پہلی آیت میں قمر(چاند) کے پھٹ جانے کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام " القمر" ہے۔
مکی ہے۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ آیت بل الساعۃ موعد ہم والساعۃ ادھی وامر(بلکہ ان سے قیامت کا وعدہ ہے اور قیامت بڑی سخت اور بہت کڑوی ہے۔ آیت ۴۶) نازل ہوئی تو میں کم سن لڑکی تھی اور کھیل رہی تھی۔ (بخاری کتاب التفسیر) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سورہ کا نزول ۱۰ ھ نبوی کے گل بھگ زمانہ میں ہوا ہو گا۔
قیامت اور عذابِ الٰہی سے خبردار کرنا اور رسول کی تکذیب کرنے والوں کو متنبہ کرنا ہے۔
آیت ۱ تا ۵ میں کافروں کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ اب جبکہ قیامت کی نشانی ظاہر ہو گئی ہے اور وہ تاریخی واقعات بھی جن میں درسِ عبرت ہے ان کے علم میں آ چکے ہیں تو وہ اپنے کفر پر کس طرح جمے ہوئے ہیں !
آیت ۶ تا ۸ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ کٹر کافر اسی وقت ہوش میں آئیں گے جب قیامت ظہور میں آئے گی۔
آیت ۹ تا ۴۲ میں مختصراً ان قوموں کا انجام بیان کیا گیا ہے جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا کہ وہ کس طرح دنیا ہی میں عذاب کی لپیٹ میں آ گئیں۔
آیت ۴۳ تا ۵۳ میں قریش سے خطاب کر کے انہیں قیامت کی تلخیوں سے خبردار کیا گیا ہے۔
آیت ۵۴ تا ۵۵ سورہ کی اختتامی آیتیں ہیں جن میں متقیوں کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔۱*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ کوئی نشانی دیکھ لیتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو جادو ہے جو چلا آ رہا ہے۔ ۲*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ اور ہر معاملہ کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ ۳*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے پاس ان تاریخی واقعات کی خبریں پہنچ چکی ہیں جن میں جھنجھوڑنے کا کافی سامان موجود ہے۔۴*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ نہایت مؤثر حکمت لیکن تنبیہیں ان پر کار گر نہیں ہو رہی ہیں۔ ۵*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔تو ان سے رخ پھیر لو۔ ۶* جس دن پکار نے والا انہیں ایک سخت ناگوار چیز کی طرف پکارے گا۔ ۷*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی نگاہیں ذلت سے جھکی ہوئی ہوں گی۔ ۸* اور اس طرح قبروں سے نکلیں گے کہ گویا بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں۔ ۹*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ پکارنے والے کی طرف سہمے ہوئے دوڑ رہے ہوں گے۔ ۱۰* اس وقت کافر کہیں گے یہ بڑا کٹھن دن ہے۔ ۱۱*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا تھا۔ ۱۲*انہوں نے ہمارے بندے کو ۱۳* جھٹلایا اور کہا یہ دیوانہ ہے اور وہ جھڑک دیا گیا۔ ۱۴*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہوں۔ اب تو ان سے انتقام لے۔ ۱۵*
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ تب ہم نے آسمان کے دروازے موسلا دھار بارش سے کھول دیئے۔ ۱۶*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زمین پر چشمے بہا دئے ۱۷* تو پانی اس کام کے لیے مل گیا جو مقدر ہو چکا تھا۔ ۱۸*
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے اسے ایسی کشتی میں سوار کر دیا جو تختوں اور میخوں والی تھی۔ ۱۹*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہماری نگرانی میں چل رہی تھی۔ یہ صلہ تھا اس شخص کے لیے جس کی ناقدری کی گئی تھی۔ ۲۰*
۱۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس(کشتی ) کو ایک نشانی بنا کر چھوڑ دیا۔ ۲۱* تو ہے کوئی عبرت حاصل کرنے والا؟
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھ لو کیسا تھا میرا عذاب اور کیسی تھیں میری تنبیہیں۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے قرآن کو نصیحت پذیری کے لیے آسان بنا دیا ہے تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟ ۲۲*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ عاد ۲۳* نے جھٹلایا تو دیکھو کیسا رہا میرا عذاب اور کیسی رہیں میری تنبیہیں !
