آیت ۲۰ میں احزاب یعنی ان گروہوں کا ذکر ہوا ہے جنہوں نے اہل ایمان کے خلاف متحد ہو کر مدینہ پر حملہ کیا تھا۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام احزاب ہے۔
مدنی ہے اور غزوہ احزاب کے بعد نازل ہوئی جو شوال ۵ ھ میں پیش آیا تھا۔
منصب رسالت، اس کے تقاضے اور رسول کے ساتھ اہل ایمان کا رویہ واقعات کی روشنی میں۔
آیت ۱ تا ۳ تمہیدی آیات ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آنے اور اللہ پر توکل کرتے ہوۓ وحی الہٰی کی اتباع کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ آیت ۴ تا ۸ میں منہ بولے بیٹے کی رسم کی اصلاح پر زور دیتے ہوۓ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اہل ایمان کے تعلق کو نیز آپ کی ازواج کے مقام کو واضح کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس عہد کی یاد دہانی بھی کرائی گئی ہے جو ہر نبی اسے اللہ کے دین کی مخلصانہ پیروی کے سلسلہ میں لیا گیا تھا۔ آیت ۹ تا ۲۷ میں غزوہ احزاب اور غزوہ بنی قریظہ پر تبصرہ کرتے ہوۓ اس بات کو نمایاں کیا گیا ہے کہ ان نازک حالات میں کس طرح نصرت الٰہی کا ظہور ہوا اور یہ اس بات کا ثبوت کہ اہل ایمان کی کار سازی کے لیے اللہ کافی ہے لہٰذا ان کو چاہیے کہ کسی کی پرواہ کیے بغیر اسی کے بھروسہ پر اپنی دینی ذمہ داریوں کو انجام دیں۔
آیت ۲۸ تا ۳۴ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج سے خطاب کر کے ان پر اپنا مقام اور اس مناسبت سے ان کی ذمہ داریاں واضح کی گئی ہیں۔
آیت ۳۵ تا ۴۰ میں منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح نہ کرنے کی رسم کے خاتمہ کا اعلان کیا گیا ہے اور اس حکم کی اصلاح کے سلسلہ میں حضرت زینب سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح کے واقعہ کو پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۴۱ تا ۴۴ میں اہل ایمان کو ذکر الٰہی کی ہدایت کرتے ہوۓ رحمت اور اجر کریم کی بشارت دی گئی ہے۔
آیت ۴۵ تا ۴۸ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب کرتے ہوۓ آپ کی شان نبوت کو واضح کیا گیا ہے۔
آیت ۴۹ تا ۵۲ میں پہلے طلاق کا ایک مسئلہ بیان ہوا ہے اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ کی ازواج کے تعلق سے خاص احکام دیے گۓ ہیں۔
آیت ۵۳ تا ۶۲ میں پردے کے احکام دیے گۓ ہیں۔
آیت ۶۳ تا ۵۸ میں قیامت اور آخرت کا ذکر ہے۔
آیت ۶۹ تا ۷۲ میں اہل ایمان کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوۓ منافقین کو تنبیہ کی گئی ہے۔
روایتوں میں بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جو یہ تاثر دیتی ہیں کہ سورہ احزاب میں دو سو احزاب میں دو سو آیتیں تھی لیکن جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف لکھا تو وہ اتنی ہی آیتیں لکھ سکے جتنی کہ اس وقت قرآن میں موجود ہیں۔ اس روایت کو نقل کر کے علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا کچھ حصہ ضائع ہو گیا لیکن ایسی روایت جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ قرآن کا کچھ حصہ ضائع ہو گیا لیکن ایسی روایت موضوع ہے یا قابل تاویل ہے (یعنی اس کا مفہوم کچھ اور ہے )
(تفسیر روح المعانی ،ج۔۷ ، ص ۱۴۲)۔
واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں جب مختلف فرقے وجود میں آ گۓ تو انہوں نے اپنے عقائد اور اپنے مسلک کی تائید میں نہ کثرت روایتوں گڑھیں اور ان کو اس طرح خلط ملط کر دیا کہ صحیح اور غلط میں تمیز مشکل ہو گئی۔ خاص طور سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کرنے والوں اور امامت کا عقیدہ ایجاد کرنے والوں نے تو اس کثرت سے روایتیں گڑھیں کہ دین کی بنیادیں ہل گئیں اور قرآن کے بارے میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس کی کچھ آیتوں غائب کر دی گئی ہیں یا اس کے الفاظ غائب کر دیے گۓ ہیں مثلاً سورہ احزاب کی آیت ۷۱ :
وَمَنْ یُطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ تَوْزاً عَظِیْمَا۔ " اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی حاصل کر ے گا۔
کے بارے میں شیعوں کی اہم ترین کتاب اصول الکافی میں ابو بصیر کی روایت ہے کہ حضرت جعفر صادق نے فرمایا یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی : وَمَنْ یُطْعِ اللہَ وَرَسُولَہٗ فِی ولایۃِ عَلیٍّ وَ وِلَا یَۃِ الْاَئمَّۃِ مِنْ بَعْدِہٖ) فَقَدْ فَازَ فوْزاً عَظِیْماً یعنی جو کوئی علی اور ان کے بعد کے ائمہ کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا بڑی کامیابی حاصل کرے گا (اصول الکانی ، ج ۱ ص ۳۴۲ المکتبہ الاسلامیہ طہران)۔
اسی طرح اصول الکانی میں حضرت جعفر صادق سے روایت ہے کہ جبرئیل علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ آیت لے کر نازل ہوۓ تھے۔ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اَوْ تُو الْکِتابَ آمِنُوءا بِمَا نَزَّ لْنَا (فِی عَلِیِّ) نُوراً مُبِیْناً یعنی اے اہل کتاب ایمان لاؤ اس پر جو ہم نے علی کے بارے میں نازل کیا ہے جو نور مبین ہے (اصول الکانی ج۔۱ ص ۳۴۵) لیکن یہ آیت قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جن میں اختلاف قرآن کے نام سے بعض آیتوں میں کچھ الفاظ کا اضافہ کر دیا گیا ہے مثلاً یہ کہ سورہ احزاب کی آیت ۶ میں وَاَزْوَاجُہٗ اَمَّھَا تُھُمْ (پیغمبر کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں ) کے بعد وَھُوَابٌ لَھُمْ (اور پیغمبر مسلمانوں کے باپ ہیں ) کا اضافہ کر دیا گیا ہے یا اور یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن میں زانی کی سزا کے لیے آیت رجم (اشیخ ولشیخۃ الخ) تھی مگر بعد میں اس کی تلاوت منسوخ کر دی گئی (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ، ج۔۳ ص۔۴۶۵) یا یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں آخری دو سورتیں یعنی معوذتین موجود ہی نہیں تھیں۔ اس قسم کی روایتیں گڑھ کر بہت بڑے فتنہ کا سامان کیا گیا اور افسوس ہے کہ تفسیروں میں اس قسم کی روایتوں نے جگہ پالی حالانکہ یہ روایتیں اپنے متن (مضمون) ہی کے اعتبار سے رد کرنے کے و ابل تھیں کیونکہ قرآن کریم نے اپنی حفاظت کی خود ضمانت دی ہے۔
اِنَّا جَھْنُ نَزَّ لْنَا الذِّ کْرَوَ اَنَّا لَہٗ لَحَافِظُونَ(حجر۔۹) " بلاشبہ یہ یاد دہانی والا قرآن ہم ہی نے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں "۔
اور یہ بات تواتر اور قطعیت کے ساتھ ثابت ہے اور اس پر امت کا اتفاق ہے کہ جو مصحف آج ہمارے پاس موجود ہے وہ مکمل قرآن ہے اور اس میں ایک شوشہ کا بھی فرق نہیں ہوا۔ رہا قرأت کا فرق تو اس کی گنجائش اسی حد تک ہو سکتی ہے جس حد تک کہ معنی کا فرق واقع نہ ہوتا ہو مثلاً سورہ غاشیہ میں لفظ مصیطر کا تلفظ ص سے بھی درست ہے اور س سے بھی۔ لیکن جو روایتیں قرأت کے ایسے فرق کو بیان کرتی ہیں جن سے معنی کا فرق واقع ہو جاتا ہے وہ ہر گز قابل قبول نہیں ہو سکتیں امام رازی لکھتے ہیں :
"شاذ قرأت متواتر قرأت کو باطل نہیں کر سکتی اس لیے ہم اپنے مسلک کے اثبات میں متواتر قرأت پر اعتماد کرتے ہیں اور اس لیے بھی کہ جو قرأت شاذ ہو وہ ہمارے نزدیک حجت نہیں ہے کیونکہ ہمارے نزدیک اس کی حیثیت ہر گز قرآن کی نہیں ہے۔ اگر وہ قرأت قرآن ہوتی تو ضرور متواتر ہوتی اور اگر ہم اس بات کی گنجائش نکال لیں کہ قرآن کا ایک حصہ تواتر کے ساتھ منتقل نہیں ہوا ہے تو ہم رافضیوں اور ملحدوں کے لیے قرآن میں طعن کرنے کا دروازہ کھولیں گے اور کہا جا سکے گا کہ قرآن میں ایسی آیتیں تھیں جو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی امامت کا اصلی ثبوت تھیں لیکن وہ ہم تک نہیں پہنچیں اور یہ بھی کہا جا سکے گا کہ اس میں بہت سے شرعی احکام کو منسوخ کرنے والی آیتیں بھی تھیں لیکن وہ بھی ہم تک نہیں پہنچیں مگر یہ اس بنا پر باطل ہے کہ اگر یہ حصہ قرآن کا جزء ہوتا تو ضرور متواتر ہوتا اور جب یہ متواتر نہیں ہے تو لازماً قرآن نہیں ہے۔ پس ثابت ہوا کہ قرأت شاذہ ہر گز حجت نہیں ہے۔ (التفسیر الکبیر ، ج ۱۱، ص۲۲۷)
۱۔۔۔۔۔۔ اے نبی ! ۱ * اللہ سے ڈرو۔ اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو ۲ *۔ بے شک اللہ علم والا حکمت والا ہے ۳ *۔
۲۔۔۔۔۔۔ پیروی کرو اس وحی کی جو تمہارے ر کی طرف سے تم پر کی جار ہی ہے ۴ * تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔
۳۔۔۔۔۔۔ اور اللہ پر توکل کرو۔ ۵ * وہ کار سازی کے لیۓ کافی ہے۔
۴۔۔۔۔۔۔ اللہ نے کسی شخص کے سینہ میں دو دل نہیں رکھے ۶ *۔ اور نہ اس نے تمہاری ان بیویوں کی جن سے تم ظہار کرتے ہو (یعنی یہ کہتے ہو کہ وہ تمہارے لیۓ ماں کی پیٹھ ہیں) تمہاری مائیں بنا یا ہے ۷ *۔اور نہ ہی اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے بنا دیا ہے۔ ۸ * یہ تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں ۹ *۔ مگر اللہ حق بات کہتا ہے اور وہی صحیح راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۱۰ *۔
۵۔۔۔۔۔۔ ان کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ ۱۱ * یہ اللہ کے نزدیک منصفانہ بات ہے ۱۲ *۔ اور اگر تم کو معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں ۱۳* اس بارے میں جو غلطی تم سے سر زد ہوئی اس کے لیۓ مت پر کوئی گرفت نہیں البتہ اس بات پر ضرور گرفت ہو گی جس کا قصد تم نے دل سے کیا ۱۴ *۔ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔ نبی مو منوں کے لیۓ ان کی پانی جان سے زیادہ کا حق دار ہے ۱۵ * اور اس کی ازواج ان کی مائیں ہیں ۱۶ *۔ اور اللہ کے قانون میں رحمی (خون کے) رشتہ دار عام مومنین وا مہاجرین کے مقابلہ میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ تم اپنے رفیقیوں کے ساتھ کوئی بھلائی کرو ۱۷ *۔ یہ حکم کتاب الہی میں لکھا ہوا ہے ۱۸ *۔
۷۔۔۔۔۔۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا تھا۔ (اے نبی) تم سے بھی اور نوح ، ابراہیم ، موسی، اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی۔ سب سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا ۱۹ *۔
۸۔۔۔۔۔۔ تاکہ وہ سچے لوگوں سے ان کی سچائی کے بارے میں پوچھے ۲۰ * اور کافروں کے لیۓ تو اس نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۲۱ *۔
۹۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو ! اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے جب لشکر تم پر چڑھ آۓ تو ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور ایسی فوجیں جو تم کو دکھائی نہیں دیتی تھیں ۲۲ *۔ اور اللہ تم جو کچھ کر رہے تھے اس کو دیکھ رہا تھا۔
۱۰۔۔۔۔۔۔ جب وہ تم پر اوپر کی طرف سے بھی چڑھ آۓ اور تمہارے نشیب کی طرف سے بھی ۲۳ * جب نگاہیں پھر گئیں اور کلیجے منہ کو آ لگے ۲۴ *اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔ اس وقت اہل ایمان آزمائیش میں ڈال دیۓ گۓ اور سخت ہلا مارے گۓ۔ ۲۵ *
۱۲۔۔۔۔۔۔ جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ۲۶ * ہے کہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو وعدے ہم سے کۓ تھے وہ محض فریب تھے ۲۷ *۔
۱۳۔۔۔۔۔۔ جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا اے اہل یثرب ۲۸ * !تمہارے لیۓ ٹھر نے کا کوئی موقع نہیں ہے لہذا لوٹ جاؤ ۲۹ * اور ان میں سے ایک گروہ یہ کہ کر بنی سے اجازت طلب کر رہا تھا کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ غیر محفوظ نہ تھے بلکہ یہ بھاگنا چاہتے تھے ۳۰ *۔
۱۴۔۔۔۔۔۔ اگر شہر کے اطراف سے ان پر چڑھائی ہوتی اور اس وقت ان سے فتنہ میں پڑنے کے لیۓ کہا جاتا تو وہ اس میں جا پڑ تے اور انہیں شکل ہی سے کوئی تامل ہوتا۔ ۳۱ *
۱۵۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ لوگ اس پہلے اللہ سے عہد کر چکے تھے کہ پیٹھ نہ پھیریں گے۔ ۳۲ * اور اللہ سے کیے ہوۓ عہد کے بارے میں ضرور باز پرس ہو گی۔
۱۶۔۔۔۔۔۔ کہو اگر تم موت یا قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہارے لیۓ کچھ بھی مفید نہ ہو گا۔ اور اس کے بعد تم سامان زندگی سے تھوڑا ہی فائدہ اٹھا سکو گے ۳۳ *۔
۱۷۔۔۔۔۔۔ کہو کون ہے جو تم کو اللہ سے بچا سکے اگر وہ تمھیں کو ئی نقصان پہنچانا چاہے یا اس کی رحمت کو روک سکے اگر وہ تم پر مہر بانی کرنا چاہے۔ اللہ کے مقابلہ میں وہ اپنے لیۓ نہ کوئی کار ساز پائیں گے اور نہ مدد گار۔
۱۸۔۔۔۔۔۔اللہ تم میں سے ان لوگوں کو جانتا ہے جو (جنگ کے کاموں میں) رکاوٹیں ڈال رہے تھے اور اپنے بھائیوں سے یہ کہ رہے تھے کہ ہمارے پاس آؤ ۳۴ *۔ اور وہ جنگ میں بہت کم حصّہ لیتے رہے ہیں۔
۱۹ ۔۔۔۔۔۔وہ تمہارا ساتھ دینے میں تنگ دل ہیں ۳۵*۔ جب خطرہ پیش آ جا تا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ وہ تمہاری طرف اس طرح آنکھوں کو پھرا پھرا کر دیکھتے ہیں جیسے کسی شخص پر موت کی غشی طاری ہو گئی ہو ۳۶ *۔ پھر جب خطرہ دور ہو جاتا ہے تو مال حریص بن کر تیز زبانی سے تم سے باتیں کرتے ہیں ۳۷ *۔ یہ لوگ ایمان نہیں لاۓ اس لیۓ اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیۓ ۳۸ *۔ اور یہ اللہ کیے بہت آسان ہے۔۳۹ *
۲۰۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گۓ نہیں ہیں ۴۰ *اور اگر حملہ آور پھر آ جائیں تو یہ چائیں گے کہ وہ دیہات میں بدوؤں کے درمیان ہوں اور وہاں سے تمہاری خبریں معلوم کرتے رہیں ۴۱ *۔ اور اگر یہ تمہارے درمیان رہے بھی تو جنگ میں کم ہی حصہ لیں گے ۴۲ *۔
۲۱۔۔۔۔۔۔ تمہارے لیۓ اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے ۴۳ *۔ ان کے لیۓ جو اللہ اور آخرت کے امیدوار ہوں اور اللہ کو بہ کثرت یاد کریں ۴۴ *۔
۲۲۔۔۔۔۔۔ جب اہل ایمان نے حملہ آوروں گرہوں کو دیکھا تو پکار اٹھے یہ تو وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اللہ اور اس کے رسول نے بالکل سچ فرمایا ہے اور اس چیز نے ان کے ایمان و اطاعت میں اور اضافہ کر دیا ۴۵ *۔
۲۳۔۔۔۔۔۔ ایمان لانے والوں میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے کۓ ہوۓ عہد کو سچا کر دیکھا یا ۴۶ *۔ ان میں سے بعض تو اپنی نذر پوری کر چکے ۴۷ *اور بعض منتظر ہیں ۴۸ *۔ انہوں نے (اس میں) کوئی تبدیلی نہیں کی۔
۲۴۔۔۔۔۔۔ (یہ امتحان اس لیۓ پیش آیا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے یا ان کی تو بہ قبول کر لے ۴۹ *۔ بلاشبہ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔ اور اللہ نے کافروں کو اس حال میں لوٹا دیا کہ وہ غیظ و غضب میں بھرے ہوۓ تھے اور کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکے۔ ۵۰ * اورع مومنوں کی طرف سے لڑنے کے لیۓ اللہ کافی ہو گیا ۵۱ *۔ اللہ بڑی قوت والا اور غالب ہے۔۵۲ *
۲۶۔۔۔۔۔۔ اور اہل کتاب میں جن لوگوں نے ان (حملہ آور گروہوں ) کی مدد کی تھی اللہ نے ان کے قلعوں سے ان کو اتار دیا اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ ایک گروہ کو تم قتل کرتے رہے اور دوسرے گروہ کو تم نے قید کر لیا ۵۳ *۔
۲۷۔۔۔۔۔۔ اور تم کو ان کی زمین ، ان کے گھروں اور ان کے مال کا وارث بنا دیا ۵۴ *۔ اور ایسی زمین کا بھی جس پر ابھی تم نے قدم نہیں ر کھے ۵۵ *۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔ اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہ دہ ۵۶ *۔ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمھیں کچھ دے دلا کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کر دوں ۵۷ *۔
۲۹۔۔۔۔۔۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کے طالب ہو تو لیۓ اللہ نے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے ۵۸ *۔
۳۰۔۔۔۔۔۔ اے نبی کی بیویو ! تم میں سے جو کسی صریح بے حیائی ی مرتکب ہو گی اسے دوہرا عذاب دیا جاۓ گا۔ ۵۹ * اللہ کے لیۓ یہ بات آسان ہے ۶۰ *۔
۳۱۔۔۔۔۔۔ اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار بن کر رہے گی اور نیک عمل کرے گی ہم اس کو دوہرا اجر دیں گے ۶۱ * اور ہم نے اس کے لیۓ با عزت رزق تیار رکھا ہے۔
۳۲۔۔۔۔۔۔ اے نبی کی بیویو ! تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو ۶۲ *۔ اگر تم پرہیز گار ہو تو لوچ کے ساتھ بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہے وہ طمع کرنے لگے ۶۳ *، اور بھلی بات کہو ۶۴ *۔
۳۳۔۔۔۔۔۔اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور سابقہ جاہلیت کی سی نمائش نہ کرو ۶۵ *۔ نماز قائم کرو ، زکوٰۃ دو ۶۶ *۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ تو چاہتا ہے کہ تم اہل بیت سے گندگی کو دور کرے اور تمھیں بالکل پاک کر دے ۶۷ *۔
۳۴۔۔۔۔۔۔ یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں ۶۸ * بے شک اللہ نہایت باریک بیں ۶۹ * اور باخبر ہے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔ یقیناً مسلم مرد اور مسلم عورتیں ، مومن مرد اور مومن عورتیں ۷۰ * ، فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں ۷۱ *، راست باز مرد اور راست باز عورتیں ۷۲ *، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ۷۳ *، (اللہ کے حضور) عاجزی کرنے والے مرد اور عاجز ی کرنے والی عورتیں روزہ ۷۴ *، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں ۷۵ * روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں ۷۶ *اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں ۷۷ *۔۔ اللہ نے ان کے لیۓ مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے ۷۸ *۔
۳۶۔۔۔۔۔۔ کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ کا فیصلہ کر دے تو ان کے لیۓ اپنے معاملہ میں کوئی اختیار باقی رہے ۷۹ *۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔
۳۷۔۔۔۔۔۔ (اے نبی) جب تم اس شخص سے کہ رہے تھے جس پر اللہ نے احسان کیا ہے اور تم نے بھی ۸۰ * کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس (یعنی طلاق نہ دو) اور اللہ سے ڈرو ۸۱ * اور اپنے دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جس کو اللہ ظاہر کرے والا تھا ۸۲ *۔ تم لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو ۸۳ *۔ پھر جب زید اس سے اپنی غرض پوری کر چکا تو ہم نے اس کو تمہاری زوجیت میں دے دیا ۸۴ * تاکہ مومنوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں جب کہ وہ ان سے اپنی غرض پوری کر چکے ہوں کوئی تنگی نہ رہے ۸۵ *۔ اور اللہ کے حکم کو عمل میں آنا ہی تھا۔۸۶ *
۳۸۔۔۔۔۔۔ نبی پر ایسے کام میں کوئی تنگی نہیں جو اس کے لیۓ اللہ مقرر کر دیا ہو ۸۷ *۔ اللہ کی یہی سنت ان (انبیاء)کے معاملہ میں رہی ہے جو پہلے گزر چکے ہیں ۸۸ *اور اللہ کا حکم ایک طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے ۸۹ *۔
۳۹ ۔۔۔۔ وہ اللہ کے پیغامات کو پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں۔ اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۹۰* اور حساب لینے کے لئے اللہ کافی ہے۔، ۹۱*
۴۰۔۔۔۔۔۔ محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ۹۲ *بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۹۳ * اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۹۴ *۔
۴۱۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو ! اللہ کو بہ کثرت یاد کرو ۹۵ *۔
۴۲۔۔۔۔۔۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو ۹۶ *۔
۴۳۔۔۔۔۔۔ وہی ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ وہ تمھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آۓ ۹۷ *۔ وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔ جس دن وہ اس سے ملیں گے ان کا خیر مقدم سلام سے ہو گا ۹۸ *۔ اور ان کے لیۓ اس نے با عزت اجر تیار کر رکھا ہے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔ اے نبی ! ہم ے تمھیں شاہد ۹۹ * (گواہی دینے والا) مبشر ۱۰۰ * (خوش خبری دینے والا) اور نذیر ۱۰۱ * (خبر دار کرنے والا) بنا کر بھیجا ہے۔
۴۶۔۔۔۔۔۔ اور اللہ کی طرف اس کے اذن سے دعوت دینے والا ۱۰۲ *، اور روشن چراغ بنا کر۔۱۰۳ *
۴۷۔۔۔۔۔۔ مومنوں کو خوش خبری دو کہ ان کے لیۓ اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔ اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو ، ان کی ایذا رسانی کی پروا نہ کرو اور اللہ پر توکل کرو۔ اللہ اس بات کے لیۓ کافی ہے کہ اس پر توکل کیا جاۓ۔
۴۹۔۔۔۔۔۔ اے۱۰۴ * ایمان لانے والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمھارے لیۓ ان پر کوئی عدت واجب نہیں جس کو تم شمار کرو۔ مگر انہیں متاع (کچھ مال) دو اور خوب صورتی کے ساتھ رخصت کرو۔۱۰۵ *
۵۰۔۔۔۔۔۔ اے نبی ۱۰۶ * ہم نے تمہارے لیۓ تمہاری ان بیویوں کی جائز کر دیا جن کے مہر تم ادا کر چکے ہو ۱۰۷ * اور ان عورتوں کو بھی جو اللہ کے عطا ر کردہ مال غنیمت میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں ۱۰۸ *۔ اور تمہارے چچا ، تمہاری پھوپھیوں ، تمہارے ماموں اور تمہاری خالاؤں کی ان بیٹیوں کو بھی جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے ۱۰۹ *۔ اور اس مومن عورت کو بھی جس نے اپنے آپ کو نبی کے لیۓ ہبہ کر دیا ہو بہ شرط یہ کہ نبی اس کو اپنے نکاح میں لانا چاہے ۱۱۰ *۔ یہ دوسرے مومنوں کو چھوڑ کو خاص طور سے تمہارے لیۓ ہے ۱۱۱ * ہم کو معلوم ہے کہ ہم نے ان کی بیویوں اور ان کی مملوک عورتوں کے بارے میں ان پر کیا فرض کیا ہے ۱۱۲ * تاکہ تم پر کوئی تنگی نہ رہے ۱۱۳ *۔ اور اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے ۱۱۴ *۔
