سورہ کا آغاز حرف "ق" سے ہوا ہے۔ اور یہی اس سورہ کا نام ہے۔
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔
زندگی بعد موت، حشر اور جنت و جہنم کا یقین پیدا کرنا ہے۔
آیت ۱ تا ۵ میں قرآن کی عظمت کو پیش کرتے ہوئے زندگی بعد موت کے بارے میں کافروں کے شبہ کا ازالہ کیا گیا ہے۔
آیت ۶ تا ۱۱ میں آسمان و زمین کی ان نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو اللہ کی قدرت، اس کی ربوبیت اور اس کی حکمت پر دلالت کرتی ہیں اور جن پر غور کرنے سے زندگی بعد موت کا یقین پیدا ہوتا ہے۔
آیت ۱۲ تا ۱۵ میں ان قوموں کے انجام سے عبرت دلائی گئی ہے جنہوں نے رسولو ں کو اسی لیے جھٹلایا تھا کہ وہ انہیں زندگی بعد موت سے خبردار کر رہے تھے۔
آیت ۱۶ تا ۳۵ میں اعمال کے ریکارڈ ،حشر، جہنم اور جنت کی ایسی تصویر پیش کی گئی ہے کہ معلوم ہوتا ہے حشر برپا ہو گیا ہے اور یہ سب چیزیں سامنے موجود ہیں۔
آیت ۳۸ تا ۴۵ سورہ کے خاتمہ کی آیات ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے موقف پر جمے رہنے ، اللہ کی تسبیح کرنے اور قرآن کے ذریعہ تذکیر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یہ سورہ گو چھوٹی چھوٹی آیتوں پر مشتمل ہے لیکن اس میں دیگر اہم اور بنیادی باتوں کے علاوہ حشر و نشر کی تصویر اس طرح پیش کی گئی ہے کہ گویا حشر برپا ہو گیا ہے اور جنت اور دوزخ سامنے موجود ہیں۔ اس کی اس خصوصیت کی بنا پر عید اور جمعہ کی نمازوں میں اس کی قرأت زیادہ موزوں خیال کی گئی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز میں اور جمعہ کے خطبہ میں اسے پڑھا کرتے تھے(مسلم کتاب صلاۃ العیدین) نیز فجر کی نماز میں بھی اس کا پڑھنا آپؐ سے ثابت ہے۔(مسلم کتاب الصلوٰۃ)
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قاف۔ ۱* قسم ہے قرآنِ مجید کی۔ ۲*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ان لوگوں کو تعجب ہوا کہ ان کے پاس ان ہی میں سے ایک خبردار کرنے والا آیا چنانچہ کافروں نے کہا یہ تو عجیب بات ہے۔ ۳*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے تو دوبارہ پیدا کئے جائیں گے ؟ یہ لوٹایا جانا تو(عقل سے) بعید ہے۔ ۴*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم جانتے ہیں زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ گھٹاتی ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو تمام باتوں کو محفوظ رکھتی ہے۔ ۵*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ان لوگوں نے حق کو جھٹلایا جب ان کے پاس آ گیا۔ اس لیے وہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں۔ ۶*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا کہ کس طرح ہم نے اس کو بنایا اور آراستہ کیا اور اس میں کوئی رخنہ نہیں ہے۔ ۷*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میں پہاڑ ڈال دئے اور اس میں ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگا دیں۔ ۸*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر اس بندہ کی بصیرت اور یاد دہانی کے لیے جو(اپنے رب کی طرف) رجوع کرنے والا ہو۔ ۹*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اتارا ۱۰* اور اس سے باغ اگائے اور فصل کے غلے بھی جو کاٹی جاتی ہے۔ ۱۱*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کھجور کے بلند درخت بھی جن کے شگوفے تہ بہ تہ ہوتے ہیں۔ ۱۲*
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندوں کے رزق کے لیے۔ اور اس(پانی) سے ہم نے مردہ زمین کو زندہ کر دیا۔ اسی طرح مرنے کے بعد زمین سے نکلنا ہو گا۔ ۱۳*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے قومِ نوح، اصحاب الرس۱۴* اور ثمود جھٹلا چکے ہیں۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور عاد اور فرعون اور لوط کے بھائی بھی۔ ۱۵*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اَیکہ والے۔ ۱۶* اور تُبع ۱۷* کی قوم بھی۔ ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا تو میری وعید ان پر واقع ہو کر رہی۔ ۱۸*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم پہلی بار پیدا کر کے تھک گئے ؟(نہیں) بلکہ یہ لوگ نئی تخلیق کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ ۱۹*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں گزرنے والے وسوسوں کو ہم جانتے ہیں۔ ۲۰*اور ہم اس کی رگِ جاں سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔ ۲۱*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب دو اخذ کرنے والے دائیں اور بائیں بیٹھے اخذ (ریکارڈ) کر رہے ہوتے ہیں۔ ۲۲*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کوئی لفظ بھی زبان سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک مستعد نگراں موجود ہوتا ہے۔ ۲۳*