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ایک مسلسل نحوست کے دن ۲۴* ان پر تند ہوا بھیج دی۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگوں کو اکھاڑ کر اس طرح پھینک رہی تھی کہ گویا وہ اکھڑی ہوئی کھجور کے تنے ہیں۔ ۲۵*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔تو دیکھو کیسا رہا میرا عذاب اور کیسی رہیں میری تنبیہیں۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے قرآن کو نصیحت پذیری کے لیے آسان بنا دیا تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمود ۲۶* نے بھی تنبیہوں کو جھٹلایا۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ کہنے لگے کیا ہم ایک بشر کی پیروی کریں گے جو ہم ہی میں سے ہے ؟ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم غلط راہ پر جا پڑے اور دیوانگی میں مبتلا ہوئے۔۲۷*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہمارے اندر سے اسی پر ذکر (نصیحت) نازل کیا گیا ؟ ۲۸* نہیں بلکہ یہ بڑا جھوٹا اور گھمنڈی ہے۔۲۹*
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کل انہیں معلوم ہوا جاتا ہے کہ کون بڑا جھوٹا اور گھمنڈی ہے۔ ۳۰*
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اونٹنی کو ان کے لیے آزمائش بنا کر بھیج رہے ہیں۔ ۳۱* تو ان کو دیکھتے رہو اور صبر کرو۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کو بتا دو کہ پانی ان کے درمیان تقسیم ہو گا۔ ہر ایک کو اپنی باری کے دن پانی پر آنا ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے اپنے ساتھی کو بلایا اور اس نے آگے بڑھ کر اس کی کونچیں کاٹ دیں۔ ۳۲*
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تو دیکھو کیسا رہا میرا عذاب اور کیسی رہیں میری تنبیہیں۔
۳۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان پر ایک ہی ہولناک آواز بھیجی تو وہ باڑ والے کی باڑ کے چورے کی طرح ہو کر رہ گئے۔ ۳۳*
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے قرآن کو نصیحت پذیری کے لیے آسان بنایا ہے تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ لوط ۳۴* کی قوم نے بھی تنبیہوں کو جھٹلایا۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ہوا بھیج دی۔ ۳۵* صرف لوط کے متعلقین اس سے بچے۔ ۳۶* ہم نے ان کو سحر کے وقت نجات دی۔ ۳۷*
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے خاص فضل سے اس طرح ہم جزا دیتے ہیں ان کو جو شکر کرتے ہیں۔۳۸*
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ان کو ہماری پکڑ سے خبردار کر دیا تھا مگر وہ تنبیہات میں شک کرتے رہے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انہوں نے اس کو اپنے مہمانوں کی عزت بچانے سے باز رکھنا چاہا تو ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کر دیں۔ ۳۹ *کہ چکھو میرے عذاب اور میری تنبیہات کا مزہ۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح سویرے ان کو قائم رہنے والے عذاب نے آ لیا۔ ۴۰*
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تو چکھو میرے عذاب اور میری تنبیہات کا مزا
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے قرآن کو نصیحت پذیری کے لیے آسان بنایا ہے۔ تو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آلِ فرعون کے پاس بھی تنبیہیں آتی تھیں۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے ہماری ساری نشانیوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو پکڑا جو ایک غالب اور قدرت والے کی پکڑ تھی۔۴۱*
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمہاری قوم کے کفار ان قوموں کے کفار سے بہتر ہیں۔ ۴۲* یا تمہارے لیے آسمانی صحیفوں میں برأت لکھی ہوئی ہے ؟ ۴۳*
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یا وہ کہتے ہیں کہ ہم سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ عنقریب ان کا جتھا شکست کھائے گا اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔۴۴*
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ ان سے اصل وعدہ تو قیامت کا ہے۔ ۴۵ اور قیامت کی گھڑی بڑی سخت اور کڑوی ہو گی۔ ۴۶*
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ مجرم گمراہی اور عقل کی خرابی میں مبتلا ہیں۔ ۴۷*
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن یہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے۔ اب چکھو جہنم کی لپیٹ کا مزا۔ ۴۸*
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ہر چیز ایک تقدیر(منصوبہ) کے ساتھ پیدا کی ہے۔ ۴۹*
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمارا حکم تو بس یک بارگی پلک جھپکنے کی طرح عمل میں آ جائے گا۔ ۵۰*