۵۱۔۔۔۔۔۔ ان میں سے مت جن کو چاہو دور رکھو اور جن کو چاہو اپنے پاس رکھو اور جن کو تم نے الگ رکھا ان میں سے کسی کو تم طلب کرو تو اس میں بھی تمہارے لیۓ کوئی مضائقہ نہیں۔ اس سے اس بات کی زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ بھی تم تم ان کو دو، اس پر وہ سب راضی ہوں گی۔ ۱۱۵* اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگوں کے دلوں میں ہے ۱۱۶ *اور اللہ علم رکنے والا بر دبار ہے۔
۵۲۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد تمہارے لیۓ دوسری عورتیں جائز نہیں ہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کی جگہ دوسری بیویاں کر لو خواہ ان کا حسن تمھیں کتنا ہی پسند ہو ۱۱۷ *۔ سواۓ ان کے جو تمہاری ملکیت میں ہوں ۱۱۸ *۔ (یعنی کنیز ہوں ) اور اللہ ہر چیز پر نگراں ہے۔
۵۳۔۔۔۔۔۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو مگر اس وقت جب تمھیں اجازت دی جاۓ۔ (اجازت ملنے پر) کھانے کی تیاری کے انتظار میں (بیٹھے ) نہ رہو ۱۱۹ * البتہ جب تم کو ( کھانے کے لیۓ) بلا یا جاۓ تو داخل ہو اور جب کھانا کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ ۱۲۰ *۔۔ اور باتیں کرنے میں نہ لگ جاؤ ۱۲۱ *۔ یہ باتیں نبی کے لیۓ تکلیف دہ ہیں مگر وہ تم سے کچھ کہتے ہوۓ لحاظ کرتے ہیں اور اللہ حق بات کہنے میں لحاظ نہیں کرتا ۱۲۲ *۔ اور جب تمھیں نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنا ہو تو پر دہ کے پیچھے سے مانگو۔ ہ طریقہ تمہارے دلوں کے لیۓ بھی زیادہ پاکیزہ ہے اور ان کے دلوں کے لیۓ بھی ۱۲۳ *۔ اور تمہارے لیے ہر گزر روا نہیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت دو اور نہ یہ جائز ہے کہ اس کے بعد بھی کبھی تم ان کی بیویوں سے نکاح کرو ۱۲۴ *۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑی سنگین بات ہے۔
۵۴۔۔۔۔۔۔ تم کوئی بات ظاہر کرد یا چھپاؤ۔ اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔
۵۵۔۔۔۔۔۔ ان پر کوئی گناہ نہیں ہے ان کے بیٹوں ان کے بھائیوں ، ان کے بھیجوں ، ان کے بھانجوں ، ان کی اپنی عورتوں اور ان کے مملوک کے بارے میں ۱۲۵ *۔ اللہ سے ڈرو ، شک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۱۲۶ *۔
۵۶۔۔۔۔۔۔ اللہ اورع اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھجتے ہیں اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو تم بھی ان پر رحمت (درود) و سلام بھیجو۔ ۱۲۷ *۔
۵۷۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر اللہ نے دنیا و آخرت میں لعنت کی ہے ۱۲۸ * اور ان کے لیۓ رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔
۵۸۔۔۔۔۔۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو ان باتوں پر اذیت دیتے ہیں جن کا ارتکاب انہوں نے نہیں کیا وہ اپنے سر ایک بہتان اور صریح گناہ کا بار لیتے ہیں ۱۲۹ *۔
۵۹۔۔۔۔۔۔ اے نبی ! اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کھ دہ کہ اپنے اوپر اپنی چادریں ڈال لیا کریں یہ اس لحاظ سے زیادہ مناسب ہے کہ ان کی شناخت ہو جاۓ اور ستائی نہ جائیں۔ ۱۳۰ * اور اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے ۱۳۱ *۔
۶۰۔۔۔۔۔۔ منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ۱۳۲ * ہے اور جو مدینہ میں جھوٹی افواہوں پھیلاتے ہیں اگر باز نہ آۓ تو ہم تمھیں ان کے خلاف اٹھا کھڑا کریں گے پھر وہ اس (شہر) میں تمہارے ساتھ کم ہی رہ سکیں گے ۱۳۳۲ *۔
۶۱۔۔۔۔۔۔ ان پر لعنت ہو گی۱۳۴ * اور جہاں کہیں پاۓ جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بری طرح قتل کیے جائیں گے ۱۳۵ *۔
۶۲۔ یہ اللہ کی سنت (قاعدہ) رہی ہے ان لوگوں کے معاملہ میں جو پہلے گزر چکے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ ۱۳۶ *
۶۳۔ لوگ تم سے قیامت کی گھڑی کے بارے میں پوچھتے ہیں کہو اس کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ اور تمہیں کیا خبر شیاد وہ گھڑی قریب آ لگی ہو۔ ۱۳۷ *
۶۴۔ یقیناً اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ ۱۳۸ *
۶۵۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ انہیں نہ کوئی دوست ملے گا اور نہ مدد گار۔
۶۶۔ جس دن ان کے ہرے آگ میں الٹ لٹ کر دیئے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کاش ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ کی اور اطاعت کی ہوتی رسول کی ۱۳۹ *
۶۷۔ اور کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہ سے گمراہ کر دیا۔۱۴۰ *
۶۸۔ اے ہمارے رب! ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت کر۔۱۴۱ *
۶۹۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو اذیت دی مگر اللہ نے اس کو ان کی اذیت دہ باتوں سے بَری کر دیا اور وہ اللہ کے نزدیک با وقار تھا۔ ۱۴۲ *
۷۰۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو۔۱۴۳ *
۷۱۔ وہ تمہارے اعمال درست کرے گا۱۴۴ *اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا ۱۴۵ * اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔
۷۲۔ ہم نے (اپنی) امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بلاشبہ وہ بڑا ظالم اور جاہل واقع ہوا ہے ۱۴۶ *
۷۳۔ تاکہ اللہ منافق مردوں اور عورتوں کو اور مشرف مردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے ۱۴۷ * اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے۔ ۱۴۸ * اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۱۔۔۔۔۔۔ نبی کے معنی ہیں اللہ کے بارے میں خبر دینے والا (لسان العرب ، ج ۱ ص ۱۶۲) اور قرآن کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ شخص ہے جس پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہو اور وہ اس خاص ذریعہ علم کی بنا پر لوگوں کو اللہ کے بارے میں خبریں دیتا ہو اور اس کے احکام سناتا ہو۔
یہاں خطاب قرآن کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔ قرآن میں آپ کو آپ کے نام کے ساتھ کہیں بھی خطاب نہیں کیا گیا ہے بلکہ منصب نبوت کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے یعنی "یا محمد" نہیں کہا گیا ہے بلکہ یا ایہا النبی فرمایا گیا ہے جس سے شان نبوت کا اظہار بھی ہوتا ہے اور آپ کے بارے میں خاص آداب کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت بھی ملتی ہے کیونکہ آپ وقت کے نبی ہیں۔
۲۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ تاکیدی حکم ایک ایسے موقع پر دیا گیا جب کہ عائلی زندگی (Family Life) سے متعلق ایک مسئلہ میں اصلاحی قدم اٹھانا ضروری تھا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شریعت آپ کی من گھڑت چیز نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مبنی ہے جس کی پابندی آپ پر بھی لازم تھی۔
آیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی شرعی حکم کی تعمیل میں جب کہ وہ رائج الوقت طور طریقہ کے خلاف ہو کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے اور نہ کافروں اور منافقوں کے طنز و تشنیع اور ان کی طرف سے کیے جانے والے غلط پروپیگنڈہ کی کوئی پروا کرنا چاہیے بلکہ اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرنا چاہیے کہ ایسی تمام باتیں بے وزن قرار پائیں۔
۳۔۔۔۔۔۔۔ اللہ علم و حکمت والا ہے اس لیے اس کے نازل کردہ شرعی احکام سر تا سر علم و حکمت پر مبنی ہیں۔
۴۔۔۔۔۔۔ وحی الٰہی کی اتباع کا حکم بی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی دیا گیا ہے اور آپ کے توسط سے تمام لوگوں کو بھی۔ اس وحی نے جو آپ پر نازل ہوئی انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے دائرہ میں لے لیا ہے اس لیے اتباع کا مطلب مخصوص مذہبی معاملات ہی میں اتباع کرنا نہیں بلکہ تمام معاملات میں تباع کرنا ہے۔ اس اصولی ہدایت کے پیش نظر زندگی کو سیکولر اور غیر سیکولر خانوں میں تقسیم کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
۵ ۔۔۔۔۔۔ یعنی احکام الٰہی پر چلنے کی بنا پر جن مخالفتوں کا تمہیں سامنا کرنا پڑے ان کا کوئی اثر قبول نہ کرو بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھو کہ وہ تمہارے کام بناۓ گا اور تمہیں با مراد کرے گا۔
توکل صالح عقیدہ کا ثمرہ ہے۔ یہ قلب کو یقین سے بھر دیتا اور حق پر جما دیتا ہے۔
۶ ۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس ساخت میں پیدا کیا ہے اس کے لحاظ سے اس کے اندر ایک ہی شخصیت کار فرما ہے۔ لہٰذا ایک عورت اپنی اولاد کی تو ماں ہے لیکن اس کے شوہر کے اس کو ماں کہہ دینے سے وہ اس کی ماں نہیں بن جاتی۔ اسی طرح ایک شخص کی اولاد وہ ہے جو اس کے صلب سے پیدا ہوئی لیکن کسی کو محض بیٹا کہہ دینے سے نہ وہ اس کا باپ بن جاتا ہے اور نہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا۔
اس کے علاوہ اس فقرہ میں یہ معنی بھی مضمر ہیں کہ ہر شخص میں اس کی اپنی خلقت کے اعتبار سے عزم و ارادہ رکھنے والی ایک ہی شخصیت(نفس) کار فرما ہے لہٰذا وہ یا تو مومن ہو سکتا ہے یا کافر بھی لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے کو مؤمن ظاہر کرتا ہے اور اپنے دل میں کفر کو چھپاۓ ہوۓ ہے تو وہ حقیقت میں کافر ہے اور متضاد باتیں اپنے اندر جمع کرنے کی بنا پر منافق کہلانے کا مستحق ہے۔
۷۔۔۔۔۔۔ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتا کہ تو میرے لیے ماں کی پیٹھ (ظہر) کی طرح ہے تو وہ اس کے لیے حرام ہو جاتی۔ پھر وہ اس سے نہ زوجیت کا تعلق رکھ سکتا تھا اور نہ اس کو طلاق قرار دے سکتا تھا۔ قرآن نے جاہلیت کے اس طریقہ کی اصلاح فرمائی جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور اس کے بارے میں تفصیلی حکم سورہ مجادلہ میں بیان ہوا ہے۔
یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ کسی شخص کے اپنی بیوی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی کیونکہ یہ بات خلاف واقعہ ہے اس لیے ایسی بات کہنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
۸۔۔۔۔۔۔ زمانہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹوں (متبنیٰ۔ لے پالک) کو صلبی (حقیقی) بیٹوں کا درجہ دے دیا گیا تھا کوئی شخص اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے اس کے طلاق دینے کے بعد نکاح نہیں کر سکتا اور منہ بولا بیٹا اس کا وارث ہوتا تھا۔ مگر چونکہ کسی کو بیٹا کہہ دینے سے وہ حقیقت میں بیٹا نہیں بن جاتا اس لیے صلبی بیٹے سے متعلق جو شرعی احکام ہیں وہ اس پر منطبق نہیں ہوتے۔ یہ آیتوں اس رسم کی اصلاح کے سلسلے میں نازل ہوئیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اصلاح کے لیے عملی نمونہ بھی پیش فرمایا جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔
واضح رہے کہ اسلام اس بات سے نہیں روکتا کہ کوئی مسلمان اپنے گھر میں کسی یتیم، لا وارث یا نادار بچہ کی پرورش کرے بلکہ وہ اسے بہت بڑی نیکی قرار دیتا ہے لیکن وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کو حقیقی بیٹا قرار دیا جاۓ۔ اس سلسلہ میں اس نے درج ذیل پابندیاں عائد کی ہیں :
۱)۔ لڑکے کو اس کی باپ کی نسبت سے پکارا جاۓ یعنی اس کی ولدیت اس کے حقیقی باپ کی طرف ہو۔
۲)۔ اس کی بیوی پرورش کرنے والے کی بہو نہیں ہو جاتی کہ اس کے طلاق دینے یا مر جانے کے بعد اس کے ساتھ اس کا نکاح نہ ہو سکتا ہو۔
۳)۔ وہ اپنے پرورش کرنے والے کا وارث نہیں ہو سکتا البتہ پرورش کرنے والا اگر اس کے حق میں وصیت کرنا چاہے تو وصیت کے اسلامی قانون کے مطابق ایک تہائی کی حد تک وصیت کر سکتا ہے۔
۴)۔ وہ گھر کی خواتین کے لیے نا محرم ہو گا اور اس کے بالغ ہو جانے کے بعد ان کو اس کے معاملہ میں بھی "پردہ" کی ان پابندیوں کا لحاظ کرنا ہو گا جو نا محرموں کے سلسلہ میں ان پر شریعت نے عائد کی ہیں۔
موجودہ دور میں سیکولر حکومتیں ایسی قانون سازی کرتی ہیں کہ لے پالک (Adopted Son) کو حقیقی بیٹے کا درجہ حاصل ہو جاۓ اور اس کو نادار اور بے کس بچوں کے ساتھ ہمدردی اور ان کی کفالت کے مسئلہ کے حل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر اس سے عائلی زندگی میں جو بے اعتدالیاں ہو جاتی ہیں اور خونی رشتہ داروں کی جو حق تلفی ہو جاتی ہے اس کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے جب کہ نادار اور بے کس بچوں کے ساتھ ہمدردی اور ان کی کفالت کے مسئلہ کو حال کرنے کی دوسری مناسب صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں اور یہ وہی صورتیں ہو سکتی ہیں جو شرعی حدود سے تجاوز نہ ہوں۔
۹۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی باتوں کو شریعت کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔
۱۰۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ ہی کی رہنمائی حق ہے اور اس کے مقابلہ میں کسی بھی رسم اور قانون کی رہنمائی باطل ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔ یعنی منہ بولے بیٹے کو اس شخص کی نسبت سے نہ پکارو جس نے اس کی پرورش کی ہے بلکہ اس کو اس کے حقیقی باپ کی نسبت سے پکارو کہ اس سے نسبت بھی ثابت ہوتا ہے اور ہر پہلو سے یہ منصفانہ بات ہے۔ حضرت زید کی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بیٹے کی طرح پرورش کی تھی اس لیے انہیں لوگ زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے مگر اس آیت کے نزول کے بعد انہیں زید بن حارثہ کہہ کر پکارنے لگے۔
اس آیت سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ آدمی کو اپنا نسب باپ کے تعلق سے ظاہر کرنا چاہیے یعنی فلاں ابن فلاں یا فلاں بنت فلاں۔ اور حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن فلاں ابن فلاں کہہ کر ہی پکارا جاۓ گا۔ اس سلسلہ میں ایک استثناء حضرت عیسیٰ کا ہے۔ انہیں عیسیٰ بن مریم اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوۓ تھے۔
ہندوستان میں عورتیں شادی کے بعد اپنے کو شوہروں کی طرف منسوب کر کے اپنا نام فلاں زوجہ فلاں لکھتی ہیں جب کہ زوجیت کا رشتہ ضروری نہیں کہ مستقل ہو مگر باپ کا رشتہ مستقل ہوتا ہے اس لیے اسلامی طریقہ یہ ہے کہ عورتیں اپنا نام اپنے باپ کی صراحت کے ساتھ لکھیں یعنی فلاں بنت فلاں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کے نام بھی ان کے باپوں ہی کی طرف منسوب کر کے لیے جاتے ہیں یعنی حضرت عائشہ بنت ابوبکر اور حفصہ بنت عمر کہا جاتا ہے جب کہ حضرت فاطمہ کو فاطمہ بنت محمد۔
۱۲۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ واقعہ کے مطابق بھی ہے اور اس سے ان کے حقیقی باپوں کی حق تلفی بھی نہیں ہوتی۔
۱۳۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر کسی کا باپ معلوم نہ ہو تو اسے کسی اور کا بیٹا کہہ کر نہ پکارو بلکہ ان کے معاملہ میں دینی اخوت اور رفاقت کے رشتہ کا اظہار کرو۔ اسلام جھوٹا نسب بیان کرنے پر سخت گرفت کرتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے :
مَنْاِدَّ عیٰ اِکیٰ غَیْرِ اَبِیْہِ وَھُوَیَعْلَمُ اَنَّہٗ غَیرُ اَبیْہِ فالجنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَام ٌ (مسلم کتاب الایمان)۔ " جس نے اپنے کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کیا در آنحالیکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے "۔
لیکن ساتھ ہی نا معلوم باپوں کی اولاد کی تحقیر سے بھی روکتا ہے اور ان کو اپنا دینی بھائی اور رفیق کہنے کی ترغیب دیتا ہے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔ یعنی لاعلمی کی بنا پر یا قصد کے بغیر تم سے جو غلطیاں سر زد ہو گئیں ان پر کوئی گرفت نہیں ہو گی لیکن اگر تم نے قصداً غلط بیانی سے کام لیا تو اس پر ضرور گرفت ہو گی۔
۱۵۔۔۔۔۔۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا تعلق اہل ایمان کے ساتھ سب سے زیادہ فوقیت رکھنے والا ہے اس بنا پر بھی کہ یہ ایمان کا تقاضا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ آپ ان کی ذات سے زیادہ ان کے خیر خواہ ہیں۔ لہٰذا اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ اپنی ذات پر آپ کو مقدم رکھیں ، آپ سے والہانہ محبت رکھیں آپ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھیں ، اپنی جانوں پر کھیل کر آپ کی حفاظت کریں اور آپ کے تمام فیصلوں کو بے چوں و چرا تسلیم کریں۔ حدیث میں آتا ہے :
لَایُؤْمِنْ اَحْدُ کُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَ لَدِہِ وَالنَّاسِ اجْمَعِینَ۔(بخاری کتاب الایمان) " تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے والد،اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں "۔
۱۶۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اہل ایمان کے تعلق کی جو مخصوص نوعیت ہے اس کا یہی تقاضا تھا کہ آپ کی بیویاں اہل ایمان کے لیے ماں کے درجہ میں ہوں اور آپ کے بعد ان سے نکاح کرنا حرام ہو چنانچہ آگے آیت ۵۳ میں صراحت کے ساتھ اس کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
ازواج مطہرات کو امہات المؤمنین کا درجہ دے کر امت کے اندر ان کے خاص مقام اور ان کے ناموس و احترام کو غایت درجہ ملحوظ رکھنے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ کسی مسلمان کی کوئی بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے اذیت کا باعث نہ بنے (وَمَا کَنَ لَکُمْ اَنْ تُؤ ذُو ا رَسُولَ اللہ آیت ۵۳) لیکن افسوس ہے کہ اس واضح ہدایت کے باوجود مسلمانوں کے ایک فرقہ نے حضرت علی کی شان میں غلو کر کے حضرت عائشہ صدیقہ کو ملامت کا نشانہ بنایا۔ یہ لوگ اپنے فرقہ کے عقائد کو صحیح مان کر اپنے ذہنی تحفظات کے ساتھ جب قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو جہاں ان کو اپنے عقائد کے خلاف کوئی بات محسوس ہوتی ہے اس کی الٹی سیدھی تاویل کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس طرح قرآن پڑھ کر بھی وہ بھٹکتے ہی رہتے ہیں۔
۱۷۔۔۔۔۔۔ یعنی جہاں تک وراثت کا تعلق ہے اللہ کے قانون کے مطابق رحمی (خونی) رشتہ دار ہی وارث قرار پائیں گے یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ازواج مطہرات کو امہات المؤمنین کا نیز یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارگی کا جو رشتہ قائم کر دیا گیا تھا اور جس کی بنا پر انصار نے اپنے مال میں مہاجرین کو باربر کا شریک کر لیا تھا وہ عارضی تھا۔ اس رشتہ کی بنا پر وہ وراثت میں ایک دوسرے کے شریک نہیں ہو سکتے کیونکہ اسلام کا مستقل وراثتی قانون رحم اور خون کے رشتہ کو وراثت کے لیے بنیاد قرار دیتا ہے۔ البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ بھلائی کی دوسری مناسب صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں مثلاً اپنی زندگی ہی میں ان کو کچھ دے دینا یا ان کے حق میں ترکہ کے ایک تہائی حصہ کی حد تک وصیت کرنا۔
۱۸۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس قانون وراثت کی طرف جو سورہ نساء میں بیان ہوا ہے نیز سورہ انفال آیت ۷۵ میں بھی رحمی رشتہ داروں کے معاشرتی حقوق کو اولیت دی گئی ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔ عہد (میثاق) سے مراد جیسا کہ آیت کے سیاق و سباق (Context) سے واضح ہے فرائض نبوت کو ادا کرنے کا عہد ہے۔ جس کی پابندی منصب نبوت پر مامور ہونے کی بنا پر عائد ہوتی ہے۔ ان فرائض میں لوگوں کی پرواہ کیے بغیر محض اللہ سے ڈرتے ہوۓ اس کی وحی کی پیروی کرنا بھی شامل ہے اور لوگوں تک بے کم و کاست اللہ کے پیغام کو پہنچا دینا اور اس کے دین کو واضح کرنا بھی شامل ہے۔ اس سورہ کی آیت ۲ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی الہٰی کی خود اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور آگے آیت ۳۹ میں یہ صراحت کر دی گئی ہے کہ انبیاء اللہ کے پیغامات کو پہنچاتے ہیں اور سی سے ڈرتے ہیں وہ اللہ کے پیغامات کو پہنچاتے ہیں اور اسی سۓ ڈرتے ہیں۔ وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ آیت میں انبیاء سے لیے ہوۓ عہد کا عمومیت کے ساتھ ذکر کرتے ہوۓ جلیل القدر انبیاء کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن انبیاء سے سوال کیا جاۓ گا کہ انہوں نے سچائی کے ساتھ وحی الہٰی پر عمل کیا یا نہیں اور لوگوں کو اس کے پیغامات ٹھیک ٹھیک پہنچاۓ یا نہیں۔ سورہ اعراف میں ارشاد ہوا ہے :
فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اَرْسِلَ اِ لَیْھِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ (اعراف : ۶) " ہم ان لوگوں سے ضرور باز پرس کریں گے جن کی طرف پیغمبر بھیجے گۓ اور یقیناً ہم پیغمبروں کے ذریعہ اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہو جاۓ گی تو جو لوگ کفر کریں گے ان کو درد ناک سزا بھگتنا ہو گی۔
۲۲۔۔۔۔۔۔ یہ اشارہ ہے غزوہ خندق کی طرف جا میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اہل ایمان کے لیے نازل ہوئی اور نہایت قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود دشمن کی فوجیں ان کو زیر نہ کر سکیں بلکہ مقابلہ کیے بغیر ان کو واپس لوٹنا پڑا۔
