سورہ کا آغاز منافقون کے جھوٹے اقرار سے ہوا ہے اور آگے ان کی اسلام دشمنی کو بھی واضح کیاگیا ہے ۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’’المنافقون‘‘ ہے ۔
زمانۂ نزول: مدنی ہے اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ اس وقت نازل ہوئی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ بنی المصطلق ۶ ۰ھ سے فارغ ہو کر مدینہ واپس تشریف لائے تھے ۔
منافقت کے پردہ کو چاک کرنا، اصل مرض کی تشخیص کرنا اور اس کا علاج تجویز کرنا۔
آیت ۱ تا ۸ تک منافقوں کے اس رویہ کا بیان ہے جو انہوں نے اسلام دشمنی میں اختیار کر رکھا تھا اور جس کی بنا پر وہ ناقابلِ معافی جرم کے مرتکب قرار پائے ۔
آیت ۹ تا ۱۱ میں اہلِ ایمان کو خطاب کر کے اللہ کے ذکر اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کی تاکید کی گئی ہے جس سے منافقت کے مرض کی بھی نشاندہی ہوتی ہے اور اس کو دور کرنے کی تدابیر بھی واضح ہوجاتی ہیں ۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب منافق تمہارے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ بے شک اللہ کے رسول ہیں ۔ اور اللہ جانتا ہے کہ بلا شبہ تم اس کے رسول ہو مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق بالکل جھوٹے ہیں ۔ ۱*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے ۔ ۲* اور یہ اللہ کی راہ سے رک گئے ہیں ۔ ۳* بہت برا ہے جو یہ کررہے ہیں۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس لیے ہوا کہ یہ ایمان لائے پھر انہوں نے کفر کیا تو ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی اب یہ کچھ نہیں سمجھتے ۔ ۴*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں جب تم دیکھو توان کے جسم تمہیں اچھے لگیں اور جب وہ بات کریں تو تم ان کی باتیں سننے لگو مگر وہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جنہیں ٹیک لگا دی گئی ہو۔۵* وہ ہر چونکا دینے والی آواز کو اپنے ہی اوپر خیال کرتے ہیں ۔ ۶* یہ اصل دشمن ہیں ۔ ان سے بچ کر رہو۔ ۷* اللہ ان کو غارت کرے ۔ ۸* یہ کدھر بہکائے جا رہے ہیں ۔ ۹*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کا رسول تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے تو وہ اپنے سر ٹمٹکاتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ تکبرکے ساتھ کتراکر نکل جاتے ہیں ۔ ۱۰*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے لیے یکساں ہے خواہ تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو ۔ اللہ ان کو ہرگز معاف کرنے والا نہیں ۔ ۱۱* اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔۱۲*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ تم رسول کے ساتھیوں پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ منتشر ہو جائیں ۔ ۱۳* حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے مگر منافق سمجھتے نہیں ہیں ۔
۱۴(۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ واپس پہنچ گئے تو جو عزت والا ہے وہ ذلت والے کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔ ۱۵* حالانکہ عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے لیکن یہ منافق نہیں جانتے ۔۱۶*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ سے غافل نہ کر دے ۔ ۱۷* جو لوگ ایسا کریں گے وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں ۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو ۱۸* قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت آجائے اور وہ کہے کہ اے میرے رب ! تونے مجھے تھوڑی مہلت اور کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا اور نیک بن جاتا۔ ۱۹*
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہرگز کسی نفس کو مہلت دینے والا نہیں جبکہ اس کا مقررہ وقت آ جائے ۔ ۲۰* اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے ۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منافق زبان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرتے تھے لیکن دل سے نہیں مانتے تھے اور ایمان کے لیے محض زبانی اقرار کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ دل کی تصدیق ضروری ہے ۔ اگر آدمی کلمہ گو ہے لیکن اس کا دل ایمان سے خالی ہے تو ایسا ایمان اللہ کے ہاں معتبر نہیں ۔ وہ مسلمان نہیں بلکہ منافق ہے کیونکہ اس کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ اسی لیے وہ اپنی شہادت میں جھوٹا ہے حالانکہ جس بات کی وہ شہادت دے رہا ہے یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی وہ اپنی جگہ ایک حقیقتِ واقعہ ہے ۔
