دوسری آیت میں یہودی قبیلہ بنی نضیر کی جلا وطنی کی صورت میں ان کے پہلے حشر کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام"الحشر" ہے۔
مدنی ہے اور ۰۴ھ میں نازل ہوئی۔
اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والوں کو بنی نضیر کے رسوا کن انجام سے عبرت دلانا ہے اور اہل ایمان کو ان مسائل میں جو بنی نضیر سے جنگ کے تعلق سے پیش آئے تھے ہدایت دینا ہے۔
آیت ۱ تمہیدی آیت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔
آیت ۲ تا ۴ میں اہل کتاب کے ایک کافر گروہ بنی نضیر کا جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت پر اتر آیا تھا عبرت ناک انجام بیان کیا گیا ہے۔
آیت ۵ تا ۱۰ میں پیش آمدہ مسائل میں اہل ایمان کو ہدایت دی گئی ہیں۔
آیت ۱۱ تا ۱۷ میں منافقین کے رویہ پر گرفت کی گئی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود سے ساز باز کر رہے تھے۔
آیت ۱۸ تا ۲۴ سورہ کے خاتمہ کی آیات ہیں جن میں موثر نصیحت اور خشیتِ الٰہی پیدا کرنے والی باتیں بیان ہوئی ہیں۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی تسبیح کرتی ہیں وہ تمام چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ ۱* اور وہی غالب اور حکمت والا ہے۔ ۲*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی ہے جس نے ان لوگوں کو جو اہل کتاب میں سے کافر ہوئے ان کے گھروں سے پہلے حشر کے لیے نکال باہر کیا۔ ۳* تمہیں گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے۔ ۴* اور وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے قلعے ان کو اللہ( کی پکڑ) سے بچا لیں گے۔ ۵* مگر اللہ کی پکڑ ان پر اس رخ سے ہوئی جدھر ان کو گمان بھی نہیں ہوا تھا۔ اور اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ ۶* وہ خود اپنے ہاتھوں اپنے گھروں کو اجاڑ رہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی۔ ۷* تو عبرت حاصل کرو اے آنکھیں رکھنے والو! ۸*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر اللہ نے ان کے لیے جلا وطنی نہ لکھ دی ہوتی تو وہ دنیا میں ان کو عذاب دیتا۔ ۹* اور آخرت میں ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔ ۱۰*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس لیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور جو اللہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ کھجوروں کے جو درخت تم نے کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا چھوڑ دیا تو یہ اللہ کے حکم سے ہوا۔ ۱۲* اور(اس نے یہ حکم اس لیے دیا) تاکہ وہ فاسقوں کو رسوا کرے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ نے جو مال ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کو دلوایا۔ ۱۳* تو اس پر تم نے نہ اپنے گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ ۱۴* بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جن پر چاہتا ہے تسلط عطا فرماتا ہے۔ ۱۵* اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ اللہ بستیوں والوں کی طرف سے اپنے رسول کو دلوائے ۱۶* وہ اللہ اور رسول اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ ۱۷* تاکہ یہ (مال) تمہارے مال داروں ہی کے درمیان گردش کرتا نہ رہے۔ ۱۸* اور رسول جو تمہیں دے اس کو لو اور جس سے روک دے اس سے رک جاؤ۔ ۱۹* اور اللہ سے ڈرو۔ بلا شبہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ(مال) ان محتاج مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مال سے نکالے گئے ہیں۔ ۲۰* اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں۔ یہی لوگ راست باز ہیں۔ ۲۱*
۹۔۔۔۔۔۔۔ اور جو لوگ ان سے پہلے ہی( مدینہ کو) ٹھکانا بنائے ہوئے اور ایمان لائے ہوئے تھے وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دیا جائے اس کی کوئی حاجت وہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور وہ ان کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود ضرورت مند ہوں۔ ۲۲* اور جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لئے گئے وہی فلاح پانے والا ہیں۔ ۲۳*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔ اور جو لوگ ان کے بعد آئے ۲۴* وہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں۔ اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ۔ ۲۵* اے ہمارے رب تو بڑا شفیق اور رحیم ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے ان منافقوں کو نہیں دیکھا ۲۶* جو اپنے ان بھائیوں سے جو اہل کتاب میں سے کافر ہوئے کہتے ہیں ۲۷* کہ اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے اور تمہارے معاملہ میں ہم ہرگز کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم لوگوں سے جنگ کی گئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے۔ مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے اور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ ان کی مدد نہیں کریں گے ۲۸* اور اگر مدد کریں گے بھی تو پیٹھ پھیر جائیں گے۔ پھر ان کی مدد ۲۹* نہیں کی جائے گی۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا خوف ان کے دلوں میں اللہ سے زیادہ ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔ ۳۰*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کبھی اکھٹے ہو کر تم سے نہیں لڑیں گے بلکہ قلعہ بند بستیوں میں یا دیواروں کے پیچھے سے لڑیں گے۔ ۳۱* ان کی لڑائی آپس میں بڑی سخت ہے تم ان کو متحد خیال کرتے ہو مگر ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔ ۳۲* اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔ ۳۳*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔ ان کا حال وہی ہوگا جو ان لوگوں کا ہوا جو ان سے کچھ ہی پہلے اپنے کئے کا مزا چکھ چکے ہیں۔ ۳۴* اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ۳۵*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی مثال ۳۶* شیطان کی سی ہے جو انسان سے کہتا ہے کہ کفر کر اور جب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو کہتا ہے میں تجھ سے بری ہوں۔ مجھے اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے۔ ۳۷*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ تو دونوں کا انجام یہ ہونا ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ۳۸* اور ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو ۳۹* اور ہر شخص کو چاہیے کہ دیکھ لے اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔ ۴۰* اللہ سے ڈرتے رہو۔ ۴۱* یقیناً اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ ۴۲*