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تمہارے ہم مشربوں۔ ۵۱* (تمہارے طریقہ پر چلنے والوں ) کو ہلاک کر چکے ہیں تو ہے کوئی سبق لینے والا۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ سب ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر چھوٹی بڑی بات ضبطِ تحریر میں لائی گئی ہے۔ ۵۲*
۵۴)۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہ متقی باغوں اور نہروں میں ہوں گے۔ ۵۳*
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔ سچے مقام میں ۵۴* ایک با اقتدار بادشاہ کے پاس۔ ۵۵*
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاند کے پھٹنے کا واقعہ جو مکہ سے قریب منیٰ میں غالباً ۸ نبوی میں پیش آیا قرآن اور احادیث صحیحہ دونوں سے ثابت ہے اور تمام مفسرین اس پر متفق ہیں۔ قرآن کی یہ آیت اس بارے میں صریح ہے کہ چاند پھٹ گیا جو اس بات کی علامت ہے کہ قیامت قریب آ لگی ہے اور یہ علامت قیامت کا نشان بن کر ظاہر ہوئی ہے۔ لیکن اس صریح نشانی کو دیکھ کر کافروں نے قبولِ حق سے گریز کیا اور واقعہ کی توجیہ اس طرح کی کہ یہ اس شخص (یعنی پیغمبر) کا جادو ہے جس نے ہماری نظریں باندھ دی ہیں اور یہ جادو ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے۔
اور جہاں تک احادیث صحیحہ کا تعلق ہے بخاری" مسلم " ترمذی اور دیگر کتب حدیث میں بہ کثرت روایات موجود ہیں جو اس واقعہ کی صراحت کرتی ہیں۔ بخاری کی حدیث ہے :
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ: اِنْشَقَّ الْقَمَرُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ و سلم فِرْقَتَیْنِ فِرْقَۃٌ فَوْقَ الْجَبَلِ وَفِرْقَۃٌ دَوْنَہ" فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ و سلم اِشْہَدُوْا۔
" حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک پہاڑ کے اوپر رہا اور دوسرا اس کے پیچھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا گواہ رہو۔" (صحیح البخاری کتاب التفسیر)
حضرت عبداللہ ابن مسعود اس کے عینی گواہ ہیں۔ اس طرح اس واقعہ کو حضرت علی" حضرت حذیفہ اور حضرت جبیر بن مطعم نے بیان کیا ہے جنہوں نے اس واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ دیگر صحابہ کی روایت سے بھی جو اگرچہ اس کے عینی شاہد نہیں ہیں لیکن ان کے بیان پر شبہ کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے اس واقعہ کی تائید ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی رسول کو بھیجتا ہے تو ایسی علامتوں کا ظہور ہوتا ہے جو اس کی صداقت پر دلالت کرنے والی ہوتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے زمانہ میں آسمان پر خاص حفاظتی انتظامات اور شہاب ثاقب کی کثرت کا اہتمام ہوا جس کا ذکر سورۂ جن میں جنوں کی زبانی ہوا ہے۔ اس لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں چاند کے شق ہونے کا واقعہ ظہور میں آیا۔ منکرین قیامت کو ناممکن خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک لمحہ کے لیے چاند کے دو ٹکڑے کر کے انہیں قیامت کی ایک جھلک دکھا دی اور یہ بات ظاہر ہو گئی کہ جب چاند پھٹ سکتا ہے تو اجرام فلکی بھی درہم برہم ہو سکتے ہیں اس لیے قیامت کے انکار کی کوئی وجہ نہیں اور چاند کے پھٹ جانے سے اس کا وقوع قریب تر ہو گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے قیامت کی ہولناکیوں کا آغاز بھی چاند کے گہنا جانے سے ہو گا۔ سورۂ قیامۃ میں ہے : یَسْئَلُ اَیَّاکَ یَوْمُ الْقِی َامَۃِ فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُوَ خسَفَ الْقَمَرُ۔
" انسان پوچھتا ہے قیامت کا دن کب ہو گا؟ تو جب آنکھیں چندھیا جائیں گی اور چاند گہنائے گا۔"(القیامۃ: ۶تا ۸)
جہاں تک چاند کی سطح کا تعلق ہے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس پر بہ کثرت آتش فشانی گڑھے (Craters) موجود ہیں اور چاند کی سطح کی جو تصویریں سامنے آئی ہیں ان سے بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے اس لیے عجب نہیں کہ کسی آتش فشانی دھماکہ کے نتیجہ میں چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے ہوں اور پھر قانونِ انجذاب (کشش) نے دونوں کو فوراً ملا دیا ہو۔
