۱ سورت انبیاء مکّیہ ہے اس میں سات رکوع اور ایک سو بارہ ۱۱۲ آیتیں اور ایک ہزار ایک سو چھیاسی ۱۱۸۶کلمے اور چار ہزار آٹھ سو نوے حرف ہیں۔
۲ یعنی حسابِ اعمال کا وقت روزِ قیامت قریب آ گیا اور لوگ ابھی تک غفلت میں ہیں۔ شانِ نُزول : یہ آیت منکرینِ بَعث کے حق میں نازِل ہوئی جو مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو نہیں مانتے تھے اور روزِ قیامت کو گزرے ہوئے زمانہ کے اعتبار سے قریب فرمایا گیا کیونکہ جتنے دن گزرتے جاتے ہیں آنے والا دن قریب ہوتا جاتا ہے۔
۳ نہ اس سے پند پذیر ہوں, نہ عبرت حاصل کریں, نہ آنے والے وقت کے لئے کچھ تیاری کریں۔
۵ اور اس کے اخفاء میں بہت مبالغہ کیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کا راز فاش کر دیا اور بیان فرما دیا کہ وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نسبت یہ کہتے ہیں۔
۶ یہ کُفر کا ایک اصول تھا کہ جب یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کر دی جائے گی کہ وہ تم جیسے بشر ہیں تو پھر کوئی ان پر ایمان نہ لائے گا، حضور کے زمانہ کے کُفّار نے یہ بات کہی اور اس کو چھپایا لیکن آج کل کے بعض بے باک یہ کلمہ اعلان کے ساتھ کہتے ہیں اور نہیں شرماتے، کُفّار یہ مقولہ کہتے وقت جانتے تھے کہ ان کی بات کسی کے دل میں جمے گی نہیں کیونکہ لوگ رات دن معجزات دیکھتے ہیں وہ کس طرح باور کر سکیں گے کہ حضور ہماری طرح بشر ہیں اس لئے انہوں نے معجزات کو جادو بتا دیا اور کہا۔
۷ اس سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی خواہ کتنے ہی پردہ اور راز میں رکھی گئی ہو، ان کا راز بھی اس میں ظاہر فرما دیا، اس کے بعد قرآنِ کریم سے انہیں سخت پریشانی و حیرانی لاحق تھی کہ اس کا کس طرح انکار کریں، وہ ایسا بیّن معجِزہ ہے جس نے تمام مُلک کے مایہ ناز ماہروں کو عاجز و متحیّر کر دیا ہے اور وہ اس کی دو چار آیتوں کی مثل کلام بنا کر نہیں لا سکے، اس پریشانی میں انہوں نے قرآنِ کریم کی نسبت مختلف قسم کی باتیں کہیں جن کا بیان اگلی آیت میں ہے۔
۸ ان کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وحیِ الٰہی سمجھ گئے ہیں، کُفّار نے یہ کہہ کر سوچا کہ یہ بات چسپاں نہیں ہو سکے گی تو اب اس کو چھوڑ کر کہنے لگے۔
۹ یہ کہہ کر خیال ہوا کہ لوگ کہیں گے کہ اگر یہ کلام حضرت کا بنایا ہوا ہے اور تم انہیں اپنے مثل بشر بھی کہتے ہو تو تم ایسا کلام کیوں نہیں بنا سکتے، یہ خیال کر کے اس بات کو بھی چھوڑ ا اور کہنے لگے۔
۱۰ اور یہ کلام شعر ہے اسی طرح کی باتیں بناتے رہے کسی ایک بات پر قائم نہ رہ سکے اور اہلِ باطل کذّابوں کا یہی حال ہوتا ہے، اب انہوں نے سمجھا کہ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی چلنے والی نہیں ہے تو کہنے لگے۔
۱۱ اس کے رد و جواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔
۱۲ معنیٰ یہ ہیں کہ ان سے پہلے لوگوں کے پاس جو نشانیاں آئیں تو وہ ان پر ایمان نہ لائے اور ان کی تکذیب کرنے لگے اور اس سبب سے ہلاک کر دیئے گئے تو کیا یہ لوگ نشانی دیکھ کر ایمان لے آئیں گے باوجودیکہ ان کی سرکشی ان سے بڑھی ہوئی ہے۔
۱۳ یہ ان کے کلامِ سابق کا رد ہے کہ انبیاء کا صورتِ بشری میں ظہور فرمانا نبوّت کے منافی نہیں، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔
۱۴ کیونکہ ناواقف کو اس سے چارہ ہی نہیں کہ واقف سے دریافت کرے اور مرضِ جہل کا علاج یہی ہے کہ عالِم سے سوال کرے اور اس کے حکم پر عامل ہو۔
مسئلہ : اس آیت سے تقلید کا وجوب ثابت ہوتا ہے، یہاں انہیں علم والوں سے پوچھنے کا حکم دیا گیا کہ ان سے دریافت کرو کہ اللہ کے رسول صورتِ بشری میں ظہور فرما ہوئے تھے یا نہیں، اس سے تمہارے تردُّد کا خاتمہ ہو جائے گا۔
۱۶ تو ان پر کھانے پینے کا اعتراض کرنا اور یہ کہنا کہ مَا لِھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ مَحض بے جا ہے، تمام انبیاء کا یہی حال تھا وہ سب کھاتے بھی تھے پیتے بھی تھے۔
۱۷ ان کے دشمنوں کو ہلاک کرنے اور انہیں نجات دینے کا۔
۱۸ یعنی ایمانداروں کو جنہوں نے انبیاء کی تصدیق کی۔
۱۹ جو انبیاء کی تکذیب کرتے تھے۔
۲۱ اگر تم اس پر عمل کرو یا یہ معنیٰ ہیں کہ وہ کتاب تمہاری زبان میں ہے یا یہ کہ اس میں تمہارے لئے نصیحت ہے یا یہ کہ اس میں تمہارے دینی اور دنیوی امور اور حوائج کا بیان ہے۔