یہ غزوہ جسے غزوہ احزاب بھی کہتے ہیں شوال ۵ ھ ...(۶۲۷ ء) میں پیش آیا۔ یہود کے قبیلہ بنی نضیر نے مدینہ سے اپنے جلا وطن ہونے کے بعد کفار کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکسایا چنانچہ حُیَی بن اخطب جو بنی نضیر کا سردار تھا ایک وفد کے ساتھ مکہ پہنچا اور قریش کو اس بات کے لیے آمادہ کیا کہ وہ متحدہ محاذ بنا کر مدینہ پر حملہ آور ہوں۔ پھر نجد کا رخ کر کے قبیلہ غَطفَان کو بھی جنگ کے لیے آمادہ کیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ ے حضرت سلمان کے مشورہ پر مدینہ کے شمالی اور مغربی جانب جہاں سے دشمن مدینہ میں داخل ہو سکتے تھے تقریباً دو کلو میٹر لمبی خندق کھدوائی (غزوۃ الاحزاب۔ محمد احمد باشمیل ص ۱۶۲) اور اس کام میں جس کو صحابہ کرام نہایت جاں فشانی کی ساتھ انجام دے رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بنفس نفیس شریک ہوۓ۔ خندق کے اس طرف سلع پہاڑی کو پشت کر کے مسلمان صف آراء ہوۓ جو تعداد میں تقریباً تین ہزار تھے جن میں ایک تعداد منافقین کی بھی شامل تھی۔ خندق کے اس پار قریش بنی کنانہ کے ساتھ پہنچے اور نجد سے غَطَفان، ھوازن اور دیگر قبائل۔ اس طرح دس ہزار کا لشکر جرار جوہر طرح مسلح تھا مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے جمع ہو گیا ادھر یہود کے ایک قبیلہ بنی قریظہ نے جو مدینی کے مشرقی جانب آباد تھے اور جن کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ تھا عین وقت پر عہد شکنی کی اور کفار کی تائید کے لیے کھڑا ہو گیا۔ کفار کا یہ محاصرہ تقریباً ایک ماہ تک رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی فوجیں اتار کر ان کو ایسا مرعوب کر دیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کر سکے اور ایسی تند اور سرد ہوا بھیجی کہ کفار کے نہ صرف خیمے اکھڑ گۓ بلکہ پاؤں بھی اکھڑ گۓ۔ سخت آندھی نے آگ بجھا دی اور ایسا اندھیرا ہو گیا کہ انہیں کچھ سمجھائی نہ دیتا تھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر قریش نے واپسی لوٹ گۓ۔ دشمن کے واپس ہونے پر مسلمان سلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ گۓ۔ اللہ کی نصرت اس کے نبی اس کی نوبت ہی نہیں آئی اور کفار کا سارا منصوبہ خاک میں مل کر رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ کا یہی وہ احسان ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے اور یہ اتنا بڑا احسان تھا کہ پھر کفار مدینہ پر کبھی چڑھائی نہ کر سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کفار کے ناکام لوٹ جانے پر فرمایا تھا : لَنْ تغزُو قُریشُ بَعْدَ عَا مِکُمْ وَلَکَنَّکُمْ تَغْزُ وَفھُمْ ، کہ قریش اب کبھی تم پر چڑھائی نہ کر سکیں گے۔ اب تم ان پر چڑھائی کرو گے اور یہ بات حرف بحرف پوری ہوئی۔ کفار پھر کبھی مدینہ کا رخ نہ کر سکے۔ البتہ مسلمان اس پوزیشن میں ہوۓ کہ مکہ کا رخ کر کے اسے فتح کر لیں۔
واضح ہو کہ اہل ایمان اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اٹھیں تو اللہ تعالیٰ غیر معمولی طریقہ پر ان کی مدد فرماتا ہے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔ اوپر کی طرف سے یعنی مدینہ کی مشرقی جانت سے اور نشیب کی طرف سے یعنی مدینہ کی مغربی جانت سے مدینہ کا بالائی علاقہ مشرق کی طرف ہے اور نشیبی علاقہ مغرب کی طرف۔ مشرق کی طرف سے غطفان اور ہوازن وغیرہ کی فوجیں آ گئی تھیں اور مغرب کی طرف سے قریش اور بنی کنانہ وغیرہ کی۔
۲۴۔۔۔۔۔۔ یہ پیرایہ بیان اس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جو شدت خوف کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی۔ بلاغت کے تقاضے کے تحت عام مسلمانوں کو مخاطب کر کے یہ بات کہہ دی گئی ہے لیکن مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے ایمان میں کمزور تھے۔ مخلص مؤمنوں کا حال اس سے مختلف تھا جیسا کہ آیت ۲۲ اور ۲۳ میں بیان ہوا ہے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔ یعنی جنگ خندق کے موقع پر جن شدید حالات کا مسلمانوں و سامنا کرنا پڑا ان میں بہت بڑی مصلحت کار فرما تھی اور وہ یہ کہ اہل ایمان کو سخت آزمائش میں ڈال کر دیکھا جاۓ کہ کون اپنے ایمان میں مخلص ہے اور کون نفاق اور دک کی بیماری میں مبتلا ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔ روگ سے مراد شک کی بیماری ہے قرآن اور پیغمبر کے بارے میں شک کرنے والے یہی منافقین تھے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی مدد اور غلبہ و کامرانی کے وعدے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔ یثرب مدینۃ النبوی کا پرانا نام ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔ یعنی تم اس پوزیشن میں نہیں ہو کہ جو لشکر تمہارے خلاف امنڈ آیا ہے اس کا مقابلہ کر سکو۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ تاکہ جنگ کی نوبت نہ آۓ۔
۳۰۔۔۔۔۔۔ مدینہ میں عورتوں اور بچوں کو محفوظ قلعوں میں منتقل کر دیا گیا تھا اس لیے منافقین کا یہ عذر صحیح نہ تھا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں لہٰذا ہمیں جانے کی اجازت دی جاۓ۔ دراصل ان میں دشمن کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں تھی اس لیے وہ محاذ چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتے تھے اور بہانا یہ بنا لیا تھا کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں۔
۳۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر مدینہ میں دشمن گھس پڑتے اور ان لوگوں سے فتنہ کی کوئی بات کہتے مثلاً یہ مطالبہ کرتے کہ پیغمبر کے ساتھیوں کو قتل کرنے میں ہمارا ساتھ دو یا یہ مطالبہ کرتے کہ اسلام سے پھر جاؤ تو انہیں ان کے اس مطالبہ کو پورا کرنے میں مشکل ہی سے کوئی تامل ہوتا کیونکہ وہ اپنے ایمان ہیں مخلص نہیں ہیں۔
۳۲۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ان لوگوں نے غزوہ احد کے موقع پر جو کمزوری دکھائی تھی اس کے بعد وہ اپنی ندامت کو دور کرنے کے لیے کہتے رہے کہ اگر اللہ نے اب کوئی موقع پیدا کر دیا تو وہ جم کر لڑیں گے اور ہر گز پیٹھ نہیں پھیریں گے۔ مگر جب غزوہ خندق میں دشمن کے مقابلہ میں ڈٹ جانے کا موقع آیا تو بھاگ جانے کے لیے بہانے ڈھونڈنے لگے۔
۳۳۔۔۔۔۔۔ یعنی موت یا قتل موت یا قتل ہو جانے کے اندیشہ سے جنگ سے فرار اختیار کرنا جب کہ وہ ایک دینی فریضہ ہو بالکل بے فائدہ بات ہے کیونکہ اس صورت میں اگر جینے کا موقع مل بھی گیا تو وہ بہت تھوڑا ہو گا اور بالآخر لوٹنا اللہ ہی کے حضور ہو گا اور اس طرز عمل کا نتیجہ محرومی اور ناکامی ہی کی شکل میں سامنے آۓ گا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی راہ میں جان کا خطرہ مول لینے کی ترغیب دیتے ہوۓ بڑی حقیقت افروز بات ارشاد فرمائی تھی:
"جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے اسے کھوۓ گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوۓ گا اسے پاۓ گا۔ اور اگر آدمی ساری دنیا حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اٹھاۓ اسے کیا فائدہ ہو گا"؟ (مری ۲۵:۱۶ ، ۲۶)۔
۳۴۔۔۔۔۔۔ مراد منافقین ہیں جو مسلمانوں کی دفاعی لائن میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے اور دوسروں کو محاذ سے ہٹا کر اپنے ساتھ ملا لینا چاہتے تھے۔ یہ ان کی کھلی غداری تھی۔
۳۵۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ تمہاری مدافعت کے لیے کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔ ان کو نہ تمہارا (سچے مسلمانوں کا) کوئی درد ہے اور نہ وہ تمہارے لیے کوئی قربانی دے سکتے ہیں۔
۳۶۔۔۔۔۔۔ یہ منافقین کی بزدلی اور ان کی گھبراہٹ کی تصویر ہے۔ جنگ کے موقع پر جب کوئی خطرناک صورت پیش آ جاتی تو ان کی بد حواسی کا یہ علم ہوتا کہ گویا ان پر موت کی غشی طاری ہو گئی ہے۔ اگر وہ اپنے ایمان میں مخلص ہوتے تو اللہ کی راہ میں پا مردی سے جہاد کرتے اور کفار کا مردانہ وار مقابلہ کرتے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔ یعنی جنگ ختم ہو جانے کے بعد جب مال غنیمت کی تقسیم کا موقع آ جاتا تو مال کے حریص بن کر سامنے آتے ہیں اور تند و موقع آ جاتا تو مال کے حریص بن کر سامنے آتے ہیں اور تند و تیز لہجہ میں مال غنیمت میں اپنے حصہ دار ہونے کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف سخت شکایتیں کرتے ہیں۔
۳۸۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن در حقیقت یہ ایمان نہیں لاۓ ہیں۔ اگر یہ دل سے ایمان لاتے تو جہاد میں ان کا طرز عمل اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ بے وفائی کا نہ ہوتا۔ اور جب ان کے دل ایمان سے خالی ہیں تو ان کی تمام ظاہری نیکیاں اکارت گئیں ان کا کوئی اجر ان کو ملنے والا نہیں۔
اس سے یہ اہم حقیقت واضح ہوئی کہ جو لوگ اپنے کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں مگر دل سے ایمان نہیں لاتے وہ اگر نیکی کے کام کرتے ہیں خواہ وہ نماز ہو یا جہاد تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان ہی اعمال کو قبول فرماتا ہے جو ایمان لا کر خالصتہً اس کی رضا جوئی کے لیے کیے گۓ ہوں۔ '
مسلمانوں کی موجودہ سوسائٹی میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو منافقوں کے نقوش قدم پر ہیں خصوصاً جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں۔ ان کا طرز عمل ایمان کے تقاضوں کے صریح خلاف ہوتا ہے لیکن چونکہ دلوں کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے اس لیے ان کے دعوے کی بنا پر ان کو دنیا میں مسلمان سمجھا جاتا رہے گا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ کے نزدیک بھی وہ مسلمان ہی قرار پائیں گے اگر ان کے دل ایمان سے خالی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انکے دعواۓ اسلام کو بے حقیقت قرار دے گا اور ان کی نیکیاں ان کے منہ پر دے ماری جائیں گی خواہ وہ نماز ، حج اور جہاد جیسی بڑی بڑی نیکیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ جسم بے کار ہے اگر اس کے اندر روح موجود نہ ہو۔ اسی طرح نیک اعمال کا وجود بے کار ہے اگر ان کے اندر ایمان کی روح موجود نہ ہو۔
۳۹۔۔۔۔۔۔ یعنی کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ان کی نیکیاں اللہ تعالیٰ کس طرح ضائع کرے گا۔ اس کے لیے ایسا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ نہ تو کسی کی سفارش اس کے لیے رکاوٹ بن سکے گی اور نہ ایسا کرنا عدل و انصاف کے خلاف ہو گا۔
۴۰۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ منافقین کافروں کے لشکر سے ایسے مرعوب اور دہشت زدہ ہو گۓ ہیں کہ اگر چہ حملہ آور گروہ ناکام واپس ہو چکے ہیں مگر ان لوگوں کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اِدھر ادھر کہیں موجود ہیں اور ان کے دو بارہ حملہ آور ہونے کا اندیشہ ہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اب ان کی خواہش یہ ہے کہ اگر کفار کے لشکر دوبارہ مدینہ پر حملہ آور ہوۓ تو اس موقع پر یہ شہر میں موجود ہی نہ رہیں بلکہ دیہات میں جا کر بدوؤں کے درمیان رہیں تاکہ مقابلہ کی نوبت نہ آۓ اور وہاں رہ کر ہی مسلمانوں کے حالات معلوم کرتے رہیں کہ انہیں کفار کے ہاتھوں شکست ہوئی یا نہیں۔
۴۲۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کو نہ جہاد سے دلچسپی ہے اور نہ وہ کوئی قربانی دینے کے لیے آمادہ ہیں۔ ان کی جنگ میں شرکت محض نمائشی اور حالات کے دباؤ کا نتیجہ ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ اس زمانہ میں مدینہ قبائلی سسٹم تھا اور اَوس و خَزْرج دو بڑے قبیلے تھے۔ جب ان قبیلوں نے اسلام قبول کیا تو ان افراد کے لیے جو اسلام قبول کرنا نہیں چاہتے تھے ایک مسئلہ پیکا ہو گیا اور وہ یہ کہ اس صورت میں قبیلہ کے مذہب سے الگ رہنے کی بنا پر ان کا اس قبیلہ میں کوئی مقام نہ ہو گا اور سماجی مسائل بھی پیدا ہو جائیں گے اس لیے انہوں نے مصلحت اس میں سمجھے کہ دل کے انکار کے باوجود اپنے کو مسلمانوں میں شامل کر لیں۔ اس کے بعد وہ ان ذمہ داریوں کو نبھا نہ سکے۔ جو مسلمان ہونے کی سے ان پر عائد ہوتی تھیں اس ان کا نفاق کھلتا ہی چلا گیا۔
۴۳۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے رسول نے اس موقع پر جو تکلیفیں اٹھائیں جو خطرات مول لیے ، محاذ پر جس طرح ڈٹے رہے اور جو پا مردی دکھائی اس میں رسول کے پیروؤں کے لیے بہترین نمونہ تھا لہٰذا تمہیں اس موقع پروہ کچھ کرنا چاہیے تھا جو اللہ کے رسول نے کیا۔
آیت کا اشارہ اگرچہ اس خاص واقعہ کی طرف ہے لیکن الفاظ کی عمومیت ایک نہایت ہی اہم اور اصولی بات پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ کہ رسول کا طرز عمل مطلقاً اہل ایمان کے لیے نمونہ ہے لہٰذا انہیں چاہیے کہ رسول کی زندگی کو سامنے رکھیں اور "اسوہ حسنہ " کی پیروی کریں۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ سے تجاوز کر کے اگر کسی نے کوئی طرز عمل اختیار کیا ہے تو وہ مسلمانوں کے لیے لائق اِتباع نہیں ہے خواہ وہ زاہدوں اور عابدوں کا ہو یا صوفیوں کا۔
۴۴۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرنے والے در حقیقت وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ سے ملاقات کے امیدوار ہوں ، روز آخر جزا کی توقع رکھتے ہوں اور جن کے دلوں میں اللہ کی یاد بس گئی اور زبانیں اس کے ذکر سے تر ہوں۔ جو لوگ اس وصف سے خالی ہوں ان میں یہ حوصلہ نہیں ہو سکتا کہ پر خطر حالات میں رسول کا ساتھ دیں۔ اور اس کے اسوہ حسنہ کو مانے رکھتے ہوۓ اپنے کردار کو ڈھالیں۔
آج مسلمانوں میں تو ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ حسنہ کی تعریف تو خوب کریں گے لیکن اس کو اپنے لیے رہنما نہیں بنائیں گے بلکہ جو گمراہ لوگ اپنی زندگیوں کا بد ترین نمونہ " اسوہ سیئہ" پیش کر رہے ہیں اس کو قبول کریں گے تاکہ ان کی دنیا بھی بن جاۓ اور دنیا والے بھی ان سے خوش رہیں !
۴۵۔۔۔۔۔۔ غزوہ احزاب کے موقع پر مخلص مؤمنوں کا جو کردار رہا اس کو یہاں نمایاں کیا گیا ہے جس ان کی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ وفاداری پاس عہد، حوصلہ مندی اور قربانیوں کے لیے مستعدی کا اظہار ہوتا ہے۔ منافق تو جیسا کہ آیت ۱۱ اور ۱۲ میں بیان ہوا ہے۔ کافروں کے لشکر جرار کو دیکھ کر اللہ ہی سے بد گمان ہو گۓ اور کہنے لگے اللہ اور اس کے رسول کا وعدہ محض فریب تھا لیکن سچے مؤمنوں کی زبان سے یہ ایمان افروز کلمات نکلے کہ "یہ تو وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا"۔ یہ اشارہ تھا اس بات کی طرف کہ کامیابی کی راہ آزمائشوں سے ہو کر ہی گزرتی ہے جیسا کہ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے :
"کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں ان لوگوں کے سے حالات سے سابقہ پیش آیا ہی نہیں جو تم سے پہلے گزرے ہیں " (بقرہ۔ ۲۱۴)
اور سورہ عنکبوت میں فرمایا ہے۔
"کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یہ کہہ دینے پر چھوڑ دیۓ جائیں گے کہ ہم ایمان لاۓ اور ان کو آزمایا نہ جاۓ گا؟ حالانکہ جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کی ہم آزمائش کر چکے ہیں تو اللہ ان لوگوں کو ضرور جان کر رہے گا جو سچے ہیں اور ان لوگوں کو بھی جو جھوٹے ہیں۔" (عنکبوت : ۲ ،۳)
اور جب انہوں ے ان ایمانی جذبات کا اظہار کیا تو ان کے ایمان کی کیفیت اور ان کی اطاعت شعاری میں اور اضافہ ہو گیا۔
۴۶۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ عہد کہ وہ اللہ کی راہ میں جان کی بازی لگا دیں گے۔
۴۷۔۔۔۔۔۔ یعنی جان کی بازی لگا کر انہوں نے جام شہادت نوش کر لیا۔
۴۸۔۔۔۔۔۔ یعنی اس بات کے منتظر ہیں کہ کب انہیں اللہ کی راہ میں جاں بازی کے جو ہر دکھانے کا موقع ملتا ہے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ ٹھوکر کھانے کے بعد سنبھلیں اور اپنے غلط طرز عمل کے لیے اللہ کے حضور توبہ کریں۔ مقصود منافقوں پر یہ واضح کرنا ہے کہ تمہارے لیے اب بھی توبہ کا موقع ہے پھر اپنے کو کیوں عذاب الٰہی کا مستحق بناتے ہو ؟
۵۰۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی تدبیر ایسی ہوئی کہ کفار غصہ میں بھرے ہوۓ ناکام واپس لوٹے۔ وہ مدینہ، کے مسلمانوں کا بال بھی بیکا نہ کر سکے اور نہ اس جنگ سے ان کو کوئی فائدہ حاصل ہو سکا۔
۵۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اگرچہ وہ مسلمانوں کے خلاف متحدہ محاذ بنا کر حملہ آور ہوۓ تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیۓ کہ مسلمانوں کو لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ ان کی طرف سے لڑنے کے لیے اللہ کافی ہوا۔ حج کے موقع پر صفا اور مروہ پر یہ جو کلمات ادا کیے جاتے ہیں۔
لا الہ الا اللہُ وَحْدَہٗ وَ ھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحدَہٗ (مسلم کتاب الحج)۔
"ایک اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندہ کی مدد کی اور حملہ آور لشکروں کو تنہا شکست دی"۔
تو یہ اسی واقعہ کی ید تازہ کرتے ہیں اور اللہ کی نصرت کو یاد دلاتے ہیں۔
۵۲۔۔۔۔۔۔ اللہ قوت والا ہے اس لیے ایک لشکر جرار کی شکست کے اسباب پیدا کرنا اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں اور وہ غالب ہے اس لیے اس کا ہر منصوبہ نافذ ہو کر رہتا ہے۔
۵۳۔۔۔۔۔۔ مراد بنی قریظہ ہیں جو مدینہ کے مشرقی حصہ میں آباد تھے اور مذہباً یہودی تھے۔ بنی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہجرت کے بعد ان سے معاہدہ کیا تھا مگر وہ اپنے عہد پر قائم نہ رہ سکے اور غزوہ احزاب کے موقع پر انہوں نے عہد شکنی کر کے حملہ آور کافروں کا ساتھ دیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم جنگ خندق سے فارغ ہو کر گھر لوٹے تو حضرت جبرئیل اللہ کا یہ حکم لے کر نازل ہوۓ کہ بلا تاخیر بنی قریظہ کا رخ کیا جاۓ اور ان کے خلاف فوجی کاروائی کی جاۓ چنانچہ اسی وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کو لے کر بنی قریظہ کی طرف روانہ ہو گۓ۔ وہاں پہنچ کر ان کا محاصرہ کر لیا جو پچیس دن رہا۔ بالآخر بنی قریظہ اس شرط پر اپنے قلعوں سے اتر آۓ کہ قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ کو جو بنی قریظہ کے حلیف تھے حکم بنایا جاۓ۔ چنانچہ حضرت سعد بن معاذ نے فیصلہ سنایا کہ :
"ان کے جو مرد لڑنے کے قابل ہیں ان سب کو قتل کر دیا جاۓ، ان کی عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا جاۓ اور ان کے مال تقسیم کر دیۓ جائیں "۔
اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا" تم نے حکم الٰہی کے مطابق فیصلہ کیا" (بخاری کتاب المغازی)۔
حضرت سعد بن معاذ ڑجی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ تورات کے مطابق تھا اس میں یہ جنگی قانون بیان ہوا ہے کہ :
"جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے ............. اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا لیکن عورتوں اور با ل بچوں اور چو پایوں اور اس شہر کے سب مال اور لوٹ کو اپنے لیے رکھ لینا" (استثناء :۲۰ ۔ ۱۰ تا ۱۴ )
اس طرح یہود بنی قریظہ کا مدینہ سے خاتمہ ہو گیا۔ ان کے ساتھ یہ سختی اس لیے برتی گئی کہ اس سے پہلے یہود کے ایک قبیلہ بنی نضیر کی عہد شکنی اور سازشی کاروائیوں کے باوجود ان کی ساتھ یہ رعایت برتی گئی تھی کہ وہ اپنے بال بچوں اور کسی قدر سامان کے ساتھ مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں چنانچہ وہ خیبر میں آباد ہو گۓ لیکن وہاں سے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف پھر سازشیں شروع کر دیں۔ پھر بنی قریظہ نے ایک ایسے نازک موقع پر عہد شکنی کی جب کہ کفار بہت بڑے لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوۓ تھے اور انہوں نے ان کی مدد کر کے مسلمانوں کے پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا تھا اس لیے ایسے غداروں کو سخت سزا ملنا ہی چاہیے تھی۔
واضح رہے کہ مقتولین کی تعداد آٹھ سو سے زیادہ نہیں تھی اور عورتوں اور بچوں کی تعداد جن کو قید کر لیا گیا تھا تقریباً ایک ہزار تھی (غزوہ بنی قریظہ۔ محمد احمد باشمیل ، ص ۱۹۷)۔
۵۴۔۔۔۔۔۔ مال کے ساتھ بھاری اسلحہ بھی مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔ روایتوں میں آتا ہے کہ پندرہ سو تلواریں ، دو ہزار نیزے ، تین سو زرہیں اور پانچ سو ڈھالیں مال غنیمت میں ملیں۔ (غزوہ بنی قیظیہ ، ص ۲۲۹،)۔
۵۵۔۔۔۔۔۔ یہ اس بات کی خوش خبری تھی کہ (عنقریب ایسے علاقے بھی تم فتح کرو گے جہاں ابھی تمہارے قدم نہیں پہنچے ہیں۔ اس کے بعد سب سے پہلے خیبر فتح ہوا اور اس کے بعد دوسرے علاقے۔ اس طرح قرآن کی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہوئی۔
۵۶۔۔۔۔۔۔ یہاں سے ایک دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج سے متعلق ہے۔ ان آیات کے نزول تک یعنی ۵ ھ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح میں چار بیویاں تھیں۔ حضرت سودہ، حضرت عائشہ،حضرت حفصہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
