دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ العَادیَات

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

  پہلی آیت میں  العٰدیات (دوڑنے والے گھوڑوں  ) کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’’ العٰدیات‘‘ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

 خدا کے حضور جوابدہی سے غفلت کے نتیجہ میں  پیدا ہونے والا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے جو انسان کو خدا کا ناشکر گزار بناتا ہے اور اس کی بخشی ہوئی نعمتوں  اور قوتوں  کے غلط استعمال پر اسے آمادہ کرتا ہے۔

 

نظم کلام

 

  آیت ۱ تا ۵ میں  جنگی گھوڑوں  کو اس بات کی شہادت میں  پیش کیا گیا ہے کہ انسان خدا کی عطا کردہ قوتوں  کا کتنا غلط استعمال کرتا ہے۔

 

آیت ۶ تا ۸ میں انسان کو خدا کا ناشکرا گزار ہونے اور اس کے مال کی محبت میں  گرفتار ہونے پر ملامت کی گئی ہے۔

 

آیت ۹ تا ۱۱ میں  انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اسے قیامت کے دن قبر سے اٹھا کھڑا کیا جاۓ گا اور اسے خدا کے حضور حاضر ہونا ہو گا۔ اس روز انسان کے باطن کا حال کھل کر سامنے آ جاۓ گا اور وہ محسوس کرے گا کہ کوئی بات بھی حتیٰ کہ اس کی وہ نیتیں  اور ارادے بھی اللہ سے چھپے ہوۓ نہیں  ہیں  جو دنیا میں  مختلف کاموں  کو انجام دیتے ہوۓ اس نے اپنے دل میں  چھپاۓ رکھے تھے۔

ترجمہ

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم۱* ہے دوڑنے والے گھوڑوں  ۲* کی جو ہانپ اٹھتے ہیں  ۳*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ٹاپ مار کر چنگاریاں  جھاڑتے ہیں  ۴*

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جو صبح کے وقت دھاوا مارتے ہیں  ۵*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس تگ و دو سے غبار اڑتے ہیں  ۶*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس حالت میں  غول میں  جا گھستے ہیں  ۷ *

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا نا شکرا ہے ۸*

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ خود اس پر گواہ ہے ۹*

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ مال کی محبت میں  بہت سخت ہے ۱۰*

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا وہ اس وقت کو نہیں  جانتا جب قبروں  میں  جو کچھ ہے اسے باہر نکال لیا جاۓ گا۱۱*

 

۱۰۔ اور سینوں  میں  جو کچھ پوشیدہ ہے اس کو نکال کر پرکھا جاۓ گا۱۲*

 

۱۱۔ یقیناً ان کا رب اس روز ان سے اچھی طرح با خبر ہو گا۱۳*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد جنگی گھوڑے ہیں  جو سرپٹ دوڑتے ہیں۔ نزول قرآن کے زمانہ میں  گھوڑے بڑی جنگی اہمیت کے حامل تھے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ گھوڑوں  کا ہانپ اٹھنا اور ہانپنے کے باوجود اپنی دوڑ جاری رکھنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر زبردست طاقت رکھی ہے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب جنگ یا غارتگری کے لیے گھوڑے دوڑاۓ جاتے ہیں  تو وہ ایسی سرگرمی دکھاتے ہیں  کہ ان کی ٹاپوں  سے چنگاریاں  جھڑنے لگتی ہیں۔ یہ چنگاریاں  گھوڑوں  کی سموں  کے تیزی کے ساتھ پتھریلی زمین سے ٹکرانے کے نتیجہ میں  نکلتی ہیں  اور رات کی تاریکی میں  دکھائی دیتی ہیں۔

 