۲۲ کہ ایمان لا کر اس عزّت و کرامت اور سعادت کو حاصل کرو۔
۲۵ شانِ نُزول : مفسِّرین نے ذکر کیا ہے کہ سرزمینِ یمن میں ایک بستی ہے جس کا نام حصور ہے وہاں کے رہنے والے عرب تھے انہوں نے اپنے نبی کی تکذیب کی اور ان کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بُخْتِ نَصَر کو مسلّط کیا، اس نے انہیں قتل کیا اور گرفتار کیا اور اس کا یہ عمل جاری رہا تو یہ لوگ بستی چھوڑ کر بھاگے تو ملائکہ نے ان سے بطریقِ طنز کہا (جو اگلی آیت میں ہے)۔
۲۶ کہ تم پر کیا گزری اور تمہارے اموال کیا ہوئے تو تم دریافت کرنے والے کو اپنے علم و مشاہدے سے جواب دے سکو۔
۲۷ عذاب دیکھنے کے بعد انہوں نے گناہ کا اقرار کیا اور نادِم ہوئے اس لئے یہ اعتراف انہیں کام نہ آیا۔
۲۸ کھیت کی طرح کہ تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے اور بجھی ہوئی آگ کی طرح ہو گئے۔
۲۹ کہ ان سے کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ اس میں ہماری حکمتیں ہیں مِنجُملہ ان کے یہ ہے کہ ہمارے بندے ان سے ہماری قدرت و حکمت پر استدلال کریں اور انہیں ہمارے اوصاف و کمال کی معرفت ہو۔
۳۰ مثل زَن و فرزند کے جیسا کہ نصاریٰ کہتے ہیں اور ہمارے لئے بی بی اور بیٹیاں بتاتے ہیں اگر یہ ہمارے حق میں ممکن ہوتا۔
۳۱ کیونکہ زَن و فرزند والے زَن و فرزند اپنے پاس رکھتے ہیں مگر ہم اس سے پاک ہیں ہمارے لئے یہ ممکن ہی نہیں۔
۳۲ معنیٰ یہ ہیں کہ ہم اہلِ باطل کے کذب کو بیانِ حق سے مٹا دیتے ہیں۔
۳۴ شانِ الٰہی میں کہ اس کے لئے بیوی و بچّہ ٹھہراتے ہو۔
۳۵ وہ سب کا مالک ہے اور سب اس کے مملوک تو کوئی اس کی اولاد کیسے ہو سکتا ہے، مملوک ہونے اور اولاد ہونے میں منافات ہے۔
۳۶ اس کے مقرّبین جنہیں اس کے کرم سے اس کے حضور قُرب و منزلت حاصل ہے۔
۳۷ ہر وقت اس کی تسبیح میں رہتے ہیں۔ حضرت کعب احبار نے فرمایا کہ ملائکہ کے لئے تسبیح ایسی ہے جیسی کہ بنی آدم کے لئے سانس لینا۔
۳۸ جواہرِ ارضیہ سے مثل سونے چاندی پتھر وغیرہ کے۔
۳۹ ایسا تو نہیں ہے اور نہ یہ ہو سکتا ہے کہ جو خو د بے جان ہو وہ کسی کو جان دے سکے تو پھر اس کو معبود ٹھہرانا اور اِلٰہ قرار دینا کتنا کھلا باطل ہے، اِلٰہ وہی ہے جو ہر ممکن پر قادر ہو جو قادر نہیں وہ اِلٰہ کیسا۔
۴۱ کیونکہ اگر خدا سے وہ خدا مراد لئے جائیں جن کی خدائی کے بُت پرست معتقد ہیں تو فسادِ عالَم کا لزوم ظاہر ہے کیونکہ وہ جمادات ہیں، تدبیرِ عالَم پر اصلاً قدرت نہیں رکھتے اور اگر تعمیم کی جائے تو بھی لزومِ فساد یقینی ہے کیونکہ اگر دو خدا فرض کئے جائیں تو دو حال سے خالی نہیں یا وہ دونوں متفق ہوں گے یا مختلف، اگر شے واحد پر متفق ہوئے تو لازم آئے گا کہ ایک چیز دونوں کی مقدور ہو اور دونوں کی قدرت سے واقع ہو یہ محال ہے اور اگر مختلف ہوئے تو ایک شے کے متعلق دونوں کے ارادے یا معاً واقع ہوں گے اور ایک ہی وقت میں وہ موجود و معدوم دونوں ہو جائے گی یا دونوں کے ارادے واقع نہ ہوں اور شے نہ موجود ہو نہ معدوم یا ایک کا ارادہ واقع ہو دوسرے کا واقع نہ ہو یہ تمام صورتیں محال ہیں تو ثابت ہوا کہ فساد ہر تقدیر پر لازم ہے۔ توحید کی یہ نہایت قوی بُرہان ہے اور اس کی تقریریں بہت بسط کے ساتھ ائمۂ کلام کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ یہاں اختصاراً اسی قدر پر اکتفا کیا گیا۔ (تفسیرِ کبیر وغیرہ)۔
۴۲ کہ اس کے لئے اولاد و شریک ٹھہراتے ہیں۔
۴۳ کیونکہ وہ مالکِ حقیقی ہے جو چاہے کرے، جسے چاہے عزّت دے جسے چاہے ذلّت دے، جسے چاہے سعادت دے جسے چاہے شقی کرے، وہ سب کا حاکم ہے کوئی اس کا حاکم نہیں جو اس سے پوچھ سکے۔
۴۴ کیونکہ سب اس کے بندے ہیں مملوک ہیں، سب پر اس کی فرمانبرداری اور اطاعت لازم ہے۔ اس سے توحید کی ایک اور دلیل مستفاد ہوتی ہے جب سب مملوک ہیں تو ان میں سے کوئی خدا کیسے ہو سکتا ہے اس کے بعد بطریقِ استفہام توبیخاً فرمایا۔
۴۵ اے حبیب (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ان مشرکین سے کہ تم اپنے اس باطل دعویٰ پر۔
۴۶ اور حُجّت قائم کرو خواہ عقلی ہو یا نقلی مگر نہ کوئی دلیل عقلی لا سکتے ہو جیسا کہ براہینِ مذکورہ سے ظاہر ہو چکا اور نہ کوئی دلیل نقلی پیش کر سکتے ہو کیونکہ تمام کتبِ سماویہ میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا بیان ہے اور سب میں شرک کا ابطال کیا گیا ہے۔