۵۷۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کو جب امہات المؤمنین کا مقام دیا گیا تو ان کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئیں۔ اب ان کی تقویٰ، قناعت پسندی اور آخرت طلبی میں معیار مطلوب کو پہنچنا تھا اور چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی معاشی لحاظ سے نہایت عسرت کی زندگی تھی اور آپ کے پاس آسودگی اور دنیوی زیب و زینت کا کوئی سامان نہ تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی کہ آپ اپنی ازواج سے ان کی مرضی معلوم کریں۔اگر وہ بہ خوشی اس قسم کی زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور دنیا ہی کی زیب و زینت چاہتی ہیں تو انہیں کچھ دے دلا کر خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کر دیا جاۓ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ سے پوچھا اور فرمایا کہ تم اپنے والدین سے مشورہ کر کے جواب دو لیکن حضرت عائشہ نے برجستہ جواب دیا کہ اس کے رسول اور دار آخرت ہی کو چاہتی ہوں پھر دوسری ازواج نے بھی اسی طرح جواب دیا۔ (بخاری کتاب التفسیر۔ الاحزاب)
اس طرح ان کی آزادانہ مرضی معلوم کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ان کو خود عزیمت کا مقام حاصل ہو گیا ، دوسرا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ان کا جواب سکون و مسرت کا باعث ہوا اور تیسرا فائدہ یہ کہ منافقین کو یہ پروپیگنڈہ کرنے کا موقع نہیں مل سکا کہ آپ اپنی ازواج کے حقوق پوری طرح ادا نہیں کرتے اور وہ اپنی مرضی کے خلاف زندگی بسر کرنے کے لیے مجبور ہو گئی ہیں۔
آیت کا صحیح مفہوم واضح ہو جانے کے بعد اس خیال کی تردید کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ آپ کی ازواج آپ سے زیادہ نفقہ (خرچ) کا مطالبہ کرتی تھیں جس کی وجہ سے آپ پریشان ہو گۓ تھے۔ جن روایتوں میں اس طرح کی بات بیان ہوئی ہے وہ درایۃً صحیح نہیں کیونکہ ان میں متضاد باتیں بھی بیان ہوئی ہیں اور ایسی باتیں بھی جو قرائن کے خلاف ہیں۔ ان روایات پر گفتگو انشاء اللہ سورہ تحریم کے ذیل میں کی جاۓ گی۔
واضح رہے کہ فقہاء نے اس تخییر کو تفویض طلاق پر محمول کیا ہے یعنی اس صورت میں عورت کو یہ اختیار حاصل ہو جتا ہے کہ وہ اپنے اوپر طلاق نافذ کر لے جب کہ اس آیت اس کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے آیت میں تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ اپنی ازواج سے معلوم کر لیں کہ وہ دنیا کی زیب و زینت چاہتی ہیں یا اللہ اور اس کے رسول کو۔ اگر دنیا کی زیب و زینت چاہتی ہیں تو خوبصورتی کے ساتھ ان کو رخصت کر دیا جاۓ یعنی ان کی یہ مرضی معلوم ہونے کے بعد آپ انہیں طلاق دے دیں۔اس سے یہ کہاں لازم آیا کہ اگر آپ کی ازواج دنیا کی زینت چاہتیں تو طلاق خود بخود واقع ہو جاتی۔ آیت میں طلاق کا کوئی لفظ استعمال نہیں ہوا ہے اور اس کے یہ الفاظ : اُسَرِّحْکُنَّ سَراجاً جمیلاً۔ " میں تمہیں خوبصورتی کے ساتھ رخصت کر دوں " صاف بتا ر ہے ہیں کہ آپ کے جدا کر دینے سے وہ جدا ہو جاتیں لہٰذا اس تخییر (اختیار) کو تفویض طلاق پر محمول کرنا صحیح نہیں اور فقہاء نے تفویض طلاق کا جو اصول وضع کیا اس سے موجودہ دور کے وہ مسلمان جو اسلام کے عائلی قوانین سے مطمئن نہیں ہیں اور ان میں ترمیم کے درپے ہیں یہ تجویز کرتے ہیں کہ نکاح کے موقع پر ایک کا بین نامہ تیار کیا جاۓ جس میں مرد عورت کو یہ پیشگی اختیار دے کے فلاں اور فلاں صورت میں عورت خود اپنے اوپر طلاق نافذ کر سکتی ہے۔
تفویض طلاق کے اس حیلہ کو اختیار کر کے وہ مرد و زن میں مساوات کا اصول قائم کرنا چاہتے ہیں مگر شریعت نے گوناگوں مصالح کے پیش نظر جن میں عورت کا مقام بھی شامل ہے طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے عورت کو نہیں اس لیے اس اختیار کو عورت کی طرف منتقل کرنے کی کوشش شریعت کے منشاء کے بالکل خلاف ہے۔
اُمَتِّعْکُنَّ (تمہیں کچھ دے دلا کر ) سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ طلاق کی صورت میں بیوی کو متاع یا متعہ (کچھ مال) دیا جانا چاہیے۔ اس سے اس نقطہ نظر کی تائید ہوتی ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۴۱ میں مطلقات کو معروف کے مطابق متاع دینے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ تمام مطلقہ عورتوں ے بارے میں ہے نہ کہ صرف ان مطلقہ عورتوں کے بارے میں جنہیں خلوت سے پہلے طلاق دی گئی ہو۔
(ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۷۶ ، ۳۷۷)۔
۸۵۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر تم نے دنیا طلبی کے بجاۓ آخرت طلبی کو مقصود اور اللہ اور اس کے رسول کو محبوب بنا لیا اور حسن عمل کی روش اختیار کی تو تمہارا مرتبہ بہت بڑا ہو گا اور اللہ تعالیٰ تمہیں بہت بڑے اجر سے نوازے گا۔
۵۹۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج سے کسی بے حیائی کے ارتکاب کا اندیشہ تھا بلکہ مقصود پاک دامنی اور عفت کا غایت درجہ احساس پیدا کرنا تھا تاکہ کافی محتاط رہیں اور منافقین کو ان کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنے کا موقع نہ ملے۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اللہ کا قانون بے لاگ ہے۔ ایک نبی کی بیوی بھی اگر بے حیائی کی مرتکب ہوتی ہے تو وہ اللہ کے ہاں سزا کی مستحق ہے بلکہ دوہری سزا کی ، کیونکہ یہ جرم اس بنا پر نہایت سنگین ہو گا کہ اس سے ایک نبی کے گھر کی بد نامی ہو گی اور لوگوں کے لیے بہت بُری مثال قائم ہو جاۓ گی۔
۶۰۔۔۔۔۔۔ یعنی جرم کے ارتکاب کی صورت میں ایک نبی کی بیوی کو سزا دینا اللہ کے لیے مشکل نہ ہو گا کیونکہ اللہ کا قانون عدل نے لاگ ہے۔
۶۱۔۔۔۔۔۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کا مقام امہات المؤمنین کا قرار پایا تو اس مقام کے لحاظ سے ان پر بھاری ذمہ داریاں بھی عائد ہو گئیں۔ ان ذمہ داریوں کو بیان کرتے ہوۓ انہیں یہ بشارت بھی دی گئی کہ اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کی وفا شعار بن کر نیک عمل کریں گی تو انہیں یہ اعزاز و اکرام بخشا جاۓ گا کہ وہ دو مرتبہ اجر پائیں۔
۶۲۔۔۔۔۔۔ یعنی اور عورتوں کے مقابلہ میں تمہیں یہ امتیاز حاصل ہے کہ تم نبی کی ازواج ہو لہٰذا تمہیں اپنی عملی زندگی میں زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔
۶۳۔۔۔۔۔۔ یہاں روگ سے مراد شہوت کی بیماری ہے۔
عورتوں کی آواز بالعموم سریلی ہوتی ہے اور جب وہ لوچ کے ساتھ بات کرتی ہیں تو جن کی طبیعتوں میں شہوانی ہیجان ہوتا ہے وہ بری خواہشات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اس لیے تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ عورتیں مردوں سے بات کرتے ہوۓ اپنے لہجہ میں لوچ پیدا نہ ہونے دیں۔ اور جب تقویٰ کا تقاضا یہ ہے تو اس کی پابندی ہر عورت کو کرنا چاہیے۔ یہاں ازواج نبی کو مخاطب کر کے یہ اور اس قسم کی جو دوسری ہدایات دی گئی ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ہدایتیں ان کے لیے خالص ہیں اور دوسری عورتوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ مطلب ہے کہ ازواج نبی کو ان کا کہیں زیادہ پابند ہونا چاہیے اور ان معاملات میں غایت درجہ محتاط ہونا چاہیے۔
ضمناً اس سے یہ اصولی بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام جب عورتوں کو مردوں سے لوچ دار زبان میں بات کرنے سے منع کرتا ہے تو وہ ان کے گانے کو کس طرح گوارا کر سکتا ہے ؟ اس کی حرمت بالکل واضح ہے مگر موجودہ زمانے میں عورتوں کا گانا اور وہ بھی نہایت فحش انداز میں اتنا عام ہو گیا ہے کہ اس کے منکر ہونے کا تصور ہی نہیں رہا اب مشکل ہی سے ایسے افراد ملیں گے جو اس کی حرمت کے پیش نظر اس کے سننے سے اجتناب کرتے ہوں۔
۶۴۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہاری زبان سے جو بات بھی نکلے وہ بھلائی ہی کی ہو۔ ہر قسم کی ناروا باتوں سے تمہیں سخت احتراز کرنا چاہیے۔
۶۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں تبرج کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی اظہار اور نمائش کے ہیں اور اس سے مراد اجنبی مردوں کے سامنے زینت کی نمائش کرتے پھرنا ہے جیسا کہ سورہ نور کی آیت ۶۰۔۔۔۔۔۔ (غَیْرَمُتَبرِّ جَاتٍ بِزِیْنَۃٍ ، اپنی زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں ) سے واضح ہے۔ اور الجاھلیۃ الاولیٰ سے مراد غیر اسلامی طور طریقے ہیں جو اسلام سے پلے رائج تھے مطلب یہ ہے کہ تمہارا اصل دائرہ کار گھر جہاں رہ کر تمہیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے اور اس غرض سے تو باہر نکلنا ہر گز روا نہیں کہ اپنی زینت کی نمائش کرتی پھرو۔
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ازواج نبی کے لیے گھر سے نکلنا بالکل ممنوع تھا۔ آگے آیت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں ، بیٹیوں اور عام مسلمان عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ باہر نکلیں تو اپنے اوپر چادر ڈال لیا کریں جس سے باہر نکلنے کا جواز ثابت ہوتا ہے نیز حدیث میں آتا ہے کہ :
قَدْاُذِنَ لَکُنَّ اَنْ تَخْرجْنَ لِحَا جِتِکُنَّ (بخاری کتاب التفسیر)۔
"تمہیں اپنی ضرورت کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے "۔
ازواج نبی کے شایان شان بات یہی تھی کہ وہ اپنے گھروں میں قیام پذیر رہیں اور باہر نکلے کے سلسلہ میں زیادہ محتاط رہیں۔ رہیں عام مسلمان عورتیں تو اس آیت کی روشنی میں ان کا بھی اصل دائرہ کار گھر ہی قرار پاتا ہے لیکن چونکہ ان کو باہر نکلنے کی ضرورت ازواج نبی کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اس لیے اس آیت کا منشا یہ نہیں ہے کہ وہ گھر کی فہار دیواری میں بالکل محصور ہو کر رہ جائیں۔ موجودہ زمانہ میں تو عورتوں کی واقعی ضرورتیں بہت بڑھ گئی ہیں مثلاً سفر، تعلیم و تعلم ، عورتوں کے لیے سوشل خدمات، اپنی معاشی ضرورتوں کی تکمیل ، دینی اجتماعات میں شرکت وغیرہ۔ اس قسم کی واقعی ضرورتوں کے لیے عورتوں کے باہر نکلنے پر پابندی نہیں ہے بشرطیکہ وہ باہر نکلنے کے شرعی آداب کو ملحوظ رکھیں خاص طور سے یہ بات کہ وہ اپنے حسن اور اپنی زینت کی نمائش نہ کریں۔
۶۶۔۔۔۔۔۔ نماز اور زکوٰۃ کا حکم عام ہے لیکن خاص طور سے ازواج نبی کو خطاب کر کے حکم دینے کا منشاء یہ ہے کہ وہ سختی کے ساتھ اس پر کار بند ہو جائیں۔
اس آیت سے یہ بھی واضح ہوا کہ عورت کے مال کی زکوٰۃ عورت ہی کے ذمہ ہے نہ کہ اس کے شوہر کے ذمے اس لیے اس کو اپنے مال میں سے زکوٰۃ ادا کرنا چاہیے۔ دوسری بات اس سے یہ بھی معلوم ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج بالکل مفلوک الحال نہیں تھیں جیسا کہ عام طور سے خیال کیا جاتا ہے بلکہ زکوٰۃ دے سکتی تھیں جب ہی تو انہیں زکوٰۃ دینے کا حکم دیا گیا اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آپ کی ازواج کا مہر چار سو اسی درہم ہوا کرتا تھا جب کہ دو سو درہم پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔
۶۷۔۔۔۔۔۔ کلام کا سیاق و سباق (Context) اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہاں " اہل بیت" سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج ہیں مگر مسلمانوں کا ایک فرقہ جس نے۔۔۔۔۔۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو لیتے ہیں۔ جہاں تک " اہل بیت " کے لغوی معنیٰ کا تعلق ہے اس میں بیویاں بدرجہ اولیٰ شامل ہیں ان کے علاوہ اولاد بھی۔ اس لیے اہل بیت نبوی کا اطلاق نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کے علاوہ آپ کی اولاد پر بھی ہوتا ہے لیکن اس آیت میں آپ کی ازواج کو اہل البیت کہہ کر خطاب کیا گیا ہے اور ہدایات بھی براہ راست ان ہی کو دی گئی ہیں اس لیے اس موقع پر آپ کی صرف ازواج ہی مراد ہو سکتی ہیں لیکن قرآن کے واضح معنیٰ سے انحراف کرنے والوں نے " اہل بیت" سے آپ کی ازواج کو تو خارج کر دیا اور حضرت علی، حضرت فاطمہ حضرت حسن، حضرت حسین پر اس کو چسپاں کر دیا اور ان کی تطہیر سے ان کے معصوم ہونے اور پھر اماموں کے معصوم ہونے کا دعویٰ کر بیٹھے۔ یہ لوگ اس آیت کی جو تاویل کرتے ہیں اس کی غلطی واضح کرنے کے لیے ہم یہاں مختصراً چند باتیں عرض کریں گے۔
۱)۔ قرآن میں اہل بیت کے الفاظ دو اور جگہ استعمال ہوۓ ہیں ایک اس موقع پر جب کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ کو اسحاق کے پیدائش کی خوش خبری دی تھی اور جب انہوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو فرشتوں نے ان سے کہا :
اَتَعْجبِیْنَ مَنْ اَمْرِ اللہ رَحْمَۃُ اللہِ وَ برکاتُہٗ عَلیکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ (ہود : ۷۳ )۔ " تم اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو۔ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے اہل بیت "
اس آیت میں اہل البیت کا خطاب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سے ہے۔ دوسرے حضرت موسیٰ کی رضاعت کے سلسلہ میں جب کہ ان کی بہن نے فرعون والوں سے کہا :
ھَلْ اَدُّ لکُمْ عَلیٰ اَھْلِ بَیْتٍ یَکْفُلُو فَہ لَکُمْ (قصص : ۱۲ ) " کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کا پتہ بتاؤں جو تمہارے لیے اس کی پرورش کریں گے۔ "
اس آیت میں بھی اہل بیت سے مراد موسیٰ کی والدہ ہیں۔ واضح ہوا کہ اہل بیت میں ازواج بدرجہ اولیٰ داخل ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت زینب کے ولیمہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ کے حجرہ میں تشریف لے گۓ تو فرمایا " السلام علیکم اھل البیت و رحمۃ اللہ" سلام اور اللہ کی رحمت ہو تم پر اہل بیت "(بخاری کتاب التفسیر) یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اہل بیت کہہ کر اپنی ازواج کو مخاطب کیا ہے اس کے بعد آپ کی ازواج کے اہل بیت میں سے ہونے کے لیے کس دلیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
۲)۔ یہ بات کہ آیت میں اہل البیت کے تعلق سے ضمیریں مذکر استعمال ہوئی ہیں لہٰذا ازواج مراد نہیں ہو سکتیں صحیح نہیں کیونکہ عربی میں لفظ اہل کی رعایت سے ضمیر مذکر استعمال کی جاتی ہے چنانچہ اوپر جن دو آیتوں کا حلہ دیا گیا ان میں بھی ضمیر اور فعل کا صیغہ مذکر ہی استعمال ہوا ہے جب کہ پہلی آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ سے خطاب ہے اور دوسری آیت میں اہل بیت سے مراد حضرت موسیٰ کی والدہ ہیں۔
۳)۔ تاویل کرنے والے ان روایتوں کا سہارا لیتے ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فاطمہ ، حسن ، حسین اور علی کو بلایا اور ایک چادر میں ڈھانک لیا اور فرمایا خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے گندگی کو دور فرما اور انہیں خوب پاک صاف کر دے۔ یہ حدیث ترمذی نے بیان کی ہے اور اس مفہوم کی متعدد روایتیں طبری نے اپنی تفسیر میں بھی بیان کی ہیں مگر یہ روایتیں ضعیف ہیں چنانچہ ترمذی نے اس کے غیرب (ضعیف) ہونے کی صراحت کی ہے اور طبری کی روایتوں میں متعدد راوی شیعہ ہیں مثال کے طور پر ایک راوی عبداللہ بن عبد القدوس ہیں جو شیعہ ہیں۔ ابن معین نے انہیں رافضی کہا ہے اور ابو داؤد نسائی اور دار قطنی نے اسے ضعیف کہا ہے۔ (ان روایات کی تحقیق کے لیے دیکھیے الدکتور علی احمد السالوسی کی کتاب " اٰیۃ التطھیر بین امھات المؤمنین و اھل الکساء" شائع کردہ مکتبہ ابن تیمیہ پوسٹ بکس ۱۴۰۶۴ کویت)۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دو اور صاحبزادیاں حضرت ام کلثوم اور حضرت زینب زندہ تھیں ، پھر ان کو چھوڑ کر صرف حضرت عثمان کے نکاح میں تھیں اور حضرت زینب ابو العاص کے نکاح میں۔ لیکن چونکہ شیعہ حضرت علی کی امامت کے دعویدار ہیں اس لیے وہ اہل بیت میں حضرت فاطمہ اور حسن اور حسین کو تو شامل کرتے ہیں لیکن ام کلثوم اور زینب کو نظر انداز کر دیتے ہیں اس لیے عجب نہیں کہ مذکورہ روایت شیعوں ہی کی گھڑی ہوئی ہو۔
۴)۔ تاویل کرنے والے اس آیت سے حضرت علی اور اماموں کے معصوم ہونے پر استدلال کرتے ہیں لیکن آیت میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے اول تو آیت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کے بارے میں ہے مزید یہ کہ اس میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ اسے اہل بیت تم کو اللہ نے پاک صاف کر دیا ہے بلکہ فرمایا اللہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے سورہ مائدہ میں اہل ایمان کو وضو کا حکم دینے کے بعد فرمایا ولٰکِنْ یُرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ۔ " بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک صاف کرے "(مائدہ : ۶) ظاہر ہے یہاں اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام اہل ایمان جس کو وضو کا حکم دیا جا رہا ہے وہ پاک اور معصوم ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ وضو کے حکم پر عمل کرنے سے ان کو پاکیزگی حاصل ہو گی۔ اس میں جس طرح اہل ایمان کے معصوم ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے اسی طرح آیت تطہیر میں بھی اہل بیت کے معصوم ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
قدرے طوالت کے ساتھ یہ وضاحت اس لیے کی گئی تاکہ اندازہ ہو جاۓ کہ جو لوگ اپنے مخصوص عقائد کو قرآن سے ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ قرآن کے واضح مفہوم کو چھوڑ کر کس طرح غلط تاویل کے چکر میں پڑ جاتے ہیں اور کمزور روایتوں کا سہارا لے کر قرآن کو روایتوں کے مطابق بنانا چاہتے ہیں خواہ اس کے لیے انہیں کتنا ہی تکلف کیوں نہ کرنا پڑے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ شیعیت اختیار کرنے والوں نے اپنے عقائد و مسلک کی تائید میں اس کثرت سے روایتیں گھڑی ہیں کہ سنی بھی ان سے متاثر ہوۓ بغیر نہ رہ سکے۔
۶۸۔۔۔۔۔۔ اللہ کی آیات سے مراد قرآن کی آیتیں ہیں اور حکمت سے مراد بی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم اور آپ کے ارشادات ہیں۔ ان کو ید رکھنے کا حکم خصوصیت کے ساتھ ازواج مطہرات کو دیا گیا تاکہ سب سے پہلے وہ اس روشنی سے اپنی زندگیاں منور کریں اور ساتھ ہی اس فیض کو عام کرنے میں لگ جائیں۔
اس حکم کی تعمیل میں ازواج مطہرات نے حدیث کی جو خدمت انجام دی اس کے لیے پوری امت ان کی مرہون منت ہے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
۶۹۔۔۔۔۔۔ اللہ لطیف یعنی باریک بین ہے اس لیے اس سے کوئی بات بھی چھپی نہیں رہ سکتی۔
۷۰۔۔۔۔۔۔ اوپر ازواج مطہرات کے لیے عنایت خاص تھی اب یہ مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے عنایت عام ہے۔ یہاں وہ اوصاف بیان ہوۓ ہیں جو معیار مطلوب کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر مسلمان کو خواہ وہ کرد ہو یا عورت اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرنا چاہیے اور ان اوصاف ہی کی بنا پر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور اجر عظیم کا مستحق ہو گا۔
مسلم مؤمن یا اسلام اور ایمان دونوں الفاظ جب ایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو اسلام سے مراد ہوتا ہے عقیدہ توحید کو قبول کر کے اسلام کو دین کی حیثیت سے اختیار کرنا اور ایمان سے مراد ہوتا ہے دل کا اقرار یعنی کسی شخص کا محض اپنے کو مسلمان کہلانا اور اسلامی عقائد کو ماننے کا اعلان کرنا اس کے مؤمن مخلص ہونے کے لیے کافی نہیں بلکہ مومن مخلص ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ دل سے ان عقائد کو مانتا ہو اور اسے اسلام کے دین حق ہونے کا یقین ہو یعنی کسی شخص کا السلام اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی صورت میں معتبر ہو گا جب کہ اس کا باطن اس سے ہم آہنگ ہو ورنہ نام نہاد مسلمان کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔
۷۱۔۔۔۔۔۔ قانتین (فرمانبردار) ہونے کا وصف عملی وفاداری کو ظاہر کرتا ہے یعنی اسلام اور ایمان کے بعد عملاً انہوں نے اللہ کی وفاداری کا رویہ اختیار کیا۔
۷۲۔۔۔۔۔۔ سچ بولنا اور راست باز بننا بہت بڑی خوبی ہے مگر یہ خوبی وہی لوگ پیدا کرتے ہیں جو بلندی کی طرف چڑھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ سہولت پسند انسان کو جھوٹ بولنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا اور موجودہ زمانہ میں جب کہ دنیا کا کاروبار جھوٹ ہی پر چل رہا ہے سچائی کو اختیار کیے رہنا نہایت مشکل کام ہے مگر صداقت شعاری انسان کا جوہر ہے اور اللہ کی نظر میں بہت عزیز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے۔
عَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ فَاِ نَّ الصِّدقَ یَھْدِیْ اِلیٰ الَی الْجَنَّۃ، وَمَا یَزَالُ الرُجْلُ یَصْدُقُ وَ یَتَحَرَّی الصُدْقَ حَتَّ یَکْتَبَ عِنْدَاللہِ صِدِّ یقاً۔ (مسلم کتاب البر)۔
"سچائی اختیار کرو کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف۔ آدمی سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی ہی کو اختیار کر لیتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدیق(بڑا سچا) لکھ لیا جاتا ہے "۔
۷۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبر کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ رعد نوٹ ۵۱۔
۷۴۔۔۔۔۔۔ خشوع (عاجزی( کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ مؤمنون نوٹ ۲ یہاں خشوع کا اشارہ نماز کی طرف ہے۔
۷۵۔۔۔۔۔۔ صدقہ میں زکوٰۃ بھی شامل ہے اور اللہ کی راہ میں ہر قسم کا انفاق بھی۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ توبہ نوٹ ۱۸۹۔