۱۹۔۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے ان کو اپنے نفس کے بھلاوے میں ڈال دیا۔ ۴۳* یہی لوگ فاسق ہیں۔ ۴۴*
۲۰۔۔۔۔۔۔۔ دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے یکساں نہیں ہو سکتے۔ جنت میں جانے والے ہی کامیاب ہونے والے ہیں۔ ۴۵*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے پست ہورہا ہے اور پھٹ رہا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور کریں۔ ۴۶*
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اللہ ہی ہے ۴۷* جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ۴۸* غائب اور حاضر کا جاننے والا۔ ۴۹* وہ رحمن اور رحیم ہے۔ ۵۰*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ ۵۱* وہ بادشاہ ہے۔ ۵۲* نہایت مقدس ۵۳*، سراسر سلامتی، ۵۴* امن دینے والا۔ ۵۵* حفاظت کرنے والا۔ ۵۶*،غالب۔ ۵۷*،زبردست۔ ۵۸، کبریائی والا۔ ۵۹ پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جن کو لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ ۶۰*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اللہ ہی ہے پیدا کرنے والا۔ ۶۱*، موجد۔ ۶۲*،صورت گری کرنے والا۔ ۶۳* اس کے لیے بہترین نام ہیں۔ ۶۴* آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں اس کی تسبیح کرتی ہیں۔ ۶۵* اور وہ غالب ہے حکمت والا۔ ۶۶*
۱۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ حدید نوٹ ۱ میں گزر چکی۔
۲۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ غزوۂ بنی نضیر میں اللہ کے غلبہ اور اس کی حکیمانہ تدبیر کا ظہور ہوا۔
۳۔۔۔۔۔۔۔ مراد بنی نَضرْ ہیں جن کا مدینہ سے اخراج عمل میں آیا۔ یہ یہودی قبیلہ تھا جو مدینہ کے مضافات میں آباد تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو آپ کے اور اس قبیلہ کے درمیان صلح کا معاہدہ ہوا تھا مگر وہ اس کی کھلی خلاف ورزی کرتے رہے۔ ان کے لیڈر کعب بن اشرف نے مکہ جا کر مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا" نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کرتا رہا اور مسلمان خواتین کے خلاف شرمناک پروپگنڈہ کرتا رہا بالآخر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے اسے قتل کر دیا جاۓ۔ اس کے بعد بھی یہ لوگ اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آئے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے ہاں بلاکر دیوار کے اوپر سے بڑا پتھر آپ پر گرانے اور آپ کو قتل کرنے کی سازش کی تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے بر وقت اس سے خبردار کر دیا اور آپ بال بال بچ گئے۔ وہاں سے مدینہ واپس آ کر حکم دیا کہ بنی نضیر بیس دن کے اندر مدینہ سے نکل جائیں مگر انہوں نے اس سے انکار کیا۔ بالآخر آپ نے اپنے اصحاب کے ساتھ ان کا محاصرہ( گھیراؤ) کر لیا۔ وہ مرعوب ہو کر لڑائی کا حوصلہ کھو بیٹھے اور اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینہ سے نکل جائیں گے البتہ جس قدر سامان وہ اپنے ساتھ لے جا سکتے ہوں انہیں لے جانے کی اجازت دی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اس کی اجازت دی چنانچہ انہوں نے خود اپنے ہاتھوں اپنے گھروں کو توڑ پھوڑ ڈالا تاکہ دروازے وغیرہ اپنے ساتھ لے جا سکیں۔ بنی نضیر کے اخراج کا یہ واقعہ ربیع الاول ۴ھ میں پیش آیا۔
آیت میں ان کے اس اخراج کو اول حشر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حشر کے معنی اکٹھا کرنے کے ہیں۔ چونکہ ان کو مدینہ سے نکال کر اپنے کیفر کردار کو پہنچنے کے لیے اکٹھا کیا گیا تھا اس لیے اسے حشر سے تعبیر کیا گیا ہے اور اول حشر کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ ان کا دوسرا حشر بھی ہونے والا ہے چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے زمانہ میں ان کو جزیرۂ عرب سے نکال د یا۔
۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بظاہر حالات تم سوچ نہیں سکتے تھے کہ وہ اتنی آسانی سے مدینہ چھوڑ کر نکل جائیں گے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کا اعتماد اسباب پر تھا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے مضبوط قلعے ان کی مدافعت کے لیے کافی ہوں گے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی تدبیر یہ ہوئی کہ ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ لڑائی کا حوصلہ نہ کر سکے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس دلیرانہ اقدام کو دیکھ کر دہشت زدہ ہو گئے اس لیے مقابلہ کی ہمت نہ کر سکے۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کی غیر معمولی مدد اس طرح بھی فرماتا ہے کہ ان کے دشمنوں کے دلوں میں رعب ڈال کر ان کے حوصلے پست کر دیتا ہے بالخصوص ایسے موقع پر جبکہ دشمن طاقتور ہو اور اہل ایمان کے پاس اسباب کی کمی ہو مگر وہ اس کے باوجود حکم کی تعمیل میں سرفروشانہ جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہوں۔
۷۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے ہاتھوں اپنے گھروں کو اس لیے اجاڑ رہے تھے کہ اپنے گھروں کے دروازے وغیرہ نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں نیز اس لیے بھی کہ مسلمانوں کو ان کے گھر اچھی حالت میں نہ ملیں۔ رہا مسلمانوں کا ان کے گھروں کو مسمار کرنا تو وہ جنگی ضرورت کے لیے تھا۔
۸۔۔۔۔۔۔۔ بنی نضیر کے اس انجام سے ہر آنکھیں رکھنے والے شخص کو عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ وہ اپنی قوت اور اپنی شان و شوکت کے باوجود رسول کے مقابلہ میں ٹک نہ سکے اور انہیں ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ نصرتِ الٰہی رسول کے ساتھ ہوتی ہے لہٰذا جو گروہ بھی رسول سے ٹکر لینے کی کوشش کرتا ہے منہ کی کھاتا ہے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ بنی نَضِیر کو جلا وطن کر دیا جائے جس میں ان کے لیے یہ موقع باقی ہے کہ اس واقعہ سے سبق حاصل کریں اور اللہ کے حضور توبہ کر کے اپنی اصلاح کریں۔ ورنہ اللہ انہیں ایسی سزا دے سکتا تھا کہ ان کا خاتمہ ہو جاتا جس کی ایک صورت یہ ہو سکتی تھی کہ وہ قتل کر دیئے جاتے جیسا کہ بعد میں بنی قریظہ کے معاملہ میں ہوا کہ ان کے سب مرد قتل کر دئے گئے۔