۴۷ ساتھ والوں سے مراد آپ کی اُمّت ہے، قرآنِ کریم میں اس کا ذکر ہے کہ اس کو طاعت پر کیا ثواب ملے گا اور معصیت پر کیا عذاب کیا جائے گا۔
۴۸ یعنی پہلے انبیاء کی اُمّتوں کا اور اس کا کہ دنیا میں ان کے ساتھ کیا کیا گیا اور آخرت میں کیا کیا جائے گا۔
۴۹ اور غور و تامُّل نہیں کرتے اور نہیں سوچتے کہ توحید پر ایمان لانا ان کے لئے ضروری ہے۔
۵۰ شانِ نُزول : یہ آیت خزاعہ کے حق میں نازِل ہوئی جنہوں نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا تھا۔
۵۱ اس کی ذات اس سے منزّہ ہے کہ اس کے اولاد ہو۔
۵۲ یعنی فرشتے اس کے برگزیدہ اور مکرّم بندے ہیں۔
۵۳ یعنی جو کچھ انہوں نے کیا اور جو کچھ وہ آئندہ کریں گے۔
۵۴ حضرتِ ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا یعنی جو توحید کا قائل ہو۔
۵۵ یہ کہنے والا ابلیس ہے جو اپنے عبادت کی دعوت دیتا ہے، فرشتوں میں اور کوئی ایسا نہیں جو یہ کلمہ کہے۔
۵۶ بند ہونا یا تو یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملا ہوا تھا ان میں فصل پیدا کر کے انہیں کھولا یا یہ معنی ہیں کہ آسمان بند تھا بایں معنیٰ کہ اس سے بارش نہیں ہوتی تھی، زمین بند تھی بایں معنی کہ اس سے روئیدگی پیدا نہیں ہوتی تھی تو آسمان کا کھولنا یہ ہے کہ اس سے بارش ہونے لگی اور زمین کا کھولنا یہ ہے کہ اس سے سبزہ پیدا ہونے لگا۔
۵۷ یعنی پانی کو جانداروں کی حیات کا سبب کیا۔ بعض مفسِّرین نے کہا معنیٰ یہ ہیں کہ ہر جاندار پانی سے پیدا کیا ہوا ہے اور بعضوں نے کہا اس سے نطفہ مراد ہے۔
۵۹ اپنے سفروں میں اور جن مقامات کا قصد کریں وہاں تک پہنچ سکیں۔
۶۲ یعنی آسمانی کائنات سورج، چاند، ستارے اور اپنے اپنے افلاک میں ان کی حرکتوں کی کیفیّت اور اپنے اپنے مطالع سے ان کے طلوع اور غروب اور ان کے عجائبِ احوال جو صانعِ عالَم کے وجود اور اس کی وحدت اور اس کے کمالِ قدرت و حکمت پر دلالت کرتے ہیں، کُفّار ان سب سے اعراض کرتے ہیں اور ان دلائل سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
۶۴ روشن کہ اس میں معاش وغیرہ کے کام انجام دیں۔
۶۶ شانِ نُزول : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمن اپنے ضلال و عناد سے کہتے تھے کہ ہم حوادثِ زمانہ کا انتظار کر رہے ہیں عنقریب ایسا وقت آنے والا ہے کہ حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو جائے گی۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ دشمنانِ رسول کے لئے یہ کوئی خوشی کی بات نہیں ہم نے دنیا میں کسی آدمی کے لئے ہمیشگی نہیں رکھی۔
۶۷ اور انہیں موت کے پنجے سے رہائی مل جائے گی جب ایسا نہیں ہے تو پھر خوش کس بات پر ہوتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ۔
۶۸ یعنی راحت و تکلیف و تندرستی و بیماری، دولت مندی و ناداری نفع اور نقصان سے۔
۶۹ تاکہ ظاہر ہو جائے کہ صبر و شکر میں تمہارا کیا درجہ ہے۔
۷۰ ہم تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دیں گے۔
۷۱ شانِ نُزول : یہ آیت ابوجہل کے حق میں نازِل ہوئی، حضور تشریف لئے جاتے تھے وہ آپ کو دیکھ کر ہنسا اور کہنے لگا کہ یہ بنی عبدِ مناف کے نبی ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے۔
۷۳ کہتے ہیں کہ ہم رحمٰن کو جانتے ہی نہیں، اس جہل و ضلال میں مبتلا ہونے کے باوجود آپ کے ساتھ تمسخُر کرتے ہیں اور نہیں دیکھتے کہ ہنسی کے قابل خود ان کا اپنا حال ہے۔
۷۴ شانِ نُزول : یہ آیت نضر بن حارث کے حق میں نازِل ہوئی جو کہتا تھا کہ جلد عذاب نازِل کرائیے۔ اس آیت میں فرمایا گیا کہ اب میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا یعنی جو وعدے عذاب کے دیئے گئے ہیں ان کا وقت قریب آ گیا ہے چنانچہ روزِ بدر وہ منظر ان کی نظر کے سامنے آ گیا۔
۷۵ عذاب کا یا قیامت کا یہ ان کے استعجال کا بیان ہے۔
۷۷ اگر وہ یہ جانتے ہوتے تو کُفر پر قائم نہ رہتے اور عذاب میں جلد ی نہ کرتے۔
۸۰ اے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔
۸۱ اور وہ اپنے اِستِہزاء اور مسخرگی کے وبال و عذاب میں گرفتار ہوئے، اس میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تسلّی فرمائی گئی کہ آپ کے ساتھ اِستِہزاء کرنے والوں کا بھی یہی انجام ہونا ہے۔
۸۳ جب ایسا ہے تو انہیں عذابِ الٰہی کا کیا خوف ہو اور وہ اپنی حفاظت کرنے والے کو کیا پہچانیں۔