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور موت کی بے ہوشی حق لے کر آ پہنچی۔ یہ ہے وہ چیز جس سے تو کتراتا تھا۔ ۲۴*
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور صور پھونکا گیا۔ یہ ہے وہ دن جس سے ڈرایا گیا تھا۔ ۲۵*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر شخص اس حال میں حاضر ہوا کہ اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا اور ایک گواہ ہے۔ ۲۶*
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں رہا۔ ہم نے وہ پردہ ہٹادیا جو تجھ پر پڑا تھا۔ اس لیے آج تیری نگاہ بہت تیز ہے۔ ۲۷*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھی نے کہا یہ جو میرے پاس تھا حاضر ہے۔ ۲۸*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(حکم ہوا) ڈال دو جہنم میں ہر کافر دشمنِ حق کو۔ ۲۹*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر سے روکنے والے ، حد سے تجاوز کرنے والے ، شک میں ڈالنے والے کو۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے اللہ کے ساتھ دوسرے معبود ٹھہرائے تھے۔ ۳۰* تو اس کو سخت عذاب میں ڈال دو۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھی نے کہا اے ہمارے رب میں نے اس کو سرکش نہیں بنایا بلکہ یہ خود دور کی گمراہی میں پڑ گیا تھا۔ ۳۱*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارشاد ہوا میرے پاس جھگڑا نہ کرو۔ میں نے تمہیں پہلے ہی اپنے عذاب سے خبردار کر دیا تھا۔ ۳۲*
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی۔ ۳۳* اور میں بندوں پر ہرگز ظلم کرنے والا نہیں ہوں۔ ۳۴*
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دن جبکہ ہم جہنم سے پوچھیں گے کیا تو بھر گئی؟ اور وہ کہے گی کچھ اور بھی ہے ؟۳۵*
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ور جنت متقیوں کے قریب لائی جائے گی ، کچھ بھی دور نہ ہو گی۔ ۳۶*
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہر اس شخص کے لیے جو رجوع کرنے والا ۳۷* اور حفاظت کرنے والا تھا۔ ۳۸*
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو رحمن سے بے دیکھے ڈرتا رہا۔ ۳۹* اور جو انابت (رجوع) والے دل کے ساتھ حاضر ہوا ہے۔ ۴۰*
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داخل ہو جاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ۔ ۴۱* یہ ہمیشگی کا دن ہے۔ ۴۲*
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں ان کے لیے وہ سب کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے۔ اور ہمارے پاس مزید بھی ہے۔ ۴۳*
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ان سے کہیں زیادہ طاقتور تھیں۔ ۴۴* انہوں نے دنیا کے ملکوں میں نفوذ کیا تھا تو کیا انہیں کہیں جائے پناہ ملی۔ ۴۵*
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً اس میں سبق ہے ہر اس شخص کے لیے جو دلِ رکھتا ہو یا توجہ کے ساتھ بات سے۔ ۴۶*
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ ۴۷* اور ہمیں کوئی تکان لاحق نہیں ہوئی۔ ۴۸*
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو صبر کرو ان کی باتوں پر اور تسبیح کرو اپنے رب کی حمد کے ساتھ۔ سورج کے طلوع ہونے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے۔ ۴۹*
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رات کے کچھ حصہ میں بھی اس کی تسبیح کرو۔ ۵۰* اور سجدوں(نمازوں ) کے بعد بھی۔ ۵۱*
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سنو جس دن پکارنے والا قریب کی جگہ ہی سے پکارے گا۔ ۵۲*
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن یہ اس ہولناک آواز کو حق کے ساتھ سنیں گے۔ ۵۳* وہ نکل کھڑے ہونے کا دن ہو گا۔ ۵۴*
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہ ہم ہی زندہ کرتے ہیں اور ہم ہی موت دیتے ہیں اور ہماری ہی طرف لوٹنا ہے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن زمین ان کے اوپر سے پھٹ جائے گی اور وہ تیزی سے نکل رہے ہوں گے۔ ۵۵* یہ حشر ہمارے لیے نہایت آسان ہے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں اور تم (اے نبیؐ!) ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو۔ ۵۶* تو اس قرآن کے ذریعہ سے تذکیر کرو ان لوگوں کو جو میری وعید (عذاب کی آگاہی) سے ڈریں۔ ۵۷*
