خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الانشراح

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ الم نشرح مکّیہ ہے، اس میں ایک ۱ رکوع، آٹھ ۸ آیتیں، ستائیس۲۷ کلمے، ایک سو تین۱۰۳ حرف ہیں۔

(۱)  کیا ہم نے  تمہارا سینہ کشادہ نہ کیا (ف ۲)

۲                 یعنی ہم نے آپ کے سینہ کو کشادہ اور وسیع کیا ہدایت و معرفت اور موعظت و نبوّت اور علم و حکمت کے لئے یہاں تک کہ عالِمِ غیب و شہادت اس کی وسعت میں سما گئے اور علائقِ جسمانیہ، انوارِ روحانیہ کے لئے مانع نہ ہو سکے اور علومِ لدنّیہ و حکمِ الٰہیہ و معارفِ ربانیّہ و حقائقِ رحمانیہ سینۂ پاک میں جلوہ نما ہوئے۔ اور ظاہری شرحِ صدر بھی بار بار ہوا ابتدائے عمر شریف میں اور ابتدائے نزولِ وحی کے وقت اور شبِ معراج جیسا کہ احادیث میں آیا ہے، اس کی شکل یہ تھی کہ جبریلِ امین نے سینۂ پاک کو چاک کر کے قلبِ مبارک نکالا اور زریں طشت میں آبِ زمزم سے غسل دیا اور نور و حکمت سے بھر کر اس کو اس کی جگہ رکھ دیا۔

(۲) اور تم پر سے  تمہارا بوجھ اتار لیا۔

(۳)  جس نے  تمہاری پیٹھ توڑی تھی (ف ۳)

۳                 اس بوجھ سے مراد یا وہ غم ہے جو آپ کو کفّار کے ایمان نہ لانے سے رہتا تھا یا امّت کے گناہوں کا غم جس میں قلبِ مبارک مشغول رہتا تھا، مراد یہ ہے کہ ہم نے آپ کو مقبول الشفاعت کر کے وہ بارِ غم دور کر دیا۔

(۴) اور ہم نے  تمہارے  لیے  تمہارا ذکر بلند کر دیا (ف ۴)

۴                 حدیث شریف میں ہے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے حضرت جبریل سے اس آیت کو دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر کیا جائے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اذان میں، تکبیر میں، تشہد میں، منبروں پر، خطبوں میں۔ تو اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے ہر بات میں اس کی تصدیق کرے اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی رسالت کی گواہی نہ دے تو یہ سب بے کار وہ کافر ہی رہے گا۔ قتادہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دنیا و آخرت میں بلند کیا ہر خطیب ہر تشہد پڑھنے والا اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کے ساتھ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ پکارتا ہے۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے آپ پر ایمان لانے کا عہد لیا۔

(۵) تو بیشک دشواری کے  ساتھ آسانی ہے۔

(۶) بیشک دشواری کے  ساتھ آسانی ہے  (ف ۵)

۵                 یعنی جو شدّت و سختی کہ آپ کفّار کے مقابلے میں برداشت فرما رہے ہیں اس کے ساتھ ہی آسانی ہے کہ ہم آپ کو ان پر غلبہ عطا فرمائیں گے۔

(۷)  تو جب تم نماز سے  فارغ ہو تو دعا میں (ف ۶)  محنت  کرو  (ف ۷)

۶                 یعنی آخرت کی۔

۷                 کہ دعا بعدِ نماز مقبول ہوتی ہے، اس دعا سے مراد آخرِ نماز کی وہ دعا ہے جو نماز کے اندر ہو یا وہ دعا جو سلام کے بعد ہو، اس میں اختلاف ہے۔

(۸) اور اپنے  رب ہی کی طرف رغبت کرو (ف ۸) 

۸                 اسی کے فضل کے طالب رہو اور اسی پر توکل کرو۔