۸۵ اور ہمارے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں ایسا تو نہیں ہے اور اگر وہ اپنے بُتوں کی نسبت یہ اعتقاد رکھتے ہیں تو ان کا حال یہ ہے کہ۔
۸۶ اپنے پُوجنے والوں کو کیا بچا سکیں گے۔
۸۸ اور دنیا میں انہیں نعمت و مہلت دی۔
۸۹ اور وہ اس سے اور مغرور ہوئے اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔
۹۱ روز بروز مسلمانوں کو اس پر تسلّط دے رہے ہیں اور ایک شہر کے بعد دوسرا شہر فتح ہوتا چلا آ رہا ہے، حدودِ اسلام بڑھ رہی ہیں اور سرزمینِ کُفر گھٹتی چلی آتی ہے اور حوالیِ مکّہ مکرّمہ پر مسلمانوں کا تسلّط ہوتا جاتا ہے، کیا مشرکین جو عذاب طلب کرنے میں جلدی کرتے ہیں اس کو نہیں دیکھتے اور عبرت حاصل نہیں کرتے۔
۹۲ جن کے قبضہ سے زمین دم بدم نکلتی جا رہی ہے یا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اصحاب جو بفضلِ الٰہی فتح پر فتح پا رہے ہیں اور ان کے مقبوضات دم بدم بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
۹۳ اور عذابِ الٰہی کا اسی کی طرف سے خوف دلاتا ہوں۔
۹۴ یعنی کافِر ہدایت کرنے والے اور خوف دلانے والے کے کلام سے نفع نہ اٹھانے میں بہرے کی طرح ہیں۔
۹۵ نبی کی بات پر کان نہ رکھا اور ان پر ایمان نہ لائے۔
۹۷ یعنی توریت عطا کی جو حق و باطل میں تفرقہ کرنے والی ہے۔
۹۸ یعنی روشنی ہے کہ اس سے نجات کی راہ معلوم ہوتی ہے۔
۹۹ جس سے وہ پند پذیر ہوتے ہیں اور دینی امور کا علم حاصل کرتے ہیں۔
۱۰۰ اپنے حبیب محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر یعنی قرآنِ پاک یہ کثیر الخیر ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے اس میں بڑی برکتیں ہیں۔
۱۰۱ ان کی ابتدائی عمر میں بالغ ہونے کے۔
۱۰۲ کہ وہ ہدایت و نبوّت کے اہل ہیں۔
۱۰۳ یعنی بُت جو درندوں پرندوں اور انسانوں کی صورتوں کے بنے ہوئے ہیں۔
۱۰۴ اور ان کی عبادت میں مشغول ہو۔
۱۰۵ تو ہم بھی ان کی اقتداء میں ویسا ہی کرنے لگے۔
۱۰۶ چونکہ انہیں اپنے طریقہ کا گمراہی ہونا بہت ہی بعید معلوم ہوتا تھا اور اس کا انکار کرنا وہ بہت بڑی بات جانتے تھے اس لئے انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ کہا کہ کیا آپ یہ بات واقعی طور پر ہمیں بتا رہے ہیں یا بطریق کھیل کے فرماتے ہیں، اس کے جواب میں آپ نے حضرت مَلِکِ عَلّام کی ربوبیت کا اثبات فرما کر ظاہر فرما دیا کہ آپ کھیل کے طریقے پر کلام فرمانے والے نہیں ہیں بلکہ حق کا اظہار فرماتے ہیں چنانچہ آپ نے۔
۱۰۷ اپنے میلے کو۔ واقعہ یہ ہے کہ اس قوم کا سالانہ ایک میلہ لگتا تھا جنگل میں جاتے تھے اور شام تک وہاں لہو و لعب میں مشغول رہتے تھے، واپسی کے وقت بُت خانہ میں آتے تھے اور بُتوں کی پُوجا کرتے تھے اس کے بعد اپنے مکانوں کو واپس جاتے تھے، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی ایک جماعت سے بُتوں کے متعلق مناظرہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ کل کو ہماری عید ہے آپ وہاں چلیں دیکھیں کہ ہمارے دین اور طریقے میں کیا بہار ہے اور کیسے لطف آتے ہیں، جب وہ میلے کا دن آیا اور آپ سے میلے میں چلنے کو کہا گیا تو آپ عذر کر کے رہ گئے، وہ لوگ روانہ ہو گئے جب ان کے باقی ماندہ اور کمزور لوگ جو آہستہ آہستہ جا رہے تھے گزرے تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہارے بُتوں کا بُرا چاہوں گا، اس کو بعض لوگوں نے سُنا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام بُت خانہ کی طرف لوٹے۔
۱۰۹ چھوڑ دیا اور بَسُولا اس کے کاندھے پر رکھ دیا۔
۱۱۰ یعنی بڑے بُت سے کہ ان چھوٹے بُتوں کا کیا حال ہے یہ کیوں ٹوٹے اور بَسُولا تیری گردن پر کیسا رکھا ہے اور انہیں اس کا عجز ظاہر ہو اور انہیں ہوش آئے کہ ایسے عاجز خدا نہیں ہو سکتے یا یہ معنیٰ ہیں کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دریافت کریں اور آپ کو حُجّت قائم کرنے کا موقع ملے چنانچہ جب قوم کے لو گ شام کو واپس ہوئے اور بُت خانے میں پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ بُت ٹوٹے پڑے ہیں تو۔
۱۱۱ یہ خبر نمرودِ جبّار اور اس کے اُمراء کو پہنچی تو۔
۱۱۲ کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کا فعل ہے یا ان سے بُتوں کی نسبت ایسا کلام سُنا گیا ہے۔ مدعا یہ تھا کہ شہادت قائم ہو تو وہ آپ کے درپے ہوں چنانچہ حضرت بلائے گئے اور وہ لوگ۔