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حروف مقطعات کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۱ اور سورۂ یونس نوٹ ۱۔
اس سورہ میں " ق" کا اشارہ قرآن کی طرف ہے جس کی عظمت کا ذکر پہلی آیت میں ہوا ہے اور جس کے ذریعہ تذکیر کی ہدایت آخری آیت میں ہوئی ہے۔ اس حرف سے سورۂ کا آغاز کرنے میں صوتی لحاظ سے اعجاز کا پہلو بھی ہے۔ یہ حرف اس سورہ کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے اور اس کا تلفظ چونکا دیتا ہے کہ نہایت اہم بات ارشاد ہو رہی ہے اس لیے اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جاؤ۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کی صفت" مجید" بیان ہوئی ہے جس کے معنی ہیں عظمت و رفعت والا(Glorious) اور قسم جیسا کہ اس سے پہلے واضح کیا جا چکا ہے عربی میں شہادت کے معنی میں آتی ہے۔ یہاں قرآن کے اس وصف کو کہ وہ ایک عظیم اور نہایت بلند پایہ کلام ہے رسالت کی شہادت میں پیش کیا جا رہا ہے مطلب یہ ہے کہ یہ بلند پایہ کلام اس بات کی صریح دلیل ہے کہ جو شخصیت اس کو پیش کر رہی ہے یہ اس کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ اللہ نے اس پر نازل کیا ہے اور اسے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے تاکہ وہ لوگوں کو اس بات سے خبردار کرے کہ موت کے بعد انہیں دوبارہ اٹھایا جایے گا اور جزائے عمل کے لیے اللہ کے حضور ان کی پیشی ہو گی۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بجائے اس کے کہ یہ لوگ قرآن کی عظمت کو دیکھتے ہوئے اس کے کلام الٰہی ہونے اور اس کو پیش کرنے والے کے رسول ہونے پر ایمان لاتے انہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ ان ہی جیسا ایک بشر رسول کیسے ہوا۔ رسول تو کوئی فوق البشر ہی ہوسکتا ہے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید تعجب انہیں اس بات پر ہو رہا تھا کہ جس بات سے قرآن اور اس کا پیغمبر انہیں خبردار کر رہا ہے وہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا ہے۔ مگر وہ سمجھتے تھے کہ یہ دوبارہ زندہ ہونا کس طرح ممکن ہے جبکہ مرنے کے بعد آدمی سڑگل کر مٹی میں مل جاتا ہے اور جب اس کا جسم باقی نہیں رہتا تو اسے کس طرح قیامت کے دن اٹھا کھڑا کیا جائے گا؟ وہ کہتے تھے یہ بات بعید از عقل ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کے مرنے کے بعد اس کے جسم کے جو اجزاء مٹی میں مل جاتے ہیں ان کا علم اللہ کو بخوبی ہے اور اللہ نے ذرہ ذرہ کا ریکارڈ محفوظ رکھنے کا اہتمام بھی کر رکھا ہے اس لیے اللہ کا حکم ہوتے ہی ہر شخص اپنے سابقہ جسم کے ساتھ زمین سے نکل پڑے گا۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مرنے کے بعد کیا کچھ پیش آنا ہے اس کے بارے میں حقیقت وہ ہے جو قرآن پیش کر رہا ہے مگر ان لوگوں نے جب قرآن کی پیش کر دہ حقیقت کو جھٹلایا تو دوسری زندگی کے بارے میں شک اور تردد میں پڑ گئے اور متضاد اور الجھی ہوئی باتیں کرنے لگے۔
انسان جب امر حق کا انکار کرتا ہے تو اس کے پاس یقین کے لیے کوئی بنیاد نہیں رہ جاتی پھر وہ متضاد اور الجھی ہوئی باتیں کرنے لگتا ہے۔ اس کی واضح مثال مشرکین ہند کا عقیدۂ تناسخ ہے جو متضاد باتوں کا مجموعہ ہے اور انسان کو سخت الجھن میں ڈال دیتا ہے بخلاف اس کے قرآن زندگی بعد موت کے بارے میں جن باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے وہ واضح حقیقتیں ہیں جو دل کو اپیل کرتی ہیں اور یقین پیدا کرتی ہیں کہ یہ لازماً وقوع میں آئیں گی۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر یہ منکرینِ قیامت اس پہلو سے آسمان کا مشاہدہ کرتے کہ انہیں اس کے خالق کی معرفت حاصل کرنا ہے تو انہیں اس کی صناعی میں قادرِ مطلق کا ہاتھ دکھائی دیتا اور ان پر اس کا جلال بھی ظاہر ہوتا اور جمال بھی اور جب انہیں خالق کائنات کی یہ معرفت حاصل ہوتی تو پھر انسان کو دوبارہ اٹھائے جانے کی بات ان کو عجیب معلوم نہ ہوتی اور وہ اس کو نا ممکن خیال نہ کرتے کیونکہ جس ہستی کے لیے اتنے وسیع آسمان کو بنانا، اس کو بے شمار ستاروں سے آراستہ کرنا اور اسے ایسا مضبوط بنا دینا کہ ایک طویل زمانہ گزرنے کے باوجود اس میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوا کمالِ قدرت کی عظیم الشان نشانی ہے اور موجودہ سائنس نے تو آسمانی دنیا کے عجائبات کوبڑی تفصیل سے پیش کر دیا ہے لیکن انسان اس سے صرف اپنی معلومات