مدینہ میں جن اندرونی دشمنوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو واسطہ تھا وہ یہی منافق تھے جو قبیلہ خزرج وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے اور یہود سے ان کے دوستانہ تعلقات تھے ۔ ان کی شہ پر یہ مسلمانوں میں ایک نہ ایک فتنہ کھڑا کر دیتے تھے ۔ اس لیے قرآن نے ان پر متعدد سورتوں میں گرفت فرمائی ہے اور اس سورہ میں تو خاص ان ہی کو موضوع بنایاگیا ہے تاکہ اسلامی سوسائٹی میں یہ عنصر پنپنے نہ پائے ۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں شہادت ( گواہی) کو قسم سے تعبیر کیاگیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یمین (قسم) شہادت کے ہم معنی ہے ۔ اور قرآن میں آسمان، زمین اور ہواؤں وغیرہ کی جو قسمیں کھائی گئی ہیں وہ شہادت ہی کے معنی میں ہیں ۔ یعنی یہ چیزیں توحید اور روز جزاء پر دلالت کرتی ہیں ۔
منافق اپنے بچاؤ کے لیے بات بات پر جھوٹی قسمیں کھاکر اپنے سچے ہونے کا یقین دلاتے تھے اس طرح انہوں نے قسموں کو اپنے تحفظ کے لیے ڈھال بنالیا تھا۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی راہ سے رکنے کا مطلب اللہ کے دین یعنی اسلام سے رک جانا ہے ۔ جھوٹی قسموں کا سہارا لینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لیپاپوتی ہی کرتے رہے اور اسلام کی طرف بڑھ نہ سکے ۔ اس کی راہ ان پر بند ہو گئی۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اسلام میں داخل ہونے کے بعد وہ کافر بنے رہے ۔ ان کی اس ناقدری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان میں قبولِ حق کی استعداد باقی نہیں رہی اور ذہنیت ایسی غلط ہو گئی کہ سیدھی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے ۔
د ل پر مہر لگنے کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۱۵۔۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان منافقوں کا حال یہ ہے کہ وہ بڑے ڈیل ڈول والے اور چرب زبان ہیں ۔ طمطراق سے ایسی باتیں کرتے ہیں کہ آدمی سنتا ہی رہ جائے لیکن اندر سے وہ بالکل کھوکھلے ہیں اور اس طرح ناکارہ ہیں جس طرح لکڑی کے کندے جو دیوار کے سہارے رکھ دے ئے گئے ہوں ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ عقل سے بالکل عاری ہیں اور مجلس نبوی میں اگر کوئی فیض حاصل نہیں کرتے بلکہ دیوار سے ٹیک لگاکر اس طرح بیٹھتے ہیں جیسے دیوار سے لگے ہوئے لکڑی کے کندے جن میں سمجھ بوجھ نہیں ہوتی۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان کی بزدلی کی تصویر ہے جب کبھی زوردار آواز سنائی دی یا متنبہ کرنے والی بات سامنے آئی انہوں نے اس کو اپنے خلاف سمجھا۔ یہ ان کے دل کا چور ہے جو انہیں اضطراب میں ڈال دیتا ہے ۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ منافق درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اس لیے ان سے اسی طرح ہوشیار رہنا چاہیے جس طرح آدمی دشمن سے ہوشیار رہتا ہے ۔
یہ نہ خیال کیا جائے کہ اسلام کے یہ دشمن اس زمانہ ہی میں موجود تھے ۔ نہیں بلکہ اس زمانہ میں بھی بہ کثرت موجود ہیں اور وہ مسلم سوسائٹی میں رہتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک نہ ایک فتنہ اٹھاتے رہتے ہیں ۔ ان کی چالوں سے چوکنا رہنا بہت ضروری ہے ۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ کی طرف سے ان پر پھٹکار ہے ۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ان کی نکیل شیطان کے ہاتھ میں ہے اور وہ بری طرح ان کو بھٹکا رہا ہے ۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کہاں ان کا دعوے ایمان اور کہاں ان کی یہ حرکت کہ جب ان کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ جو کرتوت تم کرچکے اس کے لیے تم رسول کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی کے طالب بنو تاکہ اللہ کا رسول تمہاری مغفرت کے لیے اللہ سے دعا کرے تو یہ سر مٹکانے لگتے ہیں گویا اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اور ان کا گھمنڈ ان کو کسرِ نفسی سے روکتا ہے ۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منافق چونکہ اصلاً کافر ہیں اس لیے ان کے بارے میں اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ ان کو ہر گز معاف نہیں کرے گا اگرچہ اللہ کا رسول ان کے لیے دعائے مغفرت کرے ۔ ایک صورت ان کی مغفرت کی یہ ہو سکتی تھی کہ وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیتے لیکن چونکہ وہ اپنے نفاق ( منافقت) میں کٹر ہیں جس کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ہے اس لیے انہیں توبہ کی بھی توفیق نصیب ہونے والی نہیں ۔