۱۱۳ آپ نے اس کا تو کچھ جواب نہ دیا اور شانِ مناظرانہ سے تعریض کے طور پر ایک عجیب و غریب حُجّت قائم کی۔
۱۱۴ اس غصّہ سے کہ اس کے ہوتے تم اس کے چھوٹوں کو پوجتے ہو، اس کے کندھے پر بَسُولا ہونے سے ایسا ہی قیاس کیا جا سکتا ہے، مجھ سے کیا پوچھنا پوچھنا ہو۔
۱۱۵ وہ خود بتائیں کہ ان کے ساتھ یہ کس نے کیا، مدعا یہ تھا کہ قوم غور کرے کہ جو بول نہیں سکتا جو کچھ کر نہیں سکتا وہ خدا نہیں ہو سکتا، اس کی خدائی کا اعتقاد باطل ہے چنانچہ جب آپ نے یہ فرمایا۔
۱۱۶ اور سمجھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حق پر ہیں۔
۱۱۷ جو ایسے مجبوروں اور بے اختیاروں کو پوجتے ہو جو اپنے کاندھے سے بَسُولا نہ ہٹا سکے، وہ اپنے پجاری کو مصیبت سے کیا بچا سکے اور اس کے کیا کام آ سکے۔
۱۱۸ اور کلمۂ حق کہنے کے بعد پھر ان کی بدبختی ان کے سروں پر سوار ہوئی اور وہ کُفر کی طرف پلٹے اور باطل مجادلہ و مکابرہ شروع کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہنے لگے۔
۱۱۹ تو ہم ان سے کیسے پوچھیں اور اے ابراہیم تم ہمیں ان سے پوچھنے کا کیسے حکم دیتے ہو۔
۱۲۱ اگر اس کا پُوجنا موقوف کر دو۔
۱۲۲ کہ اتنا بھی سمجھ سکو کہ یہ بُت پوجنے کے قابل نہیں، جب حُجّت تمام ہو گئی اور وہ لوگ جواب سے عاجز آئے تو۔
۱۲۳ نمرود اور اس کی قوم حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلا ڈالنے پر متفق ہو گئی اور انہوں نے آپ کو ایک مکان میں قید کر دیا اور قریۂ کوثیٰ میں ایک عمارت بنائی اور ایک مہینہ تک بکوششِ تمام قِسم قِسم کی لکڑیاں جمع کیں اور ایک عظیم آگ جلائی جس کی تپش سے ہوا میں پرواز کرنے والے پرندے جل جاتے تھے اور ایک منجیق (گوپھن) کھڑی کی اور آپ کو باندھ کر اس میں رکھ کر آگ میں پھینکا، اس وقت آپ کی زبانِ مبارک پر تھا حَسْبِیَ اﷲُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ، جبریلِ امین نے آپ سے عرض کیا کہ کیا کچھ کام ہے ؟ آپ نے فرمایا تم سے نہیں، جبرئیل نے عرض کیا تو اپنے ربّ سے سوال کیجئے ! فرمایا سوال کرنے سے اس کا میرے حال کو جاننا میرے لئے کفایت کرتا ہے۔
۱۲۴ تو آگ نے سوا آپ کی بندش کے اور کچھ نہ جَلایا اور آگ کی گرمی زائل ہو گئی اور روشنی باقی رہی۔
۱۲۵ کہ ان کی مراد پوری نہ ہوئی اور سعی ناکام رہی اور اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر مچھّر بھیجے جو ان کے گوشت کھا گئے اور خون پی گئے اور ایک مچھر نمرود کے دماغ میں گھس گیا اور اس کی ہلاکت کا سبب ہوا۔
۱۲۶ جو ان کے بھتیجے ان کے بھائی ہارون کے فرزند تھے، نمرود اور اس کی قوم سے۔
۱۲۹ اس زمین سے زمینِ شام مراد ہے، اس کی برکت یہ ہے کہ یہاں کثرت سے انبیاء ہوئے اور تمام جہان میں ان کے دینی برکات پہنچے اور سرسبزی و شادابی کے اعتبار سے بھی یہ خطہ دوسرے خطوں پر فائق ہے، یہاں کثرت سے نہریں ہیں، پانی پاکیزہ اور خوش گوار ہے، اشجار و ثمار کی کثرت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مقامِ فلسطین میں نُزول فرمایا اور حضرت لُوط علیہ السلام نے مؤتفکہ میں۔
۱۳۰ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے بیٹے کی دعا کی تھی۔
۱۳۱ لوگوں کو ہمارے دین کی طرف۔
۱۳۳ یعنی حضرت لوط علیہ السلام کو۔
۱۳۴ یعنی طوفان سے اور تکذیبِ اہلِ طُغیان سے۔
۱۳۵ ان کے ساتھ کوئی چَرانے والا نہ تھا، وہ کھیتی کھا گئیں، یہ مقدمہ حضرت داؤد علیہ السلام کے سامنے پیش ہوا آپ نے تجویز کی کہ بکریاں کھیتی والے کو دے دی جائیں، بکریوں کی قیمت کھیتی کے نقصان کے برابر تھی۔
۱۳۶ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے جب یہ معاملہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ فریقین کے لئے اس سے زیادہ آسانی کی شکل بھی ہو سکتی ہے، اس وقت حضرت کی عمر شریف گیارہ سال کی تھی، حضرت داؤد علیہ السلام نے آپ پر لازم کیا کہ وہ صورت بیان فرمائیں، حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ تجویز پیش کی کہ بکری والا کاشت کرے اور جب تک کھیتی اس حالت کو پہنچے جس حالت میں بکریوں نے کھائی ہے اس وقت تک کھیتی والا بکریوں کے دودھ وغیرہ سے نفع اٹھائے اور کھیتی اس حالت پر پہنچ جانے کے بعد کھیتی والے کو کھیتی دے دی جائے، بکری والے کو اس کی بکریاں واپس کر دی جاویں۔ یہ تجویز حضرت داؤد علیہ السلام نے پسند فرمائی، اس معاملہ میں یہ دونوں حکم اجتہادی تھے اور اس شریعت کے مطابق تھے، ہماری شریعت میں حکم یہ ہے کہ اگر چَرانے والا ساتھ نہ ہو تو جانور جو نقصانات کرے اس کا ضمان لازم نہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے جو فیصلہ کیا تھا وہ اس مسئلہ کا حکم تھا اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو تجویز فرمائی یہ صورتِ صلح تھی۔