واضح رہے کہ بنی نضیر اہل کتاب تھے جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور پھر غداری کی اس لیے ان کو اس غداری کی سزا یہ دی گئی کہ انہیں جلا وطن کر دیا گیا تاکہ مدینہ جو اسلام کا مرکز تھا ان کی سازشوں سے محفوظ رہے۔ جزیہ لینے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ عام اہل کتاب کے بارے میں ہے اور یہ حکم بعد میں نازل ہوا جو سورۂ توبہ میں ہے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت میں تو ان کو اپنے کفر کی سزا بھگتنے کے لیے جہنم میں جانا ہی ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا مطلب اسلام دشمنی میں اٹھ کھڑے ہونا ہے۔ کیونکہ اسلام اللہ کا نازل کر دہ دین ہے جو تمام انسانوں کے لیے اس کا فرمان ہے۔ اس فرمان کے خلاف اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہونا اللہ کی مخالفت میں کھڑا ہونا ہے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔ بنی نضیر کے باغ میں کھجور کے جو درخت تھے ان میں سے کچھ درختوں کو جنگی ضرورت کے تحت مسلمانوں نے کاٹ ڈالا اور کچھ درختوں کو باقی رہنے دیا۔ یہ سب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں اور آپ کی ہدایت پر ہوا اس لیے یہ کام اللہ ہی کے حکم سے انجام پایا تھا۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ اس تخریبی کام کے سلسلہ میں جو جنگی مصالح کے تحت کیاگیا کوئی کھٹک دلوں میں محسوس کی جائے۔
موجودہ زمانہ میں تو بہت بڑے پیمانہ پر دشمن کے ٹھکانوں پر بمباری کرنا پڑتی ہے۔ اس کے ہوائی جہاز گرانا پڑتے ہیں اور اس کی سپلائی لائن کاٹ دینا پڑتا ہے۔ ا س سلسلہ میں اس آیت سے یہ روشنی ملتی ہے کہ جہاد کے مقاصد کے لیے یہ سب کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو جہاد ہی معطل ہو کر رہ جائے گا اور دشمن غالب آ جائے گا۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔ اس مال کو اصطلاحاً "فَے ٔ" کہتے ہیں جس کے معنی لوٹانے کے ہیں اور جس کا مطلب یہ ہے کہ مال کافروں کے قبضے سے نکال کر مسلمانوں کو منتقل کر دیا گیا۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔ بنی نضیر کا معرکہ بغیر قتال کے سر ہوا تھا اس میں مسلمانوں کو اپنے گھوڑوں اور اونٹوں سے کام نہیں لینا پڑا بلکہ مدینہ سے بہت قریب ہونے کی وجہ سے پیدل چل کر آئے تھے اس لیے ان کا جو مال مسلمانوں کے ہاتھ لگا اس کی نوعیت مالِ غنیمت سے مختلف تھی۔ مالِ غنیمت اس مال کو کہتے ہیں جو لڑ کر دشمن کے قبضہ سے حاصل کیا گیا ہو اور جس میں مسلمان مجاہدین کو اپنے گھوڑے اون وغیرہ استعمال کرنا پڑے ہوں۔ مال غنیمت کا ۵/۴حصہ جیسا کہ سورۂ انفال آیت ۴۱ میں ارشاد ہوا ہے سپاہیوں میں تقسیم کرنے کے لیے ہے۔ لیکن مالِ فئے سپاہیوں کے درمیان تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مصرف آگے کی آیت میں بیان ہوا ہے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی خصوصی نصرت سے رسولوں کو اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوتا رہا ہے اور اس موقع پر بھی اس کی خصوصی نصرت ہی کا ظہور ہوا ہے۔ یہ نصرت رعب کی شکل میں ظاہر ہوئی جو بنی نضیر کے دلوں میں ڈال دیا گیا اور جس کے نتیجہ میں قتال کی نوبت نہیں آئی۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو بستیاں بھی فتح ہوں اور ان کے اموال "فئے " کے طور پر تمہارے قبضہ میں آئیں تو ان کا حکم وہ ہے جو آگے بیان کیا جا رہا ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔ مالِ فئے کا پہلا مصرف اللہ کے لیے خرچ کرنا ہے اور اللہ کے لیے خرچ کرنے سے مراد اس کے دین کی اشاعت اور جہاد کے لیے خرچ کرنا ہے۔
دوسرا مصرف یہ ہے کہ رسول کا اس میں حق ہے تاکہ وہ اپنی جن ضرورتوں یا جن مصالح پر خرچ کرنا چا ہے کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم منصب رسالت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے نہ معاشی دوڑ دھوپ کر سکتے تھے اور نہ آپ نے اپنے اور اپنے اہلِ خاندان کے لیے زکوٰۃ کو جائز رکھا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے مالِ فئے میں آپ کا حصہ مقرر کیا۔ یہ حصہ منصب کی بنا پر تھا اس لیے آپ کے بعد یہ باقی نہ رہا۔ یہ بھی واضح رہے کہ انبیاء علیہم السلام وراثت نہیں چھوڑتے ان کا ترکہ صدقہ ہوتا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے : لَا تُوْرَثُ مَاتَرَکْنَا صَدَقَۃٌ "ہمارا وارث کوئی نہیں۔ ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ "(بخاری کتاب الخمس)
تیسرا مصرف قرابت دار ہیں اور مراد رسول کے قرابت دار ہیں۔ یہ بنو ہاشم اور بنو المطلب ہیں جن پر آپ نے زکوٰۃ ممنوع قرار دی تھی۔ ان خاندان والوں نے آپ کا ساتھ دیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے مالِ قئے کے ذریعہ ان کی فیض رسانی کا سامان کیا۔
چوتھا" پانچواں اور چھٹا مصرف یتیموں " مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرنا ہے اور یہ خرچ ان کے فقراء اور ان کی احتیاج کو دور کرنے کے لیے ہے۔ یہ نادار اور غریب طبقہ ہے جو ہر طرح مدد کا مستحق ہے اس لیے مالِ فئے میں ان کا حصہ رکھا گیا۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔ یہ بہت بڑی اصولی بات ہے جو اس موقع پر ارشاد ہوئی ہے اور وہ یہ کہ دولت کا بہاؤ مال داروں کی طرف ہو کر نہ رہ جائے۔ اسلامی معاشیات(Islamic Economy) کا رخ دولت کے پھیلاؤ کی طرف ہے نہ کہ اس کے ارتکاز(Concentration) کی طرف۔ زکوٰۃ" صدقات کفاروں کی ادائیگی اور اموالِ غنیمت اور اموالِ فئے میں مفلس طبقہ کو حصہ دار بناکر اس کی پوزیشن کو بہتر بنانے کا سامان کیا ہے۔ نیز سود کو حرام قرار دے کر غریبوں کا خون چوسنے سے مالداروں کو روکا ہے۔ علاوہ ازیں وراثت کی تقسیم کے ذریعہ دولت کے پھیلاؤ کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ یہ اور اس طرح کی دوسری ہدایات کے ذریعہ اسلام نے ایک ایسے معاشی نظام(Economic System) کی تشکیل کی ہے جس میں اعتدال بھی ہے ، سوسائٹی کے مختلف طبقات کے ساتھ انصاف بھی اور کمال درجہ کا توازن بھی۔ اس نے ان طور طریقوں کا سد باب کیا ہے جن سے غریب سے غریب تر اور امیر امیر تر ہوتے ہیں۔ اس کا معاشی نظام نہ سرمایہ دارانہ ہے اور نہ کسی کی حق تلفی پر مبنی۔ نہ اس میں یک رخا پن ہے اور نہ انتہا پسندی بلکہ وہ حق و عدل کا کامل نمونہ ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک اور اصولی ہدایت ہے جو اس موقع پر دی گئی۔ سلسلہ کلام کے لحاظ سے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مالِ فئے میں سے رسول جس کو جو کچھ دے اس کو وہ قبول کر لے اور جس کو نہ دے وہ رک جائے۔ نہ مطالبہ کرے اور نہ اعتراض۔ لیکن اس فقرہ کا مفہوم اس حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے وسیع تر مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ رسول جو حکم دے اس کی تعمیل کرو اور جن چیز سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔
اِذَا اَمَرْتُکُمْ بِاَمْرِفَاتُوْ مِنْہُ مَااسْتَطَعْتُمْ وَمَا فَہَیتُکُمْ عَنْہُ فَاَجْتَنِبُوْہُ۔ "جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک تمہاری استطاعت ہو کرو اور جس بات سے روک دوں اس سے اجتناب کرو۔ "( بخاری۔ مسلم)
اب یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے اور کن باتوں سے روکا ہے آپ کی سنت ہی سے معلوم کی جاسکتی ہے اور آپ کی سنت کو جاننے کا ذریعہ احادیثِ صحیحہ ہیں اس لیے احادیثِ صحیحہ کی ضرورت " اہمیت اور اس کے حجت ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ قرآن کے اس حکم کی خلاف ورزی لازم آئے گی۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینا چاہیے کہ حجت احادیثِ صحیحہ ہی ہیں نہ کہ ضعیف اور موضوع حدیثیں اور الم غلم روایتیں۔ مگر اس امت کے اندر بے سروپا روایتوں نے جڑ پکڑ لی ہے جس نے دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے یہ ہرگز اطاعتِ رسول نہیں ہے کہ ہر قسم کی روایتوں کو جو رسول کی طرف منسوب کر دی گئی ہوں قبول کر لیا جائے خواہ وہ قرآن اور سنتِ رسول کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ ایسی روایتوں کا انکار اطاعت رسول ہے نہ کہ اقرار۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مفلس مہاجرین ( جو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے ہیں ) اس بات کے خاص طور سے مستحق ہیں کہ مالِ فے میں سے ان پر خرچ کیا جائے کیونکہ ہجرت پر مجبور ہو جانے کی وجہ سے انہیں اپنے گھر بار اور اپنے اموال چھوڑ دینا پڑے اور خالی ہاتھ وہ مدینہ منتقل ہو گئے۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ مہاجر محض تارکین وطن نہیں ہیں بلکہ اعلیٰ کردار کے حامل ہیں۔ ان کے پیش نظر صرف اللہ کی رضا جوئی ہے۔ اللہ کے دین اور اس کے رسول کی نصرت میں وہ پیش پیش رہتے ہیں اور راست بازی ان کا شعار ہے۔ جب انہوں نے دین کے لیے یہ قربانیاں دی ہیں تو وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ اللہ کے اس غیر معمولی عطیہ سے جو اموال نے کی صورت میں اسلامی حکومت کو حاصل ہوا ہے ان کی بھر پور مدد کی جائے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی نضیر سے حاصل شدہ اموالِ فے کا بڑا حصہ مہاجرین میں تقسیم کیا۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔ یہ مدینہ کے انصار کی قدر افزائی ہے کہ مہاجرین کے مدینہ آ جانے سے پہلے ہی وہ ایمان لا کر اس شہر کو اپنا مستقر بنائے ہوئے تھے جو بعد میں دارالہجرت قرار پایا۔ انہوں نے ان مہاجرین کو اپنے اوپر بار محسوس نہیں کیا بلکہ انہیں خوش آمدید کہا اور اپنے دل میں جگہ دی۔ بنی نضیر کے اموالِ فے میں سے انصار کو چھوڑ کر مہاجرین کو جو کچھ دیا گیا اس پر انہوں نے نہ اپنے دل میں تنگی محسوس کی اور نہ کوئی حرفِ شکایت زبان پر لایا جب کہ اموالِ فے میں ان کو بھی شریک کیا جا سکتا تھا لیکن انہوں نے اپنے اوپر ان مفلس مہاجرین کو ترجیح دی اور یہ ان کا بہت بڑا ایثار ہے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔ دل کی تنگی( شحِ نفس) پوری عملی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے اور انسان کو ہلاکت کی راہ پر ڈال دیتی ہے اس لیے دل کی تنگی سے بچنے کی جس کو توفیق ملی اس کو گویا کامیابی کی ضمانت مل گئی۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ مہاجرین اور انصار کے بعد آئے۔ ان میں اس سورہ کے نزول کے وقت سے لے کر قیامت تک کے اہلِ ایمان شامل ہیں۔ ان کا ذکر یہاں جس طور سے ہوا ہے اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اموالِ فے کا فائدہ ان کو بھی پہنچنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں جب عراق اور شام فتح کئے تو ان کی زمینوں کو فاتحین میں تقسیم نہیں کیا بلکہ اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے ان کو تمام مسلمانوں کے لیے فے قرار دیا تاکہ آنے والی نسلیں بھی اس سے مستفید ہوں۔ اس مقصد کے پیشِ نظر آپ نے وہ زمینیں ان باشندوں کے قبضے میں رہنے دیں۔ اور ان پر خراج عائد کیا۔ خراج کی اس آمدنی کا بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس سے سرحدوں کی حفاظت کے انتظام میں سہولت ہو گئی اور جہاد کے لیے مالیات فراہم ہو گئیں۔ (تفصیلات کے لیے دیکھئے کتاب الخراج۔ ابو یوسف۔ باب ۳)
۲۵۔۔۔۔۔۔۔ یہ ترغیب ہے اس بات کی کہ بعد کے آنے والوں کو اپنے ان اسلاف کے بارے میں دعاگو ہونا چاہیے کیونکہ یہ ان ہی کی بیش بہا قربانیاں تھیں جو بتوفیقِ الٰہی اسلام کی سربلندی کا باعث ہوئیں اور یہ ان ہی کی جدوجہد تھی جس کے نتیجہ میں دین کی اشاعت کا دائرہ نہایت وسیع ہوا اور آئندہ نسلوں تک پہنچا۔
یہ تعلیم ہے اس بات کی کہ مسلمانوں کو صحابہ کرام کا قدر داں ہونا چاہیے اور ان کے بارے میں کوئی کینہ دل میں نہیں رکھنا چاہیے اگرچہ ان کی کوئی لغزش علم میں آئی ہو۔ اس میں رہنمائی ہے صحابہ کے مشاجرات(اختلافات و نزاعات) کے بارے میں جو بعد کے دور میں پیدا ہوئے کہ ان کو بُرا بھلا کہنے سے احتراز کرنا چاہیے مگر مسلمانوں کا ایک فرقہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کا عقیدہ رکھتا ہے خلفائے راشدین کو خلافت کا غاصب قرار دے کر صحابہ کرام کو بُرا بھلا کہتا ہے اور بُرے کلمات سے انہیں یاد کرتا ہے یعنی قرآن نے جن کے حق میں دعا کرنے کے لیے کہا تھا اس فرقے کے لوگ ان کو لعنت ملامت کرتے ہیں۔ تعصب نے انہیں ایسا اندھا کر دیا ہے کہ قرآن کی واضح آیتوں سے بھی انہیں روشنی نہیں ملتی!