میں اضافہ کر لیتا ہے اور اس بات کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لیتا ہے کہ یہ کس ہستی کی کارفرمائی ہے اور وہ کیسی زبردست قدرت والا اور کیسی عظمت والا ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح آسمان میں اللہ کی قدرت کے عجائبات دیکھے جاسکتے ہیں اسی طرح زمین میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ زمین کی سطح کو اتنا وسیع کر دینا کہ اس پر اربوں انسان آباد ہوسکیں، اس میں بڑے بڑے پہاڑ گاڑ دینا جو زمین کے توازن کو برقرار رکھیں اور جن سے گوناگوں فوائد انسان کو حاصل ہوں اور زمین سے ایسی نباتات اگانا جن کا منظر دلوں کو موہ لینے والا ہو کمال قدرت رکھنے والی اور جلال و جمال کی صفات سے متصف ہستی ہی کی کاریگری ہوسکتی ہے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان و زمین کے یہ عجائبات انسان کی آنکھیں کھول دینے والی ہیں اور ان پر غور کرنے سے نصیحت کا پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے بشرطیکہ انسان دل سے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی بارش جس سے سیراب ہو کر زمین زر اُگلنے لگتی ہے اور جو انسان کو بہ کثرت فائدے پہنچاتی ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بارش ہی سے فصلیں اُگتی ہیں اور پھر ان کو کاٹ کر اناج کے ذخیرے حاصل کئے جاتے ہیں۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھجور کے شگوفے کی پتیاں غلاف کے اندر تہ بہ تہ ہوتی ہیں جو صناعی اور آرٹ کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہیں اور یہ تو ایک نمونہ ہے جس کا ذکر یہاں ہوا ہے ورنہ طرح طرح کے پودوں اور درختوں پر لگنے والے شگوفوں، پھولوں اور پھلوں کی بناوٹ پر آدمی غور کرے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کس اہتمام کے ساتھ یہ چیزیں پیدا کی گئی ہیں اور ان کی ترکیب میں کس طرح لطافت اور کمالِ صناعت کا ثبوت دیا گیا ہے۔ اس طرح جب آدمی ان چیزوں کو دیکھتا ہے تو اسے ان چیزوں میں اللہ کی قدرت کا کمال بھی دکھائی دیتا ہے اور اس کا جلال و جمال بھی۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمان سے جو پانی برستا ہے وہ جہاں اللہ کے بندوں کے لیے رزق کا ذریعہ بنتا ہے وہاں وہ اللہ کی اس نشانی کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ جو زمین مردہ تھی وہ اللہ کے کرشمۂ قدرت سے زندہ ہو گئی اور اس کے کرشمۂ قدرت سے جس طرح زمین زندہ ہوسکتی ہے اسی طرح مردے بھی زندہ ہو کر زمین سے باہر آ سکتے ہیں۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ فرقان نوٹ ۵۱
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت لوط علیہ السلام کو سدوم اور عمورہ کی بستیوں کی طرف جو بحر مردار کے کنارے واقع تھیں رسول بنا کر بھیجا گیا تھا۔ وہ چونکہ اس قوم میں پیدا نہیں ہوئے تھے اس لیے انہیں اخوان لوط(لوط کے بھائی) کہا گیا۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۷۷
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ دُخان نوٹ ۳۹
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان آیات میں ان قوموں کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا تاکہ پیغمبر قرآن کو جھٹلانے والے اپنا انجام سوچ لیں۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ انسان کو پہلی بار پیدا کر کے تھک نہیں گیا ہے کہ اس کے لیے دوسری بار پیدا کرنا مشکل ہو۔ پہلی تخلیق کو دیکھتے ہوئے دوسری تخلیق کے بارے میں شک کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وسوسہ کے معنی صوتِ خفی (آہستہ آواز) کے ہیں اور مراد وہ خیالات ہیں جو انسان کے نفس میں پیدا ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ انسان کے دل میں گزرنے والے خیالات تک سے واقف ہیں۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ انسان سے دور نہیں بلکہ ہر لحاظ سے قریب ہے اور اتنا قریب کہ اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ۔ اللہ کی قدرت اور اس کا علم پوری طرح اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور جب انسان پر اس کی گرفت اس قدر مضبوط ہے تو وہ اس سے ڈرتا کیوں نہیں اور یہ خیال اس کے ذہن میں کہاں سے سما جاتا کہ وہ اس کے حضور جواب دہ نہیں ہے۔