۷۶۔۔۔۔۔۔ شرمگاہوں کی حفاظت میں اپنی عفت و عصمت کی حفاظت بھی شامل ہے اور ستر پوشی (جسم کے قابل ستر اعضاء کو ڈھانکنا) بھی ملاحظہ ہو سورہ مؤمنون نوٹ ۵۔
۷۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذکر الہٰی کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۳۱۰، سورہ طٰہٰ نوٹ ۱۶ اور ۱۶۱ نیز سورہ عنکبوت نوٹ ۵۸۔
۷۸۔۔۔۔۔۔ مغفرت گویا جنت کا پروانہ ہے اور اجر عظیم ہمیشگی کی وہ نعمتیں ہیں جو نیک عمل کی جزا کے طور پر ملیں گی۔
یہاں آخرت کی کامیابی کی ضمانت ان ہی لوگوں کو دی گئی ہے جو اپنے اندر مذکورہ اوصاف پیدا کریں خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں۔ رہے نام کے مسلمان جن کی زندگیاں ان اوصاف سے خالی ہوں تو ان کے لیے یہ ضمانت نہیں ہے۔
۷۹۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں نہایت اہم اصولی بات بیان ہوئی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کا انسانی زندگی کے معاملہ و مسائل سے متعلق کوئی فیصلہ ایسا نہیں جس کے بعد کسی مسلمان کو چون و چرا کرنے یا اپنے اختیار کو استعمال کرنے کا حق باقی رہتا ہو فیصلہ کا تعلق اختلافی مسائل سے ہو یا نزاعی معاملات سے یا اس کی نوعیت رسول کے عدالتی فیصلہ کی ہو ایک مسلمان کو اسے بسر و چشم تسلیم کرنا چاہیے اور لازماً اس کی تعمیل کرنا چاہیے۔ زندگی کو مذہبی اور غیر مذہبی دو خانوں میں تقسیم کر کے اللہ اور اس کے رسول کے کتنے ہی فیصلوں کو جو عائلی ، معاشی اور سیاسی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں رد کر دینا اور سیکولر طرز زندگی کو اختیار کرنا اسلام سے صریح انحراف ہے۔
جہاں تک اللہ کے فیصلوں کا تعلق ہے وہ قرآن میں موجود ہیں اور قطعی حجت ہیں۔ رہے رسول کے فیصلے تو جو تواتر سے ثابت ہیں ان کے حجت ہونے میں کلام نہیں اور جو ثقہ(معتبر) راویوں سے منقول ہیں وہ بھی یقیناً حجت ہیں الّا یہ کہ کسی روایت کا متن (مضمون) قرآن کی کسی بات کے خلاف پڑتا ہو یا دوسرے ثقہ راویوں کی روایت کے خلاف ہو یا اس روایت میں کوئی ایسی بات بیان ہوئی ہو جو عقل سلیم اور بصیرت کے خلاف ہو یا اس روایت میں کوئی ایسی بات بیان ہوئی ہو جو عقل سلیم اور بصیرت کے خلاف ہو یا جو مضطرب (الجھی ہوئی) ہو یا جس کی سند متصل نہ ہو۔ ایسی روایتوں کے بارے میں جب وثوق سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات ہیں تو وہ حجت نہیں ہو سکتیں چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ بنت قیس کی اس حدیث کو جس میں بیان ہوا ہے کہ طلاق بائن دی ہوئی عورت کے لیے اس کے سابق شوہر کے ذمہ نفقہ نہیں ہے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ :
لَا نَترُکُ کِتَابَ اللہِ وَ سُنَّۃَ نَبِیّنَا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ و سلم لِقَولِ امْرَ أۃٍ لا نَدْرِیٰ لَعَلَّھَا حَفِظَتْ اَوْ فَسِیَتْ۔ (مسلم کتاب الطلاق)۔ " ہم اللہ کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو محض ایک عورت کے کہنے پر ترک نہیں کریں گے ہمیں نہیں معلوم اس جے (ارشاد کو) محفوظ رکھا یا بھول گئی"۔
۸۰۔۔۔۔۔۔ مراد زید بن حارثہ ہیں جو غلام تھے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نبوت سے قبل انکو آزاد کر کے اپنے بیٹے کی طرح ان کی پرورش کی تھی اس لیے وہ آپ کے متبنٰی لے پالک (Adopted son) کہلاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے زید پر یہ احسان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں رہنے کی بنا پر انہیں ایمان کی توفیق بخشی چنانچہ مکہ میں سب سے پہلے ایمان کی توفیق بخشی چنانچہ مکہ میں سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں حضرت زید شامل ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر یہ احسان کیا تھا کہ ان کو غلامی سے آزاد کر کے ان کی پرورش اور تربیت کی تھی۔ اللہ کے اس فضل اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس احسان کے نتیجہ میں حضرت زید ایک اہم شخصیت بن کر ابھرے اور نہایت اہم کارنامے انجام دیۓ۔ یہ نمایاں مثال ہے اس بات کی کہ اسلام نے ایک غلام کو کتنے اونچے مقام پر پہنچایا ۔
۸۱۔۔۔۔۔۔ حضرت زید نے حضرت زینب بنت حجش سے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں نکاح کر لیا تھا۔ ایک آزاد کردہ غلام کا نکاح ایک قریش خاتون کے ساتھ ہونا معاشرتی مساوات (سماجی برابری) کو قائم کرنے کی اعلیٰ مثال ہے لیکن چونکہ مزاج میل نہیں کھاتے تھے اس لیے ایک ڈیڑھ سال کے اندر ہی نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ اس موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے زید کو طلاق سے روکنا چاہا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اس معاملہ میں اللہ سے ڈریں۔ مگر جب زید نے دیکھا کہ نباہ مشکل ہے تو انہوں نے اپنی بیوی کو قید نکاح سے آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس سے ایک اصولی بات تو یہ واضح ہوئی کہ اسلام نے اگرچہ مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے لیکن اس اختیار کو استعمال کرتے ہوۓ اس اللہ سے ڈرنا چاہیے یعنی اس اختیار کے بیجا استعمال سے عورت کو سخت تکلیف پہنچ سکتی ہے اور یہ اللہ کے نزدیک نا پسندیدہ بات ہو گی اور اس پر گرفت ہو سکتی ہے۔
دوسری بات یہ واضح ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نہیں چاہتے تھے کہ زید اپنی بیوی کو طلاق دے دیں لہٰذا جن روایتوں میں اس واقعہ کو افسانے کا رنگ دے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم زید کی منکوحہ کو اپنے نکاح میں لانے کے خواہش مند تھے وہ قرآن کے بیان کے خلاف ہے اور ایک ایسی بات ہے جو آپ کی پاکیزہ سیرت سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے اس بنا پر یہ روایتوں قابل رد ہیں۔
اسی طرح یہ روایت بھی محل نظر ہے کہ حضرت زینب حضرت زید سے نکاح کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اصرار پر انہوں نے نکاح کر لیا تھا جو بالآخر طلاق پر منتج(ختم)ہوا۔ اول تو یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کسی بات کو منسوب کرنے کے لیے حدیث کا صحیح ہونا ضروری ہے۔ محض سیرت نگاروں کا لکھ دنیا یا ابن ابی حاتم جیسی حدیث کی تیسرے درجہ کی کتاب میں کسی روایت کا بیان ہونا حدیث رسول ہونے کا کافی ثبوت نہیں ہے۔ مزید یہ کہ ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ آپ نے کسی خاتون کو اس کی پسند کے خلاف کسی شخص سے نکاح کرنے پر مجبور کیا ہو۔ یہاں تک کہ بریرہ کو اس کا سابق شوہر دوبارہ اپنے نکاح میں لینے کے لیے سخت پریشان اور بے چین رہا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس کی پریشانی کو دیکھتے ہوۓ یہ چاہتے تھے کہ بریرہ اپنے سابق شوہر کی طرف لوٹ جائیں لیکن آپ نے اس کو مجبور نہیں کیا اور نہ وہ اپنے سابق شوہر کے پاس لوٹیں۔ پھر آپ اپنی پھوپھی زاد بہن کو ایک ایسے شخص سے نکاح کے لیے کیوں مجبور کرتے جو پہلے غلام رہ چکا تھا۔
۸۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ آیت کے آخری الفاظ : وَکانَ امراللہ مفعولاً (اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہیے تھا ) سے ظاہر ہے یہ حکم دیا گیا تھا کہ زید کے طلاق دینے کی صورت میں آپ کو ان کی مطلقہ سے نکاح کرنا ہو گا تاکہ جاہلیت کی یہ رسم کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح نہیں کیا جاسکتا ختم ہو جاۓ لیکن آپ یہ اندیشہ محسوس فرما رہے تھے کہ اس صورت میں منافقین اور کفار کو آپ کے خلاف ایک فتنہ کھڑا کرنے کا موقع ملے گا۔ اس لیے آپ چاہتے تھے کہنہ زید طلاق دیں اور نہ آپ کو ان کی مطلقہ سے نکاح کرنے کی نوبت آۓ مگر اللہ آپ کے اس اندیشہ کو جو آپ دل ہی دل میں محسوس فرما رہے تھے ظاہر کرنے والا تھا چنانچہ اس نے اس آیت کے ذریعہ نہ صرف اس کو ظاہر کر دیا بلکہ اس پر متُنبّہ بھی فرمایا کہ اللہ کے حکم کے معاملہ میں کسی اندیشہ کو خاطر میں لانا صحیح نہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں پو و پیش کیا تھا کیونکہ ابھی اس حکم کی تعمیل کی نوبت ہی نہیں آئی تھی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ گو اس کے حکم کی تعمیل کو نوبت ابھی نہیں آئی تھی لیکن جب ایک اشارہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل گیا تو پھر لوگوں کی طرف سے وارد ہونے والے اعتراضات کو خاطر میں لانا ایک نبی کا شایان شان نہیں ہے۔
آیت کے سیاق و سباق سے یہی مطلب واضح ہوتا ہے لیکن بعض روایتوں میں اس کا بالکل الٹا مطلب بیان ہوا ہے اور یہ رویتوں بعض تفسیروں میں بھی آ گئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم باہر زید کو طلاق دینے سے منع فرما رہے تھے لیکن چاہتے تھے کہ زید اپنی بیوی کو طلاق دیں تاکہ پھر آپ اس سے نکاح کریں یہی بات تھی جس کو آپ اس سے نکاح کریں یہی بات تھی جس کو آپ اپنے دل میں چھپاۓ ہوۓ تھے۔ مگر ان روایتوں کی تردید کے لیے آیت کے یہ الفاظ ہی کافی ہیں کہ مَا اللہُ مُبْدِیْہِ (جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا ) اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے سلسلہ میں کیا بات ظاہر فرمائی؟ آیا یہ کہ آپ چاہتے تھے کہ زید اپنی بیوی کو طلاق دیں تاکہ آپ اس سے نکاح کر سکیں یا یہ کہ آپ زید کو طلاق دینے سے منع کر رہے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ ان کی بیوی سے نکاح کی نوبت آۓ پہلی بات تو اللہ تعالیٰ نے کہیں نہیں ظاہر فرمائی پھر راویوں کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے دل میں حضرت زینب سے نکاح کرنے کا خیال چھپاۓ ہوۓ تھے ؟ البتہ دوسری بات کہ آپ نہیں چاہتے تھے کہ زید انہیں طلاق دیں اور پھر ان سے نکاح کرنے کی نوبت آۓ اور لوگوں کو اعتراضات کا موقع ملے آیت کے مضمون سے بالکل واضح ہے۔
۸۳۔۔۔۔۔۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تنبہ ہے کہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں لوگوں کے تعلق سے کسی اندیشہ کو خاطر میں لانا صحیح نہیں۔ قرآن کی نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ گرفت قرآن کے کلام الہٰی ہونے کی واضح دلیل اور آپ کی صداقت کا روشن ثبوت ہے۔ اگر قرآن آپ کی تصنیف کروہ کتا ب ہوتی تو اس میں ایسی آیتیں نہ ہوتیں جن میں آپ کی ادنیٰ کو تا ہی پر سخت گرفت کی گئی ہے۔
۸۴۔۔۔۔۔۔ یعنی جب زید نے اپنی بیوی زینب بنت جحش کو طلاق دے دی اور اس کی عدت پوری ہو گئی تو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا کہ آپ اس سے نکاح کریں چنانچہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تعمیل کی اور حضرت زینب آپ کی زوجیت میں آ گئیں ابن ہشام کا بیان ہے کہ :
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے زینب بنت جحش بن رسایب الاسدیہ سے نکاح کر لیا ان کے بھائی ابو احمد بن جحش نے آپ سے ان کا نکاح کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مہر چار سو درہم دیا اس سے پہلے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے (آزاد کردہ) غلام زید بن حارثہ کے نکاح میں تھیں ان ہی کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی فَلَمَّا قَضَی زَیْدٌ مِنْھَا وَطَراً زَوَّ جْنَا کَھا۔ "جب زید نے اپنی غرض پوری کر لی تو ہم نے اس کا نکاح تم سے کر دیا "۔ (سیرت ابن ہشام ، ج۴ ص ۳۲۲ )۔
یہ روایت اگر صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ نکاح شرعی قاعدے کے مطابق ہی انجام پایا تھا البتہ چونکہ یہ اللہ کے حکم سے ہوا تھا اس لیے اسے یک گو نہ امتیاز حاصل تھا۔ اسی بنا پر حضرت زینب اپنے نکاح کو باعث فخر خیال کرتی تھیں بخاری میں ہے :
"زینب بن جحش رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج سے فخریہ کہتیں آپ لوگوں کا نکاح آپ کے گھر والوں نے کر دیا لیکن میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان کے اوپر سے کر دیا "۔
بہر کیف یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح اللہ کے حکم سے ہوا تھا اس لیے اس نکاح کے تعلق سے جن روایتوں میں لغو قصّے ے بیان ہوۓ ہیں ان کی آپ سے آپ تردید ہو جاتی ہے۔ ابن جریر طبری کو اللہ معاف کرے انہوں نے احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا اور ایک ایسی روایت نقل کی جس میں اس نکاح کے تعلق نہایت بے ہودہ قصہ بیان ہوا ہے اور جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں توہین کا باعث ہے۔ ایسی روایتوں سے دشمنان اسلام کو دشمنان اسلام کو شخصیت رسول پر طنز و تشنیع کا موقع ملتا ہے ہم اس بے ہودہ روایت کو یہاں نقل کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے اور علامہ ابن کثیر کی اس صراحت کو کوئی خیال کرتے ہیں :
" اس موقع پر ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے بعض سلف رضی اللہ عنہم سے کچھ اقوال نقل کیے ہیں لیکن ان کی عدم صحت کی بنا پر ہم نے ان کو نظر انداز کرنا مناسب سمجھا لہٰذا ہم ان کو بیان نہیں کریں گے "
۸۵۔۔۔۔۔۔ یہ وہ مصلحت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو زید کی مطلقہ سے نکاح کرنے کا خصوصیت کے ساتھ حکم دیا تھا۔ اس نکاح نے وہ رکاوٹ دور کر دی جو منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے بیاہ کرنے کے سلسلے میں زمانہ جاہلیت سے چلی آ رہی تھی اور اسلام کے عائلی قانون کی ایک اہم دفعہ روشن ہو کر سامنے آ گئی۔
حضرت زینب سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح اس وقت ہوا جب کہ آپ کی چار بیویاں موجود تھیں۔ چار سے زائد عورتوں سے نکاح کی جو اجازت آپ کو خاص طور سے دی گئی تھی وہ متعدد دینی مصالح ہی پر مبنی تھی مگر معترضین اس سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور شان نبوت میں طعن کر کے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی بھی گمراہی کا سامان کرتے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں تو معترضین نے اس کو خاص موضوع بنا لیا ہے۔ شاید انہیں یہ نہیں معلوم کہ چاند پر تھوکنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
۸۶۔۔۔۔۔۔ یعنی جب اللہ نے اپنے نبی کو اس نکاح کا حکم دیا تھا تو وہ لازماً عمل میں آنا چاہیے تھا۔
۸۷۔۔۔۔۔۔ یعنی نبی کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ جو کام بھی اللہ نے اس کے لیے تجویز کیا خواہ وہ نکاح ہی کا معاملہ کیوں نہ ہو اس کے کرنے میں اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے نہ اس کو اعتراضات کی پروا کرنا چاہیے اور نہ اس خیال سے پریشان ہو جانا چاہے کہ اس کو اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا جاۓ گا کیونکہ اللہ اپنے دین کی مصلحتوں کو بہتر جانتا ہے۔
۸۸۔۔۔۔۔۔ یعنی اس سے پہلے بھی انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ ایسے احکام دیتا رہا ہے جو ان کے لیے اس پہلو سے وجہ آزمائش رہے ہیں کہ ان کے مخالفین ان کو ان کی کردار کسی کا ذریعہ بنا لیں گے لیکن انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوۓ اللہ کے احکام کی تعمیل کی اور یہی سنت انبیاء ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی حضرت زینب سے نکاح کر کے اللہ کے ارشاد کی تعمیل کی اور وہی طریقہ اختیار کیا جو انبیاء علیہم السلام کا رہا ہے اس بات کے علی الرغم کے مخالفین کیا کہتے ہیں۔ آغاز میں جب کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف اشارہ ملا تھا یہ خیال ضرور پریشان کرتا رہا کہ مخالفین اس کے ذریعہ آپ کی سیرت کو داغ دار بنانے کی کوشش کریں گے لیکن جب اللہ کا واضح حکم آ گیا تو آپ نے بلا تامل ارشاد کی تعمیل کی۔
موجودہ زمانہ میں مغربی تہذیبی کے پرستار جب آپ کی حیات طیبہ میں کسی نقص کی نشاندہی کرنے سے اپنے کو قاصر پاتے ہیں تو آپ کی ازواج کی تعداد کو موضوع بحث بنا کر آپ کی شان میں طعن و تشنیع کرنے لگتے ہیں جب کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ آپ نے یہ نکاح شوقیہ نہیں کیے تھے بلکہ دین کی عظیم مصلحت کے پیش نظر کیے تھے اور حضرت زینب سے نکاح تو آپ نے اللہ کے براہ راست حکم سے کیا تھا ورنہ آپ اس کے خواہش مند نہ تھے۔ اور جب حقیقت یہ ہے تو اعتراض کرنے والوں کو جواب دینے کے لیے معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۸۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ جب اپنے نبی کو کسی کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس کی حیثیت ایک طے شدہ فیصلہ کی ہوتی ہے جو لازماً وقوع میں آ جانا چاہیے۔ اس کو کسی طرح ٹالا نہیں جا سکتا۔
۹۰۔۔۔۔۔۔ یعنی انبیاء کا طریقہ یہی رہا ہے کہ وہ اللہ کے پیغامات کو پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرتے رہے اور اس سلسلہ میں انہوں نے کسی کے اعتراض یا ملامت کی پرواہ نہیں کی اور صرف اللہ ہی سے ڈرتے رہے۔ ان ہی کے نقش قدم کی (اے نبی ! ) آپ کو بھی پیروی کرنا ہے۔
۹۱۔۔۔۔۔۔ یعنی جب حساب اللہ کو دنیا ہے تو اس کی فکر دامن گیر ہونی چاہیے۔
۹۲۔۔۔۔۔۔ یعنی محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) جب تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں تو نہ زید آپ کے بیٹے ہوۓ اور نہ زینب آپ کی بہو ہوئیں پھر زینب کے مطلقہ ہونے پر ان سے آپ کے نکاح کرنے میں کیا حرج ہے ؟
واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اولاد ذکور ضرور ہوئی لیکن ان کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا۔ اور اس آیت کے نزول کے وقت کوئی بیٹا بھی زندہ نہیں تھا۔ بعد میں ماریہ قبطیہ سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے ابراہیم رکھا تھا مگر اس نے بھی بچپن ہی میں وفات پائی۔
۹۳۔۔۔۔۔۔ خاتَم ( ت کے زبر کے ساتھ ) کے معنی آخر کے ہیں عربی کی مشہور اور مستند لغت لسان العرب میں ہے :
خاتَمُھم : آخِرُ ھم " قوم کا خاتم یعنی ان کا آخری شخص"۔ (لسان العرب ، ج ۱۲ ص ۱۶۴ )
اور خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کے ہیں۔ اس موقع پر نبی اور رسول کے اس فرق کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ نبی کی بہ نسبت رسول کا منصب خاص ہے یعنی ہر رسول نبی ہوتا ہے لیکن ہر نبی منصب کے لحاظ سے رسول نہیں ہوتا۔ لہٰذا جب آیت سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری نبی ہونے کی صراحت کر دی گئی تو آپ کا آخری رسول ہونا خود بخود واضح ہو گیا۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے بعد کوئی رسول یا نبی آنے والا نہیں ہے اس لیے دین کی تکمیل آپ ہی کے ہاتھوں انجام پانا ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کی ممانعت کی جو رسم زمانہ جاہلیت سے چلی آ رہی ہے اس کا آپ کے ہاتھوں خاتمہ ہو اور لوگوں پر یہ واضح ہو جاۓ کہ اللہ کی شریعت میں یہ نکاح بالکل جائز ہے۔ اگر آپ کے ہاتھوں اس رسم جاہلیت کی اصلاح نہیں ہوئی تو پھر آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے جو اس کسر کو پورا کر دے۔
آیت میں ختم نبوت کی جو بات بیان ہوئی ہے وہ اسلامی عقیدہ کا ایک ہم جز ء ہے۔ قرآن نہ صرف یہ کہ آنے والے کسی نبی کی پیشین گوئی نہیں کرتا جب کہ سابقہ آسمانی کتب میں آنے والے نبی کے بارے میں پیشین گوئیاں موجود رہی ہیں بلکہ قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو آخرت نبی قرار دیتے ہوۓ دین کی تکمیل کا اعلان کرتا ہے۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (سورہ مائدہ : ۳) یعنی جب السلام برد کامل بن کر آسمان پر جلوہ گر ہو گیا ہے تو اب مزید کسی روشنی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ پھر یہ ضمانت بھی دی گئی کہ جو ہدایت اس نبی پر نازل کی گئی ہے وہ محفوظ رہنے والی ہے اس لیے کہ اس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لے رکھی ہے۔ (اِنَّا نَحْنُ نَزَّ لْنَا الذِّ کْرَوَاِ نَّا لَہٗ لِحَا فِظُنَ سورہ حجر: ۹) اس لیے اس میں کسی تحریف کا بھی امکان نہیں ہے کہ کسی دوسرے نبی کو اس کی اصلاح کے لیے بھیج دیا جاۓ۔
ختم نبوت کے ثبوت میں قرآن کے علاوہ بہ کثرت حدیثوں کو پیش کیا جاسکتا ہے مثال کے طور پر یہاں چند صحیح حدیثیں پیش کی جاتی ہیں :
مَثَلِیْ وَ مَثَلُ النبیَاء مِن قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنی بَیْتاً فَاَ حسَنَہُ وَاجْمَلَہُ اِلَّا مَوْ ضِعَ لَبِنَۃٍ مَنْ زاوِ یَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْ فُوْ نَ بِہِ وَیَعْجَبُوْنَ لَہُ وَیَقُوْ لُونَ ھَلًّا وُضِعَتْ ھَذِہ اللَّبِنَۃُ قَالَ فَاْ نَاللَّبِنَۃُ وَاَنَا خَاتِمُ النَّبِیّیْنَ۔(بخاری کتاب الاحادیث الانبیاء) "حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : میری اور گزشتہ انبیاء کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک خوبصورت اور شاندار مکان بنایا لیکن اس کے ایک گوشے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چوڑ دی۔ لوگ اس کے گرد گھومتے اور اس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے البتہ (خالی جگہ کو دیکھ کر) کہتے کیا بات ہے یہاں اینٹ نہیں رکھی گئی ! آپؐ نے فرمایا تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں "۔