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ چاند کے پھٹ جانے کا یہ واقعہ اللہ تعالیٰ نے معجزانہ انداز میں دکھایا تھا اور جس چیز کا صدور معجزہ کے طور پر ہوتا ہے اس کی نوعیت غیر معمولی ہوتی ہے یعنی وہ عام طبیعی قوانین کے تابع نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر بلقیس کا تخت حضرت سلیمان(علیہ السلام) کی آنکھ جھپکنے سے پہلے ان کے دربار میں پہنچ گیا تھا(سورہ نمل آیت ۴۰) جبکہ اس کو فضا میں اڑتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس کی صورت کیا رہی ہو گی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی سانپ بن جایا کرتی تھی۔ مگر اس سانپ نے کسی کو کاٹا نہیں البتہ جادو گروں کے طلسم کو وہ نگل گیا۔ اور سانپ کی تو ایک نسل ہوتی ہے مگر لاٹھی کے سانپ بن جانے اور اس سانپ کے پھر لاٹھی بن جانے کا واقعہ ظاہر ہے طبعی قانون(Physical Laws) سے اک مستثنیٰ (Exceptional) صورت تھی۔ اسی طرح چاند کا پھٹ جانا غیر معمولی(خارقِ عادت) طریقہ پر ہوا تھا اس لیے نہ دنیا میں اس کا کوئی دھماکہ سنائی دیا اور نہ دنیا بھر کے لوگوں کو بروقت اس کی خبر ہوئی۔ چاند کی رفتار میں بھی کوئی فرق نہیں آیا اور نہ اس کا اثر دنیا کے طبیعی حالات پر پڑا۔معجزاتی طور پر قیامت کی یہ نشانی ان لوگوں کو دکھانا مقصود تھی جن کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہوئی تھی۔چنانچہ مسلمانوں اور کافروں دونوں نے دیکھا کہ چاند کا ایک ٹکڑا حراء پہاڑ کے اوپر ہے اور دوسرا ٹکڑا اس کے پیچھے چلا گیا ہے۔ اہل ایمان کے ایمان میں تو اس سے اضافہ ہوا لیکن کافروں نے اسے جادو قرار دیا۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ شق القمر کا معجزہ کافروں کے مطالبہ پر نہیں دکھایا گیا تھا کیونکہ قرآن نے بہ کثرت مقامات پر ان کے مطالبہ کو پورا کرنے سے انکار کیا ہے اور جواب دیا ہے کہ ایمان لانے کے لیے قرآن کا معجزہ ہی کافی ہے۔ یہ معجزہ لاٹھی کے سانپ بن جانے جیسا نہیں تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ سے وہ صادر ہو جاتا بلکہ اس کی نوعیت انبیاء علیہم السلام کے معجزات سے مختلف تھی۔ یہ آسمانی دنیا میں واقع ہوا تھا اور مقصود قیامت کو قریب الوقوع ظاہر کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت کو روشن کرنا تھا۔ اس نشانی کے ظہور میں آنے اور قرآن کی ان آیتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے جن میں کافروں کے اس مطالبہ کو کہ پیغمبر کوئی معجزہ دکھائے، رد کر دیا گیا ہے۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی چاند کے پھٹ جانے کی اتنی بڑی نشانی سے بھی انہوں نے کوئی سبق نہیں لیا بلکہ اس کو جادو پر محمول کیا۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے جھٹلانے کا انجام وقت پر سامنے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر معاملہ کے لیے جو وہ بندوں کے ساتھ کرتا ہے وقت مقرر کر رکھا ہے لہٰذا تاخیر کو دیکھ کر کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے اور اچھے یا بُرے نتائج کبھی سامنے آنے والے نہیں ہیں۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان قوموں کے بُرے انجام کی خبریں جنہوں نے سرکشی کی تھی۔ اشارہ ہے انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانے والی قومو کی طرف۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن ان تباہ شدہ قوموں کے واقعات کو ایسے موثر پیرایہ میں بیان کر رہا ہے کہ دل و دماغ کے دریچے کھل جائیں اور دانائی کی باتیں ان میں نفوذ کر جائیں مگر ان کی ہیٹ دھرمی ایسی ہے کہ یہ حکیمانہ تنبیہیں بھی ان پر کارگر نہیں ہو رہی ہیں۔ ایسے کافر تو عذاب کو دیکھ کر ہی ہوش میں آئیں گے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب وہ سمجھنا نہیں چاہتے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کو اسی وقت ہوش آئے گا جب وہ قیامت کے دن میدان حشر میں جمع ہونے کے لیے پکارنے والے فرشتہ کی پکار سنیں گے۔ میدانِ حشر میں انہیں اپنی عملی زندگی کا حساب پیش کرنا ہو گا جو ان کے لیے سخت ناگوار چیز ہو گی۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے کفر اور بد عملی کی وجہ سے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح ٹڈی دل فضا میں پھیل جاتا ہے اسی طرح یہ لوگ قبروں سے ____ یعنی جہاں بھی وہ مر کھپ گئے تھے ___نکل نکل کر ہر طرف پھیل جائیں گے۔ یہ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہو گا جو ہر طرف دکھائی دے گا۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پکارنے والے سے مراد فرشتہ ہے جو انہیں موقف(کھڑے ہونے کی جگہ) کی طرف بلا رہا ہو گا اور وہ سہمے ہوئے پکارنے والے کی طرف دوڑ رہے ہوں گے۔ آج وہ داعی حق کی پکار سننے کے لیے آمادہ نہیں ہیں لیکن قیامت کے دن اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے موقف کی طرف بلانے والے داعی کی طرف دوڑنے کے لیے مجبور ہوں گے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن ان لوگوں کو جو اس کا انکار کرتے رہے ہیں اور اس کے لیے کوئی تیاری نہیں کی محسوس کریں گے کہ یہ تو بڑے کٹھن دن کا سامنا ہے۔ مگر اس وقت اس احساس کے ابھرنے کا کیا فائدہ!