۲۶۔۔۔۔۔۔۔ مدینہ کے منافقین جن کے یہود سے دوستانہ تعلقات چلے آ رہے تھے در پردہ ان کی پشت پناہی کررہے تھے اس لیے اس موقع پر ان کا حال بیان کر کے مسلمانوں کو اس باخبر کیا گیا اور انہیں اطمینان دلایا گیا کہ یہ بزدل لوگ ہیں تم سے لڑنے کی کبھی جرأت نہیں کریں گے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔ مراد مدینہ کے اطراف کے یہود ہیں بنی نضیر ، بنی قریظہ وغیرہ۔ ان کو منافقین کے بھائی اس لیے کہا گیا کہ یہود اور منافقین دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔ بنی نضیر کی تو انہوں نے کوئی مدد نہیں کی، رہے بنی قریضہ تو قرآن نے پیشین گوئی کی کہ یہ ان کی مدد کے لیے بھی نہیں آئیں گے چنانچہ بعد میں جب بنی قریظہ سے مسلمانوں کو سابقہ پیش آیا تو یہ پیشین گوئی بھی سچی ثابت ہوئی۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔ یہ مدینہ کے یہود کا حال بیان ہوا ہے کہ وہ اللہ سے زیادہ مسلمانوں سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کو بھلا بیٹھے ہیں اور مسلمان چونکہ سرفروشی کے لیے آمادہ رہتے ہیں اس لیے ان کے مقابلہ میں آنے سے ڈرتے ہیں۔ حالانکہ اصل خوف اللہ ہی کاہونا چاہیے جس کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے لیکن نا سمجھ لوگ اتنی بڑی حقیقت کو سمجھ نہیں پاتے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ یہ یہود قبائل مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے کبھی سامنے نہیں آئے۔ میدان میں آکر لڑنے کی انہیں کبھی ہمت نہیں ہوئی۔ بنی نضیر قلعہ میں محصور ہو کر رہ گئے اور بعد میں جب بنی قریظہ اور خیبر کے یہود پر مسلمان حملہ آور ہوئے تو انہوں نے بھی میدان میں نکل کر جنگ نہیں کی بلکہ اپنے قلعوں ہی میں بند ہو کر مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوشش کی جس میں وہ بری طرح ناکام رہے اور قرآن کے بیان کی صداقت بالکل نمایاں ہو گئی۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بظاہر یہود متحد نظر آتے ہیں مگر آپس کی مخاصمت کی وجہ سے ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جب کتابِ الٰہی کو پس پشت ڈال دیا اور عقائد و اعمال میں نئی نئی باتیں ( بدعات) نکالیں تو وہ فرقہ بندی کا شکار ہو گئے اور اس فرقہ بندی کے نتیجہ میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے جذبات ابھرے جس نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا اور ان کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عقل سے کام لینے اور سوجھ بوجھ کا ثبوت دینے کے بجائے انہوں نے اپنے کو جذبات اور خواہشات کا تابع بنالیا اور جب کوئی گروہ دین کے معاملہ میں سوجھ بوجھ کا ثبوت نہیں دیتا تو خواہشات کا پیرو بن کر اس کا حلیہ ہی بگا ڑدیتا ہے۔ پھر اختلافات اس شدت سے ابھرتے ہیں کہ ملت کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہود کا حشر بھی وہی ہوگا جو مشرکین مکہ کا ہوا۔ اشارہ جنگِ بدر کی طرف ہے جس میں مشرکین کے کتنے ہی لیڈر قتل کر دۓ گئے اور ان کو بری طرح شکست ہوئی۔ اور یہ واقعہ ۲ھ میں پیش آیا تھا جو یہود کے لیے قریب میں وقوع ہونے والا واقعہ تھا۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت کا دردناک عذاب۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔ مراد منافقین ہیں جو یہود کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے پر اکسارہے تھے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی شیطان انسان کو کفر پر اکساتا ہے لیکن اس کے کفر کرنے کے بعد اس کی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا چنانچہ قیامت کے دن شیطان اپنے بری الذمہ ہونے کا اظہار کرے گا اور کہے گا کہ میں نے کفر پر مجبور نہیں کیا تھا۔
رہا شیطان کایہ کہنا کہ مجھے اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے تو یہ بات وہ اس عذاب کی زد سے بچنے کے لیے کہتا ہے جس کی لپیٹ میں کفر کرنے والا آتا ہے۔ وہ اگر واقعی اللہ سے ڈرتا تو شیطان کیوں بنتا۔ یہ بھی واضح رہے کہ شیطان کی یہ باتیں اشاروں میں یعنی وسوسہ اندازی کی شکل میں ہوتی ہیں۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انفال نوٹ ۷۳۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی شیطان بھی جہنم رسید ہوگا اور اس کے اشاروں پر کفر کرنے والا انسان بھی۔ اسی طرح یہ منافقین بھی جہنم میں جائیں گے اور ان کے اشاروں پر کفر کرنے والے یہود بھی۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔ اوپر منافقین کے رویہ پر گرفت کی گئی تھی اب خطاب کا رخ اہل ایمان کی طرف ہو رہا ہے۔ انہیں تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید کی جا رہی ہے اور ساتھ ہی تقویٰ کی پرورش کا سامان بھی کیا جا رہا ہے یہ نسخہ شفاء (منافقت) کی بیماری کو بھی دور کرنے والا ہے اور اہل ایمان کے کردار کو بھی مضبوط بنانے والا ہے۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن کو کل سے تعبیر فرمایا ہے۔ گویا دنیا کی زندگی بس آج ہے اور قیامت کل ہی نمودار ہونے والی ہے۔ جو لوگ قیامت کد ور خیال کر کے اس سے غفلت برتتے ہیں وہ سخت دھوکہ میں ہیں۔ جب قیامت کا ظہور ہوگا تو ہر شخص محسوس کرے گا کہ وہ بہت قریب تھی اور بہت جلد رونما ہو گئی۔
