پہلی آیت میں اَلْبَیِّنَۃُ (روشن دلیل) کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلْبَیِّنَۃُ رکھا گیا ہے۔
مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دعوت کے اس دور میں نازل ہوئی جب کہ اہل کتاب اور مشرکین پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا رسول ہو ان اچھی طرح واضح ہو گیا تھا اور اس کے باوجود انہوں نے انکار کی روش اختیار کر لی تھی۔
اس سورہ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول بنا کر بھیجنے اور آپؐ پر کتاب نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
آیت ۱ تا ۳ میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو کفر کی حالت سے نکالنے کے لیے ضروری تھا کہ کتاب سے ساتھ ایک رسول بھیجا جاۓ تاکہ وہ اللہ کے دین کو صحیح شکل میں پیش کرے۔
آیت ۴ اور ۵ میں واضح کیا گیا ہے کہ اہل کتاب کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے روشن تعلیمات آ چکی تھیں لیکن اس کے باوجود وہ تفرقہ میں پڑ گۓ اور دین کی اصل تعلیمات کو بھلا بیٹھے۔
آیت ۶ تا ۸ میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول کا انکار کرنے والے کیسے درد ناک انجام سے دوچار کس طرح کامیاب اور با مراد ہوں گے۔
حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابی بن کعب سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں سورہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سناؤں۔ حضرت ابی بن کعب نے عرض کیا کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر یہ حکم دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا جی ہاں ! یہ سن کر حضرت ابی بن کعب کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ (بخاری کتاب التفسیر)
حضرت اُبی بن کعب اہل کتاب میں سے تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان لاۓ تھے اور چونکہ اس سورہ میں ان ایمان لانے والوں کے لیے بشارت ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی قدر فرماتے ہوۓ انہیں یہ سورہ سنانے کا حکم اپنے نبی کو دیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ادر دیکھ کر حضرت ابی بن کعب پر رقت طری ہو گئی جو ایمان کا خاصہ ہے۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل کتاب ۱* اور مشرکین ۲* میں سے جنہوں نے کفر کیا ۳* وہ باز آنے والے نہ تھے جن تک کہ ان کے پاس واضح دلیل نہ آ جاتی ۴*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ (یعنی )اللہ کی طرف سے ایک رسول جو پاک صحیفے ۵* پڑھ کر سناۓ۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جن میں درست احکام لکھے ہوۓ ہوں ۶*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی وہ واضح ہدایت آ جانے کے بعد ہی تفرقہ میں پڑ گۓ ۷*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ ان کو یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں ۸* دین کو اس کے لیے خالص کر کے ۹* راست روی کے ساتھ ۱۰* اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ۱۱*۔ یہی صحیح دین ہے ۱۲*۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے کفر کیا ۱۳* وہ جہنم کی آگ میں پڑیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہ لوگ بدترین مخلوق ہیں ۱۴*۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً جو لوگ ایمان لاۓ ۱۵* اور جنہوں نے نیک عمل کیے وہ بہترین مخلوق ہیں ۱۶*۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی جزا ان کے رب کے پاس جاودانی باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہو گی۔ وہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ۱۷* اور وہ اس سے راضی ! یہ (جزا ) اس کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرے ۱۸*۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل کتاب سے مراد یہود اور نصاریٰ ہیں جن کے پاس اللہ کی کتاب۔ تحریف شدہ شکل میں سہی۔۔۔ موجود تھی اور جہاں تک اسلام کے بنیادی عقیدہ توحید کا تعلق ہے آج بھی تورات، زبور ، اور انجیل میں یہ نمایاں طور سے موجود ہے یہ اور بات ہے کہ تحریف کی وجہ سے اس میں شرک کی آمیزش بھی ہو گئی ہے لیکن چونکہ یہود اور نصاریٰ اصلاً توحید کو مانتے تھے اور شرک ان کے اندر باطل تاویلات کے نتیجہ میں آ گیا تھا وہ آخرت اور سلسلہ رسالت کو بھی تسلیم کرتے تھے اس لیے قرآن نے اس گروہ کے لیے اہل الکتاب کی اصطلاح استعمال کی اور ان کے ساتھ معاملہ کرنے کے سلسلہ میں مخصوص شرعی احکام بھی دۓ مثلاً یہ کہ ان کی عورتوں سے نکاح کیا جا سکتا ہے اور ان کا ذبیحہ۔ اگر شرعی طریقہ پر ہو۔ کھایا جا سکتا ہے۔
رہے دوسرے اہل مذاہب تو چونکہ ان بنیادی عقائد کے سلسلہ میں ان کے تصورات بہت مختلف تھے اور ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب اس شکل میں بھی موجود نہیں تھی جس شکل میں کہ تورات و انجیل یہود و نصاریٰ کے پاس موجود تھی اس لیے ان دو گروہوں کے علاوہ کسی بھی مذہبی گروہ کو قرآن نے اہل کتب قرار نہیں دیا حتیٰ کہ نبی اسمعیل۔ قریش مکہ کو بھی جو ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے اور جن کے پاس حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کے بعض اجزاء مثلاً طواف کعبہ حج وغیرہ موجود تھے اہل کتاب میں شامل نہیں کیا اور صریح بت پرستی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ان کے لیے مشرکین کی اصطلاح استعمال کی۔ اسی طرح مجوسیوں کو باوجود یہ کہ ان کے پاس مذہبی کتب تھی ’’اہل کتاب‘‘ قرار نہیں دیا۔ اس سے واضح ہو کہ ’’ اہل کتاب‘‘ کی اصطلاح یہود و نصاریٰ کے لیے خاص ہے اور اس حکم کا اطلاق کسی دوسرے مذہبی گروہ پر نہیں کیا جا سکتا اگرچہ کہ اس کے پاس کوئی مذہبی کتا ہو۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرکین یعنی اللہ کا شریک ٹھہرانے والے۔ یہاں یہ لفظ عرب کے بت پر پرستوں کے لیے بطور اصطلاح استعمال ہوا ہے۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں کفر سے مراد وہ کفر ہے جس کے ساتھ ہٹ دھرمی بھی ہو جیسا کہ بعد کے فقرہ ’’ باز آنے والے نہ تھے ‘‘ سے واضح ہے ایسے ہٹ دھرم کا فر اہل کتاب میں بھی تھے اور مشرکین میں بھی۔ مشرکین کا کفر تو واضح ہی ہے کہ انہوں نے توحید کو چھوڑ کر بت پرستی کا طریقہ اختیار کیا تھا۔ وہ آخرت کے بھی منکر تھے اور سلسلہ رسالت کے بھی۔
رہے اہل کتاب تو ان کے کفر کی مختلف صورتیں تھیں مثلاً کوئی حضرت عُزَیر کو خدا کا بیٹا قرار دیتا تھا تو کوئی حضرت عیسیٰ کو، کوئی تو حضرت عیسیٰ کی رسالت ہی کا منکر تھا اور کسی کے نزدیک وہ کفارہ بن گۓ۔ (یعنی عیسائیوں کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن گۓ )