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوم نوح کی سرگزشت سورۂ ہود اور دوسری متعدد سورتوں میں گزر چکی۔ یہاں مختصراً اس کے اس پہلو کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح اس قوم نے اللہ کے رسول کی ناقدری کی اور اس کے نتیجہ میں اسے کیسا عذاب بھگتنا پڑا۔ آگے دوسری سرکش قوموں کے واقعات بھی اسی پہلو سے مختصراً بیان ہوئے ہیں۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کا ذکر عَبْدَنا(ہمارا بندہ) کے الفاظ سے کیا ہے جس سے ان کی شانِ عبودیت کا بھی اظہار ہوتا ہے اور اللہ کی طرف سے بندہ نوازی کا بھی۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس قوم کی انتہائی سرکشی تھی کہ حضرت نوح کی عظیم شخصیت کو خاطر میں نہیں لایا اور ان کو دھمکیاں دیں یہاں تک کہ انہیں سنگسار کرنے کی دھمکی بھی دی گئی جس کا ذکر سورۂ شعراء آیت ۱۱۶ میں ہوا ہے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ شر پر آمادہ ہو گئے ہیں اور میرے بس میں نہیں ہے کہ ان کا زور توڑ سکوں لہٰذا تو ان پر عذاب نازل کر کے میری نجات کا سامان کر۔
یہ مثال ہے اس بات کی کہ رسولوں کو بھی ایسے سنگین حالات سے گزرنا پڑا ہے کہ وہ اپنے کو مغلوب محسوس کرتے رہے ہیں لیکن اس سے نہ ان کی استقامت میں کوئی فرق آیا اور نہ ان کے حوصلے پست ہوئے بلکہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس سے نصرت کی دعا کی۔ اس میں ان مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا سامان ہے جو کافروں کے زیر اقتدار اپنے کو مغلوبی کی حالت میں پا رہے ہوں۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بلاغت کا اسلوب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بادلوں سے بہ کثرت اور زور دار بارش ہوئی۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پانی زمین کے نیچے سے بھی ابل پڑا اور ہر طرف چشمے بہنے لگے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پانی اس مقدار کو پہنچ گیا جو اس کام کے لیے مقرر کر دی گئی تھی۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کشتی بہت سادہ تھی لکڑیوں اور میخوں سے بنی ہوئی جس کا اس زبردست طوفان میں سلامت رہنا مشکل تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی کو حضرت نوح کے لیے ذریعۂ نجات بنایا۔ اصل چیز اللہ تعالیٰ کا ارادہ اور اس کی مدد ہے نہ کہ ظاہری اسباب۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کافروں نے نوح کی ناقدری کی تھی حالانکہ وہ اللہ کے رسول اور نہایت معزز شخصیت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ جزا دی کہ جہاں ان کی کافر قوم " ڈوب رہی تھی وہاں ان کی کشتی سفینۂ نجات بن گئی۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ عنکبوت نوٹ ۲۶۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن لفظاً لفظاً کلامِ الٰہی ہے جس میں معنی کی گہرائی بھی ہے اور حکمت کے گوہر نایاب بھی" وہ اسرارِ کائنات پر سے بھی پردہ اٹھاتا ہے اور انسانی فطرت کے رموز کو بھی آشکارا کرتا ہے وہ مکمل ہدایت کی کتاب ہے اس لیے اس کے مضامین نہایت وسیع الاطراف ہیں۔ اس میں علوم و معارف کے خزانے بھی ہیں اور نفس کے ارتقاء اور روح کی بالیدگی کا سامان بھی۔ ان گوناگوں خصوصیات کے باوجود وہ اپنے مقصد کی وضاحت اور انسان پر ہدایت کی راہ روشن کرنے کے پہلو سے ایسی سہل کتاب ہے کہ ہر خاص و عام اس سے فیضیاب ہو سکتا ہے۔ فہمائش اور نصیحت پذیری کے لیے دقیق مضامین کو بھی نہایت سہل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا مخاطب ہر شخص ہے اور یہ خیال کرنا کہ اس کو علماء ہی سمجھ سکتے ہیں سراسر غلط ہے۔ قرآن ہر شخص کو اس کا براہِ راست مطالعہ کرنے ، اس پر غور فکر کرنے اور اس کی نصیحت کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ جو لوگ عربی نہ جانتے ہوں وہ کسی معتبر ترجمہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں مگر قرآن کے معنی و مطلب کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا اس سے بڑی بے تعلقی اور بہت بڑی محرومی ہے افسوس کہ مسلمانوں میں یہ غفلت عام ہے اور علماء نے جہاں ترجمہ و تفسیر کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور درس قرآن کا سلسلہ چلاتے رہتے ہیں وہاں کچھ علماء ایسے بھی ہیں جو ترجمہ کی مدد سے قرآن کو سمجھنا پسند نہیں کرتے اور تلاوتِ قرآن اور حفظِ قرآن کی فضیلتیں بیان کر کر کے انہیں صرف اسی میں مشغول رکھنا چاہتے ہیں۔ فضائل سے جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ہرگز انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ علماء اس بات پر زور کیوں نہیں دیتے کہ لوگ قرآن کا فہم حاصل کریں۔ اور تعجب ہے کہ بعض حضرات تو اس آیت کا ترجمہ ہی اس طرح کرتے ہیں کہ نصیحت کی جگہ حفظ پر توجہ مرکوز ہو کر رہ جاتی ہے۔ چنانچہ ایک بزرگ نے سورۂ قمر کی اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