آیت کا اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ جب اللہ انسان کے دل میں گزرنے والے خیالات تک کو جانتا ہے تو قیامت کے دن ہر ہر شخص کے اعمال اور اس کے دل کے اسرار کو سامنے لانا اور ان کا حساب چکانا کیا مشکل ہے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد وہ فرشتے ہیں جو ہر شخص کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ ایک اس کی دائیں جانب بیٹھتا ہے اور دوسرا بائیں جانب۔ یہ دونوں فرشتے اس شخص کی ہر بات کو اخذ کر لیتے ہیں۔ اخذ کرنے سے مراد اس کو ریکارڈ کرنا اور محفوظ کر لینا ہے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب آدمی اپنی زبان سے کوئی بات نکالتا ہے تو جو فرشتہ اس کی نگرانی پر مامور ہوتا ہے وہ نہایت مستعدی سے اس کو ریکارڈ کر لیتا ہے۔ کوئی بات بھی ریکارڈ ہونے سے رہ نہیں جاتی۔ ان دو فرشتوں کے درمیان تقسیم کار کس طرح ہے اور یہ انسان کی دہنی اور بائیں جانب کس طرح بیٹھے رہتے ہیں اس کی وضاحت نہ قرآن میں ہوئی ہے اور نہ صحیح حدیث میں اس لیے قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ رہا فرشتوں کا ایک ایک لفظ نوٹ کر لینا تو موجودہ دور کے انسان کے لیے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں رہی جبکہ ٹیپ ریکارڈ جیسی مشینیں ایجاد ہو چکی ہیں بلکہ یہ ایجادیں قرآن کی صداقت کا تازہ ثبوت ہیں۔
اس آیت میں اقوال کو ثبت کر لینے کی بات ارشاد ہوئی ہے اور سورۂ انفطار میں افعال کو :
وَ اِنَّ عَلَے ْکُمْ لَحَافِظِیْنَ کِرَامًا کاَتِبِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَاتَفْعَلُوْنَ۔(انفطار: ۱تا۱۲) " تم پر نگراں مقرر ہیں۔ گرامی قدرت کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں۔ "
اور سورۂ زلزال میں ارشاد ہوا ہے :۔
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرَّاً یَّرَہٗ۔(زلزال:۷،۸) " تو جس نے ذرہ برابر بھلائی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اس کو بھی دیکھ لے گا۔ "
قرآن کے ان بیانات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہر شخص کے ہر قول، عمل اور اس کی تمام حرکات کو محفوظ(ریکارڈ) کیا جا رہا ہے اس طور سے کہ قیامت کے دن وہ اپنے ہر ہر عمل کو خواہ کوئی نیکی ہو یا بدی اور خواہ وہ ذرہ برابر ہی کیوں نہ ہو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ گویا دنیا میں ہر شخص کی پوری زندگی فلمائی جا رہی تھی اور قیامت کے دن وہ اپنی اس بولتی فلم کو دیکھ لے گا۔ اور یہ فلم انسان کی ایجاد کر دہ فلم کے مقابلہ میں ایسی معیاری ہو گی کہ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔
یہ حقیقت اگر آدمی کے پیش نظر رہے تو اس کی زندگی بڑی محتاط ہو جائے۔ وہ کوئی بات زبان سے نکالنے سے پہلے سوچے گا کہ اس پر گرفت تو نہیں ہو گی اور کسی کام کو کرنے سے پہلے اس کو یہ فکر ہو گی کہ اس کا شمار نیکی میں ہو گا یا بدی میں۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موت کے وقت انسان پر بے ہوشی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ مگر اس کی روح پر حق آشکارا ہو جاتا ہے۔ اگر وہ کافر تھا تو اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ حق ہے جس سے تو دنیا میں کتراتا رہا گویا موت قیامت کی تمہید ہے۔ موت آتے ہی آدمی فرشتوں کو بھی دیکھ لیتا ہے اور اس عالم کو بھی جو اس کی نگاہوں سے مستور ہے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قیامت کی تصویر ہے کہ دوسرا صور پھونکتے ہی تمام مرے ہوئے انسان زندہ ہو کر قبروں سے نکل پڑیں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی دن ہے جس سے تمہیں دنیا میں ڈرایا گیا تھا۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہر شخص کے ساتھ دو فرشتے ہوں گے۔ ایک اس کو میدانِ حشر کی طرف لے جا رہا ہو گا اور دوسرا وہ جو اس کی عملی زندگی کے بارے میں گواہی دینے والا ہو گا۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات قیامت کے دن ہر اس شخص سے کہی جائے گی جو آخرت سے غافل تھا۔ اس غفلت کے نتیجہ میں اس کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا تھا جس کو قیامت کے دن ہٹادیا جائے گا اس لیے اس کی نگاہیں قیامت کے احوال دیکھنے کے لیے تیز ہوں گی۔