۱۳۷ وجوہِ اجتہاد و طریقِ احکام وغیرہ کا مسئلہ : جن عُلَماء کو اجتہاد کی اہلیت حاصل ہو انہیں ان امور میں اجتہاد کا حق ہے جس میں وہ کتاب و سنّت کا حکم نہ پاویں اور اگر اجتہاد میں خطا بھی ہو جاوے تو بھی ان پر مواخذہ نہیں۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب حکم کرنے والا اجتہاد کے ساتھ حکم کرے اور اس حکم میں مُصِیب ہو تو اس کے لئے دو ۲ اجر ہیں اور اگر اجتہاد میں خطا واقع ہو جائے تو ایک اجر۔
۱۳۸ پتّھر اور پرندے آپ کے ساتھ آپ کی موافقت میں تسبیح کرتے تھے۔
۱۳۹ یعنی جنگ میں دشمن کے مقابل کام آئے اور وہ زرہ ہے، سب سے پہلے زرہ بنانے والے حضرت داؤد علیہ السلام ہیں۔
۱۴۰ اس زمین سے مراد شام ہے جو آپ کا مسکن تھا۔
۱۴۱ دریا کی گہرائی میں داخل ہو کر سمندر کی تہ سے آپ کے لئے جواہر نکال کر لاتے۔
۱۴۲ عجیب عجیب صنعتیں، عمارتیں، محل، برتن، شیشے کی چیزیں، صابون وغیرہ بنانا۔
۱۴۳ کہ آپ کے حکم سے باہر نہ ہوں۔
۱۴۴ یعنی اپنے ربّ سے دعا کی۔ حضرت ایوب علیہ السلام حضرت اسحٰق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر طرح کی نعمتیں عطا فرمائی ہیں حسنِ صورت بھی، کثرتِ اولاد بھی، کثرتِ اموال بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اِبتلا میں ڈالا اور آ پ کے فرزند و اولاد مکان کے گرنے سے دب کر مر گئے، تمام جانور جس میں ہزارہا اونٹ، ہزارہا بکریاں تھیں سب مر گئے، تمام کھیتیاں اور باغات برباد ہو گئے، کچھ بھی باقی نہ رہا اور جب آپ کو ان چیزوں سے ہلاک ہونے اور ضائع ہونے کی خبر دی جاتی تھی تو آپ حمدِ الٰہی بجا لاتے تھے اور فرماتے تھے میرا کیا ہے جس کا تھا اس نے لیا جب تک مجھے دیا اور میرے پاس رکھا اس کا شکر ہی ادا نہیں ہو سکتا، میں اس کی مرضی پر راضی ہوں پھر آپ بیمار ہوئے، تمام جسم شریف میں آبلے پڑے، بدن مبارک سب کا سب زخموں سے بھر گیا، سب لوگوں نے چھوڑ دیا بَجُز آپ کی بی بی صاحبہ کے کہ وہ آپ کی خدمت کرتی رہیں اور یہ حالت سالہا سال رہی، آخر کار کوئی ایسا سبب پیش آیا کہ آپ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی۔
۱۴۵ اس طرح کہ حضرت ایوب علیہ السلام سے فرمایا کہ آپ زمین میں پاؤں ماریئے انہوں نے پاؤں مارا ایک چشمہ ظاہر ہوا، حکم دیا گیا اس سے غسل کیجئے غسل کیا تو ظاہر بدن کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں پھر آپ چالیس قدم چلے پھر دوبارہ زمین میں پاؤں مارنے کا حکم ہوا پھر آپ نے پاؤں مارا اس سے بھی ایک چشمہ ظاہر ہوا جس کا پانی نہایت سرد تھا، آپ نے بحکمِ الٰہی پیا اس سے باطن کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں اور آپ کو اعلیٰ درجہ کی صحت حاصل ہوئی۔
۱۴۶ حضرت ابنِ مسعود و ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور اکثر مفسِّرین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمام اولاد کو زندہ فرما دیا اور آپ کو اتنی ہی اولاد اور عنایت کی۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی دوسری روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی بی بی صاحبہ کو دوبارہ جوانی عنایت کی اور ان کے کثیر اولادیں ہوئیں۔
۱۴۷ کہ وہ اس واقعہ سے بلاؤں پر صبر کرنے اور اس کے ثوابِ عظیم سے باخبر ہوں اور صبر کریں اور ثواب پائیں۔
۱۴۸ کہ انہوں نے محنتوں اور بلاؤں اور عبادتوں کی مشقتوں پر صبر کیا۔
۱۴۹ یعنی حضرت یونس ابنِ متّیٰ کو۔
۱۵۰ اپنی قوم سے جس نے ان کی دعوت نہ قبول کی تھی اور نصیحت نہ مانی تھی اور کُفر پر قائم رہی تھی، آپ نے گمان کیا کہ یہ ہجرت آپ کے لئے جائز ہے کیونکہ اس کا سبب صرف کُفر اور اہلِ کُفر کے ساتھ بغض اور اللہ کے لئے غضب کرنا ہے لیکن آپ نے اس ہجرت میں حکمِ الٰہی کا انتظار نہ کیا۔
۱۵۱ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں ڈالا۔
۱۵۲ کئی قِسم کی اندھیریاں تھیں دریا کی اندھیری، رات کی اندھیری، مچھلی کے پیٹ کی اندھیری، ان اندھیریوں میں حضرت یونس علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے اس طرح دعا کی کہ۔