گھوڑوں  کا چنگاریاں  جھاڑتے ہوۓ بگ ٹٹ چلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک زبردست طاقت انسان کے تابع کر رکھی ہے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ عربوں  کا قاعدہ تھا کہ جب وہ کسی قبیلہ یا بستی پر حملہ کرنا چاہتے تو رات کو گھوڑے دوڑاتے اور علی الصبح حملہ آور ہوتے۔ رات کو اس لیے حملہ نہیں  کرتے تھے کہ رات کی تاریکی میں  لڑنا مشکل تھا اور صبح کو اس لیے حملہ آور ہوتے کہ دشمن پر انہیں  اچانک ٹوٹ پڑنے کا موقع ملتا۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ گھوڑے اس برق رفتاری سے دوڑتے ہیں  کہ گرد و غبار کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور جب یہ حملہ آور ہوتے ہیں  تو اپنے ساتھ گرو غبار کی ایک آندھی لیے ہوۓ ہوتے ہیں۔

 

واضح ہو کہ عربستان کا علاقہ ریگستانی ہے اور نزول قرآن کے زمانہ میں  پختہ سڑکیں  بھی نہیں  تھیں  اس لیے گھوڑوں  کی دوڑ سے جو گرد و غبار اٹھتا ہو گا اس کو دیکھ کر لوگ دور ہی سے اندازہ کر لیتے ہوں  گے کہ یہ غارتگری کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی غول میں  گھس کر تباہی مچاتے ہیں۔

 

ان آیات میں  عربوں  کے ان حملوں  کی تصویر پیش کی گئی ہے جو لوٹ مار اور غارت گری کی غرض سے وہ کیا کرتے تھے۔ ایک قبیلہ جب دوسرے قبیلہ پر چڑھائی کرتا تو اس کے لیے گھوڑے استعمال کیے جاتے۔ یہ گھوڑے رات کی تاریکی میں  چنگاریاں  جھاڑتے ہوۓ نکلتے اور علی الصبح گردو و غبار کی آندھی اٹھاۓ ہوۓ بستی پر حملہ آور ہوتے اور مدافعت کرنے والوں  کے مجمع میں  جا گھستے۔ اس کے بعد لوٹ مار کی گرم بازاری ہوتی اور عورتوں  اور مردوں  کو پکڑ کر لونڈی اور غلام بنا لیتے۔ اس چیز نے عرب کے علاقہ میں  بد امنی کی فضا پیدا کر دی تھی اور بستیوں  پر یہ خطرہ منڈلاتا رہتا تھا کہ معلوم نہیں  کون قبیلہ کس بستی پر کب حملہ آور ہو۔

 

قرآن نے اس ظلم و ستم کا احساس دلانے کے لیے غارت گری کی اس مہم کی تصویر پیش کر دی جس میں  تیز رفتار گھوڑوں  کو استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آج باطل مقاصد کے لیے لڑی جانے والی جنگوں  میں  جو تیز رفتار طیارے استعمال کیے جاتے ہیں  اور ان کے ذریعہ جو بمباری کی جاتی ہے اور شہروں  اور بستیوں  کو جس طرح تباہ کیا جاتا ہے اس کی تصویر الفاظ میں  کھینچ لی جاۓ تاکہ ان ظالمانہ کار روائیوں  کے خلاف انسانیت کو جھنجھوڑا جا سکے۔۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ بات ہے جس کا احساس دلانے کے لیے سرپٹ دوڑنے والے گھوڑوں  کی قسَم کھائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تیز رفتار گھوڑے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں  اور زبردست جنگی اہمیت کے حامل ہیں  لیکن ان کو غلط اغراض اور ظالمانہ کار روائیوں  کے لیے استعمال کرنا اس نعمت کی ناقدری اور اپنے رب کی بڑی ناشکری ہے۔

 