معلوم ہوا کہ جو لوگ قیامت کا احساس رکھتی ہیں ان کی نگاہیں دنیا میں بھی تیز ہوتی ہیں اور وہ قیامت کے احوال کا قرآن کی روشنی میں مشاہدہ کر لیتے ہیں۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھی (قرین) سے مراد وہ فرشتہ ہے جو اس شخص کے اعمال کی نگرانی کے لیے مقرر تھا۔ وہ اس کے اعمال کا ریکارڈ کرتے ہوئے کہے گا کہ یہ ریکارڈ بالکل تیار ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حکم ان دو فرشتوں کو ہو گا جو عدالتِ خداوندی میں مجرموں کو حاضر کریں گے۔ یعنی سائق (ہانکنے والا فرشتہ) اور شہید (گواہی دینے والا فرشتہ)۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں کافر کی پانچ خصلتیں بیان ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ حق کا مخالف اس کا دشمن ہوتا ہے، وہ دوسروں کو بھی قبول حق سے اور نیکی اور بھلائی کے کاموں سے روکتا ہے، وہ اخلاقی اور شرعی حدود کو توڑتا ہے، اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے، وہ غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ جو شرک اور ناقابل معافی گناہ ہے۔ یہ کافروں کی چند خصلتوں کا ذکر ہے۔ دوسرے مقامات پر ان کی اور خصلتیں بیان ہوئی ہیں۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں " قرینُہٗ " (اس کے ساتھی) سے مراد شیطان ہے جو دنیا میں اس شخص کا ساتھی بنا رہا۔
انداز کلام سے واضح ہے کہ اس شخص کو جب سخت عذاب میں ڈالنے کا حکم ہو گا تو وہ اپنی سرکشی کا ذمہ دار شیطان کو ٹھہرائے گا اور شیطان اس کی تردید کرتے ہوئے کہے گا کہ میں نے اس پر کوئی زبردستی نہیں کی تھی بلکہ یہ خود پرلے درجہ کی گمراہی میں مبتلا ہو گیا تھا۔ لہٰذا قصور وار اور مجرم یہ خود ہے۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اب اس بحث سے کوئی فائدہ نہیں۔ میں نے تمہیں دنیا میں اپنے رسولوں کے ذریعہ خبردار کر دیا تھا کہ اگر تم نے کفر کیا تو اس کی سخت سزا تمہیں قیامت کے دن بھگتنا ہو گی۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میرا فیصلہ اٹل ہے اور اس فرمان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی کہ میں شیطان اور اس کے پیروؤں سے جہنم کو بھر دوں گا۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم کی یہ ابدی سزا جو کافروں کو دی جائے گی ظالمانہ نہیں ہو گی بلکہ عدل و حق کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہو گی۔ جو لوگ خدا پر اعتراض کرنے کی جسارت کرتے ہیں وہ قرآن میں ان سخت سزاؤں کا ذکر سن کر اللہ کو نعوذ باللہ ظالم خیال کرنے لگتے ہیں۔ ان کے نزدیک انصاف کی بات یہ ہے کہ اللہ اپنے وفادار بندوں اور اپنے باغیوں میں کوئی فرق نہ کرے۔ باغیوں کو سزا دینے کے بجائے اپنے انعام سے نوازے یا پھر سرے سے آخر برپا ہی نہ کرے۔ مگر ان کی یہ دونوں باتیں صریحاً غلط اور خلاف عدل ہیں۔ دنیا کی حکومتیں اپنے باغیوں اور سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو موت کی سزا بھی دیتی ہے اور عمر قید کی بھی اور اس کو عدل کا تقاضا سمجھا جاتا ہے پھر اللہ کی طرف سے اس کے سرکش بندوں کو دی جانے والی ابدی سزا کو وہ کس طرح ظالمانہ قرار دیتے ہیں ؟ رہی یہ بات کہ اللہ سرے سے آخرت برپا ہی نہ کرے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ دنیا اور اس میں انسان کا وجود سب عبث ہیں۔ انسان کو اگر مر کر بالکل فنا ہی ہو جانا ہے تو دنیا کی چند روزہ زندگی کا حاصل کچھ نہیں۔ وہ بالکل بے فائدہ اور بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ظلم کسی کے حق کو چھین لینے یا کسی نا جائز غرض کو پورا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے مگر اللہ کے بارے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وہ بے نیاز ہے اور اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہے پھر وہ اپنے بندوں پر کیوں ظلم کرنے لگا۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ نہ خیال کرو کہ کافروں اور مجرموں کی اتنی بڑی تعداد جو معلوم نہیں کتنے بلین(Billon) انسانوں اور جنوں پر مشتمل ہو گی جہنم میں کس طرح سما سکے گی۔ اس کی وسعت کا حال یہ ہو گا کہ انس و جن کی بڑی تعداد سے اس کو بھر دینے کے باوجود وہ کہے گی کہ کچھ اور بھی ہوں تو ان کے لیے گنجائش ہوسکتی ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت میں جانے کے لیے متقیوں کو کوئی فاصلہ طے کرنا نہیں پڑے گا جوں ہی فیصلہ ہو گا وہ جنت میں پہنچ جائیں گے۔ زماں اور مکاں کا کوئی فاصلہ ان کے اور جنت کے درمیان حائل نہ ہو گا۔
