور ان کی غرض جنگ سے نہ حصولِ ثواب ہے، نہ خوفِ عذاب، جانوروں کی طرح لڑتے بھڑتے ہیں تو وہ لِلّٰہِیّت کے ساتھ لڑنے والوں کے مقابل کیا ٹھہر سکیں گے۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازِل ہوئی تو مسلمانوں پر فرض کر دیا گیا کہ مسلمانوں کا ایک، دس کے مقابلہ سے نہ بھاگے پھر آیت '' اَلْاٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ'' نازِل ہوئی تو یہ لازم کیا گیا کہ ایک سو، دو سو ۲۰۰ کے مقابل قائم رہیں یعنی دس گنے سے مقابلہ کی فرضیت منسوخ ہوئی اور دو گنے کے مقابلہ سے بھاگنا ممنوع رکھا گیا۔
۱۲۴ اور قتلِ کُفّار میں مبالغہ کر کے کُفر کی ذلّت اور اسلام کی شوکت کا اظہار نہ کرے۔ شانِ نُزول : مسلم شریف وغیرہ کی احادیث میں ہے کہ جنگِ بدر میں ستّر کافِر قید کر کے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے حضور میں لائے گئے حضور نے ان کے متعلق صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا کہ یہ آپ کی قوم و قبیلے کے لوگ ہیں میری رائے میں انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اس سے مسلمانوں کو قوت بھی پہنچے گی اور کیا عجب ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام نصیب کرے۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے آپ کی تکذیب کی آپ کو مکۂ مکرّمہ میں نہ رہنے دیا یہ کُفر کے سردار اور سرپرست ہیں ان کی گردنیں اُڑائیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو فدیہ سے غنی کیا ہے علی مرتضیٰ کو عقیل پر اور حضرت حمزہ کو عباس پر اور مجھے میرے قرابتی پر مقرر کیجئے کہ ان کی گردنیں مار دیں آخرکار فدیہ ہی لینے کی رائے قرار پائی اور جب فدیہ لیا گیا تو یہ آیت نازِل ہوئی۔
۱۲۵ یہ خطاب مؤمنین کو ہے اور مال سے فدیہ مراد ہے۔
۱۲۶ یعنی تمہارے لئے آخرت کا ثواب جو قتلِ کفّار و اعزازِ اسلام پر مرتب ہے حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ یہ حکم بدر میں تھا جبکہ مسلمان تھوڑے تھے پھر جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوئی اور وہ فضلِ الٰہی سے قوی ہوئے تو قیدیوں کے حق میں نازِل ہوئی'' فَاِمَّا مَنًّامْ بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآءً'' اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور مؤمنین کو اختیار دیا کہ چاہے کافِروں کو قتل کریں چاہے انہیں غلام بنائیں چاہے فدیہ لیں چاہے آزاد کریں۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ چالیس اوقیہ سونا فی کس تھا جس کے سولہ سو درہم ہوئے۔
۱۲۷ یہ کہ اجتہاد پر عمل کرنے والے سے مواخذہ نہ فرمائے گا اور یہاں صحابہ نے اجتہاد ہی کیا تھا اور انکی فکر میں یہی بات آئی تھی کہ کافِروں کو زندہ چھوڑ دینے میں ان کے اسلام لانے کی امید ہے اور فدیہ لینے میں دین کو تقویت ہوتی ہے اور اس پر نظر نہیں کی گئی کہ قتل میں عزت اسلام اور تہدیدِ کُفّار ہے۔ مسئلہ : سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا اس دینی معاملہ میں صحابہ کی رائے دریافت فرمانا مشروعیتِ اجتہاد کی دلیل ہے یا '' کِتَابٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ'' سے وہ مراد ہے جو اس نے لوحِ محفوظ میں لکھا کہ اہلِ بدر پر عذاب نہ کیا جائے گا۔
۱۲۸ جب اوپر کی آیت نازِل ہوئی تو اصحابِ نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے جو فدیئے لئے تھے ان سے ہاتھ روک لئے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور بیا ن فرمایا گیا کہ تمھاری غنیمتیں حلال کی گئیں انھیں کھاؤ۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے لئے غنیمتیں حلال کیں ہم سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ کی گئی تھیں۔