موجودہ دور میں  ایٹمی توانائی کا انکشاف انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کا شکر وہ اسی صورت میں  ادا کر سکتا ہے جب کہ وہ اس توانائی کو تعمیری کاموں  کے لیے استعمال کرے لیکن اگر وہ تخریبی کاموں  مثلاً ایٹم بم بنانے اور اس کو بڑے بڑے شہروں کو تباہ کرنے اور انسانیت پر ظلم ڈھانے کے لیے استعمال کرتا ہے تو یہ اس نعمت کی صریح نا قدری اور اس کو عطاء کرنے والے کی بڑی ناشکری ہو گی۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کا یہ ناشکرا پن محتاج دلیل نہیں  ہے اس کا ضمیر خود اس پر بہت بڑا گواہ ہے وہ خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں  کے ناجائز استعمال کے لیے کتنے ہی بہانے بناۓ اس کی فطرت اندر سے ضرور پکار اٹھے گی کہ اس نے یہ غلط حرکت کی ہے۔ کتنے ہی انسان علانیہ اپنے پروردگار کے خلاف نا شکری کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنی ناشکری پر خود حجت ہیں۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کو خدا سے زیادہ مال و دولت سے محبت ہے وہ خدا پرست بننے کے بجاۓ زر پرست بن جاتا ہے۔ چنانچہ وہ حصول مال کے لیے کشت و خون اور غارت گری تک کرنے سے نہیں  رکتا۔

 

واضح رہے کہ قرآن مال کی محبت کو جو مذموم قرار دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا سے زیادہ مال کو محبوب رکھے ، آخرت کو مقصود قرار دینے کے بجاۓ دنیا کی دولت کو مقصود قرار دے ، حصول مال میں  جائز اور نا جائز اور حلال و حرام کی تمیز نہ کرے اور بندگان خدا کی حق ماری اور ان کی املاک پر غاصبانہ قبضہ کرنے میں  بھی اسے دریغ نہ ہو۔ یہ زر پرستی ہر زمانہ میں  موجود رہی ہے اور اس کا نیا روپ موجودہ زمانہ کی سرمایہ پرستی ہے۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمام مرے ہوۓ انسانوں  کو زندہ اٹھا کھڑا کیا جاۓ گا (ملاحظہ ہو سور زلزال نوٹ ۲ اور ۶ ) یہاں  سول بطور تنبیہ کے ہے کہ انسان لوٹ کھسوٹ اس لیے کرتا ہے اور زر پرستی میں  اس لیے مبتلا ہوتا ہے کہ اسے نہ اپنے دوبارہ زندہ کیے جانے کا یقین ہے اور نہ خدا کے حضور جواب دہی کا احساس ، حالانکہ یہ مرحلہ لازماً پیش آنا ہے۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن صرف ظاہری اعمال ہی کو نہیں  دیکھا جاۓ گا جو  دنیا میں انسان کرتا رہا ہے بلکہ اس کے پیچھے جو جذبات ، ارادے ، نیتیں  ، اغراض اور محرکات رہے ہیں  ان کو بھی دیکھا اور پرکھا جاۓ گا تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں  اور اس کے بعد ہی جزا یا سزا کا فیصلہ سنایا جاۓ گا۔

 

اس سلسلہ میں  سب سے پہلے سینہ کے جس بھید کو ظاہر کیا  جاۓ گا وہ ایمان یا کفر ہو گا یعنی کس کے دل میں  ایمان تھا اور کس کے دل میں  کفر ، جو لوگ اپنے کو مسلمان ظاہر کرتے رہے  لیکن دلوں  میں  کفر کو چھپاۓ ہوۓ تھے ان کے سینوں  سے اس روز کفر ہی برآمد ہو گا۔ اسی طرح جن لوگوں  نے نیکی اور بھلائی کے کام کسی غلط مقصد یا ناجائز محرکات کے تحت کیے ہوں  گے تو ان کی حقیقت بھی آشکارا ہو جاۓ گی اور جو لوگ غلط کام کر کے ان کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں  تاکہ لوگ باور کریں  کہ انہوں  نے کوئی غلط کام نہیں  کیا ہے ان کی اغراض اور نیتیں  بھی کھل کر سامنے آ جائیں  گی۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کے ظاہر و باطن سے آج بھی با خبر ہے لیکن قیامت کے دن ہر شخص پر یہ حقیقت کھل جاۓ گی اور وہ ماننے کے لیے مجبور ہو گ کہ واقعی اللہ تعالیٰ کو ہر شخص کے ظاہری اور باطنی حالا ت کا پورا پورا علم تھا اور آج قیامت کے دن وہ جو فیصلہ بھی کر رہا ہے پوری طرح باخبر ہو کر ہی کر رہا ہے۔