قرآن کی آیتوں سے یہ بات تو واضح ہے کہ حشر زمین ہی پر ہو گا۔ رہا متقیوں کے لیے جنت کا قریب ہونا تو اس کی نوعیت اللہ ہی کو معلوم ہے۔ آخرت کے زمان و مکان کو ہم دنیا کے زمان و مکان پر قیاس نہیں کرسکتے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوّاب یعنی بار بار توبہ کرنے والا اللہ کی طرف پلٹنے والا اور ہر معاملہ میں اور ہر موقع پر اسی کی طرف رجوع کرنے والا۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد حدود الٰہی کی حفاظت کرنا ہے۔ یعنی وہ شرعی حدود کا پابند تھا۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رحمن کو اگرچہ اس نے نہیں دیکھا تھا لیکن اس کی عظمت کے تصور سے وہ لرزاں رہتا تھا۔ واضح رہے کہ رحمن کی صفت اس کی عظمت پر بھی دلالت کرتی ہے۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۶۸۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " قلب منیب" سے مراد اللہ کی طرف متوجہ ہونے والا دل ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسا دل لے کر آیا جو اللہ کے معاملہ میں ہمیشہ بیدار رہا اور اس کی طرف متوجہ رہا۔ اس کا سر ہی نہیں بلکہ اس کا دل بھی اللہ کے آگے جھکا ہوا تھا اور وہ دل کی انابت کے ساتھ اللہ کی عبادت و اطاعت کرتا تھا۔
ان آیتوں میں متقیوں کے اوصاف بیان ہوئے ہیں جن سے تقویٰ کا مفہوم بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہر خطرہ اور ہر آفت سے محفوظ۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آج کی کامیابی ہمیشہ کے لیے اور آج کا انعام ہمیشہ کے لیے انعام ہے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ جو چاہیں گے وہ تو انہیں جنت میں ملے گا ہی اس کے علاوہ ہم انہیں اپنی طرف سے مزید انعامات سے نوازیں گے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ روم نوٹ۱۶۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ گزری ہوئی طاقتور قومیں مختلف ممالک میں اپنا اثر و نفوذ رکھتی تھیں لیکن جب ان پر عذاب آیا تو انہیں کہیں بھی جائے پناہ نہ مل سکی۔ پھر یہ لوگ کس گھمنڈ میں مبتلا ہیں۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس کا دل زندہ اور بیدار ہو۔ ایسا شخص خود ہی ان قوموں کے عبرت ناک انجام سے سبق لے گا لیکن جس کا دل اس حد تک بیدار نہ ہو تو کم از کم وہ توجہ سے ان واقعات کو سنے۔ اس صورت میں بھی وہ نصیحت حاصل کر لے گا لیکن جو شخص تاریخ کے ان عبرت آموز واقعات پر نہ خود غور کرتا ہو اور نہ ناصح کی نصیحت پر کان دھرتا ہو وہ برے انجام سے کس طرح بچ سکتاہے ؟
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۸۲۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تردید ہے یہود کے اس خیال کی کہ اللہ نے ساتویں دن جو ان کے نزدیک سبت کا دن ہے آرام کیا۔
" کیونکہ خداوند نے چھ دن میں آسمان و زمین اور سمندر اور جو کچھ ان میں ہے وہ سب بنایا اور ساتویں دن آرام کیا۔ اس لیے خداوند نے سبت کے دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا۔ "(خروج ۲۰:۱۱)
اللہ کے بارے میں یہ تصور ہی باطل ہے۔ اس کو نہ تکان لاحق ہوتی ہے اور نہ اس کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ زبردست قوت والا ہے۔ اگر اس کو انسان اپنے پر قیاس کرتا ہے تو اس کی کوتاہ نظری ہی نہیں حماقت بھی ہے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ جو باتیں تم کو جھٹلانے کے لیے کہہ رہے ہیں ان سے کبیدہ خاطر نہ ہو جاؤ بلکہ صبر و ضبط سے کام لو اور اپنے رب کی حمد و تسبیح میں سرگرم رہو کہ یہ سکونِ قلب کا سامان ہے۔
حمد کے ساتھ تسبیح کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی پاکی اس طرح بیان کی جائے کہ اس کے پہلو بہ پہلو اس کے خوبیوں اور کمالات سے متصف اور اس کے لائق ستائش ہونے کا ذکر بھی ہو۔
سورج کے طلوع ہونے سے پہلے تسبیح کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے تو اس سے مراد نماز فجر ہے اور غروب سے پہلے کی تسبیح سے مراد نمازِ عصر ہے۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد عشاء کی نماز ہے۔
فجر، عصر اور عشاء کی نمازیں ادا کرنے کا حکم آغاز میں دیا گیا تھا۔ اس کے بعد پانچ وقت کی نمازوں کا حکم دیا گیا ملاحظہ ہو سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۱۰۸
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں سجود سے مراد جیسا کہ موقع کلام سے واضح ہے نمازیں ہیں۔ یہ اس بات کی ترغیب ہے کہ نمازوں کے بعد بھی اللہ کی تسبیح کی جائے کیونکہ تسبیح ذکر بھی ہے عبادت بھی ہے اور روح کی غذا بھی نیز بہت بڑے اجر کا موجب بھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اہمیت اور فضیلت اس طرح بیان فرمائی ہے :