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح دلیل سے مراد ایک نۓ رسول کی آمد ہے جیسا کہ بعد والی آیت میں بیان ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کفر میں شدید تھے ان کے کیفر کے ٹوٹنے کی اگر کوئی صورت ہو سکتی تھی تو وہ یہی تھی کہ ایک نۓ رسول کی آمد ہو۔ گویا ایک نۓ رسول کی آمد حالات کا اقتضاء تھا اور اس ضرورت کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت نے پورا کر دیا ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی ہٹ دھرمی میں مبتلا رہتا ہے تو اس کے جرم کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ صحیفے یعنی لکھے ہوۓ اوراق ہیں جو خالصۃً اللہ کے کلام پر مشتمل ہوں اور ہر قسم کی تحریف اور باطل عقائد اور اخلاقی گندگی کی آمیزش سے پاک ہوں۔
آج جو لوگ مذہب بیزار ہیں وہ بائیبل اور دوسری ’’مقدس‘‘ کتابوں کا مطالعہ کریں تو ان میں پائی جانے والی گمراہیوں ، خدا کے بارے میں گھٹیا تصورات، انبیاء کی طرف منسوب غیر اخلاقی باتوں ، بے سر و پا روایتوں ، لغو قصوں اور رسومات کی جکڑ بندیوں کو دیکھ کر ان کی مذہب بیزاری کو اگر کوئی کتاب دور کر سکتی ہے تو وہ قرآن ہی ہے جو نہ صرف ان تمام خرابیوں سے پاک ہے بلکہ ساتھ ہی اعلیٰ درجہ کی اور نہایت حکیمانہ تعلیمات پر مشتمل ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی طرف سے باتیں گڑھ کر خدا کی طرف منسوب کرنا اور ان کو ’’ مقدس‘‘ کتابوں میں شامل کرنا مذہب کا ناجائز انتفقع (Exploitation) کرنے والوں کا شیوہ رہا ہے اور اس کی مثالیں بائیبل اور دوسری مذہبی کتابوں میں دیکھی جاستی ہیں۔ ان ’’ مقدس‘‘ کتابوں کا یہ حال دیکھ کر ایک ایسی کتاب کی ضرورت ابھر کر سامنے آتی ہے جن میں اللہ کے احکام صحیح شکل میں موجود ہوں اور ایسی ٹھوس باتیں ہوں جو انسانی زندگی کے لیے صحیح شکل میں موجود ہوں اور ایسی ٹھوس باتیں ہوں جو انسانی زندگی کے لیے صحیح منزل کا تعین کر سکیں اور اس کو صحیح رخ پر ڈال سکیں۔ قرآن ہی وہ کتاب ہے جو اس معیار پر پوری اترتی ہے اور انسان کی اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اہل کتاب کے فرقوں میں بٹ جانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے پاس اللہ کی ہدایت واضح طور پر نہیں آئی تھی بلکہ اس کی وجہ ہدایت خداوندی سے بے اعتنائی، خواہشات کے پیچھے چلنا اور نفسانیت ہے ورنہ انہیں جو کتاب دی گئی تھی اس میں اللہ کی روشن ہدایت موجود تھی اور کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ گمراہ ہوتے اور الگ الگ فرقوں میں بٹ جاتے۔
واضح رہے کہ اہل کتاب دو بڑے فرقوں میں بٹ گۓ۔ یہود اور نصاریٰ اور ان دونوں نے الگ الگ مذہب کی شکل اختیار کر لی نیز ان کے اندر ذیلی فرقے بھی بکثرت پیدا ہو گۓ۔ مثلاً عیسائیوں میں کیتھولک پروٹسٹنٹ وغیرہ۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انہیں خداۓ واحد کی پرستش اور بندگی کا حکم دیا گیا تھا مگر انہوں نے اس اولین ہدایت ہی کی خلاف ورزی کی چنانچہ یہود کو بت پرستی میں بھی باک نہ ہوا اور وہ حضرت عُزَیر کو اللہ کا بیٹا بنا بیٹھے ور نصاریٰ نے ایک کی جگہ تین خدا بنا لیے نیز دونوں گروہوں نے اپنے فقہاء اور مشائخ کو رب بنا لیا کہ وہ جس چیز کو چاہیں حرام قرار دیں ور جس چیز کو چاہیں حلال۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ’’ دین‘‘ کے معنیٰ اس اطاعت کے ہیں جو خضوع کے ساتھ ہو، نیز مطلق اور غیر مشروط ہو۔ خالق و مال ہونے کی حیثیت سے اس اطاعت کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اس لیے یہ اطاعت خالصتاً اسی کے لیے ہونی چاہیے۔ اس کی ہدایت سابقہ کتابوں میں بھی دی گئی تھی اور قرآن میں بھی دی گئی ہے۔