قیامت کے برپا ہوتے ہی حساب و کتاب کا معاملہ پیش آنے والا ہے اس لیے ہر شخص کو آج ہی اپنا احتساب کر لینا چاہیے کہ اس نے آخرت کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ اسے اپنے مستقبل کی زندگی ( اُخروی زندگی) کو کامیاب بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اگر اس نے آخرت کی فکر نہیں کی اور دنیا کے مشاغل ہی میں منہمک ہو کر رہ گیا تو اس کا مستقبل نہایت تاریک ہوگا اور اس وقت اسے احساس ہوگا کہ وہ دنیاسے گناہوں کے پارسل ہی اپنے لیے بھیجتا رہا۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔ ایک ہی آیت میں تقویٰ(خدا خوفی) اختیار کرنے کی دو مرتبہ تاکید کی گئی ہے تاکہ تقویٰ پر جو مشکل سے پیدا ہوتا ہے نگاہیں جم جائیں۔
تقویٰ کے معنی اللہ سے ڈرنے اور اس کی نافرمانی سے بچنے کے ہیں۔ اس میں اللہ کی عظمت کا تصور بھی ہے اور وہ احساس بھی جو گناہوں سے باز رکھتا اور فرائض کی پابندی پر آمادہ کرتا ہے۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔ تقویٰ کی پرورش اس احساس سے ہوتی ہے کہ اللہ ہمارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کو بھول جانے کا مطلب اس سے غافل ہو جانا، اس کے احکام کی پروانہ کرنا اور اس کے حضور پیشی سے بے فکر ہو جانا ہے۔ خدا فراموش کا لازمی نتیجہ خود فراموشی ہے۔ اور خود فراموشی یہ ہے کہ آدمی اپنی اس حیثیت کو بھول جائے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے وہ اپنی من مانی کرنے کے لیے آزاد نہیں ہے ، اپنے مقصدِ وجود کو نظر انداز کر دے اور اپنے بُرے انجام کی طرف سے غافل ہو جائے۔
یہود کا یہی حال تھا جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کر کے اہل ایمان کو تنبیہ کیاگیا ہے کہ وہ ان کی طرح نہ بن جائیں۔ اس تنبیہ اور تاکید کے باوجود آج مسلمانوں کی بڑی تعداد یہود ہی کے نقشِ قدم پر ہے۔ وہ مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں لیکن وہ اللہ کو ایسا بھلا بیٹھے ہیں کہ ان کی زندگیاں خدا خوفی سے خالی ہو گئی ہیں یہاں تک کہ وہ نماز کے بھی تارک ہو گئے ہیں۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔ قرآن ایمان کے ایسے دعویداروں کو جو اللہ کو بھول بیٹھے ہوں فاسق قرار دیتا ہے اور فاسقوں کا انجام معلوم ہے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ جنت اور جہنم کو خاطر میں لائے بغیر زندگی گزارتے ہیں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کی زندگیاں بڑی کامیاب ہیں اور مذہب کے تنگ دائرے سے نکلنے کے بعد ان پر ترقی کی راہیں کشادہ ہو گئی ہیں حالانکہ وہ اس امتحانی زندگی میں ناکام(فیل) ہونے والے لوگ ہیں جن پر حقیقی ترقی کی ساری راہیں مسدود ہو جاتی ہیں اور جن کا انجام جہنم میں سزا بھگتنے کے لیے پڑے رہنا ہے بخلاف اس کے جو لوگ جنت کو منزلِ مقصود قرار دے کر اپنے کو اس کا اہل بناتے ہیں وہ اس امتحانی زندگی سے کامیاب ہو کر نکلتے ہیں اور آخرت میں وہ جنت میں داخل ہو کر با مراد اور فائز المرام ہونے والے لوگ ہیں۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔ یہ قرآن کی تاثیر کی مثال بیان ہوئی ہے کہ وہ کلامِ الٰہی ہونے کی وجہ سے ایسا موثر ہے کہ اگر کسی پہاڑ کو شعور عطا کر کے اس پر نازل کیا جاتا تو خشیتِ الٰہی سے وہ دب جاتا اور پھٹ پڑتا لیکن انسان کی سنگدلی کا حال یہ ہے کہ اس کلام کو سن کر اس کا دل نہیں پسیجتا۔ گویا منکرین قرآن کے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ یہود کے دل بھی پتھر سے زیادہ سخت ہو گئے تھے جس کا ذکر سورۂ بقرہ میں ہوا ہے :
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْاَشَدُّ قَسْوَۃً۔ "پھر تمہارے دل سخت ہو گئے پتھروں کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت۔ "(بقرہ:۷۴)
اور پتھروں کا اللہ کے خوف سے گرنا بھی ایک حقیقت ہے :
وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یہْبِطُ مِنْ خَشْیۃِ اللّٰہِ "اور بعض پتھر ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔ "(بقرہ:۷۴)
اس موقع پر سورۂ حدید آیت اور اس کی تشریح بھی پیش نظر رہے۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔ یہ سورہ کے خاتمہ کی آیتیں ہیں جن میں اللہ کے اسمائے حسنیٰ ( بہترین نام) جامع طور پر اور حسنِ ترتیب کے ساتھ بیان ہوئے ہیں جس سے اللہ کی عظمت کا تصور پیدا ہو جاتا ہے اور دل میں تقویٰ نشو نما پانے لگتا ہے۔ ان آیتوں کی اثر انگیزی ایسی زبردست ہے کہ ان کی تلاوت ہی سے اللہ کی ہیبت طاری ہو جاتی ہے اور یہ قرآن کے معجزانہ کلام ہونے کا ثبوت ہے۔
لفظ اللہ کی تشریح سورۂ فاتحہ نوٹ ۳ میں گزر چکی۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عبادت اللہ کے لیے خاص ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں جو عبادت کا مستحق ہو اور اس لائق ہو کہ اس کے ٓٓگے عبادت کے مراسم ادا کئے جائیں۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو چیزیں انسان اور دوسری مخلوق سے پوشیدہ ہیں ان کو بھی وہ جانتا ہے اور جو ان پر ظاہر ہیں ان کو بھی۔ اس کو ماضی حال اور مستقبل سب کا علم ہے اور اس کا علم زماں اور مکاں سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔ رحمن و رحیم کے الفاظ کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ فاتحہ نوٹ ۵۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔ الٰہ کے اصل معنی معبود کے ہیں اور معبود حقیقۃً وہی ہو سکتا ہے جو قدرت اور جو قدرت اور اقتدار رکھتا ہو چنانچہ قرآن میں یہ لفظ صاحبِ اقتدار یعنی خدا کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں ہے :