۱۵۳ کہ میں اپنی قوم سے، قبل تیرا اِذن پانے کے جُدا ہوا۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو کوئی مصیبت زدہ بارگاہِ الٰہی میں ان کلمات سے دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے۔
۱۵۴ اور مچھلی کو حکم دیا تو اس نے حضرت یونس علیہ السلام کو دریا کے کنارے پر پہنچا دیا۔
۱۵۵ مصیبتوں اور تکلیفوں سے جب وہ ہم سے فریاد کریں اور دعا کریں۔
۱۵۶ یعنی بے اولاد بلکہ وارث عطا فرما۔
۱۵۷ خَلق کی فنا کے بعد باقی رہنے والا۔ مدعا یہ ہے کہ اگر تو مجھے وارث نہ دے تو بھی کچھ غم نہیں کیونکہ تو بہتر وارث ہے۔
۱۵۹ جو بانجھ تھی اس کو قابلِ ولادت کیا۔
۱۶۱ پورے طور پر کہ کسی طرح کوئی بشر اس کی پارسائی کو چھو نہ سکا، مراد اس سے حضرت مریم ہیں۔
۱۶۲ اور اس کے پیٹ میں حضرت عیسیٰ کوپیدا کیا۔
۱۶۳ اپنے کمالِ قدرت کی کہ حضرت عیسیٰ کو اس کے بطن سے بغیر باپ کے پیدا کیا۔
۱۶۴ دینِ اسلام، یہی تمام انبیاء کا دین ہے اس کے سوا جتنے ادیان ہیں سب باطل، سب کو اسی دین پر قائم رہنا لازم ہے۔
۱۶۵ نہ میرے سوا کوئی دوسرا ربّ، نہ میرے دین کے سوا اور کوئی دین۔
۱۶۶ یعنی دین میں اختلاف کیا اور فرقے فرقے ہو گئے۔
۱۶۷ ہم انہیں ان کے اعمال کی جزا دیں گے۔
۱۶"دنیا کی طرف تلافیِ اعمال و تدارکِ احوال کے لئے یعنی اس لئے کہ ان کا واپس آنا ناممکن ہے۔ مفسِّرین نے اس کے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں کہ جس بستی والوں کو ہم نے ہلاک کیا ان کا شرک و کُفر سے واپس آنا محال ہے، یہ معنی اس تقدیر پر ہیں جب کہ لا کو زائدہ قرار دیا جائے اور اگر لا زائدہ نہ ہو تو معنیٰ یہ ہوں گے کہ دارِ آخرت میں ان کا حیات کی طرف نہ لوٹنا ناممکن ہے۔ اس میں منکرینِ بَعث کا ابطال ہے اور اوپر جو کُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْن اور لَاکُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ فرمایا گیا اس کی تاکید ہے۔ (تفسیرِ کبیر وغیرہ)۔
۱۶۹ قریبِ قیامت اور یاجوج ماجوج دو قبیلوں کے نام ہیں۔
۱۷۱ اس دن کے ہول اور دہشت سے اور کہیں گے۔
۱۷۳ کہ رسولوں کی بات نہ مانتے تھے اور انہیں جھٹلاتے تھے۔
۱۷۶ بُت جیسا کہ تمہارا گمان ہے۔
۱۷۷ بُتوں کو بھی اور ان کے پُوجنے والوں کو بھی۔
۱۷۸ اور عذاب کی شدّت سے چیخیں گے اور دھاڑیں گے۔
۱۷۹ جہنّم کے شدّتِ جوش کی وجہ سے۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب جہنّم میں وہ لوگ رہ جائیں گے جنہیں اس میں ہمیشہ رہنا ہے تو وہ آگ کے تابوتوں میں بند کئے جائیں گے، وہ تابوت اور تابوتوں میں پھر وہ تابوت اور تابوتوں میں اور ان تابوتوں پر آگ کی میخیں جڑ دی جائیں گی تو وہ کچھ نہ سُنیں گے اور نہ کوئی ان میں کسی کو دیکھے گا۔
۱۸۰ اس میں ایمان والوں کے لئے بشارت ہے۔ حضرت علی مرتضیٰ کرّم اللہ تعالیٰ وجہ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ میں انہیں میں سے ہوں اور ابوبکر اور عمر اور عثمان اور طلحٰہ اور زبیر اور سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف۔ شانِ نُزول : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک روز کعبۂ معظّمہ میں داخل ہوئے اس وقت قریش کے سردار حطیم میں موجود تھے اور کعبہ شریف کے گرد تین سو ساٹھ بُت تھے، نضر بن حارث سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے آیا اور آ پ سے کلام کرنے لگا حضور نے اس کو جواب دے کر ساکت کر دیا اور یہ آیت تلاوت فرمائی اِنَّکُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ حَصَبُ جَھَنَّمَ کہ تم اور جو کچھ اللہ کے سوا پُوجتے ہو سب جہنم کے ایندھن ہیں یہ فرما کر حضور تشریف لے آئے پھر عبداللہ بن زبعری سہمی آیا اور اس کو ولید بن مغیرہ نے اس گفتگو کی خبر دی، کہنے لگا کہ خدا کی قسم میں ہوتا تو ان سے مباحثہ کرتا اس پر لوگوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بلایا، ابنِ زبعری یہ کہنے لگا کہ آپ نے یہ فرمایا ہے کہ تم اور جو کچھ اللہ کے سوا تم پُوجتے ہیں سب جہنّم کے ایندھن ہیں ؟ حضور نے فرمایا کہ ہاں کہنے لگا یہود تو حضرت عزیر کو پُوجتے ہیں اور نصاریٰ حضرت مسیح کو پُوجتے ہیں اور بنی ملیح فرشتوں کو پُوجتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازِل فرمائی اور بیان فرما دیا کہ حضرت عزیر اور مسیح اور فرشتے وہ ہیں جن کے لئے بھلائی کا وعدہ ہو چکا اور وہ جہنّم سے دور رکھے گئے ہیں اور حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ درحقیقت یہود و نصاریٰ وغیرہ شیطان کی پرستِش کرتے ہیں۔ ان جوابوں کے بعد اس کو مجال دمِ زدن نہ رہی اور وہ ساکت رہ گیا اور درحقیقت اس کا اعتراض کمال عناد سے تھا کیونکہ جس آیت پر اس نے اعتراض کیا اس میں مَا تَعْبُدُوْنَ ہے اور مَا زبانِ عربی میں غیر ذوی العقول کے لئے بولا جاتا ہے، یہ جانتے ہوئے اس نے اندھا بن کر اعتراض کیا، یہ اعتراض تو اہلِ زبان کی نگاہوں میں کھلا ہوا باطل تھا مگر مزید بیان کے لئے اس آیت میں توضیح فرما دی گئی۔
۱۸۱ اور اس کے جوش کی آواز بھی ان تک نہ پہنچے گی، وہ منازلِ جنّت میں آرام فرما ہوں گے۔
۱۸۲ خداوندی نعمتوں اور کرامتوں میں۔
۱۸۴ قبروں سے نکلتے وقت مبارک بادیں دیتے، تہنیت پیش کرتے اور یہ کہتے۔
۱۸۵ جو کاتبِ اعمال ہے آدمی کی موت کے وقت اس کے۔
۱۸۶ یعنی ہم نے جیسے پہلے عدم سے بنایا تھا ویسے ہی پھر معدوم کرنے کے بعد پیدا کر دیں گے یا یہ معنی ہیں کہ جیسا ماں کے پیٹ سے برہنہ غیر مختون پیدا کیا تھا ایسا ہی مرنے کے بعد اٹھائیں گے۔
۱۸۷ اس زمین سے مراد زمینِ جنّت ہے اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ کُفّار کی زمینیں مراد ہیں جن کو مسلمان فتح کریں گے اور ایک قول یہ ہے کہ زمینِ شام مراد ہے۔
۱۸۸ کہ جو اس کا اِتّباع کرے اور اس کے مطابق عمل کرے جنّت پائے اور مراد کو پہنچے اور عبادت والوں سے مؤمنین مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اُمّتِ محمّدیہ مراد ہے جو پانچوں نمازیں پڑھتے ہیں، رمضان کے روزے رکھتے ہیں، حج کرتے ہیں۔
۱۸۹ کوئی ہو جن ہو یا انس مؤمن ہو یا کافِر۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ حضور کا رحمت ہونا عام ہے ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا، مؤمن کے لئے تو آپ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے آپ دنیا میں رحمت ہیں کہ آپ کی بدولت تاخیرِ عذاب ہوئی اور خَسف و مَسخ اور اِستِیصال کے عذاب اٹھا دیئے گئے۔ تفسیرِ روح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں اکابر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آیت کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر رحمتِ مطلقہ تامّہ کاملہ عامہ شاملہ جامعہ محیطہ بہ جمیع مقیدات رحمتِ غیبیہ و شہادتِ علمیہ وعینیہ و وجود یہ و شہودیہ و سابقہ و لاحقہ و غیر ذلک تمام جہانوں کے لئے، عالَمِ ارواح ہوں یا عالَمِ اجسام، ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول اور جو تمام عالَموں کے لئے رحمت ہو لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو۔
۱۹۱ بے خدا کے بتائے یعنی یہ بات عقل و قیاس سے جاننے کی نہیں ہے۔ یہاں درایت کی نفی فرمائی گئی درایت کہتے ہیں اندازے اور قیاس سے جاننے کو جیسا کہ مفرداتِ راغب اور ر دُّ المحتار میں ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ کے واسطے لفظِ درایت استعمال نہیں کیا جاتا اور قرآنِ کریم کے اطلاقات اس پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ فرمایا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتَابُ وَلَا الْاِیْمَانُ لہٰذا یہاں بے تعلیم الٰہی مَحض اپنے عقل و قیاس سے جاننے کی نفی ہے نہ کہ مطلق علم کی اور مطلق علم کی نفی کیسے ہو سکتی ہے جب کہ اسی رکوع کے اول میں آ چکا ہے وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ یعنی قریب آیا سچا وعدہ تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وعدے کا قُرب و بُعد کسی طرح معلوم نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اپنے عقل و قیاس سے جاننے کی نفی ہے نہ کہ تعلیمِ الٰہی سے جاننے کی۔
۱۹۳ جو اے کُفّار تم اعلان کے ساتھ اسلام پر بطریقِ طعن کہتے ہو۔
۱۹۴ اپنے دلوں میں یعنی نبی کی عداوت اور مسلمانوں سے حسد جو تمہارے دلوں میں پوشیدہ ہے اللہ اس کو بھی جانتا ہے سب کا بدلہ دے گا۔
۱۹۵ یعنی دنیا میں عذاب کو مؤخَّر کرنا۔
۱۹۶ جس سے تمہارا حال ظاہر ہو جائے۔
۱۹۸ میرے اور ان کے درمیان جو مجھے جھٹلاتے ہیں اس طرح کہ میری مدد کر اور ان پر عذاب نازِل فرما۔ یہ دعا مستجاب ہوئی اور کُفّار بدر و احزاب و حُنَین وغیرہ میں مبتلائے عذاب ہوئے۔