لَاَنْ اَقُوْلَ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ الِلّٰہِ وَلاٰ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا طَلَعَتُ عًلَیْہِ الشِّمْسُ۔(مسلم کتاب الذکر) " سبحان والحمد اللہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر کہنا مجھے اس دنیا سے زیادہ محبوب ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ "
اَلاَ اُخْبِرُکَ بِاَحَبِّ الْکَلاَمِ اِلَی اللّٰہِ اِنَّ اَحَبَّ الْکَلاَمِ اِلیَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ (مسلم کتاب الذکر) " کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ کلام کیا ہے ؟ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ کلام سبحان اللہ و بحمدہ ہے۔ "
اور حدیث میں آتا ہے کہ آپؐ ہر نماز کے بعد حمد و تسبیح کے کلمات کہنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:
تُسَبِّحُوْنَ وَتُکَبِّرُوْنَ وَتُحَمِّدُوْنَ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلوٰۃٍ ثَلاَثاً وَّثَلاَ تِیْنَ مَرَّۃً۔ (مسلم کتاب المساجد) " ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ اللہ اکبر اور تینتیس مرتبہ الحمد اللہ کہا کرو۔ "
اوپر آیت ۱۸ میں گزر چکا ہے کہ انسان کی زبان سے جو لفظ بھی نکلتا ہے نوٹ کر لیا جاتا ہے پھر ایک مومن اپنی زبان سے زیادہ سے زیادہ حمد و تسبیح کے کلمات کیوں نہ ادا کرے اور اپنے عمل کو کیوں نہ ان جواہرات سے مزین کرے۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس پکار کو جو قیامت کے دن قبروں سے نکلنے کے لیے ہو گی سننے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ یہ پکار ہر شخص جو مرگیا تھا سن لے گا اور اسے ایسا محسوس ہو گا کہ قریبی جگہ ہی سے پکار نے والا پکار رہا ہے۔
ماضی کا انسان سوچ سکتا تھا کہ حشر کی آواز پوری زمین پر جس میں مردے دفن ہیں کس طرح نشر ہو گی۔ مگر موجودہ دور میں ریڈیو کی ایجاد نے اس سوال کا بھی جواب دے دیا اس طرح قرآن کی صداقت کی نشانیاں آفاق میں ظاہر ہوتی جا رہی ہیں۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی حشر کی یہ ندا ندائے حق ہو گی اور سننے والے پر حق کو آشکارا کرے گی۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس ندا کو سنتے ہی تمام مرے ہوئے انسان زمین سے نکل پڑیں گے خواہ ان کی قبر بنی تھی یا نہ بنی تھی۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قیامت کے دن زمین سے نکلنے کی تصویر ہے۔ جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو زمین جگہ جگہ سے شق ہو گی او ر ساری خلقت جو زمین میں دفن ہوئی تھی زندہ ہو کر باہر نکل آئے گی اور عالم یہ ہو گا کہ لوگ زمین سے تیزی کے ساتھ نکل کر دوڑ رہے ہوں گے۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہارا کام فہمائش کرنا ہے۔ جبر کر کے اپنی بات منوانا نہیں ہے اور جب ایک پیغمبر کسی کو دین قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا تو مسلمان غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے پر کس طرح مجبور کرسکتے ہیں ؟ رہا جہاد تو اس کا تعلق جنگی مقاصد سے ہے نہ کہ لوگوں کو دین زبردستی بدلنے سے۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ واضح ہدایت ہے اس بات کی کہ قرآن کو تذکیر کا ذریعہ بنایا جائے کیونکہ حق کو واضح کرنے، اللہ کی حجت اس کے بندوں پر قائم کرنے اور نصیحت کرنے کا اس سے زیادہ موثر ذریعہ کوئی نہیں ہوسکتا۔
اس ہدایت کے پیش نظر دعوت و تبلیغ اور اصلاح و ارشاد کا کام کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ قرآن کو اس کے معنی و مفہوم کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کریں خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اور حالات اور موقع کی مناسبت سے قرآن کی رہنمائی کو اجاگر کریں۔ موجودہ دور میں دینی کتابوں کی کثرت ہو گئی ہے اور مسلمانوں کا ہر حلقہ اپنی کتابوں اور اپنے لٹریچر پر نازاں ہے اور قرآن کو اس کے معنی و مفہوم کے ساتھ پیش کرنے کا اتنا اہتمام نہیں کر رہا ہے جتنا کہ اپنی کتابوں اور اپنے لٹریچر کو پیش کرنے کا اہتمام کرتا ہے بہت کم لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس بنا پر فہم دین کے معاملہ میں لوگوں کا تعلق قرآن سے براہ راست قائم نہیں ہو پاتا۔ اور اس کی فکر خالص قرآنی نہیں بنتی وہ اسی فکر کو قبول کر لیتا ہے جو اس کے حلقہ کی کتابوں یا لٹریچر میں پیش کی گئی ہو۔ ہر قسم کے گروہی اور جماعتی تعصب سے بلند ہو کر دعوت و تبلیغ کا کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فہم قرآن پر زور دیا جائے اور اسی کو فہمائش اور تذکیر کا اصل ذریعہ بنایا جائے۔