" ہم نے کلامِ پاک کو حفظ کرنے کے لیے سہل کر رکھا ہے کوئی ہے حفظ کرنے والا۔"(تبلیغی نصاب فضائل قرآن ص ۵۵)
اس آیت میں لفظ " ذکر" نصیحت کے معنی میں اور لفظ " تذکر" نصیحت حاصل کرنے والا کے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ حفظ کے معنی میں۔ اس پر دلیل اس کا سیاق و سباق بھی ہے اور اس قسم کی دوسری آیات بھی۔ سورۂ قمر میں خطاب کافروں سے ہے۔ انہیں قیامت کے انکار پر سخت تنبیہ کی گئی ہے اور قرآن کی نصیحت پر کان دھرنے کی دعوت دی گئی ہے اسی سلسلہ میں قومِ نوح اور دیگر سرکش قوموں کا انجام پیش کیا گیا ہے تاکہ منکرین عبرت حاصل کریں۔ چنانچہ فرمایا۔
" ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنایا تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔"
اگر ذکر کا ترجمہ نصیحت کے بجائے حفظ کر دیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ کافروں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ قرآن حفظ کرنے کے لیے آسان بنا دیا گیا ہے تو ہے کوئی حفظ کرنے والا۔ گویا قرآن کافروں کو حفظِ قرآن کی دعوت دے رہا ہے جب کہ انہوں نے ابھی نہ اس کی نصیحت کو قبول کیا ہے اور نہ ایمان لائے ہیں۔ظاہر ہے ایسی بے تکی بات قرآن کی طرف ہرگز منسوب نہیں کی جا سکتی۔ اس سلسلہ میں لغت کا سہارا بھی لیا جاتا ہے کہ اس کے ایک معنی حفظ کے بھی ہیں چنانچہ لسان العرب میں ہے :
الذکر الحفظ لشی تذکرہ " ذکر کے معنی کسی چیز کو محفوظ کر لینے کے ہیں جس کو تم یاد رکھ سکو۔"
لیکن اول تو صاحب لسان العرب نے حفظ کا لفظ معنی سے بے تعلق ہو کر حفظ کرنے کے مفہوم میں استعمال نہیں کیا ہے اس لیے اس کو اردو کے لفظ حفظ کے محدود معنی میں لینا صحیح نہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر لغت میں ذکر کے مختلف معنی میں سے ایک معنی محض "حفظ" کرنے کے ہوں بھی تو آیت زیر بحث میں ذکر کے وسیع مفہوم میں یہ بات ضمناً ہی شامل ہوسکتی ہے ورنہ اس کا ابھرا ہوا مفہوم نصیحت ہی ہے اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ دوسری جگہ قرآن کو ذکر سے تعبیر کیا گیا ہے اس بناء پر کہ وہ سرتاسر نصیحت ہے :
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ"لَحَافِظُوْنَ۔ " بلا شبہ ہم نے یہ ذکر (یاد دہانی) نازل کی ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔"(حجر: ۹)
فَاِنِّمَا یسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمْ یتَذَکَّرُوْنَ۔ " ہم نے (اے پیغمبر!) تمہاری زبان میں اسے آسان بنا دیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔"(دخان: ۵۸)
اس آیت میں قرآن کو آسان بنانے کا مطلب واضح طور سے تذکرہ یعنی یاد دہانی اور نصیحت حاصل کرنا بیان ہوا ہے اس لیے سورۂ قمر کی زیر بحث آیت کو بھی اسی معنی میں لینا صحیح ہو گا۔ ابن جریر طبری نے بھی اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں۔
وَلَقَدْ سَھَّلْنَا الْقُرآنَ بَینَّاہُ وَفَصَّلَنَا لِلذِّکْرِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یتَذَکَّرَ وَیعْتَبَروَیتَعَظَّ وَہَوَّنَّاہُ۔
" ہم نے قرآن کو سہل بنایا ، اس کو واضح کیا، کھول کر بیان کیا اور آسان بنایا نصیحت کے لیے یعنی اس کے لیے جو نصیحت عبرت اور موعظت حاصل کرنا چاہے۔" (تفسیر طبری ج ۲۷ ص ۵۷)
قرآن کی اصطلاحات کے معنی محض لغت کے ذریعہ متعین نہیں کئے جا سکتے بلکہ قرآن میں اس کے استعمالات کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر عبادت کے لفظ ہی کو لیجئے۔ لسان العرب میں اس کے ایک معنی اطاعت کے بیان ہوئے ہیں۔
والعبادۃ: الطاعۃ " عبادت یعنی طاعت۔"(لسان العرب ج ۳ ص ۲۷۲)
جبکہ قرآن میں اس کا ابھرا ہوا مفہوم پرستش ہے چنانچہ بتوں کی پرستش کے لیے یہی لفظ استعمال ہوا ہے البتہ عبادت کے وسیع مفہوم میں اطاعت بھی شامل ہے مگر یہ بات صحیح نہ ہو گی کہ ہم عبادت کے ابھرے ہوئے مفہوم پرستش پر زور نہ دیں یا اس سے قطع نظر کر کے اس لفظ کو اطاعت کے مفہوم میں لینے لگیں۔ اس کی دوسری مثال لفظ صلوٰۃ ہے جس کے معنی لغت میں دعا کے ہیں لیکن قرآن نے اس کو شرعی طریقہ پر ادا کی جانے والی ایک خاص عبادت کے لیے جسے ہم اردو میں نماز کہتے ہیں استعمال کیا ہے۔ تو کیا محض لغت کی مدد سے اقیمو الصلوٰۃ کے معنی " دعا قائم کرو" کرنا صحیح ہو گا؟ اگر نہیں تو ذکر کے معنی بھی قرآن کے استعمالات کو نظر انداز کر کے محض لغت کے ذریعہ متعین کرنا صحیح نہ ہو گا اور یہ بات بھی وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ قرآن میں ذکر کا لفظ کہیں بھی معنی سے بے تعلق ہو کر محض زبانی یاد کرنے کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے۔