قرآن سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ گناہ بخشنا اللہ ہی کا کام ہے اور کسی بھی نبی کو اس کا اختیار نہیں ہے لہٰذا عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ حضرت عیسیٰ اپنے پیروؤں کے گناہ بخش دیں گے سراسر باطل ہے ۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ توبہ نوٹ ۱۴۷۔۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہدایت ان ہی کو ملتی ہے جو اللہ کے آگے جھکنے اور اس کی فرمانبرداری قبول کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن جن کا عرورِ نفس انہیں اس سے روکتا ہو اور وہ نافرمان بن کر ہی رہنا چاہتے ہوں ان پر اللہ ہدایت کی راہ نہیں کھولتا۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مدینہ کے انصار نے مکہ کے مہاجرین کو اپنے ہاں جگہ دی تھی اور ان پر بے دریغ خرچ کررہے تھے ۔ مہاجرین کی یہ مدد رسول ؐ کے حامیوں کی مدد تھی لیکن یہ بات منافقوں کو جو انصار ہی میں سے تھے قطعاً پسند نہیں تھی اور وہ چاہتے تھے کہ وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چھٹ جائیں اس لیے وہ ان کی امداد و اعانت سے منع کرتے تھے ۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رزق کسی کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے جو آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک ہے ۔ وہ اگر مہاجرین کی مدد کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ایک نہ ایک ذریعہ پیدا کر دے گا۔ یہ منافقین اللہ کی مشیت کے خلاف کسی کا رزق روک نہیں سکتے مگر اتنی موٹی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اور جب وہ لکڑی کے کندے ہی ٹھہرے تو ان کی سمجھ میں کیا بات آ سکتی ہے !
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات منافقوں کے رئیس عبداللہ بن اُبی نے کہی تھی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ غزوۂ بنی المصطلق( ۶ ھ) سے واپس لوٹ رہے تھے ۔ اس موقع پر ایک مہاجر اور انصاری کے درمیان پانی کے مسئلہ پر جھگڑا ہوا۔ عبداللہ بن اُبی کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے اس میں انصار کی ہتک سمجھی اور چڑ کر کہا تم ان مہاجرین کی مدد کرنا بند کر دو تاکہ منتشر ہوجائیں نیز کہا مدینہ پہنچنے پر جو عزت والا ہے وہ ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔ اس کی نظر میں مہاجرین ذلیل تھے اور اس نے ایک ایسی بات زبان سے نکالی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی گستاخی کا باعث تھی۔ یہ بات ایک نو عمر صحابی زید بن ارقم نے سن لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر بیان کر دی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن اُبی سے پوچھا تو اس نے انکار کیا کہ میں نے ایسی بات نہیں کہی جب آپ مدینہ پہنچ گئے تو یہ سورت نازل ہوئی۔ آپ نے زید بن ارقم کو بلاکر فرمایا اللہ نے تم کو سچا قرار دیا۔ (بخاری کتاب التفسیر)
عبداللہ بن اُبی کی اس گستاخانہ اور مفسدانہ حرکت پر حضرت عمر انہیں قتل کریدنا چاہتے تھے ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی۔آپ اس سے اور دوسرے منافقین سے برابر درگذر کرتے رہے کیونکہ مسلمان ابھی اپنے خارجی دشمنوں مشرکین اور یہود سے مقابلہ کررہے تھے اور یہ بات قرینِ مصلحت نہیں تھی کہ اندرونی دشمنوں سے قتل و قتال کا معاملہ کیا جائے ۔ لیکن غزوۂ تبوک کے بعد جب کہ پورے عرب پر اسلام کا تسلط قائم ہوا تو منافقین کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا حکم نازل ہوا۔ چنانچہ سورۂ توبہ میں ہے :
یٰٓااَیہَاالنَّبِیُّ جَاہِدِالْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیہِمْ ’’ اے نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی برتو۔‘‘(توبہ:۷۳)