قُلْ لَوْکَانَ مَعَہ" اٰلِہَۃٌ کَمَا یقُوْلُونَ اِذَالاَّ بْتَغَوْاِلٰی ذِی الْعَرْشِ سَبیلاً۔ "کہو اگر اس کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو وہ صاحبِ عرش کی طرف راہ ضرور نکال لیتے۔ "(بنی اسرائیل: ۴۲)
ظاہر ہے صاحبِ عرش کی طرف راہ نکالنے کا تعلق اقتدار سے ہے اس لیے الٰہ کے معنی میں یہاں اقتدار کا پہلو ابھرا ہوا ہے اس لیے یہاں ترجمہ میں معبود کے بجائے خدا کا لفظ زیادہ موزوں ہے کیونکہ لفظ خدا سے قدرت اور اقتدار والا ہونے کا تصور قائم ہوتا ہے۔
بعض علماء لفظ خدا کو اللہ کے لیے استعمال کرنے پر اعتراض کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اس فارسی لفظ کے اصل معنی کچھ اور ہی ہیں لیکن یہ اعتراض کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ یہ لفظ عرصہ دراز سے اچھے معنی میں استعمال ہورہا ہے اور علماء اور عوام سب کی زبان پر ہے اور قرآن کے اردو ترجموں میں بھی یہ لفظ بہ کثرت استعمال ہوا ہے اورعلامہ فخر الدین رازی نے اپنی کتاب "لوامع البینات " میں جو اسمائے الٰہی پر عربی میں ایک ممتاز اور محققانہ کتاب ہے اللہ کے لیے لفظ خدا کے استعمال کو جائز کہا ہے۔ ( دیکھئے لوامع البینات۔ ص ۲۱)
۵۲۔۔۔۔۔۔۔ اَلْمَلِک یعنی بادشاہ" سلطان۔ اللہ انسان کا اور پوری کائنات کا حقیقی بادشاہ ہے اس کا اقتدار سب پر چھایا ہوا ہے اور وہی شارع( شریعت دینے والا) اور حاکم(Sovereign) ہے۔ انسان کا بادشاہ اور حاکم ہونا مجاز ی معنی میں ہے اور مشروط اور محدود ہے جو لوگ اپنی بادشاہت یا حاکمیت (Sovereignty) کو اللہ کی بادشاہت و حاکمیت کے ماتحت ہونے کا تصور نہیں رکھتے اور اس کی شریعت سے آزاد ہو کر قانون سازی کرتے ہیں وہ اللہ کے باغی اور سرکش ہیں اور ان کی حاکمیت کے دعوے بالکل باطل ہیں۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔ القُدُّوس یعنی ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک نیز اس میں بابرکت ہونے کا مفہوم بھی شامل ہے چنانچہ لسان العرب میں اس کے معنی مبارک کے بھی بیان ہوئے ہیں۔ مَلِکُ کے ساتھ قدوسیت کی صفت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ ایسا فرمانروا ہے جو خطا سے پاک ہے اور اس کا کوئی فرمان غلط نہیں ہو سکتا۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔ السلام یعنی سراسر سلامتی۔ وہ ایسا صاحبِ سلامت ہے کہ اس پر کبھی کوئی آفت آنہیں سکتی۔ وہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ وہی ہے جو اپنے بندوں کو سلامتی بخشتا ہے۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔ المُؤمن یہاں امن دینے والے کے معنی میں ہے۔ وہی ہے جو خوف کو دور کرنے اور امن بخشنے والا ہے۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔ اَلْمُہَیمِنُ یعنی نگہداشت کرنے والا۔ وہی ہے جو اپنے مخلوق کی نگہداشت اور حفاظت کرتا ہے۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔ العزیز کے سب سے زیادہ ابھرے ہوئے معنی تو غالب کے ہیں " دوسرے معنی بے مثال کے ہیں۔ تیسرے معنی شدید اور قوی کے ہیں اور چوتھے معنی عزت دینے والے کے ہیں۔ ( دیکھئے لوامع البینات۔ امام رازی ص۱۴۷ نیز لسان العرب ج ۵ ص ۳۷۵)
اللہ کے غالب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام کائنات پر اس کا غلبہ ایسا ہے کہ کوئی چیز بھی اس کے قابو سے باہر نہیں۔ تمام جانداروں کی تکمیل اسی کے ہاتھ میں ہے اور جس کسی کو بھی اس نے کسی قسم کا اختیار بخشا ہے اسے وہ جب چا ہے چھین سکتا ہے۔ اس سے بغاوت اور سرکش کر کے کوئی شخص بھی اس کی گرفت سے اپنے کو بچا نہیں سکتا۔
۵۸۔۔۔۔۔۔۔ اَلْجَبَّار یعنی زبردست، اپنے احکام مخلوق پر بزور نافذ کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ کی قوتِ قاہرہ کے آگے مخلوق بے بس ہے۔ کسی کی مال نہیں کہ اس کی مشیت کے خلاف کچھ کر سکے۔ مثال کے طور پر انسان ناک سے سانس لینے کے لیے مجبور ہے۔ آنکھ سے سانس لینے کا کام نہیں کر سکتا اور نہ کان سے دیکھنے کا کام کر سکتا ہے۔ انسان کی یہ بے بسی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس پر ایک زبردست ہستی فرمانروا ہے جس نے اپنے احکام بزور اس پر نافذ کر رکھے ہیں۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ اپنی بے بسی کو محسوس کرتے ہوئے اس کے آگے سرنگوں ہو جائے اور عجز و نیاز کا طریقہ اختیار کرے۔
۵۹۔۔۔۔۔۔۔ اَلْمُتَکَبِّرْ یعنی کبریائی اور عظمت والا۔ اس کے لیے بڑائی ہی بڑائی ہے اور مخلوق میں سے کوئی نہیں جس کو بڑائی کا حق پہنچتا ہو اور بڑائی کرنا اس کو زیب دیتا ہو کیونکہ اپنی ذات میں کوئی بھی بڑا نہیں ہے۔ اسی لیے کسی کا تکبر کرنا مذموم ( بُرا) ہے اور اللہ ہی ہے جس کے لیے حقیقۃً کبریائی ہے۔
۶۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی ذات اور اس کی ان صفات میں کوئی بھی شریک نہیں۔ اس لیے وہی خدائے واحد اور معبودِ حقیقی ہے۔