یہ آیت اس سورہ میں بار بار دہرائی گئی ہے اور مقصود اس بات کی تاکید کرنا ہے کہ لوگ قرآن سے نصیحت حاصل کریں۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاد کا واقعہ بھی سورۂ ہود میں تفصیلاً نیز دیگر متعدد سورتوں میں گزر چکا۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نحوست کے دن سے مراد عذاب کا دن ہے اور یہ عذاب جیسا کہ سورۂ حاقہ میں بیان ہوا ہے آٹھ دنوں تک مسلسل رہا۔ دن کوئی بھی بجائے خود منحوس نہیں۔ وہم پرست لوگ دنوں کے منحوس ہونے کا فاسد عقیدہ رکھتے ہیں مگر قرآن کے نزدیک منحوس دن وہ ہے جس میں اس کا عذاب نازل ہو۔ عاد پر آٹھ دن تند ہوا کا عذاب مسلط رہا جب کہ ہفتہ سات دن کا ہوتا ہے۔ واضح ہوا کہ اس قوم کے لیے ہفتہ کا ہر دن عذاب کا دن ہونے کی حیثیت سے منحوس تھا۔ اور جب پورا ہفتہ منحوس قرار پایا تو وہم پرستوں کے لیے کون سا دن منحوس قرار دینے کے لیے باقی رہا؟
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس تند ہوا نے اس قوم کو بالکل جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ ہر طرف ان کی لاشیں ہی لاشیں تھیں۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمود کی سرگزشت سورۂ اعراف، سورۂ ہود اور دیگر متعدد سورتوں میں گزر چکی۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے نزدیک رسول کو بشر نہیں بلکہ فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔ یہی ذہنیت مشرکین مکہ کی بھی تھی۔ ثمود کا کہنا تھا کہ یہ شخص ہدایت کے نام پر ہمیں غلط راہ پر ڈالنا چاہتا ہے اور یہ عقل کا دیوالیہ پن ہو گا کہ ہم اس کی بات کو مان کر اس کی پیروی کرنے لگیں۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہتے تھے اگر اللہ کی طرف سے نصیحت نازل ہوتی تو اسی شخص پر کیوں نازل ہوئی جبکہ ہمارے درمیان بہتر افراد موجود ہیں۔ ان کے نزدیک بہتر ہونے کا معیار سیرت نہیں بلکہ دنیوی شان و شوکت تھی۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے ایک رسول پر جو مجسم سچائی ہوتا ہے اور جس کے خلوص پر شبہ نہیں کیا جا سکتا جھوٹا اور گھمنڈی ہونے کا الزام لگایا۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غداً(کل) سے مراد عذاب کا دن بھی ہے اور قیامت کا دن بھی جو اتنا قریب ہے کہ گویا کل ہی واقع ہونے والا ہے۔ اس روز ان لوگوں کو جو رسول پر الزام تراشی کرتے ہیں معلوم ہو جائے گا کہ جھوٹا اور گھمنڈی کون تھا۔ اللہ کا رسول یا وہ خود۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اونٹنی ایک معجزہ کی صورت میں ظاہر ہوئی تھی اور اس قوم کے لیے وجہ آزمائش تھی کہ وہ اس کے پانی پینے کے باری کا خیال رکھتے ہیں یا نہیں اور اس کو کوئی گزند تو نہیں پہنچاتے۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ شعراء نوٹ ۱۲۱۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غیر معمولی قد کی اونٹنی کو مارنا بھی آسان نہ تھا اس لیے اس بدبخت نے اس کے پاؤ ں کاٹ ڈالے تاکہ وہ ہلاک ہو۔ ثمود نے اس کام کے لیے ایک شخص کو آگے بڑھایا تھا اس لیے اس گناہ کی مرتکب پوری قوم ہوئی اور اس نے اللہ کی عذاب کو دعوت دی۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باڑھ والا اپنے جانوروں کی حفاظت کے لیے جھاڑ جھنکار کی باڑھ لگاتا ہے جو ایک وقتی چیز ہوتی ہے اور پھر خشک ہو کر چورا چورا ہو جاتی ہے۔ یہی حال ثمود کا ہوا کہ ان کو عذابِ الٰہی نے اس طرح روند ڈالا کہ ان کا سارا دم خم نکل گیا۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قومِ لوط پرکی سرگزشت سورۂ ہود اور دیگر متعدد سورتوں میں گزر چکی۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قومِ لوط پر پتھروں کی بارش ہوئی تھی۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ہود نوٹ ۱۱۹۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوط کے متعلقین جو ایمان لائے تھے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سحر رات کے آخری حصہ کو کہتے ہیں۔ آلِ لوط کو اخیر شب میں نجات ملی۔ حدیث میں آتا ہے کہ شب کا آخری حصہ نزولِ رحمت اور قبولیتِ دعا کا وقت ہوتا ہے۔ اور قرآن میں اہلِ ایمان کا یہ وصف بیان ہوا ہے کہ:
وَ بِالْاَسْحَارِہُمْ یسْتَغْفِرُوْنَ " وہ سحر کے اوقات میں استغفار کرتے ہیں۔"(الذاریات:۱۸)