کانَتْ بَنُو اسرائیل قسُو سُگُمْ الانبیاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ نَبِیٌّ وَاَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی وَسَیَکُو نُ خَلَفَاءُ۔ (بخاری کتاب المناقب) " بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے جب ایک نبی وفات پا جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا لیکن میرے بعد کوئی بنی نہیں بلکہ خلفاء ہوں گے۔"
وَقُرْسِلْتُاِلَی الْخَلْقِ کافَّۃً وَ خُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْ نَ (مُسْلِمْ کتاب المساجد ) "مجھے ساری مخلوق کی طرف رسول بنا کر بیج دیا گیا ہے اور انبیاء کا سلسلہ مجھ پر ختم کر دیا گیا ہے۔
وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِی ّینْلا نَبِیَّ بَعْدِی (تر مذی ابواب الفتن) " میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔"
آپ کے آخری نبی ہونے پر صحابہ کا اجماع ہے اور پوری امت اس پر متفق ہے۔ علامہ آلوسی لکھتے ہیں :
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خاتم النبیین ہونے پر اللہ کی کتاب ناطق ہے سنت نے بھی اس کو کھول کر بیان کر دیا ہے اور امت کا اس پر اجماع ہے لہٰذا جو شخص اس کے خلاف کوئی دعویٰ کرے اسے کافر قرار دیا جاۓ گا اور اگر اس نے اس پر اسرار کیا تو اسے قتل کر دیا جاۓ گا"۔ (روح معانی ،ج ۲۲ ص ۲۱)
" اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی سنت میں جو تواتر سے ثابت ہے خبر دی کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جاۓ کہ آپ کے بعد جو شخص بھی اس مقام کا مدعی ہو گا وہ جھوٹا ، افترا پرداز اور دجال(فریب کار) ہے ، خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کی بھی گمراہ کرنے والا ہے "۔ (تفسیر ابن کثیر ، ج ۳ ص ۴۹۴)۔
خیم نبوت کے اس واضح عقیدے کے باوجود جس پر قرآن و سنت ناطق ہیں اور جس پر امت کا اتفاق ہے موجودہ زمانے میں کچھ لوگوں نے اس کی غلط اور گمراہ کن تاویل کر کے ایک نئی نبوت کا فتنہ کھڑا کر دیا ہے۔ قادیانی مذہب کی اساس اسی باطل عقیدے پر ہے اور بہائی مذہب بھی نئی نبوت ہی کا مدعی ہے حالانکہ نبوت کا چھوٹا دعویٰ پر لے درجہ کی گمراہی اور ایک سنگین جرم ہے۔ قرآن کہتا ہے :
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّن افْتَرَیٰ عَلَی اللہِ کَذِ باً اَوْ قَالَ قَوححیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْ حَ اِلَیْہِشَیْئٌ (الانعام۔ ۹۳) " اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے یا دعویٰ کرے کہ مجھ پر وحی کی گئی ہے درانحالیکہ اس پر کوئی وحی نہ کی گئی ہو۔
اور جو لوگ نبوت کے جھوٹے مدعیوں پر ایمان لاتے ہیں وہ در حقیقت طاغوت پر ایمان لاتے ہیں جب کہ اس سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
۹۴۔۔۔۔۔۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ نے ختم نبوت کا فیصلہ اپنے علم کی بنا پرکیا ہے۔ اس کو آئندہ حالات کا بھی علم ہے اس لیے اس کے فیصلہ میں کسی غلطی کا امکان نہیں ہے۔ اب یہ آفتاب قیامت تک روشنی دیتا رہے گا۔
۹۵۔۔۔۔۔۔ ذکر الٰہی ایک ایسی عبادت ہے جس کے لیے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے۔ یہ جس کثرت سے ہو سکے مطلوب ہے اور ذکر کا مطلب جیسا کہ ہم واضح کرتے آۓ ہیں حضور قلب کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا زبان پر اس کا نام جاری رکھنا اور شعوری طور پر اس کی حمد و ثنا کے کلمات ادا کرتے رہنا ہے۔ اللہ کو اس طرح یاد کرنے ہی کا ثمرہ وہ ہے جو آگے آیت ۴۳ میں بیان ہوا ہے۔ اور حدیث میں ایسے ہی ذکر کی فضیلت بیان ہوئی ہے :
مَثَلُ الَّذِی یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لا یَذْکُرُ ہٗ مَثَلُ الْحیِّ والْمَیِّتِ (بخاری کتاب الدعوات) " اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کی جو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ کی سی ہے "۔
یعنی اللہ کو یاد کرنے سے شعور بیدار ہوا ہے اور باطن میں ترو تازگی پیدا ہو جاتی ہے لیکن جو شخص اللہ کو یاد نہیں کرتا وہ غفلت میں پڑا رہتا ہے اور اس کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے۔
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال: یَقُولُ اللہُ تعالیٰ : اَنَا عَنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی وَاَنَا مَعَہُ اِذَا ذَکَرَ جِی، فَاِنْ ذکَرَ نِی، فَاِنْ ذ کَرَنِی فی نَفْسِہٖ ذَکَرْ تُہُ فِیْ نَفْسِی وَاِنْ ذ کَرَنِی فِی مَلَاءٍ ذَکَرْ تُمُ فیْ مَلاءٍ خَیْرٍ مِنْھُمْ (بخاری کتاب التوحید)۔ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میں اپنے بندہ کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں جو وہ مجھ سے رکھتا ہے۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ رہتا ہوں۔ اگر وہ مجھ دل میں یاد کرتا ہے تو میں اپنے دل میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میرا ذکر مجلس میں کرتا ہے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں "۔
قَال: لَا یزالُ لِسَنُکَ رَطْباً مِنْ ذِکْرِاللہِ ۔ (ترمذی ابوب الدعوات) "تمہاری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہے "۔
عن عائشہ رضی للہ عنہا قالتْ : کانَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یَذْ کُرُ اللہَ عَلیٰ کُلِّ اَحْیَانِہِ۔ (ریاض الصالحین بروایت مسلم) " حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے تمام اوقات میں اللہ کو یاد کیا کرتے تھے "۔
قرآن و سنت کی ان تصریحات کے پیش نظر ذکر الہٰی کے کلمات کی زبان سے ادائگی کی اہمیت کو گھٹانا یا اس کو بے وقعت خیال کرنا بڑی غلط بات ہے اور دین میں بصیرت کی کمی کی علامت ہے۔
۹۶۔۔۔۔۔۔ تسبیح سے مراد تسبیح کے دانے گھمانا نہیں بلکہ اللہ کی پاکی بیان کرنا ہے۔ اس تسبیح کے لیے صبح و شام کی اوقات بڑی اہمیت رکھتے ہیں اس لیے خاص طور سے ان کا ذکر کیا گیا ہے۔
۹۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ثمرہ ہے اللہ کے ذکر اور اس کی تسبیح کا۔ جب یہ چیز ایک مؤمن کا وظیفہ حیات بن جاری ہے تو اللہ اس پر رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے اس کے حق میں رحمت کی دعا کرتے ہیں اور اس کی برکتیں اس طرح ظاہر ہونے لگتی ہیں کہ جہالت کی تاریکیوں سے نکلنا اور علم و ہدایت کی روشنی میں آنا آسان ہو جتا ہے۔
۹۸۔۔۔۔۔۔ یہ اعزاز ہے جو للہ کو بہ کثرت یاد کرنے والے مؤمنوں کو قیامت کے دن بخشا جاۓ گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا خیر مقدم سلام کے معزز اور امن بخشنے والے کلمے کے ساتھ ہو گا۔
۹۹۔۔۔۔۔۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی چند اہم خصوصیات بیان ہوئی ہیں جو منصب رسالت سے تعلق رکھتی ہیں۔
پہلی خصوصیت یہ کہ آپ شاہد ہیں۔ شاہد کے معنی ہیں :
الشاھد العالم الذی یَبَیِّنُ مَا عَلِمَہُ (لسان العرب ، ج ۳ ص ۲۳۹ ) " شاہد یعنی جاننے والا جو بیان کرے اس بات کو جسے وہ جانتا ہے "
اور شہادت کے معنی قطعی خبر کے ہیں : والشھادۃُ کبرٌ قاطع (ایضاً ) "شہادت یعنی قطعی خبر "۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے شاہد ہونے کا مطلب یہ ہ کہ آپ علم وحی کی بنا پر اللہ کی ذات و صفات، اس کے احکام اور اس کی پسند و ناپسند کی قطعی خبر دینے والے ہیں۔ بالفاظ دیگر آپ اللہ کی طرف سے دین حق کی گواہی دینے والے ہیں۔ سورہ مزمل میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اِنَّا اَرْسَلْنَا اِلیکُمْ رسولاً شَھِداً علَیْکُمْ کَمَا اَرْسَلْنَا اِلٰی فِر عَونَ رَسُولاً۔ (المزمل:۱۵) " ہم نے تمہاری طرف رسول تم پر شاہد بنا کر اسی طرح بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا "۔
بعض اردو مترجمین نے شاہد کا ترجمہ "حاضر و ناظر" کر دیا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں ان کے غلو آمیز اور بدعتی عقیدہ کی ترجمانی کرتا ہے لیکن محل کلام کے لحاظ سے یہ معنی بالکل غلط ہیں۔
۱۰۰۔۔۔۔۔۔ دوسری خصوصیت یہ کہ آپ مبشر ہیں یعنی ایمان لانے والوں کو اللہ کی رحمت اور ابدی کامیابی کی خوش خبری دینے والے ہیں۔ یہ خوش خبری قرآن میں بھی دی گئی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشادات میں بھی دی ہے۔ احادیث صحیحہ میں نیک اعمال کے جو فضائل بیان ہوۓ ہیں وہ در حقیقت اسی بشارت کی لڑی میں پروۓ ہوۓ موتی ہیں۔ مگر یاد رہے کہ یہ دولت ان ہی لوگوں کا حصہ ہے جو اپنے ایمان میں مخلص اور اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔
۱۰۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیسری خصوصیت یہ کہ آپ "نذیر" ہیں یعنی کفر اور سرکشی اختیار کرنے والوں کو اللہ کے عذاب اور آخرت کے برے انجام سے خبردار کرنے والے ہیں قرآن میں انذار (خبردار کرنے ) کا یہ پہلو اس قدر نمایا ہے کہ جو شخص بھی قرآن کا مطالعہ کرے گا وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہے گا کہ منکرین اور مجرمین کے لیے جہنم بالکل بے نقاب ہو کر سامنے آ گئی ہے۔اور احادیث رسول میں بھی اعمال بد کے برے انجام سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔
۱۰۲۔۔۔۔۔۔ چوتھی خصوصیت یہ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس بات پر مامور کیا ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں۔ چونکہ یہ دعوت آپ اللہ کے اذن سے دے رہے ہیں اس لیے آپ کی دعوت بالکل حق ہے اور کمال درجہ صحت پر مبنی ہے۔
۱۰۳۔۔۔۔۔۔ پانچویں خصوصیت یہ کہ آپ "سراج منیر" یعنی روشن چراغ ہیں۔ مراد چراغ ہدایت ہے جس کی روشنی میں آدمی منزل مقصود کو پہنچ سکتا ہے۔ قرآن و سنت میں یہ پہلو اس طرح اجاگر ہوۓ ہیں کہ گویا آج بھی آپ ہمارے درمیان ان تمام خصوصیات کے ساتھ رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔
۱۰۴۔۔۔۔۔۔ یہاں ے کلام کا رخ پھر معاشرتی احکام کی طرف مڑتا ہے۔ اس آیت میں طلاق سے متعلق مسئلہ کا جواب دیا گیا ہے اور بعد کی چند آیات میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تزویج کے تعلق سے مخصوص احکام بیان ہوۓ ہیں۔
۱۰۵۔۔۔۔۔۔ یہاں نکاح کا لفظ عقد کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہی اس لفظ کے اصل معنی ہیں اور تَّمسُّو ھُنَّ (ان کو چھونے ) سے مراد زن و شوئی کا تعلق قائم کرنا ہے۔
اگر کسی نے نکاح کے بعد اپنی بیوی سے زن و شوئی کا تعلق قائم کرنے سے پہلے ہی طلاق دے دی تو اس صورت میں عورت کو عدت گزارنا نہیں ہو گی لیکن اس صورت میں شوہر کو چاہیے کہ وہ اسے متعۂ طلاق (کچھ مال نقد یا کپڑے زیورات وغیرہ کی شکل میں ) ضرور دے جیسا کہ سورہ بقرہ آیت ۲۴۱ میں تمام مطلقہ عورتوں کے بارے میں تاکیدی حکم دیا گیا ہے (متاع طلاق کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۷۶) یہ متعہ مہر کے علاوہ ہے۔ اگر مہر مقرر ہوا تھا اور ان و شوئی کا تعلق پیدا کرنے سے پہلے طلاق دے دی تو جیسا سورہ بقرہ آیت ۲۳۷ میں گزر چکا نصف مہر دینا ہو گا اور مہر مقرر نہیں ہوا تھا تو متاع دیتے وقت اس کا لحاظ کرنا ہو گا۔
واضح رہے کہ مہر کا تعلق نکاح سے ہے جب کہ متاع یا متعہ کا تعلق طلاق سے ہے اس لیے ہر مطلقہ کو رخصتی ہدیہ (متاع) دینا ضروری ہے جو معروف کے مطابق ہو یعنی جو نہ مرد کی حیثیت سے زیادہ ہو اور نہ اتنا کم کہ اس کئی وقعت نہ ہو۔ علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
" تیسرا قول زیادہ صحیح ہے اور وہ ہے امام احمد سے منقول دوسرا قول کہ ہر مطلقہ کے لیے متعہ ہے جیسا کہ آیت وَ لِلْمُطِلَّقَاتِ مَتَا عٌ بِالمَعْروف کا ظاہر و عموم دلالت کرتا ہے اور اس لیے بھی کہ ارشاد خدا و ندی ہے اذا لَکَحْتُمُ الْمُؤْ مِنَات .......... سراحاً جَمِیْلًا۔
اس آیت میں ان عورتوں کو جن کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی گئی ہو متعہ دینے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم ان مطلقہ عورتوں کے لیے مخصوص نہیں ہے جن کا مہر مقرر نہیں کیا گیا تھا جب کہ اکثر عورتوں کو جو طلاق دی جاتی ہے تو مہر مقرر کرنے کے بعد ہی دی جاتی ہے " (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ، ج ۳۲ ص ۲۷ )۔
طلاق کی صورت میں عورت کو خوبصورتی کے ساتھ رخصت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اسلام کی یہ اعلیٰ اخلاقی تعلیم ہے کہ جب جدائی کی نوبت آ جاۓ تو بد اخلاقی کا مظاہر نہیں کرنا چاہیے بلکہ شرافت اور بھلائی کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ تلخیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
۱۰۶۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تعداد ازواج کا مخصوص قاعدہ بیان ہوا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اہم دینی مصالح کے پیش نظر آپ کے لیے خاص ہوتا ہے کہ اہم دینی مصالح کے پیش نظر آپ کے لیے خاص رعایت کر دی گئی تھی اور چونکہ یہ رعایت اللہ کی طرف سے تھی اس لیے کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو نکاح بھی کیے اس دائرہ میں رہ کر ہی کیے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے مقرر کیا تھا۔
۱۰۷۔۔۔۔۔۔ جن عورتوں کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مہر ادا کیے تھے وہ چھ تھیں۔ حضرت سودہ ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت ام سلمہ ،حضرت زینب بنت الحارث اور حضرت ام حبیبہ (حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ کا پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا ) ازواج مطہرات کا مہر جیسا کہ حدیث میں آتا ہے پانچ سو درہم (۱۴۸۷ گرام چاندی ) ہو کرتا تھا (مسلم کتاب النکاح ) البتہ ام حبیبہ کا مہر چار سو دینار (۱۷۰۰ گرام سونا) تھا جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے حبش کے حکمراں نجاشی نے ادا کر دیا تھا۔ (تفسیر ابن کثیر ، ج ۳ ص ۴۹۹)۔
یہ مثال ہے فراغ دلی کے ساتھ مہر ادا کرنے کی مگر مسلمانوں کے ایک طبقہ نے مہر کو محض رسمی بنا لیا ہے۔ یا تو وہ پچیس پچاس روپیۓ مہر باندھتے ہیں جس میں پانچ گرام چاندی بھی نہیں آتی جب کہ وہ شادی پر ہزاروں روپیہ خرچ کرتے ہیں یا پھر دکھاوے کے لیے اتنا بڑا مہر باندھتے ہیں کہ اس کی ادائیگی کی نوبت ہی نہیں آتی۔ یہ دونوں ہی باتیں اصلاح طلب ہیں۔
۱۰۸۔۔۔۔۔۔ مراد وہ عورتیں ہیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر بطور غنیمت آپ کے حصہ میں آئی ہوں۔ ایسی عورتوں سے نکاح کرنے کی آپ کو اجازت تھی۔ اس اجازت کے تحت آپ نے حضرت جویریہ اور حضرت صفیہ سے نکاح کر لیا تھا۔ حضرت جویریہ غزوہ بنی لمصطلق (شعبان ۶ ھ ) میں گرفتار ہو کر آ گئی تھیں۔ وہ اس قبیلہ کے سردار کی بیٹی تھیں اور اسلام قبول کر لیا تھا اس لیے آپ نے ان کے مرتبہ کا خیال رکھتے ہوۓ ان کو آزاد کر کے اپنے نکاح میں لے لیا تھا۔ اسی طرح حضرت صفیہ غزوہ خیبر(۷ ھ) میں گرفتار ہو کر آ گئی تھیں اور یہود کے مشہور سردار کی بیٹی تھیں جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو آپ نے ان کی آزادی کو مہر قرار دے کر ان سے نکاح کر لیا۔ اس طرح ان دونوں مملوک عورتوں کو ازواج مطہرات میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔
۱۰۹۔۔۔۔۔۔" تمہارے ساتھ ہجرت کی " کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اسلام کی خاطر تم نے اپنے وطن اور گھر بار کو چھوڑا اسی طرح انہوں نے بھی یہ قربانی دی اور اس فریضہ کی ادائیگی میں تمہاری شریک رہیں ، ایسی چچا زاد پھوپھی زاد ، ماموں زاد، اور خالہ زاد بہنوں سے نکاح کرنے کی آپ کو اجازت دے دی گئی اس رخصت سے آپ نے اسی حد تک فائدہ اٹھایا جو حد تک دینی مصالح متقاضی ہوۓ۔ حضرت زینب اور آپ کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور حضرت ام حبیبہ ابو سفیان کی بیٹی تھیں جو بنی امیہ سے تھے یعنی ابو سفیان پر دادا کے واسطے سے آپ کے چچا ہوتے تھے۔
۱۱۰۔۔۔۔۔۔ یعنی کوئی مؤمن عورت نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) سے بلا مہر نکاح کی پیشکش کرے اور آپ اس پیشکش کو قبول کرتے ہوۓ اس سے نکاح کر لیں۔ حضرت میمونہ سے آپ کا نکاح جو ۷ ھ میں ہوا تھا اسی قاعدے کے تحت تھا۔
۱۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بلا مہر نکاح کی پیشکش (ہبہ نفس) کو قبول کرنا نبی (صلی اللہ علیہ و سلم ) کے لیے خاص ہے۔ عام مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں ہے۔
۱۱۲۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ سورہ نساء میں مسلمانوں کو چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور مملوک عورتوں کے سلسلہ میں بھی اس میں احکام بیان ہوۓ ہیں۔
۱۱۳۔۔۔۔۔۔ یعنی آپ کے لیے نکاح کا دائرہ اس لیے وسیع کر دیا گیا تاکہ اہم دینی مصالح کے پیش نظر اس دائرہ میں رہتے ہوۓ نکاح کرنے میں آپ کوئی رکاوٹ محسوس نہ کریں اور مخالفین کے اعتراضات کی کوئی پر واہ نہ کریں۔
واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشتر نکاح بیواؤں اور بڑی عمر والی عورتوں سے کیے تھے جس سے ان عورتوں کی دل جوئی بھی مقصود تھی اور متعلقہ قبائل اور خاندانوں پر اسلام کے اثرات ڈالنا بھی نیز ان کی تربیت کر کے انہیں امت کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنانا بھی۔
۱۱۴۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر ان عظیم عائلی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں نا دانستہ کوئی تقصیر ہو جاۓ تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۱۱۵۔۔۔۔۔۔ یعنی اس بات کا آپ کو اختیار ہے کہ ان میں سے جن کو چاہیں دور رکھیں اور جن کو چاہیں ساتھ رکھیں اور اس بات میں بھی آپ پر کوئی حرج نہیں کہ جن کو آپ نے الگ رکھا ہو ان میں کسی کو اپنے پاس بلا لیں۔ مطلب یہ ہے کہ نبی کا حق ان کے حقوق پر مقدم ہے اور نبی نے متعدد نکاح محض دین کے مصالح کے پیش نظر کیے ہیں اس لیے آپ کی ازواج کو جس حد تک بھی نبی کی صحبت میں رہنے کا موقع ملے اپنے لیے باعث سعادت خیال کرتے ہوۓ اس پر قناعت کرنا چاہیے۔ اس صورت میں نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھی سہولت ہو گی اور آپ کی ازواج بھی مطمئن اور خوش رہیں گی اس طرح نبی کے گھر کی فضا خوش گوار رہے گی۔
اگرچہ یہ اختیار جس کا ذکر اوپر ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے دیا تھا لیکن اس کے با وجود آپ اپنی تمام بیویوں کے درمیان باری باری رہتے تھے اور ان کے ساتھ عدل کرتے تھے۔ جن روایتوں میں یہ آیا ہے کہ آپ نے اپنی کچھ بیویوں کو الگ کر رکھا تھا وہ صحیح نہیں۔ ابو بکر جصاص لکھتے ہیں۔
" نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ اپنی بیویوں کے درمیان (رہنے کے لیے ) باری مقرر کیا کرتے تھے اور اس میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں ہے کہ کسی کو آپ نے باری سے مستثنٰی کر دیا ہو۔۔ ۔۔۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عدل کے ساتھ باری مقرر فرمایا کرتے تھے اور فرماتے اے اللہ یہ تقسیم جس حد تک میرے بس میں ہے میں نے کی ہے تو جو تیرے اختیار میں ہے اور میرے بس میں نہیں ہے اس پر گرفت نہ فرما"۔ (تفسیر جصاص ،ج۳ ص ۴۵۳)۔
البتہ حضرت سودہ نے چونکہ ان کی عمر کافی ہو گئی تھی اپنی باری حضرت عائشہ کو دے دی تھی۔
اس ہدایت ہی کا اثر تھا کہ ازواج مطہرات میں نہ کوئی رقابت پیدا ہوئی اور نہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی طرف سے کسی اذیت کا سامنا کرنا پڑا اور امہات المؤمنین کی حیثیت سے ان کا کردار بلند اور مثالی رہا۔
۱۱۶۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ نے اپنے نبی کو ان کی ازواج کے تعلق سے جو رعایت دی ہے اس پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے لیکن اگر تم نے شبہات کو بھی اپنے دل میں جگہ دی تو یاد رکھو اللہ تمہارے دلوں کا حال بخوبی جانتا ہے۔
۱۱۷۔۔۔۔۔۔ یعنی نبی اس مخصوص دائرہ میں رہ کر ہی نکاح کر سکتے ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا۔ اس دائرہ کے باہر نکاح کرنے کی نبی کو اجازت نہیں ہے۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جہاں مخصوص رعایتیں دی گئیں وہاں نکاح کے سلسلہ میں کچھ ایسی پابندیاں بھی آپ پر عائد کی گئیں جو عام مسلمانوں پر نہیں ہیں مثلاً یہ کہ اگر کسی مسلمان کی چار بیویاں ہیں تو وہ ان میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری بیوی لا سکتا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی عائد کر دی تھی کہ آپ اپنی موجودہ بیویوں میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری بیوی نہیں لا سکتے۔ یعنی شریعت کی پابندی آپ کے لیے بھی تھی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل ہوتا تھا اس کی آپ اتباع کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کی اپنی ذاتی اور عائلی زندگی بھی اس سے مستثنٰی نہیں تھی۔
علامہ ابن کثیر نے صراحت کی ہے کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت آپ کی نو ازواج موجود تھیں ، (البدایتہ والنہاریۃ ، ج ۵ ص ۲۹۱)۔
آیت کے فقرہ "اگر چہ ان کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند آۓ " سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ مردوں کے لیے نکاح کے سلسلے میں عورتوں کا حسن وجہ کشش ہے مگر اہل ایمان کے لیے شرعی حدود کا لحاظ از بس ضروری ہے۔