خداۓ واحد کی عبادت کا جو حکم دیا گیا ہے اس کے ساتھ ’’ دین‘‘ کو اس کے لیے خالص کرنے کا مطالبہ اسلام میں عبادت کی نوعیت کو بخوبی واضح کرتا ہے اور وہ ہے پرستش کے ساتھ اطاعت کا امتزاج۔ بالفاظ دیگر اسلام میں خداۓ واحد کی پرستش اس طور سے مطلوب ہے کہ آدمی اس کی غیر مشروط اطاعت کرنے کے لیے دل سے آمادہ ہو اور اس مستقل بالذات اطاعت کو اللہ کے لیے مختص کر دے۔ اس اطاعت میں اللہ کی شریعت اور اس کا پورا دین شامل ہے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ راست روی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو دل کا میلان غیر اللہ کی پرستش کی طرف ہو اور نہ اس کی عبادت میں وہ بدعات کو شامل کرے بلکہ یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت اس طریقہ پر کرے جو طریقہ کہ اللہ نے عبادت کے لیے مقرر کیا ہے۔ چونکہ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ یہی تھا اس لیے حنیفیت طریقہ ابراہیمی کا دوسرا نام ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم اہل کتاب کو دیا گیا تھا لیکن انہوں نے نماز کو ضائع کر دیا یہاں تک کہ تورات سے یہ حکم ہی غائب کر دیا البتہ زکوٰۃ کے احکام کسی نہ کسی شکل میں اب بھی بائیبل میں موجود ہیں۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دین حق کی یہ بنیادی تعلیمات ہیں۔ یہی دین اہل کتاب کو دیا گیا تھا لیکن انہوں نے ان بنیادی تعلیمات کو کھو دیا اور کھوکھلی دینداری کو لے کر بیٹھ گۓ۔ ا س معیار پر دوسرے مذاہب کو بھی پرکھا جا سکتا ہے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں کفر سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کا رسول اور قرآن کو اس کی نازل کردہ کتاب ماننے سے انکار کرنا ہے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جو مخلوق اپنے خالق سے کفر و بغاوت کا رویہ اختیار کرے اس کے بد ترین مخلوق ہونے میں شبہہ کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے ؟ معلوم ہوا کہ کفر کے نتیجہ میں انسان جو ہر انسانیت کھو بیٹھتا ہے اور بجاۓ ارتقاء کے تنزل کے آخری گڑھے میں جا گرتا ہے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمان لانے کے مفہوم میں توحید کے علاوہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کا رسول اور قرآن کو اس کی نازل کردہ کتاب تسلیم کرنا بھی شامل ہے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ ایمان اور عمل صالح کے نتیجہ میں جوہر انسانیت کھلتا ہے اور وہ حقیقی ترقی کے اعلیٰ مدارج طے کرتا ہے۔
جو مخلوق ہر قسم کی شیطانی ترغیبات کے علی الرغم اور ہر قسم کی آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود قائم ہے اور اس کی وفدار اور اطاعت شعار بن کر رہے اس کے بہترین مخلوق ہونے میں شبہہ کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے ؟
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی رضا سب سے بڑا انعام ہے جس سے اہل ایمان نوازے جائیں گے۔ جنت اللہ تعالیٰ کی رضا کا مظہر ہو گی اور وہاں ظاہری نعمتوں کے ساتھ ساتھ یہ باطنی نعمت بھی اہل ایمان کو نصیب ہو گی۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب سے ڈرنا دین کی اصل روح ہے جن لوگوں کے اندر یہ روح موجود ہوتی ہے ان کے اندر صحیح دینداری ہوتی ہے اس بنا پر وہ اس جزاء کے مستحق ہوتے ہیں جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے۔