لیکن اس زمانہ میں عبداللہ بن اُبی کا انتقال ہو چکا تھا۔ دوسرے منافقین جو اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تھے ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیاگیا۔ یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جب حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے اور ان منافقین نے سر اٹھایا اور زکوٰۃ دینے سے انکار کیا اور کتنے ہی کھلم کھلا مرتد ہو گئے ( اسلام سے پھر گئے ( تو خلیفہ راشد نے ان کے خلاف تلوار اٹھائی اور ان کا قلع قمع کر دیا۔ اس طرح ان منافقین کو مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت کا مزہ چکھنا پڑا۔ یہ تھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا جو دنیا میں انہیں ملی۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ منافق جھوٹی عزت کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ سچی عزت اللہ ہی کے لیے ہے کہ وہ عزیز ،عظیم اور اعلیٰ ہستی ہے ۔ اس کے بعد عزت اس کے لیے ہے جس کووہ شرف سے نوازے ۔ رسول منصبِ رسالت پر سرفراز ہوتا ہے اس لیے وہ یقینا معزز ہے اور مومنین چونکہ اللہ کے وفادار بندے ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے بھی اللہ کی طرف سے عزت واکرام ہے ۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موقع کی مناسبت سے عام مسلمانوں کو خطاب کر کے نصیحت کی گئی ہے کہ وہ مال اور اولاد کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوجائیں ۔ اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ منافقوں کو جس چیز نے غلط راہ پر ڈال دیا ہے وہ یہی مال اور اولاد کی محبت ہے ۔ کسب مال میں ایسی مصروفیت اور اولاد کو مادی فوائد پہنچانے اور ان کے دنیوی مستقبل کو شاندار بنانے میں ایسا انہماک کہ آدمی اللہ کے ذکر سے غافل ہوجائے ، نہ نماز سے دلچسپی اور نہ شرعی ذمہ داریوں کا خیال اور نہ آخرت کی پرواہ ، تو انسان دنیوی مسائل میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور اس پر سعادت اور کامیابی کی راہ نہیں کھلتی۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بشرطیکہ یہ خرچ خلوصِ دل سے ہو اللہ کی محبت بڑھتی ہے اور آدمی مال کا پرستار نہیں بنتا۔
منافقوں کے حال پر تبصرہ کرنے کے بعد اہل ایمان کو صدقہ و انفاق کی ہدایت اس اہم ترین تدبیر کی نشاندہی ہے جو دل کے امراض کو دور کرتی اور ایمان کو پر وان چڑھاتی ہے ۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تصویر ہے موت کے وقت کی کہ جب موت سامنے آکھڑی ہوتی ہے تو آدمی محسوس کرنے لگتا ہے کہ جس مال کو میں نے سنبھال کر رکھایہاں تک کہ اپنی شرعی ذمہ داریوں کو بھی ادا نہ کرسکا وہ مال اب میرے کیا کام آنے والا ہے ۔ اس احساس کی بنا پر وہ تمنا کرنے لگتا ہے کہ اے میرے رب کاش تو نے مجھے کچھ اور بھی مہلت دی ہوتی تاکہ میں صدقہ کرتا اور نیک بن جاتا۔ گویا موت کے آثار شروع ہوتے ہی دنیا کی بے وقعتی اور مال کا بے فائدہ ہونا شدت کے ساتھ محسوس ہونے لگتا ہے اور صدقہ کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا احساس ابھرتا ہے ۔ مگر موت کے وقت اس احساس کے ابھرنے سے کیا فائدہ۔ اس لیے یہ آیت متنبہ کرتی ہے کہ موت کی گھڑی کے آنے سے پہلے ہی آدمی اپنی مالی ذمہ داریوں کو جو شریعت نے عائد کی ہیں ادا کرے اور دل کھول کر اللہ کی خاطر خرچ کرے ساتھ ہی اپنے کو نیکی کی راہ پر ڈال دے ۔
’’ صدقہ‘‘ اردو کے محدود معنی میں نہیں ہے جو کسی فقیر کو دیا جاتا ہے بلکہ قرآن کے وسیع تر مفہوم میں ہے یعنی ہر وہ خرچ صدقہ ہے ۔ جو اللہ کا تقرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا جائے اس کا اطلاق زکوٰۃ پر بھی ہوتا ہے ۔ دیگر واجب اور غیر واجب صدقات پر بھی نیز اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے خرچ کرنے پر بھی۔
آیت سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ صدقہ و انفاق سے نیکی کی طرف رجحان بڑھ جاتا ہے اور آدمی کے لیے نیک بننا آسان ہوتا ہے ۔ اس لیے اس نسخہ کو استعمال کر کے آدمی اپنے کو صالح بنالے ۔ ورنہ ایک غیر صالح مسلمان کی موت بھی حسرت ہی کی موت ہوتی ہے ۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اچھی طرح سمجھ لو کہ موت کے وقت پچھتانا بے کار ہوگا جو مہلت جس شخص کو دی گئی ہے اس کی اس مہلت میں ہرگز اضافہ ہونے والا نہیں لہٰذا موت آنے سے پہلے ہی وہ سامان کر لوجوموت کے بعد کام آئے ۔