۱۲۹ شانِ نُزُول : یہ آیت حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللّٰہ عنہ کے بارے میں نازِل ہوئی ہے جو سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا ہیں، یہ کُفّارِ قریش کے ان دس سرداروں میں سے تھے جنہوں نے جنگِ بدر میں لشکرِ کُفّار کے کھانے کی ذمہ داری لی تھی اور یہ اس خرچ کے لئے بیس اوقیہ سونا ساتھ لے کر چلے تھے (ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے) لیکن ان کے ذمے جس دن کھلانا تجویز ہوا تھا خاص اسی روز جنگ کا واقعہ پیش آیا اور قتال میں کھانے کھلانے کی فرصت و مہلت نہ ملی تو یہ بیس اوقیہ سونا ان کے پاس بچ رہا جب وہ گرفتار ہوئے اور یہ سونا ان سے لے لیا گیا تو انہوں نے درخواست کی کہ یہ سونا ان کے فدیہ میں محسوب کر لیا جائے مگر رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے انکار فرمایا۔ ارشاد کیا جو چیز ہماری مخالفت میں صرف کرنے کے لئے لائے تھے وہ نہ چھوڑی جائے گی اور حضرت عباس پر ان کے دونوں بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث کے فدیئے کا بار بھی ڈالا گیا تو حضرت عباس نے عرض کیا یا محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم) تم مجھے اس حال میں چھوڑو گے کہ میں باقی عمر قریش سے مانگ مانگ کر بسر کیا کروں تو حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پھر وہ سونا کہاں ہے جس کو تمہارے مکّۂ مکرّمہ سے چلتے وقت تمہاری بی بی ام الفضل نے دفن کیا ہے اور تم ان سے کہہ کر آئے ہو کہ خبر نہیں ہے مجھے کیا حادثہ پیش آئے اگر میں جنگ میں کام آ جاؤں تو یہ تیرا ہے اور عبداللّٰہ اور عبید اللّٰہ کا اور فضل اور قثم کا ( سب انکے بیٹے تھے ) حضرت عباس نے عرض کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے میرے ربّ نے خبردار کیا ہے اس پر حضرت عباس نے عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں بے شک آپ سچے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّٰہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اس کے بندے اور رسول ہیں میرے اس راز پر اللّٰہ کے سوا کوئی مطّلِع نہ تھا اور حضرت عباس رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے بھتیجوں عقیل و نوفل کو حکم دیا وہ بھی اسلام لائے۔
۱۳۰ خلوصِ ایمان اور صحتِ نیّت سے۔
۱۳۲ جب رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بحرین کا مال آیا جس کی مقدار اسّی ہزار تھی تو حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے نمازِ ظہر کے لئے وضو کیا اور نماز سے پہلے پہلے کُل کا کُل تقسیم کر دیا اور حضرت عباس رضی اللّٰہ عنہ کو حکم دیا کہ اس میں سے لے لو تو جتنا ان سے اٹھ سکا اتنا انہوں نے لے لیا وہ فرماتے تھے کہ یہ اس سے بہتر ہے کہ جو اللّٰہ نے مجھ سے لیا اور میں اس کی مغفرت کی امید رکھتا ہوں اور ان کے تموّل کا یہ حال ہوا کہ ان کے بیس غلام تھے سب کے سب تاجر اور ان میں سب سے کم سرمایہ جس کا تھا اس کا بیس ہزار کا تھا۔
۱۳۴ تمہاری بیعت سے پھر کر اور کُفر اختیار کر کے۔
۱۳۵ جیسا کہ وہ بدر میں دیکھ چکے ہیں کہ قتل ہوئے، گرفتار ہوئے، آئندہ بھی اگر ان کے اطوار وہی رہے تو انہیں اسی کا امید وار رہنا چاہئے۔
۱۳۶ اور اسی کے رسول کی مَحبت میں انہوں نے اپنے۔
۱۳۸ مسلمانوں کی اور انہیں اپنے مکانوں میں ٹھہرایا یہ انصار ہیں۔ ان مہاجرین اور انصار دونوں کے لئے ارشاد ہوتا ہے۔
۱۳۹ مہاجر انصار کے اور انصار مہاجر کے۔ یہ وراثت آیت '' وَاُولُوالْاَ رْحَامِ بَعْضُھُمْ اَولیٰ بِبَعْضِ'' سے منسوخ ہو گئی۔
۱۴۰ اور مکّۂ مکرّمہ ہی میں مقیم رہے۔
۱۴۱ ان کے اور مؤمنین کے درمیان وراثت نہیں۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کو کُفّار کی موالات و موارثت سے منع کیا گیا اور ان سے جدا رہنے کا حکم دیا گیا اور مسلمانوں پر باہم میل جول رکھنا لازم کیا گیا۔
۱۴۲ یعنی اگر مسلمانوں میں باہم تعاون و تناصُر نہ ہو اور وہ ایک دوسرے کے مددگار ہو کر ایک قوت نہ بن جائیں تو کُفّار قوی ہوں گے اور مسلمان ضعیف اور یہ بڑا فتنہ و فساد ہے۔
۱۴۳ پہلی آیت میں مہاجرین و انصار کے باہمی تعلقات اور ان میں سے ہر ایک کے دوسرے کے معین و ناصر ہونے کا بیان تھا۔ اس آیت میں ان دونوں کے ایمان کی تصدیق اور ان کے مَوردِ رحمتِ الٰہی ہونے کا ذکر ہے۔
۱۴۴ اور تمہارے ہی حکم میں ہیں اے مہاجرین و انصار۔ مہاجرین کے کئی طبقے ہیں ایک وہ ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ مدینۂ طیّبہ کو ہجرت کی انہیں مہاجرینِ اوّلین کہتے ہیں۔ کچھ وہ حضرات ہیں جنہوں نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر مدینۂ طیّبہ کی طرف انہیں اصحابُ الہجرتَین کہتے ہیں۔ بعض حضرات وہ ہیں جنہوں نے صلح حُدیبیہ کے بعد فتحِ مکّہ سے قبل ہجرت کی یہ اصحابِ ہجرتِ ثانیہ کہلاتے ہیں۔ پہلی آیت میں مہاجرینِ اوّلین کا ذکر ہے اور اس آیت میں اصحابِ ہجرتِ ثانیہ کا۔
۱۴۵ اس آیت سے توارُث بالہجرت منسوخ کیا گیا اور ذوِی الارحام کی وراثت ثابت ہوئی۔