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو اللہ کی نعمتوں اور اس کی ہدایت کی قدر کرتے ہیں۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہمان فرشتے تھے جو قومِ لوط کے لیے آزمائش بن کر انسانوں کے روپ میں آئے تھے۔ حضرت لوط نے ان کو اپنے یہاں ٹھہرایا تھا مگر شر پسندوں نے بد کاری کے لیے ان کو اغوا کرنے کی کوشش کی۔ جب انہوں نے برے ارادہ سے حضرت لوط کے گھر میں گھسنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھیں ہی اندھی کر دیں شہوت پرستانہ نظر سے ان مہمانوں کو دیکھنے کی جو ظاہر ہے خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں رہے ہوں گے یہ فوری سزا انہیں مل گئی۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد صبح ہوتے ہی اس مفسد قوم پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑا۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی زبردست پکڑ تھی کہ فرعون والوں کا سارا دم خم جاتا رہا اور وہ قہر الٰہی کے آگے بالکل بے بس ہو کر رہ گئے۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب قومِ عرب سے ہے کہ تم میں جو لوگ کافر ہیں ان کی روش بھی وہی ہے جو گزری ہوئی کافر قوموں کی تھی۔ پھر ان میں کیا خوبی ہے کہ ان کا انجام وہ نہ ہو جو گزری ہوئی کافر قوموں کا ہو چکا ہے۔ کافر تو اللہ کا باغی اور پرلے درجہ کا مجرم ہوتا ہے لہٰذا ایک کافر قوم لازماً سزا کی مستحق ہوتی ہے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا کسی آسمانی کتاب میں یہ لکھا ہوا ہے کہ تمہارے اعمال کیسے ہی ہوں تمہیں سزا نہیں دی جائے گی۔ اگر ایسا نہیں ہے اور نجات کا پروانہ تمہیں مل نہیں گیا ہے تو پھر اللہ کی ہدایت سے منہ موڑنے کی جسارت کیسے کرتے ہو!
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن نے یہ بات مکہ میں کہی تھی جبکہ قریش کی شکست کے بظاہر کوئی آثار نہیں تھے لیکن اس کی یہ پیشین گوئی چند سال بعد بدر میں پوری ہوئی۔ حدیث میں آتا ہے کہ جنگ بدر(۰۲ھ) کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم زرہ پہنے ہوئے تھے اور یہ آیت پڑھتے ہوئے باہر تشریف لائے۔
سَیہْزَمُ الْجَمْعُ وَیوْلُّوْنَ الدُّبُرِ
" عنقریب ان کا جتھا شکست کھا جائے گا اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔"
اور تھوڑی ہی دیر میں کافروں کے قدم اکھڑ گئے اور انہیں بری طرح شکست ہوئی۔ اسی طرح جنگ خندق(۵ھ) میں بھی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں ان کو اللہ کے رسول کے مقابلہ میں جو شکست ہو گی وہ تو ہو گی ہی۔ اس کے علاوہ اصل سزا تو انہیں قیامت کے دن ملے گی جو زبردست اور دائمی سزا ہو گی۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت بہت بڑی مصیبت اور بہت سی تلخیوں (کڑواہٹوں ) کو اپنے اندر لیے ہوئے ہو گی۔ لہٰذا خبردار ہو جاؤ اور اس دن کی مصیبت سے بچنے کا سامان کرو۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جواب ہے کافروں کی اس بات کا جو آیت ۲۴ میں بیان ہوئی ہے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل میں لفظ " سقر" استعمال ہوا ہے جو جہنم کا نام ہے اور جس کے معنی ہیں شدید حرارت والی۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز منصوبہ بند طریقہ پر پیدا کی ہے۔ اسے کیا کام کرنا ہے کس وقت تک کرنا ہے اور کس غایت کو اسے پہنچنا ہے۔ اس طرح پوری کائنات کی ایک تقدیر ہے اور اپنے مقررہ وقت ہی پر اس میں وہ انقلاب آئے گا جس کا نام قیامت ہے۔ کسی کے جلدی مچانے سے قیامت وقت سے پہلے نہیں آ سکتی۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے برپا کرنے میں اللہ تعالیٰ کو کچھ دیر نہیں لگے گی۔ اس کا حکم ہو گا اور چشم زدن میں وہ برپا ہو جائے گی۔ آنکھ اس تیزی سے جھپکتی ہے ، اس کے لیے کوئی وقت درکار نہیں ہوتا اسی طرح قیامت کا حکم ہوتے ہی وہ فوراً برپا ہو جائے گی۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہاری روش پر چلنے والوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔ مراد کافر اور سرکش قومیں ہیں۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ کہف نوٹ ۷۰۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں متقیوں کا ذکر مجرموں کے مقابلہ میں ہوا ہے یعنی وہ لوگ جو اللہ کے حضور جوابدہی سے ڈرتے رہے اس کی ہدایت کو قبول کیا اور گناہوں سے پرہیز کرتے رہے۔ ان کا صلہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ آخرت میں جنت کے باغوں میں ہوں گے جہاں نہریں بہہ رہی ہوں گی۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسے مقام میں جہاں وہ سچا انعام پائیں گے اور انہیں سچی عزت و سر افرازی حاصل ہو گی۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انہیں اللہ کا جو بادشاہ حقیقی ہے اور جس کی قدرت اور جس کا اقتدار سب پر چھایا ہوا ہے۔ قُرب حاصل ہو گا اور یہ سب سے بڑا انعام ہو گا۔