۶۱۔۔۔۔۔۔۔ الخالق یعنی عدم سے وجود میں لانے والا۔ مادّہ پہلے موجود نہیں تھا اللہ ہی نے اسے وجود میں لایا اور تمام کائنات اسی نے پیدا کی۔ اس کے خالق ہونے کی صفت مشرکینِ ہند کے اس تصور کی تردید کرتی ہے کہ مادّہ ازلی ہے یعنی ہمیشہ سے ہے اس کو کسی نے پیدا نہیں کیا۔ قرآن اس عقیدہ کو باطل قرار دیتا ہے۔
۶۲۔۔۔۔۔۔۔ الباری کے معنی بھی پیدا کرنے والے کے ہیں لیکن اس میں ایجاد کا پہلو نمایاں ہے یعنی کسی سابقہ مثال کے بغیر پیدا کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ کی خلاقیت کا کمال یہ ہے کہ اس نے کائنات کی تمام چیزیں اس طرح پیدا کیں کہ کسی چیز کا بھی کوئی نمونہ پہلے سے موجود نہیں تھا۔ ہر چیز اس کی ایجاد اور اختراع ہے۔
بَرَأَ جس کا اسم فاعل باری ہے عربی اور عبرانی دونوں زبانوں میں اس کے معنی پیدا کرنے کے ہیں۔ عبرانی زبان میں جو تورات موجود ہے اس کی پہلی ہی آیت میں بَرَأَ کا لفظ آیا ہے۔
"سب سے پہلے خدا نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ "( پیدائش:۱)
۶۳۔۔۔۔۔۔۔ المُصَوِّر یعنی صورت گری کرنے والا۔ وہی ہے جو اپنے مخلوق کی صورت گری کرتا ہے اور اس نے انسان کو ایک خاص صورت بخشی ہے۔
ہُوَالَّذِیْ یصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیفَی شَیءُ "وہی ہے جو رحموں کے اندر جس طرح چاہتا ہے صورت گری کرتا ہے۔ "( آل عمران :۱۶)
وَلَقَدْخَلَقْنَاکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاکُمْ"ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری صورت گری کی۔ "(اعراف:۱۱ّ)
وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ "اور تمہاری صورت گری کی تو اچھی صورتیں بنائیں۔ "(المومن:۶۴)
اور اس کی صورت گری کا کمال یہ ہے کہ اربوں انسانوں کی صورتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ وہ روزانہ پیدا ہونے والے کثیر التّعداد بچوں کو نئی نئی شکلیں ( Design) دیتا رہتا ہے اس کے پاس ڈیزائن(Shapes) کی کوئی کمی نہیں۔ وہ ایک ڈیزائن کو اسی طرح دہراتا نہیں بلکہ اس میں فرق کرتا ہے تاکہ افراد ایک دوسرے کو شناخت کر سکیں اور اس کی کمال تخلیق کی نشانی قرار پائے۔
۶۴۔۔۔۔۔۔۔ اَلْاَسْمَاء الْحُسْنیٰ یعنی حسن و خوبی کے نام۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۲۷۸، ۲۷۹ اور ۲۸۰۔
اسمائے حسنیٰ کی تفصیل ترمذی کی ایک حدیث میں بیان ہوئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام گنائے گئے ہیں اور عوام میں یہ حدیث مشہور ہے۔ ( دیکھئے ترمذی ابوابالدعوات) لیکن یہ حدیث گوناگوں وجوہ سے پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔
اولاً ترمذی نے اس حدیث کو روایت کر کے کہا ہے : ہَذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ: یعنی یہ غریب حدیث ہے اور غریب حدیث ضعیف ہی کی ایک قسم ہے :
ثانیاً اس کے ایک راوی ولید بن مسلم ہیں جن کے بارے میں میزان الاعتدال میں متضاد رائیں منقول ہیں۔ بعض محدثین کا کہنا ہے کہ وہ تدلیس کر کے جھوٹے راویوں سے روایت کرتے ہیں۔ انہو ں نے امام مالک سے دس حدیثیں ایسی بیان کی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ( میزان الاعتدال۔ امام ذہبی۔ ج ۴ص۳۴۷)
ثالثاً ننانوے ناموں کی جو تفصیل ترمذی کی اس حدیث میں بیان ہوئی ہے اس میں رب ، مولی اور نصیر جیسے ناموں کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ناموں کے بیان میں ترتیب کا حسن پایا جاتا ہے مثلاً الحی( اللہ کی صفت کہ وہ زندہ ہے ) سے پہلے المحی( وہ زندہ کرنے والا ہے) کا ذکر ہوا ہے۔
مزید یہ کہ ابن ماجہ وغیرہ کی حدیث میں ناموں کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے اس میں اور ترمذی کی اس حدیث میں ناموں کا فرق ہے۔ غرضیکہ جن حدیثوں میں بھی ناموں کی تفصیل بیان ہوئی ہے وہ ضعیف ہیں اور چونکہ اکثر روایتیں جن کے راوی ابوہریرہ ہیں ناموں کی تفصیل سے خالی ہیں اور ان میں صرف اس قدر بیان ہوا ہے کہ اللہ کے ننانوے نام ہیں اس لیے محدثین کے ایک گروہ نے ناموں کی اس تفصیل کو مُدْرج مانا ہے یعنی اصل حدیث بیان کر کے راوی نے اپنی طرف سے اس کی تشریح کے طور پر یہ نام بیان کئے ہیں۔ یہ تفصیل نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمودہ نہیں ہے۔ ( اس بحث کے لیے دیکھئے فتح الباری ج ۱۱ ص ۱۷۸ تا ۱۹۰، اور تفسیر ابن کثیر ج ۲ص ۲۶۹)
۶۵۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورہ حدید نوٹ ۱ میں گزر چکی۔
الحکیم یعنی حکمت والا۔ حکمت کی بنیاد علم پر ہوتی ہے اور اللہ کے حکیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے فیصلے دانائی کے ہوتے ہیں۔ اس کی تدبیریں محکم ہوتی ہیں اور اس نے اپنی حسن تدبیر سے ہر چیز کو مطابق مصالحت موزوں جگہ پر رکھا ہے۔
۶۶۔۔۔۔۔۔۔ سورہ کے آغاز میں بھی اللہ کے غالب اور حکیم ہونے کی صفتوں کا ذکر ہوا تھا اور سورہ کا خاتمہ بھی ان ہی پر ہوا ہے۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اس سورہ میں جو مضامین بیان ہوئے ہیں وہ ان دو جامع صفتوں پر توجہ مرکوز کراتے ہیں۔ اللہ غالب ہے اس لیے اس کے فیصلے نافذ ہو کر رہتے ہیں اور وہ حکیم ہے اس لیے اس کے فیصلے حکمت سے خالی نہیں ہوتے لہٰذا انسان کو اللہ سے ہر حال میں حسن ظن رکھنا چاہیے خواہ اس کو کیسے ہی کٹھن حالات سے دو چار ہونا پڑے۔