۱۱۸۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے نکاح تو ان ہی عورتوں سے جائز قرار دیا گیا جن کا ذکر اوپر کی آیت میں ہوا۔ البتہ اپنی مملوکہ عورتوں یعنی کنیز عورتوں سے زن و شوئی کا تعلق رکھنے کی اجازت دے دی گئی جو عام مسلمانوں کے لیے بھی تھی اس اجازت کے تحت ماریہ قبطیہ کو آپ نے قبول کر لیا تھا جس کو ہدیہ کے طور پر مصر کے نصرانی حکمراں مقوقس نے آپ کی خدمت میں بھیجا تھا اور یہ وضاحت بھی کر دی تھی کہ ان کو نہایت شریف خیال کیا جاتا ہے۔ ان ہی سے آپ کا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے ابراہیم رکھا تھا اور جس کا انتقال ۹ ھ میں ہوا۔
۱۱۹۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے گھر والوں کے احترام کے تعلق سے اہل ایمان کو چند ہدایتیں دی گئی ہیں۔ایک یہ کہ آپ کے گھروں میں بلا اجازت داخل نہ ہوں۔ دوسری یہ کہ اجازت ملنے کی صورت میں جائیں تو ضرورت کی حد تک ہی رکے رہیں کھانے کے انتظار میں بیٹھے نہ رہیں کہ کھانے کا وقت ہو جاۓ اور کھانا تمہارے سامنے آ جاۓ۔ ظاہر ہے یہ بات اخلاق سے فر و تر ہے اور ایک نبی کے گھر میں بُرے اخلاق کا مظاہرہ تو بہت بری حرکت ہے۔
۱۲۰۔۔۔۔۔۔ یہ تیسری ہدایت ہے کہ اگر تمہیں نبی کے گھر میں کھانے کے لیے مدعو کیا جاۓ تو ضرو جاؤ لیکن جب کھانا کھا چکو تو وہاں سے رخصت ہو جاؤ۔ آیت کے پہلے فقرہ میں نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) کے گھروں میں اجازت لے کر داخل ہونے کی ہدایت کی گئی تھی خواہ کسی ضرورت سے جانا پڑے اور اس فقرہ میں کھانے پر مدعو ہونے کی صورت میں ضروری احتیاط ملحوظ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
۱۲۱۔۔۔۔۔۔ یعنی نبی کے گھر میں داخل ہو جانے کے بعد تمہیں باتوں میں نہیں لگ جانا چاہیے خواہ تم اجازت لے کر کسی کام کے لیے داخل ہوۓ ہو یا کھانے پر مدعو ہو۔ بہر صورت نبی کا گھر عام مسلمانوں کے گھروں کی طرح نہیں ہے اس لیے آداب کو یہاں شدت کے ساتھ ملحوظ رکھنا چاہیے۔
۱۲۲۔۔۔۔۔۔ یعنی بنی مروۃً تم سے کچھ نہیں کہتے اور اپنے گھر میں تمہارے ضرورت سے زیادہ بیٹھے رہنے کو یا تم میں سے کسی کے کھانے کا وقت تا کتے رہنے کو اپنے کریمانہ اخلاق کی وجہ سے برداشت کر لیتے ہیں مگر اللہ کے لیے مروت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے نبی کے معاملے میں آداب کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت فرماتا ہے تاکہ اس پہلو سے بھی تمہاری صحیح تربیت ہو جاۓ۔
۱۲۳۔۔۔۔۔۔ یہ نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) کے گھر میں داخل ہونے کے تعلق سے چوتھی ہدایت ہے کہ تمہارے اور ازواج نبی کے درمیان پردہ ہونا چاہیے۔ اگر کوئی چیز مانگنے کی ضرورت پیش آۓ تو پردہ کے پیچھے سے مانگو۔ کسی آڑ کے بغیر ان کے سامنے جا کھڑے نہ ہو۔
اور اس کی حکمت بھی واضح فرما دی کہ اس طرح تم بھی اپنے دلوں کو زیادہ پاک صاف رکھ سکو گے اور وہ بھی ۔۔۔ بد گمانی کی کوئی بات پیدا نہ ہو سکے گی۔ پردہ کے سلسلہ میں یہ پہلی آیت تھی اور پردہ کے حکم کا آغاز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر سے کیا گیا۔ یہ پردہ اگرچہ عام مسلمانوں کے گھروں میں بھی مطلوب اور پسندیدہ ہے لیکن ان پر یہ لازم(واجب) نہیں کیا گیا ہے چنانچہ سورہ نور میں جو سورہ احزاب کے بعد نازل ہوئی عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان کر دوں کے سامنے جو اجازت لے کر گھر میں داخل ہوں اپنی زینت کا اظہار نہ کریں یعنی بن سنور کر ان کے سامنے نہ آئیں دیکھیے سورہ نور آیت ۳۱ نوٹ ۴۳۔
اگر گھر میں پردہ ڈال دینے کا حکم عام مسلمانوں کے لیے ہوتا تو پھر گھر میں یہ اجازت داخل ہونے والوں کے سامنے زینت کے ساتھ آنے کا سوال عورتوں کے لیے پیدا ہی نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا کہ عام مسلمان عورتوں کو گھر کے پردہ کے معاملے میں اتنا سخت حکم نہیں دیا گیا جتنا سخت حکم کہ ازواج مطہرات کو دیا گیا اور یہ اس بنا پر کہ ازواج مطہرات کا مقام امہات المؤمنین ہونے کی حیثیت سے عام مسلمان عورتوں سے بہت بلند ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ یہ آیت حضرت زینب کے ولیمہ کے موقع پر نازل ہوئی تھی :
"حضرت انس فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ علیہ و سلم نے زینب بنت جحش سے نکاح کیا تو لوگوں کو (ولیمہ کے لیے ) بلایا۔ جب لوگ کھانا کھا چکے تو بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔ آپ کھڑے ہونا چاہتے تھے لیکن لوگ نہیں اٹھے۔ بالآخر آپ کھڑے ہو گۓ۔ جب آپ کھڑے ہو گۓ تو اور لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوۓ لیکن تین آدمی بیٹھے رہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دوبارہ اندر آنا چاہا تو دیکھا لوگ بیٹھے ہوۓ ہی ہیں (اس لیے واپس تشریف لے گۓ) پھر جب وہ اُٹھ کر چلے گۓ تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جا کر کہا وہ چلے گۓ ہیں۔ آپ تشریف لاۓ اور ندر داخل ہوۓ تو میں بھی داخل ہونے لگا لیکن آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ (حجاب)ڈال دیا اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُو ا لَا تَدْ خُلُو ابُیُوتَ النَّبی "۔ (بخاری کتاب التفسیر)۔
۱۲۴۔۔۔۔۔۔ یعنی آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کی ازواج سے نکاح کرنا حرام ہے۔
۱۲۵۔۔۔۔۔۔ یعنی گھر کے پردہ کی اس قید سے جو اوپر کی آیت میں بیان ہوئی یہ لوگ مستثنٰی ہیں۔ ان میں محرم کے علاوہ مسلمان عورتوں اور مملوک یا لونڈی غلام جن کے وہ مال ہوں شامل ہیں۔
۱۲۶۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ حاضر و ناظر ہے۔
۱۲۷۔۔۔۔۔۔ عربی میں جب صلّی کے ساتھ علیٰ کا صلہ (Preposition) آتا ہے تو اس کے معنی رحمت بھیجنے اور دعاۓ رحمت کرنے کے ہوتے ہیں اس لیے آیت کے معنی ہوۓ اللہ نبی پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے نبی کے لیے دعاۓ رحمت کرتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی نبی کے لیے دعاۓ رحمت کرو اور خوب سالم بھیجو۔ پھر صلوٰۃ کے معنی عام رحمت کے نہیں بلکہ خاص رحمت کے ہیں یعنی ایسی رحمت جو عنایت اور اعزاز و اکرام کے ساتھ ہو۔ اردو میں اس کے لیے خاص لفظ درود ہے اور سلام بھیجنے کے معنی میں ہر قسم کی آفات سے سلامت رہنے کی دعا کرنا۔
درود و سلام کا یہ تحفہ بارگاہ رسالت میں پیش کرنے کا یہ حکم ہر مسلمان کو دیا گیا ہے اور جیسا کہ حدیث میں آتا ہے اس کا کثرت سے اہتمام کرنا بھی مطلوب ہے کیونکہ درود و سلام کے ذریعہ آپ سے محبت اور عقیدت کا تعلق استوار ہوتا ہے۔
نماز میں تشہد میں سلام و درود کے جو کلمات ادا کیے جاتے ہیں وہ قرآن کے اسی حکم کی تعمیل ہیں اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام بھیجنے کا جو طریقہ سکھایا گیا ہے وہ یہ ہے۔
اَلسَّلَا مُ عَلیْکَ اَیُّھا انَّبِیُّ وَرَ حْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ۔ (بخاری ابواب صفۃ الصلوٰۃ) " سلام ہو آپ پر اے نبی اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں "۔
واضح رہے کہ ایھا النبی(اے نبی !) کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم حاضر و ناظر ہیں کیونکہ ہر جگہ حاضر و ناظر صرف اللہ کی ذات ہے بلکہ یہ خطاب وقت کے نبی ہونے کی حیثیت سے ہے یعنی یہ تصور دلانے کے لیے کہ گویا آپ ہمارے درمیان رہنمائی کے لیے موجود ہی ہیں اور ہم بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر سلام عرض کر رہے ہیں۔ یہ بلاغت کا ایک اسلوب ہے جس کی مثال وہ دعا ہے جو زیارت قبور کے موقع پر کی جاتی ہے۔ اس دعا میں بھی مردوں سے خطاب کر کے انہیں سلام کیا جاتا ہے اور یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مردے حاضر و ناظر ہیں بلکہ مقصود یہ تصور دلانا ہوتا ہے کہ زیارت کرنے والا گویا مردوں کی مجلس میں پہنچ گیا ہے اور انہیں سلام کر رہا ہے۔جو لوگ بلاغت کے اس اسلوب کو نہیں سمجھتے وہ اس کو غلط معنی پہنا کر شرک و بدعت کے لیے راہیں ہموار کرتے ہیں۔ مگر اس کی تردید کے لیے حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ صراحت کافی ہے کہ ایھا النبی (اے نبی!) کے الفاظ ہم اس وقت کہا کرتے تھے جب آپ وفات پا گۓ تو ہم السلام عَلَی النبی (سلام ہو نبی پر ) کہنے لگے (بخاری کتاب الاستسذان) یعنی مخاطب کے صیغہ (اَیُّھا) کے بجاۓ غائب کے صیغہ میں سلام بھیجنے لگے۔ پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ نماز میں سلام بیٹھ کر بھیجا جاتا ہے لہٰذا آپ پر کسی وقت بھی سلام بھیجنے کے لیے کھڑے ہونے کی قید نہیں ہے مگر بدعتیوں نے میلاد النبی کی مجلس منعقد کرنے کا جو طریقہ رائج کیا ہے اس میں آپ پر سلام بھیجتے وقت کھڑا ہونا ضروری قرار دیا ہے اگر کوئی کھڑا نہ ہو تو اسے مطعون کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے عقیدہ ہی کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ ایسی ہی بدعتوں نے امت کے درمیان تفرقہ ڈال دیا ہے۔
رہا درود تو اس کا طریقہ بھی حدیث میں بیان ہوا ہے۔ کعب بن عجرہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں ؟ فرمایا کہو:
اَلّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اٰلِ ابراھِیْمَ اِ نَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ اَلّٰھُمَّ بَا رِ کْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَا رَکْتَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (اے اللہ ! محمد پر اور آل محمد پر رحمت بھیج جس طرح تو نے آل ابراہیم پر رحمت بھیجی۔ بلا شبہ تو لائق حمد اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ برکت نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر جس طرح تو نے آل ابراہیم پر برکت نازل فرمائی۔ بلا شبہ تو لائق حمد اور بزرگی والا ہے ) (بخاری کتاب الدعوات )۔
دوسری روایت میں دونوں جگہ علیٰ ابراہیم کے الفاظ کا اضافہ ہے درود میں تبعاً آل محمد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ آل کا لفظ عربی میں نسل اور خاندان کے معنی میں بھی آتا ہے اور پیروؤں کے معنی میں بھی آتا ہے چنانچہ لسان العرب میں ہے آل یعنی اَتْباع (اتباع کرنے والے ) (لسان العرب ، ج ۱۱ ص ۳۸ ) اور قرآن میں آل فرعون اس گروہ کو کہا گیا ہے جو فرعون کا پیرو تھا۔ حضرت ابراہیم کے پیروؤں میں غالب تعداد ان لوگوں کی تھی جو آپ کی نسل سے تھے اس لیے ان کو آل ابراہیم کہا گیا مگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پیرو ایک آفاقی امت ہیں اس لیے معنوی حیثیت سے وہ آل محمد قرار پاۓ۔ اس مفہوم کی تائید آیت ۴۳ سے بھی ہوتی ہے جس میں اہل ایمان پر اللہ اور اس کے فرشتوں کے صلاۃ یعنی رحمت بھیجنے کا ذکر ہوا ہے۔
درود کی فضیلت صحیح حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے :
مَنْ صَلَّی عَلیَّ صَلَاۃً صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ بِھَا عَشْراً ۔ " جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجے گا"۔ (مسلم کتاب الصلوٰۃ)
مگر ضعیف اور موضوع حدیثوں میں بڑے مبالغہ کے ساتھ اس کے فضائل بیان ہوۓ ہیں۔ بخاری کے شارح حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
" اس باب (یعنی درود کی فضیلت ) میں بہ کثرت ضعیف اور بے بنیاد حدیثیں ہیں اور جن روایتوں کو قصہ گویوں نے گڑھا ہے وہ تو بے شمار ہیں لیکن قوی حدیثیں ان سب سے بے نیاز کر دینے کے لیے کافی ہیں "۔ (فتح الباری ، ج ۱۱ ص ۱۴۱ )۔
مثال کے طور پر غیر معتبر روایت میں جمعہ کے دن اسی دفعہ درود بھیجنے کی فضیلت یہ بیان ہوئی ہے کہ اسی سال کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی ج ۱ ص ۲۵۱ ) ایسی روایتوں کو غیر محقق علماء بڑی بے احتیاطی سے نقل کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ ان فضائل کا تو خوب اہتمام کرنے لگے لیکن کتنی ہی دینی ذمہ داریوں کی طرف سے غافل ہو گۓ۔ رسمی طور پر تو وہ دیندار بن گۓ لیکن دین کی کامل اور مخلصانہ پیروی کا احساس ان میں ابھر نہ سکا۔
یہ بھی واضح رہے کہ درود ایک دعا ہے اور اس کا دین میں ایک اہم مقام(فضیلت) ہے لیکن ورد کے بارے میں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ ہی کے نام کا کریں اور تسبیح و تحمید بھی اسی کی کریں۔ ایک لاکھ درود شریف کے ختم کے لیے جو مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں اس کا رواج صحابہ کرام کے زمانہ میں نہ تھا اور نہ یہ طریقہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ درود تاج اور اس قسم کے دوسرے درود نیز ان کی لمبی چوڑی فضیلتیں سب بعد والوں کے اضافے ہیں۔ راست رو مسلمانوں کے لیے تو وہ درود ہی کافی ہے جس کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے۔
آپ کی ذات غیر معمولی احترام کی مستحق ہے اس لیے آپ کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ و سلم کا اہتمام ضروری ہے۔ صحابہ کرام آپ سے حدیثیں روایت کرتے ہوۓ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (فرمایا رسول اللہ نے درود اور سلام ہو آپ پر) کہا کرتے تھے اور محدثین نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ اختصار کے ساتھ (صلعم) یا (ص) لکھنا صحیح نہیں کیونکہ یہ بخیلی ہے۔ لکھنے والا اس کا تلفظ صلی اللہ علیہ و سلم نہیں کرتا اور نہ پڑھنے والا کرتا ہے۔ درود و سلام کی جتنی تکرار لکھنے اور پڑھنے میں ہو گی اتنا ہی اجر میں اضافہ ہو گا پھر بخل سے کام لینے کی کیا ضرورت ہے ؟
۱۲۸۔۔۔۔۔۔ اوپر کی آیت میں اہل ایمان کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر رحمت بھیجنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس آیت میں ان لوگوں کو رسوا کن انجام سے خبر دار کیا جا رہا ہے جو نبی کی اذیت کے درپے ہوتے ہیں۔ واضح ہوا کہ جو لوگ نبی پر رحمت بھیجتے ہیں وہ خود بھی رحمت کے مستحق بن جاتے ہیں۔اس کے بر خلاف جو لوگ نبی کو اذیت دیتے ہیں وہ لعنت کے مستحق بنتے ہیں اور یہ اشارہ ہے خاص طور سے ان منافقین کی طرف جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے تعدُّدِ نکاح اور آپ کی عائلی زندگی (Family Life) کو اعتراض کا نشانہ بناتے تھے اور اللہ کے احکام کا بھی مذاق اڑاتے تھے۔
اللہ کو اذیت دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بارے میں ایسی باتیں کہی جائیں جو اس کے غضب کو دعوت دینے والی ہوں۔ مثلاً اس کے لیے اولاد تجویز کرنا ، اس کے شریک ٹھہرانا، عیب اور نقص کو ا س کی طرف منسوب کرنا ، اس کو مخلوق پر قیاس کرنا ، اس کے مرتبہ سے فرو تر باتیں اس کی طرف منسوب کرنا ، اس کے رسولوں ، اس کی کتابوں اور اس کے احکام کا مذاق اڑانا اور اس کی شان میں گستاخی کے کلمات کہنا وغیرہ۔
اور رسول کو اذیت دینے کا مطلب یہ ہے کہ رسول کی شان میں گستاخی کرنا، آپ کی توہین کرنا آپ کی سنت کا مذاق اڑانا، آپ کی خانگی زندگی پر اعتراضات کرنا اور آپ کے فیصلوں کو نا انصافی پر محمول کرنا اور آپ سے لڑنا وغیرہ۔
اللہ اور اس کے رسول کی توہین کرنے والوں کے لیے نہ صرف آخرت میں لعنت ہے بلکہ دنیا میں بھی ان پر اللہ کی لعنت برستی ہے۔ وہ اللہ کی رحمت سے اس طرح دور پھینک دیے جاتے ہیں کہ ان کے حصے میں ذلت و رسوائی ہی آتی ہے۔ سچی عزت ان کو کبھی نصیب نہیں ہوتی۔
۱۲۹۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے منافقوں کی ان شرارتوں کی طرف جو وہ مومن مردوں اور عورتوں کو بد نام کرنے کے لیے کیا کرتے تھے تاکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تربیت سے جو بہترین گروہ وجود میں آ گیا تھا اس کو لوگوں کی نظروں میں گرایا جاۓ اور اسلام کے پھیلنے میں رکاوٹیں پیدا ہوں۔ آیت میں اس بات پر سخت تنبیہ ہے کہ کسی بھی مومن کرد یا عورت کی دل آزاری کی جاۓ اور ناکردہ گناہ کا الزام ان پر لگایا جاۓ۔ بے قصور کو قصور وار ٹھہرانا اس پر بہتان لگانا ہے۔ اور یہ کوئی معمولی گناہ نہیں بلکہ کبیرہ گناہ ہے خاص طور سے ایسی باتیں کہنا جو عفت و عصمت کو داغدار بنانے والی ہوں۔
موجودہ مسلم سوسائٹی میں تو معلوم ہوتا ہے اس گناہ کا کوئی احساس پایا ہی نہیں جاتا دیندار مسلمانوں پر الزام تراشی کرنا عام لوگوں کا شیوہ بن گیا ہے۔ مسلمانوں کے مختلف گروہ ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے الزامات لگاتے رہتے ہیں اور صحافت دل آزاری کا بھر پور سامان کرتی رہتی ہے۔ بہر حال جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا چاہتا ہے اسے بہت محتاط ہونا چاہیے اور اپنے مسلمان بھائی کے خلاف ایسی بات نہیں کہنی چاہیے جس کا ارتکاب اس نے کیا نہ ہو۔ حدیث میں آتا ہے :
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُنَ من لِسَا نِہِ وَیَدِہِ۔ " مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں "۔ (ریاض الصالحین ، ص ۵۹۹ بروایۃ بخاری و مسلم)
۱۳۰۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں عام مسلمان عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ جب وہ گھر سے باہر نکلیں جیسا کہ بعد کے فقرہ سے واضح ہے تو اپنے اوپر جلباب (چادر) ڈال لیا کریں اور اس کی مصلحت بھی واضح فرما دی کہ اس سے ان کی شناخت ہو سکے گی یعنی اس سے ظاہر ہو گا کہ وہ شریف اور حیا دار عورتیں ہیں لہٰذا شر پسند عناصر ان سے نہ غلط توقعات قائم کر سکیں گے اور نہ چھیڑ چھاڑ کر سکیں گے حیا کی یہ چادر ان کو نسبتاً زیادہ محفوظ رکھ سکے گی۔
جِلباب کے معنی ثوبٌ واسِعٌ "کشادہ کپڑے " کے ہیں (لسان العرب ، ج ۱ ص ۲۷۲ ) اور یہ اس چادر کے لیے بولا جاتا ہے جو دوپٹہ سے بڑا ہوتا ہے اور جسے عورتیں اپنے جسم اور لباس ڈھانکنے کے لیے اوڑھ لیتی ہیں۔ مِنْ یہاں اسی طرح بیانیہ ہے جس طرح حدیث ام عطیہ میں بیانیہ آیا ہے :
" ام عطیہ کہتی ہیں (آپ نے جب عورتوں کو عید کی نماز میں شرکت کی ترغیب دی تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ً ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہیں ہوتی تو وہ کیا کرے ؟ فرمایا : لِتُلْبِسْھَا اُخْتُھَا مِنْ جِلْبَا بِھَا۔ اس کی بہن اپنی چادر اس کو اڑھاۓ"۔
(فتح القدیر ، ج ۴ ص ۳۰۴ بروایتہ البخاری)
اس حدیث میں بھی مِنْ جِلْبا بِھَا کے الفاظ استعمال ہوۓ ہیں جن کے معنی اپنی چادر کے ایک حصہ یا پلو کو اڑھانے کے نہیں ہیں بلکہ اپنی چادر اڑھانے کے ہیں۔ اور یُدْ نِینَ عَلَیْھِنَّ کے معنی اپنے اوپر ڈال لینے کے ہیں۔ قرآن میں دوسری جگہ ہے وَدَانیَۃً عَلیْھم ظِلَا لْھَا " اس کے ساۓ ان کے اوپر ہوں گے ( الانسان:۱۴)۔
مطلب یہ ہے کہ مسلمان عورتیں جب گھر سے نکلیں تو اپنے اوپر ایسا کپڑا ڈال کر نکلیں جو اوڑھنی سے بڑا ہو اور جو ان کے جسم اور ان کے لباس کو چھپاۓ۔ یہ کپڑا خواہ چادر کی شکل میں ہو یا برقع کی شکل میں مقصود جسم کے کھلے حصوں ، زینت اور لباس کی تراش خراش کو چھپانا ہے تاکہ عورت اپنی جاذبیت کے ساتھ اجنبی مردوں کے سامنے سے نہ گزرے بلیہ اس اہتمام کے ساتھ گزرے جو حیا کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور جس سے اس کے شریف عورت ہونے کا اظہار ہو۔ پردے کے سلسلے میں یہ ایک اجمالی حکم ہے جو اس آیت میں دیا گیا ہے۔ اور اس میں یہ صراحت نہیں کی گئی ہے کہ عورت نہ اپنا چہرہ کھلا رکھ سکتی ہے اور نہ ہاتھ۔ کیونکہ قرآن جہاں فتنہ کے سدّ باب کی تدابیر تجویز کرتا ہے وہاں وہ حرج کو بھی رفع کرتا ہے تاکہ عورتوں کو غیر معمولی دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ چنانچہ سورہ نور میں جو اس سورہ کے بعد نازل ہوئی ہے عورتوں کو جہاں اپنی زینت چھپانے کا حکم دیا گیا ہے وہاں اِلَّا مَظَھَرَ مَنْ ھَا " بجز اس کے جو ظاہر ہو جاۓ " کا استثناء بھی کیا گیا ہے ( دیکھیے سورہ نور آیت ۳۱ اور نوٹ ۴۲ ) اس لیے جلباب(چادر ) کے حکم اجمال کے ساتھ دیا گیا ہے۔ اگر مقصود چہرہ اور ہاتھوں کو لازماً چھپانا ہوتا تو آیت میں اس کی صراحت موجود ہوتی۔ اس صراحت کی عدم موجودگی میں چہرہ اور ہاتھوں کو چھپانے اور جلباب (چادر)کو اس طرح سر سے پاؤں تک لپیٹ لینے پر اصرار کہ لباس کا کوئی بھی حصہ قطعاً کھلنے نہ پاۓ۔ قرآن کے ایک مجمل حکم میں شدت پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ شدت اگر ماضی میں پیدا کی گئی تھی تو وہ اس وقت کے حالات میں انگیز کر لی گئی ہو گی لیکن موجودہ حالات میں جبکہ عورتوں کو اپنی بہت سی ضرورتوں کو پورا کرنے اور اپنی متعدد ذمہ داریوں کو انجام دینے کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے پردہ کے حکم میں اس شدت کے پیدا کرنے سے ان کے لیے بڑا حرج اور بڑی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور اس کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ عورتیں پردہ کو " ناقابل عمل" سمجھ کر بالکل ترک کر بیٹھیں۔ اس لیے اعتدال کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
۱۳۱۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جلباب(پردہ ) کے حکم کی تعمیل اگر نیک نیتی کے ساتھ صحیح طریقہ پر کی گئی تو اس سلسلہ میں نا دانستہ جو کوتاہیاں ہوئی ہوں گی اللہ تعالیٰ ان سے درگزر کرے گا اور رحم فرماۓ گا۔
۱۳۲۔۔۔۔۔۔ مراد شہوت کا روگ ہے یعنی شہوت پرست۔
۱۳۳۔۔۔۔۔۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت منافقین اور شر پسند عناصر نے مدینہ کی فضا کو مکدر کرنے ، جنگ کی جھوٹی خبریں اڑا کر لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے اور مسلمان شریف عورتوں کو چھیڑنے اور ان کو بد نام کرنے کے لیے ان پر تہمت لگانے اور جھوٹی افواہیں پھیلانے میں بہت بے باک ہو گۓ تھے اس لیے ایک طرف مسلمان عورتوں کو ان کے فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے گھر کے باہر پردہ کا حکم دیا گیا اور دوسری طرف ان منافقین اور شر پسندوں کو تنبہ کیا گیا کہ اگر وہ باز نہیں آۓ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دے گا کہ وہ ان کی پوری سر کوبی کریں اور اسلامی معاشرہ کو ان مفسدین سے پاک کر دیں۔
واضح رہے کہ جلباب (پردہ) کے حکم کی اس مصلحت کا جو اس وقت کے حالات کے پیش نظر بیان ہوئی ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ حکم ان حالات کے ساتھ مخصوص ہے۔ قرآن کے بہت سے احکام مخصوص حالات ہی میں نازل ہوۓ ہیں لیکن وہ اپنی مستقل حیثیت رکھتے ہیں اور کسی حکم کی ایک مصلحت کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس حکم کی کل مصلحت وہی ہو بلکہ دوسری مصلحتیں بھی ہو سکتی ہیں جب کہ ایک مصلحت بیان کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہو۔
۱۳۴۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اللہ کی رحمت سے دور پھینک دیۓ جائیں گے اور جن کو اللہ اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے وہ ذلیل ہو کر رہتے ہیں۔
۱۳۵۔۔۔۔۔۔ چنانچہ سورہ توبہ میں (۹ ھ) میں منافقین کے ساتھ سختی برتنے کا حکم دیا گیا ہے :
یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنا فِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمُ (توبہ : ۷۳) " اے نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ "۔
اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی مسجد کو بھی جو انہوں نے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لیے بنائی تھی، جلانے کا حکم دیا۔ یہ سب تفصیل سورہ توبہ کی تفسیر میں گزر چکی۔
۱۳۶۔۔۔۔۔۔ یعنی اس سے پہلے جن امتوں میں رسول بھیجے گۓ تھے ان میں جہاں کافروں کا خاتمہ کر دیا گیا وہاں منافقوں اور مفسدوں سے بھی معاشرہ کو پاک کر دیا گیا اور مومنین صالحین پر مشتمل جس نۓ معاشرے کی تشکیل ہوئی تھی اسی کو بر قرار رکھا گیا اور خلافت کی ذمہ داریاں اسی کے سپرد کر دی گئیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ زمین سے فساد کو مٹا دینے کے بعد انسانی سوسائٹی کے نظام کو از سر نو صلاح پر قائم فرماتا رہا ہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ اللہ کی یہ سنت اس رسول کے حق میں پوری نہ ہو۔ اور یہ واقعہ ہے کہ نبی صلی اللہ و سلم کی وفات سے پہلے مدینہ کا ماحول مفسد عناصر سے پاک ہو گیا تھا۔
۱۳۷۔۔۔۔۔۔ قیامت کب آۓ گی ؟ یہ سوال نہ صرف مکہ کے لوگ بار بار پیش کرتے رہے بلکہ مدینہ میں بھی یہ سوال دہرایا جاتا رہا۔ قرآن نے اگرچہ اس کا متعدد بار جواب دیا ہے لیکن لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو برابر پریشان کر تے رہے اور مقصد ان کا یہ تھا کہ قیامت کے بارے میں شبہات پیدا کیے جائیں۔ مکہ میں اگر یہ کفار شبہات پیدا کر رہے تھے تو مدینہ میں منافقین بھی وہی کچھ کر رہے تھے۔
اگر اللہ کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ قیامت ا وقت کسی پر ظاہر نہ کر دیا جاۓ تو اس کا یہ مطلب کہاں ہوا کہ قیامت آۓ گی ہی نہیں موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہوتا تو کیا اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہو گا کہ موت آۓ گی ہی نہیں جب کہ اس کا آنا بالکل یقینی ہے۔ اسی طرح قیامت کا آنا بالکل یقینی ہے اگر چہ اس کا وقت ہمیں نہیں معلوم۔ البتہ قرآن یہ صراحت ضرور کرتا ہے کہ قیامت قریب ہی آ لگی ہے۔ اور واقعہ بھی یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں۔ آپ کے ذریعہ دین کی تکمیل ہو گئی اور اللہ کی حجت بھی دنیا والوں پر قائم ہو گئی اس لیے اب دنیا اپنے آخری مرحلہ ہی سے گزر رہی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّا عَۃُ کَھَا تَیْن وَ یَقْرِنُ بَیْنَ اُصْبُعَیْہِ السَّبَابَۃَ وَا لْوُسْطیٰ (مشکٰۃ کتاب الصلوٰۃ بروایۃ مسلم) "میں اور قیامت اس طرح ساتھ ساتھ بھیجے گۓ ہیں۔ آپ نے اپنی دو انگلیوں یعنی شہادت کی انگلی اور درمیان کی انگلی کو ملا کر اشارہ فرمایا"۔
مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۲۸۶ تا ۲۸۹۔
۱۳۸۔۔۔۔۔۔ یہ قیامت کے لیے جلدی مچانے والوں کے لیے انتباہ ہے کہ قیامت تو اپنے وقت پر آ کر رہے گی۔ رہے اس کا انکار کرنے والے تو ان کے لیے اللہ کی رحمت سے محرومی ہے اور جس دن قیامت قائم ہو گی انہیں بھڑکتی آگ (جہنم) سے واسطہ پڑے گا۔ کیونکہ قیامت کے انکار کے بعد آدمی اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کر ہی نہیں سکتا جس کی بناء پر وہ آخرت میں اجر کا مستحق قرار پاۓ بلکہ وہ ایسے کرتوت کرتا ہے جس کی بنا پر آخرت میں سزا ہی کا مستحق قرار پاتا ہے۔
۱۳۹۔۔۔۔۔۔ قیامت کے منکر دنیا میں تو اللہ کی اطاعت سے بھی منہ موڑے ہوۓ ہیں اور اس کے رسول کی اطاعت سے بھی لیکن قیامت کے دن جب جہنم سے سابقہ پیش آۓ گا تب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گا اور نادم ہو کر کہنے لگیں گے کہ کاش ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ کی اور اطاعت کی ہوتی اس کے رسول کی۔
۱۴۰۔۔۔۔۔۔ ساَدتَنا (اپنے سردار) سے مراد لیڈر اور با اقتدار لوگ ہیں اور کُبَراءَنا (اپنے بڑوں ) سے مراد مذہبی پیشوا وغیرہ ہیں منکرین کو جہنم میں پہنچ کر یہ احساس ہو گا کہ ہم نے دنیا میں اللہ کے بجاۓ سرکش لیڈروں کی بات مانی اور اس کے رسول کے بجاۓ گمراہ کرنے والے مذہبی پیشواؤں کی تقلید کی۔
۱۴۱۔۔۔۔۔۔ یعنی آج تو یہ منکرین اپنے قائدین پر تعریف کے ڈونگرے برسا رہے ہیں اور اپنے مذہبی پیشواؤں سے عقیدت کا اطہار کر رہے لیکن جہنم میں پہنچنے کے بعد یہ ان پر لعنت بھیجیں گے اور چاہی گے کہ ان کے عذاب اور لعنت میں اضافہ ہو جاۓ۔
۱۴۲۔۔۔۔۔۔ یہ پھر تاکیدی حکم ہے کہ اپنے نبی کو اس طرح اذیت نہ دو جس طرح بنی اسرائیل نے موسیٰ کو اذیت دی تھی۔ حضرت موسیٰ کی نافرمانی کرتے ہوۓ بنی اسرائیل انہیں جو تلخ جوابات دیتے رہے اس کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر ہوا ہے مثلاً ان کا یہ جواب کہ ارض مقدس میں تم اور تمہارا خدا جاؤ اور ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے۔ اس قسم کی ایذا وہی کی طرف سورہ صف کی آیت ۵ اشارہ کرتی ہے۔ لیکن یہاں جس اذیت کا ذکر ہوا ہے وہ ان کے اخلاق و کردار کو مجروح کرنے والی تھی یعنی ان کے خلاف الزام تراشی اور تہمت۔ اور ایک نبی پر جب کوئی گھناؤنا الزام لگایا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی زندگی ہی میں اس کو اس سے بری کر دیتا ہے تاکہ نبی کی شخصیت لوگوں کی نظروں میں داغ دار نہ ہونے پاۓ۔ اس سلسلہ میں حضرت یوسف کی مثال بہت واضح ہے جنہیں تہمت سے اللہ تعالیٰ نے اس طرح بری کر دیا کہ کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہی۔ اس آیت میں بھی یہ ارشاد ہوا ہے کہ اللہ نے موسیٰ کو الزامات سے بری کر دیا اور وہ اللہ کے نزدیک با وقار تھے۔ یہ دونوں ہی باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ الزامات اس نوعیت کے تھے جس سے حضرت موسیٰ کی عزت و ناموس پر حرف آتا تھا۔ قرآن نے اس کی تعیین نہیں کی کہ وہ کیا واقعہ تھا کیونکہ تذکیر کے پہلو اسے ایسے واقعات بیان نہ کرنا ہی مفید ہوتا ہے اس لیے کوئی ضرورت نہیں کہ ہم اس کو کریدنے کی کوشش کریں۔
مفسرین عام طور سے اس آیت کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا موسیٰ بڑے حیا دار اور ستر پوش تھے اس لیے ان کے جسم کا کوئی حصہ ظاہر نہیں ہوتا تھا مگر بنی اسرائیل نے اس کو اس بات پر محمول کیا کہ ان کو کوئی پوشیدہ مرض یا عیب ہے (ایک نبی کے احترام کے پیش نظر اس عیب کا ذکر کرنا ہم مناسب نہیں سمجھتے جو روایت میں بیان ہوا ہے ) اللہ نے ان کو اس عیب سے بری کرنا چاہا اس لیے ایسا ہوا کہ ایک دن جب موسیٰ تنہا تھے انہوں نے اپنے کپڑے اتار کر پتھر پر رکھے اور غسل کرنے لگے۔ جب غسل سے فارغ ہوۓ تو کپڑے لینے کے لیے آگے بڑھے لیکن پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگنے لگا۔ موسیٰ اس پتھر کا پیچھا کرتے ہوۓ بنی اسرائیل کے مجمع میں جا پہنچے۔ وہاں ان لوگوں نے انہیں عریاں حالت میں دیکھا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ موسیٰ کی خلقت میں کوئی عیب نہیں ہے۔ اس طرح اللہ نے ان کو اس بات سے بری کر دیا جو یہ لوگ ان کی طرف منسوب کرتے تھے۔ پھر پتھر ٹھہر گیا اور موسیٰ نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے اور اس پتھر پر اپنے عصا سے ضربیں لگائیں جس کے نشانات پتھر پر پڑ گۓ۔ آیت : لاتکونوا۔ .......... "ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو اذیت دی ............ کا اشارہ اسی واقعہ کی طرف ہے۔ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء)
یہ حدیث بخاری نے بھی روایت کی ہے اور مسلم نے بھی۔ بخاری کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا بنی اسرائیل برہنہ نہایا کرتے تھے۔ اور ایک دوسرے کے ستر کو دیکھتے تھے لیکن موسیٰ تنہائی میں نہایا کرتے تھے۔ (بخاری کتاب الغسل )۔
مگر مذکورہ روایت اپنے اسناد اور مضمون دونوں اعتبار سے لائق حجت نہیں۔ عبدالوہاب نجار نے قصص الانبیاء میں جو عربی میں ایک محققانہ کتاب ہے اس روایت پر سخت گرفت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :
۱)۔ یہ کیسا معجزہ ہے جو یک نبی کو بے ستر کرتا ہے۔ اگر موسیٰ کے کوئی جسمانی عیب تھا تو وہ اللہ کے نزدیک ان کے با وقار ہونے میں کیونکر مانع ہو سکتا تھا !
۲)۔ اگر موسیٰ پر جسمانی عیب کا الزام لگایا گیا تھا تو اس سے ان کے اللہ کے رسول ہونے کی نفی کس طرح ہوتی تھی جب کہ سورہ صف میں حضرت موسیٰ کا یہ ارشاد نقل ہوا ہے " اے میری قوم کے لوگو مجھے کیوں اذیت دیتے ہو جب کہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں " لہٰذا اذیت لازماً اس سے بڑی کسی بات کی رہی ہو گی۔ اور قرآن کریم میں ایذاء کا لفظ کسی بڑی بات ہی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
۳)۔ مذکورہ حدیث کی اسناد میں ایک راوی عوف ہیں جن کے بارے میں تہذیب التہذیب (اسماء الرجال کی مشہور اور مستند کتاب ) میں ہے کہ وہ شیعہ ، رافضی اور شیطان تھا:
۴)۔ میں اسی حدیث کو قبول کرتا ہوں جو خالص ہو یعنی جس کے رجال (راویوں ) میں کوئی عیب نہ ہو اور جس پر میرا نفس مطمئن ہوتا ہے۔ رہی وہ حدیث جس کا کوئی راوی مجروح ہو خواہ وہ جرح خفیف سی کیوں نہ ہو اس کی میرا نفس قبول نہیں کرتا خواہ اس حدیث کو کتنوں ہی نے معتبر مانا ہو۔ کیونکہ میں جرح کو تعدیل پر مقدم رکھتا ہوں خاص طور سے اس صورت میں جب کہ راوی بدعتی ہو خواہ وہ اپنی بدعت کی طرف دعوت دیتا ہو یا نہ دیتا ہو اور اس صورت میں تو اور بھی زیادہ جب کہ راوی شیعی ہو۔
۵ )۔حدیث میں ہے کہ حسن (بصری) نے ابو ہریرہ سے سماعت حدیث ثابت نہیں اور نہ خلاص کی ابوہریرہ سے سماعت حدیث ثابت نہیں اور نہ خلاص کی ابو ہریرہ سے سماعت ثابت ہے۔ عمدۃ القاری (شرح بخاری ) میں یہ صراحت موجود ہے۔
۶ )۔ رہی بخاری کی وہ روایت جو ایک دوسرے طریقہ اسناد سے بیان ہوئی ہے تو اس میں ایک راوی عبدالرزاق ہیں جن کے بارے میں ابن معین کہتے ہیں کہ وہ قوی نہیں ہیں اور ان کا تعلق شیعیت سے بتایا گیا ہے۔ انہوں نے اہل بیت کے فضائل میں بہت سی حدیثیں بیان کی ہیں جو کسی ثقہ راوی نے نہیں بیان کیں۔
۷)۔ علماء کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں برہنہ نہانا جائز تھا لیکن اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں۔ لوگوں کے سامنے ستر کھولنے کی قباحت تو انسانی طبیعت ہی میں مرکوز ہے۔
۸ )۔ کیا معجزہ بغیر نص قطعی کے ثابت ہوتا ہے ؟ (قصص الانبیاء عبد الوہاب نجار ص ۲۸۱ تا ۲۹۱)
عبدالوہاب نجار کے ان دلائل میں بڑا وزن ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ مذکورہ حدیث کو حدیث رسول قرار دیا جاۓ اور حضرت موسیٰ کی طرف ایک ایسی بات منسوب کی جاۓ جس سے ان کی ہتک عزت ہوتی ہو۔ مگر جو لوگ حدیث کے معاملہ میں تحقیق اور دینی بصیرت سے کام لینے کی راہ کھلی رکنا نہیں چاہتے وہ ایسے موقع پر انکار حدیث کی پھبتی چست کر دیتے ہیں مگر ہمیں اپنی مدافعت سے زیادہ قرآن اور پیغمبروں کی مدافعت عزیز ہونی چاہیے۔ مزید ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اسناد کے اعتبار سے یہ حدیث ہر گز ایسی نہیں ہے جس کو صحیح کا درجہ دیا جاۓ۔ عبدالرزاق کے بارے میں میزان الاعتدال (اسماءالرجال کی کتاب جو امام ذہبی کی تالیف ہے ) میں محدثین کی متضاد رائیں نقل کی گئی ہیں۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ وہ ثقہ ہیں لیکن معمر سے حدیثیں روایت کرنے میں غلطی کر جاتے ہیں۔
نسائی کہتے ہیں کہ ان سے منکر حدیثیں مروی ہیں اور ابن عدی کہتے ہیں کہ ان کو شیعیت کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ محمد بن عثمان الثقفی البصری کا بیان ہے کہ جب عباس بن عبد العطیم صنعاء سے عبدالرزاق کے پاس سے واپس آۓ تو ہم سے کہا اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ عبد الرزاق کذاب ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں عبدالرزاق نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ حدیث بھی بیان کی ہے کہ جب تم معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو انہیں قتل کر دو۔ ( دیکھیے میزان الاعتدال ، ج ۲ ص ۶۰۹ تا ۶۱۲) اسی طرح عوف کے بارے میں بھی محدثین کی رائیں مختلف ہیں (میزان الاعتدال ، ج ۳ ص ۳۰۵ )۔
محدثین کی ان صراحتوں کے بعد بھی اگر امام بخاری عبد الرزاق کی روایت کو قابل قبول سمجھتے ہیں تو ضروری نہیں کہ دوسرے بھی ان سے اتفاق کریں۔
آیت کی تفسیر میں البتہ بخاری کی درج ذیل حدیث کو پیش کیا جاسکتا ہے :
" نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مال تقسیم فرمایا تو ایک شخص نے کہا اس تقسیم میں اللہ کی رضا نہیں چاہی گئی ہے۔ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس سے با خبر کیا۔ آپ سخت بر ہم ہوۓ۔ پھر فرمایا اللہ موسیٰ پر رحم فرماۓ۔ انہیں اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا"۔(بخاری کتاب احادیث الانبیاء)
نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر مال کی تقسیم میں نا انصافی کا الزام اس نوعیت کا تھا جس سے آپ کی اخلاقی حیثیت مجروح ہوتی تھے اس لیے اس موقع پر آپ نے حضرت موسیٰ کا جو حوالہ دیا تو اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کو ایسی اذیت دی گئی تھی جو آپ کی اخلاقی حیثیت کو مجروح کر دینے والی تھی۔
۱۴۳۔۔۔۔۔۔ درست بات (قول سدید) کہنے کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ کسی کے خلاف الزام تراشی اور تہمت کی باتیں نہ کی جائیں اور یہ بات بھی کہ جو بات کی جاۓ سر تا سر سچائی پر مبنی ہو۔ نیم صداقت اور گول مول باتیں کرنا جس سے دوسروں کو دھوکا ہو صحیح نہیں۔۔۔۔۔ جنگ کے موقع پر یا کسی مفسدہ سے بچنے کے لیے آدھا سچ (Half truth) کہنا ایک استثنائی صورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ جو بات کریں اللہ سے ڈرتے ہوۓ کریں اور راست گوئی کو اپنا شعار بنا لیں۔ اگر کسی سے وعدہ کریں تو اس کو پورا کرنے کے ارادہ سے کریں۔ خالی وعدے جن کو پورا کرنے کی کوئی فکر نہیں کی جاتی درست بات کہنے کے منافی ہے۔
۱۴۴۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ جو شخص اپنی زبان کو درست رکھتا ہے اور اپنے قول کا سچا اور پکا ہوتا ہے اس کو اپنے اعمال درست کرنے کی توفیق ملتی ہے گویا راست گفتاری کا ثمرہ عملی زندگی کا درست ہونا ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص غیر ذمہ دارانہ باتیں کرتا ہے اور اپنی غلطیوں کو سننے کا روادار نہیں ہوتا ہو اپنے کو اصلاح سے محروم رکھتا ہے۔
۱۴۵۔۔۔۔۔۔ اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اور رسول کی اطاعت یہ ہے کہ آپ سے جو احکام ثابت ہیں خواہ وہ عبادات سے تعلق رکھتے ہوں یا معاملات سے انفرادی زندگی سے متعلق ہوں یا اجتماعی زندگی سے ان کی ٹھیک ٹھیک پابندی کی جاۓ۔
۱۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں امانت سے مراد وہ اختیارات ہیں جو دیے تو اس لیے گۓ ہیں کہ اللہ کی اطاعت کے لیے استعمال کیے جائیں لیکن چونکہ یہ اختیارات دے کر انسان کو امتحان گاہ میں کھڑا کر دیا گیا ہے اس لیے اسے یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ ان اختیارات کو چاہے تو اللہ کی اطاعت کے لیے استعمال کرے اور چاہے تو اس کی نافرمانی کے لیے استعمال کرے۔ جو شخص اس کی اطاعت کے لیے استعمال کرے گا وہ اس امتحان میں کامیاب ہو گا اور امانت داری کا ثبوت دینے کی بنا پر بہت بڑے انعام یعنی ابدی فوز و فلاح کا مستحق قرار پاۓ گا اور جو شخص اس کی نافرمانی کے لیے استعمال کرے گا وہ اس امتحان میں ناکام ٹھہرے گا اور اللہ کی امانت میں خیانت کرنے کی بنا پر بہت بڑی سزا یعنی ابدی خسران و عذاب کا مستحق قرار پاۓ گا۔
یہ بار امانت ایسا گراں تھا کہ آسمان و زمین اور پہاڑ جیسی عظیم مخلوق اسے اٹھانے سے ڈر گئی مگر انسان چونکہ طبعاً اس کو اٹھانے کی پوری اہلیت رکھتا تھا اس لیے اس نے اللہ کی اس پیش کش کو ابدی انعام کی طمع میں قبول کر لیا۔ لہٰذا انسان کی حیثیت دنیا میں امانتی اختیارات رکھنے والی مخلوق کی ہے اور فطری طور پر اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان اختیارات کو اپنے رب کی مرضی کے مطابق استعمال کرے لیکن انسان نے اس حقیقت کو بھلا دیا ہے چنانچہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد اپنے کو خود مختار سمجھتی ہے اور من مانے طریقے پر اپنے اختیارات کے استعمال کر کے اللہ کی امانت میں خیانت کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ایسا کر کے وہ اپنے نفس پر بڑا ظلم بھی کر رہے ہیں اور بڑی جہالت کا ثبوت بھی دے رہے ہیں۔
کَانَ ظَلُوماً جَھُولاً کو بعض مفسرین نے " وہ بڑا ظالم اور جاہل تھا " کہ معنی میں لیا ہے اور پھر طرح طرح کی تاویلیں کی ہیں حالانکہ عربی میں کان "تھا" ہی کے معنی میں نہیں آتا بلکہ "ہے " اور "واقع ہوا ہے " کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے کَانَ اللہُ غَفوراً رَحِیْما " اللہ غفور و رحیم ہے " اور کَانَ الانسان عَجُولاً " انسان جلد باز واقع ہوا ہے " اس لیے یہاں جو معنی موزوں (فِٹ) ہوتے ہیں وہ یہی ہیں کہ انسان اس بار امانت کو اٹھانے کے بعد ظالم اور جاہل بن گیا ہے۔ ظالم اعتبار سے کہ اللہ کی امانت میں خیانت کرتا ہے اور جاہل اس اعتبار سے ہ اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتا اور انجام سے بے خبر ہو کر اپنے کو آزاد اور خود مختار خیال کرنے لگتا ہے۔ دنیا میں اکثر انسانوں کا حال یہی ہے۔
رہا یہ سوال کہ آسمان و زمین اور پہاڑ جمادات ہیں ان کے سامنے امانت کو پیش کرنے اور ان کے نکار کرنے کا کیا مطلب؟ تو ہمیں اپنے محدود دائرہ علم میں رہ کر اس کے معنی متعین نہیں کرنا چاہیے اور نہ اس کو مجاز پر محمول کرنا چاہیے بلکہ اس کو اسی طرح حقیقت واقعہ سمجھنا چاہیے جس طرح قرآن میں اسے پیش کیا گیا ہے۔ اللہ اپنی کسی بھی مخلوق سے خواہ وہ جمادات ہی کیوں نہ ہو بات کر سکتا ہے اور وہ اس کی بات کو سن سکتی ہے قرآن صراحت کرتا ہے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کی تسبیح و حمید کرتی ہے مگر انسان اس کو سمجھ نہیں پاتا۔ آیت سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اگر آسمان و زمین اور پہاڑ اس امانت حال اختیارات دے کر آزمائش میں ڈالا جاتا مگر وہ اس کے تصور ہی سے کانپ اٹھے۔ ان کا انکار بھی اس معنی میں نہیں تھا کہ اللہ نے ان کو اس کے اٹھانے کا حکم دیا تھا اور انہوں نے انکار کیا بلیہ اس معنی میں تھا کہ ان کو امانت قبول کرنے یا نہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار (Choice) دیا گیا تو وہ اس کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوۓ۔
۱۴۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اس مانت میں خیانت کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا ہے کہ اس جرم کے مرتکبین سزا پائیں۔ منافق (اپنے کفر کو چھپا کر اپنے کو مسلمان کہلانے والے ) اور وہ مشرک خواہ وہ مرد ہوں یا عورت سب سے بڑے خائن ہیں اس لیے وہ اپنے اس جرم کی سزا بھگت کر رہین گے۔
۱۴۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جو امانت داری کا ثبوت دیں گے وہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں گے اور امانت داری کا ثبوت دینے والے سچے مومن ہی ہو سکتے ہیں خواہ وہ کرد ہوں یا عورتیں۔ انہوں نے جب ان اختیارات کو اللہ کی امانت سمجھ کر استعمال کیا ہو گا تو جو قصور ان سے سر زد ہو گۓ ہوں گے ان کے بارے میں اللہ ان کی توبہ قبول فرماۓ گا۔ اس میں اہل ایمان کے لیے ترغیب ہے اس بات کی کہ وہ اپنے قصوروں پر نظر رکھیں اور اللہ کے حضور توبہ کرتے رہیں۔